Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


کیلوِن اِزم – کیسے مسیح
گنہگاروں کے لیے بیش قیمت بنتا ہے

CALVINISM - HOW CHRIST BECOMES
VALUABLE TO SINNERS
(Urdu)

تبلیغ ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگن کی جانب سے کی گئی
preached by Dr. C. L. Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
سوموار کی صبح، 5 ستمبر، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Monday Morning, September 5, 2016

’’میں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کر دی: تضحیک اور تھوک سے بچنے کے لیے میں نے اپنا مُنہ نہیں چُھپایا‘‘ (اشعیا50:‏6)۔

ڈاکٹر ہائیمرز نے یہ واعظ تحریر کیا تھا۔ آپ کے لیے اِس کی منادی کرنا میرے لیے ایک اعزاز ہے۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے اِس آیت پر تین اِتوار کی راتوں پہلے منادی کی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ یسوع نے اُن اذیتوں کے لیے خود کو دے دیا تھا۔ اُسے آپ کی گناہ والی جان کو شفا دینے کے لیے اذیت دی گئی تھی۔ اُنہوں نے کہا یسوع نے گنہگاروں کے متبادل کی حیثیت سے خود کو صلیب پر کیلوں سے جڑے جانے کے لیے پیش کر دیا – آپ کو سزا اور جہنم سے نجات دلانے کے لیے۔

اُس اِتوار کی رات کو جب ہمارے پادری صاحب نے منادی کی تھی بے شمار گمراہ لوگ یہاں پر تھے۔ لیکن ایک بھی گمراہ شخص پر اُس اذیت سے جس سے یسوع اُنہیں بچانے کے لیے گزرا تھا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایک بھی گمراہ شخص پر اشعیا50:‏6 پر اُس واعظ کے وسیلے سے یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے اثر نہیں ہوا تھا،

’’میں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کر دی: تضحیک اور تھوک سے بچنے کے لیے میں نے اپنا مُنہ نہیں چُھپایا‘‘ (اشعیا50:‏6)۔

کیوں مسیح کی اذیت اور موت آپ کو اُس یسوع پر بھروسہ کرنے کا سبب بنتی ہے؟ کیوں اِس سے آپ پر مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے نجات پانے کے لیے اثر نہیں ہوا؟ میں اِس واعظ میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیوں۔

I۔ پہلی بات، آپ کی موجودہ حالت میں مسیح کی اذیت اور موت آپ کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔

دراصل یسوع کی اذیت آپ کے لیے اہم نہیں ہوتی ہے۔ آپ کی انتہائی فطرت یسوع میں کوئی قیمت نہیں دیکھتی۔ بائبل کہتی ہے، ’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا… اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ مُنہ موڑ لیتے ہیں… ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ کی‘‘ (اشعیا53:‏3)۔ آپ جیسی حالت میں آپ کو یسوع کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ کو اُس کی اذیت اور موت میں کوئی قیمت دکھائی نہیں دیتی۔

دو وجوہات ہیں کہ اِس صبح غیرنجات یافتہ لوگ یہاں پر ہیں۔ لیکن اُن دونوں میں سے کسی ایک کا بھی تعلق یسوع کے ساتھ اور صلیب پر اُس کی موت کے ساتھ نہیں ہے۔ آپ میں کچھ یہاں پر ہیں کیونکہ آپ اِس گرجہ گھرمیں کافی عرصہ سے آ رہے ہیں۔ آپ یہاں پر عادتاً آئے ہوئے ہیں۔ آپ یہاں پر اِس لیے نہیں ہیں کیونکہ آپ نجات پانا چاہتے ہیں۔ آپ یہاں پر اِس لیے ہیں کیونکہ یہی ہے جو ہم کرتے ہیں جب ہمارے اِجلاس ہوتے ہیں – آپ عادتاً آتے ہیں۔ لیکن آپ خود میں محسوس نہیں کرتے کہ آپ کو یسوع کی ضرورت ہے۔آپ یہاں پر صرف اِس لیے ہوتے ہیں کیونکہ یہی ہے جو آپ ہمیشہ کرتے ہیں۔ یہاں پر ہونا آپ کا رواج ہے۔ یہی ہے جو آپ ہمیشہ کرتے ہیں۔ اِس کو یسوع یا آپ کے لیے اُس کی اذیت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ آپ پہلے ہی سے یسوع کی اذیت کے بارے میں سُن چکے ہیں۔ درحقیقت آپ اُسی منٹ جان گئے تھے میں کیا کہنے جا رہا ہوں جب میں نے تلاوت پڑھی۔

’’میں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کر دی: تضحیک اور تھوک سے بچنے کے لیے میں نے اپنا مُنہ نہیں چُھپایا‘‘ (اشعیا50:‏6)۔

آپ نے کہا، ’’اوہ، میں سمجھا، وہ لوگوں کو بچانے کے لیے مسیح کے مرنے پر واعظ کرنے کے لیے جا رہا ہے۔‘‘ آپ جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے جا رہا ہوں یہاں تک کہ میری منادی کے شروع کرنے سے پہلے ہی۔

