Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


دُعّا میں ترتیب اور دلیل – حصّہ اوّل

ORDER AND ARGUMENT IN PRAYER – PART I
(Urdu)

مسٹر جان سیموئیل کیگن کی جانب سے
by Mr. John Samuel Cagan

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
جمعہ کی شام، 2 ستمبر، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Friday Evening, September 2, 2016

’’کاش کہ میں جانتا کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا ہے! کاش کہ میں اُس کے مسکن تک جا سکتا! میں اپنا حال اُس کے سامنے بیان کرتا اور اپنے مُنہ سے دلائل پیش کرتا‘‘ (ایوب 23:3۔4).

درجِ ذیل سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon کی جانب سے دیے گئے واعظ ’’دعا میں حال اور دلیلOrder and Argument in Prayer‘‘ پر مشتمل ہے۔ سپرجیئن کے خیالات کو سادہ انگریزی میں مختصر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ہائیمرز اور ڈاکٹر کیگن کی مدد سے، اضافے میں، میں نے کچھ خیالات اور بائبل کی آیات کا اضافہ کیا ہے۔

اُس آیت میں جو بالکل ابھی پڑھی گئی، ایوب خُدا کو ڈھونڈنا اور اُس سے دعا مانگنا چاہتا ہے۔ وہ خُدا کے ساتھ محض ایک عام طریقے سے بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ایوب کی نیت میں کچھ انتہائی شدید سنجیدگی تھی۔ وہ اِس طرح سے دعا مانگنا چاہتا تھا: ’’میں اپنا حال اُس کے سامنے بیان کرتا اور اپنے مُنہ سے دلائل پیش کرتا‘‘ (ایوب23:‏4)۔ اِس دعا میں حقیقی دعا کے بارے میں – سنجیدہ دعا کے بارے میں سیکھنے کے لیے دو باتیں ہیں۔

I۔ پہلی بات، سجنیدہ دعا ترتیب میں – منظم طریقے سے ہوتی ہے۔

ایوب نے کہا، ’’میں اپنا حال اُس کے سامنے بیان کرتا‘‘ (ایوب23:‏4)۔

سوچیں اُس بات کے بارے میں جس کے لیے آپ دعا مانگنے کے لیے جا رہے ہیں۔ اُس کے بارے میں سوچیں جو آپ واقعی میں چاہتے ہیں۔ اُسی ایک بات پر توجہ مرکوز کریں۔ یہ آپ کے لیے اہم ہونی چاہیے۔ جس کسی نے جان آر۔ رائس John R. Rice سے ایک دعا مانگنے کی گزارش کی، اُنہوں نے کبھی بھی اِس کے لیے دعا مانگنے پر اتفاق نہیں کیا۔ اِس کے بجائے وہ اُس شخص سے کہتے کہ وہ خُدا سے دعا مانگیں گے کہ وہ اِس بات کی دعا مانگنے کے لیے اُس شخص پر بوجھ لادے۔ ورنہ وہ سچے طور پر وہ گزارش کروانا نہیں چاہتا اور اُس کی دعا ایک حقیقی دعا نہیں ہوگی۔ آپ واقعی میں چاہتے کیا ہیں؟ جواب ڈھونڈیں آپ کیوں یہ چاہتے ہیں۔ سمجھنے کی کوشش کریں یہ کیوں رونما نہیں ہوا ہے۔ اِس کے بارے میں سوچیں کیوں یہ آپ کی قوت سے باہر ہے۔ اگر آپ اِس کے بارے میں جذبۂ شوق سے سرشار نہیں ہیں تو خُدا سے سرشاری کا جذبہ مانگیں۔ مطمئن دعاؤں کا رُجحان غیر منظم ہو گا۔ مطمئن دعائیں جوش کے بغیر ہوتی ہیں۔ اگر آپ کسی چیز کو جوش کے بغیر کرنا شروع کرتے ہیں، تو آپ غالباً تیار نہیں ہوتے۔ خود کو دعا مانگنے سے پہلے تیار کریں۔ خاص طور پر اگر آپ دعا میں رہنمائی کرنے جا رہے ہیں، چاہے گھر میں یا گرجہ گھر میں، بِنا تیاری کیے دعا مانگنے پر انحصار مت کریں۔ آپ کے دِل کو جو کام کر رہے ہیں اُس کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ آپ کی توجہ کا مرکز صُورتِ حال پر ہونا چاہیے۔ آپ کو کچھ نہ کچھ چاہیے۔ آپ کو شدت کے ساتھ کچھ نہ کچھ چاہیے۔ لیکن آپ اُس کو حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ آپ کی قوت سے باہر ہے۔ یہ آپ کے قابو سے باہر ہے۔ اور اِس طرح سے آپ کائنات کے خُدا کے پاس یسوع کے نام میں جانے والے ہیں۔ آپ خُدا کو قائل کرنے کی کاوش میں خُدا کے پاس پہنچیں گے۔ خُدا کو قائل کریں کہ اُسے آپ کو آپ کی ضرورت کے مطابق دینا چاہیے۔ وہ ایک سنجیدہ صورتحال ہے۔ اِس کو بغیر محتاط سوچ کے نہیں کرنا چاہیے۔ جو دعا آپ مانگنے جا رہے ہیں اُس کے بارے میں سوچیں۔

