Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


تقریباً نجات پا لی – لیکن مکمل طور پر گمراہ ہو گیا!

ALMOST SAVED – BUT ENTIRELY LOST!
(Urdu)

ڈاکٹر کرسٹوفر ایل کیگن کی جانب سے
by Dr. Christopher L. Cagan

لاس اینجلز کی پبتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
ہفتے کی شام، 16 جنوری، 2016
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, January 16, 2016

’’جس کے پاس بیٹا ہے اُس کے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس خدا کا بیٹا نہیں ہے اُس کے پاس زندگی بھی نہیں ہے‘‘ (1 یوحنا5: 12)۔

بائبل نسل انسانی کو دو گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ آپ کا تعلق ایک [گروہ] یا دوسرے سے ہے۔ پہلا گروہ وہ ہے جو خدا کے بیٹے یسوع مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں۔ ہماری تلاوت کہتی ہے، ’’جس کے پاس بیٹا ہے اُس کے پاس زندگی ہے۔‘‘ باقی سب دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے پاس زندگی نہیں ہے۔ ’’جس کے پاس خُدا کا بیٹا نہیں ہے اُس کے پاس زندگی نہیں ہے۔‘‘ درمیان میں کوئی نہیں ہے۔ آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ آپ کے پاس زندگی ہے یا آپ کے پاس نہیں۔

کلام پاک اس کو واضح کرتا ہے۔ یہ کہتا ہے، ’’جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے وہ ہمیشہ کی زندگی پاتا ہے: اور جو بیٹے کو رَد کرتا وہ زندگی سے محروم ہو کر خدا کے غضب میں مبتلا رہتا ہے‘‘ (یوحنا3: 36)۔ یونانی الفاظ ’’یقین کرنا‘‘جن کے ترجمہ کا مطلب ہے ’’یقین ہونا۔‘‘ یہ کوئی نظریاتی یا ذہنی عقیدہ نہیں ہے۔ یہ خود یسوع مسیح پر ایک ذاتی بھروسہ ہے۔ کچھ یسوع مسیح، خدا کے بیٹے پر یقین رکھتے ہیں، اور ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں۔ باقی ’’زندگی نہیں دیکھیں گے۔‘‘ خُدا کا غضب – ان پر – قائم رہتا ہے۔ آپ کے پاس زندگی ہے یا آپ کے پاس نہیں ہے۔

ہم نے بائبل سے براہ راست بیانات دیکھے ہیں جو دونوں گروہوں کو الگ کرتے ہیں۔ اور اس علیحدگی کو ان الفاظ میں دکھایا گیا ہے جو بائبل انسانیت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ مسیح نے کہا کہ اپنی دوسری آمد پر وہ ’’بھیڑوں کو اپنے داہنی طرف لیکن بکریوں کو بائیں طرف کھڑا کرے گا‘‘ (متی25: 33)۔ وہ بھیڑوں سے کہے گا، ’’آؤ، میرے باپ کے مبارک لوگو، بادشاہی کے وارث بنو‘‘ (متی25: 34)۔ بکریوں سے وہ کہے گا، ’’اے لعنتی لوگو، مجھ سے دور ہو جاؤ، ابدی آگ میں چلے جاؤ‘‘ (متی25: 41)۔ کوئی بھی بھیڑ اور بکری کا حصہ نہیں ہے۔ آپ مسیح کی بادشاہی میں جائیں گے، یا آپ ہمیشہ کی آگ میں جائیں گے۔

بائبل زندگی اور موت کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے گروہوں کی بات کرتی ہے۔ لوگوں کا ایک گروہ ’’قصوروں اور گناہوں میں مردہ‘‘ رہتا ہے (افسیوں2: 1)۔ دوسروں کو ’’جلدی‘‘ [زندہ کر دیا گیا ہے] (افسیوں2: 1، 5)۔ آپ یا تو مردہ ہیں یا زندہ ہیں۔ اور اگر آپ مر چکے ہیں تو آپ اپنے آپ کو زندہ نہیں کر سکتے! صرف خُدا ہی آپ کو مسیح کے ذریعے زندگی دے سکتا ہے۔ یسوع نے کہا کہ جو لوگ اس پر بھروسہ کرتے ہیں وہ ’’موت سے گزر کر زندگی میں چلے گئے‘‘ (یوحنا5: 24)۔ ایک بار پھر، 1 یوحنا کی کتاب کہتی ہے کہ جو لوگ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے ہیں وہ ’’موت سے گزر کر زندگی میں چلے گئے‘‘ (1 یوحنا3: 14)۔ آپ میں سے بعض کو زندگی دی گئی ہے۔ باقی آپ کے پاس صرف موت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی امکان نہیں ہے۔ زندگی – یا موت۔

