Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


بشارتِ انجیل میں غائب عنصر –
مقامی کلیسیا میں محبت

THE MISSING ELEMENT IN EVANGELISM –
LOVE IN THE LOCAL CHURCH!
(Urdu)

پادری ایمریٹس ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے لکھا گیا ایک واعظ
اور جِسے پادری جیک نعان نے پیش کیا
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں
خداوند کے دِن کی دوپہر، 27 فروری، 2022
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr., Pastor Emeritus
and given by Jack Ngann, Pastor
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, February 27, 2022

’’میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ جس طرح میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے تو سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا13: 34۔35)۔

فسح کا کھانا ختم ہو چکا تھا۔ لیکن یسوع نے عشائے ربانی کو شروع کرنے سے پہلے توقف کیا۔ اس نے ایک تولیہ لیا، ایک برتن میں پانی بھرا، اور شاگردوں کے پاؤں دھونے لگا۔ اس نے ان سب کے [پیروں کو] دھویا اور خشک کیا، بشمول یہوداہ کے پاؤں، جو اسے دھوکہ دے گا۔ پھر فرمایا،

’’میں نے تمہیں اک نمونہ دیا ہے کہ جیسا میں نے کِیا ہے تم بھی کیا کرو‘‘ (یوحنا13: 15)۔

اُس [یسوع] کا کیا مطلب تھا؟ یہ ایک علامتی عمل تھا جس نے ایک تصویر کی مانند ہماری تلاوت کے معنوں کو ظاہر کر دیا،

’’میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ جس طرح میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے تو سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا13: 34۔35)۔

مسیح نے کہا، ’’میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ تم ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‘‘ اُس کے حکم میں نئی بات کیا تھی؟ پرانے عہدنامے میں احبار19: 18 میں لکھا ہے، ’’تو اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت کر۔‘‘ تو پھر یہ کیسے، ایک نیا حکم بنتا ہے؟ پرانا حکم کہتا ہے کہ تو اپنے پڑوسی سے ’’اپنی مانند‘‘ محبت کر۔ نیا حکم یہ ہے، ’’کہ جس طرح میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔‘‘ سپرجئین Spurgeon نے کہا، ’’کہ وہ [پرانا حکم] احسان [یا مہربانی] کی محبت ہے، لیکن یہ [نیا حکم] تعلق [رشتہ] اور قریبی تعلق کی محبت ہے‘‘ (سی ایچ سپرجیئن C.H. Spurgeon، ’’مسیح کا نیا حکم،‘‘دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، نمبر 2,936، جلد 51، صفحہ 242)۔ مزید برآں مسیح کے ’’نئے‘‘ حکم سے مراد عام طور پر دوسروں کے ساتھ مہربان ہونا نہیں ہے، بلکہ ’’یہ کہ تم ایک دوسرے سے محبت کرو۔‘‘ یہ مقامی کلیسیا میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے مسیحیوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

آخر، کیا یہ 12 شاگرد نئے عہد نامے کی پہلی کلیسیا کا دل نہیں تھے؟ یقیناً وہ تھے! اور، اس طرح، مسیح کا ’’نیا‘‘ حکم مقامی کلیسیا میں مسیحیوں کو کہتا ہے کہ ’’ایک دوسرے سے محبت کرو؛ جیسا کہ میں نے تم سے محبت کی ہے۔‘‘ مقامی مذھبی جماعت کے بھائیوں اور بہنوں کو مسیح نے کہا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے اسی طرح پیار کریں جس طرح وہ شاگردوں سے پیار کرتا تھا۔ اُن کے لیے اُس کی محبت محض ایک گزرنے والا جذبہ نہیں تھا۔ یہ اصلی تھا۔ اس نے خود کو ان کے ساتھ بانٹ لیا یا شامل کر لیا۔ اس نے ان کا خیال رکھا۔ اس نے ان کے پاؤں بھی دھوئے۔ اُس نے اُن کے لیے اپنی جان دے دی۔ اور وہ کہتا ہے کہ ہمیں ’’ایک دوسرے سے محبت کرنی ہے؛ جیسا کہ میں نے تم سے محبت کی ہے۔‘‘

ہم کام کرتے ہیں اور اپنی مقامی کلیسیا کے لیے مسیح کے نئے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ اشتراکت کرنے، ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرنے، ایک دوسرے کی خدمت کرنے کے لئے اپنے تمام دل کے ساتھ کوشش کرتے ہیں.

