Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


آدم، تو کہاں ہے؟

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 89)
?ADAM, WHERE ART THOU
(SERMON #89 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 27 نومبر، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, November 27, 2016

’’اور خُداوند خُدا نے آدم کو حکم دیا کہ تو اِس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے: لیکن تو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:‏16۔17)۔

پہلا انسان آدم خُداوند کے وسیلے سے کامل معصومیت میں تخلیق کیا گیا تھا۔ اُس کو ایک خوبصورت باغ میں رکھا گیا تھا۔ اُس باغ میں ہر درخت کھانے کے لیے اچھا تھا۔ آدم اُوپر پہنچ سکتا تھا اور مزیدار پھل توڑ سکتا تھا۔ اُس کے پاس اُس پیارے باغ میں کوئی پریشانیاں اور کوئی دشمن نہیں تھے۔ تمام کے تمام جانور اور پرندے سبزی خور تھے۔ کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو انسان کو چوٹ پہنچاتا یا کسی بھی طرح سے نقصان پہنچاتا۔ خود انسان سبزی خور تھا، لہٰذا اُس کو جانوروں کا گوشت کھانے کے لیے اُن کو مارنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ عدن کے باغ میں ہر ایک چیز پُرسکون تھی۔ وہاں کوئی طوفان نہیں تھے جن سے وہ چھپتا، کیونکہ وہاں کبھی بھی بارش ہی نہیں ہوئی تھی۔ ’’لیکن زمین سے کُہر اُٹھتی تھی جو تمام روئے زمین کو سیراب کرتی تھی‘‘ (پیدائش2:‏6)۔ انسان کے پاس پریشان ہونے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ اُس کے پاس بیمار ہونے کے لیے کوئی مرض نہیں تھے۔ اُس کے پاس اپنے خلاف لڑنے کے لیے کوئی دشمن نہیں تھے، اور خوف کرنے کے لیے کوئی جانور نہیں تھے۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

اور آدم کے پاس اُس کو پریشان کرنے کے لیے کوئی گناہ نہیں تھا۔ اُس کے پاس اُس کے باطن میں کوئی بھی گناہ والی فطرت نہیں تھی، اُسے پریشان کرنے کے لیے کوئی نفسیاتی مسائل نہیں تھے۔ آدم خود میں سکون سے تھا۔ آدم خُداوند کے ساتھ امن سے تھا۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔ اُس کو تو یہاں تک کہ ایک دوست لڑکی کو ڈھونڈنے کے بارے میں بھی فکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ خُدا نے اُس کو آرام پہنچانے کے لیے اور اُس کی بیوی کی حیثیت سے اُس کی مدد کرنے کے لیے ایک کامل، خوبصورت اور اطمینان بخشنے والی لڑکی بنائی تھی۔ لہٰذا وہ کبھی بھی تنہا نہیں تھا۔ چونکہ وہ کامل تھی، تو کوئی اِمکان نہیں تھا کہ وہ لڑکی اُس کا دِل توڑتی، کوئی اِمکان نہیں تھا کہ وہ اُس کو چھوڑ کر چلی جاتی، اِس کو ممکنہ بات نہیں تھی کہ وہ کبھی بھی اُس سے محبت کرنا چھوڑ دیتی یا اُس کو چھوڑ کر چلی جاتی۔ چونکہ وہاں پر گناہ نام کی کوئی بات نہیں تھی اُس لڑکی نے اُس کی ہر جنسی خواہش اور ضرورت کو پورا کیا خُدا کو ناراض کیے بغیر۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

خُدا اُس کے ساتھ ہر روز کامل ہم آہنگی کے ساتھ بات کرتا تھا۔ اُس وقت وہ کبھی بھی آزمائش میں نہیں ڈالا گیا تھا۔ اُس کو خُدا کے قہر کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی قہر تھا ہی نہیں۔ وہ ایک خوبصورت عورت کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا جو اُس سے محبت کرتی تھی۔ وہ مذیدار پھلوں سے بھرے ہوئے ایک باغ میں زندگی گزار رہا تھا۔ وہ خُدا کے ساتھ سکون سے تھا۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

