Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


وہ دو آدم –

آج ہمارے گرجا گھروں میں جس قسم کے واعظ
کی ہمیں سُننے کی ضرورت ہے!
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 90)

THE TWO ADAMS –
THE KIND OF SERMON WE NEED TO HEAR
!IN OUR DYING CHURCHES TODAY
(SERMON #90 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 4 دسمبر، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, December 4, 2016

’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا کہ تُو اِس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے لیکن تُو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہر گز نہ کھانا کیونکہ جب تُو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:‏16۔17).

خُدا نے پہلے انسان کو زمین کی مٹی سے تخلیق کیا تھا۔ ایک نوجوان شخص کی حیثیت سے میں نے اِس بات پر کبھی بھی یقین نہیں کیا تھا۔ میں نے 1961 کے ستمبر کے چوتھے ہفتے تک اِرتقاء کے نظریے پر یقین کیا تھا۔ اُس سال کی 28 ستمبر کو مجھ میں اچانک تبدیلی آئی، ایک زندگی بدل ڈالنے والی تبدیلی۔ اُس ایک ہفتے میں ہر ایک بات بدل کر رہ گئی۔ اُن اہم تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی بائبل پر اٹل اعتقاد کا ہونا تھا۔ اُس لمحے سے مجھے احساس ہو گیا کہ اِرتقاء ایک دھوکہ تھا، محض ایک سائنسی افسانہ، اتنا ہی جھوٹا جتنا کہ مورمن کی کتاب۔ مسیح میں ایمان لانےکی میری تبدیلی میں میرا ذہن ڈاروِن اِزم میں اعتقاد سے بدل کر بائبل میں ہر عبرانی اور یونانی لفظ کے مکمل طور پر الہٰامی ہونے سے وابستہ ہو گیا۔ اب میں اپنی انتہائی روح میں جانتا ہوں کہ ’’ہر صحیفہ جو خُدا کے الہٰام سے ہے وہ تعلیم دینے، تنبیہہ کرنے، سُدھارنے اور راستبازی میں تربیت دینے کے لیے مفید ہے‘‘ (2تیموتاؤس3:‏16)۔ چونکہ کلام پاک کا ہر لفظ خُدا کا پھونکا ہوا (theopneustos) تھا تو بائبل میں کسی بھی قسم کی غلطی ممکن نہ تھی – کیونکہ اُس کا ہر ایک لفظ – پیدائش سے لیکر مکاشفہ تک – اُن لوگوں کو بخشا گیا تھا جنہوں نے اِس پاک کتاب کو تحریر کیا تھا! بائبل نے کہا، ’’خُداوند خُدا نے زمین کی مٹی سے انسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا اور آدم ذی روح ہو گیا‘‘ (پیدائش2:‏7)۔ مجھے تب معلوم ہو گیا تھا کہ خُدا ہی نے پہلے انسان کو تخلیق کیا تھا اور انسان کا اِرتقاء کمتر زندگی کی اقسام سے نہیں ہوا تھا۔ میں جان گیا کہ پیدائش میں انسان کی تخلیق کا اندراج واقعی میں سچا تھا اور میں تب جان گیا تھا کہ اِرتقاء ایک شیطانی جھوٹ تھا۔

پھر خُدا نے انسان کو ایک خوبصورت باغ میں رکھا، ایک باغ جو ہر نوع کے مذیدار پھلوں اور غذائیتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُن صحت سے بھرپور درختوں اور پھلوں میں سے بے شمار اب مذید اور وجود نہیں رکھتے کیونکہ وہ عظیم تباہ کے ذریعے سے تباہ ہو گئے تھے۔

