Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


حیاتِ نو کے لیے دعا مانگنا

PRAYING FOR REVIVAL
(Urdu)

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
جمعہ کی شام، 19 اگست، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Friday Evening, August 19, 2016

مہربانی سے اعمال1:8 کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ بائبل کے صفہ 1148 پر ہے۔ مہربانی سے کھڑیں ہو جائیں جب میں اِسے پڑھوں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو مسیح نے پہلے مسیحیوں کو دیے تھے،

’’لیکن جب پاک رُوح تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوّت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے‘‘ (اعمال 1:8).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

کچھ مبلغین کہتے ہیں کہ یہ صرف پینتیکوست پر پاک روح کے نزول کے لیے حوالہ دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم توقع نہیں کر سکتے جیسے ماضی میں پاک روح نازل ہوا تھا ہمارے لیے نیچے آئے۔ اُن میں سے بے شمار خوفزدہ ہیں کہ اُن کے لوگ پینتیکوست کی مشن والے بن جائیں گے اگر اُنہوں نے اُنہیں یہ بتایا کہ پاک روح کا نزول آج ہو سکتا ہے۔ اِس لیے وہ سزایابی اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل کرنے کے کام کرنے کو گھٹا دیتے ہیں کیونکہ وہ پینتیکوسٹل اِزم سے خوفزدہ کھاتے ہیں۔ لیکن وہ غلطی پر ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہم ہمارے دور میں پاک روح کے نیچے آنے کی توقع نہیں کر سکتے ہیں۔ ہماری تلاوت کے آخری آٹھ الفاظ ’’بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہوگے‘‘ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہیں۔ چونکہ وہ ابتدائی مسیحی دُنیا کی ’’آخری حد تک‘‘ یا ’’دور دراز کے علاقوں‘‘ تک نہیں گئے تھے، یسوع تمام زمانوں کے لیے تمام مسیحیوں سے بات کر رہا تھا۔ اُس نے اُنہیں کہا اور ہمیں، ’’جب پاک روح تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے۔‘‘ یہ اِس بات سے ثابت ہوتا ہے جو پطرس نے کچھ عرصہ بعد اعمال2:39 میں کہی۔ اِس کو کھولیے۔

’’اِس لیے کہ یہ وعدہ [پاک روح کا] تُم سے اور تمہاری اولاد سے ہے اور اُن سب سے بھی ہے جو اُس سے دُور ہیں اور جنہیں ہمارا خداوند خدا اپنے پاس بُلائے گا‘‘ (اعمال 2:39).

لہٰذا شاگرد واپس یروشلیم چلے گئے تھے، اور دعا مانگنے کے لیے ایک بالا خانے میں چلے گئے تھے۔ اُنہوں نے کس بات کے لیے دعا مانگی تھی؟ اُنہوں نے پاک روح کی قوت کے لیے دعا مانگی تھی جس کا یسوع نے وعدہ کیا تھا جب اُس نے کہا، ’’جب پاک روح تم پر نازل ہوگا تو تم قوت پاؤ گے‘‘ (اعمال1:8)۔ میں مکمل طور پر آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray کے ساتھ متفق ہوں۔ اُنہوں نے کہا،

جس عرصہ میں پینتیکوست نے ایک نئے دور کو قائم کیا، تو اُس وقت مسیح کا پاک روح کو عطا کرنے کا کام ختم نہیں ہوا تھا۔ اور پاک روح کا مکمل طور سے رابطہ جو تمام مسیحی دور کو ممتاز کرتا ہے، پینتیکوست پر شروع ہوا، جس کو کہ غیر متغیّر اور نہ بدلنے والا نہیں ہونا تھا؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا، تو پھر خُدا کے روح کے بارے میں مذید اور زیادہ دعا مانگنے کا کیا مقصد رہ جاتا جیسا کہ شاگردوں کو واضح طور پر ہدایت دی گئی تھی؟ یہ اُس گذارش کے ردعمل ہی میں تھا ’ہمیں دعا مانگنا سیکھا‘ جو یسوع نے کہا: ’’جب تم بُرے ہو کر بھی اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے نہ عطا فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں‘‘ (لوقا11:13)۔ اِس وعدے کا مسیحیوں کے لیے کوئی تسلسل نہیں بنتا جب تک کہ پانے کے لیے ہمیشہ مذید اور زیادہ نہ ہو (آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray، آج کا پینتیکوست؟ حیاتِ نو کا بائبلی شعور Pentecost Today? The Biblical Understanding of Revival، دی بینر آف ٹُرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1998، صفحہ21)۔