ایک نیا نوجوان آتا ہے اور نجات پا جاتا ہے۔ ہمیں اسے بھائی کی طرح گلے لگانا چاہیے۔ ان کی قدر کی جانی چاہئے اور ان کی دیکھ بھال کی جانی چاہئے، اور ان سے گہری محبت کی جانی چاہئے۔

ہماری شادی سے پہلے [جیک نعانJack Ngann اور ان کی بیوی]، جب میں اور میری بیوی ابھی کالج کے طالب علم تھے، ڈاکٹر اور مسز ہائیمرز مجھے اپنے گھر لے گئے۔ مسٹر اور مسز سینڈرز میری بیوی کو اپنے گھر لے گئے۔ یہ محبت اور مہربانی کا ایک عمل تھا جسے ہم آج تک پسند کرتے ہیں۔

مسیحی محبت کے یہ تاثرات مسیح کے نئے حکم کو پورا کرنے میں کہیں بہت آگے ہیں، ’’کہ تم ایک دوسرے سے محبت کرو۔ جیسا کہ میں نے تم سے محبت کی ہے۔‘‘

لیکن مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت کے اس اظہار کا گمراہ ہوئے لوگوں پر اثر پڑتا ہے جو کافی گہرا ہے۔ یہاں مقامی کلیسیا میں بے ایمانوں، غیر نجات یافتہ لوگوں پر محبت کے تین اثرات ہیں جنہیں انجیلی بشارت کے ذریعے ہمارے درمیان لایا گیا ہے۔

I۔ سب سے پہلے، مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت بے اعتقادی دنیا کے لیے ایک نشانی ہے کہ ہم مسیح کے شاگرد ہیں۔

تلاوت کی 35ویں آیت پر نظر ڈالیں۔

’’اس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو، اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہو‘‘ (یوحنا13: 35)۔

یہ محبت جو ہماری ایک دوسرے سے ہے وہ سب سے بڑی نشانی ہے جو دنیا کبھی دیکھے گی کہ ہم مسیح یسوع کے شاگرد اور پیروکار ہیں۔

ہم نظریاتی واعظوں کی تبلیغ کر سکتے ہیں، وہ واعظ جو بالکل آرتھوڈوکس اور بالکل درست ہیں، اور مضبوط انجیلی بشارت پر مبنی ہیں، لیکن اگر وہ گمشدہ لوگ جو ہماری عبادتوں میں آتے ہیں، ہماری کلیسیا میں مسیحی محبت کا گہرا اثر نہیں دیکھتے ہیں، تو وہ ہم میں کوئی غیر معمولی چیز نہیں دیکھیں گے۔ وہ یہ نہیں سوچیں گے کہ یہاں کوئی بہت اہم بات ہو رہی ہے۔ لیکن جب وہ عبادتوں اور رفاقت کے اوقات میں آتے ہیں اور حقیقت میں ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں – تب وہ یہ کہنے کے لیے متاثر ہوں گے، ’’یہ خدا کے لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یسوع کو جانتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔

’’اس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو، اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہو‘‘ (یوحنا13: 35)۔