مگر باغ کے وسط میں دو انتہائی اہم درخت تھے – زندگی کا درخت اور نیک و بد کی پہچان کا درخت۔ خُدا نے آدم کو ایک ہی قانون ماننے کے لیے کہا تھا، ’’تو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جب تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:‏17)۔ پیدائش2:‏17 میں اُس لفظ ’’پہچانknowledge‘‘ کی جڑ لفظ ’’یعداyada‘‘ سے نکلتی ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’جیسے ایک جانے پہچانے دوست کے ساتھ واقف ہونا‘‘ (Strong)۔ اگر وہ منع کیے ہوئے پھل کو کھاتے تو وہ اِس کے عادی ہو جاتے۔ شادی سے ہٹ کر ایک بھی جنسی تجربہ ہمیشہ کے لیے ذہن میں رہ جاتا ہے کیونکہ وہ انسان جس نے اِس کو ابھی کیا ہوتا ہے اِس کے ساتھ آگاہ یا واقف ہو جاتا ہے۔ مخصوص نشوں کے ساتھ ایک یا دو تجربے ایک شخص کو وہ احساس دلا دیتے ہیں جو عادی ہونے کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ اُس کی معصومیت ہمیشہ کے لیے چلی جاتی ہے۔ نیک و بد کی پہچان کے درخت میں سے کھانے سے انسان کی معصومیت ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی، پہلے روحانی موت میں خاتمہ ہوتا اور بالاآخر جسمانی موت میں۔

ابلیس اِس بات کو بخوبی جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس نے انسان کو منع کیے ہوئے پھل کو کھانے کے لیے آزمائش میں مبتلا کیا۔ وہ جانتا تھا کہ انسان اپنی معصومیت کو کھو دے گا اور ہمیشہ کے لیے ایک گنہگار بن جائے گا۔ اُس کا ضمیر اُسی لمحے مر جائے گا جیسے ہی وہ منع کیا ہوا پھل کھائے گا۔ وہ اب خُدا سے چُھپتا پھرے گا۔ اُس کی روح ’’گناہوں اور قصوروں میں مُردہ‘‘ ہو گی (افسیوں2:‏1)۔ وہ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہوگا (افسیوں2:‏5)۔ اُس کی نیت جسمانی ہوگی اور خُدا کو ایک دشمن کی حیثیت سے دیکھے گا (رومیوں8:‏7)۔ وہ ناصرف روحانی طور پر مر جائے گا، بلکہ اُس کے جسم کی عمر بڑھے گی اور اُس کا خاتمہ جسمانی موت میں ہوگا۔ ایک مُردہ انسان کی حیثیت سے وہ ’’خُدا کے روح کی باتوں کو قبول کرنے‘‘ کے قابل نہیں ہوگا… کیونکہ اب خُدا کی سچائیاں ’’اُس کے لیے بےوقوفی کی باتیں‘‘ ہونگی (1 کرنتھیوں2:‏14)۔

لیکن اِس سے بھی بدتر، اُس کی تباہ حال فطرت اور روحانی موت اُس کی تمام نسل کو وراثت میں ملے گی، زمین پر ہر کسی کے لیے، کیونکہ ’’آدم کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار بن جائیں گے‘‘ (رومیوں5:‏19؛ KJV، ESV)۔ ’’جس طرح ایک آدمی [آدم] کے سبب سے آدمیوں کے لیے موت کی سزا کا حکم ہوا‘‘ (رومیوں5:‏18)۔ آدم کے موروثی گناہ کا مطلب ہوتا ہے کہ گناہ کی بھرپوری ہر کسی کو پیدائش ہی سے گناہ کی جانب دِل سے راغب ہونے کے لیے نشانہ بناتی ہے… گناہ کی یہ اندرونی بھرپوری تمام حقیقی گناہوں کی جڑ اور منبع ہوتی ہے؛ یہ ہمیں آدم کی جانب سے منتقل ہوتی ہے [یا وراثت میں ملتی ہے… ہم گنہگار نہیں ہوتے کیونکہ ہم گناہ کرتے ہیں، بلکہ ہم گناہ کرتے ہیں کیونکہ ہم گنہگار ہوتے ہیں، جو گناہ کے لیے غلامی میں فطرت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں‘‘ (مذھبی اصلاحی مطالعۂ بائبل The Reformation Study Bible؛ صفحہ781 پر غور طلب بات)۔ ’’آدمی… گناہ میں مُردہ خود اپنی قوت کے ذریعے سے خود کو بدلنے کے قابل نہیں ہوتا‘‘ (ویسٹ منسٹر کا اعتراف Westminster Confession، IX، 3)۔