الگژنڈر مودی سٹیوارٹ Alexander Moody Stuart نے کہا، ’’حالانکہ پاک روح اُس کی کلیسیا میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے جب وہ قریب تر کھینچتا ہے اور قوت کی بہت زیادہ توانائی سامنے رکھ دیتا ہے‘‘ (میورے Murray، ibid.، صفحہ22)۔

لیکن ہم نے 1859 کے عظیم حیاتِ نو سے لیکر اب تک اُس کی صرف تھوڑی سی ہی جھلک دیکھی ہے، بِلاشُبہ انتہائی تھوڑی سی۔ میں قائل ہو چکا ہوں کہ اہم وجہ وہ حقیقت ہے کہ انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم دینے والے زیادہ تر لوگ [ایونجیلیکلز] مذید اور یقین نہیں رکھتے کہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والی بات معجزات ہوتے ہیں۔ آج زیادہ تر ایونجیلیکلز سوچتے ہیں کہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا ماسوائے انسانی فیصلے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ آپ کو صرف اِتنا ہی کرنا ہوتا ہے کہ ایک گمراہ شخص کو نام نہاد کہلائی جانے والی ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ کے الفاظ کہنے کے لیے قائل کریں۔ محض اُن الفاظ کو ادا کریں اور آپ نجات پا لیتے ہیں! جوئیل آسٹن Joel Osteen یہ بات ہر واعظ کے اختتام پر کہتے ہیں۔ وہ لوگوں سے دعا کے وہ الفاظ بلواتے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں، ’’ہم یقین کرتے ہیں کہ اگر آپ نے وہ الفاظ ادا کر لیے ہیں تو آپ نے ابھی ابھی نیا جنم لیا ہے۔‘‘ دیکھا آپ نے، یہاں پاک روح کو ایک معجزہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی! اگر آپ وہ الفاظ کہہ چکے ہیں ’’آپ ابھی ابھی نیا جنم لے چکے ہیں۔‘‘

یہ پیلے گیئین اِزم Pelagianism کی قدیم بدعت کی دوبارہ واپسی ہے – ایک مذہبی عقیدہ جو تعلیم دیتا ہے کہ انسان خود اپنی نجات پانے کے قابل ہوتا ہے – اِس معاملے میں، چند ایک الفاظ کہنے کے ذریعے سے! یا ایک مسیحی عبادت میں ’’سامنے‘‘ آ جانے سے – یا اپنا ہاتھ بُلند کر دینے سے! ’’آپ میں سے وہ تمام افراد جو نجات پانا چاہتے ہیں، صرف اپنے ہاتھ بُلند کریں۔‘‘ یہ ایک خام پیلے گیئین اِزم Pelagianism! اُس قدیم بدعت کے لیے واپسی، جو تعلیم دیتی ہے کہ ایک گمراہ شخص خود کو کچھ عمل کے ذریعے، یا دعا کے الفاظ ادا کرنے سے نجات دلا سکتا ہے۔ میں اِس کو ’’جادوئی دعا‘‘ کہتا ہوں۔ یہ دراصل مسیحی ہونے کے بجائے ’’جادو‘‘ ہے۔ جادو میں آپ مخصوص الفاظ ادا کرتے ہیں، یا مخصوص ادائیں کرتے ہیں اور وہ الفاظ یا ادائیں مافوق الفطرت نتائج پیدا کر دیتے ہیں۔ ’’جادو‘‘ کے تصورات سارے کے سارے ہماری دورِ حاضرہ کی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم کے تصورات سے بھی ہیں! اِس مسئلے کی مکمل اور جامع جانچ کے لیے ڈیوڈ مالکم بینیٹ David Malcolm Bennett کی کتاب پڑھیں، گنہگار کی دعا: اِس کی ابتدا اور خطرات The Sinner’s Prayer: Its Origins and Dangers، ایون بیفور پبلیشنگ Even Before Publishing، n.d.، Amazon.com پر مہیا ہے۔

مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والی ہر حقیقی تبدیلی ایک معجزہ ہوتی ہے۔ مہربانی سے میرے ساتھ مرقس10:26 کھولیں۔ یہ سیکوفیلڈ بائبل میں صفحہ 1059 پر ہے۔

’’شاگرد نہایت ہی حیران ہُوئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے، پھر کون نجات پا سکتا ہے؟ یسوع نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا، یہ اِنسانوں کے لیے تو ناممکن ہے…‘‘ (مرقس 10:26،27).

وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے، ’’پھر کون نجات پا سکتا ہے؟‘‘ یسوع نےجواب دیا، ’’یہ انسانوں کے لیے تو ناممکن ہے۔‘‘ انسان گناہ کی حالت میں نجات پانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا یا یہاں تک کہ نجات پانے کے لیے خود کی مدد بھی نہیں کر سکتا! لیکن پھر یسوع نے کہا، ’’لیکن خُدا کے ساتھ نہیں: کیونکہ اُس کے لیے تمام باتیں ممکن ہیں۔‘‘ ایک شخص کی نجات خُدا کی طرف سے معجزہ ہوتی ہے! ہم اِس سال بے شمار اُمید سے بھرپور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے والے لوگوں کو دیکھ چکے ہیں، اُن میں سے ایک گذشتہ رات۔ مسیح میں ایمان لانے والی ہر حقیقی تبدیلی معجزہ ہوتی ہے۔ پال کُوکPaul Cook نے بجا طور پر کہا، ’’حیاتِ نو کی خصوصیات کس طور بھی پاک روح کے کسی بھی عام سے اعمال کی خصوصیات سے مختلف نہیں ہوتی ماسوائے شدت اور وسعت کی اصطلاح میں‘‘ (آسمان سے آگ Fire From Heaven، EP Books، 2009، صفحہ117)۔

جب ایک شخص مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوتا ہے تو یہ خُدا کی جانب سے ایک معجزہ ہوتا ہے۔ جب بے شمار لوگ ایک مختصر دورانیے میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوتے ہیں تو یہ خُدا کی جانب سے معجزہ ہوتا ہے۔ واحد فرق جو ہے وہ ’’شدت اور وسعت کی اصطلاح میں‘‘ ہے۔ جب ہم حیات نو کے لیے دعا مانگتے ہیں تو ہم بے شمار لوگوں کے دِلوں میں پاک روح کے اِکٹھے کام کی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔

مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے میں پاک روح کیا کام کرتا ہے؟ پہلا، ’’جب وہ آتا ہے، تو وہ گناہ کی تنبیہہ (سزایابی)… میں لاتا ہے‘‘ (یوحنا16:8)۔ پال کُوک نے کہا، ’’لوگ کبھی بھی قدرتی طور پر اپنے گناہ کی سزایابی میں نہیں آتے؛ فطری طور پر وہ خود ہی انصاف کی دلیلیں دینے والے ہوتے ہیں۔ پاک روح کی ایک مخصوص کام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جب پاک روح کام کرتا ہے، تو گناہ گِھناؤنا [ہولناک، بدذوق] بن جاتا ہے جو ایک شخص کو اِس سے نفرت کرنے اور اِس کو چھوڑ دینے میں رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ جیسا کہ ایک لڑکی نے کہا، ’’میں خود سے کراہت کرنے لگی تھی۔‘‘ یہ سزایابی کی اتنی ہی اچھی مثال ہے جتنی کہ میں نے کبھی دیکھی ہو۔ ’’میں خود سے کراہت کرنے لگی تھی۔‘‘ اگر آپ میں کم از کم اُس جیسی گناہ کی سزایابی نہیں ہوتی ہے تو آپ مسیح میں ایمان لا کر حقیقی طور پر تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں اُن کے لیے جو نجات یافتہ نہیں ہوتے ہیں پاک روح سے اُنہیں گناہ کی سزایابی میں لانے کے لیے دعا مانگنی چاہیے۔

دوسری بات جو پاک روح مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی میں کرتا ہے وہ اُس شخص کو مسیح کی پہچان کراتا ہے جو گناہ کی سزایابی کے تحت ہوتا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’تھوڑی دیر بعد تم مجھے دیکھ نہ پاؤ گے اور اُس کے تھوڑی دیر بعد تم مجھے دیکھ پاؤ گے‘‘ (یوحنا16:14)۔ دورِ حاضرہ کا ترجمہ کچھ یوں تحریر کرتا، ’’وہ… جو میرا ہے لے لے گا اور تمہیں اِس کی پہچان کرا دے گا۔‘‘ ایک گمراہ شخص کبھی بھی یسوع کو ذاتی طور پر نہیں جان سکتا جب تک کہ پاک روح اُس کو پہچان نہیں کراتا۔ لیکن اگر آپ گناہ کی سزایابی میں نہیں ہوتے ہیں، تو پاک روح نجات میں آپ کے لیے مسیح کو حقیقی نہیں بنائے گا۔