اِس لیے آپ اپنے ذہنوں کو بند کر لیتے ہیں اور کسی اور چیز کے بارے میں سوچتے ہیں۔ شاید آپ سوچتے ہیں کہ پادری صاحب کس قدر تھکے ہوئے لگ رہے ہیں۔ شاید آپ سوچتے ہیں کہ اُس نے گیتوں میں سے ایک گیت کو اچھی طرح سے نہیں گایا تھا۔ یا شاید آپ عبادت کے بعد کیا کرنے کے لیے جا رہے ہیں اِس بارے میں سوچتے ہیں، یا اگلے دِن آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ یا آپ شاید کسی اور بات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ آپ ماسوائے یسوع مسیح اور گناہ کے لیے اُس کی اذیت بھری قربانی کے علاوہ تقریبا ہر بات کے بارے میں سوچیں گے۔ کوئی بھی بات چل جائے گی! کوئی بھی بات ماسوائے یسوع کے بارے میں سوچنے کے! آپ کے ذریعے سے یسوع کی قدر نہیں کی جاتی۔ یسوع آپ کے لیے اہم نہیں ہے۔ وہ آپ کے ذریعے سے ’’تضحیک کیا جاتا ہے اور مسترد کیا جاتا ہے‘‘۔ آپ سکون سے ہیں جیسے آپ ہیں۔ آپ کو اُس یسوع کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ آپ اُس کے بارے میں بالکل بھی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

میرا بیٹا، جان کیگن، آپ ہی کی مانند تھا۔ وہ اپنی ساری زندگی گرجہ گھر میں رہ چکا تھا۔ وہ بار بار تفتیشی کمرے میں آیا تھا۔ وہ صرف دُرست الفاظ کہنے میں دلچسپی رکھتا تھا تاکہ اُسے بپتسمہ دیا جائے اور گرجہ گھر کا رُکن بن جائے۔ اُس نے دُرست الفاظ کے لیے کوشش جاری رکھی تاکہ اُس کو قبول کیا جائے۔ اُس نے واعظوں پر حقارت کا اظہار کیا، اور اُن باتوں کے لیے جو میں نے اُس کو تفتیشی کمرے میں بتائی تھی کوئی احترام نہ کیا۔ اُس نے اذیت پانے والے نجات دہندہ کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا تھا۔ یسوع کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا جس کی اِسے ضرورت تھی۔ اِس ہی طرح سے تمام گمراہ ’’گرجہ گھر میں پروان چڑھے بچے‘‘ سوچتے ہیں۔ یسوع آپ کے لیے اہم نہیں ہوتا ہے۔ بالکل بھی نہیں۔

یا شاید آپ ایک نئی ہستی ہوتے ہیں۔ آپ یہیں پر کافی عرصے سے نہیں ہیں۔ اِس لیے وہ واعظ آپ کے لیے کچھ نہ کچھ دلچسپ تھا۔ آپ نے سُنا جب ڈاکٹر ہائیمرز نے یسوع کی کمر کے بارے میں بتایا جس کو اُس کوڑے کے ذریعے سے جس کے ساتھ وہ اُس کو پیٹ رہے تھے اُدھیڑ ڈالا گیا تھا۔ آپ کو یہ کچھ دلچسپ لگا تھا جب اُنہوں نے کہا اُن لوگوں نے یسوع کی داڑھی کے بالوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ آپ نے سُنا جب اُنہوں نے کہا اُن لوگوں نے یسوع کے چہرے پر تھوکا۔ وہ آپ کے لیے دلچسپ حقائق تھے – لیکن اِس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ شاید آپ سوچتے ہوں آپ کو یہ حقائق یاد رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم آپ کو مسیحی کی حیثیت سے قبول کر لیں گے۔ یا شاید آپ بالکل بھی گہرائی کے ساتھ نہیں سوچتے۔ یا شاید آپ یہاں صرف اِس لیے ہیں کیونکہ آپ تنہا ہیں اور یہاں پر اپنے دوستوں کے ساتھ ہونا پسند کرتے ہیں۔ یہ اتنی ہی گہری ہے جتنی یہ جا سکتی ہے۔ آپ یہاں پر صرف تفریح اور رفاقت کے لیے ہیں۔ اِس کا مسیح کی صلیب پر اذیت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ آپ یہاں پر صرف دوسرے نوجوان لوگوں کے ساتھ ہونے کے لیے ہیں۔ آپ یسوع کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ کی موجودہ حالت میں آپ کے لیے یسوع کی اذیت اور موت کوئی معنی نہیں رکھتی۔

II۔ دوسری بات، خُدا شاید آپ میں کچھ کو اُنکے گناہوں سے آگاہ کر دے۔

آپ شاید پھر اپنے گناہوں کے بارے میں فکرمند ہوں۔ آپ شاید زبور نویس کے ساتھ کہیں، ’’میں اپنی خطاؤں کو جانتا ہوں: اور میرا گناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے‘‘ (زبور51:‏3)۔

