Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


نوح کا زمانہ – حصّہ چہارم
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 15)

THE DAYS OF NOAH – PART IV
(SERMON #15 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر، پاسٹر ایمریٹس کی جانب سے لکھا گیا ایک واعظ
اور جِسے پادری جیک نعان کے ذریعے سے پیش کیا گیا
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
خداوند کے دِن کی دوپہر، 14 اگست، 2022
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr., Pastor Emeritus
and given by Jack Ngann, Pastor
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, August 14, 2022

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی24: 37)۔

مجھے یقین ہے کہ ہم اب اس وقت میں رہ رہے ہیں جس کے بارے میں یسوع نے کلام پاک کی اس آیت میں کہا تھا۔ ہمارے زمانے اور نوح کے زمانے کے درمیان ایک بہت بڑی مماثلت ہے۔ یسوع نے کہا کہ زمین پر حالات نوح کے زمانے کی طرح ہوں گے جیسے مسیح کی واپسی اور دنیا کے ختم ہونے سے پہلے تھے۔

جو نوح کے زمانے میں تھا ویسا ہی ہوگا جب اس زمانے کا خاتمہ قریب آئے گا۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی24: 37)۔

ہم نے نو طریقوں کو دیکھا ہے جن میں نوح کے دِن ہمارے زمانے سے ملتے جلتے تھے۔


(1) یہ ارتداد کا زمانہ تھا، جب زیادہ تر لوگ خدا سے منہ موڑ چکے تھے۔

(2) یہ وسیع سفر کا وقت تھا، جب لوگ زمین پر گھومتے پھرتے تھے۔

(3) یہ وہ وقت تھا جب لاتعداد لوگوں نے ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا، اور خدا کی طرف سے چھوڑ دیے گئے تھے۔

(4) یہ ایک سے زیادہ شادیوں کا زمانہ تھا، جب لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے۔

(5) یہ وہ وقت تھا جب بدروحوں کا قبضہ بڑے پیمانے پر ہوتا تھا۔

(6) یہ وہ وقت تھا جب روئے زمین پر بُرے خیالات کا غلبہ تھا۔

(7) یہ وہ زمانہ تھا جب جسمانی [لذت والی] موسیقی کا غلبہ تھا۔

(8) یہ زبردست تشدد اور قتل و غارت کا زمانہ تھا۔

(9) یہ وہ وقت تھا جب مضبوط تبلیغ کو رد کر دیا گیا تھا۔


یہ سب ہمارے زمانے میں، پچھلی کئی دہائیوں میں دہرایا گیا ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ ہم اب اس وقت میں رہ رہے ہیں جس کے بارے میں یسوع نے کہا تھا:

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی24: 37)۔

آج دوپہر میں آپ کی توجہ ایک اور طریقہ کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ کسی طرح ہمارا زمانہ نوح کے زمانے سے ملتا ہے۔

براہِ کرم اپنی بائبل میں پیدائش، باب چار، آیت پچیس کی طرف رجوع کریں:

’’اور آدم پھر اپنی بیوی کے پاس گیا اور اُس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور اُس کا نام سیت رکھا اور کہا: خدا نے مجھے ہابل کی جگہ جِسے قائین نے قتل کیا دوسرا فرزند عطا فرمایا۔ سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کا نام انوس رکھا۔ اُس وقت سے لوگ یہوواہ کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ (پیدائش4: 25)۔

اس آیت کو سمجھنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے، میں تین سوالات پوچھوں گا۔

I۔ سب سے پہلے، کیا لوگوں کے دو گروہ تھے، ایک ’’خدائی کو ماننے والا‘‘ اور ایک ’’بے دینی کو ماننے والا‘‘َ؟

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو سکھایا گیا ہے کہ سیلاب کے وقت زمین پر لوگوں کے دو گروہ تھے، ’’خدائی‘‘ کو ماننے والےجو سیت کی اولادوں میں سے تھے، اور بے دینی کو ماننے والے جو قائین کی اولادوں میں سے تھے۔ سیکوفیلڈ کا مطالعۂ بائبل The Scofield Study Bible پیدائش، باب چھ، آیت چار پر اپنی غور طلب بات میں یہی سکھاتی ہے:

یکساں عبرانی اور مسیحی تشریح یہ کہتی رہی ہے کہ آیت 2 سیت کی خدائی کو ماننےوالے لوگوں اور قائین کی بدینی کو ماننے والے لوگوں کے درمیان علیحدگی کے ٹوٹنے کی نشاندہی کرتی ہے، اور اسی طرح یہوواہ کی گواہی کی ناکامی سیت کے لوگوں کے ساتھ وابستہ ہے۔

میں کئی سالوں تک اس تشریح پر یقین کرتا رہا۔ جبکہ سیکوفیلڈ کی غور طلب بات کہتی ہے کہ یہ ’’یکساں عبرانی اور مسیحی تشریح‘‘ ہے، یہ ڈاکٹر میرل ایف انگر، یا ڈاکٹر ایم آر ڈیحان (حوالہ دیکھیں ایم آر ڈیحان، ایم ڈیMr. R. DeHaan, M.D.، ںوح کا زمانہ The Days of Noah،ژونڈروان Zondervan، 1963، صفحہ 139-151) ) کی تشریح نہیں تھی۔ ڈاکٹر ڈیحان نے کہا:

اس عجیب و غریب بیان کی دو تشریحات ہیں [پیدائش 6:1-7 میں]۔ خدا کے بیٹوں اور آدمیوں کی بیٹیوں کے مِلاپ کی عام طور پر قبول شدہ وضاحت یہ ہے کہ پہلے لوگ سیت کی خدا پرست اولاد تھے، اور مردوں کی بیٹیاں شریر قائین کی اولاد تھیں۔ ڈاکٹر سی آئی سیکوفیلڈ Dr. C. I. Scofield نے اس حوالے پر اپنی غور طلب بات میں اس عام طور پر قبول شدہ نظریہ کا خلاصہ کیا ہے…
یہ نوح کے زمانے میں ان جنات کی پیدائش کا عام طور پر قبول شدہ نظریہ ہے۔ تاہم، ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ وضاحت مکمل طور پر غلط ہے اور یہ کہ خدا کے بیٹے درحقیقت گرے [آسمان سے نکالے] ہوئے فرشتے تھے، لفظی شیاطین جنہوں نے انسانوں کی بیٹیوں کے مافوق الفطرت تصور سے جنات کہلانے والے شیطانوں کی ایک نسل پیدا کی تھی…
جب ہم بہت سے لوگوں کے اس استدلال کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس سے مراد سیت کی خدا پرست اولاد (تمام خواتین) اور قائین کی بے ایمان اولاد (تمام مرد) کی شادی ہے، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قریبی جانچ کے تحت قائم نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ بہت زیادہ مشکلات اور مسائل کو پیش کرتا ہے۔ اگر حوالہ سیت کی خدا پرست بیٹیوں اور قائین کے بے دین بیٹوں کا ہے تو ہمیں وضاحت کرنی چاہئے:

1. کیوں یہ ملاپ صرف سیت کی اولادوں میں سے عورتوں کے ساتھ اور قائین کی اولادوں میں سے مردوں کے درمیان ہی تھا اور کیوں سیت کی اولادوں میں سے(مردوں کے بیٹوں) اور قائین کی اولادوں میں سے عورتوں (خدا کی بیٹیاں) کے درمیان نہیں تھا۔

2. کیا سیت کی تمام اولادیں عورتیں اور قائین [کی تمام اولادیں] مردوں کی تھیں؟ کیا سیت کی تمام اولاد مومنین اور قائین کی تمام اولادیں کافر تھی؟

3. ہم جنات کی پیدائش، بڑے قد کے اور غیر معمولی ذہانت کے حامل انسانوں کو، ایمانداروں کے ساتھ کافروں کے مِلاپ کے نتیجے کا کیسے حساب دیتے ہیں؟… تو پھر ہم اس حقیقت کا حساب کیسے لیں گے کہ پیدائش 6 میں اس مِلاپ سے ہونے والی اولادیں یہ غیر معمولی انسان تھے جِنہیں جنات کہا جاتا ہے؟

4. اگر خدا کے یہ بیٹے خدا پرست سیت کی اولاد تھے اور انسانوں کی بیٹیاں شریر قائین کی اولاد تھیں، تو اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی مخلوط شادی ایک بڑا گناہ تھا جس نے سیلاب کے فیصلے کو جنم دیا۔ یہ محض انسانوں کی مخلوط شادی کا غیر مساوی جوڑا نہیں ہو سکتا تھا۔

