Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


مسیح جس کا خُدا نے ساتھ چھوڑ دیا!

THE GOD-FORSAKEN CHRIST!
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 24 جنوری، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, January 24, 2016

’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی27:46)۔

جب میں اِتوار کی صبح منادی کرتا ہوں تو میں اکثر نوجوان لوگوں سے بات کرتا ہوں۔ میں ایسا اِس لیے کرتا ہوں کہ یہاں پر اِتوار کی صبح ہمارے گرجہ گھر میں ہمیشہ بے شمار لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے کبھی بھی خوشخبری کی منادی کو واضح طور سے نہیں سُنا ہوتا۔ ہم بازاروں میں، کالجوں میں اور دوسری جگہوں پر جہاں نوجوان لوگ اکھٹے ہوتے ہیں جا چکے ہیں، اور ہم آپ کو بھی آنے کی دعوت دے چکے ہیں۔ اور آپ آئے ضرور، اور میں شکر گزار ہوں کہ آپ آئے۔ آپ کے آنے کا شکریہ۔

مگر ایک دوسری وجہ ہے کہ میں ہر اِتوار کی صبح نوجوان لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں۔ دوسری وجہ ہے کیونکہ وہ جو بزرگ ہیں اُن کے مقابلے میں تیس سال سے کم عمر کے نوجوان لوگوں کے لیے نجات کا تجربہ کرنے کا اِمکان زیادہ ہے۔ ہر مطالعہ اور رائے شماری جو میں پڑھ چکا ہوں ہمیں یہی بات بتاتا ہے۔ اور خود میرا تجربہ بھی اِس بات کی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر ایک شخص کو نجات دی جا رہی ہے تو یہ عام طور پر تقریباً سولہ اور پچیس برس کی عمروں کی درمیان رونما ہوتا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ کچھ مُستثنیٰ ہیں، لیکن وہ لوگ اتنے زیادہ نہیں ہیں۔

ہم اِس بات کی وضاحت کیسے کر سکتے ہیں؟ وضاحتوں میں سے ایک یہ ہے کہ نوجوان لوگوں کو ابھی احساس ہونا شروع ہوا ہے کہ زندگی سخت اور دشوارگزار ہے۔ آپ کو ابھی ہی احساس ہونا شروع ہوا ہے کہ آپ فانی ہیں، کہ آپ مر جائیں گے۔ اور آپ نے ابھی دیکھنا شروع کیا ہے کہ دُنیا ایک خوفزدہ کر دینے والی اور اکثر تنہا جگہ ہے۔ آپ نے ابھی تک خبطی سرگرمی اور قِسم قِسم کی بھٹکا دینے والی باتوں کے ساتھ اپنے خوفوں کو ڈھانپنا نہیں سیکھا۔

ایک بالغ کی حیثیت سے نوجوان لوگ زندگی کے بالکل آغاز ہی میں ہوتے ہیں، اور آپ میں سے بے شمار خود ہی سے پوچھ رہے ہوتے ہیں، ’’میں کیسے اِس قدر سرد مہر، ناچاہنے والی اور تنہا دُنیا میں زندگی بسر کر سکتا ہوں؟‘‘ اور یوں، میں بار بار تنہائی کے مرکزی موضوع کی جانب واپس آ جاتا ہوں۔ اوہ، میں بخوبی جانتا ہوں کہ تنہائی کا مرکزی موضوع ہر ایک نوجوان شخص کے لیے کشش نہیں رکھتا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بے شمار پہلے ہی سے سیکھ چکے ہیں کہ کیسے خبطی سرگرمی کی بے شمار چالاکیوں اور بھٹکا دینے والی باتوں کو تنہائی کے بارے میں نہ سوچنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ جو اُن چالاکیوں کو سیکھ چکے ہیں میرے واعظوں پر توجہ نہیں دیں گے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ کہیں نہ کہیں یہاں وہاں ایک خاموش لڑکا ہے اور ایک غوروفکر کرنے والی لڑکی ہے جو گھر جا کر کہیں گے، ’’آج وہ بوڑھا شخص مجھ سے بات کر رہا تھا۔ بہتر ہے مجھے دوبارہ واپس جانا چاہیے اور اُس کو منادی کرتے ہوئے دوبارہ سُننا چاہیے۔‘‘

