Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


پیتل کے سانپ پر دھیان و گیان

MEDITATIONS ON THE SERPENT OF BRASS
(Urdu)

پاسٹر جیک نعان کی جانب سے
by Jack Ngann, Pastor

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغ کیا گیا ایک واعظ
خداوند کے دِن کی دوپہر، 26 جون، 2022
A sermon given at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, June 26, 2022

’’اور موسیٰ نے ایک پیتل کا سانپ بنا کر اُسے کھمبے پر لٹکا دیا، تب جب کبھی کسی کو سانپ ڈس لیتا اور وہ اُس پیتل کے سانپ کی طرف دیکھتا تو زندہ بچ جاتا‘‘ (گنتی21: 9)۔

چند ہفتے پہلے، میں ’’پیتل کا سانپ‘‘ کے عنوان سے ایک پیغام لایا تھا جو اصل میں میرے پادری ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر نے لکھا تھا اور اس کی تبلیغ کی تھی۔ اس پیغام میں ہمیں خدا اور موسیٰ کے خلاف بنی اسرائیل کے بڑبڑانے کی یاد دلائی گئی تھی۔ مصر میں غلامی سے چھٹکارا پانے کے باوجود اس دنیا نے سب سے بڑے معجزے دیکھے تھے۔ پھر ہم نے بڑبڑانے کا نتیجہ دیکھا جب آخر کار خدا نے اپنا تحفظ کا ہاتھ ہٹا دیا اور سانپوں نے جو ابتدا میں کیمپ سے بچتے تھے اب اس پر حملہ کیا اور بنی اسرائیل کو کاٹ کر مار ڈالا۔ آخر میں، ہم نے دیکھا کہ کس طرح خُدا نے اپنے فضل سے پیتل کے سانپ کے ذریعے سزا کا علاج فراہم کیا اور اس کا مسیح کی قربانی سے کیسے قریب سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ جوں جوں میں نے ان آیات پر مزید غور کرنا شروع کیا، تو وہاں اضافی نکات ملے جن کے ذریعے سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ گمراہ ہوئے [لوگوں] اور نجات پائے ہوئے [لوگوں] دونوں پر لاگو ہوتے ہیں۔

سب سے پہلے، ڈاکٹر ہائیمرز نے ایک بار نشاندہی کی تھی کہ پیتل کے سانپ کی طرف دیکھنا ان لوگوں کو نجات دلانے کے لیے کافی تھا جو مصیبت میں تھے۔ ہم گنتی باب 1 سے سیکھتے ہیں کہ وہاں 600,000 سے زیادہ لوگ تھے جو اسرائیل کے مختلف قبائل کے بیٹے تھے۔ یہ تعداد اسرائیل کی فوج پر مشتمل تھی اور اس میں صرف 20 سال اور اس سے زیادہ عمر کے مرد شامل تھے جو لڑنے کے قابل تھے۔ لہذا، اگر ہم خواتین، بچوں اور دیگر کو شامل کریں تو یہ تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہوگی۔ 10 لاکھ سے زیادہ افراد اور ان کے ریوڑ، سامان، گاڑیاں اور خیمے سب ایک ساتھ مضبوطی سے بھرے ہوئے ہیں، پیتل کے سانپ کو دیکھنا مشکل ہو گا چاہے وہ بڑا ہی کیوں نہ ہو اور بہت اونچے کھمبے پر ہو۔ لیکن اگر بنی اسرائیل جسمانی طور پر پیتل کے سانپ کو نہیں دیکھ سکتے تھے تو وہ کیسے بچ سکتے تھے؟ یہی وہ جگہ ہے جہاں پر انجیل کی خوبصورتی چمکتے رہنا جاری رکھتی ہے۔ آئیے یوحنا3: 14-15 کو دیکھیں۔