میرا بیٹا جان ’’گرجہ گھر میں پروان چڑھا ایک بچہ‘‘ تھا۔ وہ ’’گرجہ گھر میں پروان چڑھے دوسرے بچوں‘‘ کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ اُن لوگوں پر چُپکے چُپکے ھنستے اور اُنکا مذاق اُڑاتے تھے جو مسیحی تھے۔ وہ ڈاکٹر ہائیمرز کا ایک پادری صاحب ہونے کی حیثیت سے احترام نہیں کرتا تھا۔ وہ اُن کا جو نجات پا چکے ہوتے تھے مذاق اُڑاتے اور توھین کرتے تھے۔ وہ اکٹھے پھرا کرتے اور گرجہ گھر کے بارے میں لطیفے بناتے تھے۔

لیکن پھر، خُدا نے جان کو اُس کے گناہوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ جان نے کہا، ’’خُدا نے مجھ پر کام کرنا شروع کر دیا… انتہائی یقینی طور پر مجھے میرے گناہ کی سزا یابی کے لیے۔ لیکن میں نے خُدا اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے بارے میں تمام خیالات کو مسترد کر دیا۔ میں نے اِس کے بارے میں سوچنے سے انکار کر دیا، اِس کے باوجود میں عذاب میں مبتلا ہونا محسوس کرنا روک نہ پایا۔‘‘

آپ میں سے کچھ تعجب کرتے ہوں کہ کیسے یہ جان جیسے ایک نوعمر باغی کے ساتھ رونما ہو سکتا ہے۔ جب میں آپ کو بتاؤں کہ وہ ہی مسیح میں ایمان لانے کی حقیقی تبدیلی میں پہلا قدم ہے، تو آپ مُسکراتے ہیں اور سوچتے ہیں آپ کو ہمارے مقابلے میں اِس کے بارے میں زیادہ معلوم ہے۔ آپ سوچتے ہیں کہ آپ کوئی خاص ہستی ہیں جس کو یسوع کے خون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ سوچتے ہیں کہ پادری صاحب بے ہودہ ہیں جب وہ آپ کے گناہوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’’کیوں وہ میرے گناہوں کی نشاندہی کرنا جاری رکھتے ہیں؟‘‘ کیا یہی نہیں ہے جو آپ سوچتے ہیں؟ جب وہ آپ کو آپ کے گناہ بتاتے ہیں، کیا آپ دوڑ نہیں جاتے اور کسی سے نہیں کہتے وہ کس قدر بے ہودہ ہیں؟ کیا آپ کبھی کبھار خواہش نہیں کرتے کہ وہ ایک پیارے، عمدہ پادری صاحب تھے؟ کیا آپ نے کبھی خواہش نہیں کہ وہ اِس قدر پرانی سوچوں کے اور بے ہودہ نہیں تھے؟ یہ تھا جو جان نے سوچا تھا۔ اُس نے کہا، ’’جب ڈاکٹر ہائیمرز منادی کر رہے تھے تو تکبر شدید طور سے اِسے مسترد کرنے کی کوشش کر رہا تھا، نا سُننے کے لیے، لیکن وہ جوں جوں منادی کرتے جا رہے تھے میں واقعی میں اپنے تمام گناہ کو محسوس کر سکتا تھا… میں واعظ کے ختم ہونے کے لیے ایک ایک سیکنڈ گِن رہا تھا، لیکن پادری صاحب نے منادی جاری رکھی تھی۔‘‘

کیا اِس ہی طرح سے آپ کبھی کبھار محسوس نہیں کرتے جب ڈاکٹر ہائیمرز آپ کے گناہوں پر منادی کرتے ہیں؟ کیا آپ کبھی کبھار خواہش نہیں کرتے کہ وہ آپ کے گناہوں کا نام مت لیں؟ جنسی گناہ۔ فحش نگاری۔ پادری صاحب کے خلاف بغاوت۔ بے اعتقادی۔ نیک مسیحیوں کا مذاق اُڑانا۔ جس طرح کے آپ کے والدین ہیں اُس پر نفرت۔ اپنی ماں کے جوش پر شرمندگی۔ اپنے باپ کی سختی سے نفرت۔ کیا آپ اُن سے آپ کے گناہوں کا اِس طرح سے نام لینے پر نفرت نہیں کرتے؟ کیا آپ خواہش نہیں کرتے وہ نئے بچوں کے لیے ’’گرجہ گھر کے لیے آئیں‘‘ پر منادی کریں – اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں؟ خود کے ساتھ ایماندار رہیں۔ آپ اُن سے آپ کو تبلیغ کرنے کے لیے نفرت کرتے ہیں۔ یقینی طور پر آپ کرتے ہیں! بِلاشبہ آپ کرتے ہیں! آپ اُن سے ایک سُلگتی ناراضگی کے ساتھ نفرت کرتے ہیں۔ ’’وہ مر کیوں نہیں جاتے تاکہ ہمیں ایک پیارے سے پادری صاحب ملیں؟‘‘ کیا آپ نے کبھی کبھار اُس طرح سے محسوس نہیں کیا؟ پھر، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ ایک گنہگار ہیں، ایک ایسے گنہگار جس کو اُس کے گناہوں کی یاد دہانی کروائی جانے سے نفرت ہوتی ہے؟ آپ سوچتے ہیں۔ ’’وہ یہ کیوں کرتے ہیں؟ وہ یہ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ وہ یہ اِس لیے کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں ایسا کرنا ہی ہوتا ہے! اُنہیں ایسا کرنا ہی ہوتا ہے تاکہ آپ کو آپ کے گناہ کے لیے بیدار کر پائیں! وہ یہ کرتے ہیں آپ کو جہنم سے دور رکھنے کے لیے! میں دعا مانگتا ہوں کہ کاش خُدا آپ میں سے کچھ کو اپنے گناہ کے جرم کا احساس دلائے – جیسے جان کیگن کو ہوا تھا! اُس نے کہا، ’’میں عذاب میں مبتلا ہونے کو محسوس کرنا روک نہ پایا۔‘‘