اور وہ یہی غوروفکر کرنے والا مرد اور عورت ہیں جن سے میں آج کی صبح بات کر رہا ہوں۔ میرا مرکزی موضوع تنہائی ہے – سرد، سخت، خوفزدہ کر دینے والی، دِل توڑ دینے والی تنہائی۔ اِس کا کبھی بھی اِس قدر بہتر طریقے سے اظہار نہیں کیا گیا، اور اِس کو کبھی بھی اِس قدر مکمل طور سے محسوس نہیں کیا گیا جب مسیح صلیب پر سے چلایا تھا،

’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی27:46)۔

اس کو اپنے ذہن میں تصور کریں۔ اُنہوں نے جب وہ گتسمنی کے باغ میں تنہا دعا مانگ رہا تھا تب گرفتار کیا۔ اُنہوں نے اُس کا لباس کھینچ کر اُتارا اور ادھ موا ہونے تک پیٹا۔ اُنہوں نےاُس کے سر پر کانٹوں کا ایک تاج کھبویا۔ اُنہوں نے اُس کا تمسخر اُڑایا اور ٹھٹھے مارے جب وہ سڑکوں پر سے صلیب گھسیٹ کر لے جا رہا تھا۔ اُس کا بدن وہاں پر لٹکا ہوا تھا اور وہ اُس پر چیخ چیخ کر حقارت بھرے فقرے کس رہے تھے۔ بالاآخر، وہ پکار اُٹھا،

’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی27:46)۔

اُس چیخ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے، ہمیں دو سوالوں کے جواب دینے چاہیے۔

 پہلا، یہ شخص یسوع کون تھا؟

وہ ایک عام انسان تھا۔ بائبل کہتی ہے کہ خُدا نے ’’اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا‘‘ (یوحنا3:16)۔ یہ شخص جو چلایا تھا خُدا کا واحد اِکلوتا بیٹا تھا۔ اِس کے علاوہ اِس بارے میں اُس نے بتایا

’’وہ جلال جس میں دُنیا کے پیدا ہونے سے پہلے میں تیرا [خُدا باپ کا] شریک تھا‘‘ (یوحنا17:5)۔

یہ شخص جو صلیب پر سے چلایا تھا یسوع مسیح تھا، دائمی تثلیث کی دوسری ہستی۔ اِس قدر وہ خُدا باپ کے ساتھ متحد تھا کہ اُس نے کہا،

’’میں اور میرا باپ ایک ہیں‘‘ (یوحنا10:30)۔

خُدا باپ کا اور یسوع مسیح اُس بیٹے کا اِتحاد ہمیشہ سے ہمیشہ تک قائم دائمیت سے لیکر ہمیشہ سے ہمیشہ تک قائم رہنے والی ابدیت سے ہے۔ وہ خُدا کا کلام ہے۔

’’ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ہی خدا تھا۔ کلام شروع میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے پیدا کی گئیں اور کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اُس کے بغیر وجود میں آئی ہو‘‘ (یوحنا1:1۔3).

’’اور کلام مجسّم ہُوا اور ہمارے درمیان خیمہ زن ہُوا‘‘ (یوحنا 1:14).

یسوع آسمان سے نیچے آیا تھا۔ یسوع، جو تثلیث کی دوسری ہستی ہے، زمین پر رہا۔ مگر وہ اپنی تمام زمینی زندگی میں خُدا باپ کےساتھ متحد رہا۔ یہاں تک کہ تاریک گتسمنی میں، جب شاگرد سو چکے تھے، یسوع نے دعا مانگی اور خُدا اپنے باپ کے ساتھ رفاقت میں تھا۔ یہاں تک کہ جب اُس کو گرفتار کیا گیا اور جھوٹا مقدمہ چلایا گیا، خُدا اُس کے نزدیک تھا۔ اور جب اُنہوں نے اُس کو کوڑے مارے اور اُسے مصلوب کیا، وہ تب ہی خُدا کی جانب مُڑا تھا اور دعا مانگی تھی،

’’اَے باپ! اِنہیں معاف کر کیونکہ یہ نہیں جانتے کہ کیا کر رہے ہیں‘‘ (لوقا 23:34).

