Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

انجانا خُدا

(چینی وسطِ خزاں کے میلے پر دیا گیا ایک واعظ)
THE UNKNOWN GOD
(A SERMON GIVEN AT THE CHINESE MID-AUTUMN FESTIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
29 ستمبر، 2012، ہفتے کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, September 29, 2012

آئیے اکٹھے کھڑے ہو جائیں۔ اب آج رات میں چاہتا ہوں کہ آپ اعمال کی کتاب کا 17 باب کھولیں، بائیسویں آیت کے ساتھ شروع کریں۔ یہ سکوفلیڈ مطالعہ بائبل کے صفحہ 1173 پر ہے۔

’’ لہذا پُولُس اریوپگس کے بیچ میں کھڑا ہو گیا اور کہنے گا: اَے اتھینے والو! میں دیکھتا ہُوں کہ تُم ہر بات میں دیوتاؤں کو بڑا اُونچا درجہ دیتے ہو۔ کیونکہ جب میں تمہارے شہر میں گھوم پھر رہا تھا تو میری نظر تمہارے بتُوں اور قربان گاہوں پر بھی پڑی۔ میں نے دیکھا کہ ایک قربان گاہ پر یہ لکھا ہُوا ہے: ’’ایک نا معلوم خدا کے لیے‘‘ ۔ پس تُم جسے بغیر جانتے پُوجتے ہو میں تمہیں اُسی کی خبر دیتا ہُوں۔ جس خدا نے دنیا اور اُس کی ساری چیزوں کو پیدا کیا ہے وہ آسمان اور زمین کا مالک ہے۔ وہ ہاتھ کے بنائے ہُوئے مندروں میں نہیں رہتا؛ وہ اِنسان کے ہاتھوں سے خدمت نہیں لیتا کیونکہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں۔ وہ تو سارے اِنسانوں کو زندگی، سانس اور سب کچھ دیتا ہے؛ اُس نے آدم کو بنایا اور اُس ایک سے لوگوں کی ہر قوم کو پیداکیا تاکہ تمام روئے زمین آباد ہو۔ اُس نے اُن کی زندگی کے ایّام مُقرّر کیے اور سکونت کے لیے حدّوں کا تعیّن کیا؛ تاکہ وہ خدا کو ڈھونڈیں اور شاید ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُس پالیں، حالانکہ وہ ہم میں سے کسی سے بھی دُور نہیں: کیونکہ ہم اُسی میں جیتے، حرکت کرتے اور موجود ہیں؛ جیسا کہ تمہارے بعض شاعروں نے بھی کہا ہے کہ ہم تو اُس کی نسل بھی ہیں۔ اگر ہم خدا کی نسل ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ذاتِ اِلہٰی سونے، چاندی یا پتھّر کی مورت ہے جو کسی اِنسان کی ماہرانہ کاریگری کا نمونہ ہو۔ خدا نے ماضی کی ایسی جہالت کو نظر انداز کر دیا اور اب وہ سارے اِنسانوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں: کیونکہ اُس نے ایک دِن مُقرّر کر دیا ہے جب وہ راستی کے ساتھ ساری دنیا کا اِنصاف ایک ایسے آدمی کے ساتھ کرے گا جسے اُس نے مامور کیا ہے؛ اور اُسے مُردوں میں سے زندہ کر کے یہ بات سارے اِنسانوں پر ثابت کر دی ہے۔ جب اُنہوں نے مُردوں کی قیامت کے بارے میں سُنا تو اُن میں سے بعض نے اِس بات کو ہنسی میں اُڑا دیا: اور بعض نے کہا، کہ ہم اِس مضمون پر تجھ سے پھر کبھی سُنیں گے۔ یہ حال دیکھ کر پولوس ان کی مجلس سے نکل کر چلا گیا۔ مگر کچھ لوگ پولوس سے آملے اور ایمان لائے: اُن میں ایک دِیونسُی یُس اریوپکُس کی مجلس کا رُکن تھا۔ ایک عورت تھی جس کا نام دمِرس تھا اور اُن کے علاوہ اور بھی تھے‘‘ (اعمال 17:22۔34)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

