Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


وہ دُعا جس کا جواب خُدا دیتا ہے

THE PRAYERS GOD ANSWERS
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 22 مئی، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, May 22, 2016

’’ایلیاہ ہماری طرح اِنسان تھا۔ اُس نے بڑے جوش سے دعا کی کہ بارش نہ ہو اور ساڑھے تین برس تک زمین پر بارش نہ ہُوئی‘‘ (یعقوب 5:17).

یہ دلچسپ بات ہے کہ پرانا عہدنامہ تزکرہ نہیں کرتا ایلیاہ نبی نے یہ دعائیں مانگیں۔ وہ ہمیں صرف بتاتا ہے کہ نبی جانتا تھا خُدا اُن دعاؤں کا جواب دے گا جن کا خود تزکرہ نہیں کیا گیا (1 سلاطین17:1)۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ایلیاہ کی دعائیں یعقوب کو خاص الہام کے ذریعے سے بخشی گئیں تھی۔ لیکن پرانا عہدنامہ ہمیں صرف وہ پیش کرتا ہے جو نبی نے اخی اب بادشاہ سے کہا۔ ڈاکٹر میگی Dr. McGee نے نشان دہی کی کہ انبیا لوگوں سے باتیں کیا کرتے تھے، مگر کاہن خُدا سے بات کرتے تھے۔ ایلیاہ ایک نبی تھا، لہٰذا بائبل صرف وہ پیش کرتی ہے جو ایلیاہ نے اخی اب سے کہا۔ ایلیاہ نے جو خُدا سے کہا وہ اُس وقت تک پوشیدہ رہا تھا جب تک خُدا نے اُس کا انکشاف یعقوب پر نہ کر دیا۔ ایلیاہ نے اخی اب سے بات کی اور کہا،

’’خداوند، اِسرائیل کے زندہ خدا کی قسم جس کی میں پرستش کرتا ہُوں، اگلے چند برسوں میں نہ اوس پڑے گی، نہ مینہ برسے گا، جب تک میں نہ کہوں‘‘ (1۔ سلاطین 17:1).

اگر یعقوب 5:17 خُدا کے الہام کے ذریعے سے یعقوب کو نہ دی جاتی تو ہم بارش اور قحط کے لیے ایلیاہ کی دعاؤں کے بارے میں نہ جان پاتے (2 تیموتاؤس3:16)۔

تلاوت ہمیں بتاتی ہے کہ ایلیاہ نے بارش اور قحط کے لیے ’’بڑے جوش‘‘ سے دعا مانگی۔ یونانی لفظ میں ’’بڑے جوش سےearnestly‘‘ کے ترجمہ کا مطلب ہوتا ہے ’’اُس نے دعا کے ساتھ دعا مانگی۔‘‘ تھامس مینٹون Thomas Manton (1620۔1677) نے کہا یہ ’’زبان اور دِل کے مابین ایک ہم آہنگی‘‘ اِظہار کرتا ہے؛ دِل نے دعا کی اور زبان نے دعا ادا کی‘‘ (یعقوب پر تبصرہCommentary on James، دی بینر آف ترُتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، دوبارہ اشاعت1998)۔ میں یقین کرتا ہوں اِس کا مطلب بُلند آواز کے ساتھ دعا مانگنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

گزرتے ہوئے سالوں کے دوران میں دعاؤں کے بے شمار شاندار جوابات دیکھ چکا ہوں۔ مگر ہر بات کا جس کے لیے میں نے دعا مانگی جواب فوراً ہی نہیں مِل گیا۔ دعاؤں کے بڑے بڑے جوابات عموماً اُس وقت ملے جب اُس بات کے لیے جس کے لیے میں دعا مانگ رہا ہوتا تھا پہلے ہی سے ایک شدید بوجھ ہوتا تھا۔ یہ کچھ ایسی بات تھی جس کے بارے میں مَیں سوچنا روک نہیں پایا۔ پرانے وقتوں کے مسیحیوں نے اِس کو ’’بوجھ‘‘ کہا، کچھ ایسا جس کا آپ پر وزن ہوتا ہے، کچھ ایسا جس کا آپ سے گہرا تعلق ہوتا ہے، جس کے بارے میں آپ اِس قدر زیادہ فکرمند ہوتے ہیں کہ یہ بار بار آپ کو یاد آتا رہتا ہے۔ اور آپ اِس کے لیے اُس وقت تک دعا مانگتے رہتے ہیں جب تک جواب مِل نہیں جاتا۔

اُن باتوں کے لیے جو ہم پر بوجھ ڈالتی ہے دعا مانگنا جاری رکھنے کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے جب تک کہ اُن باتوں کا جواب مِل نہیں جاتا مسیح نے دو تماثیل پیش کیں۔ پہلی والی ’’اڑیل دوست‘‘ کی تمثیل کہلاتی ہے۔ اڑیل کا مطلب ہوتا ہے ’’مستقل مزاج‘‘ یا یہاں تک کہ ’’تکلیف دہ۔‘‘ یہ لوقا11:5۔13 میں پیش کی گئی ہے۔ یہ سیکوفیلڈ بائبل کے صفحہ1090 پر ہے۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اِس کو باآوازِ بُلند پڑھیں۔