آدم کا گناہ اُس کی آل اولاد (ساری کی ساری نسل انسانی) میں منتقل ہوا ہے۔ وہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے۔ یہ اِس حقیقت سے ثابت ہوا ہے کہ آدم کا پہلا بچہ قائین تھا، جس نے اپنے ہی بھائی کا قتل کیا (دیکھیں پیدائش4:‏18)۔ یوں آپ آدم کے بچے ہیں۔ آپ فطرتاً ہی گنہگار ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہے جو آپ کے کرنے یا کہنے سے آپ کو نجات دلا سکتا ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے جس کے کرنے سے آپ کو نجات پانے میں مدد مل سکے۔ فطرتاً آپ ایک گنہگار ہیں۔ گرجا گھر آنا آپ کو نجات نہیں دلائے گا۔ اِتنا نیک ہونا جتنا آپ ہو سکتے ہیں آپ کو نجات نہیں دلائے گا۔ کچھ بھی نہیں – میں دہراتا ہوں – ایسا کچھ نہیں جس کی کرنے یا کہنے سے آپ نجات پا سکیں۔ آپ ایک گمراہ گنہگار ہیں۔ کچھ سب سے بدترین گنہگار جنہیں میں جانتا ہوں مبلغین ہیں – وہ لوگ جو روزانہ بائبل پڑھتے ہیں۔ سب سے زیادہ نافرمان گنہگاروں میں سے کچھ جنہیں میں جانتا ہوں مسیحی والدین سے پیدا ہوئے۔ لیکن وہ باغی بننے کے لیے بڑھے ہوئے، خُدا کے خلاف بغاوت کے لیے، مسیح کے خلاف بغاوت کے لیے، اپنے والدین کے خلاف بغاوت کے لیے، ہر اُس بات کے خلاف بغاوت کے لیے جو اُنہوں نے گرجا گھر میں سیکھی۔ وہ شاید بائبل کو بخوبی جانتے ہوں، مگر وہ اُس کے خلاف بغاوت کرتے ہیں۔ وہ اُس پادری صاحب کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جو بائبل کی منادی کرتا ہے۔ وہ بغاوت کرتے ہیں کیونکہ اپنے دِلوں میں وہ سچائی سے نفرت کرتے ہیں۔ میں ’’گرجا گھر میں پروان چڑھے بچوں‘‘ کو جانتا ہوں جو اتنے ہی عیار و بدکار ہیں جتنا کہ شیطان ہے۔ گرجا گھر میں پرورش پائی ہوئی لڑکیاں جو نوجوان لوگوں کو اپنے ساتھ جنسی ملاپ کرنے کے لیے پُھسلاتی ہیں۔ اگلے ہی اِتوار وہ حمدوثنا کے گیت ایسے گا رہی ہوتی ہیں جیسے وہ چھوٹے فرشتے ہوں، جب کہ درحقیقت وہ تباہ حال گنہگار تھیں۔ میں ’’گرجا گھر میں پروان چڑھے بچوں‘‘ کو جانتا ہوں جو وہ نوجوان لوگ تھے جنہوں نے اُن لڑکیوں کے ساتھ جنسی ملاپ کیا تھا اور پھر کم عمر نوجوان لڑکوں کے سامنے اپنے گناہ کے بارے میں شیخیاں مارتے ہیں اور اِس طرح سے اُن چھوٹے لڑکوں کے ذہنوں میں اُس شہوت کو جو اُنہیں تباہ کر سکتی ہے نقش کر دیتے ہیں۔

آپ کہتے ہیں، ’’میں نے ایسا کبھی بھی نہیں کیا!‘‘ مگر آپ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوچا۔ آپ نے اپنے ذہن میں غلیظ باتیں کیں، کیا نہیں کیں؟ یسوع نے کہا یہ اِتنا ہی بڑا گناہ جتنا اِس کو کرنا ہوتا ہے!