لہٰذا، جب ہم پاک روح کی قوت کے ساتھ نیچے آنے کے لیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں، تو ہم بنیادی طور پر خُدا سے پاک روح کو بھیجنے کے لیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں کہ (1) گمراہ شخص کو اُس کی ناگوار گناہ کی فطرت کی سزایابی میں لائے، اور (2) ہمیں پاک روح سے دعا مانگنی چاہیے کہ اُس شخص پر مسیح کو آشکارہ کرے، تاکہ وہ اصل میں مسیح کے خون کی اُس کو گناہ سے پاک صاف کرنے کی قوت کو جان پائے۔ مسیح میں ایمان لانے کی ایک حقیقی تبدیلی میں خُدا کے پاک روح کے گناہ کی سزایابی اور مسیح کے خون کے وسیلے سے پاک صاف کروانے کے دو اہم کام ہوتے ہیں جیسا کہ یوحنا کے 16ویں باب میں ظاہر کیا گیا ہے۔ برین ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards نے کہا، ’’آج بے شمار مسیحیوں کو نہیں معلوم دعا کیا مانگنی چاہیے کیونکہ جب تجویز دی جاتی ہے تو وہ حیات نو کے لیے دعا مانگتے ہیں‘‘ (برین ایچ۔ ایڈورڈز Brain H. Edwards، حیات ںوRevival، ایونجیلیکل پریس Evangelical Press، 2004 ایڈیشن، صفحہ80)۔

وجوہات میں سے ایک کہ وہ نہیں جانتے دعا کیا مانگنی چاہیے یہ ہے کہ بے شمار مسیحی آج گمراہ لوگوں کی گناہ کی سزایابی کے تحت آنے کی ضرورت کو دیکھ نہیں پاتے، اور وہ ’’مسیح میں ایمان لانے کی بُحرانی تبدیلی‘‘ میں یقین نہیں رکھتے جیسے ہمارے آباؤ اِجداد رکھا کرتے تھے۔ لیکن میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ ہمیں پاک روح کے نیچے آنے اور ہمارے گرجہ گھر میں آنے والے گمراہ لوگوں کو سزایابی میں لانے کے لیے دعا مانگنی چاہیے۔ اگر وہ گناہ کی سزایابی کے تحت نہیں آتے تو وہ نجات نہیں پائیں گے۔

اور پھر، دوسری وجہ زیادہ تر انجیلی بشارت کی تعلیم کا پرچار کرنے والے نہیں جانتے کہ دعا کس بات کے لیے مانگنی چاہیے یہ ہے کہ زیادہ تر انجیلی بشارت کی تعلیم کا پرچار کرنے والے لوگ آج مسیح میں ایمان لانے والی ’’بُحرانی‘‘ تبدیلی میں یقین نہیں رکھتے، جیسا ہمارے آباؤ اِجداد رکھا کرتے تھے۔ ہمارے آباؤ اِجداد نے کہا کہ گناہ کی سزایابی کے تحت ایک شخص ’’بیدار ہوا‘‘ تھا، لیکن ابھی تک نجات یافتہ نہیں ہوا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک بیدار ہوئے شخص کو گناہ سے پرے ہٹنے کی اذیت سے گزرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے بچہ جننے کے دوران ایک عورت کو دردِ زہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ صرف اِس ہی طرح سے، ہمارے آباؤ اِجداد نے کہا، مسیح میں ایمان لانے کی سچی تبدیلی کا تجربہ کرتا ہے (حوالہ دیکھیں، مسیحیوں کا مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا زائرین کی پیش قدمی Pilgrim’s Progress میں)۔

جان سیموئیل کیگن John Samuel Cagan نے مسیح میں ایمان لانے کی ایک واضح بُحرانی تبدیلی کا تجربہ کیا تھا۔ اُن کی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی جان بعنئین John Bunyan کی مانند تھی، نا کہ نام نہاد کہلائی جانے والی دورِ حاضرہ کی انجیلی بشارت کے پرچار کی تعلیم والی نجات۔