سپرجیئن نے کہا، ’’میں آپ کو اس کی ایک بہت ہی قابل ذکر مثال بتاتا ہوں۔ مسیحیت کے ابتدائی دنوں میں، اسکندریہ میں ایک خوفناک [وبا] پھوٹ پڑی۔ بیماری میں مبتلا شخص کے قریب رہنا بہت خطرناک تھا، اور ایسے شخص کو چھونے کا مطلب تقریباً یقینی موت ہے۔ جب [وبا] پھیلی تو اسکندریہ میں کافروں نے ہر اس شخص کو اپنے گھروں سے [دھکیل دیا] جس پر اس بیماری کا معمولی سا نشان بھی تھا، اور اسے بھوکا رہنے کے لیے چھوڑ دیا، اور چھوت کے خوف سے ان کی لاشوں کو دفن بھی نہیں کیا۔ لیکن مسیحی ایک دوسرے کی عیادت کرتے تھے جب وہ [مرض] سے بیمار تھے، اور کسی مسیحی کو [اکیلے] مرنے کے لیے نہیں چھوڑا گیا تھا۔ وہ جانے کے لیے اور ایک دوسرے سے ملنے [اور دیکھ بھال] کرنے کے لیے پرجوش تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ [بیماری] کو ہر ممکن طور پر [خود کو] لگا لیں گے۔ اور اسکندریہ کی دیواروں کے باہر لاشوں کے درمیان کسی مسیحی کی ایک بھی لاش نہیں ملی... اور قوموں نے کہا، ’اس کا کیا مطلب ہے؟‘ اور پورے مصر میں جواب دیا گیا، ’یہ ناصرت کے یسوع کا مذھب ہے، کیونکہ یہ مسیحی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ دنیا میں کوئی واعظ مسیح کی محبت کا حقیقی مظہر نہیں ہو سکتا۔ اور جب خُدا اپنے گرجا گھر کو حقیقی، دلی، اور مخلص محبت سے بحال کرتا ہے… تب دنیا خوشخبری سے زیادہ متاثر ہو گی جتنا کہ اس وقت ہے‘‘ (ibid.، صفحات 249۔250)۔

ایک کلیسیا کے طور پر ہمارا مقصد ایک دوسرے سے اِس قدر شدید محبت کرنا ہے کہ،

’’اس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو، [کیونکہ] اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہو‘‘ (یوحنا13: 35)۔

جان پیٹر لانگ John Peter Lange، عظیم جرمن ماہرِ الہیات، نے نشاندہی کی کہ مسیحیت کے ابتدائی دنوں میں، ’’کافر قومیں [اکثر] حیرانی سے کہتی تھیں: ’دیکھو یہ مسیحی ایک دوسرے سے کیسی محبت کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے مرنے کے لیے کیسے تیار ہیں۔‘ لوسیئن Lucian [ایک کافر مصنف] نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’ان کو شریعت دینے والے [مسیح] نے انہیں قائل کیا ہے کہ وہ سب [بھائی اور بہنیں] ہیں‘‘ (پاک صحائف پر لانگ کا تبصرہ، جان، Lange’s Commentary on the Holy Scriptures, John، صفحہ 427

آج بھی، تیسری دنیا میں، چین، جنوب مشرقی ایشیا، ہندوستان، افریقہ، اور لاطینی امریکہ میں، ہم مسیحیوں کی ایک دوسرے کے لیے اس محبت کو کئی بار دیکھتے ہیں – بلکہ قابل ذکر طریقوں سے – اکثر انتہائی مشکل حالات میں۔ اس سے زیادہ تر مغربی مسیحیوں کو شرمندہ ہونا چاہیے۔ خدا ہماری کلیسیا کو ابتدائی مسیحیوں اور تیسری دنیا کے مسیحیوں کی طرح بننے میں مدد کرے۔ آئیے ہم مسیح کے الفاظ کو یاد رکھیں،

’’اس سے سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو، اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہو‘‘ (یوحنا13: 35)۔

مقامی کلیسیا میں مسیحیوں کا ایک دوسرے سے محبت کرنا بے ایمان دنیا کے لیے ایک طاقتور نشانی ہے کہ ہم یسوع مسیح کے سچے پیروکار ہیں!

II۔ دوسری بات، مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت اور اتحاد بے ایمان دنیا کے لیے ایک عظیم ثبوت ہے کہ ہمارا ایمان حقیقی ہے۔

مہربانی سے یوحنا17: 21 کھولیں۔

’’کہ وہ سب ایک ہو جائیں جیسے تو مجھ میں اور میں تجھ میں ہوں اے باپ، کاش وہ ہم میں بھی ایک ہو جائیں تاکہ ساری دُنیا ایمان لائے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے‘‘ (یوحنا17:21)۔

