Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


چین – دروازہ کُھلا ہے!

(وسطِ خزاں کے چینی میلے کے موقعے پر دیا گیا ایک واعظ )
CHINA – THE DOOR IS OPEN!
(A SERMON GIVEN AT THE CHINESE MID-AUTUMN FESTIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسم دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 30 ستمبر، 2018
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, September 30, 2018

’’میں نے تیرے سامنے ایک دورازہ کھول رکھا ہے جسے کوئی بند نہیں کر سکتا: کیونکہ تیرے پاس قوت کم ہے‘‘ (مکاشفہ3:8)۔

اِس آیت سے تعلق رکھتے ہوئے، ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon نے کہا،

اُس دِن میں جب مسیح کی الوہیت کو سیمنری اور واعظ گاہوں سے کُھلم کُھلا مسترد کر دیا جائے گا، تو ایمانداروں کا ایک گروہ ہو گا جو الوہی انسان اور گنہگاروں کے لیے اُس کی متبدلیاتی موت کا اعلان کرنے کے وسیلے سے سچائی پر ڈٹا رہے گا۔ فیلاڈلفیہ میں موجود اِس گرجا گھر کے ساتھ بے شمار باتیں منسوب کی جاتی رہی ہیں۔ کچھ اِس کو مشنری [کلیسیا] گرجا گھر کہتے ہیں؛ کچھ اِس کو خدمت گزار [کلیسیا] گرجا گھر کہتے ہیں؛ کچھ اِس کو زندہ [کلیسیا] گرجا گھر کہتے ہیں – یہ تمام کے تمام بالکل صحیح ہیں۔ میں ذاتی طور پر اِس کو دوبارہ بحال ہو جانے والی [احیا پانے والی] کلیسیا یا گرجا گھر کہنا پسند کروں گا (جے ورنن میگی ، ٹی ایچ۔ ڈی J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد پنجم، صفحہ918؛ مکاشفہ3:8 پر تبصرہ)۔

فیلیڈلفیہ کی کلیسیا پر یہ ایک شاندار ترین تبصرہ ہے۔ مسیح نے کہا، ’’تیرے پاس قوت کم ہے۔‘‘ وہ یونانی لفظ جس نے ’’قوتstrength‘‘ کا ترجمہ کیا ’’ڈیونامِنdunamin‘‘ ہے جو کہ ’’ڈیونامسdunamis‘‘ کی ایک قسم ہے۔ ہم اپنے انگریزی کا لفظ ’’ڈائینامائٹdynamite‘‘ اُس یونانی لفظ سے لیتے ہیں۔ مسیح نے نہیں کہا تھا کہ اُن کے پاس قوت نہیں تھی۔ اُس نے کہا تھا اُن کے پاس تھوڑی ڈیونامسdunamis تھی، کم قوت، خُدا کی قوت کا تھوڑا سا حصہ۔ اور وہ تھوڑی سی ڈیونامسdunamis ایک طویل راہ طے کرتی ہے! تھوڑا سا ڈائینامائیٹ ایک بہت بڑی عمارت کو اُڑا سکتا ہے۔ اور خُدا کی تھوڑی سی قوت اُن دیواروں اور رکاوٹوں کو اُڑ سکتی ہے جو انسان، حیاتِ نو کو روکنے کے لیے اور خوشخبری کو پھیلانے کے لیے راہ میں کھڑی کرتا ہے۔

جب خُدا کی ڈیونامسdunamis، اُس کی قوت، نازل ہوتی ہے، تو وہ اُن دروازوں کو کُھل دیتا ہے جو انسان کبھی بھی نہیں کھول پاتا۔ درحقیقت، بالکل یہی ہے جو مسیح نے اِس سے پچھلی آیت میں کہا، وہ خُدا کی قوت کا بیان یوں کرتا ہے،

وہ جسے کھولتا ہے اُس کو بند نہیں کر سکتا اور جسے بند کرتا ہے اُس کوئی کھول نہیں سکتا‘‘ (مکاشفہ3:7)۔

