Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


جس کے لیے آپ دعا مانگتے ہیں کیا آپ وہ چاہتے ہیں؟

DO YOU WANT WHAT YOU PRAY FOR?
(Urdu)

ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کی جانب سے
by Dr. Christopher L. Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دن کی صبح، 23 جون، 2019
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, June 23, 2019

’’اپنی مصیبت کے دوران میں نے خُدا کو پُکارا، اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘
(یوںاہ 2:2)۔

یوناہ نے خُدا کو پکارا تھا۔ جب اُس نے ایسا کیا تھا تو اُس وقت وہ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں تھا (آیت 1)۔ کم از کم اُس کا جسم وہیں پر تھا۔ اُس کی روح شی اُول Sheol میں تھی، جو کہ پرانےعہد نامے میں مُردوں کی جگہ ہے، کیونکہ یوناہ پہلے ہی سے سمندری مخلوق کے اندر مر چکا تھا۔ آیت 2 کا دوسرا آدھا حصہ کہتا ہے، ’’میں نے پاتال کی گہرائی [عبرانی لفظ ’شی اُول Sheol‘ ہے] میں سے پکارا اور تو نے میری آواز سُنی۔‘‘ یوناہ مُردہ تھا۔ ریڈیو بائبل کے عظیم اُستاد ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا،

پاک صحائف میں کبھی کبھی شی اُولSheol کا ترجمہ لفظ ’’قبر grave ‘‘ سے کیا گیا ہے اور دوسری جگہوں پر ’’اندیکھی دُںیا‘‘ کی حیثیت سے، مطلب جہاں پر مُردے جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کو آپ جس طرح سے بھی دیکھیں اِس کا تعلق موت سے ہی بنتا ہے۔ یہ ایک لفظ ہے جو سیدھی رہنمائی قبرستان کی طرف کرتا ہے، اور آپ اِس کو کسی دوسری جگہ پر نہیں لے جا سکتے... یوناہ جو کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ مچھلی کا پیت اُس کی قبر تھا، اور قبر مُردہ کے لیے ایک جگہ ہوتی ہے – آپ ایک زندہ شخص کو قبر میں نہیں ڈالتے۔ (بائبل میں سے Thru the Bible، جلد سوئم، صفحہ 749)۔

یوناہ مر چکا تھا اور اُس کو مُردوں میں سے دوبارہ زندہ کیا گیا تھا، بالکل جیسے صدیوں بعد یسوع ہوا تھا۔ یوناہ کے ساتھ جو ہوا وہ ایک شبیہہ ہے، مسیح کے ساتھ جو ہوا اُس کی ایک تصویر۔ یسوع نے کہا، ’’جس طرح یوناہ تین دِن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا اُسی طرح ابنِ آدم تین دِن اور تین رات زمین کے اندر رہے گا‘‘ (متی12:40)۔

لیکن آج کی صبح میں یوناہ کے مچھلی کے پیٹ میں مرنے پر منادی کرنے نہیں جا رہا ہوں۔ میں یوناہ کے اُس کی مصیبت کے دوران دعا کرنے پر بات کرنے جا رہا ہوں۔ ہماری تلاوت کہتی ہے، ’’اپنی مصیبت کے دوران میں نے خُدا کو پُکارا، اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘ (یوناہ2:2)۔ دورِ حاضرہ کا ایک ترجمہ اِس کو یوں کہتا ہے، ’’میں نے اپنی تکلیف میں خُداوند کو پُکارا اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘ (NASB)۔ بائبل کے تبصرہ نگار میتھیو پول Mathew Poole نے کہا،

اپنی مصیبت کے دوران؛ پریشانی، یا سخت مشکلات جن کے ساتھ وہ گِھرا ہوا تھا اور شدید محصور تھا؛ کسی کا بھی کبھی اِس قدر شدید محاصرہ نہیں ہوا تھا، اُس کا ذہن اور جسم دونوں بالکل خاموش تھے، ایک تو دیو ہیکل مچھلی کے پیٹ کے غار کی وجہ سے اور دوسرے خُدائے قدرِ مطلق کی ہولناکی کی وجہ سے (یوناہ2:2 پر تبصرہ)۔