III۔ تیسری بات، خُدا شاید آپ کو خود آپ کے اپنے دِل کی بدکاری اور بغاوت اور اخلاقی بگاڑ محسوس کرائے۔

زبور نویس نے کہا، ’’تو نے ہماری بدکاریوں کو اپنے سامنے اور ہمارے پوشیدہ گناہوں کو اپنی حضوری کی روشنی میں رکھا ہوا ہے‘‘ (زبور90:‏8)۔ آپ کے دِل کے پوشیدہ گناہ ایک پاک خُدا کی حضوری میں ہولناک ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے دِل کے خیالات اور نیّتوں کو جانتا ہے۔ وہ آپ کے دِل کی پوشیدہ شہوت اور غصے کو جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ کا دِل اُس کو مسترد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ کا دِل گنہگاروں سے پیار کرتا ہے اور دیندار لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔ جان نے کہا، ’’میں جان گیا تھا کہ میں ممکنہ حد تک سب سے بدتر ترین گنہگار ہو سکتا تھا اور کہ خُدا مجھے جہنم میں سزا دینے کے لیے راستباز تھا۔‘‘

جب تک آپ اپنے دِل کی اُس سڑاند کو محسوس نہیں کرتے تب تک آپ یسوع اور اُس کے خون کی اپنے لیے ضرورت کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ جارج وائٹ فیلڈ George Whitefield مغربی دُنیا میں کبھی بھی پیدا ہونے والے انجیلی بشارت کی تعلیم کا پرچار کرنے والے عظیم ترین شخص تھے۔ جارج وائٹ فیلڈ نے کہا، ’’آپ کا خُدا کے ساتھ امن ہو سکنے سے پہلے، آپ کی سزایابی کو گہرا ترین ہونا چاہیے، آپ کو خود اپنی بدکار فطرت کا، خود اپنے دِل کے اُس مکمل اخلاقی بگاڑ کا قائل ہونا چاہیے۔‘‘ جان نے کہا، ’’اِتوار کی صبح تک… میں سارے کا سارا تھک چکا تھا۔ میں نے خود سے نفرت کرنی شروع کر دی تھی، اپنے گناہ سے نفرت کرنی شروع کر دی تھی اور وہ مجھے کیسا محسوس کرا رہا تھا۔‘‘

کیا آپ نے کبھی ویسا محسوس کیا؟ کیا آپ نے کبھی خود پر نفرت کو محسوس کیا؟ کیا آپ نے کبھی اپنے گناہ سے نفرت محسوس کی؟ کیا آپ نے کبھی اُس طریقے سے جو یہ آپ کومحسوس کراتا ہے نفرت کی؟ آپ خود کو زبردستی گرجہ گھر کے لیے لے کر جاتے ہیں۔ لیکن آپ خواہش کرتے ہیں آپ وہاں پر نہ ہوتے۔ آپ واعظوں کے دوران بیٹھتے ہیں، لیکن آپ خواہش کرتے ہیں کہ آپ کسی اور جگہ پر ہوتے۔ آپ گرجہ گھر میں ہونا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن آپ دُنیا میں بھی تو ہونا نہیں چاہتے ہیں۔ آپ ہر ایک چیز سے نفرت کرتے ہیںَ کیا آپ نہیں کرتے؟ آپ کی ساری زندگی ایک ابتری ہے اور آپ نہیں جانتے اِس کے بارے میں کیا کرنا ہے۔ کیا یہ بات صحیح نہیں ہے؟ کیا یہ بات سچ نہیں ہے؟ کیا خُدا نے خود آپ کے اپنے دِل کی بدکاری اور بغاوت کو آپ کو محسوس کروانا شروع نہیں کر دیا؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ خُدا نے آپ کو خود سے نفرت کرنے پر مجبور کیا؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آپ اپنی زندگی سے نفرت کرتے ہیں؟ جی ہاں! میں جانتا ہوں کہ اِس صبح یہیں پر کوئی نہ کوئی ہے جو ایسا محسوس کرتا ہے! آپ اپنی زندگی میں ہر بات سے نفرت کرتے ہیں! یہ سچ ہے! یہ سچ ہے! یہ سچ ہے! آپ مسیحی ہونا نہیں چاہتے ہیں۔ اِس کے باوجود آپ جانتے ہیں کہ اِس دُنیا میں اور کوئی بھی آپ کو مطمئن نہیں کر پائے گا۔ یہی طریقہ ہے خُدا آپ پر ظاہر کرتا ہے کہ واقعی میں آپ کا دِل کس قدر ناگوار طور سے گمراہ ہے!