مگر اب سب کچھ تاریک تھا۔

’’لیکن اب بارہ بجے سے لے کر تین بجے تک سارے ملک میں اندھیرا چھایا رہا اور تین بجے کے قریب یسوع بڑی اونچی آواز سے چلایا، ایلی، ایلی، لما شبقتنی؟ جس کا مطلب ہے، اَے میرے خدا، اَے میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27:45۔46).

وہ تاریکی جو زمین پر اُس ہولناک وقت میں پڑی تھی اُس تاریکی کی تصویر تھی کہ جس نے پہلی مرتبہ خُدا بیٹے کو خُدا باپ سے جُدا کر دیا تھا۔ اِس سے پہلے کبھی بھی خُدا بیٹا اپنے آسمانی باپ سے جُدا نہیں ہوا تھا، لیکن اب ایسا ہوا تھا۔ اور اُس تاریک وقت میں وہ پکار اُٹھا تھا،

’’اَے میرے خدا، اَے میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27:46).

یہ شخص کون ہے؟ وہ یسوع ہے، ابدیت تک رہنے والا خُدا کا بیٹا – دائمیت میں بالکل پہلی مرتبہ اپنے آسمانی باپ سے مکمل طور پر علیحدہ۔

II۔  دوسرا، وہ کیوں پُکار اُٹھا تھا؟

اِس کی سادہ طریقے سے آپ کے لیے تشریح کرنے میں مجھے سخت دشواری ہو رہی ہے۔ تعجب کی کوئی بات نہیں! مسیح کے لیے الفاظ واقعی میں وضاحت سے پرے ہیں۔ سپرجیئن Spurgeon کو بھی یہی دشواری ہوئی تھی۔ اُس نے اِن الفاظ کے بارے میں کہا کہ کوئی بھی اُنہیں مکمل طور سے سمجھ نہیں سکتا۔ سپرجیئن نے کہا،

مارٹن لوتھر [جو مذھبی سُدھار کے عظیم رہنما ہیں] نے خود اپنے آپ کو اِس تلاوت پر غور و فکر کرنے کے لیے اپنی مطالعہ گاہ میں بند کر لیا تھا۔ گھنٹوں خُدا کا یہ قوی بندہ ساکت بیٹھا رہا؛ اور وہ جو اُس کا انتظار کر رہے تھے کمرے میں بارہا آئے، اور وہ اپنے دھیان میں اِس قدر کھو چکا تھا کہ اُنہوں نے تقریباً سوچ ہی لیا تھا کہ یہ ایک لاش ہے۔ نا ہی تو اُس نے ہاتھ ہلایا نہ پاؤں، اور نہ ہی کچھ کھایا یا پیا؛ مگر اپنی آنکھیں پوری طرح سے کُھلے ہوئے، جیسے سحر میں جکڑا ہوا ہو، اِن تعجب انگیز الفاظ پر سوچتا رہا تھا، ’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ اور جب، بے شمار طویل گھنٹوں کے بعد، جن میں وہ اپنے اِردگرد ہونے والی ہر ایک بات سے بے نیاز تھا، وہ اپنی کُرسی سے اُٹھا، کسی نے اُس کو کہتے ہوئے سُنا، ’’خُدا، خُدا کو چھوڑ رہا ہے! کوئی بھی اُس بات کو سمجھ نہیں پایا؛‘‘ اور اِسی طرح وہ اپنی راہ ہو لیا۔ حالانکہ استعمال کرنے کے لیے وہ مشکل سے ہی دُرست اظہار ہے – میں اِس کی حمایت کرنے میں ہچکچاؤں گا – اِس کے باوجود میں اُس بات پر حیران نہیں ہوتا کہ ہماری تلاوت نے اُس رات لوتھر کے ذہن پر خود کو یوں ظاہر کیا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لوتھر ایک ایسے شخص کی مانند لگ رہا تھا جو ایک گہری کان میں نیچے رہتا رہا ہو، اور جو روشنی میں دوبارہ اوپر آیا تھا۔ میں نے اُس شخص کی مانند زیادہ محسوس کیا تھا جو نیچے کان میں نہ رہا ہو، بلکہ جس نے اُس میں جھانکا ہو – یا اُس شخص کی مانند جو نیچے جانے والے راستے کا حصّہ رہا ہو، اور تھرتھرا گیا ہوجب وہ ملگجی تاریکی میں سے گزرا تھا، مگر جو اِس چیخ [’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا تو نے مجھے کیوں چھور دیا؟‘‘] کی وجہ سے مذید اور نیچے جانے کی جرأت نہ کر پایا ہو کیونکہ یہ انتہائی شدید گہری ہے؛ کوئی بھی شخص اِس کی گہرائی کو کبھی بھی ناپنے کے قابل نہیں ہو پائے گا۔ اِس لیے میں اِس کو سمجھانے کی کوشش نہیں کروں گا (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ’’صلیب پر سے غمگین ترین چیخ The Saddest Cry From the Cross،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگِرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، 1977، جلد اڑتالیسویں Volume XLVIII، صفحات 517۔518)۔