یوناہ تکیلف میں تھا۔ وہ مچھلی کے پیٹ میں تھا اور وہاں پر وہ مر گیا تھا۔ وہ مصیبت میں تھا اور وہ یہ بات جانتا تھا! اُس نے اپنی مصیبت کو محسوس کیا تھا۔ وہ نااُمید تھا۔ اُس نے خُداوند کو پکارا تھا۔

یوناہ واقعی میں مچھلی کے پیٹ میں سے باہر نکلنا چاہتا تھا۔ اِس سے بھی بڑھ کر، وہ واپس زندگی کی طرف آنا چاہتا تھا! وہ یہ اپنے آپ نہیں کر سکتا تھا۔ اُس کو مچھلی میں سے باہر نکلنے کے لیے خُداوند کی ضرورت تھی۔ اُس کو مُردوں میں سے زندہ کیے جانے کے لیے خُداوند کی ضرورت تھی۔

یوناہ نے جس بات کے لیے دعا مانگی تھی اُس کو اُس کی ضرورت تھی۔ جس کی اُس نے دعا مانگی تھی وہ اُسے چاہتا تھا۔ اِس لیے اُس نے خُداوند کو پکارا تھا۔ خُداوند نے اُس کی سُنی اور اُسے وہ دیا جو اُس نے مانگا تھا۔ خُداوند نے اُس کو زندہ کیا اور مچھلی کو مجبور کیا کہ اُسے خشک زمین پر زندہ اُگل دے!

کیا جس بات کے لیے آپ دعا مانگتے ہیں آپ اُسے چاہتے ہیں؟ آپ شاید کہیں، ’’بیشک میں چاہتا ہوں۔ میں اِس کے لیے دعا مانگتا ہوں، کیا میں نہیں مانگتا ہوں؟‘‘ کیا آپ واقعی میں وہ چاہتے ہیں جس کے لیے آپ دعا مانگ رہے ہیں؟ یوناہ کو اپنی زندگی واپس چاہیے تھی۔ اُسے وہ شدت کے ساتھ چاہیے تھی۔ کیا آپ وہ چاہتے ہیں جس کے لیے آپ دعا مانگتے ہیں؟ کچھ لوگ چاہتے ہیں اور کچھ نہیں چاہتے ہیں۔ آج کی صبح میں اُس چاہنے کے بارے میں بات کروں گا جس کے لیے آپ دعا مانگتے ہیں۔

+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +

ہمارے واعظ اب آپ کے سیل فون پر دستیاب ہیں۔
WWW.SERMONSFORTHEWORLD.COM پر جائیں
لفظ ’’ایپ APP‘‘ کے ساتھ سبز بٹن پرکلِک کریں۔
اُن ہدایات پر عمل کریں جو سامنے آئیں۔

+ + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + + +

I۔ پہلی بات، وہ لوگ جو اُن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں جنہیں وہ اِتنا زیادہ نہیں چاہتے۔

وہ لوگ جو پرواہ نہیں کرتے سرے سے دعا مانگتے ہی نہیں ہیں، یا بہت کم مانگتے ہیں۔ لیکن دوسرے جو پرواہ نہیں کرتے پھر بھی دعا مانگتے ہیں۔ آپ شاید پوچھیں، ’’لوگ کیوں اُن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں اگر وہ اُنہیں چاہتے نہیں ہیں؟‘‘ ہائے، لیکن وہ ایسا کرتے ہیں۔ وہ اچھی طرح سے دعا نہیں مانگتے، لیکن وہ دعا مانگتے ضرور ہیں۔ وہ الفاظ کو کہتے ہیں۔ وہ ایک میکنیکل انداز میں دعا مانگتے ہیں، بغیر کسی احساس کے۔ یہاں بے شمار وجوہات ہیں وہ کیوں دعا مانگتے ہیں۔

1- کیونکہ اُنہیں دعا مانگنی ہی ہوتی ہے۔ یہ شاید کوئی ایسی بات ہو جس کے لیے گرجا گھر یا کلیسیا دعا مانگ رہی ہو، جیسا کہ ہماری عمارت کا بیچنا، لیکن اُن کے دِلوں میں اُنہیں کوئی زیادہ پرواہ نہیں ہوتی ہے۔

2- کیونکہ وہ دعا کا وقت ہوتا ہے۔ وہ شاید گرجا گھر میں دعائیہ اِجلاس کا وقت ہوتا ہے۔ وہ شاید گھر میں اُن کی پرائیوٹ دعا کا وقت ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ بغیر سوچے یا محسوس کیے دعا مانگتے ہیں، کیونکہ وہ دعا مانگنے کا وقت ہوتا ہے۔