دونوں گروہوں کی علیحدگی کو ان الفاظ میں دکھایا گیا ہے جو خدا نجات کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یسوع نے کہا، ’’اگر تم تبدیل ہو کر... تم آسمان کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوگے‘‘ (متی18: 3)۔ آپ [مسیح میں ایمان لا کر] تبدیل ہو گئے ہیں یا آپ نہیں ہوئے ہیں۔ بائبل کہتی ہے کہ نجات ایک نیا جنم ہے۔ مسیح نے ایک مذہبی آدمی سے کہا، ’’تمہیں دوبارہ پیدا ہونا چاہیے‘‘ (یوحنا3: 7)۔ کیا آپ اپنے آپ کو روحانی طور پر دوبارہ جنم دے سکتے ہیں؟ کیا آپ کے اندر ایسا کرنے کا جذبہ ہے؟ نہیں اور بائبل کہتی ہے، ’’اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ ایک نئی مخلوق ہے [ایک نئی تخلیق]‘‘ (II کرنتھیوں5: 17)۔ کیا آپ اپنے آپ کو ایک نئی تخلیق میں بدل سکتے ہیں؟ نہیں، آپ کو خدا کی ضرورت ہے کہ وہ آپ کے لیے ایسا کرے! صحیفہ کہتا ہے کہ خدا نے مسیحیوں کو ’’تاریکی کی قوت سے نجات دی ہے، اور اپنے پیارے بیٹے کی بادشاہی میں [منتقل کر دیا ہے]‘‘ (کلسیوں1: 13)۔ آپ یا تو تاریکی کی قوت کے تحت ہیں، یا آپ خدا کے بیٹے کی بادشاہی میں ہیں۔ آپ خود کو ایک سے دوسرے میں منتقل نہیں کر سکتے۔ ایسا صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔ آپ یا تو تاریکی میں ہیں یا آپ کا تعلق مسیح سے ہے۔ آپ ایک ہیں یا [پھر] دوسرے ہیں۔

’’جس کے پاس بیٹا ہے اُس کے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس خدا کا بیٹا نہیں ہے اُس کے پاس زندگی بھی نہیں ہے‘‘ (1 یوحنا5: 12)۔

دونوں گروہ مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے الگ ہو جائیں گے۔ نجات پانے والوں کے لیے، ’’خدا ان کی آنکھوں سے تمام آنسو پونچھ دے گا۔ اور اب کوئی موت نہیں ہو گی، نہ ماتم، نہ آہ و نالہ، نہ کوئی مزید درد ہو گا‘‘ (مکاشفہ21: 4)۔ لیکن گمراہ ہوئے لوگوں کا ’’آگ اور گندھک سے جلنے والی جھیل میں اپنا حصہ ہوگا: جو کہ دوسری موت ہے‘‘ (مکاشفہ21: 8)۔ ابراہیم نے جنت سے جہنم میں امیر آدمی سے بات کی، ’’ہمارے اور تمہارے درمیان ایک بہت بڑا گڑھا واقع ہے، تاکہ جو لوگ اُس پار تمہاری طرف جانا چاہیں، وہ نہ جا سکیں اور جو اِس پار ہماری طرف آنا چاہیں، نہ آ سکیں‘‘ (لوقا16: 26)۔ دونوں گروہ ہمیشہ کے لیے الگ ہو جائیں گے۔ موت کے بعد نجات پائے ہوؤں اور گمراہ ہوئے [لوگوں] کے درمیان جدائی لامحدود، ابدی اور ناقابل تغیر ہو جائے گی۔

