Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

چین – پر خُدا کی روح کی مہر

!CHINA – SEALED BY GOD’S SPIRIT

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
۲۵ ستمبر۲۰۱۱ ،شام کو، خداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, September 25, 2011

"کہ جب تک ہم اپنے خُدا کے بندوں کی پیشانیوں پر مہر نہ لگائیں تب تک زمین اور سمندر اور درختوں کو نقصان نہ پہنچانا" (مکاشفہ 7:3)۔

بیجینگ میں ہونے والی اولمپکس کھیلوں کو دنیا بھر میں ان گنت لاکھوں افراد نے دیکھا تھا۔ زمین پر موجود کسی بھی قوم میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی، چین کی معیشت آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ آج تمام دُنیا کی نظریں چین کے اوپر ٹکی ہوئی ہیں! لیکن چین کے بارے میں سب سے حیرت انگیز بات وہاں پر گذشتہ پچیس سالوں سے مسیحیت کا فروغ ہے۔

ڈیوڈ عیکمن، ٹائم میگزین رسالے کے سابقہ صدر محکمہ، اپنی کتاب، یسوع بیجینگ میں (ریجینری اشاعت خانہ انکارپوریشن، 2003 ) میں کہتے ہیں،

چین مسیحی بننے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اِس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ تمام چینی مسیحی بن جائیں گے، یا پھر کہ مسیحیوں کی اکثریت ہو جائے گی۔ لیکن دیہی علاقوں میں، شہروں میں اور خاص طور پر چین کی سماجی اور ثقافتی حلقوں میں مسیحیوں کی تعداد میں اضافے کی موجودہ شرع کا انحصار ہوگا… تیس دہائیوں کے اندر اندر چین کی آبادی کا تیس فی صد [چونکہ یہ کتاب 2003 لکھی گئ تھی، اب 22 سال ہو چکے ہیں]… سالانہ سات 7 فی صد کی شرع سے بڑھنے اور ستر ملین[تقریباً] افراد کے ساتھ چین کے مسیحیوں کی تعداد ، زمین پر زیادہ تر ریاستوں میں مسیحیوں کی تعداد کو بونا(ٹھگنا) کر رہی ہے۔اکیسویں صدی میں ترقی پزیر دنیا کے[دوسرے حصوں میں] تمام مسیحیوں میں کلیسیا کے ہراول دستے [صف اوّل] کی نمائندگی چین کے مسیحی کر رہے ہیں… گذشتہ دو دہائیوں سےایشیا اور دنیا کے جنوبی حصے میں چین کے پھیلائو نے غالباً مسیحیت کو عالمی سطح پر اثر انداز کیا ہوگا۔ فلپس جنکنزPhilip Jenkins کی کتاب "آنیوالی مسیحی برادری" میں اُن کی اِس بات کو بخوبی آشکارہ کیاگیا ہے …یہ عمل قابلِ غور ہے کہ نا صرف عددی بلکہ مسیحیت کے لیے دانشورانہ کشش کے مرکز چین میں جیسے جیسے مسیحیت کا بڑھنا جاری رہے گا اور جیسے ہی چین عالمی عظیم قوت بن جاتا ہے… کیا اکیسویں صدی دنیا میں چین کی صدی ہوگی؟… یہ اس کتاب کی دلیل رہی ہے کہ آئیندہ کچھ دہائیوں تک مسیحیت چین کی نوعیت کو بے شمار دوسرے طریقوں سے بدل دے گی، اور ایسا کرنے سے ، اُس دنیا کو بدل دے گی جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ (ڈیوڈ عیکمن، یسوع بیجینگ میں: مسیحیت کس طرح چین کو بدل رہی ہے اور عالمی قوت کے توازن کو تبدیل کر رہی ہے، ریجینری اشاعت خانہ ، انکارپوریشن، 2003 صفحات 292, 291, 285)۔