3- کیونکہ وہ دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ میں لوگوں کو دیکھ چکا ہوں کہ وہ پہلے ہی سی ایک فصیح دعا تیار کر لیتے ہیں اور اُسے دِل سے نہیں مانگتے۔

4- کیوںکہ اُنہیں اِس کو ضرورت ہوتی ہے، لیکن اتنی زیادہ نہیں۔ وہ اِس کو پانا چاہتے ہیں، لیکن اِس کا اُن کے دِل پر کوئی وزن نہیں ہوتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کو دیکھتے یا محسوس نہیں کرتے ہیں۔


یہ لوگ جس کے لیے یہ دعا مانگتے ہیں اُسے چاہے بغیر یا اُس کی ضرورت کو محسوس کیے بغیر واقعی میں دعا مانگتے ہیں۔ وہ الفاظ کو بغیر سوچوں یا احساسات کے کہتے ہیں۔ وہ شاید ایک انسانی جذبے کو اُبھار دیں، یا فینسی الفاظ بنا دیں، لیکن یہ دِل سے نہیں نکلتی ہے۔ لوقا 18 میں ہیکل میں فریسی نے ’’اپنے آپ سے‘‘ دعا مانگی تھی (لوقا18:11)۔ بعد میں یسوع نے دوسرے فریسیوں کی لمبی دعائیں مانگنے پر جبکہ وہ بوڑھی عورتوں کے پیسوں کو ہتھیانے کے لیے چالیں چلتے تھے ملامت کی تھی۔ وہ سچی دعائیں نہیں تھیں۔

لوگ یسوع پر بھروسا کرنے کے بارے میں اُس کو واقعی میں چاہے بغیر بات کرتے ہیں۔ وہ یہاں تک کہ ’’نجات پائے جانے کے لیے‘‘ بھی ایسے ہی دعا مانگ لیتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی ضرورت کو نا دیکھتے اور نا ہی محسوس کرتے ہیں۔ وہ بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن وہ واقعی میں اِس کو چاہتے ہی نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل بھی نہیں ہوتے۔ بائبل کہتی ہے کہ یسوع ’’جانتا تھا انسان کے دِل میں کیا ہے‘‘ (یوحنا2:25)۔ میں لوگوں کو ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ مانگتے ہوئے دیکھ چکا ہوں، لفظوں کو ادا کرنا لیکن یسوع پر بھروسا نہیں کرنا۔ وہ اپنے گناہ کو محسوس نہیں کرتے۔ وہ اپنے لیے مسیح کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے۔ اور اِس لیے وہ اُس کے پاس آتے بھی نہیں۔

یہاں تک کہ مسیحی عادتاً کبھی کبھار دعا مانگتے ہیں، یا کیونکہ اُنہیں دعا مانگنی ہی ہوتی ہے۔ خُداوند سے اِس قسم کی دعا کے سُنے جانے کی توقع مت کریں۔ کیوں نہیں؟ کیونکہ یہ دعا ہوتی ہی نہیں ہے۔ آپ خُداوند کی طرف رجوع نہیں کر رہے ہیں، اُس سے جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے اور آپ کو ضرور چاہیے وہ بخشنے کے لیے اِلتجا نہیں کر رہے ہیں۔

کیا آپ ہماری عمارت کے فروخت ہونے کے لیے دعا مانگتے ہیں، اور ایک اچھی قیمت پر؟ اگر آپ مانگتے ہیں، تو خود سے پوچھیں آپ کیسے دعا مانگتے ہیں۔ کیا آپ ضرورت کو محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ سنجیدگی کے ساتھ خُدا کے جواب کی تلاش کرتے ہیں؟ اگر آپ دعا نہیں مانگتے ہیں، یا ایک سچی دعا کے بغیر محض الفاظ کو ادا کر دیتے ہیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کو جواب کی کوئی انتہائی چاہت نہیں ہے۔ لیکن اب میں ایک بہتر قسم کی دعا کے بارے میں بات کروں گا۔

II۔ دوسری بات، وہ لوگ جو اُن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں جنہیں وہ انتہائی شدت کے ساتھ چاہتے ہیں۔

