Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


واعظ سے پہلے گیت گایا: ’’کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں؟ Am I a Soldier of the Cross?‘‘ (شاعر ڈاکٹر آئزک واٹز Dr. Isaac Watts، 1674۔1748)۔

ڈاکٹر ٹموتھی لِن سے سیکھنا

LEARNING FROM DR. TIMOTHY LIN
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
ایمیریٹس پادری صاحب
by Dr. R. L. Hymers, Jr.,
Pastor Emeritus

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی دوپہر، 7 جون، 2020
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Afternoon, June 7, 2020

’’اگر ہم دُکھ اُٹھائیں گے، تو اُس کے ساتھ بادشاہی بھی کریں گے‘‘
(2۔ تیموتاؤس 2:12).

ڈاکٹر ٹموٹھی لِن Dr. Timothy Lin کی کتاب کلیسیا کی ترقی کا راز The Secret of Church Growth کو دوبارہ پڑھنے کے بعد میں اِس بات سے اور زیادہ واقف ہو گیا کہ اب تک ہمارا گرجا گھر کیوں بڑے پیمانے پر ناکام رہا ہے۔ ہماری ساری کمزوریاں اور ناکامیاں خود ہماری اپنی ہی کمزوری سے جڑ پکڑتی ہیں۔

میں ایک ’’بُرے‘‘ خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان تھا۔ یہ بات اِسی قدر سادہ سی ہے۔ میں نے اپنی پوری قوت کے ساتھ خود کو تربیت یافتہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے دُنیاداری والی نوکری پر صبح 8:00 بجے سے شام 5:00 بجے تک کام کیا تھا – اور پھر رات میں کالج جایا کرتا تھا! میں نے جمعہ کی شامیں، سارا ہفتے اور اتوار کا دِن چینی گرجا گھر میں کام کرنے میں گزارا تھا۔ خود میری اپنی حیرانگی کے لیے، میں ایک ’’خود ساختہ‘‘ شخص بن گیا تھا۔ لیکن پھر بھی ایک بادل تھا جو مجھے ایک مضبوط مشنری بننے سے روک رہا تھا۔ میں نے دِن میں سولہ سولہ گھنٹے پورے پورے ہفتے کام کیا، لیکن میں ’’ایک بُرے‘‘ خاندان کا ہونے سے بچ نہیں پایا۔ ’’بُرے‘‘ خاندان کا پس منظر ہونے کی وجہ سے، مجھے ایک ذیلی معیاری سیمنری میں جانا پڑا تھا۔ یہی سب کچھ تھا جسے میں برداشت کر سکتا تھا کیونکہ مجھے ’’بُرے‘‘ خاندان سے کوئی سہارا نہیں ملا تھا۔ صرف میری پیاری والدہ نے میری حوصلہ افزائی کی تھی، لیکن اُن دِنوں میں اُن کے پاس میری مدد کرنے کے لیے پیسہ نہیں تھا۔ اِس صورتحال نے مجھے میرے چینی گرجا گھر میں سے ایک ’’اچھا‘‘ مشنری بننے کو ناممکن بنا ڈالا تھا۔

+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +

ہمارے واعظ اب آپ کے سیل فون پر دستیاب ہیں۔
WWW.SERMONSFORTHEWORLD.COM پر جائیں
لفظ ’’ایپ APP‘‘ کے ساتھ سبز بٹن پرکلِک کریں۔
اُن ہدایات پر عمل کریں جو سامنے آئیں۔

+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +

لیکن میں نے ڈاکٹر ٹموتھی لن کی عمدہ تعلیمات کے تحت کام کرنے میں ان دس سالوں میں کئی باتیں سیکھیں۔ مثال کے طور پر ، میں نے ڈاکٹر لن سے واعظوں کو اور سنڈے اسکول کے اسباق کو تیار کرنے کا طریقہ سیکھا۔ میں نے اُن سے سبق اور واعظ تیار کرنے کا طریقہ سیکھا۔ ڈاکٹر لِن نے ہمیں واعظ اور اسباق کیسے تیار کرنے ہوتے ہیں سیکھایا، اُن طریقوں کے ذریعے سے نہیں جو ساؤتھرن بپٹسٹ کنوینشن کے سنڈے سکولوں کے بورڈ نے مہیا کیے تھے، بلکہ اُنہیں براہ راست بائبل میں سے تیار کرنے کا طریقہ سیکھایا تھا۔ ڈاکٹر لِن نے ہمیں سیکھایا –