وہ اُن دروازوں کو کھولتا ہے جنہیں انسان کبھی بھی نہیں کھول سکتا، اور دروازوں کو بند بھی کرتا ہے۔ اور جب وہ اُنہیں بند کرتا ہے تو انسان اُن کو کھول نہیں سکتا، چاہے وہ کتنا ہی زور لگا لے۔

میرے خیال میں ہمیں اِس بات کی بالکل ایسی ہی تصویر آج نظر آتی ہے جب ہم امریکہ کی روحانی قوت پر نظر ڈالتے ہیں اور اِس کا موازنہ چین کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں امریکہ میں چوبیس گھنٹے لگا رہنے والا ایک ’’مسیحی‘‘ ٹی وی ہے۔ ہمارے پاس کچھ بہت بڑے بڑے گھر گھر ہیں۔ ہم سب کچھ رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں! لیکن امریکہ کی زیادہ تر مسیحیت میں ایک چونکا دینے والے احساس یا خیال یا شعوروفہم کی گہرائی کی قلت ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر میگی نے کہا، یہاں امریکہ اور مغرب میں تو بے شمار گرجا گھر یہاں تک کہ ’’مسیح کی الوہیت‘‘ کا انکار کرتے ہیں۔

اور اُن مختلف اسکیموں کو دیکھنا دلچسپ لگتا ہے جو امریکی پادری حضرات اپنے گرجا گھروں میں لوگوں کو لانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اُن میں سے کوئی ایک بھی بخوبی کام کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ اور اِس کا جواب آیت سات میں پیش کیا گیا ہے،

وہ جسے کھولتا ہے اُسے کوئی بند نہیں کر سکتا اور جسے بند کرتا ہے اُس کوئی کھول نہیں سکتا‘‘ (مکاشفہ3:7)۔

دیکھا آپ نے، امریکہ میں زیادہ تر گرجا گھروں میں خُدا دورازہ بند کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے – ’’اور کوئی انسان اِس کو کھول نہیں سکتا‘‘! کوئی بھی انسانی حیات نوع کے نزول اور مسیح میں ایمان لانے کے لیے لوگوں کی تبدیلیوں کرنے کے دروازے کو نہیں کھول سکتا۔ صرف خُدا خود یہ کر سکتا ہے! کوئی بھی ’’آدمی‘‘ امریکہ میں حیات نوع کے لیے دروازے کو ایک انتہائی سادہ سی وجہ کے لیے بھی نہیں کھول سکتا – خُداوند دروازہ بند کر چکا ہے! یہ حقیقت کی ایک سادہ سا بیان ہے۔ اور ہم دیکھ سکتے ہیں، ’’کوئی انسان کھول نہیں سکتا۔‘‘ یعنی کہ کوئی بھی انسانی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ خُدا کو حیات نو بھیجنے کے لیے ’’کیسے رضامند‘‘ کیا جائے۔ خُدا قادرِ مطلق ہے۔ وہ کھولتا ہے۔ وہ بند کرتا ہے۔ انسان جو چاہتا ہے وہ کرنے کے لیے خُدا کو مجبور نہیں کر سکتا! خُدا وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے، اور خُدا، اِس موجودہ زمانے میں، امریکہ کے گرجا گھروں میں حیاتِ نو کے دروازے کھولنا نہیں چاہتا ہے۔ اور کوئی بھی انسان خُدا کو وہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا جس کو نہ کرنے کے خُدا فیصلہ کر چکا ہے – کیونکہ وہ قادرِ مطلق ہے! میں خواہش کرتا ہوں کہ مذید اور امریکی مبلغین اِس بات کو سمجھ چکے ہوں! خُدا قادرِ مطلق ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ اُس کو وہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے جو آپ چاہتے ہیں کہ وہ کرے – جب تک کہ وہ خود اُس کو کرنے کے لیے فیصلہ نہیں کرتا۔ آپ تصویر میں سرے سے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے – کیونکہ خُدا قادر مطلق ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہاں ہمارے زیادہ تر مبلغین کو وہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ اب بھی سوچتے ہیں کہ کوئی نیا ’’طریقہ‘‘ یا ’’چالیں‘‘ ’’کام‘‘ کر جائیں گی۔ میرے دوست، ماسوائے خُدا کے پاک روح کے کوئی بھی اور بات واقعی میں کوئی ’’کام‘‘ نہیں کرتی – اور وہ [خُدا] فیصلہ کرتا ہے آیا ہمیں حیاتِ نو کا تجربہ کرنا چاہیے یا نہیں! آپ اِس بات کا فیصلہ نہیں کرتے! خُدا اِس بات کا فیصلہ کرتا ہے! ’’تیرے کام کی بحالی ہوRevive Thy Work ‘‘ کا پہلا بند گائیں۔ یہ گیتوں کے ورق پر نمبر 1 ہے۔