اپنی دعا کو منظم کریں۔ کچھ لوگ دعا کے بارے میں سوچتے ہیں کہ بار بار اُنہیں گزارشوں کے مجموعے کو دھراتے رہنا دعا ہوتی۔ کچھ لوگ شاید سوچتے ہیں کہ دعا اُنہی باتوں کو ہر مرتبہ جب وہ دعا مانگتے ہیں کہنا ہوتا ہے۔ ہر کوئی ہر مرتبہ اُسی بات کے لیے دعائیں مانگتا ہے، تو اُس نے اپنی دعا کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہوتا ہے۔ اُس نے خُدا کے ساتھ اپنی گزارش میں خود کو صرف کرنے کے لیے ایک لمحہ بھی نہیں سوچا ہوتا۔ کچھ لوگ دعا کو مذھبی الفاظ کے ادا کرنے کے جیسا سوچتے ہیں۔ لیکن لفظوں کا انتخاب ایک مخلص دلیل کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اگر میں آپ سے کچھ پیسے مانگنا چاہتا ہوں، تو میں اپنی دلیل کو زبردست بنانے کے لیے تنہا بڑے بڑے الفاظ پر ہی انحصار نہیں کروں گا۔ اگر قائل نہیں ہونگے اگر میں اچانک ہی اپنے الفاظ کے ذخیرے کو بدل دیتا ہوں، مگر جو کچھ میں نے کہا اُس کا متن کوئی معنی نہیں دیتا۔ مذھبی الفاظ ایک مربوط سوچ کی جگہ نہیں لیتے۔

کچھ لوگ خُدا سے چیخ چیخ کر بات کرنے کو دعا بنا ڈالتے ہیں۔ لیکن ایک شخص کی بُلند آواز ایک دلیل کا متبادل نہیں ہوتی ہے۔ نا ہی ایک بات سے دوسری بات دیوانہ وار جانا دلیل کا متبادل ہوتا ہے۔ اگر کوئی مخصوص التجا آپ کے لیے اہم ہے، تو اِس میں کوئی سمجھداری نہیں ہوتی کہ آپ جلدی سے دوسری اِلتجا کی جانب بڑھ جائیں اور پھر اگلی کی جانب پہلی والی کے معاملے کو مکمل طور پر فریق مُقدمہ کا بیان دیے بغیر ادھورا چھوڑ کر۔ کچھ لوگ انتہائی عام الفاظ میں دعا مانگتے ہیں: ’’پیارے خُدایا، گرجہ گھر کو برکت دے، گمراہ لوگوں کو نجات دے، مجھے اور میرے خاندان کو برکت دے۔‘‘ لیکن اِس کو کہنے میں انتہائی زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ یہ خلوص کی قِلت کا ثبوت ہے۔ وہ منظم اور معقول دعا نہیں ہوتی۔