پولوس رسول یونان کے شہر ایتھنز کے لیے گیا تھا۔ ایتھنز قدیم دُنیا کا حکمت و دانائی کا مرکز تھا۔ یہ ارسطو، افلاطون اور سُقراط کا شہر تھا۔ پولوس ایتھنز میں گھوم پِھر رہا تھا۔ وہ اریوپگس میں آیا۔ میری بیوی اور ہمارے لڑکے وہاں دو سال پہلے اسرائیل کے ایک سفر سے آتے ہوئے گئے تھے۔ اریوپگس سینکڑون بتوں سے بھرا پڑا تھا۔ اُن دِنوں کے فلسفی وہاں اکٹھے ہوتے تھے۔ اُن تمام بتوں کے درمیان میں، پولوس نے ایک الطار پایا جس پر ’’نامعلوم خُدا کے لیے‘‘ کُنندہ تھا۔ اُن کے بے شمار بُت اور بے شمار خُدا تھے، لیکن کسی نہ کسی طرح وہ اپنے دِلوں میں جانتے تھے کہ کوئی ایک خُدا ہے جسے وہ نہیں جانتے تھے۔ ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا اور پولوس نے منادی شروع کر دی۔ اُس نے کہا، ’’ میں نے دیکھا کہ ایک قربان گاہ پر یہ لکھا ہُوا ہے، ایک نا معلوم خدا کے لیے ۔ پس تُم جسے بغیر جانتے پُوجتے ہو میں تمہیں اُسی کی خبر دیتا ہُوں‘‘ (اعمال 17:23)۔

آج رات ہم یہاں ضیافت کے لیے آئے ہیں جو خزان کے وسط میں چینی میلےChinese Mid-Autumn Festival کی تقریب منا رہے ہیں۔ کچھ امریکی اِسے مُون کیک کا میلا Moon Cake Festival کہتے ہیں۔ خزاں کے وسط کا میلہ چینی کیلینڈر میں ایک اہم دِن ہے۔ ایک چُھٹی کا ایک دِن ہے جو کس حد تک ساری ایشیائی دُنیا میں – کوریا میں، جاپان میں (جب تک کہ اُن کا کیلنڈر 1883 میں تبدیل نہیں ہوا تھا)، اِنڈونیشیا میں، فلپائن میں، لاؤس میں، تھائی لینڈ میں، کمبوڈیا میں، ویت نام میں، مائین مار میں، تائی وان میں، سنگاپور میں، اور ایشیا کے دوسرے کئی حصوں میں منایا جاتا رہا ہے۔ یہ شمشی کیلنڈر میں خزان کے مہینے میں جب دِن اور رات کا دورانیہ برابر ہوتا ہے تب وقوع پزیر ہوتا ہے، جب چاند پورا چودھویں کا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر جیمس لیگی (1815۔1897) Dr. James Legge، آکسفورڈ یونیورسٹی میں ادب اور چینی زباندانی کے ایک پروفیسر تھے۔ ڈاکٹر لیگی کے مطابق، قدیم چینی چاند کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اصل میں چینی ایک خُدا کی پوچا کرتے تھے، جسے وہ شینگ ٹی (آسمان کا بادشاہ) کہتے تھے۔ ڈاکٹرلیگی نے شُن شہنشاہ Emperor Shun جس کا دورِحکومت 2207 قبل از مسیح ختم ہو گیا تھا کی ’’بنیادی قوائد و ضوبط کی کتاب Canon‘‘ میں سے حوالہ دیا۔ ’’شُن کی قانونی کتاب‘‘ نے کہا، ’’ ’وہ شینگ ٹی کے لیے خصوصی قربانی دیتا تھا، لیکن عام طریقوں کےساتھ‘، یعنی کہ ... خُدا کے لیے‘‘ (جیمس لیگی، پی ایچ۔ ڈی۔، چین کے مذاہب The Religions of China، ہوڈر اینڈ سٹُوگٹن Hodder and Stoughton، 1880، صفحات 24۔25)۔ قدیم زمانے میں چینی اور دوسرے ایشیائی لوگ صرف ایک خُدا شینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ کی پوجا کرتے تھے۔ یہ کنفوشیئس (551۔479قبل از مسیح) Confucius اور بُدھا (563۔483قبل از مسیح) Buddha کے پیدا ہونے سے 1,500 سال سے بھی کہیں پہلے کی بات ہے۔ بُدھ مت کے چین میں آنے سے صدیوں پہلے، لوگ ایک ہی خُدا کی پرستش کرتے تھے۔ صرف ایک خُدا میں یقین رکھتےتھے۔ گزرتی صدیوں کے ساتھ مذید روحوں کا اضافہ ہوتا رہا اور پرستش کی جاتی رہی تھی۔ لیکن اُس وقت بھی قدیم چینی تہذیب کا اعلٰی ترین درجے کا خُدا شینگ ٹی ہی رہا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ ایشیائی لوگ شینگ ٹی، آسمان کے خُدا کو بھول گئے۔ اُنہوں نے دوسرے خُداؤں اور حتٰی کہ اپنے اباؤاجداد کی روحوں کی پرستش شروع کردی۔ اُنہوں نے بدھ مت اور دوسرے مذاہب کی طرف اپنا منہ موڑ لیا۔