آپ کہتے ہیں آپ خُدا سے محبت کرتے ہیں، لیکن کیا آپ اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں؟ کیا آپ اپنے تمام دِل کے ساتھ خُدا سے محبت کرتے ہیں؟ کیا آپ روزانہ بائبل کو پڑھنے سے محبت کرتے ہیں؟ کیا آپ ہر روز خُدا سے تنہا دعا مانگنے میں وقت صرف کرنے سے محبت کرتے ہیں؟ یا کیا آپ اپنا فارغ وقت ویڈیو گیمز کھیلنے یا ٹی وی پر کھیلوں کے مقابلے دیکھنے میں گزار دیتے ہیں – کبھی بھی اُتنے ہی وقت کو دعا میں یا بائبل کو پڑھنے میں گزارنے کے بارے میں نہیں سوچتے؟ میں کہتا ہوں یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ خُدا سے محبت نہیں کرتے – واقعی میں نہیں – آپ صرف خُدا سے محبت کرنے کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ مگر آپ واقعی میں خُدا کی تحقیر کرتے ہیں۔ مگر آپ واقعی میں صرف خود سے محبت کرتے ہیں۔ سوچیں! کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کیا آپ واقعی میں وہ گنہگار نہیں ہیں جو خُدا کی تحقیر کرتا ہے؟ کیا آپ پادری صاحب سے خوفزدہ نہیں ہیں؟ آپ کیوں مجھ سے خوفزدہ ہیں؟ کیا یہ اس لیے نہیں ہے کیونکہ میں نے آپ کو خُدا اور گناہ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا؟ کیا یہ ہی وجہ نہیں ہے کہ آپ مجھ سے خوفزدہ ہیں؟

کیا آپ نے واقعی میں جان کیگن کا محبت کی ملاقات کیسے کرنی چاہیے نہیں پسند کیا؟ آپ سیدھے بیٹھ گئے تھے اور شدید غور سے سُنا تھا۔ آپ ایسا نہیں کرتے جب میں گناہ، نجات اور مسیح پر منادی کرتا ہوں! مسیح پر – آپ کو گناہ سے نجات دلانے کے لیے صلیب پر اُس کی قربانی کے بارے میں میری منادی کو سُننے کے مقابلے میں کسی دوسرے کے ساتھ محبت کی ملاقات کرنے کے بارے میں سوچنا کہیں زیادہ دلچسپ دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ میں صحیح ہوں، تو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک باغی گنہگار ہیں جس کے دِل میں مسیح کے بارے میں کوئی حقیقی محبت نہیں ہوتی۔ اِس کا اِقرار کریں۔ آپ کو اقرار کرنا چاہیے اور یہ محسوس کرنا چاہیے کہ آپ ایک گمراہ گنہگار ہیں۔ آپ کو اِس کا اقرار کرنا چاہیے ورنہ آپ کے لیے کوئی اُمید نہیں ہے۔ آپ کے لیے بالکل بھی کوئی اُمید نہیں!

’’جو اپنے گناہ چھپاتا ہے، کامیاب نہیں ہوتا، لیکن جو اقرار کر کے اُن کو تُرک کرتا ہے، اُس پر رحم کیا جائے گا‘‘ (امثال 28:‏13).