اگر آپ عدالت میں ایک منصف کے سامنے بولنے کے لیے جا رہے ہیں، تو آپ اُس بارے میں سوچیں گے جو آپ کہنے کے لیے جا رہے تھے۔ آپ احتیاط کے ساتھ غور کریں گے کہ جو آپ مانگنے کہنے کے لیے جا رہے ہیں۔ آپ اُس بارے میں سوچیں کہ آپ کیسے منصف کو جو کچھ آپ چاہتے ہیں دینے کے لیے قائل کریں کرنے جا رہے ہیں۔ میں بھی بحث کروں گا کہ اُس گفتگو کے لیے آپ کی تیاری اور وابستگی گزارش کی سنجیدگی کی نسبت سے بڑھے گی۔ اگر آپ کام پر اپنے مالک سے کچھ مانگنے کے لیے جا رہے ہیں، تو آپ سوچیں گے کہ آپ کیا کہنے جا رہے ہیں اور آپ وہ بات کیسے کہیں گے۔ دعا میں خُدا کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں۔ خُدا کے پاس سرسری خیالات کے ساتھ مت جائیں۔ خُدا کے پاس نامکمل تصورات کے ساتھ مت جائیں۔ خود پر لاگو کریں۔

صورتحال کے کئی رُخوں پر غور کریں۔ کس طرح سے حالات نا صرف آپ پر بلکہ آپ کے اِردگرد کے لوگوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ کیسے صورتحال خُدا کے جلال پر اثرانداز ہوتی ہے؟ کیسے صورتحال خُدا کی منسٹری پر اور اُس کی بادشاہت کی ترقی پر اثرانداز ہوتی ہے؟ اِلتجا کے قبول نہ ہونے کے اثرات کیا ہونگے؟ کیا ہوگا اگر خُدا آپ کی اِلتجا کو منظور کر لیتا ہے؟ ہر صورتحال کے بےشمار رُخ ہوتے ہیں۔ ایک انفرادی سانحہ یا اِلتجا صرف آپ کے تجربے کے ساتھ شروع یا ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ اِلتجا اہم ہے۔ یہ آپ کے لیے اہم ہے۔ یہ شاید آپ کے خاندان کے لیے یا آپ کے گرجہ گھر کے لیے یا آپ کے دوست کے لیے یا ہو سکتا ہے یہاں تک کہ خُدا کے لیے بھی اہم ہو۔ یاد رکھیں کہ خُدا سُن رہا ہوتا ہے۔ خُدا کسی انسانی مالک یا منصف کے مقابلے میں بہت زیادہ اعلیٰ اور عظیم ہوتا ہے۔

دعا میں آپ کے روئیہ کیسا ہونا چاہیے؟ یاد رکھیں کہ ماسوائے ’’خاک اور راکھ‘‘ کے ہم کچھ بھی نہیں ہیں (پیدائش18:‏27)۔ ہمارا خُود اپنی ذات میں خُدا سے کچھ بھی مانگنے کے لیے کوئی حق نہیں ہوتا۔ لیکن یسوع مسیح کے ذریعے سے ہم ’’فضل کے تخت کے پاس دلیری سے‘‘ جا سکتے ہیں (عبرانیوں4:‏16)۔ مسیح میں اور اُسی کے ذریعے سے آپ باپ کے پاس براہ راست جا سکتے ہیں۔ اگر آپ یسوع کے نام میں دعا مانگتے ہیں، وہ آپ کی ویسے ہی سُنے گا جیسے وہ اپنے بیٹے یسوع مسیح کی سُنتا ہے۔ اگر آپ نے مسیح پر بھروسہ کیا ہے، تو اُسی کے ذریعے سے آپ خُدا کی بیٹی یا بیٹے ہیں۔ یہ کوئی چھوٹی سی سوچ نہیں ہے۔ آپ یسوع کی وجہ سے چہیتے ہیں اور قبول کیے جاتے ہیں۔ خدا آپ کی سُنے گا!