تیرے کام کی بحالی ہو، اے خُداوندا! تیرا قوی بازو فقط بناتا ہے؛
   اُس آواز کے ساتھ بولنا جو مُردوں کو جگاتی ہے، اور تیرے لوگوں کو سُنائی دیتی ہے۔
بحالی ہو! بحالی ہو! اور تروتازہ بوچھاڑیں بخشتی ہے؛
   وہ جلال سارے کا سارے تیرا اپنا ہوتا ہے؛ برکات ہماری ہوتی ہیں۔
(’’تیرے کام کی بحالی ہوRevive Thy Work ‘‘ شاعر البرٹ میڈلین Albert Midlane)۔

لیکن ہم اب اِس کا بالکل ہی اُلٹ عوامی جمہوریہ چین میں رونما ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں! یہاں امریکہ میں ہم اپنی آنکھوں کے سامنے بے شمار گرجا گھر کا اِرتداد ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن چین میں ہم اِس کا بالکل اُلٹ دیکھ رہے ہیں! اِس کی ہر طرف رپورٹ کی جا رہی ہے۔ میں کچھ اہم معاملات پر بلی گراہم کے ساتھ متفق نہیں ہوتا ہوں۔ لیکن اُن کا بیٹا، فرینکلن گراہم، دُرست تھا جب اُس نے کہا کہ چین میں گرجا گھر ’’حال ہی کی دہائیوں میں بہت بڑی تعداد میں بڑھ‘‘ چکے ہیں۔ ماؤ کے تہذیبی انقلاب میں واقعی میں ممنوعہ قرار دیے گئے، مسیحیوں کی اب تعداد 40 ملین ہے یا زیادہ [کچھ کہتے ہیں اتنے ہی جتنے 160 ملین] – اور وہ بڑھ رہے ہیں۔‘‘ [میں اب بھی فرینکلن گراہم ہی کا حوالہ دے رہا ہوں] ’’نشوونما کے دِل میں عام مسیحیوں کی جانب سے ’مبشرِ انجیل کا کام کرنے کی‘ ذمہ داری ہوتی ہے (2تیموتاؤس4:5)… [چین میں مسیحی] آگے نکل چکے ہیں کیونکہ [وہاں پر] مسیح کے پیروکار اپنے ایمان میں جرأت مندانہ رہے ہیں، بعض مواقع پر مسیح کی خاطر اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا‘‘ (فینکلن گراہم، ڈیسیشن میگزین Decision Magazine، جولائی\ اگست 2008، صفحہ 40)۔

گمراہ لوگوں تک انجیل کا پیغام پہنچانے کے لیے اُس قسم کا جوش خُدا کی بخشش ہوتا ہے، اور یہاں امریکہ میں ہمارے پاس اُس کا ذرا سا حصہ بھی نہیں ہے۔ امریکہ کے زیادہ تر گرجا گھروں میں کتنے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ کبھی بھی کسی گمراہ شخص کو تبلیغ سُننے کے لیے لے کر آتے ہیں؟ لیکن چینیوں میں گمراہ لوگوں کو انجیل کی خوشخبری سُنانے کے انتہائی شدید جوش ہوتا ہے – اور یہ خُدا کا بخشا ہوا جوش ہوتا ہے! خُدا خُود چینیوں کو متاثر کر رہے کہ چین کو ایک مسیحی قوم میں دُںیا کی نظروں کے سامنے ہی بدل ڈالیں!