لیکن ضرورت ہےکہ ہمیں یاد دلایا جائے کہ چین میں جاری عظیم تجدیدِ نو اِس قدر آسانی سے نہیں شروع ہوا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں چرچِل کے الفاظ استعمال کرنے کے لئے "خون، زبردستی، آنسو اور پسینہ" جیسے لفظ شامل ہو جاتے تھے۔ چین میں عظیم تجدیدِ نو صرف شیطان کے ساتھ خون خرابے والی جنگ میں سے گزر کا آیا تھا جو کہ سو 100 سال تک جاری رہی تھی۔ میں آپ کو 1900 میں باکسر کی بغاوت کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔ رائیلی کے۔ سمتھRiley K. Smith نےکہا تھا،

باکسرز کو مسیحیوں سے شدید ترین نفرت تھی… انہوں نے [شہنشاہ کی خالہ، ساؤھسTzu His ] کو یقین دلا دیا تھا کہ مسیحی تبلیغی مبلغین چینیوں کی روحیں چُرا رہے ہیں اور زبردستی چینی بچوں کی آنکھیں نکال رہے ہیں تا کہ اپنی دوائیوں میں استعمال کر سکیں۔ بیوہ ملکہ نے ان ـ غیرملکی سفید فام شیطانوں" کے خلاف قدم اُٹھایا اور 21 جُون، 1900 میں ایک خفیہ فرمان جاری کیا کہ تمام غیر ملکیوں کو قتل کر دیا جائے۔ قتلِ عام شروع ہو گیا… باکسرز نے قصبوں کو غارت کرنا شروع کر دیا… انہوں نے گرجہ گھروں کے ناموں کی فہرست قبضے میں کی اور گھر گھر جا کر دونوں مسیحی تبلیغی مبلغین اور چینی مسیحیوں کے سر قلم کرنے اور معذور کرنا شروع کیا… شانزی (Shanzi)کے دارالحکومت تائی یوعان (Taiyuan) میں قتل و غارت گری کا اپنی طرز کا واحد دور شروع ہوا۔ شہر کے داخلی دروازوں کے بند کیے جانے کے حکم کی وجہ سے غیر ملکی پھنس کر رہ گئے تھے۔
       جُون 1900 کے آخر میں ، فسادیوں نے برطانوی بپتسمہ گھر اور شائو ینگ مشن کے احاطوں کو آگ لگا دی تھی۔ مسیحی تبلیغی مبلغین اور چینی مسیحیوں کے ایک گروہ نے آدھے میل کے فاصلے پر لڑکوں کے بپتسمہ دینے والے سکول میں پناہ حاصل کی تھی۔ اُن کے پہنچنے کے بعد، مسیحی تبلیغی مبلغین میں سے ایک، ایڈِیتھ کومبز Edith Coombs ، کو احساس ہوا کہ اُن کی دو چینی سکول کی بچیاں پیچھے ہی رہ گئ ہیں۔ جلتی ہوئی عمارت کے طرف واپس بھاگتے ہوئے، انہوں نے بچیوں کو تو بچا لیا لیکن فسادیوں کے ہاتھوں پکڑی گئیں اور شعلے اُگلتے ہوئے عمارتی ڈھانچے میں پھنس گئیں۔ آگ میں ایڈِیتھ کا آخری عمل گھٹنوں کے بل [دعا کے لیے] ہونا تھا جب وہ اُسے نگلتی جا رہی تھی…