اور خُدا نے اُس کو صرف ایک ہی شریعت دی تھی۔ اور اُس کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ایک انتہائی آسان سا قانون تھا۔ فرمانبرداری کرنے کے لیے صرف ایک انتہائی آسان سا حکم۔ خُدا نے اُس سے کہا تھا، ’’تو اِس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے: لیکن تو نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل ہرگز نہ کھانا کیونکہ جب تو اِسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش2:‏16۔17)۔ صرف یہی تھا جو خُداوند اُس سے چاہتا تھا۔ اُس کو صرف اتنا ہی کرنا تھا کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل نہیں کھانا تھا۔ قائم رکھنے کے لیے وہ ایک انتہائی آسان سا قانون تھا۔ وہ ایک کامل جنت تھی۔

تاہم، باغ میں ایک دوسری ہستی بھی تھی۔ شیطان وہاں پر تھا۔ وہ آسمان میں فرشتوں میں سے ایک رہ چکا تھا۔ مگر اُس نے خُدا کے خلاف بغاوت کی تھی اور اُس کو زمین پر پھینک دیا گیا تھا۔ شیطان خُدا کا دشمن تھا۔ مگر آدم کی اُس سے حفاظت خُداوند کے وسیلے سے کی گئی تھی۔ وہ واحد ذریعہ جس سے شیطان خُدا کے دِل کو چوٹ پہنچا سکتا تھا وہ آدم کو بھی خُدا کے خلاف بغاوت کرنے کے لیے تیار کرنا تھا۔

وہاں پر دو درخت تھے جو کہ باغ میں سب سے زیادہ اہم تھے۔ پہلا زندگی کا درخت تھا۔ اگر آدم اُس درخت کا پھل کھاتے رہنا جاری رکھتا، تو وہ عدن کی جنت میں ہمیشہ تک کے لیے زندگی گزارتا رہتا (پیدائش3:‏22)۔ لیکن اگر وہ نیک و بد کی پہچان کا پھل کھا لیتا تو وہ مر جاتا۔ وہ ایک کامل جنت تھی – تابعداری کرنے کے لیے صرف ایک قانون کے ساتھ – زندگی کے درخت سے پھل کھانا اور ہمیشہ کی زندگی جینا۔ وہ شریعت یا قانون کا مثبت پہلو تھا۔ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھاؤ گے تو مر جاؤ گے۔ وہ صرف اور صرف ایک قانون کی فرمانبرداری کرنے کے ساتھ ایک کامل جنت تھی – تابعداری کرنے کے لیے ایک انتہائی، انتہائی ہی آسان سے قانون۔

اب، چونکہ خُدا نے آدم اور اُس کی بیوی کی حفاظت کی ہوئی تھی، تو شیطان اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ وہ صرف اِتنا ہی کر سکتا تھا کہ اُنہیں آزمائش میں ڈالتا، اُنہیں اِس سادہ سے قانون کو توڑنے کی آزمائش میں ڈالتا۔ شیطان کوئی رینگتا ہوا سانپ نہیں تھا۔ وہ تو بعد میں ہوا تھا جب خُداوند نے اُس کو اور اژدھے یعنی سانپ کو معلون قرار دیا تھا۔ لیکن ابھی، اِس وقت، شیطان باغ کی کسی مخلوق میں داخل ہوا تھا۔ جیسا کہ بعد میں وہ اور اُس کے بدروح ساتھی مسیح کے حکم پر ایک سؤر میں داخل ہو گئے تھے۔ یہاں، تاہم، وہ ’’نور کے ایک فرشتے‘‘ کی حیثیت سے نمودار ہوا تھا‘‘ (2 کرنتھیوں11:‏14)۔

ہم نہیں جانتے کہ اصلی سانپ کیسا دکھائی دیا ہوگا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اُس کی ٹانگیں تھی۔ اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا مخلوق رہی تھی جس کو وہ [آدم اور حوا] عدن کے باغ میں اکثر دیکھا کرتے تھے، کیونکہ حوّا اُس سے خوفزدہ نہیں ہوئی تھی۔ ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ شیطان اِس جانور میں داخل ہوا تھا اُس جانور کے مُنہ سے آدم کی بیوی کے ساتھ باتیں کی تھی۔ وہ حیران نہیں ہوئی تھی جب اُس نے اِس سے باتیں کی تھیں۔ وہ غالباً اُس کے ساتھ کئی مرتبہ باتیں کر چکی تھی اور اُس کے ساتھ باتیں کرنے کی عادی ہو چکی تھی۔ اِسی طرح سے تو وہ آج کل بھی کرتا ہے۔ وہ گنہگاروں کے ساتھ اُن کے ذہنوں میں بات کرتا ہے، جب تک کہ وہ اُس کے عادی نہیں ہو جاتے، اور اُس سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔

ایک دِن حوّا باغ میں اکیلی تھی۔ آدم کہیں اور پر باغ کی دیکھ بھال کر رہا تھا ’’اُس کی باغبانی اور نگرانی کرنے کے لیے‘‘ (پیدائش2:‏15)۔ حوّا باغ کے درمیان میں تھی، نیک و بد کی پہچان والے درخت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب شیطان اُس کے پاس آیا۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب سانپ نے اُس سے سرگوشی میں بات کی تھی، ’’کیا واقعی خُدا نے کہا ہے کہ تم باغ کے کسی درخت کا پھل نہ کھانا؟‘‘ (پیدائش3:‏1)۔ پھر سانپ نے خُدا کے کلام پر سوال اُٹھایا۔ یہ ہے جو شیطان آج بھی کرتا ہے۔ وہ ہمیں بائبل میں خُدا کے کلام پر یقین نہ کرنے کے لیے آزمائش میں ڈالتا ہے۔ وہ ہمیں اُس بات پر یقین نہ کرنے کے لیے آزمائش میں ڈالتا ہے جو ایک پادری صاحب ہمیں کہتے ہیں جب وہ ہمیں خُدا کے کلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ لیکن، اُس سے بھی کہیں زیادہ، شیطان نے یہ دلیل دیتے ہوئے کہ چونکہ خُداوند ہی نے تو کہا تھا، ’’تو باغ کے ہر درخت کا پھل آزادی سے کھا سکتے ہو۔‘‘ تو وہ مُہلک درخت کا پھل بھی کھا سکتی ہے، خُدا کے کلام کو گھما پھرا کر پیش کیا۔ شیکسپیئر نے کہا تھا، ’’شیطان اپنے مقصد کے لیے پاک صحائف کے حوالے دے سکتا ہے۔‘‘ یہاں پر شیطان نے خُدا کے پیغام کا دوسرا حصہ چھوڑ دیا تھا، ’’مگر نیک و بد کی پہچان کے درحت کا پھل تو ہرگز مت کھانا‘‘ (پیدائش2:‏17)۔ سانپ نے خُدا کے کلام کو حذف کر دیا تھا۔ بائبل میں دو مرتبہ ہمیں خبردار کیا جا چکا ہے کہ پاک صحائف کے کسی بھی لفظ کو نہیں چھوڑنا، اِستثنا12:‏32 میں، اور مکاشفہ22:‏19 میں، جہاں یہ لکھا ہوا ہے، ’’اگر کوئی نبوت کی اِس کتاب میں سے کوئی بات نکال دے گا تو خُدا اُس کتاب میں مزکور شجرحیات اور شہر مقدس میں سے اُس کا حصہ نکال دے گا۔‘‘ یہ بُرائی کی تعلیم دنیا کی ہر آزاد خیال سیمنری میں دی جاتی ہے۔ وہ نوجوان لوگ جو مذہبی خدمت کے لیے مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں اُنہیں تعلیم دی جاتی ہے کہ بائبل کے وہ حصے سچے نہیں ہیں۔ اِس بات کی تعلیم جس آزاد خیال سیمنری میں مَیں نے پڑھائی کی مجھے بھی دی گئی تھی۔ یہ ایک شخص کی مذہبی خدمت کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اگر وہ اِس بدبخت تعلیم پر یقین کرتا ہے۔ پولوس رسول نے کہا، ’’ہر صحیفہ جو خُدا کے اِلہام سے ہے وہ تعلیم دینے … تربیت دینے کے لیے مفید ہے۔‘‘ (2تیموتاؤس3:‏16)۔ اصلی عبرانی اور یونانی میں صحائف کا ہر لفظ خُدا کے اِلہام سے تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ میں سختی کے ساتھ کنگ جیمس بائبل ہی کو استعمال کرتا ہوں۔ دورِ حاضرہ کی بائبلوں میں سے مرقس9:‏29 میں ’’اور روزہ رکھنا‘‘ کے الفاظ کو مٹا دیا گیا ہے، یا اشعیا7:‏14 میں ’’کنواری‘‘ کو بدل کر ’’نوجوان عورت‘‘ کر دیا گیا ہے۔ یہ تبدیلیاں صرف صحائف کی صرف دو پرانی نقول کی بنیاد پر کی گئیں، جس کے بارے میں مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کتابوں کی ناقص انداز میں تشکیل دی گئی نوسٹک اِزم Gnosticism کے ذریعے سے خراب کی گئی تھی۔