جو آپ مانگنے جا رہے ہیں اُس کے بارے میں سوچیں۔ جو آپ مانگتے ہیں اُس کو واضح کریں۔ یسوع نے ہمیں دعا مانگنے کے لیے کہا، ’’ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے‘‘ (متی6:‏11)۔ دعا کے بارے میں شاگردوں کو اپنی تعلیم میں یسوع نے مثال دی، ’’اے دوست، مجھے تین روٹیاں دے‘‘ (لوقا11:‏5

اگر آپ کسی چیز کے لیے دعا مانگنا چاہتے ہیں تو اُسی چیز کے لیے دعا مانگیں۔ ابراہام نے دعا مانگی، ’’کاش اسمٰعیل ہی تیری رحمت کے سائے میں جیتا رہے!‘‘ (پیدائش17:‏18)۔ سپرجیئن Spurgeon نے کہا، ’’’سمٰعیل‘ہی کہیں، اگر آپ کا مطلب ’اسمٰعیل‘ ہی ہے۔‘‘

اگر آپ کسی کے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے لیے دعا مانگ رہے ہیں، تو اُس شخص کا نام لے کر دعا مانگیں۔ جب آپ دعا میں رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں، تو خُدا کے سامنے اُس شخص کا نام اپنے خیالات میں ہی لینا کافی ہوتا ہے۔ لیکن اگر کہا نہ بھی جائے، تب بھی آپ خُدا سے بالکل اُسی طرح جس کے لیے آپ مانگ رہے ہیں بات کر سکتے ہیں۔ خُدا آپ کے دِل کے کراہنے اور بات کرنے کو سُن سکتا ہے۔ اگر آپ ایک الِتجا کے لیے مانگ رہے ہیں، تو خُصوصی طور پر اُسی کے لیے مانگیں۔ ’’مجھے یہ ملازمت حاصل کرنے میں مدد دے۔‘‘ ’’میری بیماری کو شفا دے (یا کسی دوسرے شخص کی بیماری کو)۔‘‘ میری ناموں اور فون نمبروں کو حاصل کرنے میں مدد فرما۔ اُن لوگوں کے دِلوں اور ذہنوں کو کھول ڈال جنہیں میں آج کی رات مِلوں گا تاکہ وہ مجھے اپنے نام اور فون نمبر دے دیں۔‘‘

اگر آپ دعاؤں میں دوڑنا شروع کر دیں گے اُن کے بارے میں سوچے بغیر، تو آپ دعا میں ’’رٹے رٹائے جملے دہرا‘‘ رہے ہوتے ہیں۔ یسوع نے کہا، ’’جب تم دعا کرو تو غیر یہودیوں کی طرح رٹے رٹائے جملے ہی نہ دہراتے رہا کرو۔ وہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اُن کے بہت بولنے کی وجہ سے اُن کی سُنی جائے گی‘‘ (متی6:‏7)۔ اگر آپ، ہر مرتبہ جب دعا مانگتے ہیں، سوچے سمجھے بغیر ہی عام انداز سے دعاؤں کی ایک فہرست کو تیزی سے ادا کرتے جاتے ہیں – گھر پر یا گرجہ گھر میں – تو آپ رٹی رٹائی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ آپ شاید ایک کاتھولک روزری یا ایک بُدھ مت والوں کے منتر کا جاپ بُڑبُڑا رہے ہوتے ہیں۔

اگر آپ گرجہ گھر کے ہر دعائیہ اِجلاس میں یہ ہی بات کہتے رہتے ہیں صرف کھڑا ہونے کے قابل ہونے کے لیے اور کچھ نہ کچھ کہنے کے لیے، تو جواب کی توقع مت رکھیں۔ آپ کس بات کی دعا مانگنے کے لیے جا رہے ہیں اِس بات کے بارے میں سوچیں۔ آپ خُدا سے مانگ رہے ہیں – ایک ہستی – کسی مخصوص بات کے لیے۔ پھر خُدا سے بات کریں اور جو آپ چاہتے ہیں اُس سے مانگیں۔