       سُوپنِگ میں… مسیحی تبلیغی مبلغین اور اُن کے ساتھ چینی مسیحیوں کا تعاقب کیا گیا تھا، سنگسار کر کے مارا گیا تھا، اور سر تن سے جُدا کر دیئے گئے تھے۔ اُن کے سروں کو شہر کی دیوار پر باقی تمام کو تنبیہہ کے لیے لٹکا دیا گیا تھا… ایک ایسا مسیحی تبلیغی مبلغ کارل لُنڈبرگ Carl Lundberg تھا، جس نے اپنے کچھ ساتھی مسیحی تبلیغی مبلغین اور اُن کے بچوں کے ساتھ منگولیہ کی طرف پناہ لینے کی کوشش کی تھی… اُس نے لکھا، " اگر ہم فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو سکے، تو ہمارے دوستوں کو کہنا کہ ہم خداوند کے لیے جئے اور فوت ہوئے۔ مجھے چین آنے میں کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ خداوند نے مجھے بلایا تھا اور اُس کا فضل ہی بہت ہے… میری لکھائی کی طرف سے معذرت کیونکہ میرا ہاتھ کانپ رہا ہے۔" وہ اور اُس کے ساتھ دوسروں کے [جلد ہی] سر قلم کر دیے گئےتھے۔
       چینی مسیحیوں کو قتل ہونے سے مستثنٰٰی قرار نہیں دیا گیا تھا۔ زیادہ تر کو آزادی کی پیشکش کی گئی تھی اگر وہ یسوع سے منکر ہو جاتے۔ کُچھ نے دبائو میں آ کر ایسا کیا ؛ لیکن زیادہ تر نے ایسا نہی کیا۔ ایک آدمی جس نے انکار کیا تھا "وفادار" ین Yen کے نام سے مشہور تھا، جو اپنی بیوی کے ساتھ اشتراکیت پسندوں کے مندر کے ایک ستون کے ساتھ بندھا ہوا تھا… باکسرز نے انہیں بہت ظالمانہ طریقے سے ڈنڈوں کے ساتھ پیٹا اور پھر اُن کے قدموں میں آگ جلانی شروع کر دی تھی، تاکہ اُن کی ٹانگیں جلیں۔ لیکن اُس جوڑے نے اب بھی یسوع سے منکر ہونا قبول نہ کیا۔ [آخر کار] اُن پاگل آدمیوں [باکسرز] نے مسز ۔ ین Mrs. Yen کو چھوڑ دیا، لیکن اُس کا شوہر اتنا خوش قسمت نہ تھا۔ باکسرز نے اُس کے جسم کو ایک چِتا [لکڑیوں کے بڑے ڈھیڑ] پر پھینکا اور جلا دیا [آگ لگا دی]۔ جس وقت اُس کا جسم شعلوں میں جل رہا تھا [ایک سپاہی نے اُسے بچانے کی کوشش کی]۔ سپاہی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے گئےتھے۔ بِلا وجہ کے تشدد سے غصے میں آکر سپاہیوں نے باکسرز کو مندر میں سے باہر نکال پھینکا اور مسٹر ۔ ین Mr. Yen کو ، جو بُری طرح سے جل چکے تھے لیکن کسی حد تک زندہ تھے، مجسڑیٹ کے سامنے پیش کیا، جس نے [مسٹر۔ ین] کو قید میں پھینک دیا جہاں… وہ فوت ہوگئے۔
       جب آخرکار یہ قتل و غارت گری ختم ہوئی،تو تیس ہزار 30,000 سے زائد چینی مسیحی شہید ہو چکے تھے۔ رابرٹ کووینٹری فورسائیتھ Robert Coventry Forsythe نے اپنی کتاب ۔ ’’ 1900 میں چین کے شہید‘‘، میں لکھا کہ ’’ باکسرز کی خونریزیوں نے چین کی غیر مقلد مسیحی کلیسیا کی تاریخ میں گذشتہ تمام دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ غیر مقلد مسیحی شہید پیدا کیے … بہتروں نے ناقابلِ بیان اذیتوں کو برداشت کیا تھا، اور بہتروں نے موت کے مقابلے میں ارتداد (منکر) ہوئے‘‘ (رائیلی کے۔ سمتھ، چین: خون کے دھبوں سے بنا راستہ، لیونگ سیکریفائز کتابوں کی کمپنی، 2008 ، صفحات 46، 47 ، 49 ، 50، 51 )۔