اپنے گناہ سے بھرپور دِل کی باطنی گناہ کی بھرپوری کا اقرار ابھی کریں، ورنہ آپ ابدیت، آگ کی جھیل میں گزاریں گے! یہ ہی سچائی ہے۔ میں آپ کے ساتھ ایک بالغ کی مانند باتیں کر رہا ہوں۔ یہ کوئی اِتوار کا پیارا سا چھوٹا سا سبق نہیں ہے۔ یہی جوئیل آسٹن کی جانب سے کی گئی کوئی پیاری سی چھوٹی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی جان میک آرتھر کی جانب سے آیت بہ آیت کی گئی تفسیر نہیں ہے۔ یہ ایک بہت اچھا پرانے زمانے کے انداز میں آپ کو جگانے کے لیے دیا گیا ایک واعظ ہے۔ یہ پرانی طرز کی تعلیم Old School کا انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم پر ایک واعظ ہے۔ یہ ایک واعظ ہے جسے شاید خُدا آپ کو اِس حقیقت کے لیے کہ آپ کے پاس گناہ سے بھرپور ایک دِل ہے بیدار کرنے کے لیے استعمال کرے، ایک دِل جو گناہ میں مُردہ ہے۔ میں آپ کے ساتھ ایسی ہی باتیں کر رہا ہوں جیسی ہر مبلغ کو کرنی چاہیے۔ مجھے آپ کے پیسے کی ضرورت نہیں! جہنم میں جائے آپ کے پیسے۔ مجھے آپ کی روح چاہیے۔ میں آپ کو یسوع کے وسیلے سے نجات پاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں خُدا کو آپ کا گناہ سے بھرپور دِل بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں، اِس کو بدلے اور اِس کو مسیح کے خون کے ساتھ پاک صاف کر دے۔ یہ ہے جو میں چاہتا ہوں۔ آپ ابھی جو بے دین ہیں اُس کے بجائے میں آپ کو ایک خوش مسیحی میں بدلتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں! منافق ایک شخص ہوتا جو مسیحی کی مانند لگتا ہے، لیکن اندر سے اُس کا دِل ’’مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاستوں سے بھرا ہوتا ہے… وہ باہر سے تو لوگوں کو راستبازوں کی طرح نظر آتے ہیں لیکن اندر سے ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوتے ہیں‘‘ (متی23:‏27،28)۔ اور آپ کو جیسے آپ ہیں ویسے ہی پسند ہے۔ آپ کا دِل اِس قدر گناہ سے بھرپور ہوتا ہے کہ آپ اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ایک مسیحی کی مانند نظر آئیں – مگر اپنے دِل پر نظر ڈالیں! آپ کا دِل گناہ کی بھرپوری، شہوت، اور بے اعتقادی سے بھرا ہوتا ہے۔ آپ کا دِل اِتنا ہی باغی ہے جتنا قائین کا دِل تھا۔

پیدائش5:‏1، 3 ثابت کرتی ہے کہ آدم کے گناہ نے ساری نسل انسانی کو تباہ کر دیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کا دِل گناہ میں مُردہ ہے۔ پیدائش5:‏1 میں ہم دیکھتے ہیں کہ ’’جب خُدا نے اِنسان کو پیدا کیا تو اُس نےاُسے خُدا کی صورت پر پیدا کیا‘‘ (پیدائش5:‏1)۔ لیکن آدم نے بغاوت کی اور گناہ کی وجہ سے اپنی معصومیت کو کھو دیا۔ پھر ہم پڑھتے ہیں کہ آدم ’’کے ہاں اُس کی مانند اور اُس کی صورت پر بیٹا پیدا ہوا‘‘ (پیدائش5:‏3)۔ جب آدم معصوم تھا تو یہ کہا جاتا تھا کہ اُس کو خُدا کی صورت کی مانند پیدا کیا گیا تھا – خُدا کی مانند معصوم! لیکن اُس کے گناہ کرنے کے بعد وہ باپ بنا ’’خود اُس کی اپنی صورت کی مانند ایک بیٹے کا‘‘ – گناہ کا قصوروار، فطرتاً ایک گنہگار! (پیدائش5:‏3)۔