صرف یہ حقائق ہی عام طور پر قبول شدہ وضاحت کو ناقابل قبول بنا دیتے ہیں۔ (ایم آر ڈیحان، ایم ڈی۔ M. R. DeHaan, M.D.، نوح کا زمانہThe Days of Noah، ژونڈروان Zondervan، 1963، صفحات140۔142)۔

ڈاکٹر ڈیحان نے پیدائش6: 4 کے بارے میں بالکل وہی موقف اختیار کیا جیسا کہ میرل ایف انگر، پی ایچ ڈی، ٹی ایچ ڈی، ڈیلاس تھیولوجیکل سیمینری میں عہد نامہ قدیم کے مرحوم پروفیسر نے اختیار کیا تھا۔ (حوالہ دیکھیں پرانے عہدنامے پر اُونگر کا تبصرہ Unger’s Commentary on the Old Testament، موڈی پریسMoody Press، 1981، جلد 1، صفحہ 36-37)۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر اونگر اور ڈاکٹر ڈیحان نے جو کہا تھا وہ درست تھا۔

II۔ دوسری بات، کیا مسیح پرست اولادوں کو نام نہاد کہلائی جانے والی ’’دینی اولادوں‘‘ کے ساتھ اُلجھایا گیا ہے؟

نام نہاد کہلائی جانے والی ’’سیت کی خدا پرست اولادیں‘‘ پیدائش6: 4 کی جھوٹ پر مبنی سمجھ کی بنیاد پر ہے، اور لوقا3: 23-38 میں دی گئی مسیح پرست اولادوں کے درمیان اور نام نہاد کہلائی جانے والی ’’خدا پرست اُولادوں‘‘ کے درمیان ایک الجھن پر مبنی ہے۔ اگر پیدائش6: 4 میں ’’سیت کی خدا پرست اولادوں‘‘ کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے تو نوح کے زمانے میں ’’دیندار‘‘ لوگوں کے ایسے گروہ کے لیے کوئی صحیفائی حمایت نہیں ہے۔ آپ کے ساتھ صرف مسیح پرست اولادیں رہ گئی ہے، اور کوئی دیندار گروہ موجود نہیں ہے۔ مسیح پرست اولادیں فی نسل صرف ایک فرد پر مشتمل ہے! یہ لوگوں کی کوئی نام نہاد کہلائی جانے والی ’’دیندار اولادوں‘‘ پر مشتمل نہیں ہے۔

میں کہتا ہوں کہ مسیح پرست اولادیں ہر نسل میں صرف ایک شخص پر مشتمل تھیں۔ ہمیں پیدائش، باب پانچ میں یہی پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں غلط ہوں تو اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا میں نوح کے بارے میں غلط ہوں! نوح مسیح پرست اولادوں کے سلسلے میں واحد شخص تھا جو بچایا گیا تھا (حوالہ دیکھیں، پیدائش5: 29-32؛ 6: 8؛ II پطرس2: 5)۔ بائبل خاص طور پر ہمیں بتاتی ہے کہ خُدا نے ’’آٹھویں شخص نوح کو بچایا… بے دینوں کی دنیا پر سیلاب لایا‘‘ (2۔ پطرس2: 5)۔ یہ آیت ہمیں دکھاتی ہے کہ سیلاب میں صرف آٹھ لوگ بچائے گئے تھے، اور باقی سب ’’بے دین‘‘ تھے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سیت کی کوئی ’’دیندار اولادیں‘‘ نہیں تھیں۔ نوح کے زمانے میں ایسی ’’اولادوں کا سلسلہ‘‘ موجود نہیں تھا! اسے مفسرین نے ایجاد کیا ہے اور خدا کے کلام میں نہیں ملتا!