یا میں آپ کو جاپانی انتہا پسندوں کی ایذا رسانیوں کے بارے میں بتا سکتا ہوں جنہوں نے لا تعداد مسیحیوں کو قتل کیا جب انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے آغاز میں چین پر دھاوا بولا تھا۔ مجھ سے پہلے پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن (اُن کے بارے میں پڑھنے کے لیے یہاں کلِک کیجیے)، چین میں ایک یتیم خانے کے سربراہ تھے۔ جس وقت جاپانی پہنچ رہے تھے، ڈاکٹر لِن نے یتیموں کو، اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کو ایک کشتی میں فرار ہونے کے لیے سوار کر لیا تھا۔ جاپانیوں کے ہوائی جہاز پرواز کرتے ہوئے آئے اور کشتیوں میں سوار زیادہ تر کو گولیاں برسا کر مار دیا تھا۔ ڈاکٹر لِن کشتی میں سوار ہونے سے قبل گر گئے تھے اور اُن کی گردن ٹوٹ گئی تھی، اور یوں وہ برستی ہوئی گولیوں سے بچ گئے تھے۔ وہ ٹوٹی ہوئی گردن کی وجہ سے تقریباً مر چکے تھے، لیکن بچ گئے اور آخر کار امریکہ آگئے، یہاں وہ میرے چوبیس سالوں تک پادری اور استاد رہے تھے۔ پادری وُرمبرانڈ Wurmbrand کی طرح، ڈاکٹر لِن بھی ایک جیتے جاگتے شہید تھے، ایک ایسے انسان جنہوں نے شہادت کے قریب تر زندگی گزاری تھی ، لیکن یسوع کے پرچار کے لیے بچ گئے۔

یا میں آپ کو چین میں اُن کے بارے میں بتا سکتا ہوں جنہوں نے 1966 – 1969 کے "تمدنی و تہذیبی انقلاب" کے دوران اشتراکیت پسند آمر حکمران مائو سی تُنگ Mao Tse Tung کے دور میں ایذا رسانیوں کو برداشت کیا اور فوت ہوئے۔ لیکن میں پادری رچڑد وُرمبرانڈ کو ایسا بتانے کے لیے مدعو کروں گا۔ میں پادری وُرمبرانڈ کو بہت اچھی طرح سے جانتا تھا۔ انہوں نے بہت دفعہ ہمارے گرجہ گھر میں واعظ دیا تھا۔ وہ "شہیدوں کی آواز" کے محترم بانی تھے۔ چین میں مسیحیوں پر سختیوں کے بارے میں پڑھنے کے لیے پادری وُرمبرانڈ کی ویب سائٹ www.perscution.com پر کلِک کیجیے۔ پادری وُرمبرانڈ بھی ایک زندہ شہید تھے جنہوں نے زندگی کے چودہ سال رومانیہ کے ایک اشتراکیت پسند حراستی کیمپ میں گزارے تھے۔ اُن میں سے تین سال انہیں اکیلے تنہائی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جہاں کبھی انسانوں کی آواز سُنائی دی اور نہ سورج کی روشنی دکھائی دی۔ اِس عبادت کے بعد ہم پادری وُرمبرانڈ کی ایک فلم دیکھیں گے جس کا نام "مسیح کے لیے اذیتیں سہیں" ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ کو پادری وُرمبرانڈ "تمدنی و تہذیبی انقلاب" کے دوران مائو سی تُنگ Mao Tse Tung کے دور میں چینی مسیحیوں پر ایذارسانیوں کے بارے میں بتائیں۔ پادری وُرمبرانڈ نے کہا،