چین میں مسیحیت کی بڑھتی ہوئی تعداد نے تو یہاں تک کہ وہاں کی حکومت کے رہنماؤں پر بھی بھی گہرا اثر ڈالا ہے۔ آج کی مسیحیت Christianity Today رپورٹ پیش کرتی ہے جو چین کے صدر حوجِنٹاؤ نے 2008 میں اپنی تقریر میں کہا، ’’ہم معاشی اور معاشرتی تشکیل کے لیے مذہبی ہستیوں اور ایمانداروں کا سا مثبت کردار ادا کریں گے‘‘ [پڑھیں – ’’مسیحی‘‘] (آج کی مسیحیت Christianity Today، مئی2008، صفحہ31)۔ وہ چین کے ایک صدر کے لئے واقعی میں ایک حیرت میں مبتلا کر ڈالنے والا بیان ہے! یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُنہیں حیاتِ نو کا جوار بھاٹٓ ہزاروں لاکھوں چینی لوگوں کو خُدا کی بادشاہت میں بہا لے جاتے ہوئے نظر آتا ہے، اور اُنہیں ’’معاشرتی اور معاشی تشکیل کے فروغ کے لیے‘‘ اُن کی مدد درکار ہے۔ کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ چین کا صدر کُھلم کُھلا ایک وسیع پیمانے پر نشر ہونے والی تقریر ایسی بات کریں گے؟ آج کی مسیحیت Christianity Today کا آرٹیکل کہتا ہے کہ چین میں خود حکومت کے بے شمار اراکین مسیحی ہو رہے ہیں! (ibid.)۔ آج کی مسیحیت Christianity Today میں آرٹیکل نے کہا، ’’چین کے لوگ یسوع کو قبول کرنے کے لیے بھوکے ہیں۔ پاک روح اُن کے دِلوں کو پہلے ہی سے کھول چکا ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ گرجا گھروں کا رُخ کر رہے ہیں‘‘ (ibid.)۔ یہ خُدا کا کام ہے! یہ انسان کا کام نہیں ہے! چین کے لیے، مسیح کہہ رہا ہے،

’’دیکھ، میں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھا ہے، جسے کوئی بند نہیں کر سکتا:کیونکہ تیرے پاس تھوڑی سی قوت ہے‘‘ (مکاشفہ3:8)۔

حتّیٰ کہ انتہائی ’’کم‘‘ تعداد میں، فرینکلن گراہن نے اندازہ لگایا، 40 ملین مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے نئے لوگوں کی شرع سے [حالانکہ یہ یقینی طور پر اِس سے کہیں زیادہ ہے] چینی مسیحیوں کی تعداد اُس بہت بڑی مغربی بپٹسٹ کنوینشن اور بے شمار دوسرے بڑے بڑے امریکہ فرقوں کو ملا کر جو تعداد بنتی ہے اُس کے مقابلے میں کہیں زیادہ عظیم ترین [بہت زیادہ] ہے، سارے کے سارے مغربی بپٹسٹ، کرشماتی مشن والے اور دوسری امریکی ایونجیلیکل مشنوں کو ملا کر جو تعداد بنتی ہے اُس کے مقابلے میں تعداد میں کہیں بہت زیادہ ہے! ہم خُداوند یسوع مسیح کے ساتھ مل کر صرف کہہ سکتے ہیں،

’’یہ کام خُداوند نے کیا ہے، اور ہماری نظروں میں تعجب انگیز ہے‘‘ (متی21:42)۔

مہربانی سے کھڑے ہوں اور خُدا کو جلالیت دینے والے حمدوثنا کے گیت کو گائیں، اور چین میں – ایشیا اور ’’تیسری دُنیا‘‘ کے دوسرے حصوں میں ایک قوی حیاتِ نو کے لیے خُدا کی ستائش کریں۔ خُدا کو جلالیت دینے والا حمدوثنا کا وہ گیت خُدا کے لیے اِس عظیم حیاتِ نو میں اُس کی قوت اور قدرت کے لیے خُداوند کی ستائش کے ساتھ گائیں!