’’جس طرح موسیٰ نے بیابان میں پیتل کے سانپ کو لکڑی پر لٹکا کر اونچا کیا، اُسی طرح ضروری ہے کہ ابنِ آدم بھی بُلند کیا جائے: تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا3: 14۔15)۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح میں ایمان کا عمل وہ ہے جو نجات کے لیے شمار ہوتا ہے، جسمانی طور پر اسے دیکھنے سے [شمار] نہیں ہوتا۔ اگر نجات کے لیے دیکھنا ضروری تھا، تو مسیح کے آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعد ہم سب بد قسمتی کا شکار ہو گئے ہوتے۔ یسوع نے خود اس آیت میں وضاحت فراہم کی جس کو ہم نے ابھی پڑھا ہے، ’’کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو، بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔‘‘ لہٰذا، کیمپ کے مضافات میں رہنے والے ایک مصیبت زدہ اسرائیلی کے ساتھ کیا ہوگا جو تیز بخار سے اپنی بینائی کھو بیٹھا تھا جو دھشت ناک سانپ کے کاٹنے سے چڑھا تھا؟ کیا وہ اندھیرے میں اندھا دھند گھومتا پھرتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو ہم اس سے سوال نہیں کریں گے، کیونکہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اس کے اپنے گناہ کا نتیجہ تھا۔ لیکن خدا نے اپنی رحمت سے پیتل کے سانپ میں علاج فراہم کیا۔ اگر وہ ایمان کے ساتھ سانپ کی سمت دیکھتا تو وہ بھی زندہ رہتا۔

دوسری بات، ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ سانپ کو دیکھتے تھے وہ زندہ رہتے تھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں تکلیف نہیں ہوئی۔ اگرچہ میں انسانوں کی بدحالی کی گہرائیوں پر حیران نہیں ہوں گا، لیکن مجھے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ مصیبت زدہ بنی اسرائیل اپنے آس پاس کے لوگوں کو معجزانہ طور پر ٹھیک ہوتے دیکھ کر پیتل کے سانپ کو دیکھنے سے انکار کر دیں گے۔ لیکن میری سوچ میں ایک خامی تھی۔ بائبل نے کبھی نہیں کہا کہ بنی اسرائیل پیتل کے سانپ کو دیکھ کر شفا پائیں گے، بائبل صرف بار بار کہتی ہے کہ وہ زندہ رہیں گے۔

’’تب وہ لوگ موسیٰ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہم نے گناہ کیا ہے کہ ہم نے خُداوند کے اور تیرے خلاف زبان درازی کی۔ دُعّا کر کہ خُداوند اِن سانپوں کو ہم سے دور کر دے۔ چناچہ موسیٰ نے لوگوں کے لیے دُعّا کی۔ خُدا نے موسیٰ سے کہا کہ ایک سانپ بنا لے اور اُسے کھمبے پر لٹکا اور سانپ کا ڈسا ہوا جو کوئی اُسے دیکھ لے گاوہ زندہ بچے گا۔ چناچہ موسیٰ نے پیتل کا ایک سانپ بنا کر اُسے کھمبے پر لٹکا دیا۔ تب جب کبھی کسی کو سانپ ڈس لیتا وہ اُس پیتل کے سانپ کی طرف دیکھتا تو زندہ بچ جاتا‘‘ (گنتی21: 7۔9)۔