میں لوتھر اور سپرجیئن کے ساتھ متفق ہوں کہ ہم مکمل طور سے سمجھ نہیں سکتے کیسے خُدا باپ خُدا بیٹے کو ’’چھوڑ سکتا‘‘ ہے۔ میں اِن الفاظ کو سمجھانے کی کوشش نہیں کروں گا، مگر سادگی سے اُن کے بارے میں چند ایک خیالات کا اظہار پیش کروں گا۔

یہاں پر مسیح ایک انسان کی حیثیت سے بات کر رہا ہے۔ وہ مکمل طور پر خُدا ہے، مگر وہ مکمل طور پر انسان بھی ہے۔ یہ کسی تصوراتی وجود کی ایک حقیقی وجود کی حیثیت سے تاویلی [ایک ہائیپوسٹیٹک hypostatic] ملاپ ہے، اور مسیح وہ خُدائی انسان ہے۔ لیکن یہاں پر وہ ایک انسان کی حیثیت سے بات کر رہا ہے۔ صرف ایک حقیقی شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ [یسوع] اپنے خُدا کی طرف سے چھوڑا جا چکا تھا۔

مسیح کو خُدا کی طرف سے چھوڑا جا چکا تھا کیونکہ وہ خُدا کی طرف سے چھوڑے جا چکنے کا ہی مستحق تھا۔ وہاں صلیب پر مسیح نے ہماری جگہ لی تھی، اور ہمارے گناہوں کی خاطر دُکھ اُٹھائے تھے۔

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے‘‘ (اشعیا 53:4).

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے‘‘ (اشعیا 53:4).

ہمارے پہلے والدین کے گناہ کی وجہ سے، جو ہم سب میں منتقل ہو گیا، ہم خُدا سے کٹے ہوئے پیدا ہوئے اور بڑھے، اور تنہا رہے؛ اپنی زندگیوں کو تنہائی میں گزارتے رہے، خُدا سے کٹے ہوئے، اُس کی جانب سے الگ کیے ہوئے، ہماری گنہگار فطرت کی وجہ سے اور ہمارے اصلی گناہوں کی وجہ سے۔

’’اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں اور خدا کی دی ہُوئی زندگی میں اُن کا کوئی حِصہ نہیں‘‘ (افسیوں 4:18).

کیا آپ نے کبھی بھی سوچا کہ کوئی خُدا بھی ہونا چاہیے؟ کیا آپ نے کبھی تعجب کیا کہ کیوں خُدا آپ کے لیے حقیقی نہیں تھا؟ تو جواب یہاں پر ہے، بائبل میں سے – خُدا آپ کے لیے حقیقی نہیں ہے کیونکہ آپ کی دل کی ’’جہالت‘‘ کے باعث، آپ کی روحانی سمجھ ’’سخت ہو چکی‘‘ ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ ’’خُدا کی زندگی سے الگ‘‘ ہو چکے ہیں۔ یونانی فعلverb کا صحیح زمانہ اِس کی مسلسل حالت پر زور دیتا ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ کبھی خُدا کو جانتے تھے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی بھی خُدا کو پہچانا ہی نہیں، اور ابھی بھی اُس کو نہیں پہچانتے۔ آپ بیگانگی کی ایک مسلسل حالت میں ہیں، خُدا سے مسلسل کٹے ہوئے ’’[اپنے] دِل کی جہالت کی وجہ سے‘‘ (حوالہ دیکھیں، ڈاکٹر فرٹسز رائینیکر Dr. Fritz Rienecker، یونانی نئے عہدنامے کے لیے زباندانی کی کُلید A Linguistic Key to the Greek New Testament، ژونڈروان Zondervan، 1980، صفحہ 533)۔

ایسوع مسیح صلیب پر آپ کو خُدا کے ساتھ ملانے کے لیے قربان ہوا تھ۔

’’اِس لیے کہ مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے گناہوں کے بدلہ میں ایک ہی بار دُکھ اُٹھایا تاکہ وہ تمہیں خدا تک پہنچائے‘‘ (1۔پطرس3:18).