      اپنی مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی سے پہلے مرتا ہوا محسوس کیا… میں کسی قسم کا امن تلاش نہ کر پایا… اُس عرصے میں پاک روح نے انتہائی یقینی طور پر مجھے میرے گناہ کی سزایابی میں کر دیا، لیکن اپنی تمام تر ہمت کے ساتھ میں نے اُن تمام خیالات کو جو خُدا اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے بارے میں تھے مسترد کر دیا۔ میں نے اِس کے بارے میں سوچنے سے ہی انکار کر دیا، اِس کے باوجود میں اِس قدر زیادہ اذیت میں مبتلا ہونے کے احساس کو روک نہ پایا۔ 21 جون، 2009 کے اِتوار کی صبح تک، میں پوری طرح سے تھکن زدہ ہو چکا تھا۔ میں اِس تمام سے اِس قدر تھک چکا تھا۔ میں نے خود سے نفرت کرنا شروع کر دیا، اپنے گناہ سے نفرت کرنے لگا اور اُس نے مجھے کیسا محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔
      جب ڈاکٹر ہائیمرز تبلیغ کر رہے تھے، میرا تکبر اُس کو فوری طور پر مسترد کرنے کی کوشش کر رہا تھا، نہ سُننے کے لیے، لیکن وہ جیسے جیسے منادی کر رہے تھے میں واقعی میں اپنے تمام گناہ کو اپنی روح پر محسوس کر سکتا تھا۔ میں واعظ کے ختم ہونے کے لیے لمحات گِن رہا تھا، لیکن پادری صاحب نے منادی کرنا جاری رکھا، اور میرے گناہ کبھی نہ ختم ہونے والے بدتر سے بدترین ہوتے چلے گئے۔ میں اُن ڈنگوں کے خلاف مذید اور کچھ نہیں کر پا رہا تھا، مجھے نجات حاصل کرنی ہی تھی! یہاں تک کہ جب بُلاوا دیا گیا تو میں نے مزاحمت کی، لیکن میں بالکل بھی اور برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میں جان گیا تھا کہ میں وہ انتہائی بدترین گنہگار تھا جو میں ہو سکتا تھا اور کہ خُدا مجھے جہنم میں سزا دینے کے لیے متّقی تھا۔ میں جدوجہد کرنے سے اِس قدر تھک چکا تھا، میں ہر اُس چیز سے جو میں تھا اِس قدر تھک چکا تھا۔ پادری صاحب نے مجھے نصیحت کی اور مجھے مسیح کے پاس آنے کے لیے کہا، لیکن میں نہ آ سکا۔ یہاں تک کہ مجھے میرے سارے گناہ نے سزایابی دی میں اب بھی یسوع کو نہ پا سکا۔ یہ لمحات سب سے بدترین میں سے تھے جیسا کہ میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نجات نہ حاصل کر پایا اور مجھے پھر صرف جہنم ہی میں جانا پڑے گا۔ میں نجات پانے کے لیے ’’کوششیں کر رہا‘‘ تھا، میں مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے ’’کوششیں کر رہا‘‘ تھا اور میں کر نہیں پا رہا تھا، میں بس خود میں مسیح کے لیے ہمت نہیں جُتا پا رہا تھا، اور اِس بات نے مجھے اِس قدر نااُمید محسوس کرنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے محسوس کیا میرا گناہ مجھے جہنم میں دھکیل رہا تھا اِس کے باوجود میں محسوس کر سکتا تھا میری ڈھٹائی میرے آنسوؤں کو زبردستی روک رہی تھی۔ میں اِس کشمکش میں جکڑا جا چکا تھا۔