’’پھر اُس نے اُن سے کہا، فرض کرو کہ تُم میں سے کسی کا ایک دوست ہے۔ وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر کہتا ہے کہ اَے دوست! مجھے تین روٹیاں دے کیونکہ میرا ایک دوست سفر کرکے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اُس کی خاطر تواضع کر سکوں اور وہ اندر سے جواب میں کہتا ہے، مجھے تکلیف نہ دے، دروازہ بند ہے اور میں اور میرے بال بچے بستر میں ہیں، میں اُٹھ کر تجھے دے نہیں سکتا۔ میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگرچہ وہ اُس کا دوست ہے، وہ اُٹھ کر نہ بھی دے تو بھی اُس کے بار بار اصرار کرنے کے باعث ضرور اُٹھے گا اور جتنی روٹیوں کی اُسے ضرورت ہے، دے گا۔ پس میں تُم سے کہتا ہوں، مانگتے رہو گے تو تمہیں دیا جائے گا، ڈھونڈتے رہو گے تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاتے رہو گے تو تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا۔ تُم میں سے کون سا باپ ایسا ہے کہ جب اُس کا بیٹا مچھلی مانگے تو اُسے مچھلی نہیں بلکہ سانپ پکڑا دے؟ یا انڈا مانگے تو اُس کے ہاتھ میں بِچھو تھما دے۔ پس جب تُم بُرے ہو کر بھی اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے عطا نہ فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں؟‘‘ (لوقا 11:5۔13).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

تمام کی تمام تمثیل ہمیں مانگتے رہنے اور دعا جاری رکھنے کی تعلیم دیتی ہے جب تک کہ ہمیں وہ مِل نہ جائے جو ہم مانگ رہے ہوتے ہیں۔ آیات نو اور دس کہتی ہیں،

’’اور میں تُم سے کہتا ہوں، مانگتے رہو گے تو تمہیں دیا جائے گا، ڈھونڈتے رہو گے تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاتے رہو گے تو تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا‘‘ (لوقا 11:9۔10).

’’مانگو،‘‘ ’’تلاش کرو،‘‘ اور ’’کھٹکھٹاؤ‘‘ یونانی تلاوت میں فعل حال میں ہیں۔ اِن کا ترجمہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے جیسے ’’مانگنا جاری رکھو، تلاش جاری رکھو، کھٹکھٹانا جاری رکھو۔‘‘ اب آیت 13 پر نظر ڈالیں،

’’پس جب تُم بُرے ہو کر بھی اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے عطا نہ فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں؟‘‘ (لوقا 11:13).

لہٰذا یہاں مستقل مانگے جانے والی دعا کا جواب خُدا کی جانب سے ہمارے اُن ’’دوستوں‘‘ کو جو ضرورت مند ہوتے ہیں خُدا کی جانب سے پاک روح کے بخشے جانے کے وسیلے سے دیا جائے گا۔ ڈاکٹر جان آر۔ رائسDr. John R. Rice دُرست تھے جب اُنہوں نے کہا یہ مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے جو بشروں کےجیتنے کے لیے پاک روح کی قوت مانگتے ہیں (دعا: مانگنا اور پانا Prayer: Asking and Receiving، صفحات212، 213)۔

لیکن یہی تعلیم متی 7:7۔11 میں بھی پیش کی گئی ہے۔ یہ سیکوفلیڈ بائبل کے صفحہ 1003 پر ہے۔ اِس کو باآوازِ بُلند پڑھیں،

’’مانگو تو تمہیں دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا کیونکہ جو کوئی مانگتا ہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے، پاتا ہے اور جو کوئی کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ تُم میں ایسا کون ہے کہ اگر اُس کا بیٹا روٹی مانگے تو وہ اُسے پتھر دے۔ یا اگر مچھلی مانگے تو اُسے سانپ دے؟ اگر تُم بُرے ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا آسمانی باپ اُنہیں جو اُس سے مانگتے ہیں، تم سے بڑھ کر اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟‘‘ (متی 7:7۔11).