وہ لوگ جو واقعی میں جو وہ چاہتے ہیں اُس کے لیے دعا مانگتے ہیں وہ محض الفاظ ادا نہیں کرتے۔ جب لوگ آگ میں پھنسے ہوں، وہ چیختے ہیں، ’’مجھے یہاں سے باہر نِکالو!‘‘ جب کسی کے پیچھے مجرم پڑے ہوتے ہیں تو وہ شاید چیختا ہے ’’کوئی میری مدد کرے!‘‘ یہاں پر کوئی خالی الفاظ نہیں ہیں۔ ہنگامی صورتحال حاوی ہو جاتی ہے۔ وہ احساسات کے ساتھ مدد کے لیے پکارتے ہیں۔

جب میں بچہ تھا تو میں تیرنے کے لیے ایک جھیل پر گیا۔ میں بہت دور تک تیرتا چلا گیا اور سوچا میں واپس نہیں جا پاؤں گا۔ میں نے لائف گارڈ کے لیے پکارا۔ میں بُڑبُڑایا نہیں تھا۔ میں چیخا تھا ’’مدد!‘‘ لائف گارڈ آیا اور مجھے ساحل تک کھینچ کر لے گیا۔ میں ایک مسیحی نہیں تھا۔ مجھے دعا کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔ میری چیخ میری ضرورت سے نکلی تھی۔

یہ ہی وجہ ہے کہ یہ بات بائبل کے زمانوں میں تھی۔ میں اُن لوگوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں جنہوں نے گہری خواہش کی وجہ سے دعا مانگی تھی۔ وہ مختلف قسم کے لوگ تھے۔ ایک بادشاہ تھا۔ دو نبی تھے۔ ایک غیرمذہبی شخص تھا۔ دوسرے گمراہ کافر تھے جنہیں خُدا کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔ اِس کے باوجود اُن کی دعاؤں میں بہت کچھ مشترک تھا: سنجیدگی، اُداسی، روزہ، عاجزی، اعتراف، ثابت قدمی۔

حزقیاہ بادشاہ نے سُنا کہ ایک اُسوری جرنیل نے یروشلم پر حملہ کرنے کی دھمکی دی ہے اور سچے خُدا کی تضحیک کی ہے۔ بائبل کہتی ہے، ’’جب حزقیاہ نے یہ سُنا تو اُس نے اپنے کپڑے پھاڑے اور ٹاٹ اوڑھ کر خُداوند کے گھر میں گیا‘‘ (2سلاطین19:1)۔ اُس نے خود کو عاجز کیا اور خُداوند کے گھر میں گیا۔ اُس نے ایسا اپنی ضرورت کے وقت میں کیا تھا۔

دانی ایل نبی نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ جب بابل میں اپنے لوگوں کی جلا وطنی کی وجہ سے اُس کا دِل دُکھا تھا تو بائبل کہتی ہے، ’’میں خُداوند کی طرف رجوع ہوا اور میں نے دعا اور مناجات سے، روزہ رکھ کر اور ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر اِس سے اِستدعا کی۔ میں نے خُداوند اپنے خُدا سے دعا کی اور اقرار کیا‘‘ (دانی ایل9:3، 4)۔ کیوں اُس نے روزہ رکھ کر، ٹاٹ اوڑھ کر اور راکھ پر بیٹھ کر خود کو عاجز کیا؟ کیوں اُس نے اقرار کیا؟ کیونکہ اُس نے اپنی ضرورت کو محسوس کیا تھا۔

وہ لادینی شخص نحمیاہ یہ بات جانتا تھا کہ لوگ سخت تکلیف اور بدنامی میں تھے۔ یروشلم کی دیوار گرائی جا چکی تھی۔ لہٰذا وہ ’’بیٹھ کر رونے لگا، اور کئی دِنوں تک ماتم کیا اور روزہ رکھا اور آسمان کے خُدا کے حضور دعا کی‘‘ (نحمیاہ1:4)۔ اُس نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اُس نے ضرورت کو محسوس کیا تھا۔ اُس نے وہ چاہا تھا جس کے لیے وہ دعا مانگ رہا تھا۔