اگر آپ کو دو چیزوں کا احساس ہو تو سیت کی ’’دیندار اولادیں‘‘ غائب ہو جاتی ہے:


(1) مسیح پرست اولادیں، جو پیدائش، باب پانچ میں دی گئی ہیں، ہر نسل میں صرف ایک شخص پر مشتمل ہے، جس کا نام پیدائش، باب پانچ میں ہے۔

(2) خدا کے بیٹے اور لوگوں کی بیٹیاں آسیبوں اور انسانی عورتوں کا حوالہ دیتے ہیں، نہ کہ کسی قائین کے ’’بے دین‘‘ یا سیت کی ’’دیندار اولادوں‘‘ کا حوالہ۔


میں اِس بات پر قائم ہوں کہ سیت کی ’’دیندار اولادوں‘‘ جیسی کوئی بات نہیں تھی۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ایک غلط خیال ہے، جسے سیکوفیلڈ نے مقبول کیا، اور [یہ بات] خود بائبل میں نہیں پائی جاتی۔ میں سیکوفیلڈ مطالعہ بائبل Scofield Study Bible میں ہر بات کی مذمت نہیں کر رہا ہوں۔ زیادہ تر غور طلب باتیں اچھی اور کلامی ہیں۔ میں ہر عبادت میں سیکوفیلڈ بائبل سے تبلیغ کرتا ہوں۔ لیکن یہ خاص تشریح میرے خیال میں غلط ہے۔

III۔ تیسری بات، یہ موضوع اس قدر مبہم اور الجھا ہوا کیوں ہے؟

میرے خیال میں اِس کی دو بنیادی وجوہات ہیں:


(1)  آجکل بہت سے لوگ آسیبوں اور شیطان کو سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔

(2)  نئے جنم کی تبلیغ کے بجائے ایک سطحی، "فیصلہ کن" تشریح و تفسیر کی گئی ہے۔


پہلی وجہ یہ ہے کہ ’’سیت کی دیندار اولادوں کے سلسلے – قائین کی بے دین اولادوں کے سلسلے کو اپنایا گیا تھا کیونکہ آسیبون اور شیطان کو بہت سے لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں۔ کیا! کیا ہم یہ مان لیں کہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی بائبل میں درج شیطانی سرگرمیوں کا ذکر کیے بغیر ہوئی؟ میں اس پر یقین نہیں کر سکتا۔ واضح طور پر، شیطان نوح کے دنوں میں دنیا میں کام کر رہا تھا۔ ایک روحانی شخص اسے پیدائش6: 4 میں دیکھ سکتا ہے،

’’اُن دِنوں میں زمین پر بڑے قدآور اور مضبوط لوگ موجود تھے؛ بلکہ بعد میں بھی تھے، جب خدا کے بیٹے انسانوں کے بیٹیوں کے پاس گئے اور اُن سے اولاد پیدا ہوئی۔ یہ قدیم زمانے کے سورما اور بڑے نامور لوگ تھے‘‘ (پیدائش6: 4)۔

ڈلاس تھیولوجیکل سیمنری کے ڈاکٹر میرل ایف انگر نے نشاندہی کی کہ یہ ’’[آسمان سے] گرے ہوئے [گمراہ] فرشتوں کے ساتھ مل کر رہنے کے انسان کے گناہ‘‘ کو بیان کرتا ہے۔ (پرانے عہد نامے پر اُونگر کا تبصرہUnger’s Commentary on the Old Testament، صفحہ 36)۔ لیکن ڈاکٹر سیکوفیلڈ نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ ’’فرشتوں کے بارے میں بے جنس طریقے سے بات کی جاتی ہے‘‘ (پیدائش6: 4 پر غور طلب بات)۔ سیکوفیلڈ کا خیال متی22: 30 پر مبنی ہے، جو کہتا ہے،

’’کیونکہ جب قیامت ہو گی تو [لوگ] شادی بیاہ نہیں کریں گے بلکہ آسمان پر فرشتوں کی مانند ہوں گے‘‘ (متی22: 30)۔

لیکن یہ آیت صرف ’’آسمان میں خدا کے فرشتوں‘‘ کی بات کرتی ہے۔ یہ [آسمان سے] گرے ہوئے [گمراہ] فرشتوں کا کوئی ذکر نہیں کرتی! اس طرح، میں مانتا ہوں کہ ڈاکٹر سیکوفیلڈ نے پیدائش6: 4 پر اپنی غور طلب بات میں متی 22 باب کا غلط حوالہ یہ کہہ کر دیا، ’’شادی فرشتوں میں انجانی بات ہے۔‘‘ یسوع صرف آسمانی فرشتوں کی بات کر رہا تھا!