آپ غور کریں گے کہ آیت 11 کے الفاظ مختلف ہیں۔ لوقا11 میں یسوع نے کہا، ’’کیا تمہارا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے عطا نہ فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں؟‘‘ مگر متی7:11 میں یسوع نے کہا، ’’تمہارا آسمانی باپ اُنہیں جو اُس سے مانگتے ہیں، تم سے بڑھ کر اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟‘‘

ایلیاہ نبی نے دعا مانگی تھی کہ بارش نہ ہو، اور ساڑھے تین سالوں تک بارش نہیں ہوئی تھی۔ یہ وہ بوجھ تھا جو خُدا نے اُس کے دِل پر ڈالا تھا۔ اور، جب اُس نے دعا مانگی، تو خُدا نے بارش کو روک روک کر جواب دیا تھا۔ کھبی کبھار خُدا فوراً جواب دیتا ہے۔ بعض دوسرے اوقات میں خُدا شروع ہی میں جواب نہیں دے دیتا۔

مجھے وہ رات بخوبی یاد ہے جب خُدا نے میری دعا کا جواب فوری دیا تھا۔ میں بارہ برس کی عمر کا تھا۔ میں ایک انکل اور آنٹی کے ساتھ رہنے کے لیے بھیجا گیا تھا جو ٹوپانگا کینیئعن Topanga Canyan کی چوٹی پر رہتے تھے۔ میں وہاں پر سکول میں پڑھنے کے لیے چند ایک ماہ کے لیے گیا تھا – اُن بائیس سکولوں میں سے ایک جن میں ہائی سکول سے گریجوایشن کرنے سے پہلے مجھے بھیجا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی جب پہلی مرتبہ میں کالج میں گیا تو میں کالج میں نمبر حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ جب آپ کو بائیس مرتبہ اِس سکول سے اُس سکول میں منتقل کیا جائے، تو آپ زیادہ نہیں سیکھتے۔ میں نے پڑھنا کیسے چاہیے سیکھا تھا۔ میں نے رواں خط میں تحریر کرنا سیکھا تھا۔ میں نے جمع اور نفی کرنا سیکھا تھا۔ یہی سب کچھ مجھے آتا تھا۔ مگر میں وہاں تھا، ٹوپانگا کینیئعن Topanga Canyan کی چوٹی پر، اپنی اُس آنٹی کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا جو تمام وقت نشے میں دھت رہتی تھیں۔ ایک رات میرا کزن اور اُس کے دوست شراب پی رہے تھے۔ در حقیقت، وہ نشے میں کافی دُھت تھے۔ اُںہوں نے کہا، ’’آ جاؤ، رابرٹ۔ گاڑی میں آ جاؤ اور ہم تھوڑی سی سیر کے لیے جائیں گے۔‘‘ میں جانا نہیں چاہتا تھا، مگر میں صرف بارہ برس کا تھا اور اُن بڑے بڑے لڑکوں نے مجھے پکڑا اور گاڑی کی پچھلی جانب ڈال دیا۔ وہ میرے انکل کی 1940 کی فورڈ کوُپ تھی۔ اُس کی صرف سامنے کی سیٹ ہوتی تھی۔ اُنہوں نے سامنے والی سیٹ کی پچھلی تنگ سی جگہ میں مجھے ٹھونس دیا۔ پھر وہ بیئر اور وھسکی پیتے ہوئے چل پڑے۔ نشے میں دُھت وہ ’’تھوڑی سی سیر‘‘ نیچے ساحل کی جانب بل کھاتی ہوئی، پُرخطر، سڑک پر ریس میں بدل گئی۔ اگر آپ کبھی بھی اُس سڑک پر جا چکے ہیں تو آپ کو کچھ نہ کچھ اندازہ ہو چکا ہوگا وہ کیسا لگتا تھا۔ سڑک آگے اور پیچھے سانپ کی مانند بل کھاتی تھی۔ وہ کافی نشے میں تھے اور میرا کزن پہاڑ سے نیچے تقریباً ساٹھ میل فی گھنٹے کی رفتار سے جا رہا تھا۔ میرے خیال میں، رفتار کی حد 25 میل فی گھنٹہ لکھی ہوئی تھی اور وہ 65 یا 70 کی رفتار سے گاڑی چلا رہے تھے۔ جب تک میں زندہ رہوں گا اِسے کبھی بھی نہیں بھول پاؤں گا۔ اب بھی کبھی کبھار مجھے اِس بارے میں خوفناک خواب آتا ہے۔ میں نے اپنا سر نیچے کیا اور وہ واحد دعا جو اُس وقت مجھے آتی تھی مانگی۔ میں نے پہاڑ سے نیچے کے تمام راستے پر عشائے ربانی کی دعا مانگی تھی – اِن الفاظ پر انتہائی شدید اصرار کے ساتھ، ’’ہمیں بُرائی سے بچا۔‘‘ پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر میں گاڑی سے باہر نکلا اور وہاں تاریکی میں کھڑا کانپتا رہا۔ میں جانتا تھا یہ خدا ہی تھا جس نے ہمیں بچایا تھا۔ اُس سڑک پر بے شمار جان لیوا حادثات ہو چکے ہیں۔ میں اُن گاڑیوں کو دیکھ چکا ہوں جو کنارے پر سے نیچے گریں اور گہرائی میں شعلوں میں پھٹ پڑیں۔ خُدا ہمیں دعاؤں کے جواب میں بچاتا ہے۔ میں یہ بات تب بھی جانتا تھا، اور ساٹھ سال بعد، اب بھی جانتا ہوں! بے شمار مرتبہ خدا چھوٹی چھوٹی دعاؤں کا جواب دیتا ہے جیسا اُس نے اُس رات کو دیا تھا۔