ریاست ہائے متحدہ آج بالکل ویسے ہی خُدا کی طرف سے منہ موڑنے کے دور سے گزر رہا ہے۔ اپنے پہلے صدارتی خطاب میں صدر اوباما نے کہا، ’’امریکہ مسیحی قوم نہیں ہے۔‘‘ یہ کبھی تھی، لیکن مسٹر اوباما نے کہا کہ اب یہ سچ نہیں ہے۔ اور اِس سال مسٹر اوباما نے دعا کے قومی دِن کو جو دہائیوں سے امریکہ میں منایا جاتا ہے نہیں منایا۔ بہت سے امریکی اب ہمارے آباؤ اجداد کے خُدا میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ قدیم چینی لوگ ایسے ہی مرحلے سے گزرے تھے۔ بہت سے جدید امریکیوں کی طرح، وہ آہستہ آہستہ شینگ ٹی،آسمان کے بادشاہ سے دور ہوتے چلے گئے۔ آج بہت سے امریکیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایشیائی بھی خُدا کو نہیں جانتے ہیں۔

بالکل ایسا ہی اُس وقت ایتھنز میں تھا۔ اُنہوں نے جیتے جاگتے خُدا سے منہ موڑ لیا تھا۔ کلام کہتا ہے،

’’اگرچہ وہ خدا کے بارے میں جانتے تھے لیکن اُنہوں نے اُس کی تمجید اور شکرگزاری نہ کی جس کے وہ لائق تھا۔ بلکہ اُن کے خیالات فضول ثابت ہوئے اور اُن کے ناسمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا‘‘ (رومیوں 1:21).

وہ اُس خُدا کو اب نہیں جانتے تھے جس کی وہ اصل میں پرستش کرتے تھے۔ اور پولوس نے اُن سے کہا، ’’ میں نے دیکھا کہ ایک قربان گاہ پر یہ لکھا ہُوا ہے، ایک نا معلوم خدا کے لیے ۔ پس تُم جسے بغیر جانتے پُوجتے ہو میں تمہیں اُسی کی خبر دیتا ہُوں‘‘ (اعمال 17:23)۔ اُن کے سینکڑوں بُت اور جھوٹے خُدا تھے۔ مگر وہ سچے خُدا کو نہیں جانتے تھے۔ وہ اُن کے لیے ’’ایک نامعلوم خُدا‘‘ بن گیا تھا۔

پھر پولوس نے اُنہیں بتایا کہ اُس نامعلوم خُدا نے دُنیا کو بنایا، اور اِس میں موجود ہر ایک چیز کو۔ اُس نے کہا کہ خُدا جسے وہ نہیں جانتے تھے ’’آسمان اور زمین کا خُداوند‘‘ ہے اور انسانوں کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا ہے۔ اُن نے اُنہیں بتایا کہ وہ نامعلوم خُدا شینگ ٹی، آسمان کا بادشاہ، ’’آسمان اور زمین کا خُداوند‘‘ تھا (اعمال 17:24)۔