مسیح صلیب پر ’’ہمیں خُدا کے پاس لانے کے لیے‘‘ قربان ہوا تھا، ہماری گنہگار فطرت کی وجہ سے اور ہمارے اصلی گناہوں کی وجہ سے ہماری علیحدگی کو دور کرنے کے لیے اور ہمیں خُدا کے ساتھ شراکت میں لانے کے لیے۔ اِس کام کو کرنے کے لیے مسیح کو صلیب پر ہمارے ’’غموں‘‘ کو برداشت کرنا تھا اور ہمارے ’’دُکھوں‘‘ کو اُٹھانا تھا۔

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے‘‘ (اشعیا 53:4).

مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے ایک گنہگار کی حیثیت سے، آپ دُنیا میں تنہا چھور دیے جاتے ہیں۔ آپ اِس کو محسوس کرتے ہیں۔ آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کہیں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے۔ نوجوان لوگ ہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ اپنی تنہائی کو سمجھنے کی صلاحیت کے عادی ہوتے ہیں، خُدا کا اُن کو چھوڑ دینا، ایک تاریک اور اکثر خوف ذدہ کر دینے والی دُنیا میں۔ اور یہی وجہ ہے کہ خُدا اِس قدر اکثر لوگوں کو اُن کی جوانی ہی میں مسیح میں ایمان دِلا کر تبدیل کر دیتا ہے۔ جب آپ کچھ عمر والے ہو جاتے ہیں تو آپ اِس خالی، تنہائی کے احساس کو منشیات میں، یا شراب نوشی میں، یا جنسی مُلاقاتوں میں، یا پیسے بنانے کے چکروں، ’’کامیابی‘‘ کو پانے کے لیے اپنے ’’کھیل کھیلنے کے منصوبوں‘‘ میں ڈبونا سیکھ جائیں گے۔ اور جب آپ خالی پن اور تنہائی سے فرار پانے کے لیے اِن ’’چالوں‘‘ میں سے ایک کو استعمال کرنا سیکھ چکے ہوتے ہیں، تو تب تک آپ کے نجات پانے کے لیے انتہائی تاخیر ہو چکی ہوتی ہے۔

’’اور چونکہ اُنہوں نے خدا کی پہچان پر قائم رہنا مناسب نہ سمجھا اِس لیے اُس نے اُنہیں ناپسندیدہ خیالوں اور نامناسب حرکات کا شکار ہونے دیا‘‘ (رومیوں 1:28).

لیکن آج کی صبح، جب کہ آپ ابھی جوان ہی ہیں، خُدا آپ سے بات کر رہا ہے۔ یہ آپ کی تنہائی کی احساس کے ذریعے سے ہے کہ خُدا آپ کو بُلاتا ہے، کہ خُدا آپ کے دِل سے بات کرتا ہے۔ تب پھر، یسوع کے اُن الفاظ کو جب وہ صلیب پر قربان ہوتا ہے، سُنیں،

’’اَے میرے خدا، اَے میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27:46).

یہ وہ الفاظ ہیں جو خصوسی طور پر ہمارے سے ہمکلام ہیں جب ہم ابھی نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ خُدا بیٹے نے خُدا باپ سے جُدائی کے دُکھ کو اُس خُدا کے ساتھ آپ کی علیحدگی کا کفارہ ادا کرنے کے لیے برداشت کیا۔ آپ خُدا سے بہت دور نکل چکے ہیں – اور مسیح نے آپ کے گناہ کے لیے کفارہ ادا کیا! آپ خُدا کے بارے میں بھول چکے تھے – اور مسیح نے آپ کے گناہ کے لیے کفارہ ادا کیا! آپ گرجہ گھر تو آئے، لیکن صرف الفاظ کو ’’مُنہ سے ادا‘‘ کیا، کبھی بھی خُدا کے بارے میں نہیں سوچا – اور مسیح نے آپ کے گناہ کے لیے کفارہ ادا کیا! مسیح نے صلیب پر آپ کی بے دینی کے کفارے کی ادائیگی کی! کس قدر ہولناک قیمت اُس نے چکائی!