      اچانک سالوں پہلے دیے گئے ایک واعظ کے الفاظ میرے ذہن میں ٹکرائے: ’’مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دو! مسیح کے سامنے گھٹنے ٹیک دو!‘‘ وہ خیال کہ مجھے یسوع کے لیے پسپا ہونا پڑے گا اُس نے مجھے اِس قدر بےچین کیا کہ جو ہمیشہ کے لیے لگتا تھا میں محض کر نہیں پا رہا تھا۔ یسوع نے اپنی زندگی میرے لیے قربان کر دی۔ وہ حقیقی یسوع میری خاطر مصلوب ہونے کے لیے چلا گیا جب میں اُس کا دشمن تھا اور میں اُس کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکوں۔ اِس خیال نے مجھے توڑ ڈالا؛ مجھے اِس تمام کو چھوڑنا ہی تھا۔ میں مذید اور خود پر قابو نہیں کر پا رہا تھا، مجھے یسوع کو پانا ہی تھا! اُس لمحے میں اُس یسوع کے سامنے میں نے گھٹنے ٹیک دیے اور ایمان کے وسیلے سے یسوع کے پاس آیا۔ اُس لمحے میں یوں لگا جیسے مجھے خود اپنے آپ کو مرنے دینا تھا، اور پھر یسوع نے مجھے زندگی بخشی! میرے ذہن کا کوئی عمل دخل یا مرضی شامل نہیں تھی بلکہ میرے دِل کی تھی، مسیح میں سادہ سے سکون کے ساتھ، اُس نے مجھے نجات دی! اُس نے میرے گناہ کو اپنے خون میں پاک صاف کر دیا! اُس واحد لمحے میں، میں نے مسیح کی مزاحمت کرنی چھوڑ دی۔ یہ اِس قدر واضح تھا کہ مجھے صرف اُسی پر بھروسہ کرنا تھا؛ میں اُس بالکل صحیح لمحےکو پہچان سکتا تھا جب ترک کر دینے والا میں تھا اور یہ واحد مسیح تھا۔ مجھے گھٹنے ٹیکنے ہی تھے! اُس لمحے میں کوئی جسمانی احساس یا اندھا کر دینے والی روشنی نہیں تھی، مجھے کسی احساس کی ضرورت نہیں تھی، میرے پاس مسیح تھا! اِس کے باوجود مسیح پر بھروسہ کرنے میں یوں محسوس ہوا جیسے میری روح پر سے میرے گناہ اُٹھائے جا چکے تھے۔ میں نے اپنے گناہ سے مُنہ موڑ لیا، اور میں نے تنہا یسوع پر نظریں جما لیں! یسوع نے مجھے نجات دی۔
      یسوع نے مجھ جیسے کم تر ترین گنہگار کو جو ایک اچھے گرجہ گھر میں پلا بڑھا اور پھر بھی اُس کے خلاف ہوا، معاف کرنے کے لیے کس قدر محبت کی ہے! مسیح کے لیے میری محبت کے اظہار میں اور میرے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کے تجربے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اِس قدر کم دکھائی دیے۔ مسیح نے میرے لیے اپنی جان قربان کر دی اور اِس کے لیے میں نے اپنا سب کچھ اُسے دے دیا۔ یسوع نے اپنے تخت کو میری خاطر ایک صلیب کے لیے قربان کر دیا حتّٰی کہ میں نے اُس کی کلیسیا [گرجہ گھر] پر تھوکا اور اُس کی نجات کا تمسخر اُڑایا؛ میں کبھی بھی کیسے پورے طور سے اُس کی محبت اور اُس کے رحم کا اِعلان کر سکتا ہوں؟ یسوع نے میری نفرت اور غصے کو دور کر دیا اور اُس کے بجائے مجھے محبت دی۔ اُس نے مجھے ایک نئے آغاز کے مقابلے میں بہت کچھ دے دیا – اُس نے مجھے نئی زندگی دی۔