ہم آپ کو ایک نئے مذہب پر یقین کرنے کے لیے نہیں کہہ رہے ہیں۔ مسیحیت میں کچھ نیا نہیں ہے۔ یہ دُنیا کا پرانا ترین مذہب ہے۔ مسیحیت دُنیا کے آغاز، باغِ عدن سے چلی آ رہی ہے۔ یہ بُدھ مت، ٹاؤازم، ہندوازم، اسلام اور دوسرے بہت سے مذاہب سے بھی کئی صدیوں پہلے یہاں موجود تھی۔ مسیح ہمیں آسمان کے بادشاہ، شینگ ٹی، آسمانی باپ خُدا کے ساتھ بحال کرنے کے لیے آیا تھا۔ پولوس رسول نے کہا،

’’ اُس وقت تمہارا مسیح سے کوئی تعلق نہ تھا۔ تُم اسرائیلی قوم میں شمار نہیں کیے جاسکتے تھے۔ اُن عہدناموں سے خارج تھے جن کا وعدہ خدا کی طرف سے کیا گیا تھا۔ تُم اِس دنیا میں خدا کے بغیر نااُمیدی کی حالت میں زندگی گزارتے تھے ۔ مگر تُم جو پہے دُور تھے اب مسیح یسوع میں ہو کر اُس کے خُون کے وسیلہ سے نزدیک ہو گئے ہو‘‘ (اِفسیوں 2:12۔13).

مسیح ہمیں ہمارے اباؤاجداد کے خُدا کے ساتھ بحال کرنے کے لیے آیا تھا۔ مسیح ہمارے توہمات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور بُتوں سے پیچھا چُھڑوانے کے لیے آیا تھا۔ مسیح ہمیں ’’ؓنامعلوم خُدا‘‘ کی پہچان کروانے کے لیے آیا تھا!

اور پھر پولوس رسول نے اُنہیں بتایا کہ خُدا نے ’’ آدم کو بنایا اور اُس ایک سے لوگوں کی ہر قوم کو پیداکیا تاکہ تمام روئے زمین آباد ہو ‘‘ (اعمال 17:26)۔ یہاں نسلی کھچاؤ۔ اور نسلی جنگیں آج رات تمام دُنیا میں جاری ہیں۔چین اور جاپان کے درمیان کھینچاؤ ہے۔ ایرانیوں اور اسرائیل کے یہودیوں کے درمیان نسلی کھینچاؤ ہے۔ پھر بھی، مسئلہ درحقیقت نسلی نہیں ہے۔ مسئلہ روحانی ہے۔ نسلی تعصب گناہ کا نتیجہ ہے۔