’’یہ کیوں ضروری ہے؟‘‘، آپ پوچھ سکتے ہیں؟ یہ اس لیے ہے کہ باہر سے، گمراہ ہویا ہوا اور بچایا ہوا ایک جیسے ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ہم ظاہری شکل کو دیکھ کر یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کوئی گمراہ ہو گیا یا بچ گیا۔ ان مصیبت زدہ بنی اسرائیلیوں کی طرح جنہیں دھشت ناک سانپوں کے کاٹنے کے بعد پیتل کے سانپ پر نظر پڑنے کے بعد درد، تیز بخار اور تشنج [جیسی بیماریاں] ہوئی تھی، وہ اب بھی وہی درد، تیز بخار اور تشنج [کے دورے] محسوس کر رہے ہوں گے… فرق یہ ہے کہ وہ مرے نہیں تھے۔ ایک مسیحی اسی طرح کی آزمائشوں میں سے دُنیا کے ایک بچے کی حیثیت سے گزرے گا۔ دونوں آزمائشوں، مصیبتوں، بیماریوں اور دکھوں سے گزریں گے۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ آیا وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ مسیح میں ایمان لے آنے کی تبدیلی کے بعد زندگی سُکھی ترین اور خوشیوں سے بھرپور ہو جائے گی، تو مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ تمام مسیحی زندگی میں بلندی اور پستی کا تجربہ کریں گے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، ہم دنیا کی بہت سی ایسی ہی آزمائشوں اور فتنوں سے گزریں گے۔ اس کے علاوہ، مسیحی بھی شیطان اور شیطانی حملوں کا تجربہ کریں گے۔ اگر ایسا ہے تو ہم مسیح پر بھروسہ کیوں کریں؟ آئیے یوحنا کے 3 باب کو دوبارہ دیکھتے ہیں۔

’’اور جس طرح موسیٰ نے بیابان میں پیتل کے سانپ کو لکڑی پر لٹکا کر اونچا کیا، اُسی طرح ضروری ہے کہ ابنِ آدم بھی بُلند کیا جائے: تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے مر نہ جائے بالکہ ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا3: 14۔15)۔

زندگی. ایک مسیحی ہلاک نہیں ہوگا بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔ یسوع پر بھروسہ کرنے کے بعد، ایک مسیحی ہمیشہ کی زندگی پائے گا۔ ہم اونچ نیچ کا تجربہ کریں گے، جسے میں طب میں EKG مشین سے تشبیہ دیتا ہوں۔ چوٹیوں اور وادیوں کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ زندہ انسان ہیں۔ خوش قسمتی سے پہاڑ کا خدا بھی وادی کا خدا ہے۔ اگر آپ کو چوٹیوں اور وادیوں کا تجربہ نہیں ہے، تو آپ نے [سب کچھ] ملیا میٹ کر لیا ہے اور کسی کو یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا آپ زندہ ہیں۔ جی ہاں، ایک مسیحی کو اب بھی دنیا کی بہت سی ایسی ہی آزمائشوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جی ہاں، وہ شیطان اور شیاطین کا نشانہ بن جائے گا۔ جی ہاں، ابدی زندگی کا راستہ غدار ہوگا اور دکھوں اور آنسوؤں اور شاید خون سے ہموار ہوگا… لیکن مسیحی اس سڑک پر اکیلے نہیں چلے گا۔ دوسرے لوگ جو ہم سے پہلے اس راستے پر چل چکے ہیں وہ ہماری رہنمائی کے لیے حاضر ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے اپنے واعظوں اور ای میل کے جوابات کے ذریعے اس گرجا گھر میں اور گرجا گھر سے باہر والوں کو بھی انمول رہنمائی فراہم کی ہے۔ اس سے بڑھ کر، خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کو ایسی آزمائش سے گزرنے نہیں دے گا جسے آپ برداشت نہیں کر سکتے۔

’’تم کسی ایسی آزمائش میں نہیں بڑے جو انسان کی برداشت سے باہر ہو۔ خدا پر بھروسہ رکھو وہ تمہیں تمہاری قوت برداشت سے زیادہ سخت آزمائش میں پڑنے ہی نہ دے گا۔ بلکہ جب آزمائش آئے گی تو اِس سے بچ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دے گا تاکہ تم برداشت کر سکو‘‘ (1 کرنتھیوں10: 13)۔