میں ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones کے ساتھ متفق ہوں کہ رومیوں 7 باب کی آخری دو آیات میں پولوس رسول ہمیں مسیح میں ایمان لانے کی ایک حقیقی تبدیلی کی مثال پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا یہ آیات خود پولوس کے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ میں متفق ہوں۔ پولوس نے کہا،

’’ہائے! میں کیسا بدبخت آدمی ہوں! اِس مُوت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا؟‘‘ (رومیوں 7:24).

یہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا ہوتا ہے! – جب گنہگار خود پر انحصار کرنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنے گناہ سے بھرپور دِل سے کراہت کرتا ہے جو اُس کو غلام بنا چکا ہوتا ہے۔ لیکن پھر پولوس نے کہا،

’’خدا کا شکر ہو کہ اُس نے ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے اِسے ممکن بنا دیا ہے‘‘ (رومیوں 7:25).

وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا ہوتا ہے – جب ایک اذیت میں مبتلا گنہگار یسوع مسیح اُس خُداوند کے وسیلے سے خلاصی پاتا ہے! یہ یہاں ہے، پہلی مرتبہ، کہ وہ گنہگار، جس کو یہ دیکھنے پر مجبور کر دیا گیا تھا کہ وہ گناہ کے لیے ایک بے بس گنہگار ہے، مکمل طور پر یسوع کی جانب مُڑتا ہے اور اُس کے خون کے وسیلے سے گناہ سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔ ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انجیلی بشارت کی تعلیم کا پرچار کرنے والے زیادہ تر لوگ کبھی بھی کسی کو اِن دو سب سے زیادہ اہم تجربات سے گزرنے کے لیے اجازت نہیں دیتے۔ ضمیر کے انتہائی پہلے کچوکے پر، یا شاید وہ بھی نہ ہو، فیصلہ ساز لوگ decisionist اُنہیں گنہگار کی دعا کہنے کے لیے کہہ دیں گے۔ میں یقین کرتا ہوں وہ واحد سب سے زیادہ اہم وجہ ہے کہ ہمارے ہاں 1859 سے لیکر اب تک امریکہ میں قوم کو بدل ڈالنے والا کوئی بھی حیات نو نہیں آیا۔

اِس طرح سے، یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے آپ کو سب سے زیادہ دعا مانگنی چاہیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہماری کلیسیا [گرجہ گھر] کو حیات نو کا ایک تجربہ ہو۔ پہلی بات، خُدا سے گناہ سے گمراہ لوگوں کو سزایابی میں لانے کے لیے پاک روح کو بھیجنے کی دعا مانگیں۔ دوسری بات، اُن پر یسوع کو ظاہر کرنے اور اُنہیں اُس کی جانب کھینچنے کے لیے خُدا کے روح کے لیے دعا مانگیں، صلیب پر اُس کی موت کے ذریعے سے معافی کے لیے اور اُس کے قیمتی خون کے ذریعے سے گناہ سے پاک صاف ہونے کے لیے دعا مانگیں!

پادری برائین ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards نے کہا کہ حیاتِ نو کی دعائیں ’’مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے لوگوں، مضطرب (بیدار ہوئے) لوگوں اور سوئے ہوئے لوگوں پر مرکوز ہوتی ہیں‘‘ (حیات نو Revival، ایونجیلیکل پریس Evangelical Press، 2004 ایڈیشن، صفحہ127)۔ کیوں حیاتِ نو کی دعائیں ’’مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے لوگوں‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’مضطرب‘‘ اور سوئے ہوئے لوگوں پر مرکوز ہوتی ہیں؟ کیونکہ وہ جو مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں اخلاقی طور پر گِر سکتے ہیں۔ پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر First Chinese Baptist Church میں حیاتِ نو، نجات یافتہ لوگوں میں شروع ہوا تھا جن کے دِلوں میں گناہ تھا۔ اُنہوں نے کُھلم کُھلا اپنے گناہ کا اعتراف کرنا شروع کر دیا تھا، آنسوؤں کے ساتھ، ہر ایک کے سامنے۔ کچھ کی دوسروں کی ساتھ گرجہ گھر میں رنجش تھی۔ کچھ نے خفیہ گناہوں کو اپنے زندگی میں آنے دیا تھا۔ اُنہوں نے اپنے گناہوں کے بہانے بنا لیے تھے یہ کہتے ہوئے کہ اِن سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جیسے ہی پاک روح نازل ہوا، وہ ٹوٹےہوئے دِل والے ہو گئے۔ اُنہیں احساس ہو گیا وہ اپنی دعاؤں میں سرد اور مُردہ تھے۔ اُنہیں احساس ہو گیا وہ گرجہ گھر میں دوسروں کی جانب ناراض تھے اور کینہ رکھتے تھے۔ بعض دوسرے لوگوں نے وہ کچھ کرنے سے انکار کیا تھا جو وہ جانتے تھے خُدا چاہتا ہے کہ وہ کریں۔

یہاں ہمارے گرجہ گھر میں شاید ایک مسیحی ہو جو کسی بات پر خُدا کی فرمانبردای کرنے سے انکار کرتا ہو۔ وہ حیاتِ نو میں رکاوٹ کھڑی کر سکتے ہیں! جب 1970 میں کیٹیکی Kentucky کے شہر وِلمور Wilmore میں آسبورے کالج Asbury College میں حیاتِ نو آیا سینکڑوں سچے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے طالب علموں کو محسوس ہوا اُنہیں اعتراف کرنا تھا… عوام میں۔ وہ قطار میں کھڑے ہو گئے، بعض اوقات گھنٹوں کے لیے، چھوٹے سے گرجہ گھر میں مائیکروفون تک آنے کے انتظار میں تاکہ وہ اعتراف کر سکیں… اپنی [نافرمانیوں کے لیے] اور دعا کرنے کے لیے کہیں۔