پولوس نے کہا کہ خُدا نے تمام اقوام کو ’’ایک خون‘‘ آدم سے پیدا کیا۔ اُسے یہ کیسے معلوم تھا؟ وہ یہ بات خُدا کے بائبل میں انکشاف سے جانتا تھا! لوگ جدید دور تک نہیں جان پائے تھے کہ خُدا نے دو ہزار سال پہلے پولوس پر کیا انکشاف کیا تھا! آپ ایک افریقی سے خون لے کر ایک سفید فام کو خون، انتقال خون کے ذریعے دے سکتے ہیں۔ آپ ایک چینی کا خون لے سکتے ہیں اور ایک اصلی آسٹریلیائی باشندے کو دے سکتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں ممکن ہے؟ کیونکہ خُدا نے ’’ آدم کو بنایا اور اُس ایک سے لوگوں کی ہر قوم کو پیداکیا تاکہ تمام روئے زمین آباد ہو ‘‘ (اعمال 17:26)۔ اِس نے ضرور ایتھنز کے لوگوں کو حیران کیا ہوگا، جنہوں نے اُس دِن پولوس کو بولتے ہوئے سُنا تھا۔ گناہ کی وجہ سے وہ نسلی تھے۔ اُنہوں نے سوچا وہ دوسروں سے بہتر تھے۔ لیکن وہ غلط تھے۔ نامعلوم خُدا نے کُل نسل انسانی کو ایک آدمی اور ایک عورت سے تخلیق کیا تھا۔ حال ہی کی DNA تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ تمام نسل انسانی قرونِ وسطیٰ کی ایک عورت سے پیدا ہوئی تھی۔کچھ سال پہلے ٹائم میگیزین نے اِس پر سرورق کی کہانی چھاپی تھی۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ہم سب آپس میں منسلک ہیں۔ ہم سب خونی تعلق سے بہن اور بھائی ہیں! اور مسیح ہم سب کو اکٹھا ایک ہی خاندان یعنی گرجہ گھر یا کلیسیا میں لاتا ہے۔ اور آج رات میں اپنے نوجوان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں – کہ نسلی تعصب کو کسی اور تہذیب کے کسی انسان سے رفاقت کرنے سے روکنے مت دیجیے۔ ہمارے گرجہ گھر میں نسلی تعصب کے خلاف لڑیں! اِس بات کے لیے خوفزدہ ہونا کہ آپ کا کسی دوسری نسل کا کوئی دوست ہے ایک حیوانی اور گناہ سے بھرپور بات ہے! ایک رات میرے بیٹے نے کہا کہ یہ ’’ایک معجزہ‘‘ تھا کہ میں اور میری بیوی 30سال شادی کے گزرنے کے بعد بھی بہت اچھے جا رہے ہیں حالانکہ وہ ہسپانوی اور میں سفید فام ہوں۔ ہم نے اپنی شادی کی تیسویں سالگرہ گذشتہ جمعرات کو منائی تھی۔ میرے خیال میں دیکھا جائے تو میرا بیٹا دُرست ہے۔ یہ ایک معجزہ کی مانند لگتا ہے، لیکن مجھے یہ دُنیا میں سب سے قدرتی بات لگتی ہے! میں اُس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا! وہ میرے لیے خُدا کا عظیم تر تحفہ ہے، اور میں ہر روز خُدا سے اپنی بیوی کے لیے شکریہ ادا کرتا ہوں!

اور ایسا ہی ہمارے گرجہ گھر میں بھی ہونا چاہیے، کیونکہ خُدا نے ’’ آدم کو بنایا اور اُس ایک سے لوگوں کی ہر قوم کو پیداکیا تاکہ تمام روئے زمین آباد ہو ‘‘ (اعمال 17:26)۔ یہ دُنیا میں سب سے زیادہ قدرتی بات لگتی ہے کہ میں نے ایک چینی گرجہ گھر میں بپتسمہ پایا تھا، کہ میرے پادری، ایک چینی عالم تھے، جو دو دہائیوں سے بھی زیادہ گرجہ گھر میں رہے۔یہ کھوئی ہوئی دُنیا کو شاید عجیب لگے۔وہ مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں، ایک نسل دوسری کے خلاف۔ لیکن خُداوند یسوع مسیح آئے، ناصرف ہمیں خُدا کے ساتھ بحال کرنے کے لیے، بلکہ ہمیں اکٹھا کرنے کے لیے۔ ایک طرح سے، ایسا ہو جائے تو معجزہ ہی ہوتا ہے – نئےسرے سے جنم لینے کا معجزہ! اگر ہم واقعی دوبارہ نئے سِرے سے جنم لیں، تو یہ ہو سکتا ہے! جب کچھ ہفتے قبل ڈاکٹر جان آر۔ رائس کی بیٹی یہاں تھیں، میری بیوی اور اُنہوں نے ہمارے گرجہ گھر میں 20 ثقافتوں اور تہذیبی گروہوں کو شمار کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ یہ شاندار ہے۔ اِس کو ایسا ہی رکھنے کے لیے کام کرتے رہیں! دُنیا کو دیکھنے دیں کہ ہم مسیح میں بھائی بہن ہیں! اِس منقسم دُنیا میں اِس گرجہ گھر کو پیار اور ہم آہنگی کی ایک گواہی بننے دیں! ’’کسی کی آج مدد کریں۔‘‘ اِسے گائیے!