IV۔ چوتھی بات، خُدا پھر آپ پر ظاہر کرتا ہے کہ آپ اِس ناگوار احساس سے پیچھا چُھڑانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے۔

جب سزایابی کے تحت ہوتا ہے تو گنہگار خود کو بہتر محسوس کرانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جان نے کہا، ’’ میں جان پانے کی ’کوششیں‘ کر رہا تھا۔ میں یسوع پر بھروسہ کرنے کی ’کوششیں‘ کر رہا تھا اور میں کر نہیں پایا۔ میں بس خود کو مسیح کے لیے تیار نہ کر پایا اور اِس نے مجھے اِس قدر نااُمید محسوس کرایا۔‘‘ وہ مسیح کے لیے اپنی راہ پر زبردستی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ خود کو مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا تھا! وہ مسیح پر بھروسہ نہیں کر سکتا تھا! اُسے مسیح پر بھروسہ کرنا ہی تھا۔ لیکن وہ یہ کر نہیں پایا! اِس کو ’’شکنجۂ انجیل‘‘ کہتے ہیں۔ آپ کو یہ کرنا ہی ہوتا ہے – اِس کے باوجود آپ اِس کو کر نہیں سکتے۔ جب ایک شخص انجیل کے شکنجے میں ’’گُھٹتا‘‘ ہے، تو وہ شاید مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے انتہائی قریب ہوتا ہے۔ ’’مجھے مسیح کے پاس جانا چاہیے، لیکن میں یہ کر نہیں سکتا، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے میں کتنی ہی سخت کوشش کیوں نہ کر لوں!‘‘ ’’انجیل کے شکنجے‘‘ میں گُھٹنا۔ آپ کو اِس شکنجے میں خُدا کے ڈالنے کا مقصد آپ پر یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ آپ خود کو نجات دلانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ کو مسیح پر بھروسہ کرنا ہی ہوتا ہے – لیکن آپ یہ کر نہیں سکتے! جان نے کہا، ’’میں بس خود کو مسیح کے لیے تیار نہیں کر پایا، اور اِس نے مجھے اِسے قدر نااُمید کر دیا… میں اِس کشمکش میں پھنس کر رہ گیا تھا۔‘‘ بہت خوب! میں نے اِس سے بہتر بات پہلے کبھی بھی نہیں سُنی! ’’اِس نے مجھے اِس قدر نااُمید محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔‘‘ شاندار! بالکل یہی ہے جو آپ کومحسوس کرنا چاہیے! آپ کبھی بھی نجات نہیں پائیں گے جب تک کہ آپ نااُمید محسوس نہیں کرتے۔ یہ ہے جس کا مطلب گمراہ یا کھویا ہوا ہونا ہوتا ہے! اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ خود اپنی فطرت کو نہیں بدل سکتے۔ اِ س کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ خود اپنے دِل کو نہیں بدل سکتے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ گناہ کے قیدی ہیں اور خود کو آزاد کرانے کے لیے کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے آپ کے پاس کوئی اُمید نہیں ہے! بالاآخر، آپ گمراہ ہیں – خود اپنی ہی نظروں میں گمراہ۔ مجھے آپ کو مذید اور بتانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ آپ گمراہ ہیں! آپ جانتے ہیں کہ آپ گمراہ ہیں! اب آپ سچائی کی بھرپوری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں،

’’ہائے میں کس قدر بدبخت انسان ہوں،! کون مجھے موت کے اِس بدن سے نجات دلائے گا؟‘‘ (رومیوں7:‏24)۔

اب آپ جو کچھ صلیب پر آپ کے لیے یسوع نے کیا اُس کو سراہا سکتے ہیں۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کیوں مسیح کو اذیت اُٹھانی پڑی تھی! اب آپ، آپ کو نجات دلانے کے لیے یسوع کے دُکھ اُٹھانے کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں!

’’میں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کر دی: تضحیک اور تھوک سے بچنے کے لیے میں نے اپنا مُنہ نہیں چُھپایا‘‘ (اشعیا50:‏6)۔

V۔ پانچویں بات، آپ اب یسوع کے پاس جانے کے لیے تیار ہیں، اب تنہا اُسی یسوع میں سکون پانے کے لیے تیار ہیں!

اب آپ یسوع کو کہتا ہوا سُنیں گے،

’’اے سب تھکے ماندوں اور بوجھ سے لدے ہوئے لوگو، میرے پاس آؤ، اور میں تمہیں سکون بخشوں گا‘‘ (متی11:‏28)۔