اُس خدا کی ستائش کریں جس سے تمام برکات بہتی ہیں،
   تمام مخلوقات یہاں نیچے اُس کی ستائش کریں!
عالم بالا پر اُس کی ستائش کرو، اے آسمانی میزبانوں،
   خُدا، بیٹے اور پاک روح کی ستائش کریں۔ آمین۔

آئیے چین میں اور ایشیا اور ’’تیسری دُنیا‘‘ کے دوسرے حصوں میں حیاتِ نو کے لیے دعا مانگنا جاری رکھیں۔ آئیے اُن دور دراز کی سرزمینوں میں دروازے کُھلے رکھنے کے لیے خُدا کی قوت کے لیے دعا مانگیں۔ آئیے اُس [خداوند] سے دعا مانگیں

وہ جسے کھولتا ہے اُسے کوئی بند نہیں کر سکتا اور جسے بند کرتا ہے اُس کوئی کھول نہیں سکتا‘‘ (مکاشفہ3:7)۔

آئیے بالکل ابھی دعا مانگیں، آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی زبان میں، کہ خُداوند چین میں اور ایشیا میں ایونجیلیسٹک، بشروں کو جیتنے والا حیاتِ نو بھیجنا جاری رکھے! (مذہبی جماعت کی جانب سے دعا)۔ ’’تیرے کام کی بحالی ہو Revive Thy Work۔‘‘ اِسے دوبارہ گائیں!

تیرے کام کی بحالی ہو، اے خُداوندا! تیرا قوی بازو فقط بناتا ہے؛
   اُس آواز کے ساتھ بولنا جو مُردوں کو جگاتی ہے، اور تیرے لوگوں کو سُنائی دیتی ہے۔
بحالی ہو! بحالی ہو! اور تروتازہ بوچھاڑیں بخشتی ہے؛
   وہ جلال سارے کا سارے تیرا اپنا ہوتا ہے؛ برکات ہماری ہوتی ہیں۔

اب میرے پاس ایک دوسرا خیال ہے جو کہ خود ہمارے اپنے گرجا گھر کے لیے اہم ہے۔ حال ہی کے مہینوں میں ہمیں پتا چلا ہے کہ یہاں موجود چینی نوجوان لوگ خوشخبری کو کُھلے دِل سے قبول کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہی وہ لمحہ ہے کہ اُٹھ کھڑے ہوں اور اِن چینی نوجوان لوگوں کو اپنے گرجا گھر میں لانے کے لیے وہ سب کچھ کریں جو کر سکتے ہیں، اُن کے سامنے خوشخبری کو پیش کریں،اُنہیں بتانے کے لیے کہ یسوع اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر قربان ہو گیا تھا، اُنہیں یہ بتانے کے لیے کہ وہ مُردوں میں سے جسمانی طور پر جی اُٹھا اور آسمان میں خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہے، اُنہیں بتانے کے لیے کہ اُس کا قیمتی خون اُن کے گناہوں کو دھو سکتا ہے، اُنہیں بتانے کے لیے کے وہ اُس یسوع پر بھروسہ کرنے کے وسیلے سے نجات پا سکتے ہیں، اور یسوع مسیح میں ایمان لانے کی ایک حقیقی تبدیلی کے لیے اُن کی رہنمائی کرنے کے لیے آئیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ خُدا متحرک ہو رہا ہے! آئیے اِس جذبے کی پیاس کو بُجھنے نہ دیں۔ کاش خُدا کی روح ہمیں ’’اُن کو گناہ کے میدانوں میں سے [گرجا گھر میں] اندر لانے کے لیے‘‘ متحرک کرے۔