II۔ دوسری بات، سنجیدہ دعائیں دلائل – وجوہات کا استعمال کرتی ہیں۔

ایوب نے کہا، ’’میں… اپنے مُنہ سے دلائل پیش کرتا‘‘ (ایوب23:‏4)۔ ’’میں اپنے مُنہ سے وجوہات پیش کرتا کیوں خُدا کو مجھے وہ دینا چاہیے جو میں اُس سے مانگتا ہوں۔‘‘ کس قسم کے دلائل – وجوہات – کا اِستعمال کیا جانا چاہیے؟

پہلے، خُدا کی صفات کے بارے میں بات کریں – وہ کیسا لگتا ہے۔ ابراہام نے خُدا سے سدوم کو تباہ کرنے کے لیے دعا نہیں مانگی تھی۔ اُس نے کہا،

’’کیا تُو راستبازوں کو بھی بدکاروں کے ساتھ نیست و نابود کر دے گا؟ اگر اُس شہر میں پچاس راستباز ہوں تو کیا ہوگا؟ کیا تُو واقعی اُسے تباہ کر ڈالے گا اور اُن پچاس راستبازوں کی خاطر، جو اُس میں ہوں گے، اُسے نہیں بخشے گا؟ تُو یہ ہر گز نہ ہونے دے گا کہ راستبازوں کو بدکاروں کے ساتھ مار دیا جائے اور راستبازوں اور بدکاروں دونوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ تُو ایسا ہر گز نہ ہونے دے گا! کیا ساری دنیا کا مُنصِف اِنصاف سے کام نہ لے گا؟‘‘ (پیدائش 18:‏23۔25).

ابراہام نے خُدا کے انِصاف کے لیے اِلتجا کی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’اگر وہاں پر 50 راستباز لوگ ہوتے ہیں، تو کیا تو اُن کو بدکاروں کے ساتھ ہی تباہ کر دے گا؟‘‘ کیا یہ اِنصاف ہوگا؟ ’’کیا ساری دُنیا کے منصِف کو اِنصاف سے کام نہیں لینا چاہیے؟‘‘ درحقیقت، اُس نے دعا مانگنی جاری رکھی تھی جب تک کہ خُدا نے اِتفاق نہیں کر لیا کہ اگر وہاں پر 10 راستباز لوگ بھی ہوئے تو وہ شہر کو تباہ نہیں کرے گا۔ غور کریں ابراہام مستقل ڈٹا رہا تھا۔ ابراہام کے پاس قہر کے بجائے وجہ مانگنے کی جرأت تھی۔ ابراہام کے پاس گناہ کے بجائے رحم طلب کرنے کے لیے ایمان تھا۔ اِس قسم کی دلیل میں ملوث ہونے کے لیے ابراہام کے پاس خُدا کی صفات میں کافی اعتماد تھا۔ ابراہام بے ادب نہیں تھا۔ ابراہام کے پاس خُدا کے لیے اِس قدر احترام تھا کہ وہ خُدا کے کردار کے معیار یا خصوصیت کے لیے اِلتجا کر سکتا تھا۔ اگر ابراہام کو یقین نہ ہوتا کہ خُدا منصِف تھا، تو وہ خاموش رہنے ہی میں عقلمندی سمجھتا۔ لیکن، ابراہام جانتا تھا کہ خُدا منصِف تھا۔ اِسی لیے ابراہام نے بحث کی اور خُدا کو وجہ پیش کی۔