جان نے کہا، ’’میرے ذہن کی کوئی مرضی یا عمل نہیں تھا بلکہ میرے دِل کے ساتھ تھا، مسیح میں ایک سادہ سے قرار کے ساتھ، اُس نے مجھے نجات دلا دی, اُس نے اپنے خون کے ساتھ میرے گناہ کو دھو ڈالا! اُس واحد لمحے میں، میں نے مسیح کی مزاحمت کرنا چھوڑ دی تھی۔ یہ اِس قدر واضح تھا کہ مجھے صرف اُسی یسوع پر بھروسہ کرنا تھا۔ میں ٹھیک اُس لمحے کو پہچان سکتا ہوں جس نے مجھے ختم کر دیا تھا اور وہ صرف مسیح تھا… اِس کے لیے ایک احساس کی ضرورت نہیں تھی۔ میرے پاس مسیح تھا!... میں اُس فضل کے لیے اِس قدر شکرگزار ہوں جو خُدا نے مجھے بخشا… اِس قدر قوت کی بھرپوری کے ساتھ مجھے اپنے بیٹے کی جانب کھینچنے کے لیے، کیونکہ میں خود اپنے طور پر کبھی بھی یسوع کے پاس نہیں جا سکتا تھا۔‘‘

یہ صرف فضل کے اِسی عمل کے ذریعے سے ہے کہ خُدا ایک گنہگار کو گناہ سے نفرت کرنے کے لیے بیدار کرتا ہے، کہ اپنے دِل کے گناہ کو دیکھے، کہ تلاش کر پائے وہ خود کو نجات دلانے کے لیے بالکل بھی کچھ نہیں کر سکتا، اور بالاآخر یسوع کے پاس جائے اور صلیب پر اُس کی موت کے وسیلے سے نجات پا لے، وہاں پر اُس کے بہائے ہوئے خُون کے وسیلے سے پاک صاف ہو جائے، اور مُردوں میں سے اُس کے جی اُٹھنے کے وسیلے سے اُس کے ساتھ جی اُٹھے! آپ دِل کی اِس تیاری میں کس قدر دور تک ساتھ ہیں؟ اِس واعظ کو بار بار پڑھیں۔ اِس کے علاوہ جان کی گواہی بھی پڑھیں جو منسلک ہے۔ دیکھیں یہ کس طرح سے آپ پر لاگو ہوتی ہے۔ خُدا سے کہیں آپ کو بھی دِل کی اُس تیاری میں سے گزارے جس میں سے جان گزرا تھا۔ آپ کو یسوع کی جانب کھینچنے کے لیے خُدا سے کہیں، کیونکہ یسوع کے بغیر آپ کے پاس کوئی اُمید نہیں ہے، بالکل بھی نہیں ہے، نا ہی اِس زندگی میں اور نہ ہی آنے والی زندگی میں۔ آمین۔

میری گواہی
MY TESTIMONY

جان سیموئیل کیگن کی جانب سے
by John Samuel Cagan

میں مسیح میں ایمان لا کر اپنے تبدیل ہونے کے لمحے کو اِس قدر نمایاں اور قریبی طور پر یاد کر سکتا ہوں کہ مسیح نے کس قدر بڑا فرق ڈالا تھا اُس کے موازنے میں الفاظ اِس قدرے کم پڑجاتے ہیں۔ اپنی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی سے پہلے میں غصے اور نفرت سے بھرا پڑا تھا۔ میں اپنے گناہ میں فخر محسوس کرتا تھا اور لوگوں کو تکلیف دینے میں خوشی محسوس کرتا تھا، اور خود کو اُس کے ساتھ شریک کر لیا تھا جو خُدا سے نفرت کرتے تھے؛ میرے لیے گناہ کوئی ایسی ’’غلطی‘‘ نہیں تھا جس پر افسوس کیا جاتا۔ میں نے جان بوجھ کر خود کو اِس راہ پر ڈالا تھا۔ خُدا نے مجھ پر ایسے طریقوں سے کام کرنا شروع کیا کہ میں نے کبھی توقع بھی نہیں کی تھی جب میری دُنیا میرے اِرد گرد ڈھیر ہونا شروع ہو گئی۔ میرے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے پہلے کے وہ ہفتے مرنے کی مانند محسوس ہوتے تھے: میں سویا نہیں، میں مسکر نہیں پاتا، میں کسی قسم کا سکون نہ ڈھونڈ پاتا۔ ہمارے گرجہ گھر میں انجیلی بشارت کے پرچار کے اِجلاس ہو رہے تھے اور میں واضح طور پر اُن پر حقارت کا اِظہار کرنا یاد کر سکتا ہوں جب میں نے مکمل طور پر اپنے پادری صاحب اور اپنے والد کا احترام نہ کیا۔

اُس عرصے میں پاک روح نے انتہائی یقینی طور پر مجھے میرے گناہ کی سزایابی میں کر دیا، لیکن اپنی تمام تر ہمت کے ساتھ میں نے اُن تمام خیالات کو جو خُدا اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے بارے میں تھے مسترد کر دیا۔ میں نے اِس کے بارے میں سوچنے سے ہی انکار کر دیا، اِس کے باوجود میں اِس قدر زیادہ اذیت میں مبتلا ہونے کے احساس کو روک نہ پایا۔ 21 جون، 2009 کے اِتوار کی صبح تک، میں پوری طرح سے تھکن زدہ ہو چکا تھا۔ میں اِس تمام سے اِس قدر تھک چکا تھا۔ میں نے خود سے نفرت کرنا شروع کر دیا، اپنے گناہ سے نفرت کرنے لگا اور اُس نے مجھے کیسا محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔

جب ڈاکٹر ہائیمرز تبلیغ کر رہے تھے، میرا تکبر اُس کو فوری طور پر مسترد کرنے کی کوشش کر رہا تھا، نہ سُننے کے لیے، لیکن وہ جیسے جیسے منادی کر رہے تھے میں واقعی میں اپنے تمام گناہ کو اپنی روح پر محسوس کر سکتا تھا۔ میں واعظ کے ختم ہونے کے لیے لمحات گِن رہا تھا، لیکن پادری صاحب نے منادی کرنا جاری رکھا، اور میرے گناہ کبھی نہ ختم ہونے والے بدتر سے بدترین ہوتے چلے گئے۔ میں اُن ڈنگوں کے خلاف مذید اور کچھ نہیں کر پا رہا تھا، مجھے نجات حاصل کرنی ہی تھی! یہاں تک کہ جب بُلاوا دیا گیا تو میں نے مزاحمت کی، لیکن میں بالکل بھی اور برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میں جان گیا تھا کہ میں وہ انتہائی بدترین گنہگار تھا جو میں ہو سکتا تھا اور کہ خُدا مجھے جہنم میں سزا دینے کے لیے متّقی تھا۔ میں جدوجہد کرنے سے اِس قدر تھک چکا تھا، میں ہر اُس چیز سے جو میں تھا اِس قدر تھک چکا تھا۔ پادری صاحب نے مجھے نصیحت کی اور مجھے مسیح کے پاس آنے کے لیے کہا، لیکن میں نہ آ سکا۔ یہاں تک کہ مجھے میرے سارے گناہ نے سزایابی دی میں اب بھی یسوع کو نہ پا سکا۔ یہ لمحات سب سے بدترین میں سے تھے جیسا کہ میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نجات نہ حاصل کر پایا اور مجھے پھر صرف جہنم ہی میں جانا پڑے گا۔ میں نجات پانے کے لیے ’’کوششیں کر رہا‘‘ تھا، میں مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے ’’کوششیں کر رہا‘‘ تھا اور میں کر نہیں پا رہا تھا، میں بس خود میں مسیح کے لیے ہمت نہیں جُتا پا رہا تھا، اور اِس بات نے مجھے اِس قدر نااُمید محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے محسوس کیا میرا گناہ مجھے جہنم میں دھکیل رہا تھا اِس کے باوجود میں محسوس کر سکتا تھا میری ڈھٹائی میرے آنسوؤں کو زبردستی روک رہی تھی۔ میں اِس کشمکش میں پھنس چکا تھا۔

اچانک سالوں پہلے دیے گئے ایک واعظ کے الفاظ میرے ذہن میں ٹکرائے: ’’مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دو! مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دو!‘‘ وہ خیال کہ مجھے یسوع کے لیے پسپا ہونا پڑے گا اُس نے مجھے اِس قدر بےچین کیا کہ جو ہمیشہ کے لیے لگتا تھا میں محض کر نہیں پا رہا تھا۔ یسوع نے اپنی زندگی میرے لیے قربان کر دی۔ وہ حقیقی یسوع میری خاطر مصلوب ہونے کے لیے چلا گیا جب میں اُس کا دشمن تھا اور میں اُس کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکوں۔ اِس خیال نے مجھے توڑ ڈالا؛ مجھے اِس تمام کو چھوڑنا ہی تھا۔ میں مذید اور خود پر قابو نہیں کر پا رہا تھا، مجھے یسوع کو پانا ہی تھا! اُس لمحے میں اُس یسوع کے سامنے میں نے گھٹنے ٹیک دیے اور ایمان کے وسیلے سے یسوع کے پاس آیا۔ اُس لمحے میں یوں لگا جیسے مجھے خود اپنے آپ کو مرنے دینا تھا، اور پھر یسوع نے مجھے زندگی بخشی! میرے ذہن کا کوئی عمل دخل یا مرضی شامل نہیں تھی بلکہ میرے دِل کی تھی، مسیح میں سادہ سے سکون کے ساتھ، اُس نے مجھے نجات دی! اُس نے میرے گناہ کو اپنے خون میں پاک صاف کر دیا! اُس واحد لمحے میں، میں نے مسیح کی مزاحمت کرنی چھوڑ دی۔ یہ اِس قدر واضح تھا کہ مجھے صرف اُسی پر بھروسہ کرنا تھا؛ میں اُس بالکل صحیح لمحےکو پہچان سکتا تھا جب ترک کر دینے والا میں تھا اور یہ واحد مسیح تھا۔ مجھے گھٹنے ٹیکنے ہی تھے! اُس لمحے میں کوئی جسمانی احساس یا اندھا کر دینے والی روشنی نہیں تھی، مجھے کسی احساس کی ضرورت نہیں تھی، میرے پاس مسیح تھا! اِس کے باوجود مسیح پر بھروسہ کرنے میں یوں محسوس ہوا جیسے میری روح پر سے میرے گناہ اُٹھائے جا چکے تھے۔ میں نے اپنے گناہ سے مُنہ موڑ لیا، اور میں نے تنہا یسوع پر نظریں جما لیں! یسوع نے مجھے نجات دی۔