چینی [گرجہ گھروں] کے مصائب تمام تصورات سے بڑھ کر ہیں… ڈاکٹر ڈی۔ ریِز Dr. D. Rees چین کے پہلے مسیحی تبلیغی مبلغ، حقیقت تلاش کرنے کے ایک دورے سے واپس آ تے ہوئے لکھتے ہیں، ’’ میرے تمام چینی دوست یا تو قتل ہو چکے ہیں یا قید۔ ایک کو اندھا کر دیا گیا ہے، ایک کو کنویں میں دھکا دے دیا گیا تھا، دو گردے ختم ہونے کے سبب سے فوت ہو گئے، اور ایک اور ، جب زبردستی دماغی طور پر قائل کیا گیا تو اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا اور منکر ہونے کی دستاویز پر دستخط کر بیٹھا۔ جب اُس کے حواس بجا ہوئے تو اُس نے وہ منکر ہونے کی دستاویز ٹکڑے ٹکڑے کر دی۔ ‘‘ لیکن چینی گرجہ گھروں کی تعداد ہزاروں کے حساب سے بڑھ رہی ہے…
       ایک ہندوستانی ڈاکٹر، کمان چندا، کو لال چین کے قید خانوں میں اپنی دونوں ٹانگیں کٹوانی پڑیں اور دونوں آنکھیں نوچوانی پڑیں۔
       اسی طرح کے ایک واقعے میں، ولادِمیر ٹَیٹیشٹ شیو Vladimir Tatishtshev، ایک روسی، کو شہنگائی [چین] میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چینی [اشتراکیت پسند] ایذا رسانوں نے اُس کی ٹانگوں کے ساتھ لوہے کی نالیاں جن پر پیچ لگے ہوئے تھے باندھ کر اُن پر ڈنڈے برسائے جب تک ہڈیاں ٹوٹ نہ گئ تھیں تاکہ وہ ناکردہ جرائم کا اقرار کرے۔ جب اُس نے انکار کیا، تو اشتراکیت پسند پولیس اُس کے گھر گئی۔ ایک افسر نے [اُس کا] بچہ اُٹھایا اور ماں سے کہا، ’’ اگر تم نے اپنے شوہر کے خلاف شکایت نامے پر دستخط نہ کیے تو ہم تمہارے بچے کے سر کا کچومر نکال دیں گے۔‘‘ ماں نے … انکار کر دیا۔ پھر اُس پولیس افسر نے جو کہ خود ایک عورت تھی، بچے کے سر کا دیوار پر مار کر کچومر نکال دیا… اور دوسرے اشتراکیت پسندوں نے ماں کو گولی مار دی۔
       7اپریل،1970 میں ماسکو کے ریڈیو پر کہا گیا، ’’ دس سالوں کے دوران چین میں پچیس ملین سے زیادہ [مسیحی] لوگوں کو نیست و نابود کیا گیا تھا۔ [باقیوں کو] لاکھوں کی تعداد میں بڑے بڑے حراستی کیمپوں میں پھینک دیا گیا تھا۔‘‘ ماسکو کے اخبار کراس نایا زیوزڈا Krasnaia Zvezda نے [7 مئی، 1969 ] میں لکھا تھا، ’’ چینیوں کی اشتراکیت پسند پارٹی نے … تیزاب اور اُبلتے ہوئے پانی کے ساتھ لوگوں کی آنکھیں جلا ڈالی تھیں، قلمی چاقوئوں کے ساتھ [ٹانگیں] کاٹ ڈالی تھیں اور پتھروں کے ساتھ کھوپڑیان چیر ڈالی تھیں اور … دو دھاری چوڑی تلواریں۔‘‘
       ہمارے بہت سے چینی بھائی اب، یا تو اندھے پن کی بے یاس و مددگار زندگی گزار رہے ہیں یا پیٹ کے بل رینگ رہے ہیں، اُن کی [ٹانگیں اور ہاتھ] کاٹے جا چکنے کے سبب سے۔ [پھر بھی] زیر زمین گرجہ گھر لا تعداد [بڑھ رہے ] ہیں (پادری رچڑد وُرمبرانڈ، ٹی ایچ۔ ڈی۔، ’’جہاں مسیح کو اب بھی اذیت دی جاتی ہے‘‘Where Christ is Still Tortured” ، ماشلز پیپر بیکس، لندن، 1982، صفحات 130، 131)۔

جب گذشتہ اتوار کی شب کو چین میں مسیحیوں کے ساتھ ناقابلِ بیان اذیتوں اور مصائب کے بارے میں بتایا جارہا تھا ، کسی کو جو ہمارے گرجہ گھر میں آیا تھا کہتے ہوئے سُنا گیا، ’’ کیوں چین میں اس قدر لوگ مسیحی ہو رہے ہیں حالانکہ انہیں قید کیا جارہا ہے اور اذیتیں دی جا رہی ہیں؟‘‘ اس کا جواب ہمارے کلام میں لکھا ہے۔ آنیوالی عظیم آفتوں کے دوران خدا کا ایک فرشتہ کہے گا،