اور یہ ہی وہ مشہابت ہے جس کے ساتھ آپ پیدا ہوتے ہیں – آپ آدم کی مانند فطرتاً گنہگار ہیں جب اُس نے بغاوت کی تھی۔ آپ فطرتاً گنہگار ہیں۔ آپ کے والدین فطرتاً گنہگار ہیں۔ ہر کوئی جس کو آپ سکول میں یا کام والی جگہ پر جانتے ہیں فطرتاً گنہگار ہوتا ہے۔ سزا کے ذریعے سے دُرست ہونے کے لیے نفُوذناپزیر جو اپنے بُرے دِلوں کو بدلنے کے لیے ایک بھی کام نہیں کر سکتے۔ ’’کیا؟‘‘ آپ کہتے ہیں، ’’میری والدہ کا گناہ سے بھرپور ایک دِل ہے؟‘‘ جی ہاں! اُن کا دِل اتنا ہی باغی اور گناہ سے بھرپور ہے جتنا کہ آپ کا ہے، یا آدم کی کسی دوسری اولاد کا ہے۔ ساری کی ساری نسل انسانی تباہ ہو گئی تھی، اور موت سب ہی کو آتی ہے۔ یہ سب کچھ آدم کے گناہ کی وجہ سے آتا ہے۔ یاد رکھیں، اُس کو خبردار کیا گیا تھا۔ یاد رکھیں، اُس کے پاس نافرمانی کرنے کے لیے کوئی وجہ نہیں تھی۔ یاد رکھیں، وہ بخوبی جانتا تھا وہ مر جائے گا اور کہ وہ ہر دوسرے شخص کو جو کبھی بھی پیدا ہو گا تباہ کر دے گا۔ یاد رکھیں، آدم، جو اِس قدر اچھا پاک انسان تھا – گناہ کے ذریعے سے ایک عفریت میں تبدیل ہو گیا تھا! ہر باشعور انسان ھٹلر سے نفرت کرتا ہے کیونکہ اُس نے چھ ملین یہودیوں کو قتل کر دیا تھا۔ لیکن جب ھٹلر کا موازنہ آدم سے کریں تو وہ اتنا ہی معصوم ہے جتنا کہ ایک فرشتہ ہوتا ہے۔ ھٹلر نے چھ ملین لوگوں کو قتل کیا تھا۔ مگر آدم نے تو ساری کی ساری نسل انسانی کا قتل کیا تھا! کروڑ در کروڑ لوگوں کا قتل! آدم نے آپ کے دِل کو تباہ کیا۔ آدم نے آپ کو گرجا گھر جانے والا ایک بے دین بنا ڈالا – اُس نے آپ کو ایک ایسا بے دین بنا ڈالا جو اپنا دِل بدل نہیں سکتا – ایک بے دین جو جہنم کی جانب جا رہا ہے، اور جو وہاں جانے کے لیے مستحق ہے اپنی وراثت میں ملی ہوئی گناہ کی فطرت کی وجہ سے، اور کیونکہ وہ اُس واحد ہستی کو مسترد کر دیتا ہے جو اُس کو نجات دلا سکتی ہے – یسوع، جو آخری آدم ہے۔ پہلے آدم نے آپ کو ایک باغی اور گناہ سے بھرپور دِل دیا تھا۔ وہ آخری آدم، مسیح، وہ تنہا اور واحد ہستی ہے جو آپ کو نیا دِل بخش سکتا ہے۔ صرف مسیح ہی آپ کا سنگین دِل نکال سکتا ہے اور ’’آپ کو گوشین دِل عطا کر سکتا ہے‘‘ (حزقی ایل 36:‏26)۔ یہی تو احیاء ہے۔ یہ ہی تو نیا جنم ہوتا ہے۔

اب ہم سخت حصے کی جانب آتے ہیں۔ کیسے ایک ہستی جو اپنا دِل نہیں بدل سکتی کبھی بھی نجات پائے گی؟ آپ کو نئے سرے سے جنم لینا چاہیے۔ نئے سرے سے جنم لینا یا احیاء ایک اشد اہم عقیدہ ہے۔ میں اِس پر مبلغین کو اب بات کرتے ہوئے نہیں سُنتا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے گرجا گھر مر رہے ہیں! وہ لفظ احیاء خُدا کے ایک عمل کی جانب حوالہ دیتا ہے جو دِل کو بدلتا ہے اور اِس کی موت سے زندگی کی جانب ہیّت بدل ڈالتا ہے۔ مسیح نے احیاء پانے کو ’’دوبارہ جنم لینا‘‘ کہا ہے، ایک روحانی کایا پلٹ، پاک روح کے ایک عمل کے ذریعے ایک نئے دِل کی تخلیق، ایک عمل جس میں ایک شخص آدم کے بیٹے سے تبدیل ہو کر خُدا کا بیٹا بن جاتا ہے۔ احیاء تنہا خُدا کا عمل ہوتا ہے، ایک عمل جس میں وہ مُردہ دِل کو جو آدم سے وراثت میں ملا ہوتا ہے، زندہ کر ڈالتا ہے۔ اُس نئے جنم کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ آپ کے احیاء پانے سے پہلے آپ کا دِل مُردہ ہوتا ہے۔