جس آزاد خیال سیمنری میں مَیں نے پڑھائی کی تھی وہاں پر اُنہوں نے ہمیں نظر ثانی کر کے اصلاح کی گئی معیاری بائبل Revised Standard Bible کو جماعت میں لانے کے لیے کہا گیا تھا۔ لیکن میں نے ہمیشہ اُن کی نافرمانی کی تھی اور اپنے ساتھ کنگ جیمس بائبل ہی لے کر جاتا تھا۔ میں بالکل بھی ’’نئے‘‘ ترجموں پر بھروسہ نہیں کرتا اور نہ ہی آپ لوگوں کو کرنا چاہیے۔ کبھی کبھار میں اُن میں سے حوالہ دیتا ہوں جہاں پر وہ کنگ جیمس بائبل کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہیں، مگر میں اُنہیں کبھی بھی اپنے پرائیوٹ مطالعے میں یا اپنے کسی بھی واعظ میں مرکزی تلاوت کی حیثیت سے استعمال نہیں کرتا۔ میں یہ اپنی طویل زندگی میں عادت بنا چکا ہوں کہ کنگ جیمس بائبل ہی کو استعمال کروں، اور ایسا ہی آپ لوگوں کو بھی کرنا چاہیے!

اُس سانپ نے سوال اُٹھایا تھا اور خُدا کے خالص کلام کو گھما پھرا کر پیش کیا تھا جب اُس دِن اُس نے باغ عدن میں حوّا کو آزمایا تھا۔ خُداوند نے واضح طور پر جوڑے کو منع کیے ہوئے پھل کو کھانے سے منع کیا تھا۔ مگر صرف کھانے سے منع کیا تھا۔ خُدا نے اُنہیں نا ’’چھونے‘‘ کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا۔ جب حوّا نے کہا، ’’تم اِس میں سے مت کھانا، نا ہی اِس کو چھونا، ورنہ مر جاؤ گے‘‘ اُس نے خُدا کے کلام میں اِضافہ کیا تھا۔ یہ اِستثنا12:‏32 کی خلاف ورزی کرتی ہے، جہاں پر خُدا نے کہا، ’’دیکھو کہ جتنے اِحکام میں تمہیں دیتا ہوں اُن سب پر عمل کرو۔ اُن میں نہ تو کچھ اضافہ کرو اور نہ اُن میں سے کچھ گھٹاؤ‘‘ (اِستثنا12:‏32)۔ یہ حکم دوبارہ مکاشفہ22:‏18 میں پیش کیا گیا تھا،

’’میں اِس کتاب کی نبوت کی باتیں سُننے والے ہر شخص کے سامنے گواہی دیتا ہُوں کہ اگر کوئی اِن باتوں میں کوئی بات بڑھائے گا تو خدا اِس کتاب میں لکھی ہُوئی آفتیں اُس پر نازل کرے گا‘‘ (مکاشفہ 22:‏18).

آزاد خیال لوگ خُدا کے کلام کو حذف کر دیتے ہیں اور گھما پھرا کر پیش کرتے ہیں۔ مورمونز Mormons جیسے فرقے مورمن کی کتابBook of Mormon میں خُدا کے کلام میں اِضافہ کرتے ہیں۔ یوں آزمائش خُدا کے کلام کے کچھ حصے کو چھوڑ دینے کی تھی یا اُس میں اِضافہ کر دینے کی تھی۔ فرقے اِس میں اضافہ کرتے ہیں، جیسا کہ مسیحی سائنسدان کرتے ہیں، اِس میں میری بیکر ایڈی Mary Baker Eddy کی تحاریر کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ تمام جھوٹی تعلیمات کی جڑ خُدا کے کلام کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے کی وجہ سے ہے۔ اِس طرح سے آج کی انتہائی دِن تک بائبل کے حصوں کو چھوڑ دینے یا اُس میں اِضافہ کرنے سے حوّا کی آزمائش کو دُہرایا جاتا ہے، اور تمام بدعتوں کے روح رواں میں ہے۔