یسوع نے مجھ جیسے کم تر ترین گنہگار کو جو ایک اچھے گرجہ گھر میں پلا بڑھا اور پھر بھی اُس کے خلاف ہوا، معاف کرنے کے لیے کس قدر محبت کی ہے! مسیح کے لیے میری محبت کے اظہار میں اور میرے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے تجربے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اِس قدر کم دکھائی دیے۔ مسیح نے میرے لیے اپنی جان قربان کر دی اور اِس کے لیے میں نے اپنا سب کچھ اُسے دے دیا۔ یسوع نے اپنے تخت کو میری خاطر ایک صلیب کے لیے قربان کر دیا حتّٰی کہ میں نے اُس کی کلیسیا [گرجہ گھر] پر تھوکا اور اُس کی نجات کا تمسخر اُڑایا؛ میں کبھی بھی کیسے پورے طور سے اُس کی محبت اور اُس کے رحم کا اِعلان کر سکتا ہوں؟ یسوع نے میری نفرت اور غصے کو دور کر دیا اور اُس کے بجائے مجھے محبت دی۔ اُس نے مجھے ایک نئے آغاز کے مقابلے میں بہت کچھ دے دیا – اُس نے مجھے نئی زندگی دی۔ یہ صرف ایمان کے وسیلے سے تھا کہ میں جان گیا یسوع نے میرے تمام گناہوں کو دھو ڈالا تھا، میں نے خود کو تعجب کرتا ہوا پایا میں اپنے ٹھوس ثبوت کی قلت میں کیسے جان پایا، لیکن میں نے ہمیشہ خود کو یاد دلایا کہ ’’ایمان اندیکھی چیزوں کی روح ہوتا ہے‘‘ اور بہت احتیاط کے ساتھ وہ سوچنے کے بعد وہ جان کر مجھے سکون ملا کہ میرا ایمان یسوع پر قائم ہے۔ یسوع ہی میرا واحد جواب ہے۔ میں اُس فضل کے لیے جو خُدا نے مجھے بخشا بہت شکرگزار ہوں، وہ بے شمار مواقعے جو اُس نے مجھے مہیا کیے، اور اپنے بیٹے کے جانب اِس قدر قوت کی بھرپوری کے ساتھ کھینچنے کے لیے کیونکہ میں خود اپنے طور پر کبھی بھی یسوع کے پاس نہ جا پاتا۔ یہ محض الفاظ ہیں، لیکن میرا ایمان یسوع میں قائم ہے، کیونکہ اُسی نے مجھے بدلا ہے۔ وہ ہمیشہ وہاں رہا ہے، میرا بچانے والا، میرا سکون، اور میرا نجات دہندہ۔ اُس کے مقابلے میں جنتا اُس نے مجھ سے پیار کیا میری محبت کس قدر کم دکھائی دیتی ہے۔ میں کبھی بھی اُس کے لیے زیادہ عمر تک نہ رہ پاؤں گا یا کافی مخلصی کے ساتھ، میں کبھی بھی مسیح کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر پاؤں گا۔ یسوع کی خدمت کرنا میری خوشی ہے! اُس نے مجھے زندگی اور سکون بخشا اِس کے باوجود کہ میں سے صرف نفرت کیسے کرنی ہے جانتا تھا۔ یسوع میری آرزو اور میری توجہ کا مرکز ہے۔ میں خود پر بھروسہ نہیں کرتا، لیکن تنہا اُسی یسوع میں اپنی اُمید رکھتا ہوں، کیونکہ اُس نے کبھی بھی مجھے ناکام نہیں کیا۔ مسیح میرے پاس آیا اور اِس کے لیے میں کبھی بھی اُس کو نہیں چھوڑوں گا۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

کیلوِن اِزم – کیسے مسیح
گنہگاروں کے لیے بیش قیمت بنتا ہے

CALVINISM - HOW CHRIST BECOMES
VALUABLE TO SINNERS

تبلیغ ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگن کی جانب سے کی گئی
preached by Dr. C. L. Cagan

’’میں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالے کر دی: تضحیک اور تھوک سے بچنے کے لیے میں نے اپنا مُنہ نہیں چُھپایا‘‘ (اشعیا50:‏6)۔

I.     پہلی بات، آپ کی موجود حالت میں مسیح کی اذیت اور موت آپ کے لیے کوئی
معنی نہیں رکھتی، اشعیا53:‏3 .

II.   دوسری بات، خُدا شاید آپ میں کچھ کو اُن کے گناہوں سے آگاہ کر دے،
زبور51:‏3 .

III.  تیسری بات، خُدا شاید آپ کو خود آپ کے اپنے دِل کی بدکاری اور بغاوت اور اخلاقی
بگاڑ محسوس کرائے، زبور90:‏8 .

IV.  چوتھی بات، خُدا پھر آپ پر ظاہر کرتا ہے کہ آپ اِس ناگوار احساس سے پیچھا
چُھڑانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے، رومیوں7:‏24 .

V.   پانچویں بات، آپ اب یسوع کے پاس جانے کے لیے تیار ہیں، اب تنہا اُسی یسوع
میں سکون پانے کے لیے تیار ہیں! متی11:‏28 .