مگر کئی مرتبہ ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے، کبھی کبھار جواب ملنے سے پہلے، ایک طویل مدت کے لیے۔ سترہ برس کی عمر میں مَیں نے اداکار نہ بننے کا فیصلہ کیا اور اِس کے بجائے مذھبی خدمات سر انجام دینے کے لیے جانے کا فیصلہ کیا۔ اِس میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، کسی قسم کا کوئی احساس بھی نہیں تھا۔ مجھے تو یہاں تک کہ منادی کے لیے ’’بُلائے جانے‘‘ کے بارے میں سُننا بھی یاد نہیں ہے۔ شاید کسی نے یہ کہا ہو، مگر میں نے یہ کبھی بھی نہیں سُنا تھا۔ اُس وقت ماضی میں وہ ہمیشہ منادی کے لیے ’’ہار مان لینے‘‘ کے بارے میں بات کرتے تھے۔ پادری صاحبان شدید جدوجہد میں سے گزرنے کے بارے میں باتیں کیا کرتے تھے اور بالاآخر ایک پادری بننے کے لیے حتمی طور پر ’’ہار مان لی جاتی‘‘ تھی۔ ٹھیک ہے، میں بالکل بھی جدوجہد میں سے نہیں گزرا۔ میں نے صرف سوچا تھا کہ اداکاری احمقانہ اور دو کوڑی کا کام تھا، اور میں نے منادی کرنے کے لیے ہار تسلیم کر لی، چاہے اِس کا جو بھی مطلب نکلے! میں نے خود کو خُدا کی مرضی کے حوالے کر دیا۔ یہ تھا جس نے ایک مشنری بننے کے لیے میری رہنمائی اُس چینی گرجہ گھر تک کی تھی۔ میں نے چین کے لیے مشنریوں کے عظیم بانی جیمس ہڈسن ٹیلر James Hudson Taylor کی زندگی پڑھی تھی۔ اور میں جانتا تھا پیروی کرنے کے لیے وہ، میرے لیے ایک عظیم کرداری مثال تھے۔

لہٰذا میں اُس چینی گرجہ گھر میں چلا گیا اور خود کو ہر قسم کی خدمت کے لیے جو موجود تھی حوالے کر دیا۔ میں یہاں تک کہ گرجہ گھر کا مالی اور جمعدار بھی بنا، فرشوں کو صاف کرنا، کرسیاں سیدھی رکھنا، خُدا کی خدمت کرنے کے لیے کچھ بھی جو میں کر پاتا۔ اُس زمانے کے دوران میں نے موڑی پریس Moody Press کے شائع کیے ہوئے جان ویزلی John Wesley کے جریدے سے اِقتباسات کی ایک جلدی کتاب کی نقل خریدی۔ میں نے اِس کو سارا پڑھا جیسا کہ وہ بائبل ہی تھی۔ اُس وقت اِس کا احساس نہیں ہوا تھا لیکن اِس نے پہلی عظیم بیداری کے دوران کیا ہوا تھا اُس کے بارے میں ایک تصویری عکاسی پیش کی تھی۔ ویزلی کے جریدے نے مجھے حیاتِ نو کے موضوع میں انتہائی دلچسپی لینے پر مجبور کر دیا۔ یہ جاننے کے لیے کہ 1960 کی دہائی کے ابتدائی دور تک حیاتِ نو کس قدر نایاب ہو چکے تھے میں انتہائی نوجوان اور ناتجربہ کار تھا۔ میں سادہ لوح، سیدھے سے دماغ والا تھا جو صرف سوچتا تھا کہ میں حیاتِ نو کے لیے دعا مانگوں گا اور وہ رونما ہو جائے گا۔ لہٰذا میں نے چینی گرجہ گھر میں حیاتِ نو آنے کے لیے دعا مانگی۔ میں نے اِس کے لیے ہر ایک روز دعا مانگی۔ میں نے اِس کے لیے ہر دعائیہ اِجلاس میں باآوازِ بُلند دعا مانگی۔ جب مجھے گرجہ گھر میں کھانے پر دعا مانگنے کے لیے کہا جاتا تو خُدا سے میری ساری کی ساری دعا حیاتِ نو بھیجنے کے لیے ہوا کرتی تھی۔ یہ مرکزی بات تھی جس کے لیے میں نے ساری کی ساری 1960 کی دہائی میں دعا مانگی۔ میں واقعی میں بالکل بھی حیران نہیں ہوا تھا جب حیاتِ نو آیا، جو 1960 کی دہائی کے آخر میں موسمِ گرما کے ایک کیمپ میں اچانک شروع ہو گیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ یہ آئے گا کیونکہ، بچوں جیسے ایمان کے ساتھ، میں نے اِس کے لیے دعا مانگی تھی۔ اپنے مرنے سے چند ایک سال پہلے ڈاکٹر مرفی لم Dr. Murphy Lum نے مجھے اُن دعاؤں کے بارے میں یاد دلایا تھا۔ اُنہوں نے کہا، ’’باب، تم ہمیشہ حیاتِ نو کے لیے دعا مانگتے رہے تھے، حتّٰی کہ اُس وقت بھی جب کوئی بھی دعا نہیں مانگ رہا تھا۔‘‘ پھر اُںہوں نے کہا، ’’باب، میں یقین کرتا ہوں کہ حیاتِ نو اِس لیے آیا کیونکہ تم نے اِس کے لیے دعا مانگنی جاری رکھی تھی۔‘‘ مگر جس وقت تک اُنہوں نے یہ بات کہی تھی میں اِس کے بارے میں تقریباً بھول ہی چکا تھا۔