یہ ہمیں ایک قدم آگے لے جاتا ہے۔ یوحنا 35: 13 میں یسوع نے کہا کہ دنیا جان لے گی کہ ہم مسیح کے شاگرد ہیں اگر ہم ’’ایک دوسرے سے محبت رکھیں گے۔‘‘ لیکن یہاں، یوحنا 17: 21 میں، مسیح گہرائی میں جاتا ہے۔ وہ ہماری ایک دوسرے سے محبت کے ذریعے دنیا کو متاثر کرنے سے بھی آگے جاتا ہے۔ جب وہ اوپر والے کمرے سے نکلا اور گتسمنی کی طرف گیا، اس نے باپ سے دعا کی، ’’کاش وہ ہم میں بھی ایک ہو جائیں تاکہ ساری دُنیا ایمان لائے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے‘‘ (یوحنا 17:21)۔

اس آیت کا آج بہت سے لوگوں نے ’’آفاقی تحریک ecumenical movement‘‘ میں غلط استعمال کیا ہے۔ اسے ایکومینیسزم ecumenicism پر لاگو کرنا مضحکہ خیز ہے، اور یہ کہنا کہ اس کا مطلب ہے تمام فرقوں کو، جن میں سے بہت سے بدعتوں اور بے ایمان ارکان سے بھرے ہوئے ہیں، کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ مسیح ایسا کچھ نہیں کہہ رہا ہے! وہ کہتا ہے، ’’تاکہ وہ بھی ایک ہو جائیں۔‘‘ وہ کس کے لیے دعا کر رہا تھا؟ وہ اس پہلی مقامی کلیسیا کے مرکز کے لیے دعا کر رہا تھا! جب ایک مقامی کلیسیا میں اتحاد ہوتا ہے، اور وہ محبت اور اتحاد سے بھری ہوتی ہے، تو دنیا ’’یقین کرے گی کہ تو نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘

لیکن آیت 23 میں مسیح اِس سے بھی مذید آگے گہرائی میں بتاتا ہے۔

’’میں اُن میں اور تو مجھ میں، تاکہ وہ کامل طور پر ایک ہو جائیں اور دُنیا جان لے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے اور جس طرح تو نے مجھ سے محبت رکھی اُسی طرح اُن سے بھی رکھی‘‘ (یوحنا17: 23)۔

یوحنا13: 35 میں یسوع نے کہا کہ دنیا جان لے گی کہ ہم اُس کے پیروکار ہیں ’’اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں گے۔‘‘ یوحنا17: 21 میں، اُس نے کہا کہ ہمارا اتحاد اور محبت دنیا کو قائل کرے گی کہ خُدا نے اُسے اُن کے گناہوں خاطر قربان ہونے اور اُنہیں زندگی بخشنے کی خاطر مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے لیے بھیجا ہے۔ مقامی گرجا گھر میں مسیحیوں کا اتحاد اور محبت ان عقائد کے ناماننے والوں کو قائل کرے گی۔

لیکن اکیلا نظریہ نجات نہیں دیتا۔ اور اس طرح، ایک بار پھر، یوحنا17: 23 میں، اس بار گمراہ دنیا کے لیے وسیلہ کی حیثیت سے اُن کے لیے خوشخبری کو جانتے ہوئے مسیح مقامی کلیسیا میں اتحاد اور محبت کی طرف واپس چلا جاتا ہے، ۔ دوبارہ غور سے سنو،

’’تاکہ وہ [مسیحی] کامل طور پر [مکمل ہو جائیں] ایک ہو جائیں اور دُنیا جان لے کہ تو نے ہی مجھے بھیجا ہے اور جس طرح تو نے مجھ سے محبت رکھی اُسی طرح اُن سے بھی رکھی‘‘ (یوحنا17: 23)۔

ہم تب تک تبلیغ کر سکتے ہیں جب تک کہ ہمارے چہرے نیلے نہ ہو جائیں[یعنی مر نہ جائیں]۔ ہم گواہی دے سکتے ہیں جب تک کہ ہمارے جوتے [گِھس گِھس کر] ختم نہ ہوں۔ لیکن اگر گمراہ ہوئے لوگ مسیحی محبت اور اتحاد کو نہیں دیکھتے جب وہ ہمارے مقامی گرجا گھر میں آتے ہیں تو وہ ’’جان‘‘ نہیں پائیں گے کہ انجیل سچ ہے۔ وہ نہیں جانیں گے کہ مسیح نے ’’ان سے محبت کی ہے۔‘‘