یہاں ہمارے گرج گھر میں بے شمار چینی نوجوان لوگ آج کی صبح پہلی مرتبہ آئے ہیں۔ یہاں کچھ دوسرے ہیں جو صرف چند ایک ہفتوں سے آتے رہے ہیں۔ آپ سے ہماری یہ اپیل ہے – تاریخ میں اِس نازک وقت کے موقع پر تیسری دُنیا کی خدا کی اِس عظیم تحریک کا حصہ بنیں۔ ساری راہ سے گزر کر ہمارے گرجا گھر میں آئیں۔ محض صرف ابھی اور پھر اِتوار کی صبح ہی مت آئیں! اوہ، نہیں! اِتوار کی شام کو بھی واپس آئیں! ہفتے کی شب کو بھی واپس آئیں! گرجا گھر میں داخل ہوں، اور اِس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ یسوع مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہیں! اور جب آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جاتے ہیں تو بپتسمہ لیں، اِس گرجا گھر کے پوری طرح سے ممبر بنیں۔ فوراً کام پر نکل پڑیں دوسروں کو خوشخبری کا پیغام سُنائیں! اپنے دوستوں کو گرجا گھر میں لائیں۔ اپنے سکول کے دوستوں کو گرجا گھر میں لائیں۔ ہماری یہاں لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں نوجوان چینی لوگوں کے لیے اِس گرجا گھر کو مذہبی پھیلاؤ کا ایک عظیم سنٹر بنانے میں مدد کریں! اور خُدا، اپنے قادرمطلق فضل میں اپنے جلال کے لیے ایسا کرنے میں ہماری مدد کرے! آئیے کھڑے ہوں اور اُوسولڈ جے ۔ سمتھ کی نظم ’’ایونجیلائس! ایونجیلائس!‘‘ گائیں جس کی میں نے سرسری سی ترمیم کی ہے اور چارلس ویزلی کے حمدوثنا کے گیت ’’اور کیا یہ ہو سکتا ہے And Can It Be?‘‘ کی موسیقی پر ترتیب دیا ہے۔ یہ آپ کے گیتوں کے ورق پر نمبر 2 ہے۔

ہمیں اُس وقت کے لیے ایک نعرہ پیش کر، ایک جوش بھرا لفظ، قوت کا ایک لفظ،
ایک جنگ کی پکار، ایک شعلہ فشاں سانس جو فتح کرنے یا موت کے لیے پکارتی ہو۔
کلیسیا کو آرام سے جگانے کے لیے ایک لفظ، مالک کی عظیم درخواست پر توجہ دینے کے لیے۔
پکار ڈل چکی ہے، اے میزبان، اُٹھ، ہمارا نعرہ ہے، خوشخبری کی منادی کرنا!

وہ خوش مبشر اب اعلان کرتا ہے، ساری زمین پر یسوع کے نام میں؛\
یہ لفظ آسمانوں میں کھنک رہا ہے: خوشخبری کی منادی کرنا! خوشخبری کی منادی کرنا!
مرتے ہوئے لوگوں کے لیے، ایک برگشتہ نسل، خوشخبری کے تحفے کے فضل کو مشہور کرو؛
وہ دُنیا جو اب تاریکی میں پڑی ہے، خوشخبری کی منادی کرنا! خوشخبری کی منادی کرنا!
(’’ خوشخبری کی منادی کرنا!Evangelize! خوشخبری کی منادی کرنا! Evangelize!‘‘
شاعر ڈاکٹر اُوسولڈ جے۔ سمتھ Dr. Oswald J. Smith، 1889۔1986؛
بطرز ’’اور کیا یہ ہو سکتا ہے؟ And Can It Be?‘‘
شاعر چارلس ویزلیCharles Wesley، 1707۔1788)۔

’’دیکھ، میں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھا ہے، جسے کوئی بند نہیں کر سکتا:کیونکہ تیرے پاس تھوڑی سی قوت ہے‘‘ (مکاشفہ3:8)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجمین کینکیڈ گریفتھ نے گایا تھا:
’’خوشخبری کی منادی کرنا!Evangelize! خوشخبری کی منادی کرنا! Evangelize!‘‘
 شاعر ڈاکٹر اُوسولڈ جے۔ سمتھ Dr. Oswald J. Smith، 1889۔1986؛
         بطرز ’’اور کیا یہ ہو سکتا ہے؟ And Can It Be?‘‘ شاعر چارلس ویزلیCharles Wesley، 1707۔1788)۔