کون سا گروہ بڑا ہے؟ کس میں زیادہ لوگ ہیں؟ زیادہ تر مسیح کے بغیر مر جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے اپنی جان کھو دیں گے۔ صرف چند ہی یسوع پر بھروسہ کریں گے اور نجات پا جائیں گے۔ مسیح نے کہا، ’’وہ دروازہ چوڑا اور وہ راستہ کُشادہ ہے جو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت سے ہیں‘‘ (متی7: 13)۔ پھر اُس نے کہا، ’’وہ درواہ تنگ اور وہ راستہ سُکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی7: 14)۔ مسیح نے پھر کہا، ’’بُلائےہوئے تو بہت ہیں، مگر چُنے ہوئے کم ہیں‘‘ (متی22: 14)۔ کسی نے یسوع سے پوچھا، ’’کیا تھوڑے سے لوگ ہی نجات پا سکیں گے؟‘‘ (لوقا13: 23)۔ اور مسیح نے اُسے جواب دیا، ’’بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا13: 24)۔ شاگردوں نے مسیح سے پوچھا، ’’پھر کون نجات پا سکتا ہے؟‘‘ (مرقس10: 26)۔ اور اُس نے جواب دیا، ’’انسانوں کے لیے یہ ناممکن ہے‘‘ (مرقس10:27)۔ تقریباً ہر کوئی گمراہ ہو جائے گا۔ صرف چند ہی بچیں گے – اور وہ خُدا کے معجزے سے۔

آج رات یہاں آپ میں سے بہت سے لوگ گمراہ ہیں۔ آپ نے یسوع مسیح پر بھروسہ نہیں کیا۔ آپ نے اپنے گناہوں کو اس کے خون سے معاف نہیں کیا ہے۔ آپ کو مسیح میں ایمان دِلا کر تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔ اگر آپ اب مر گئے تو جہنم میں جائیں گے۔ اگر آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، تو آپ اپنے گناہ اور مسیح کے لیے اپنی ضرورت کے لیے بیدار ہو سکتے ہیں۔ آپ خدا کو پکار سکتے ہیں کہ وہ آپ کو مسیح کی طرف کھینچ لے۔ آپ نجات میں داخل ہونے کے لیے کوشش اور جدوجہد شروع کر سکتے ہیں (حوالہ دیکھیں، لوقا13: 24)۔ آپ اپنے منہ سے تسلیم کرتے ہیں کہ آپ گمراہ ہو چکے ہیں۔ لیکن آپ اپنے دل میں اپنے آپ کو ایک گمراہ ہوئے، بے بس گنہگار، خُدا کے سامنے قصوروار، ’’کوئی اُمید نہیں رکھے ہوئے، اور دنیا میں خُدا کے بغیر‘‘ (افسیوں2: 12) نہیں سمجھتے۔ وہ ہی سچ ہے۔ لیکن آپ اس طرح سے سوچنا اور محسوس کرنا نہیں چاہتے۔ یہ ناخوشگوار اور منفی ہوگا۔ اس سے آپ کو برا لگے گا۔ تو آپ سچائی سے بچنے کے لیے اپنے بارے میں کسی اور طریقے سے سوچتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو داخل کروانے کے لئے ایک گروہ ایجاد کرتے ہیں۔

آپ میں سے کچھ چند ہفتوں، یا مہینوں، یا زیادہ عرصے سے گِرجا گھر آ رہے ہیں۔ آپ اپنے بارے میں سوچنے کا ایک طریقہ ایجاد کرتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ نجات کے راستے پر ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ جزوی طور پر مسیحی ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ آپ ’’یسوع پر بھروسہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،‘‘ یا ’’تقریباً ایک مسیحی‘‘ ہیں، یا ’’مسیح کے بارے میں سیکھ رہے ہیں،‘‘ یا ’’کسی دن مسیحی بننے جا رہے ہیں۔‘‘ آپ گِرجا گھر آتے ہیں – اور اِس سب کے بعد، آپ آتے رہنا جاری ہی نہیں رکھتے۔ آخرکار، بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو گِرجا گھر نہیں جاتے۔ آپ وہ تمام گناہ نہیں کرتے جو دوسرے کرتے ہیں۔ آپ بائبل پڑھتے ہیں۔ آپ نے مسیحی نظریے کے بارے میں سیکھا ہے۔ آپ کے گرجا گھر میں دوست ہیں۔ آپ گھل مِل جاتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ مسیحی بننا چاہیں گے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ ان دنوں میں سے ایک دن یسوع پر ضرور بھروسہ کریں گے، حالانکہ مسیح نے کہا کہ صرف ’’چند‘‘ ہی ایسا کریں گے۔ لیکن اس طرح آپ اپنے بارے میں سوچتے ہیں – اور آپ اسی طرح اپنی زندگی بسر کرتے رہ سکتے ہیں۔