آج بھی خُدا وہی ہے۔ بابئل کہتی ہے، ’’میں کبھی تبدیل نہ ہونے والا خُداوند ہوں‘‘ (مُلاکی3:‏6)۔ بائبل کہتی ہے، ’’یسوع مسیح کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے‘‘ (عبرانیوں13:‏8)۔ خُدا ابھی بھی ویسا ہی ہے جیسا وہ اُس وقت تھا۔ آپ خُدا سے دعا مانگ سکتے ہیں اور وہ آپ کی سُنے گا، بالکل جیسے خُدا نے اُس وقت سُنا تھا جب لوگوں نے اُس سے دعا مانگی تھی۔ قانون کی عدالت میں، وکیل اکثر سابقہ وقت کے لیے اپیل کرتے ہیں۔ سابقہ وقت ایک سابقہ سانحہ ہوتا ہے جو کہ اُسی جیسی صورتحال میں ایک مثال کے طور پر مانا جاتا ہے۔ جب آپ بائبل کو پڑھتے ہیں یا بائبل کی منادی کو سُنتے ہیں، یاد کریں جو آپ نے پڑھا ہوتا ہے اور جو کہا گیا ہے۔ اِس بارے میں سوچیں کیسے خُدا نے جو ماضی میں کیا تھا اُس پر لاگو ہو سکتا ہے جو خُدا آج کر سکتا ہے۔ خُدا آپ کی زندگی میں جو کر چکا ہے اُس پر توجہ مرکوز کریں۔ اِس کو ایک حوالے کی حیثیت سے استعمال کریں جو خُدا مستقبل میں کر سکتا ہے۔ یاد رکھیں جو کچھ خُدا آپ کے اِردگرد لوگوں کی زندگیوں میں کر چکا ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو چوکنا رہنے اور دعا مانگنے کے لیے کہا۔ جواب مل جانے والی دعاؤں میں خُدا کی قدرت کے پُل کے ذریعے سے ظاہر ہونے والے غیر متعلقہ واقعات کو جوڑیں۔ اِس بارے میں سوچیں کیسے یہ خُدا کے کردار کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں جو خُدا ماضی میں کر چکا ہے۔ خُدا کون ہے کے لیے اِلتجا کریں۔ خُدا سے اُسی طرح دعا مانگیں جیسے بائبل میں عظیم لوگوں نے دعا مانگی۔

دوسری بات، آپ خُدا کی وجودیت کے لیے اِلتجا کر سکتے ہیں۔ ایلیاہ نے بعل کے نبیوں کا سامنا کیا تھا۔ خُدا نے اِن جھوٹے نبیوں کی دعاؤں کا جواب نہیں دیا تھا۔ لیکن ایلیاہ نے خُدا سے خود اِس کی اپنی قربانی کو قبول کرنے کے لیے دعا مانگی تھی۔ ایلیاہ نے کہا،

’’اَے خداوند، ابرہام، اِضحاق اور اِسرائیل کے خدا! آج معلوم ہو جائے کہ اِسرائیل میں تُو ہی خدا ہے اور میں تیرا خادم ہوں اور میں نے اِن سب باتوں کو تیرے ہی حکم سے کیا ہے۔ مجھے جواب دے اَے خداوند، مجھے جواب دے تاکہ یہ لوگ جانیں کہ اَے خداوند تُو ہی خدا ہے‘‘ (1۔ سلاطین 18:‏36۔37).

ایلیاہ نے دعا مانگی، ’’ہم پر ظاہر کر کہ تو سچا خُدا ہے۔‘‘ اور خُدا نے ایلیاہ کو جواب دیا۔ خُدا نے آسمان سے آگ برسائی اور ایلیاہ کی قربانی کو بھسم کر دیا۔۔

سالوں بعد، ایلیاہ کے آسمان میں اُٹھائے جانے کے بعد، اُس کے شاگرد الیشع نے دعا مانگی، ’’خُداوند، ایلیاہ کا خُدا کہاں ہے؟‘‘ (2سلاطین2:‏14)۔ ’’اے خُداوند، تو کہاں پر ہے؟‘‘ خُدا نے خود کو ظاہر کیا اور دریائے یردن کے پانیوں کو الیشع کے لیے دو ٹکروں میں تقسیم کر دیا۔ خُدا نے ظاہر کیا کہ وہ حقیقی تھا۔