نینوہ شہر کے لوگ خُدا کی سزا سے خوفزدہ تھے۔ یوناہ نبی منادی کر چکا تھا، ’’چالیس دِن کے بعد نینوہ برباد کیا جائے گا‘‘ (یوناہ3:4)۔ تب ’’نینوہ شہر کے لوگوں نے خُدا کا یقین کیا، اُن میں سے بڑے سے لیکر چھوٹے تک نے روزہ رکھنے کا اِعلان کیا اور ٹاٹ اُوڑھے تھے‘‘ (یوناہ3:5)۔ بادشاہ نے بھی یہی کیا تھا۔ وہ لوگ مسیحی نہیں تھے۔ اُن کے پاس کوئی بائبل نہیں تھی۔ وہ خُدا کو نہیں جانتے تھے۔ اُنہوں نے روزہ کیوں رکھا تھا؟ کیونکہ اُنہوں نے اپنی ضرورت کو محسوس کیا تھا! وہ تباہ ہونا نہیں چاہتے تھے۔ جس بات کی وہ دعا مانگ رہے تھے وہ وہی چاہتے تھے۔

وہ روزہ رکھنا، عجز اور انکساری، پکارنا، اعتراف کرنا، اور دعا میں مناجات مانگنا کسی تعلیم سے نہیں آئے تھے۔ وہ تقریبا خود بخود آئے تھے۔ مختلف لوگ، بیچ میں صدیاں حائل، دُنیا کے مختلف حصوں میں، اِس طرح سے دعا مانگی۔ یہاں تک کہ نینوہ کے غیرنجات یافتہ لوگوں نے بھی اِسی طرح سے دعا مانگی تھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے بغیر، بائبل کے بغیر، خُدا کے بغیر۔ اِس قسم کی دعا قدرتی طور پر آتی ہے جب لوگ ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ اُنہوں نے اِس طرح سے دعا مانگی کیونکہ جس بات کی اُنہوں نے دعا مانگی تھی وہ اُسے چاہتے تھے۔ جیسے یوناہ نے مچھلی کے پیٹ کے اندر اپنے بدن کے ساتھ اور مُردوں کی جگہ میں اپنی روح کے ساتھ دعا مانگی تھی،

’’اپنی مصیبت کے دوران میں نے خُدا کو پُکارا، اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘ (یوناہ2:2)۔

یوناہ ’’اپنی مصیبت کے دوران میں‘‘ پکارا تھا۔ اُس کی پکار اُس کی مصیبت سے نکلی تھی، اُس کے ضرورت سے نکلی تھی۔ اِس طرح سے یوناہ نے اپنی مایوسی میں دعا مانگی تھی۔ اِسی طرح سے لوگ اُن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں جن کی اُنہیں واقعی میں ضرورت ہوتی ہے۔

اب میں آپ سے ہمارے گرجا گھر کو کس بات کی ضرورت ہے اِس بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں۔ ہم اِس عمارت کے فروخت ہونے کے بارے میں دعا مانگ رہے ہیں، تاکہ ہم ایک نئی عمارت خرید سکیں اور سان گیبرئیل وادی میں ایک نئے گرجا گھر کا آغاز کر سکیں۔ ہمارے گرجا گھر میں دعا مانگنے کے لیے یہ سب سے زیادہ اہم بات ہے۔

کیا آپ یہ چاہتے ہیں؟ کیا آپ کو ضرورت نظر آتی اور محسوس ہوتی ہے؟ تو پھر اپنی ضرورت کے مطابق دعا مانگیں۔ یوناہ ’’اپنی مصیبت کے دوران پُکار تھا۔‘‘ کاش آپ روزہ رکھنے اور پکارنے کے ساتھ دعا مانگیں۔ آئیے مجھے اِس قسم کی دعا کے بارے میں کچھ رائے دے لینے دیجیے۔


1۔ پہلی بات، آپ کو واقعی میں وہ چاہنا چاہیے جس کے لیے آپ دعا مانگ رہے ہیں۔ آپ کو اِس کی ضرورت ہونی چاہیے۔ آپ کو اپنی ضرورت کو دیکھنا اور محسوس کرنا چاہیے۔ کچھ لوگ شدت کے ساتھ دعا مانگتے ہیں جب وہ مصیبت میں ہوتے ہیں۔ نینوہ کے لوگ اِسی طرح کے تھے۔ دوسرے قوت اور جنون کے ساتھ دعا مانگتے تھے چاہے وہ مصیبت میں نہ بھی ہوں، لیکن وہ ضرورت کے ساتھ اِس قدر دبے ہوتے ہیں کہ وہ تقریباً مذید اور گزارا نہیں کر سکتے جب تک کہ خدا جواب نہیں دے دیتا۔ نحمیاہ ایسا ہی تھا۔ وہ بادشاہ کے ساتھ بابل میں ٹھہرا رہ سکتا تھا اور اپنی زندگی پوری کر سکتا تھا۔ لیکن یہ اُس کے لیے رُسوائی کی بات تھی کہ اسرائیل جلاوطنی میں تھا اور یروشلم ضائع ہو رہا تھا۔ اِس لیے اُس نے روزے اور ماتم کے ساتھ دعا مانگی تھی۔