دنیا بھر میں ہمارے بھائی اور بہنیں زندہ شہید ہیں۔ وہ خاندان، دوستوں، پڑوسیوں اور حکومت کی طرف سے آزمائشوں اور مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کی مذمت کی جا رہی ہے، مارا پیٹا جا رہا ہے، قید کیا جا رہا ہے، تشدد کیا جا رہا ہے، اور یہاں تک کہ مار دیا جا رہا ہے۔ پھر بھی وہ وفاداری سے اس راستے پر چلتے رہتے ہیں جو ابدی زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر آپ کسی کو ایک طرف کھینچیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ ایسی مشکلات سے کیوں گزرنے کے لیے تیار ہیں، تو وہ تباہی کے شہر سے بھاگتے ہوئے زائرین کی ترقی Pilgrim's Progress والے مسیحی کی طرح جواب دیں گے، ’’زندگی، زندگی، ابدی زندگی۔‘‘ یسوع نے ہم سے وعدہ نہیں کیا کہ مسیحی زندگی آسان ہو گی۔ اس نے دراصل اس کے برعکس کہا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ،

’’تم دُنیا میں مصیبتیں اُٹھاتے ہو مگر ہمت سے کام لو۔ میں دُنیا پر غالب آیا ہوں‘‘ (یوحنا16: 33)۔

’’میری یہ بات یاد رکھو کہ کوئی نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ اگر دُنیا والوں نے مجھے ستایا ہے تو وہ تمہیں بھی ستائیں گے…‘‘ (یوحنا15: 20)۔

اور پطرس نے ہمیں 1 پطرس 2 باب میں بتایا:

’’تم بھی اِسی قسم کی چال چلن کے لیے بُلائے گئے ہو: کیونکہ مسیح نے تمہاری خاطر دُکھ اُٹھا کر ایک مثال قائم کر دی تاکہ تم اُس کے نقشِ قدم پر چل سکو‘‘ (1پطرس2: 21)۔

ان آیات سے، ہم دیکھتے ہیں کہ مشکل یا مصیبت ایک عام معیار یا معمول ہے۔ آسانی سے یقین کر لینے والی تعلیم کا مذہب اور مقصد کے تحت گزاری جانے والی زندگی اور خوشحالی کی الہیات عام معیار یا معمول نہیں ہیں، اور میں کہنے کے لیے اِس حد تک جاؤں گا کہ یہ مسیحیت نہیں ہے! وہ مختلف مذاہب ہیں! ایک مبلغ کہتا ہے، ’’مسیحی زندگی آسان ہونے والی ہے!‘‘ میرا جواب، ’’یہ رچرڈ ورمبرینڈ Richard Wurmbrand کو بتائیں جنہوں نے مسیح کے لیے بولنے پر 14 سال قید اور اذیتیں برداشت کیں۔‘‘ ایک مبلغ کہتا ہے، ’’مقصد پر مبنی زندگی گزارنا آپ کو طویل عرصے تک زندہ رہنے میں مدد دے گا۔‘‘ میرا جواب، ’’یہ ڈیٹریچ بونہوفر Dietrich Bonhoeffer کو بتاؤ جو 39 سال کی عمر میں جرمنی میں نازیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔‘‘ ایک مبلغ کہتا ہے، ’’خدا چاہتا ہے کہ تم امیر بنو!‘‘ میرا جواب، ’’یہ بات پولوس رسول کو بتاؤ جس نے ہر چیز کا نقصان اٹھایا اور انہیں [اُن چیزوں کو] گوبر کے طور پر شمار کیا تاکہ وہ مسیح کو جیت سکے۔‘‘ یہ پولوس رسول ہی تھا جس نے لکھا،