شیطان اور آسیبوں کی طاقت کو کم کرنے سے، بہت سے مبصرین نے لوگوں کو ہمارے زمانے میں شیطانی فریب کے خوفناک خطرے سے خبردار نہیں کیا ہے۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی24: 37)۔

دوسری بات، ایک سطحی ’’فیصلہ کن‘‘ تشریح کی گئی ہے۔ سیکوفیلڈ ’’سیت کی خدائی اولادوں کے سلسلے اور قائین کی بے دین اولادوں کے سلسلے‘‘ کے درمیان علیحدگی کے ٹوٹ جانے کے بارے میں بات کرتا ہے، اور اس طرح یہوواہ کی گواہی کی ناکامی سیت کی بے دین اولادوں کے سلسلے پر قائم ہے‘‘ (پیدائش 6: 4 پر سیکوفیلڈ کی غور طلب بات)۔ میں کہتا ہوں – یہ بات بکواس ہے! اگر آپ پیدائش6: 4 کی اس غلط تشریح کو توڑتے ہیں تو اس طرح کے خیال کی پشت پناہی کرنے کے لیے کوئی الہٰامی صحیفہ نہیں ہے۔

نیز، نجات اس طرح پہلے مقام پر کام نہیں کرتی ہے! آپ گرجا گھر کے بچوں کو ایک دوسرے سے شادی کرنے اور گرجا گھر میں نہ آنے والے بچوں سے الگ رہنے کے ذریعے کسی فرقے یا مقامی کلیسیا کو ’’محفوظ‘‘ نہیں رکھ سکتے۔ یہ بات تو بالکل وہی ہے جو فریسیوں نے سکھایا، لیکن یہ بائبل کے لیے غلط ہے۔ بائبل یہ نہیں سکھاتی ہے کہ آپ انہیں کافروں سے شادی کرنے سے روک کر ایک ’’دیندار اولادوں کے سلسلے‘‘ کو بڑھا سکتے ہیں! نہیں! نہیں! نہیں! ہر ’’کلیسیا کے ہر ایک بچے‘‘ کو دوبارہ جنم لینا چاہیے (یوحنا3: 3، 7)۔ تخلیق نو کے بغیر علیحدگی فریسیوں کی تعلیم [فریسی اِزم] کو جنم دیتی ہے اور کچھ نہیں!

میں بہت ڈرتا ہوں کہ نوح کے دنوں میں ’’علیحدگی کی تنزلی‘‘ کے بارے میں سیکوفیلڈ کی تعلیم ان عقائد میں سے ایک ہے جس نے ہمارے گرجا گھروں کو مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے [غیر تبدیل شدہ] ’’کلیسیا کے بچوں‘‘ سے بھرنے میں مدد کی ہے۔ ان بچوں نے ’’یسوع کو اپنے دلوں میں آنے کو کہا‘‘ اور ’’بُلاہٹ کے وقت‘‘ پر اپنے ہاتھ اٹھائے – لیکن وہ اب بھی قائین کی اولادیں ہیں! وہ سطحی طور پر ہاتھ اٹھا کر یا کسی مشینی دعا کے طوطے کے طرح رٹے رٹائےالفاظ کو ادا کر کے کسی نام نہاد کہلانے والی ’’سیت کی دیندار اولادوں کے سلسلے‘‘ میں شامل نہیں ہوئے! وہ بپتسمہ دینے والے گھر میں پیدا ہو کر یا بپتسمہ دینے والے اسکول میں جا کر ’’سیت کی دیندار اولادوں کے سلسلے میں شامل نہیں ہوئے! وہ اب بھی ’’قائین کی بے دین اولادوں کے سلسلے‘‘ میں ہیں – اور وہ اب بھی خُدا کی سزا کے تحت آئیں گے۔ ’’جب تک ایک انسان نئے سرے سے جنم نہیں لیتا وہ خدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا‘‘ (یوحنا3: 3)۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج بہت سے گرجا گھروں میں اس کی منادی نہیں کی جا سکتی ہے – کیونکہ ان میں سے بہت سے گرجا گھروں کو ’’قائین کے بے دین اولادوں کے سلسلے‘‘کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے – بشمول مُناد حضرات اور سنڈے سکول کے اساتذہ – اور یہاں تک کہ کچھ مبلغین بھی! نیا جنم ہمارے بہت سے گرجا گھروں میں ایک غیر ملکی نظریہ ہے جیسا کہ وائٹ فیلڈ اور ویزلی کے دنوں میں انگلستان کے گرجا گھروں میں تھا! وائٹ فیلڈ اور ویزلی دونوں کو گرجا گھروں سے باہر کر دیا گیا کیونکہ پادریوں کو ڈر تھا کہ ’’نئے جنم‘‘ پر ان کے واعظ ان کے گرجا گھروں کو تقسیم کر دیں گے۔ یہ آج کل بہت سے ’’قدامت پسند‘‘ گرجا گھروں میں سچ ہے۔ ’’ہمارے پاس نئے جنم پر مضبوط واعظ نہیں ہونے چاہئیں،‘‘ وہ کہتے ہیں! لہذا، ہمارے زمانے میں انجیلی بشارت کے بے شمار لوگ گمراہ ہیں – جہنم میں جا رہے ہیں!