اب سانپ حوّا کو آزمائش میں اِس قدر دور تک لے جا چکا تھا کہ وہ خُدا کے کلام پر شیطان کے واضح حملے کو سُن پاتی۔ اُس نے حوّا سے کہا، ’’تم یقینی طور پر نہیں مرو گے‘‘ اگر تم منع کیا ہوا پھل کھاؤ۔

’’جب عورت نے دیکھا کہ اُس درخت کا پھل کھانے کے لیے اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور حکمت پانے کے لیے خوب معلوم ہوتا ہے تو اُس نے اُس میں سے لے کر کھایا اور اپنے خاوند کو بھی دیا جو اُس کے ساتھ تھا اور اُس نے بھی کھایا۔ تب اُن دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہیں معلوم ہُوا کہ وہ ننگے ہیں۔ اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے‘‘ (پیدائش 3:‏6، 7).

اُنہوں نے خُداوند کے کلام کی نافرمانی کی تھی۔ اب وہ جانتے تھے کہ وہ ننگے گنہگار تھے۔ توبہ کرنے اور خُدا سے رحم کی التجا کرنے کے بجائے، ’’اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لیے پیش بند بنا لیے‘‘ (پیدائش3:‏7)۔ یہ ہی ہے جو آج کل گنہگار کرتے ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے اپنے گناہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں، ’’نیک کام کرنے‘‘ کے ذریعے سے یا ’’دینداری کی سی وضع رکھنے‘‘ کے ذریعے سے خود کو بچانے کی کاوشیں کرنے کے ذریعے سے۔ (2تیموتاؤس3:‏5)۔

اب جب اُنہوں نے خُدا کو اُنہیں بُلانے کی آواز کو سُنا، ’’آدم اور اُس کی بیوی نے خود کو خُدا کی حضوری سے چُھپا لیا… اور خُداوند خُدا نے آدم کو پُکارا، اور اُس سے کہا، تو کہاں پر ہے؟‘‘ (پیدائش3:‏8، 9)۔ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell نے کہا،

وہ اُداس ترین جملہ جس کا خُدا نے کبھی اِظہار کیا یہ ہے، ’’آدم، تو کہاں ہے؟‘‘ [اِس سے پہلے] وہ آدمی اور عورت خُداوند کے ساتھ آسمانی تمنا کے ساتھ ملتے تھے… وہ ہمیشہ ایک خوشی والا، جلالی لمحہ ہوتا تھا جب [خُداوند] اُن سے بات کرنے کے لیے آتا تھا۔ اُنہیں کوئی خوف نہیں تھا۔ لیکن اب [اُنہوں نے گناہ کیا تھا]۔ وہ آدمی خوفزدہ تھا۔ دونوں ہی شرمندہ تھے۔ اور خُداوند نے اپنی آواز میں ایک آہ کے ساتھ پُکارا تھا، ’’اے آدم، تو کہاں پر ہے، اور تو نے کیا کِیا ہے؟‘‘ اُس دِل کو توڑ ڈالنے والے سوال کا جواب گناہ اور فضل اور کفارے کی تمام کہانی ہے (ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل، پی ایچ۔ ڈی۔ W. A. Criswell, Ph.D.، صلیب پر بائبل کے بنیادی بائبل واعظ Basic Bible Sermons on the Cross، بروڈمین پریسBroadman Press، 1990، صفحہ55)۔

خُدا آج رات آپ کو پُکارتا ہے، ’’اے گنہگار، تو کہاں پر ہے؟‘‘

’’اور خداوند خدا نے آدم کو پکارا اور پوچھا، تُو کہاں ہے؟‘‘ (پیدائش 3:‏(9

اِطلاق

اب میں آپ کو اِس حوالے اور اِس تلاوت کا اِطلاق پیش کر رہا ہوں۔ آپ آج کی رات کہاں پر ہیں؟