وہ شخص جو آسبورے Asbury کے اجلاس کی رہنمائی کر رہا تھا اُس نے منادی نہیں کی تھی۔ اِس کے بجائے، اُس نے مختصراً اپنی گواہی پیش کی تھی، اور پھر طالب علموں کو مدعو کیا تھا کہ وہ خود اپنے مسیحی تجربوں کے بارے میں بات کریں۔ وہاں خصوصی طور پر کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہوئی تھی۔ ایک طالب علم نے اُن کی پیشکش پر ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ پھر دوسرے نے۔ پھر ایک اور نے۔ ’’پھر وہ الطار پر نازل ہوتے چلے گئے،‘‘ اُس نے کہا۔ ’’یہ بس ہوتا ہی چلا گیا۔‘‘ آہستہ آہستہ، غیرواضح طور پر، طالب علموں اور ادارے کے اِراکین دونوں ہی نے خود کو خاموشی سے دعا مانگتے، روتے اور گاتے ہوئے پایا۔ اُنہوں نے اُن دوسرے لوگوں کو ڈھونڈا جن کے ساتھ اُنہیں نے بُرے کام کیے تھے اور معافی کی درخواست کی۔ چھوٹے سے گرجہ گھر کی عبادت آٹھ دِنوں تک [24 گھنٹے] جاری رہی۔

بالکل بجا طور پر یہی پہلے چینی بپٹسٹ گرجہ گھر میں بھی رونما ہوا تھا، تقریباً اُسی دوران جب آسبورے Asbury کا حیاتِ نو آیا تھا۔ یہ گھنٹوں جاری رہا تھا، جب نوجوان چینی لوگ اعتراف کر رہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔ 1910 کے کوریا کے حیاتِ نو میں کھُلم کُھلا اعتراف عام بات تھی۔ آج، مسیحیوں کے ذریعے سے، کُھلم کُھلا اعتراف، آنسوؤں کے ساتھ، چین میں عام ہے جہاں بہت بڑا حیاتِ نو جاری ہے۔ ایون رابرٹس Evan Roberts پکار اُٹھے، ’’خُداوندا، مجھے جُھکا دے،‘‘ جب وہ خُدا کے حضور پسپا ہوئے تھے اور 1905 کے ولش حیات نو Welsh Revival میں رہنما بنے تھے۔ آپ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ خُدا سے خود کو جُھکانے کے لیے دعا مانگیں گے؟ ’’اے خُدا، مجھے جانچ Search me, O God‘‘ گائیں۔

’’اِے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان،
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے:
اور میرے دِل کو جان لے؛
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے؛
اور دیکھ کہ مجھے میں آیا کوئی بُری روش تو نہیں،
اور میری ہمیشہ تک رہنے والی راہ میں رہنمائی کر۔‘‘
   (زبُور 139:23،24).

زندہ خُدا کے روح، نازل ہو جا، ہم دعا مانگتے ہیں۔
زندہ خُدا کے روح، نازل ہو جا، ہم دعا مانگتے ہیں۔
مجھے پگھلا ڈال، مجھے تراش ڈال، مجھے توڑ ڈال، مجھے جھکا دے۔
زندہ خُدا کے روح، نازل ہو جا، ہم دعا مانگتے ہیں۔

وہ ہمارے گرجہ گھر میں بھی رونما ہو سکتا ہے اگر خُدا حیاتِ نو میں اپنے روح کو نازل کرتا ہے۔ ’’اے خُدا، مجھے جانچ Search me, O God‘‘ اِس کو دھیمے سے گائیں۔

’’اِے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان،
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے:
اور میرے دِل کو جان لے؛
مجھے آزما اور میرے مضطرب خیالات کو جان لے؛
اور دیکھ کہ مجھے میں آیا کوئی بُری روش تو نہیں،
اور میری ہمیشہ تک رہنے والی راہ میں رہنمائی کر۔‘‘
   (زبُور 139:23،24).

آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