2۔ دوسری بات، آپ کی چاہت آپ کو شدید جوش و جنون کے ساتھ دعا مانگنے کے لیے متحرک کرے گی۔ آپ ایسے ہی بیٹھ کر چند الفاظ ادا نہیں کریں گے۔ آپ خُدا سے جواب کے لیے اِلتجا کریں گے۔ آپ کو جواب پانا ہی ہوگا۔

3۔ تیسری بات، آپ کی چاہت آپ کو اعتراف کے لیے متحرک کرے گی۔ جانے ہوئے گناہ آپ کی دعا میں رخنہ اندازی (رکاوٹ کھڑی) کریں گے۔ زبور نویس نے کہا، ’’اگر میں گناہ کو اپنے دِل میں رکھتا تو خُدا میری نہ سُنتا‘‘ (زبور66:18)۔ آپ کو ایک جواب کی اِس قدر شدت کے ساتھ چاہت ہوگی کہ آپ اعتراف کریں گے اور اپنے گناہ کو چھوڑ دیں گے تاکہ خُداوند آپ کی دعا کو سُنے۔

4۔ چوتھی بات، آپ کی چاہت آپ کو روزہ رکھنے پر متحرک کرے گی۔ ایسا دانی ایل اور نحمیاہ اور نینوہ کے لوگوں کے ساتھ ہوا تھا۔ خود کو عاجز کرنا اور جس بات کو آپ چاہتے ہیں اُس کے لیے جب آپ دعا مانگتے ہیں تو روزہ رکھنا اور خُود کو عاجز کرنا قدرتی اور دُرست ہے۔ اگر آپ ہمارے گرجا گھر کی ضرورت کے لیے دعا میں روزہ رکھنے سے انکار کرتے ہیں، تو میرا نہیں خیال کہ آپ کوئی بہت زیادہ پرواہ کرتے ہیں یا اِس کو انتہائی زیادہ چاہتے ہیں۔ اگر آپ اتنی مصیبت محسوس نہیں کرتے جتنی یوناہ نے کی تھی، تو آپ خُدا کو نہیں پکاریں گے جیسے اُس نے پکارا تھا۔ خُداوند آپ پر رحم فرمائے۔ خُدا کرے کہ اگلی مرتبہ آپ سنجیدگی کے ساتھ دعا مانگیں۔

5۔ پانچویں بات، آپ کی چاہت آپ کو ثابت قدمی کے لیے متحرک کرے گی۔ آپ ایک ہی مرتبہ دعا مانگ کر جانے نہیں دیں گے۔ آپ دعائیہ اِجلاس میں ہفتے میں ایک ہی مرتبہ دعا مانگ کر جانے نہیں دیں گے۔ آپ خُدا کے پیچھے لگے رہیں گے، دعا میں اُسے اُس وقت تک قائل کرتے رہیں گے جب تک وہ جواب نہیں دے دیتا۔ یسوع نے ایک غیرمنصف قاضی کے بارے میں بتایا تھا جس نے بالاآخر ایک بیوہ کو وہ دے ہی دیا تھا جو وہ چاہتی تھی، ’’یہ بیوہ مجھے روز روز آ کر پریشان کرتی رہے گی‘‘ (لوقا18:5)۔ اُس نے کیوں مانگتے رہنا جاری رکھا تھا؟ کیونکہ اُس نے کچھ زیادہ مانگا تھا جانے نہیں دیا تھا۔ اُس نے مانگتے رہنا جاری رکھا تھا جب تک کہ جواب نہیں مل گیا – اور ایسا ہی آپ کریں گے۔

’’اپنی مصیبت کے دوران میں نے خُدا کو پُکارا، اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘ (یوناہ2:2)۔