سب سے بہترین گواہی جو میں نے ایک نوجوان کی آج تک پڑھی وہ جان کیگن کی گواہی ہے۔ یہ اِس قدر صحیح ہے کہ ایک شخص جس نے اِس کو پڑھا اُس نے مجھے بتایا کہ یہ ایک پندرہ سالہ لڑکے کی نہیں ہو سکتی۔ اِس شخص نے مجھ پر الزام لگایا کہ یا تو میں نے یہ خود لکھی ہے، یا اِس کو دُرست کر کے اِس میں اضافہ کیا ہے۔ مگر جان یہاں پلیٹ فارم پر میرے ساتھ خود بیٹھا ہوا ہے۔ وہ آپ کو یقین دلا سکتا ہے کہ میں نے اِس کو نہیں لکھا یا اِس کو کسی بھی طرح سے تبدیل نہیں کیا – نہ اُس کے والد، ڈاکٹر کیگن نے کیا۔ ہم لوگوں کو صرف اِس کے پڑھنے یا اِس کو پڑھتے ہوئے سننے کے وسیلے سے نجات پاتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔

پہلے آدم میں انسان کے دِل کی موت کو واپس ہونا ہی تھا، اِس کو مسیح، اُس آخری آدم کے وسیلے سے دوبارہ زندہ کیا جانا ہی تھا۔ اِس بات کو پولوس رسول نے نہایت واضح کیا،

’’چنانچہ جس طرح ایک آدمی کے قصور کے سبب سے سب آدمیوں کے لیے مَوت کی سزا کا حکم ہُوا اُسی طرح ایک [مسیح] ہی کی راستبازی کے کام کے وسیلہ سے … اور جیسے ایک آدمی [آدم] کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے ویسے ہی ایک آدمی [مسیح] کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہرائے جائیں گے ‘‘ (رومیوں 5:‏18، 19).

دوبارہ رسول آدم اور مسیح کا موازنہ کرتا ہے،

’’پہلا آدمی یعنی آدم زندہ نفس بنا، آخری آدم [مسیح] زندگی بخشنے [زندگی دینے] والی رُوح بنا‘‘ (1۔ کرنتھیوں 15:‏45).

صرف مسیح (جو آخری آدم ہے) ایک گنہگار کے مُردہ دِل کو زندگی کی جانب لا سکتا ہے۔ مسیح دل کو گناہ کی غلامی سے بدل کر ایک نیا دِل بنا ڈالتا ہے، ایک ایسا دِل جو خُدا سے محبت کرتا ہے۔ یہ کام اُس وقت شروع ہوتا ہے جب خُدا کا روح آپ کو آپ کے گناہ سے بھرپور دِل کی سزایابی میں لاتا ہے (یوحنا16:‏8)۔ تب خُدا کا روح آپ پر مسیح کو آشکارہ کرتا ہے (یوحنا16:‏14، 15)۔ بالاآخر خُدا آپ کو مسیح کی جانب کھینچتا ہے (یوحنا6:‏44)۔ احیاء یا تجدید میں یہ تینوں مراحل جان کیگن کی گواہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پہلے پیراگراف میں جان آدم سے وراثت میں ملے ہوئے اپنے بُرے دِل کے بارے میں بات کرتا ہے۔ دوسرے پیراگراف میں، جان بات کرتا ہے کہ خُدا اُس کو اِس قدر شدید سزایابی میں لایا کہ وہ اُس سے اذیت میں مبتلا ہو گیا۔ اُس نے کہا، ’’میں خود سے نفرت کرنے لگا، اپنےگناہ سے اور اِس نے مجھے کیسا محسوس کرایا، نفرت کرنے لگا۔‘‘ تیسرے پیراگراف میں جان بتاتا ہے کیسے اُس کے گناہ سے بھرپور دِل نے میری منادی سے نفرت کی، اور اُس کے مسیح کو مسترد کرنے کے بارے میں بات کی۔ وہ اُس کے گناہ سے بھرپور دِل اور خُدا کے درمیان ایک بہت زورآور جدوجہد تھی، اور اُس کی مسیح کے پاس آنے کے لیے نااہلیت تھی۔ چوتھے پیراگراف میں جان ہمیں مسیح کے صلیب پر اذیتیں سہنے اور اُسے گناہ سے نجات دلانے کے بارے میں سوچنے کا بتاتا ہے۔ اِس خیال نے اُس کی خود سر ضد کو توڑ ڈالا اور اُس نے بالاآخر مسیح میں سکون لیا۔ بالاآخر، اپنے مسیح میں ایمان لانے کی تبدلی کے اختتام پر جان کہتا ہے، ’’مسیح نے میرے لیے اپنی جان قربان کر دی اور اِس لیے میں اپنا سب کچھ اُس کو نچھاور کرتا ہوں… کیونکہ اُس نے مجھے بدل ڈالا۔‘‘ آپ شرط لگا سکتے ہیں! وہ ایک بلوغت کی جانب بڑھتا ہوا ایک ناگوار لڑکا تھا! لیکن اب وہ خُدا کا بندہ ہے!