اگر، دوسری طرف، ایک گمراہ شخص ہمارے گرجا گھر میں آتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے ہماری یگانگت اور محبت کو دیکھتا ہے، تو وہ ’’جان لیں گے کہ تو نے مجھے بھیجا ہے، اور اُن سے محبت کی ہے...‘‘ (یوحنا17: 23)۔

میں عام طور پر جان آر ڈبلیو اسٹاٹ John R. W. Stottکی تحریروں کی پرواہ نہیں کرتا ہوں۔ لیکن مجھے اس نے پچھلے سال لکھی ایک بات سے متاثر کیا، جو مجھے یقین ہے کہ گہرا اور صحیفائی طور پر سچ ہے۔ سٹوٹ نے کہا،

وہی غیر مرئی خُدا جس نے کبھی اپنے آپ کو یسوع میں ظاہر کیا تھا اب مسیحی [کلیسیا] میں خود کو ظاہر کرتا ہے، اگر ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اور انجیل کے تمام زبانی اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے جب تک کہ یہ [محبت سے بھری کلیسیا] کی طرف سے نہ کی جائے۔ میرا یقین ہے کہ انجیلی بشارت خاص طور پر مقامی گرجا گھر کے ذریعے، [اس کی] برادری کے ذریعے ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ انفرادی [اکیلے شخص] کے ذریعے۔ کہ گرجا گھر ایک متبادل معاشرہ ہونا چاہیے، بادشاہی کی ایک ظاہری نشانی (ڈاکٹر جان آر ڈبلیو اسٹوٹ Dr. John R. W. Stott، آج کی مسیحیت Christianity Today، اکتوبر 2006، صفحہ 97-98)۔

سٹوٹ نے کہا کہ گمراہ ہوئے لوگ خدا کو نہیں دیکھ سکتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا کوئی خدا ہے؟ لیکن جب ’’مقامی گرجا گھر‘‘ میں مسیحی لوگ ایک دوسرے سے اتنی شدت سے محبت کرتے ہیں کہ وہ ’’ایک متبادل معاشرہ‘‘ بن جاتے ہیں، تو گمراہ ہوئے لوگ اس معاشرے کا حصہ بننا چاہیں گے – اور وہ مقامی گرجا گھر کے ذریعے سے خدا کی محبت اور حقیقت کو محسوس کریں گے۔ وہ ایک اینگلیکن تھا – لیکن وہ یقینی طور پر اس زمرے میں ایک پرانے زمانے کے بپتسمہ دینے والے کی طرح لگتا ہے – اور میرے خیال میں وہ بالکل درست تھا!

اور اسی لیے ہمیں اپنے گرجا گھر کی گرمجوشی اور رفاقت میں کھوئے ہوئے لوگوں کو خوشخبری سننے اور اس مقامی گرجا گھر کی رفاقت میں اور اس کے ذریعے مسیح کی محبت کا تجربہ کرنے کے لیے لانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ کہتے، ’’تنہا کیوں رہیں؟ گھر آئیں – گرجا گھرمیں! کیوں کھوئے رہیں؟ گھر آئیں – خدا کے بیٹے، یسوع مسیح کے پاس!

اس لیے آئیے ہم ایک دوسرے سے محبت کرنے، ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے – ایک دوسرے کے لیے دعا اور مدد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ پھر، جب کسی کو ہمارے گرجا گھر میں لایا جائے گا تو وہ کہیں گے، ’’یہ مسیح کے پیروکار ہیں! خدا نے یسوع کو بھیجا ہوگا ورنہ یہ لوگ اتنے پیار کرنے والے نہیں ہوتے! اور، مجھے منادی سننے کے بعد، اور ہمارے پیار سے بھرے گرجا گھر میں ہونے کے بعد، وہ آخر کار کہیں گے، ’’میں جانتا ہوں کہ خُدا نے یسوع کو بھیجا ہے۔ یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ میں جانتا ہوں کہ یسوع مجھ سے محبت کرتا ہے!