آج کسی کی مدد کرو، کسی کو زندگی کے راستے پر چلتے ہوئے،
   بڑھتی دوستی کے ساتھ، تمام تنہائی ختم ہوتی ہے،
اوہ، آج کسی کی مدد کرو!
   (’’آج کسی کی مدد کرو Help Somebody Today‘‘ شاعر کیری ای۔ بریَک
      Carrie E. Breck، 1855۔1934؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)۔

اور پولوس رسول نے ایتھنز کے اِن لوگوں کو بتایا،

’’... خدا نے ماضی کی ایک ایسی جہالت کو نظر انداز کر دیا اور اب وہ سارے انسانوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں ‘‘ (اعمال 17:30).

خُدا نے ماضی کی اُن کی جہالت اور توہم پرستی کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن اب اُس نے ہم تمام کو چاہے ہماری کوئی بھی نسل یا ماضی ہو، توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اب وہ ’’ہر جگہ پر تمام لوگوں کو توبہ کا حکم دیتا ہے۔‘‘ یہ کوئی مشورہ یا کوئی نصحیت نہیں ہے۔ خُدا ہم تمام کو توبہ کے لیے حکم دیتا ہے! یہ خُدا کا کلام ہے! خُدا کہتا ہے، ’’میں تمہیں توبہ کرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘‘ اِس کا مطلب ہے کہ گناہ کے بارے میں اپنا ذہن بدل لو۔ اِس کا مطلب ہے کہ گناہ سے منہ موڑ لو اور مسیح کی طرف ہو جاؤ۔ اِس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ پر بھروسہ کرنا چھوڑ دو، اور مسیح پر بھروسہ رکھو۔ جب آپ سچ طور پر توبہ کرتے ہیں، تو خُدا کی قوت کے ذریعے سے آپ نئے سرے سے جنم لیتے ہیں۔

مسیح اِس دُنیا میں ہمیں گناہ، موت اور جہنم سے بچانے کے لیے آیا تھا۔ وہ جان بوجھ کر ہمارے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرنے کے لیے آیا تھا۔ وہ صلیب پر اپنا قیمتی خون بہانے کے لیے آیا تھا تاکہ خُدا کی نظر میں ہمارے گناہ پاک صاف ہو کر دُھل جائیں۔ اور مسیح گوشت پوست کی حالت میں، جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ وہ اب آسمان میں ایک اور وسعت میں زندہ ہے اور ہمارے لیے دعا کر رہا ہے۔ جب آپ ایمان کے ساتھ مسیح میں آتے ہیں تو آپ اُسی وقت نئے سرے سے جنم لیتے ہیں۔ آپ مسیح میں ایک نئی زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔ بائبل کہتی ہے، ’’اگر کوئی مسیح میں ہے، تو وہ نیا مخلوق ہے: پرانی چیزیں جاتی رہیں؛ دیکھو وہ نئی ہو گئیں‘‘ (2۔کرنتھیوں 5:17)۔

ہماری لڑکیوں ہی میں سے ایک سفید فام لڑکی، ایک نوجوان چینی لڑکی کی جو کہ ہمارے گرجہ گھر میں نئی ہے مدد کرتی رہی ہے۔ اِس نوجوان سفید فام لڑکی نے مجھے دعا کرنے کے لیے ایک کارڈ دیا۔ اُس نے جو کچھ اُس کارڈ پر لکھا وہ گرائمر کی رو سے اتنا اچھا نہیں تھا، لیکن یہ ایک بہت پیاری دعا کے لیے درخواست تھی۔ اُس نے مجھے سے چینی لڑکی کے لیے دعا کرنے کو کہا تھا، ’’کہ وہ محض ’گرجہ گھر‘‘ ہی کا نہیں، بالکہ جیتے جاگتے یسوع کا بھی پیار محسوس کرے۔‘‘ جی ہاں! آمین! ہم دعا کر رہے ہیں کہ آپ ہمارے گرجہ گھر میں لوگوں سے بھی پرے دیکھیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ جیتے جاگتے میسح کے پیار کو جانیں اور محسوس کریں! ہم چاہتے ہیں کے آپ نجات پائیں، نئے سرے سے جنم لیں، جیتے جاگتے مسیح میں ایمان کے ذریعے سے موت سے دائمی زندگی میں جائیں!