چینی گرجہ گھر میں حیاتِ نو میرے دِل میں ایک بوجھ بن چکا تھا۔ میں یقین کرتا ہوں خُدا نے وہ بوجھ مجھ میں ڈالا تھا۔ میں اِس کے بارے میں سوچنے سے باز نہیں رہ پاتا۔ اور میں نے اِس کے لیے دعا مانگی جب تک خُدا نے اِس کا جواب مجھے دے نہ دیا۔ پرانے زمانے کے مسیحی اِس کو ’’پوری طرح سے دعا مانگنا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ملتجیانہ، مستقل طور پر مانگی جانے والی دعا ہوتی ہے – جب تک کہ خُدا جواب نہیں دے دیتا اور آپ کو وہ مل نہیں جاتا جو آپ نےمانگا تھا! یسوع نے کہا،

’’اگر تُم بُرے ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا آسمانی باپ اُنہیں جو اُس سے مانگتے ہیں، تم سے بڑھ کر اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا؟‘‘ (متی 7:11).

دوبارہ یسوع نے کہا،

’’اور میں تُم سے کہتا ہوں، مانگتے رہو گے تو تمہیں دیا جائے گا، ڈھونڈتے رہو گے تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاتے رہو گے تو تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا‘‘ (لوقا 11:9، 10).

’’مانگو،‘‘ ’’ڈھونڈو‘‘ اور ’’کھٹکھٹاؤ‘‘ یونانی میں فعل حال میں ہیں۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے، ’’مانگنا جاری رکھو، ڈھونڈنا جاری رکھو، کھٹکھٹانا جاری رکھو۔‘‘ ڈاکٹر جان آر۔ رائس نے کہا، ’’خُدا کے بچے کا حق ہوتا ہے… مستقل طور سے، پُراصرار طور پر خُدا کے وعدوں کے لیے التجا کرنا اور جب تک جس کی ضرورت ہوتی ہے اُس کی تردید کو قبول کرنے سے انکار کرتے رہنا… خُدا سے مل جاتی ہے۔ اوہ، کاش خُدا کے لوگوں کو دعا، دعا، دعا کے لیے حوصلہ دیا جائے – کاش اُن کو پوری طرح سے دعا مانگنا کے لیے حوصلہ دیا جائے!

دعا مانگنا جاری رکھو
   جب تک تم پوری طرح سے دعا مانگ نہ لو
دعا مانگنا جاری رکھو
   جب تک تم پوری طرح سے دعا مانگ نہ لو،
خُدا کے عظیم وعدے،
   ہمیشہ سچے ہوتے ہیں،
دعا مانگنا جاری رکھو
   جب تک تم پوری طرح سے دعا مانگ نہ لو۔‘‘

(جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔ John R. Rice, D.D.، دعا: مانگنا اور پانا Prayer: Asking and Receiving، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے، 1970، صفحات213، 214) ۔

اپنی چھوٹی سی عظیم کتاب، دعا کیسے مانگنی چاہیے How to Pray میں، ڈاکٹر آر۔ اے۔ ٹورے Dr. R. A. Torrey نے بھی یہی بات کہی۔ ڈاکٹر ٹورے نے کہا،