(1)  اپنے طُلبہ کو ذہن میں رکھیں۔

(2)  سبق کو ذہن میں رکھیں۔

الف۔  کلام پاک کے حوالے کا اُس وقت تک مطالعہ کریں جب تک کہ مرکزی موضوع آپ پر واضح نہیں ہو جاتا۔

ب۔  مرکزی موضوع کی بنیاد پر، ایک مکمل خاکہ تعمیر کریں۔

ج۔  خاکے کے سیاق و سباق کا بغور جائزہ لیں۔ کیا حوالے کی وضاحت واضح ہے؟ کیا سچائیوں کا اِطلاق عملی ہے؟ کیا اِس اِطلاق کے محرک کو واضح کیا گیا ہے؟

(3)  خُداوند سے حکمت کے لیے دعا مانگیں – ایک دانشمند اُستاد بنیں۔

الف۔ٓپ کے پاس خداوند کی سچائی کا علم ہونا چاہیے۔

ب۔آپ کے پاس خدا کے مقصد کو جاننے کے لیے حکمت عملی ہونی چاہیے کہ اُس کے مقصد کو کیسے بروئے کار لایا جائے۔

ج۔اِساتذہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ’’اِس دُنیا کی حکمت‘‘ بشروں کو نہیں جیتتی یا طُلبہ کی مدد نہیں کرتی، کہ یہ تعلیمات بائبل کی بصیرت سے واضح اور متحرک ہو سکتی ہیں – تاکہ غیر نجات یافتہ طالب علم یسوع پر بھروسہ کر پائیں اور نجات پا سکیں، اور وہ جو نجات پا چکے ہیں مسیح میں پختگی کے ساتھ قدم آگے بڑھا پائیں۔

(4)  وضاحت

وضاحت – ایسے الفاظ اور جملے استعمال کریں جن سے طالبِ علم واقف ہوں۔ طُلبہ کو سوچنے کے لیے متحرک کریں۔ طُلبہ کو شامل کرنے کے لیے سوالات پوچھیں۔ نئی بصیرتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں۔ عکاسی، خاکوں یا مثالوں کو مناسب طور پر استعمال کریں۔

(5)  محرک

خُدا کی محبت مسیحیوں کی بائبلی ذمہ داریوں کو پیش کرتی ہے، اور آج کلیسیا کی کمزوریاں، روحانی ترقی کے لیے ضروریات، خُداوند کی آمد ثانی کے لیے شرائط کو پیش کرتی ہیں۔


سنڈے سکول کے اِساتذہ کے سامنے اِن باتوں کو رکھنے کے لیے، اِن اصولوں کو اِساتذہ [کی زندگی] میں داخل کرنے کے لیے ڈاکٹر لِن ہفتہ وار سبق پڑھایا کرتے تھے جو وہ خود پیش کرتے تھے (ڈاکٹر لِن کی کتاب کلیسیا کی ترقی کا راز The Secret of Church Growth میں صفحہ 74 تا 87 میں دیکھیں)۔

ڈاکٹر لِن نے اِس خاکے کو اِن الفاظ کے ساتھ ختم کیا: ’’سنڈے سکول کی ایک مضبوط منادی ساری کلیسیا کی نمو یا ترقی لائے گی اور عظیم مقصد کو پورا کرنے میں کلیسیا کی مدد کرے گی: ’اُن سب باتوں پر جن کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے اُن پر عمل پیرا ہو!‘ پھر کلیسیا بابرکت ہو گی اور خداوند کی بادشاہی جلد ہی آئے گی۔ آمین! ’خداوند یسوع، آ جا!‘‘‘