اب میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ اِس عمارت کی فروخت کے لیے جمعہ کے روز روزہ رکھیں گے؟ کیا آپ جب روزہ رکھیں گے تو دعا مانگیں گے؟ کیا آپ بُدھ کے دعائیہ اِجلاس میں اِس کے لیے دعا مانگیں گے؟ کیا آپ خود اپنے دعائیہ وقت میں ہر روز اِس کے لیے دعا مانگیں گے؟ کیا آپ خُدا کے جواب کی تلاش کریں گے؟ کیا آپ روزہ رکھیں گے؟ اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ دعا نہیں مانگیں گے، کبھی کبھار روزہ رکھ کر، تو آپ کو جواب کی انتہائی چاہت نہیں ہو گی۔ آپ ضرورت کو دیکھیں اور محسوس نہیں کریں گے۔ لیکن اگر آپ واقعی میں دیکھیں گے اور ضرورت کو محسوس کریں گے، اگر آپ واقعی میں یہ چاہتے ہیں، تو پھر دعا مانگیں اور اِس کے لیے روزہ رکھیں! خُدا سے مانگیں کہ وہ آپ کو بوجھ سے لادے، آپ کو ضرورت کے بوجھ اور سنجیدگی کو دکھائے۔ پھر دعا کریں اور دعا کریں اور دعا کریں۔ ہمارے جلسوں میں دعا مانگیں۔ اپنے طور پر دعا مانگیں۔ روزہ رکھیں اور دعا مانگیں۔ خُدا کے حضور میں روئیں اور جواب کے لیے اُس سے اِلتجا کریں۔ اور اُس وقت تک دعا مانگیں جب تک جواب نہیں مل جاتا۔ خُدا ایسا کرنے کے لیے آپ کی مدد کرے۔

’’اپنی مصیبت کے دوران میں نے خُدا کو پُکارا، اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘ (یوناہ2:2)۔

اب میں اُن لوگوں سے بات کروں گا جو آج کی صبح گمراہ ہیں۔ اگرچہ یسوع نے قربان ہو چکا ہے اور آپ کے گناہ کے لیے اپنے خون بہا چکا ہے، آپ متحرک نہیں ہوئے ہیں۔ آپ کہتے ہیں آپ یسوع پر بھروسا کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہی ہے جو آپ کہنا صرف فرض سمجھتے ہیں۔ اِس میں کہیں بھی کوئی دِلی ضرورت نہیں ہوتی ہے، کوئی جدوجہد نہیں ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے گناہ کی قصور دیکھیں اور محسوس کریں تو آپ مسیح کے وسیلے سے معاف کیے جانے کے لیے خواہش کریں گے۔ آپ دعا میں خُداوند کی تلاش کریں گے۔ آپ واعظوں کے مسوّدوں کو پڑھیں گے اور پادری صاحب سے مشاورت کی متمنی ہونگے۔ جب آپ اپنے گناہ کو محسوس کرتے ہیں، تو آپ شاید پکار اُٹھیں ’’[اپنی] مصیبت کے دوران میں نے خُداوند کو پُکارا۔‘‘ اگر آپ یسوع پر بھروسا کرتے ہیں تو آپ ہمیشہ کے لیے نجات پا جائیں گے۔ اگر آپ مسیح پر بھروسا کرنے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے آئیں اور پہلی دو قطاروں میں تشریف رکھیں۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

جس کے لیے آپ دعا مانگتے ہیں کیا آپ وہ چاہتے ہیں؟

DO YOU WANT WHAT YOU PRAY FOR?

ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کی جانب سے
by Dr. Christopher L. Cagan

’’اپنی مصیبت کے دوران میں نے خُدا کو پُکارا، اور اُس نے مجھے جواب دیا‘‘
(یوںاہ 2:2)۔

(یوناہ2:1؛ متی12:40)

I. پہلی بات، وہ لوگ جو اُن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں جنہیں وہ اِتنا زیادہ نہیں چاہتے۔ لوقا18:11؛ یوحنا2:25 .

II. دوسری بات، وہ لوگ جو اُن باتوں کے لیے دعا مانگتے ہیں جنہیں وہ انتہائی شدت کے ساتھ چاہتے ہیں، 2سلاطین19:1؛ دانی ایل9:3، 4؛ نحمیاہ1:4؛ یوناہ3:4، 5؛
زبور66:18؛ لوقا18:5 .