پولوس نے ایتھنز کے اُن لوگوں کو بتایا تھا کہ خُدا نے مسیح کو مُردوں میں سے زندہ کیا۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ اُنہیں مسیح پر ضرور بھروسہ کرنا چاہیے ورنہ وہ قیامت کے دِن اُن کا فیصلہ کرے گا۔ مسیح زندہ ہے۔ وہ دُنیا کا فیصلہ کرنے کے لیے واپس آ رہا ہے۔ کیا آپ تیار ہیں؟ کیا آپ کے گناہ مسیح کے خون سے پاک صاف کیے جا چُکے ہیں؟

پولوس کا آریوپگس پر واعظ کا کیا نتجہ نکلا تھا؟ اُس کے واعظ کے تین ردعمل ہوئے تھے،

’’اور جب اُنہوں نے مُردوں کی قیامت کے بارے میں سُنا تو اُن میں سے بعض نے اس بات کو ہنسی میں اڑا دیا اور بعض نے کہا کہ ہم اِس مضموں پر تجھ سے پھر کبھی سُنیں گے۔ یہ بات سُن کر پولُوس اُن کی مجلس سےنکل کر چلا گیا۔ مگر کچھ لوگ پولُوس سے آ ملے اور ایمان لائے ۔ اُن میں ایک دیونسی یس اریوپگس کی مجلس کا رُکن تھا۔ ایک عورت تھی جس کا نام دمرِس تھا، اور اُن کے علاوہ وہ اور بھی تھے ‘‘ (اعمال 17:32۔34).

کچھ نے اِسے ہنسی میں اُڑا دیا اور کچھ نے کہا کہ ’’ہم اِس معاملے پر تجھ سے بعد میں بات کریں گے۔‘‘ ہمیں اِس کے بارے میں مذید اور سُننے کی ضرورت ہے، اور اِس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کچھ نے اُسی وقت مسیح میں یقین کیا تھا، اور نجات پائی تھی۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ آج رات آپ میں سے یہاں موجود کچھ لوگ ایک گناہ سے بھرپور طرزِ زندگی سے منہ موڑیں، اور یسوع مسیح پر بھروسہ کریں، او راُس کے وسیلے سے نجات پائیں، اُس کے قیمتی خون سے اپنے گناہوں کو دھو لیں۔ پھر آپ خُدا کے ساتھ بحال ہو جائیں گے۔ پھر آپ خود بخود اپنے آپ ہی قدیم چین کے سچے خُدا شینگ ٹی – آسمان کے بادشاہ کو جان جائیں گے! ہم مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وہ آپ کو وہ امن و سکون اور خوشی او راُمید دے سکتا ہے جو آپ نے کبھی جانی بھی نہ ہوگی۔ اور ہم آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ آپ کل یہاں گرجہ گھر دوبارہ واپس آئیں۔ ہم کل صبح 10:30 بجے ایک اور ضیافت منائیں گے۔ اور ایک تیسری ضیافت کل شام 6:30 بجے منائیں گے۔ ہمارے ساتھ رفاقت اور تفریح کے لیے واپس آئیں!

آج رات کو مَیں آپ میں سے اُن کے ساتھ جو یسوع پر بھروسہ کرنا اور نجات پانا چاہتے ہیں بات چیت کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ خُدا ایسا کرنے کے لیے آپ کی مدد کرے! آمین۔

’’چاند کیک – اور خُدا جس نے چاند کو بنایا!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے

’خُدا کیوں چین کو نعمتیں عطا کر رہا ہے – لیکن امریکہ کو فیصلے!‘‘ پڑھنے کے لیے
یہاں کلِک کیجیے

’’چین میں کامیابی کا راز‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے

’’چین – دروازہ کھلا ہے!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے

’’چین – پر خدا کی رُوح کی مُہر!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے

’’چین – وہ مشرق کی طرف سے آئیں گے!‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے

’’چین میں شکرگزاری۔‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
      ’’اَے میری جان، آسمان کے بادشاہ کی ستائش ہو Praise, My Soul, the King of Heaven‘‘
(شاعر ھنری ایف۔ لائٹ Henry F. Lyte، 1793۔1847).