     خُدا ہمیشہ ہی ہمیں ہماری پہلی ہی کوشش میں چیزیں نہیں بخش دیتا۔ وہ بہترین چیزوں کو پانے کے لیے سخت محنت پر مجبور کرنے کے ذریعے سے ہماری تربیت کرنا چاہتا ہے اور ہمیں مضبوط بنانا چاہتا ہے… پہلی دعا کے جواب میں جو کچھ ہم دعا میں مانگتے ہیں وہ ہمیشہ ہمیں نہیں دے دیتا۔ وہ بہترین چیزوں کو پانے کے لیے سخت محنت پر مجبور کرنے کے ذریعے سے ہماری تربیت کرنا چاہتا ہے اور ہمیں دعا کے مضبوط لوگ بنانا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں پوری طرح سے دعا مانگنے پر مجبور کرتا ہے۔
     میں خوش ہوں کہ یہ ایسا ہے۔ دعا میں بار بار مانگنے پر مجبور کیے جانے کے ذریعے سے، وقت کے طویل دورانیوں میں، خُدا سے جس کی ہم تلاش کرتے ہیں وہ پانے سے پہلے جو کچھ ملتا ہے اُس کے مقابلے میں اِس سے بڑھ کر کوئی اور بابرکت تربیت نہیں ہو سکتی۔ بے شمار لوگ اِس کو خُدا کی مرضی کے تابع ہو جانا کہتے ہیں جب خُدا اُنہیں اُن کی التجائیں پہلی یا دوسری مرتبہ مانگنے پر نہیں بخشتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ٹھیک ہے، شاید یہ خُدا کی مرضی نہیں ہوتی ہے۔‘‘
     ایک اصول کے طور پر، یہ تابع ہونا نہیں ہوتا بلکہ روحانی کاہلی ہوتی ہے… جب ایک چارہ جو [کام کرنے والا] مضبوط مرد یا عورت ایک کام کو پورا کرنا شروع کرتا ہے اور اُس کو پہلی مرتبہ میں یا دوسری میں یا سوویں مرتبہ میں پورا نہیں کر پاتا، وہ مرد یا عورت جِدوجہد کرنا جاری رکھتا ہے جب تک کہ کام کو پورا کر نہیں لیتا۔ دعا مانگنے میں مضبوط لوگ دعا مانگنا جاری رکھتے جب تک کہ اِس کو پوری طرح سے مانگ نہیں لیتا اور جو کچھ وہ تلاش کر رہا ہوتا ہے اُس کو پا نہیں لیتا… جب ہم ایک بات کے لیے دعا مانگنا شروع کر دیتے ہیں، تو ہمیں اِس کے لیے دعا مانگنا کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے جب تک کہ ہم اِس کو پا نہیں لیتے (آر۔ اے۔ ٹورے، ڈی۔ ڈی۔ R. A. Torrey, D.D.، دعا کیسے مانگنی چاہیے How to Pray، وائٹیکر ہاؤس Whitaker House، 1983، صفحات50، 51)۔

لیکن اِس کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ آپ کی دعا کا کبھی بھی جواب نہیں ملے گا اگر آپ کا خُدا کے ساتھ دِل ٹھیک نہیں ہے۔ جنوری کی ابتدا میں اپنے خاندان کو میں میکسیکو میں کینکن میں چھُٹیاں گزارنے کے لیے لے گیا۔ ایک دِن، جب وہ مایائی لوگوں کے کھنڈرات کو دیکھنے کے لیے گئے، میں تنہا ہی ٹھہر گیا۔ میں نے 1949 سے 1952 میں لوئیس کے جزیرے Isle of Lewis پر حیاتِ نو کے بارے میں ایک کتاب کو پڑھا۔ میں نے دعا مانگی اور ایک واعظ لکھ ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو میں نے اعلان کیا کہ ہم ہر رات کو انجیلی بشارت کا پرچار کرنے کے لیے اِجلاس قائم کیا کریں گے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اِس میں خُدا تھا۔ اِس کا آغاز ڈاکٹر کیگن سے ہوا جنہوں نے اپنی 89 سالہ والدہ کی رہنمائی مسیح تک کی۔ وہ ایک حقیقی معجزہ تھا کیونکہ وہ کئی سالوں سے ایک سخت جاں دہریہ [مُنکرِ خُدا] رہ چکی تھیں۔ پھر 86 برس کی عمر میں – اُمید کی بھرپوری کے ساتھ ڈاکٹر کیگن کی ساس صاحبہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئیں۔ شماریات سے ہم جانتے ہیں کہ ستر سال سے زیادہ عمر کے لوگوں میں مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا تقریباً کبھی بھی رونما نہیں ہوتا۔ یہاں، چند ایک ہی دِنوں میں، اسی سال کے آخر میں دو خواتین نے نجات پائی تھی۔ شاندار! پھر، ایک ایک کر کے، اُمید کی بھرپوری کے ساتھ 11 نوجوان لوگوں نے نجات پائی۔ پھر چند ایک دِن بعد، اُمید سے بھرپور ایک اور ہستی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئی۔ چند ایک ہی دِنوں میں 14 لوگوں نے نجات پائی۔

لیکن پھر میں نے رومیوں 12:1 اور 2 پڑھا اور اُن پر اِس کا اِطلاق کیا جنہوں نے سالوں پہلے گرجہ گھر میں نجات پائی تھی۔

’’پس اَے بھائیو! میں خدا کی رحمتوں کا واسطہ دے کر تُم سے منت کرتا ہُوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لیے پیش کرو جو زندہ ہے، پاک ہے اور خدا کو پسند ہے۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔ اِس جہاں کے ہمشکل نہ بنو بلکہ خدا کو موقع دو کہ وہ تمہاری عقل کو نیا بنا کر تمہیں سراسر بدل ڈالے تاکہ تُم اپنے تجربہ سے خدا کی نیک، پسندیدہ اور کامل مرضی کو معلوم کر سکو‘‘ (رومیوں 12:1،2).