III۔ تیسری بات، اِس کے باوجود ایک مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت کی غیر موجودگی چُنیدہ لوگوں کو مسیح کے پاس آنے سے نہیں روک پائے گی۔

یوحنا13: 27 کو دوبارہ پڑھیں۔ دیکھیں یہوداہ کے بارے میں یہ کیا کہتی ہے۔

’’اور اُس نوالے کے بعد شیطان اُس میں سما گیا۔ تب یسوع نے اُس سے کہا جو کچھ تجھے کرنا ہے جلدی کر لے‘‘ (یوحنا13: 27)۔

اس سے آگے یوحنا13: 30 آیت کو پڑھیں۔

’’جوں ہی اُس [یہوداہ] نے روٹی کا نوالہ لیا فوراً باہر چلا گیا۔ اور رات ہو چکی تھی‘‘ (یوحنا13: 30)۔

یہ کلیسیا کی اصل تقسیم ہے۔ یہ اُس وقت ہوا جب مسیح نے اُن کے پاؤں دھوئے اور اُنہیں خُداوند کا عشائیہ [آخری کھانا] دیا۔ کیا اس نے باقی شاگردوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے سے روک دیا؟ ہاں، اس نے مختصر وقت کے لیے کیا، لیکن زیادہ دیر تک نہیں۔ اُنہوں نے جلدی سے یہ سمجھ لیا کہ یہوداہ اُن کے درمیان صرف ایک بُرا کافر تھا۔ اس کے جانے کے بعد، وہ ایک دوسرے سے دوبارہ پیار کرنے لگ گئے، اور گمراہ ہوئے لوگوں کو اس مقامی گرجا گھر یا کلیسیا کی گرمجوشی اور محبت بھری رفاقت میں لائے۔

اب، میں اِس واعظ کو اُن نوجوانوں کے لیے اِک تبنیہ کے ساتھ ختم کرتا ہوں جو گرجا گھر میں ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ یہوداہ جیسے [بندے]، لوگوں کو مصیبت میں ڈالتے ہیں۔ آپ نے اُنہیں گرجا گھر میں سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ نے اُنہیں مسیح کو دھوکہ دیتے ہوئے دیکھا اے۔ اُنہیں [یہوداہ جیسےلوگوں کو] آپ کو ایک محبت کرنے والا مسیحی بننے سے روکنے نہ دیں! یہوداہ جیسے ہر دھوکی دینے والے کے لیے، مقامی گرجا گھر میں بہت سے دوسرے لوگ ہیں جو وفادار مسیحی ہیں، اور کلیسیا یہوداہ کے بغیر محبت بھری رفاقت میں آگے بڑھتی اے! یہوداہ کی وجہ سے اپنے آپ کو مسیحی بنانے میں زندگی بھی کی رکاوٹ نہ بننے دیں۔ آئیں اور اِسی گرجا گھر کو بنانے میں ہماری مدد کریں جِسے ڈاکٹر اسٹوٹ نے ’’ایک متبادل معاشرہ‘‘ کہا ہے، ایک مرتے ہوئے شہر میں محبت سے بھرا ہوا ایک گھر گھر، ایک بکھرتی ہوئی تہذیب میں پہاڑی پر قائم اِک مینارہ! خدا آپ کو ایس کرنے میں مدد کرے! آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

بشارتِ انجیل میں غائب عنصر –
مقامی کلیسیا میں محبت

THE MISSING ELEMENT IN EVANGELISM –
LOVE IN THE LOCAL CHURCH!

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ جس طرح میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ اگر تم ایک دوسرے سے محبت رکھو گے تو سب لوگ جان لیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو‘‘ (یوحنا13: 34۔35)۔

(یوحنا13: 15)

I.   سب سے پہلے، مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت بے اعتقادی دنیا کے لیے ایک نشانی ہے کہ ہم مسیح کے شاگرد ہیں، یوحنا13: 35 .

II.  دوسری بات، مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت اور اتحاد بے ایمان دنیا کے لیے ایک عظیم ثبوت ہے کہ ہمارا ایمان حقیقی ہے، یوحنا17: 21، 23 .

III. تیسری بات، اِس کے باوجود ایک مقامی کلیسیا میں مسیحی محبت کی غیر موجودگی چُنیدہ لوگوں کو مسیح کے پاس آنے سے نہیں روک پائے گی، یوحنا13: 27، 30 .