’’اور صرف یہی نہیں ہم اپنی مصیبتوں میں بھی خوش ہوتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مصیبت سے صبر پیدا ہوتا ہے۔ اور صبر سے مستقل مزاجی اور مستقل مزاجی سے اُمید پیدا ہوتی ہے۔ ایسی اُمید ہمیں مایوس نہیں کرتی کیونکہ جو پاک روح ہمیں بخشا گیا ہے اُس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دِلوں میں ڈٓالی گئی ہے‘‘ (رومیوں5: 3۔5)۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل کی بہت سی آیات اس خیال کی تائید کرتی ہیں کہ دھشت ناک سانپ کے کاٹے جانے والا اسرائیلی فوری طور پر شفا پانے کے بجائے مصیبت میں مبتلا رہا ہو گا۔ آزمائشوں اور مصیبتوں کو خدا کی طرف سے مسیحی کے ایمان کو جانچنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے کا حمدوثنا کا ایک عظیم گیت کہتا ہے:

جب شدید آزمائیشوں کے راستے سے تو گزرے گا،
     میرا فضل مکمل طور پر تیری ڈھال ہوگا؛
کہ شعلے تجھے نقصان نہیں پہنچائیں؛ میں نے واحد تدبیر کی ہے
     تیری گندگی کو ہڑپنے کے لیے، اور تیرے سونے کو کُندن بننے کے لیے۔‘‘
     (’’کیسی مضبوط ایک بنیاد How Firm a Foundation،‘‘ حمدوثنا کے گیتوں کی ریِپون Rippon کی سلیکشن میں ’’K‘‘، 1787)۔

تیسری بات، غور کریں کہ خدا نے اسرائیلیوں کو بالکل وہی نہیں دیا جس کے لیے انہوں نے دعا کی تھی۔ گنتی کی کتاب میں 21: 7 آیت کو دوبارہ دیکھیں۔

’’تب وہ لوگ موسیٰ کے پاس آکر کہنے لگے کہ ہم نے گناہ کیا ہے کہ ہم نے خُداوند کے اور تیرے خلاف زبان درازی کی۔ دُعّا کر کہ خُداوند اِن سانپوں کو ہم سے دور کر دے۔ چناچہ موسیٰ نے لوگوں کے لیے دُعّا کی‘‘ (گنتی21: 7)۔

بنی اسرائیل نے موسیٰ کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس سے التجا کی کہ خدا سے سانپوں کو دور کرنے کے لیے کہیں۔ تاہم، خدا نے سانپوں کو نہیں ہٹایا، بلکہ سانپ کے کاٹنے (موت) کے حتمی اثر کو بے اثر کرنے کا ایک طریقہ فراہم کیا۔ یہ ایک اہم سوچ ہے۔ اِس سے بھلا کیا فائدہ ہو گا کہ دھشت ناک سانپوں کے ڈیرے سے ایک بار چھٹکارا حاصل کیا جائے اگر ان کا سامنا بعد میں ان ہی سانپوں سے ہو جائے تو پھر۔ یہ ملیریا سے چھٹکارا پانے کے لیے افریقہ میں مچھروں کو ختم کرنے کے لیے خدا سے کہنے کے مترادف ہے، اور خدا اس دعا کا جواب ایک ایسی ویکسین فراہم کر کے دیتا ہے جو آپ کو پیراسائٹparasite [دوسروں کے خون پر پلنے والی مخلوق] سے محفوظ بناتا ہے۔ ہم یہاں کیا دیکھتے ہیں کہ خدا ہمیں وہ دے رہا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے، ضروری نہیں کہ ہم چاہتے کیا ہیں، اور یسوع کے خون کے مقابلے میں دنیا کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ خُدا نے یسوع کو انسان کے گناہ کا فدیہ ادا کرنے کی خاطر صلیب پر مرنے کے لیے بخش دیا۔ اس سے آپ کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ لیکن خُدا مہربان بھی ہے، اور وہ آپ کی خواہشات اور محبتوں کو بدل کر آپ کو یسوع کی طرف بھی کھینچے گا تاکہ آپ اُس کی چاہت کریں، اس طرح آپ کی خواہش اور آپ کی ضرورت کو اُس کے پیارے بیٹے پر سادہ ایمان کے ساتھ متحد کریں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ آپ قیمتی نجات دہندہ پر بھروسہ کریں گے۔ آمین


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