جب آپ اتنے عرصے تک منادی کر چکے ہوں جتنا عرصہ میں کر چکا ہوں تو آپ مذھبی جماعت کے ردعمل کو محسوس کرنا سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ جو میں نے محسوس کیا وہ اچھا نہیں تھا۔ میں نے نوجوان لوگوں کو اپنے جبڑے سختی سے بھینچتے ہوئے اور فرش پر نظریں جمائے ہوئے دیکھا۔ میں نے مسیح کے بارے میں بغاوت اور گہری مزاحمت کو محسوس کیا، جیسے کہ وہ کبھی بھی خود کو اُس یسوع کے سپرد نہیں کریں گے۔ اِس نے میرے دِل میں ایک سرد سا دھچکا پہنچایا۔ میں نے محسوس کیا جیسے کہ اُنہیں دوبارہ سے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے کی ضرورت تھی۔ یہ وہ معاملہ ہوتا ہے جب لوگ اِس دُنیا کی باتوں کو اپنے دِلوں میں مسیح کی جگہ پر آنے دیتے ہیں۔ دِل تقریباً اتنا ہی سخت ہو جاتا ہے جتنا وہ مسیح میں ایمان لانے کی ابتدائی تبدیلی کے وقت تھا۔ دِل کو دوبارہ سے ٹوٹنا چاہیے اور نئے سرے سے مسیح کے آگے گھٹنے ٹیکنے چاہیے۔

بغاوت اُن کے دِلوں پر حکومت کرتی ہے جو مسیح کے آگے بار بار گھٹنے ٹیکنے سے انکار کرتے ہیں۔ یسوع نے کہا اپنی صلیب اُٹھا ’’روزانہ‘‘ اور میرے پیچھے آ۔‘‘ مسیح کے آگے ’’روزانہ‘‘ گھٹنوں کا ٹیکا جانا ہونا چاہیے، ورنہ ہمارے دِل سرد پڑ جائیں گے اور ضدی ہو جائیں گے۔ یہ بات سوچنی غلط ہے، ’’میں اب نجات پا چکا ہوں۔ مجھے اب مسیح کے لیے اپنی زندگی حوالے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ یہ اُس بات سے کس قدر مختلف ہے جو پولوس رسول نے کہی تھی، ’’پس اَے بھائیو! میں خدا کی رحمتوں کا واسطہ دے کر تُم سے منّت کرتا ہُوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لیے پیش کرو جو زندہ ہے، پاک ہے اور خدا کو پسند ہے۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔ اِس جہاں کے ہمشکل نہ بنو بلکہ خدا کو موقع دو کہ وہ تمہاری عقل کو نیا بنا کر تمہیں سراسر بدل ڈالے تاکہ تُم اپنے تجربہ سے خدا کی نیک، پسندیدہ اور کامل مرضی کو معلوم کر سکو‘‘ (رومیوں12:1، 2)۔ خُدا کی مرضی کو جاننے کے لیے آپ کو خُدا کے حضور میں خود کو ایک جیتی جاگتی قربانی کی حیثیت سے حوالے کرنا چاہیے اور اِس جہاں کے ہمشکل نہیں بننا چاہیے۔

وہ دِل جو ایک ’’جیتی جاگتی قربانی‘‘ کی حیثیت سے مسیح کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتا منقسم دِل ہو جائے گا۔ بائبل کہتی ہے، ’’ایسا شخص یہ نہ سمجھے کہ اُسے خُدا سے کچھ ملے گا‘‘ (یعقوب1:7)۔ یسوع نے کہا، ’’اگر کوئی میری پیروی کرنا چاہیے تو خود انکاری کرے اور روزانہ اپنی صلیب خود اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے‘‘ (لوقا9:23)۔ یسوع آپ کو خود انکاری کے لیے بُلا رہا ہے۔ وہ آپ کو اُس کی پیروی کرنے کے لیے بُلا رہا ہے۔ اوہ، اپنی زندگی میں کتنی مرتبہ میں اپنی نجات کی مسرت کو کھو چکا ہوں کیونکہ میں خود انکاری کرنے اور یسوع کی پیروی کرنے کے لیے رضامند نہیں تھا! لیکن، اوہ، کس طرح سے خُداوند کی خوشی وقت در وقت، واپس آتی ہے، جیسے ہی میں خود کو ایک جیتی جاگتی قربانی کی حیثیت سے یسوع کے سامنے پیش کرتا ہوں! میں آج کی رات دعا مانگ رہا ہوں کہ آپ بھی ایسا ہی کریں گے۔ مجھے اُس گیت سے محبت ہے جسے مسٹر گریفتھ تقریباً میری تمام زندگی میں گا چکے ہیں۔ ایک تنہا، پریشان نوعمر بالغ کی حیثیت سے میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے جب بھی میں وہ الفاظ گاتا تھا،