بس ایک مسئلہ ہے۔ خدا نہیں سوچتا کہ ’’تقریباً مسیحی‘‘ جیسی کوئی بات ہے۔ اگر آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے ہیں، تو خُدا آپ کو گمراہ ہویا ہوا سمجھتا ہے۔ آپ جو بھی سوچتے ہیں، خدا جانتا ہے کہ آپ کے گناہ معاف نہیں کیے گئے ہیں۔ خُدا آپ کے گناہ سے ناراض ہے، کیونکہ وہ ’’ہر روز شریروں سے ناراض رہتا ہے‘‘ (زبور7: 11)۔ ’’[آپ] خدا کے غضب میں مبتلا رہتے ہیں‘‘ (یوحنا3: 36)۔ خدا جانتا ہے کہ آپ ’’نافرمانی کے بچوں‘‘ میں سے ایک ہیں، ’’غضب کے بچوں‘‘ میں سے ایک ہیں (افسیوں2: 2، 3)۔ خدا جانتا ہے کہ آپ اس کے دشمن ہیں (حوالہ دیکھیں رومیوں5: 10؛ 8: 7)۔ خدا صحیح ہے اور آپ غلط ہیں۔

ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو آپ کو لگتا ہے کہ آپ ہیں! بائبل کہتی ہے، ’’دِل سب چیزوں سے بڑھ کر حیلہ باز اور لا علاج ہوتا ہے‘‘ (یرمیاہ 17: 9)۔ تم نے اپنے آپ کو دھوکہ دیا ہے! خدا جانتا ہے کہ ’’مسیحی بننے کے راستے پر‘‘ یا ’’مسیحی بننا سیکھنا‘‘ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ خُدا جانتا ہے کہ نجات پائے ہوئے لوگ اور گمراہ ہوئے ہووے لوگ ہیں – اور کچھ نہیں! بیچ میں کچھ نہیں! کوئی ’’ادھورا مسیحی‘‘ نہیں! آپ بالکل بھی مسیحی نہیں ہیں!

’’جس کے پاس بیٹا ہے اُس کے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس خدا کا بیٹا نہیں ہے اُس کے پاس زندگی بھی نہیں ہے‘‘ (1 یوحنا5: 12)۔

بائبل نام نہاد ’’برائے نام مسیحیوں‘‘ کے بارے میں بتاتی ہے جو کبھی نجات نہیں پا سکے، اور جو اب جہنم میں ہیں۔ امیر نوجوان حکمران یسوع کے پاس آیا اور اس سے کہا، ’’میں نے اپنی جوانی سے ان تمام [حکموں] کی پابندی کی ہے‘‘ (متی19: 20)۔ اس نے سوچا کہ وہ نیک ہے۔ لیکن اس نے کبھی بھی یسوع پر بھروسہ نہیں کیا۔ وہ اُس سے ’’دور چلا گیا‘‘ (متی19: 22)۔ فیلکس نامی ایک رومی نے پولوس رسول کی بات سنی اور اس کی منادی پر ’’ڈر گیا تھا‘‘ (اعمال24: 25)۔ اس نے پولوس کو کئی بار منادی کرتے ہوئے سنا، لیکن اس نے ہمیشہ اپنے دل کو سخت کیا اور کبھی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوا۔ ایک اور آدمی، جس کا نام اگریپا تھا، اُس نے پولوس کو منادی کرتے ہوئے سنا اور اس سے کہا، ’’تم مجھے تقریباً مسیحی ہونے پر آمادہ کر رہے ہو‘‘ (اعمال26: 28)۔ لیکن، فیلکس کی طرح، اگریپا نے کبھی بھی مسیح پر بھروسہ نہیں کیا۔ وہ مر گیا اور جہنم میں چلا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بار بار تبلیغ سن سکتے ہیں اور پھر بھی کھوئے ہوئے یا گمراہ ہوئے ہوتے ہیں۔ ’’تقریباً مسیحی‘‘ ہونا بہت خطرناک ہے۔