’’کہ جب تک ہم اپنے خدا کے بندوں کی پیشانیوں پر مہر نہ لگائیں تب تک زمین اور سمندر اور درختوں کو نقصان نہ پہنچانا۔‘‘ (مکاشفہ 7:3)۔

یہ آیت اُن 144,000 یہودیوں کے بارے میں بتلاتی ہے جو یسوع کی طرف رجوع کریں گے اور اُن کی پیشانیوں (ذہنوں) پر روح القدوس کی مہر لگا دی جائے گی۔ ہمیں اس ’’مہر لگانے‘‘ کے بارے میں افسیوں 1:12-13 آیت میں بتایا گیا ہے،

’’تاکہ ہم، جن کی اُمید پہلے ہی سے مسیح سے وابستہ تھی اُس کے جلال کی ستایش کا باعث بنیں۔ اور جب تم نے کلامِ حق کو جو تمہاری نجات کی خوشخبری ہے سُنا اور اُس پر ایمان لائے تو خُدا نے اپنے وعدے کے مطابق تمہیں پاک روح دے کر تم پر اپنی مہر لگا دی۔‘‘ (افسیوں 1:12-13 )

جب ایک شخص حقیقی تبدیلی کا مشاہدہ کرتا ہے، پھر اُس پر روح القدوس کی مہر لگ جاتی ہے۔ آفت میں 144,000 یہودی ایمانداروں کی مانند، اُن کی’’ پیشانیوں پر ہمارے خُداوند‘‘ کی مہر لگ چکی ہے (مکاشفہ 7:3)۔ عظیم سیلاب کے آنے سے قبل جب نوح کشتی میں سوار ہوئے تھے، بائبل کہتی ہے، ’’ خُداوندنے اُسے اندر بند کر دیا‘‘ (تکوین 7:16)۔ نوح کا کشتی میں بند کیا جانا ایک طرح سے سچے تبدیل ہونے والے انسان کا ’’ کئے ہوئے وعدے کے مطابق اُس روح القدوس سے مہر لگنا‘‘ (افسیوں 1:13)۔ وہ یہودی جو آفت میں تبدیل کیے جاتے ہیں اُن کی پیشانی پر مہر لگائی جائے گی، جیسے نوح کو کشتی میں خُدا کی روح نے بند کر دیا تھا۔ ایک دفعہ آپ ’’اندر بند‘‘ ہو گئے اور آپ کے ذہنوں پر خداوند کی روح کی ’’مہر لگ گئی‘‘ پھر دنیا میں کوئی بھی وجہ آپ سے آپ کی نجات چھین نہیں سکتی۔ آپ دائمی طور پر محفوظ ہیں، ’’کئے ہوئے وعدے کے مطابق اُس روح القدوس سے مہر لگنا‘‘ (افسیوں 1:13)۔ کسی قسم کی تکلیف، یا یہاں تک کہ اذیت ، آپ کو مسیح سے جُدا نہیں کر سکتی جب کہ آپ کی’’ پیشانی‘‘ پر’’ مہر‘‘ لگ چکی ہے۔

یہ کچھ نہیں ہے جو کہ آنے والی آفت میں صرف تبدیل ہونے والے یہودیوں کے ساتھ ہو گا۔ یہ ابھی اسی وقت اشتراکیت پسند چین میں سینکڑوں ہزاروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اور یہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