تیسری بات، خُدا کے وعدوں کے بارے میں بات کریں – کیونکہ وہ اپنی بات پر مخلص ہو گا۔ 2 سیموئیل، 7 باب میں، خُدا نے ناتن نبی کے ذریعے سے داؤد سے وعدہ کیا تھا کہ داؤد کے ہاں بیٹا ہوگا، جو خُدا کی ہیکل کو تعمیر کرے گا، اور جو یروشلیم میں اُس کے تخت پر بیٹھے گا، اور کہ اسرائیل کی قوم ہمیشہ تک بنی رہے گی۔ داؤد نے خُدا سے کہا،

’’تُو نے اپنی قوم اِسرائیل کو مقرر کر دیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے تیری قوم بنی رہے اور تُو اَے خداوند اُن کا خدا ہُوا۔ اور اب اَے خداوند خدا، اپنے اُس وعدہ کو ہمیشہ تک قائم رکھنا جو تُو نے اپنے خادم اور اُس کے گھرانے کے متعلق کیا ہے اور جیسا تُو نے کہا ویسا ہی کرنا۔ تاکہ ہمیشہ تک تیرے نام کی عظمت ہو اور لوگ کہیں کہ قادرِ مطلق خداوند اِسرائیل کا خدا ہے! اور تیرے خادم داؤد کا گھرانا تیرے حُضور میں قائم رہے! اَے قادرِ مطلق خداوند، اِسرائیل کے خدا، تُو نے اپنے بندہ پر ظاہر کیا اور کہا، میں تیرے لیے ایک خاندان کی بنیاد رکھوں گا۔ لہٰذا تیرے بندہ کو ہمت ہُوئی کہ تجھ سے یہ دعا کرے۔ اَے مالک خداوند، تُو ہی خدا ہے، تیری باتیں قابلِ اعتماد ہیں اور تُو نے اپنے بندہ سے اِن اچھی باتوں کا وعدہ کیا ہے۔ اب اپنے بندہ کے گھرانے کو برکت دینا منظور فرما تاکہ وہ ہمیشہ تیری نظر میں قائم رہے۔ کیونکہ اَے قادرِ مطلق خداوند، تُو نے فرمایا ہے اور تیری برکت سے تیرے بندہ کا گھرانا سدا مبارک رہے گا‘‘ (2۔ سموئیل 7:‏24۔29).

داؤد نے خُدا سے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کے لیے دعا مانگی اور اِن باتوں کے ہو جانے کے لیے دعا مانگی۔ بائبل کہتی ہے، ’’خُواہ ہر آدمی جھوٹا نکلے، خُدا سچا ہی ٹھہرے گا‘‘ (رومیوں3:‏4)۔ دورِ حاضرہ کی انگریزی میں ہم کہہ سکتے ہیں، ’’یہاں تک کہ اگر ہر شخص بھی جھوٹا ہو تو بھی خُدا سچا ہی ہے۔‘‘ بائبل کہتی ہے ’’خُداوند تمہارا خُدا ہی خُدا ہے، وہ وفادار خُدا ہے، جو اُس سے محبت رکھنے والوں اور اُس کے احکام ماننے والوں کی ہزار پُشتوں تک اپنی محبت کے عہد کو قائم رکھتا ہے‘‘ (اِستثنا 7:‏9)۔ خُدا اپنے وعدوں کو قائم رکھتا ہے۔ آپ خُدا کو دعا میں اُس کے وعدے یاد دِلا سکتے ہیں۔ میں اِس موضوع پر اگلے پیغام میں بات کو جاری رکھوں گا۔