اگلے مہینے جان کیگن علم الہٰیات کی ایک سیمنری میں ایک بپٹسٹ مسنٹر بننے کی تیاری کرنے کے لیے داخلہ لے گا۔

آپ جو کوئی بھی ہیں – آپ ایک گمراہ گنہگار ہیں، اپنے مُردہ دِل کے ساتھ، مُردہ کیونکہ آپ آدم کے گناہ کی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر آپ اُس کی مانند ہیں تو مسیح ہی آپ کی واحد اُمید ہے – کیونکہ تنہا وہ ہی جیسا کہ چارلس ویزلی نے اِسکو تحریر کیا ’’تنسیخ شُدہ گناہ کی قوت کو توڑ سکتا ہے اور قیدی کو رہائی دلا سکتا ہے‘‘۔ میسح میں آپ کے دِل کو بدلنے کی اور اِس کو خود اپنے خون کے ساتھ پاک صاف کرنے کی وہ قوت ہے۔ اُس پر بھروسہ کریں اور وہ آپ کو نجات دلائے گا۔

اگر آپ یسوع کے وسیلے سے گناہ سے نجات کے بارے میں ہمارے ساتھ بات کرنا پسند کریں، تو مہربانی سے آئیں اور ڈاکٹر کیگن، جان کیگن اور میرے ساتھ بات کریں۔ آپ آئیں اور ہمارے ساتھ بات کریں جبکہ مسٹر گریفتھ دو مرتبہ، ’’یسوع میں In Jesus‘‘ تینوں بند گاتے ہیں۔

میں ہزاروں مرتبہ ناکام کوشش کر چکا ہوں
   اپنے خوفوں کو دبانے کے لیے، اپنی اُمیدوں کو بڑھانے کے لیے؛
مگر مجھے جس چیز کی ضرورت ہے، بائبل کہتی ہے،
   ہمیشہ سے صرف یسوع ہی ہے۔

میری روح رات ہے اور میرا دِل سخت لوہا ہے –
   میں دیکھ نہیں سکتا، میں محسوس نہیں کر سکتا؛
نور کے لیے، زندگی کے لیے، مجھے التجا کرنی چاہیے
   سادہ سے ایمان میں یسوع سے!

حالانکہ کچھ ھنسیں گے، اور کچھ اِلزام لگائیں گے،
   میں اپنے تمام قصوروں اور شرمندگی کے ساتھ جاؤں گا؛
میں اُس کے پاس جاؤں گا کیونکہ اُس کا نام،
   سب ناموں سے بالا، یسوع ہے۔
(’’یسوع میں In Jesus‘‘ شاعر جیمس پروکٹر James Procter، 1913)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر نوح سوُنگ Mr. Noah Song نے کی تھی: رومیوں5:‏17۔19۔
واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’یسوع میں In Jesus‘‘ (شاعر جیمس پروکٹر James Procter، 1913)۔