میں ڈاکٹر لِن کی کتاب میں بیان کردہ سنڈے اسکول کی مذہبی خدمت کو جیسا کہ ڈاکٹر لِن کی کتاب میں سے یہاں پر خاکہ پیش کیا کبھی بھی نہ کر پایا۔ ہمارے گرجا گھر میں اندرون شہر کے لوگ ایک اچھا سنڈے سکول پر بھروسہ کرنے کے لیے بے انتہا دُنیاوی تھے۔ لیکن اب خود خُدا نے زیادہ تر جذباتی لوگوں کو نکال باہر کیا اور شاید ہم نئے گرجا گھر میں ایک سنڈے سکول شروع کرنے کے قابل ہو جائیں۔ میں خود پہلی کلاس کی تعلیم دینے سے غالباً شروع کروں گا۔ پھر، بعد میں، دوسرے، جیسے ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan اور مسٹر نعان Mr. Ngann خود اپنی کلاسز پیش کر سکیں گے۔ لیکن ہمیں شروع شروع میں دھیمے چلنا چاہیے۔

میرے خیال میں آپ ڈاکٹر لِن کے خاکے سے بتا سکتے ہیں خود میری اپنی تبلیغ کو اُن کی تعلیمات کس قدر متاثر کر چکی ہیں۔

کرھیٹن اور والڈرِیپ نے کبھی بھی وہ نہیں سیکھا جو مجھے ڈاکٹر لِن نے سیکھایا۔ پس اُن دونوں میں سے کوئی ایک بھی آج کے دِن تک خاکہ کیسے بنانا ہوتا ہے اور منادی کیسے کرنی ہوتی ہے نہیں جانتا۔ اُن دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ڈاکٹر لِن کی جانب سے تعلیم دینے یا ’’تبلیغ‘‘ کرنے کے لیے چُنا نہیں گیا ہوگا۔

والڈریپ بائبل کی مختلف کتابوں میں سے آیت بہ آیت ’’تفسیراتی‘‘ واعظوں کے ذریعے سے تبلیغ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کرھیٹین وہ ابھی تک نہیں کرتا ہے۔ وہ جو میں نے کیا اُس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ کر سکتا کیونکہ اُسے خُدا کی طرف سے بھیجا نہیں گیا ہے! ڈاکٹر لِن نے کہا، ’’آخری ایام کی کلیسیا کی ویرانی کا سبب پادری صاحبات کی قلت نہیں ہے بلکہ بہت سارے پادری صاحبات ہیں جو خدا کے بھیجے بغیر ہی مذہبی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ چونکہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے نہیں گئے ہیں، تو وہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ خُدا اُن کے لیے ذمہ دار ہو اور اُنہیں اپنا پیغام مہیا کرے؟ نا صرف خدا ذمہ دار نہیں ہے، بلکہ وہ شاید اُن کے خلاف بھی ہو (یرمیاہ23:30۔31)۔‘‘ مہربانی سے کھڑے ہوں اور یرمیاہ23:30 کھولیں، جب میں حوالہ پڑھوں۔

’’اِس لیے خداوند فرماتا ہے، میں اُن نبیوں کے خلاف ہُوں جو اِس خیال سے ایک دوسرے کا کلام چُراتے ہیں گویا وہ میرا ہے۔ اِس لیے خداوند فرماتا ہے، کہ میں اُن نبیوں کے بھی خلاف ہوں جو محض اپنی زبان سے کچھ بولتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ خداوند نے یوں فرمایا ہے۔ یقیناً میں اُن کے بھی خلاف ہوں جو جھوٹے خوابوں کی نبوت خود ہی کرتے ہیں مگر کہتے ہیں یہ خداوند نے فرمایا ہے۔ وہ اُنہیں بیان کرتے ہیں اور خوب جھوٹ بول کر میرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، حالانکہ میں نے اُنہیں نہ تو بھیجا نہ اُن کا تقرر کیا۔ لہٰذا اُن لوگوں سے میرے لوگوں کو ذرا بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ خداوند فرماتا ہے‘‘ (یرمیاہ 23:30۔32).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر کیگن کو یقینی طور پر خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا اور خُدا کی جانب سے تبلیغ کرنے کا تحفہ بھی عطا کیا گیا تھا۔ لیکن جان John ناکام رہا کیونکہ اُس نے فرمانبرداری نہیں کی 1 تیموتاؤس6:6۔14، اور متی10:36۔38۔ میں جان کے لیے دعا مانگتا ہوں کہ ہر رات کو توبہ کرے۔

بادشاہت کیوں اہم ہے

’’یقین جانو کہ کسی حرامکار، ناپاک یا لالچی شخص کی مسیح اور خدا کی بادشاہی میں کوئی میراث نہیں کیونکہ ایسا شخص بُت پرست کے برابر ہے‘‘ (افسیوں 5:5).