  کیا آپ خُدا سے چُھپ رہے ہیں؟ وہ تمام جو توبہ کرنے اور مسیح کے پاس آنے سے انکار کرتے ہیں خُدا سے چُھپ رہے ہیں۔ کیا یہ آپ ہیں؟ کیا آپ خُدا سے چُھپ رہے ہوتے ہیں جب پاک روح آپ کو مسیح کے پاس جانے کے لیے بُلاتا ہے؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

2.  کیا آپ خُداوند سے اِس لیے چُھپ رہے ہیں کیونکہ آپ بائبل پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں؟ کیا شیطان آپ کو یہ سوچنے پر تیار کر چکا ہے کہ خدا کا کلام محض ایک پرانی کتاب ہے؟ کہ آپ کو اِس کا یقین نہیں کرنا چاہیے؟ کیا وہ آپ کو بتا چکا ہے کہ حاصل کرنے کے لیے کوئی جنت نہیں اور خوف کرنے کے لیے کوئی جہنم نہیں؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

3.  کیا آپ سوچتے ہیں کہ آپ ایک نیک اور اخلاقی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ آپ کافی نیک ہیں، کہ آپ کو اپنے گناہ کا اعتراف کرنے اور مسیح کے کفارے کے وسیلے سے نجات پانے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا آپ کی نیک اور اخلاقی زندگی آپ کو نجات دلانے کے لیے کافی ہے؟ کیا یہی جھوٹ شیطان آپ کو بتا چکا ہے؟ کیا یہ ہی ہے جس پر آپ یقین کرتے ہیں؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

4.  جب خُدا حیاتِ نو میں نیچے نازل ہوا تو کیا آپ نے اپنے گناہ کی سزایابی کو محسوس کیا، آپ کے ذہن کے اور بدکار دِل کے گناہ کو؟ کیا آپ نے اُن لوگوں پر نظر ڈالی جو اپنے گناہ پر روئے اور سوچا وہ کمزور یا بیوقوف تھے؟ کیا آپ اب وہی سوچتے ہیں؟ کیا شیطان نے آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ جو روتے اور توبہ کرتے ہیں بیوقوف ہیں؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

5.  جب آپ نے جان کیگن کو سو نا سکنے کی حد تک گناہ کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے سُنا، تو کیا آپ نے سوچا تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ عجیب تھا؟ کیا آپ نے سوچا تھا اِس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی، کہ یہ محض ایک احمق لڑکا تھا جو گناہ کے بارے میں فکرمند ہو رہا تھا؟ کیا شیطان نے آپ کو سوچنے پر مجبور کیا تھا کہ جان کیگن نہایت جذباتی تھا؟ کہ اُس قسم کی کسی بھی بات کی آپ کی روح کو ضرورت نہیں تھی؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

6.  جب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ایک حقیقی تبدیلی میں آپ کو گناہ کے خلاف جدوجہد کرنی پڑے گی اور اپنے گناہ کے لیے شدید گہرا رنج محسوس کرنا پڑے گا، تو کیا آپ نے شیطان کی بات سُنی؟ کیا آپ نے اُس کو مسترد کر دیا جو میں نے کہا تھا، اور سوچا کہ آپ جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

7.  جب آپ نے مجھے یہ کہتے ہوئے سُنا، تو کیا آپ نے سوچا تھا کہ جو گناہ آپ نے سرزد کیے وہ انتہائی چھوٹے تھے اور آپ کو جہنم کے لیے سزاوار نہیں ٹھہرائیں گے؟ کیا آپ نے شیطان پر یقین کیا تھا جب اُس نے وہ خیال آپ کے ذہن میں ڈالا؟ کیا آپ نے سوچا تھا کہ آپ کے گناہ اِس قدر چھوٹے ہیں کہ خُدا آپ کو سزا نہیں دے گا؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

8.  کیا آپ نے گمراہ لوگوں کی دوستیوں کو رکھنا جاری رکھا ہوا تھا؟ کیا آپ نے سوچا تھا خُدا آپ کو برکت دے گا اور نجات دے گا، حالانکہ آپ کے وہ دوست تھے جو مسیحی نہ تھے؟ جب آپ نے بائبل کو کہتے ہوئے سُنا، ’’جو کوئی بھی… دُنیا کا دوست ہوتا ہے خُدا کا دشمن ہوتا ہے‘‘ (یعقوب4:‏4) کیا آپ نے دُنیاوی دوستوں کو چھوڑا؟ یا کیا آپ نے سوچا کہ اُن کے ساتھ دوستی رکھنا ٹھیک ہے؟ کیا یہ بات آپ کے دِل میں شیطان نے ڈالی؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