اُنہوں نے اُس کے کپڑے نوچ پھینکے اور اُس کو مار مار کر ادھ مُوا کر دیا۔ اُنہوں نے اُس کے ہاتھوں اور پیروں کو کیلوں سے صلیب پر جڑ دیا۔ تاریکی چھا گئی۔ خُدا کا قہر اُس پر نیچے نازل ہوا،

’’پھر بھی یہ خداوند کی مرضی تھی کہ اُسے کُچلے؛ اُس نے اُسے غم سے آشنا کیا‘‘ (اشعیا 53:10).

خُدا نے مسیح کو آپ کے گناہوں کے لیے آپ کی جگہ پر متبادلیاتی طور سے سزا دی۔ اور یوں بالاآخر ساری سزاؤں میں سے بدترین تر سزا آتی ہے۔ خُدا اپنے بیٹے کو چھوڑ دیتا ہے اور تاریکی میں مُنہ موڑ لیتا ہے۔ اور مسیح جو بیٹا ہے صلیب پر تنہا آپ کے گناہ کو برداشت کرتا ہے۔

’’اَے میرے خدا، اَے میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27:46).

اُس حیران کُن اور ہولناک سوالیہ چیخ کا جواب مِلتا ہے، پطرس رسول کے ذریعے سے، جب اُس نے کہا،

’’مسیح نے بھی یعنی [اُس] راستباز نے ناراستوں [آپ] کے گناہوں کے بدلہ میں ایک ہی بار دُکھ اُٹھایا تاکہ وہ تمہیں خدا تک پہنچائے‘‘ (1۔ پطرس 3:18).

آپ نے خُدا کو چھوڑ دیا، اور یسوع نے خُدا کی طرف سے چھوڑ دیے جانے کے ذریعے سے آپ کے گناہ کی ادائیگی کی، خود اپنی ذات کے ذریعے سے – آپ کی جگہ پر، صلیب پر کیلوں سے جڑے ہوئے، تنہا، اور خُدا باپ سے جُدا ہو کر، جسے وہ اپنے تمام دِل و جان سے پیار کرتا تھا۔

ملعون صلیب پر برہنہ کیلوں سے ٹھُکا ہوا،
زمین اور اوپر آسمان پر دیکھا جا سکتا تھا،
زخموں اور خون کا ایک منظر تھا،
زخمی محبت کی ایک غمگین تصویر!

توجہ سے سُنیں اُس کی خوفزدہ چیخیں دھشت ذدہ کر دیتی ہیں
فرشتے بھی جب دیکھ رہے تھے تو زیر اثر آ گئے؛
اُس کے دوستوں نے اُس کو رات میں چھوڑ دیا،
اور اب اُس کا خُدا بھی اُس کو چھوڑ دیتا ہے!
   (’’اُس کے شدید دُکھ His Passion ‘‘ شاعر جوزف ہارٹ، 1712۔1768؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)۔

ہم نے مسیح کےالفاظ میں اسرار کے بارے میں تقریباً بہت ہی تھوڑا سوچا،

’’اَے میرے خدا، اَے میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی 27:46).

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا چاہیں گے۔ جب آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو آپ اُنہیں ضرور بتائیں کہ آپ کس مُلک سے لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای میل کو جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل لکھیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں اُس کا نام شامل کریں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: متی27:35۔46 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر جیک ناآن Mr. Jack Ngann نے گایا تھا:
’’اُس کے شدید دُکھ His Passion ‘‘
شاعر جوزف ہارٹ، 1712۔1768؛ پادری سے ترمیم کیا ہوا)۔)

لُبِ لُباب

مسیح جس کا خُدا نے ساتھ چھوڑ دیا!

THE GOD-FORSAKEN CHRIST!

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اے میرے خُدا، اے میرے خُدا، تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟‘‘ (متی27:46)۔

I.    پہلی بات، یہ شخص یسوع کون تھا؟ یوحنا3:16؛ 17:5؛ 10:30؛ 1:1۔3، 14؛
لوقا23:34؛ متی27:45۔46 .

II.   دوسری بات، وہ کیوں پکار اُٹھا تھا؟ اشعیا53:4؛ افسیوں4:18؛ 1پطرس3:18؛ رومیوں1:28؛ اشعیا53:10 .