بادشاہت قائم کرنے کے لیے تین باتیں درکار ہیں: زمین، اِختیار، اور لوگ۔ انگریز وائسرائے کے دِنوں میں انڈیا کے پاس لوگ اور زمین موجود تھی۔ لیکن انڈیا کے پاس خود سے حکومت کرنے والی قوم ہونے کا اِختیار نہیں تھا۔ بالکل اِسی ہی طرح سے، اِن تمام تین باتوں زمین، لوگ اور اِختیار کے لیے جنت کی بادشاہت کو بھی تیار کرنا چاہیے۔ جب مسیح واپس جنت میں اُٹھایا گیا تھا تو اُس نے کہا، ’’زمین اور آسمان میں تمام اختیار مجھے بخشا جا چکا ہے‘‘ (متی28:18)۔ لہذا کلیسیا کو اِختیار تیار کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن زمین کو تو لوگوں کے حوالے کیا جا چکا ہے (زبور115:16 – ’’لیکن زمین اُس نے بنی آدم کو دی ہے‘‘)۔ تب تیار کرنے کے لیے گرجا گھر کے پاس کیا رہ گیا ہے؟ یہ لوگ ہیں، جو غالب آتے ہیں جو مسیح کے ساتھ حکمرانی کے اہل ہیں۔ بائبل کہتی ہے، ’’جو غالب آئے گا میں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بیٹھاؤ گا‘‘ (مکاشفہ3:21)۔

آخری دِنوں میں ایمانداروں کے پاس بادشاہت یا کلیسیا کیا ہے اِس کا واضح تصور نہیں ہے۔ کلیسیا کے لیے خُداوند کا مقصد بادشاہت کے عملے کی تربیت کا منصوبہ ہے، مکمل طور پر بھولے ہوؤں یا مکمل طور پر انجانے لوگوں کے لیے۔ اِسی لیے آج کل کی کلیسیا پرانے دور کے اسرائیل کی مانند ہے، بیابان میں دائروں کی شکل میں آوارہ گردی کرتی ہوئی، کنعان میں داخل ہونے کے لیے نااہل۔ اگر گرجا گھر غالب آنیوالوں کی تربیت کی اہمیت کو سمجھ چکا ہوتا تو وراثت کی بادشاہت تو کب کی آ ہی چکی ہوتی!

بڑی حد تک کلیسیا بڑھتی اور فروغ نہیں پاتی کیونکہ آج کل کے اراکین میں مستقبل میں عزت و وقار کی اُمید کی کمی ہے۔ اُمید کی کمی گرجا گھر کے بے شمار اراکین کی اپنے خداوند کے لیے محبت کم گہری اور بے جوش کر چکی ہے۔

ڈاکٹر کیگن پہلے ہی سے جانتے تھے کہ جب اُنہوں نے اِس واعظ کو ٹائپ کیا تے یہ تقریباً لفظ بہ لفظ میرے پیارے پادری صاحب ڈاکٹر ٹموٹھی لِن Dr. Timothy Lin کی طرف سے تھا۔ ڈاکٹر لِن نے اپنی کتاب خداوند کی بادشاہتThe Kingdom of God میں اِسی بارے میں تحریر کیا تھا جو میں نے ابھی آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اپنی کتاب کے آغاز میں، ڈاکٹر لِن نے ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer کی جانب سے ایک پیراگراف کا حوالہ دیا۔ ڈاکٹر ٹوزر نے کہا،