9.  کیا آپ نے جس کسی کو آپ جانتے ہیں اُس کے ساتھ جنسی تعلق برقرار رکھنے کے بارے میں سوچنا جاری رکھا تھا – یہاں تک کہ گرجا گھر ہی میں سے کوئی – کیا شیطان نے آپ کو کہا تھا کہ ایسے خیالات کا سوچنا اور اُن کے ساتھ اپنی شہوت کے آگ کو بڑھکانا ٹھیک تھا؟

10.  کیا آپ نے سوچا تھا کہ گھنٹوں ویڈیو گیمز میں لگا دینا ٹھیک ہے؟ یا کیا شیطان نے آپ کو بتایا تھا کہ یہ صرف ایک بے ضرر تفریح تھی؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

11.  کیا آپ مجھ سے ایک پادری کی حیثیت سے خوفزدہ ہیں؟ آپ مجھ سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ کیا یہ اِس لیے ہے کیونکہ میں نہایت سخت ہوں؟ یہ اِس لیے ہے کیونکہ آپ جو میں کہتا ہوں یا کرتا ہوں اُس میں کچھ نقص پاتے ہیں؟ کیا شیطان نے آپ کو مجھ سے خوفزدہ ہونے کے لیے مجبور کیا ہے کیونکہ آپ خُدا سے چُھپ رہے ہیں، اور کامل نہ ہونے کا اِلزام اِسی لیے مجھ پر دھرتے ہیں؟ کیا آپ جان کیگن کے ساتھ مل کر کہہ سکتے ہیں جو اُنہوں نے آج کی صبح اپنے واعظ میں میرے بارے میں کہا تھا، ’’ہمارے پادری صاحب کے لیے تیرا شُکر ہو اے خُداوند!‘‘؟ کیا آپ مجھ سے ’’آپ کی روح کی رکھوالی کرنے کے لیے‘‘ محبت کرتے ہیں – یا کیا آپ مجھ سے خوف کھاتے ہیں اور اپنی خُفیہ زندگی کو مجھ سے چُھپاتے ہیں، خُدا کے ایک نمائندے کی حیثیت سے، جیسے آدم خُدا سے چُھپا تھا کہ کہیں اُس کی خُفیہ زندگی کی سرزش نہ ہو؟ کیا مجھ سے خوفزدہ ہونے کے لیے آپ کو شیطان نے مجبور کیا تھا؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟ (عبرانیوں13:‏17)۔

12.  کیا آپ نے پادری صاحب سے پہلے پوچھے بغیر ایک مخصوص ہستی کو بحیثیت اپنی معشوقہ یا معشوق بنانے کی خواہش کی تھی؟ کیا آپ اُس پادری صاحب پر بھروسہ کرتے ہیں جو گرجا گھر کی رہنمائی کرتا ہے، یا کیا آپ اُس سے چُھپے تھے، جیسے آدم نے باغ میں کیا تھا؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

13.  کیا آپ کے دِل میں کوئی سیاہ بات ہے جو آپ کے مُنہ کو بند رکھتی ہے جب ہم آپ سے پوچھتے ہیں، ’’کیا آپ مسیح پر بھروسہ کریں گے؟‘‘ کیا یہ ہے جو شیطان آپ کو بتاتا ہے؟ کیا اُس نے آپ سے کہا ہے کہ اگر آپ کچھ بھی نہیں کہیں گے تو آپ کو مسیح کا انکار کرنے کے لیے معاف کر دیا جائے گا؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

14.  کیا آپ گرجا گھر میں کسی سے حسد کرتے ہیں؟ کیا آپ اِس لیے حسد کرتے ہیں کہ اُن کی تعریف کی جاتی ہے اور آپ کی نہیں؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟

15.  کیا آپ آنے سے انکار کرتے ہیں جب مدعو کیا جاتا ہے؟ کیا آپ اُس بات سے انکار کرتے ہیں جو بائبل کہتی ہے، ’’احمق کو اپنی روش دُرست نظر آتی ہے لیکن دانشمند نصیحت کو سُنتا ہے‘‘؟ کیا آپ ایسے ہی احمق ہیں جو آپ ایک واعظ کے اختتام پر نصیحت کیے جانے کے لیے انکار کرتے ہیں؟ کیا آج کی رات آپ کا یہ ہی گناہ ہے؟


کیا یہ یا اِن میں سے کوئی دوسرے گناہ ہیں جن کا میں نے تزکرہ کیا جو اِس سال ہمارے گرجا گھر میں حیاتِ نو کے وقت کے دوران آپ کو مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے روکتے رہے؟ ’’اے آدم، تو کہاں پر ہے؟‘‘ کیا آپ نے خود کے ساتھ خُدا کی آواز کو آپ کے گناہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سُنا؟ اور کیا آپ نے آدم کے ساتھ مل کر کہا، ’’میں نے تیری آواز سُنی… اور میں خوفزدہ تھا… اور میں نے خُود کو چُھپا لیا‘‘؟ میں آپ کو کلام پاک کی دو تلاوتوں کے ساتھ رُخصت کرتا ہوں،

’’جو اپنے گناہ چھپاتا ہے، کامیاب نہیں ہوتا، لیکن جو اقرار کر کے اُن کو ترک کرتا ہے، اُس پر رحم کیا جائے گا‘‘ امثال 28:‏13).

’’لیکن اگر ہم نُور میں چلتے ہیں جیسا کہ وہ نُور میں ہے تو ہم ایک دُوسرے سے رِفاقت رکھتے ہیں اور اُس کے بیٹے یسوع کا خُون ہمیں ہر گناہ سے پاک کرتا ہے‘‘ (1۔ یوحنا 1:‏7).

مہربانی سے اکٹھے کھڑے ہو جائیں۔ ڈاکٹر کیگن، جان کیگن اور میں یہاں واعظ گاہ کے سامنے کسی بھی ایسے شخص کو نصیحت کرنے کے لیے موجود ہوں گے جو گناہ سے مُنہ موڑنے اور خُداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہو – اور اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے پاک صاف ہونے کے لیے راضی ہو۔ جب ہم حمدوثنا کا گیت نمبر 7 گائیں، تو صرف اپنی نشست گاہ کو چھوڑیں اور یہاں سامنے آ جائیں۔ یہ نمبر7 ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، نجات دہندہ، میں دعا مانگتا ہوں،
   آج مجھے صرف یسوع کو دیکھ لینے دے؛
حالانکہ وادی میں سے تو میری رہنمائی کرتا ہے،
   تیرا کبھی نہ مدھم ہونے والا جلال میرا احاطہ کرتا ہے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جگمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، ہر خواہش
   اپنے جلال کے لیے رکھ لے؛ میری روح راضی ہے
تیری کاملیت کے ساتھ، تیری پاک محبت سے
   آسمانِ بالا سے نور کے ساتھ میری راہگزر کو بھر دیتی ہے
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جگمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔

میرے سارے تخّیل کو پورا کر، گناہ کے نتیجہ کو ناکام کر دے
   باطن میں جگمگاتی چمک کو چھاؤں دے۔
مجھے صرف تیرا بابرکت چہرہ دیکھ لینے دے۔
   تیرے لامحدود فضل پر میری روح کو لبریز ہو لینے دے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، الٰہی نجات دہندہ،
   جب تک تیرے جلال سے میری روح جگمگا نہ جائے۔
میرے سارے تخّیل کو پورا کر، کہ سب دیکھ پائیں
   تیرا پاک عکس مجھ میں منعکس ہوتا ہے۔
(’’میرے سارے تخّیل کو پورا کرFill All My Vision‘‘ شاعر ایوس برجیسن کرسچنسن
      Avis Burgeson Christiansen، 1895۔1985)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک کی تلاوت مسٹر نوح سونگ Mr. Noah Song نے کی تھی: پیدائش3:8۔10 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’اے خُدا مجھے جانچ SearchMe, O God‘‘ (زبور139:23۔24 \
’’میں آ رہا ہوں، اے خُداوندا I Am Coming, Lord‘‘
      (شاعر لوئیس ہارٹسوحLewis Hartsough، 1828۔1919؛ صرف کورس)۔