اوہ فضل کے لیے میں کتنا بڑا مقروض ہوں
   روزانہ میں مجبوری کے تحت ہو جاتا ہوں!
اپنی بھلائی کو ایک کڑی کی مانند بن جانے دے،
   جو میرے آوارہ گرد دِل کو تیرے ساتھ جوڑ دے۔
بھٹکنے کے لیے اوندھے مُنہ گِرا، اے خُداوند، میں یہ محسوس کرتا ہوں،
   جس خُدا سے محبت کرتا ہوں اُسے چھوڑنے کے لیے اوندھے مُنہ گرا؛
یہاں ہے میرا دِل، اے خُدایا اِس کو لے لے اور مہربند کر ڈال؛
   عالم بالا پر اپنی عدالتوں میں اِس کو مہربند کر ڈال۔
(آؤ، اُس چشمہ پر Come, Thou Fount‘‘ شاعر رابرٹ روبن سن
      Robert Robinson، 1735۔1790)۔

کیا آج کی رات یہاں پر کچھ لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہیں کہ آپ کو نئے سرے سے خود انکاری کرنی چاہیے – اور اپنی صلیب اُٹھانی چاہیے اور نئے سرے سے یسوع کی پیروی کرنی چاہیے؟ کیا آپ میں سے کچھ ہیں جنہیں ’’اپنے بدن حوالے کر دینے چاہیے‘‘ خُداوند کے لیے ’’جیتی جاگتی قربانیوں‘‘ کی حیثیت سے؟ اگر خُداوند آپ سے اِس طرح سے بات کر رہا ہے، تو ایک لمحے میں، میں آپ سے اپنی نشست چھوڑنے اور یہاں اجتماع گاہ کے سامنے دوزانو ہونے کے لیے کہنے والا ہوں ۔ آئیں اور نئے سرے سے اپنی زندگی کو وقف کریں، یسوع کے لیے ایک جیتی جاگتی قربانی کی حیثیت سے، جس نے آپ کو نجات دلانے کے لیے قربانی دی۔ یہاں نیچے آئیں اور اپنی زندگی اور دِل کو نئے سرے سے اور تروتازہ یسوع کے حوالے کریں۔ آئیں اور آپ کے معاف کرنے کے لیے یسوع سے پوچھیں، اور اُس کے آگے اپنی فرمانبرداری کو نئے سرے سے بنانے کے لیے پوچھیں۔ جب ہم اکٹھے کھڑے ہوں تو آپ آئیں اور یہاں پر دوزانو ہوں، اور دعا مانگیں۔ جب کہ مسٹر گریفتھ حمدوثنا کے اُس گیت کو مدھم طور سے گاتے ہیں، آپ آئیں۔

آ، ہر برکت کے تیرے چشمے،
   میرے دِل کو تیرا فضل گانے کے لیے سُر میں کر؛
رحم کی دھاریں، کبھی بھی بند نہ ہوں،
   بُلند ترین ستائش کے گیتوں کے لیے بُلا۔
مجھے کچھ سُریلی رُبائیاں سیکھا دے،
   عالم بالا پر شعلہ فشاں زبانوں کی گائیں ہوئی؛
سواری کی ستائش ہو – میں اِس پر ٹِکا ہوا ہوں –
   تیری مخلصی بخشنے والی سواری۔

یہاں پر میں اپنا ابنِ عزر بُلند کرتا ہوں،
   میں اِدھر تیری مدد کے وسیلے سے آتا ہوں؛
اور میں اُمید کرتا ہوں، تیری اچھی خوشی کے وسیلے سے،
   گھر حفاظت سے پہنچ جاتا ہوں۔
یسوع نے مجھے ڈھونڈا جب ایک اجنبی،
   خُدا کے ریوڑ سے بھٹک گیا تھا؛
اُس نے مجھے خطرے سے بچانے کے لیے،
   اپنے قیمتی خون سے مداخلت کی۔

اوہ فضل کے لیے میں کتنا بڑا مقروض ہوں
   روزانہ میں مجبوری کے تحت ہو جاتا ہوں!
اپنی بھلائی کو ایک کڑی کی مانند بن جانے دے،
   جو میرے آوارہ گرد دِل کو تیرے ساتھ جوڑ دے۔
بھٹکنے کے لیے اوندھے مُنہ گِرا، اے خُداوند، میں یہ محسوس کرتا ہوں،
   جس خُدا سے محبت کرتا ہوں اُسے چھوڑنے کے لیے اوندھے مُنہ گرا؛
یہاں ہے میرا دِل، اے خُدایا اِس کو لے لے اور مہربند کر ڈال؛
   عالم بالا پر اپنی عدالتوں میں اِس کو مہربند کر ڈال۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلامِ پاک کی تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: یعقوب4:1۔10 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجیمن کنکیتھ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’آؤ، اُس چشمہ پر Come, Thou Fount‘‘ (شاعر رابرٹ روبن سن Robert Robinson، 1735۔1790)۔