دعا میں دلیل اور ترتیب کے لیے محتاط خیال اور تیاری درکار ہوتی ہے۔ خود کو جو آپ حقیقی معنوں میں خُدا سے چاہتے ہیں اُس کو الگ تھلگ کر کے تیار کریں۔ اِس کو یقینی بنانے کے لیے احتیاط کے ساتھ سوچیں کہ اِس گزارش کے لیے آپ کو خُدا پر انحصار کرنا چاہیے۔ اِس بات پر قائل ہو چکنے کے بعد کہ اِس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آپ کو خُدا کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا ہونا کیوں ضروری ہے اِس کے لیے اپنے خیالات کو ہدایت دیں۔ کیوں وہ گزارش اہم ہے؟ کیوں یہ بات اہم ہے کہ آپ کی گزارش کو اِسی لمحے منظور ہو جانا چاہیے؟ اُس خیال کو اپنے باطن میں ایک بوجھ اور ایک فوری ضرورت بنانے کے خیال کو آنے دیں۔ ایک مربوط اور بخشش والی دلیل کی تعمیر کرنے میں اپنی اِلتجا کے لیے خواہش تشویشناک ہوتی ہے۔ ایک مضبوط دلیل جو دِل سے نہیں نکلی ہوتی اُس کے نتیجے کا اِمکان نہیں ہوتا ہے۔ اِلتماس کو ہر نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ ایسی دعاؤں سے پرہیز کرنا ہوتا ہے جن کا اِنحصار بُلند آواز اور غیر ضروری پڑھائیوں [دہرائی، رٹّوں وغیرہ] پر ہوتا ہے۔ سوچے سمجھے بِنا اپنی دعاؤں کو مت دہرائیں۔ انتہائی عام دعاؤں سے پرھیز کریں۔ دعا میں مخصوص ہوں۔ جو کچھ خُدا نے بائبل میں کیا ہے اُس کے حوالے سے اپنی دعائیں مانگیں۔ جو کچھ خُدا نے آپ کی زندگی میں کیا ہے اُس کے حوالے سے اپنی دعائیں مانگیں۔ بار بار ایک ہی جیسے الفاظ کا منتر پڑھنے سے اِس بات کا اِمکان نہیں بڑھتا کہ خُدا کا ردعمل ظاہر ہو جائے گا۔ تاہم، اِس کے بجائے مُرتب اور مُدلل دعاؤں میں خُدا کے ساتھ وجہ بیان کریں۔ خُدا سے وجہ بیان کریں۔ خُدا کی صفات کے لیے گزارش کریں۔ خُدا کی وجودیت کے لیے دعا مانگیں۔ خُدا کے وعدوں کے لیے اِلتجا کریں۔ خُدا اپنے وعدوں کا پاس کرے گا۔ خُدا آپ کی دعا کے مخلص اور مُرتّب دلائل کو سُنے گا۔

’’کاش کہ میں جانتا کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا ہے! کاش کہ میں اُس کے مسکن تک جا سکتا! میں اپنا حال اُس کے سامنے بیان کرتا اور اپنے مُنہ سے دلائل پیش کرتا‘‘ (ایوب 23:‏3۔4).


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

دُعّا میں ترتیب اور دلیل – حصّہ اوّل

ORDER AND ARGUMENT IN PRAYER – PART I

مسٹر جان سیموئیل کیگن کی جانب سے
by Mr. John Samuel Cagan

’’کاش کہ میں جانتا کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا ہے! کاش کہ میں اُس کے مسکن تک جا سکتا! میں اپنا حال اُس کے سامنے بیان کرتا اور اپنے مُنہ سے دلائل پیش کرتا‘‘ (ایوب 23:‏3۔4).

I.   پہلی بات، سنجیدہ دعا ترتیب میں – منظم ہوتی ہے، پیدائش18:‏27؛
عبرانیوں4:‏16؛ متی6:‏11؛ لوقا11:‏5؛ پیدائش17:‏18؛
متی6:‏7 .

II.  دوسری بات، سنجیدہ دعا دلائل کا – وجوہات کا استعمال کرتی ہے،
پیدائش18:‏23۔25؛ مُلاکی3:‏6؛ عبرانیوں13:‏8؛ 1سلاطین18:‏36؛
2سلطین2:‏14؛ 2سیموئیل7:‏24۔29؛ رومیوں3:‏4؛ اِستثنا 7:‏9 .