’’خداوند آپ کو آپ کی روزمرّہ کی زندگی میں تیار کرنا چاہتا ہے تاکہ بِلاشک و شُبہ [دائمیت] کے لیے تیار ہو جائیں… خداوند دِن بہ دِنِ، سال بہ سال ہمارے باطن ہی میں کچھ نہ کچھ خصوصی کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اُس کا مقصد بے شمار بیٹوں – اوربیٹیوں کو بھی – جلال میں لانے کا ہے۔‘‘
     (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، A. W. Tozer، ’’ہمیں جلال کی جانب لے جانا!Bringing Us to Glory!‘‘)

ہماری جلال کی اُمید کو بس کیسا ہونا چاہیے؟ کلام پاک کہتا ہے، ’’جو غالب آئے گا میں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بیٹھاؤ گا‘‘ (مکاشفہ3:21)۔ اِس اُمید کی شدید خواہش اور علم کے بغیر، مسیحیوں کی حیثٓیت سے ہماری گواہی اپنی پرانی فطرت کی پیروی کرنا اور خدا سے محبت کرنے والوں کی بجائے ’’خود سے محبت کرنے والوں کی‘‘ ہوتی ہے – اور اس طرح سے بادشاہت کے وارث ہونے میں ناکام ہوتے ہیں، جو ہمارے لیے بنائے عالم ہی سے تیار کی گئی ہے۔

یہاں پر ایک مثال ہے – ایک چینی پادری صاحب نے ایک غیر مسیحی خاندان کی خاتون سے شادی کی۔ اُس نے اُن کی شادی سے پہلے نجات پائی تھی۔ وہ پادری صاحب، خداوند کی محبت سے سرشار تھے، اور دِن رات خداوند کی خدمت میں لگے رہتے تھے، یہاں تک کہ جب وہ سیمنری میں پڑھائی کر رہے تھے۔ اُن کی ذمہ داریاں اُنہیں اکثر گھر سے دور لے جایا کرتی تھیں۔ شروع شروع میں اُن کی بیوی نے سمجھوتہ کیا۔ لیکن بالاآخر صورتحال اُس کے لیے بوجھل ہو گئی۔ ایک دن [اُس خاتون] نے [پادری صاحب] سے پوچھا، ’’پیارے، کیا ہم نے یسوع پر بھروسہ نہیں کیا؟‘‘ ’’جی ہاں، خداوند کے فضل سے، ہم اُسے اپنے نجات دہندہ کی حیثیت سے قبول کر چکے ہیں۔‘‘ ’’پھر ہم جنت میں چلے جائیں گے؟‘‘ اُس نے پوچھا۔ ’’یقینی طور پر! ہم ایمان کے وسیلے سے اُس کے فرزند بن جاتے ہیں اور یقینی طور پر جب اِس جسموں کو چھوڑنے کے لیے ہماری خاطر خداوند تیار ہوگا تو جنت ہی ہمارا گھر ہوگا۔‘‘

اپنے غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے، وہ چلائی، ’’تو پھر تم دِن اور رات خدمت میں کیوں لگے رہتے ہو؟ خدمت! خدمت! خدمت! اگر آپ سب کی خدمت کرتے ہیں تو آپ کو جنت میں جانا ملتا ہے۔ دوسرے ایماندار جو خدمت نہیں کرتے وہ بھی جنت ہی میں جاتے ہیں۔ تم اِس قدر بیوقوف کیوں ہو؟‘‘

حیران اور پریشان، یہ بھائی روتے روتے سینیئر پادری صاحب کے پاس گیا۔ سینیئر پادری صاحب نے اُنہیں کہا، ’’بھائی، یہ اچھی بات ہے کہ آپ کی بیوی اپنے احساسات کو الفاظ دے سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چینی گرجا گھروں میں زیادہ تر لوگ آج اُسی [خاتون] کی طرح ہی سوچتے ہیں۔ وہ اکثر سوچتے ہیں کہ چونکہ وہ یسوع کو قبول کر چکے ہیں اور نئے سرے سے جنم لینے کا تجربہ کر چکے ہیں، تو وہ پہلے ہی سے اپنے لیے جنت کا ٹکٹ حاصل کر چکے ہیں اور اُن کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں باقی بچا ہے۔ چونکہ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ مسیحی جنت میں جائیں گے چاہے وہ خداوند کی خدمت کریں یا نہ کریں، تو وہ سوچتے ہیں کہ وہ اِس دُنیا میں اُس دولت مند کی طرح زندگی بسر کر سکتے ہیں اور اگلی دُنیا میں لعزر کی مانند زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ یہ بات زبردست ہے۔‘‘