مسیح کے پاس آئیں۔ اُس پر یقین رکھیں۔ اپنے تمام دل کے ساتھ اُس پر اعتماد کریں۔ جب آپ ایسا کریں گے، آپ دوبارہ جنم لیں گے۔ خُدا آپ کے ذہن کو مہر لگا دے گا تاکہ کوئی مشکل، یا مصیبت، یا تکلیف کبھی دوبارہ آپ کی نجات نہ چھین سکے – اور آپ دائمی طور پر یسوع مسیح میں محفوظ ہو جائیں گے چاہے آپ کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے! یہ ہی آخرت کی آفت میں یہودی شہیدوں کا راز ہے۔ یہ ہی آج چینی شہیدوں کا راز ہے۔ وہ یسوع میں یقین رکھتے ہیں، اور دائمی طور پر بچائے جاتے ہیں۔ چاہے کیسی ہی مشکلات اور مصائب اُن پر آئیں، وہ کبھی شیطان کے سامنے نہیں جھکیں گے یا کبھی دنیا میں واپس نہیں جائیں گے۔

مسیح صلیب پر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے فوت ہوا تھا۔ اُس نے ہمارے گناہوں کو دھونے کے لیے اپنا خون بہایا تھا۔ اُس کے پاس آئیں! اُس پر اعتماد کریں! وہ آپ کو ہمیشہ کے لیے بچا لے گا، اور آپ کبھی بھی گم نہیں ہوں گے۔ چاہے کیسی ہی آزمائشیں آپ کی زندگی میں آئیں، آپ کبھی اپنا گرجہ گھر نہیں چھوڑیں گے، اور مسیح کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے!

ہم دُعا کرتے ہیں کہ خُداوند آپ کو گناہ کے راسخ عقیدے کے تحت لائے۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ خُداوند آپ کو یسوع کی طرف کھینچے، تاکہ آپ کے گناہ اُس کے خون سے دُھل سکیں۔ ہم دُعا کرتے ہیں کہ آپ جلد ہی دوبارہ جنم لیں، مسیح میں خُداوند کی قوت کےذریعے سےتبدیل ہوکر! آمین۔ اپنے گانوں کےورق پر گیت نمبر 8 پر آئیں، ’’یسوع، میں میری صلیب اُٹھا چکا ہوں،‘‘ ڈاکٹر جان آر۔ رائیس Dr. John R. Rice کا پسندیدہ گیت۔

یسوع، میں میری صلیب اُٹھا چکا ہوں، سب کچھ چھوڑ کر تیرے پیچھے چلوں گا
مفلسی، حقیر ہونا،دھتکارے جانا،اس طرح یہ تمام اب سے میرے ہیں۔
مٹا دوں گا ہر خواہش جو پیاری مجھے ہے، جو اُمید کی تھی اور جان گیا تھا تمام میں پا لوں گا
پھر بھی میری حالت کس قدر اچھی ہے، خدا اور جنت اب بھی میرے اپنے ہیں۔

دنیا کو مجھے حقیر سمجھنے دو اورچھوڑنے دو، وہ میرے نجات دہندہ کو بھی چھوڑ چکے ہیں؛
انسانوں کے دل اور نگاہیں مجھے دھوکہ دیتی ہیں؛ تو ابن انسان کی مانند جھوٹا نہیں ہے۔
اور جب تو مجھ پر خُداوند کی حکمت، پیار اور طاقت کے ساتھ مسکرائے گا،
شاید دشمن حسد کریں ، اور دوست مجھ سے اجتناب کریں؛ اپنا چہرہ دکھا اور سب روشن ہے

انسان شاید مجھے تکلیف اور مصیبت دیں، لیکن یہ مجھے تیرے سینے میں سما دے گا؛
زندگی کی سخت آزمائشیں شاید مجھے دبائیں، جنت میں میرے لیے پُرسکون آرام ہوگا۔
مجھے کسی غم سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، جب کہ تیرا پیار میرے پاس ہے؛
کوئی دلکشی ایسی نہیں جو مجھے وہ خوشی دے سکے، جو تجھ سے مل کر مجھے ہوتی ہے۔
("یسوع، میں میری صلیب اُٹھا چکا ہوں" شاعر ہنری ایف۔ لائٹHenry F. Lyte ، 1793 – 1847)

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ افسیوں 1:5-13
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith:
                                "یسوع، میں میری صلیب اُٹھا چکا ہوں" (شاعر ہنری ایف۔ لائٹHenry F. Lyte ، 1793 – 1847)