تمہیں نئے سِرے سے جنم لینا چاہیے، تمہیں نئے سرے سے جنم لینا چاہیے،
میں بار بار تم سے کہتا ہوں، تمہیں نئے سرے سے جنم لینا چاہیے۔
     (’’تمہیں نئے سرے سے جنم لینا چاہیےYe Must Be Born Again‘‘ شاعر ولیم ٹی سلیپرWilliam T. Sleeper، 1819۔1904)۔

نوح کے زمانے کے لوگ مذھبی تو تھے لیکن گمراہ تھے۔ مہربانی سے پیدائش4: 26 آیت دیکھیں،

’’اور سیت کے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہوا اور اُس نے اُس کا نام انوس رکھا۔ اُس وقت سے لوگ یہوواہ کا نام لے کر دعا کرنے لگے‘‘ (پیدائش4: 26)۔

یہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ خداوند کا نام پکار رہے تھے۔ لیکن ان میں سے شاید ہی کوئی نجات پا سکا۔ نام نہاد ’’سیت کی دیندار اولادوں کا سلسلہ‘‘ سیلاب میں ڈوب گیا! انہوں نے خُداوند کا نام پکارا تھا، لیکن وہ جہنم میں چلے گئے – ان میں سے لاکھوں! حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا میں صرف آٹھ لوگ بچائے گئے! خدا نے

’’آٹھویں شخص نوح کو بچایا… بے دینوں کی دنیا پر سیلاب لایا‘‘ (2۔ پطرس2: 5)

اور ہمارے زمانے میں – یہ اِسی طریقے سے دوبارہ سے ہے۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی24: 37)۔

’’بعد میں باقی کنواریاں بھی آ گئیں اور کہنے لگیں، اے خداوند، اے خداوند، ہمارے لیے دروازہ کھول دے۔ لیکن اُس نے جواب دیا، سچ تو یہ ہے میں تمہیں جانتا ہی نہیں۔ لہٰذا جاگتے رہو کیوںکہ تمہیں نہ تو اُس دِن کا پتا ہے نہ اُس گھڑی کی خبر ہے‘‘ (متی25: 11۔13)۔

میں آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ ابھی جبکہ وقت باقی ہے مسیح کے پاس چلے آئیں! جیسا کہ اشعیا نبی اِس کو تحریر کرتا ہے،

’’جب تک خداوند مل سکتا ہے اُس کے طالب رہو‘‘ (اشعیا55: 6)۔

آپ اپنے پورے دل اور دماغ کے ساتھ ایسا کریں! آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

نوح کا زمانہ – حصّہ چہارم
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 15)

THE DAYS OF NOAH – PART IV
(SERMON #15 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
By Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی24: 37)۔

(پیدائش4: 25۔26)

I۔   سب سے پہلے، کیا لوگوں کے دو گروہ تھے، ایک ’’خدائی کو ماننے والا‘‘ اور ایک ’’بے دینی کو ماننے والا‘‘َ؟ پیدائش6: 1۔7 .

II۔  دوسری بات، کیا مسیح پرست اولادوں کو نام نہاد کہلائی جانے والی ’’دینی اولادوں‘‘ کے ساتھ اُلجھایا گیا ہے؟ پیدائش6: 4؛ لوقا3: 23۔38؛
پیدائش5: 29۔32؛ پیدائش6: 8؛ 2پطرس2: 5 .

III۔ تیسری بات، یہ موضوع اس قدر مبہم اور الجھا ہوا کیوں ہے؟
پیدائش6: 4؛ متی22: 30؛ یوحنا3: 3، 7؛
پیدائش4: 26؛ 2پطرس2: 5؛ متی24: 37؛
متی25: 11۔13؛ اشعیا55: 6 .