اِس قسم کا انتظام یقیناً مناسب ہوگا، لیکن یہ بائبل کے مطابق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیح نے کہا، ’’تم دو آقاؤں کی خدمت نہیں کر سکتے۔‘‘ اِس طرح سے نوجوان پادری صاحب مستعدی کے ساتھ خدا کی خدمت کرنے کی ضرورت کے بارے میں اپنی بیوی کے روحانی احساس کو بہتر بنانے کے قابل ہو گیا تھا۔

آج خداوند کی بادشاہت پر زور دینے کی ضرورت ہے، اپنی زندگیاں ہر روز گزارنے کی خاطر مسیحیوں کے لیے زبردست اہمیت کی ضرورت کے لیے ایمانداروں کو روشناس کرانے کی ضرورت ہے – نجات پانے کی خاطر نہیں بلکہ خداوند کے جلال کی خاطر، خداوند کی بادشاہت کی خاطر اور اُس میں اُن کی مستقبل کی وراثت کی خاطر۔

ایک نوجوان شخص کو ایک لڑکی سے شادی کرنے سے پہلے اِن باتوں کو احتیاط کے ساتھ وضاحت سے سمجھانا چاہیے۔ مسٹر جان ویزلی Mr. John Wesley کی زندگی کے شدید ترین المیوں میں سے ایک اُن کی شادی تھی۔ [اُن کی بیوی] اُن سے توقع کرتی تھی کہ وہ گھر پر ہی رہیں گے، لیکن وہ نہیں رہ پاتے تھے، لہٰذا اُس نے اُنہیں چھوڑ دیا۔ بہت محتاط رہیں کہ آپ کس سے شادی کرتے ہیں، ورنہ آپ کے لیے اور اُس لڑکی کے لیے یہ ایک انتہائی بُرا تجربہ ہوگا۔ خود میری اپنی بیوی اِس قدر اچھی ہیں کہ میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ وہ میرے لیے اور ہمارے گرجا گھر کے لیے خداوند کا عظیم تحٖفہ ہیں۔ مہربانی سے خدا کی خاطر ہفتے میں ایک دِن روزہ رکھیں اور دعا کریں نیا چینی گرجا گھر شروع کرنے میں خداوند ہماری مدد کرے!

اب کھڑے ہوں اور ’’کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں؟Am I a Soldier of the Cross?‘‘ گائیں۔

کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں، برّے کے پیچھے چلنے والا،
اور کیا مجھے اُس کے مقصد کو اپنانے سے خوفزدہ ہونا چاہیے، یا اُس کا نام بولنے سے شرمندہ ہونا چاہیے؟

کیا مجھے آسمان پر سہولت کے پھولدار بستروں پر لے جایا جانا چاہیے،
جبکہ دوسرے انعام جیتنے کے لیے لڑیں، اور خونی سمندروں میں سے گزریں؟

کیا میرا سامنا کرنے کے لیے کوئی دشمن نہیں؟ کیا مجھے سیلاب میں شامل نہیں ہونا چاہیے؟
اِس غلیظ دُنیا میں ایک دوست کو فضل دلانے کے لیے، مجھے خُدا تک پہنچانے کے لیے؟

یقیناً مجھے لڑنا چاہیے، اگر مجھے حکومت کرنی ہے؛ خُداوندا! میرے حوصلے کو بڑھا،
میں سختیوں کو جھیلوں گا، درد کو برداشت کروں گا، تیرے کلام کے سہارے کے ذریعے سے۔
     (’’کیا میں صلیب کا ایک سپاہی ہوں؟Am I a Soldier of the Cross?‘‘ شاعر ڈاکٹر آئزک واٹز Dr. Isaac Watts، 1674۔1748)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