فلپ بلس ایک مسیحی باپ کا بیٹا تھا جو اسے ہر روز دعا کرنا سکھاتا تھا۔ جب وہ بارہ سال کا تھا تو آخرکار وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو گیا۔ اس نے بپتسمہ لیا اور بپتسمہ دینے والے ایک گرجا گھر کا رکن بن گیا۔ فلپ ایک موسیقار تھا، اور چند سال بعد اس نے ڈینیئل وِٹل نامی ایک مبشر کے لیے گانے گانا شروع کیے۔ وہ مشہور مبشر ڈی ایل موڈی کے لیے حمدوثنا کے گیت اور انجیل کے گیت بھی لکھ رہے تھے۔ ایک انجیلی بشارت کی میٹنگ میں اُنہوں برونڈیج نامی ایک مبلغ کو ایک واعظ سناتے ہوئے سنا جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوا، ’’تقریباً نجات پانا مکمل طور پر کھو جانا [گمراہ ہونا] ہوتا ہے۔‘‘ فلپ ان الفاظ سے بہت متاثر ہوا۔ اسے یاد آیا کہ یہ اس کے بارے میں سچ تھا۔ وہ گرجا گھر جاتا رہا تھا، بائبل پڑھتا تھا، اور ہر روز دعا کرتا تھا، لیکن وہ ’’گرجا گھر کا بچہ‘‘ تھا، تقریباً نجات پا گیا تھا لیکن مکمل طور پر کھو گیا تھا۔ اس کی اپنی تبدیلی کے خیال نے فلپ کو متاثر کیا جب اس نے ان الفاظ کو سنا، ’’تقریباً نجات پانا مکمل طور پر کھو جانا [گمراہ ہونا] ہوتا ہے۔‘‘ وہ اپنے کمرے میں گیا اور حمدوثنا کے ایک گیت کے الفاظ لکھے جو ہم اکثر گاتے ہیں۔ یہ ان کا سب سے مقبول گانا بن گیا۔ وہ خود تو تقریباً نجات پا گئے تھے لیکن مکمل طور پر کھو چکے [گمراہ ہو چکے] تھے، اور انہوں نے اس کے بارے میں اس مشہور حمدوثنا کے گیت میں لکھا ہے جو کہ ہم اکثر گاتے ہیں،

’’تقریباً قائل ہوا‘‘ اب یقین کرنے کے لیے؛
     ’’تقریباً قائل ہوا‘‘ مسیح کو پانے کےلیے…
’’تقریباً‘‘ فائدہ نہیں پہنچا سکتا؛ ’’تقریباً‘‘ ناکامی کے سِوا کچھ نہیں!
     اُداس، وہ انتہائی شدید غمگین ماتم، ’’تقریباً – لیکن گمراہ ہویا ہوا۔‘‘
(’’تقریباً قائل ہوا Almost Persuaded‘‘ شاعر فلپ پی۔ بِلس Philip P. Bliss، 1838۔1876)۔

اگرچہ آپ گِرجا گھر آتے ہیں اور ہجوم کے ساتھ گُھل مِل جاتے ہیں، آپ ’’مکمل طور پر گمراہ ہوئے ہوتے‘‘ ہیں۔ گِرجا گھر میں کچھ نئے بچے سوچتے ہیں کہ آپ ایک مسیحی ہیں، لیکن آپ اپنے دل میں جانتے ہیں کہ آپ مکمل طور پر گمراہ ہو چکے ہیں۔ اور جب آپ مر جائیں گے اور جہنم میں ڈوب جائیں گے تو آپ روئیں گے اور روئیں گے، ’’تقریباً – لیکن گمرہ ہو چکے ہوتے ہیں۔‘‘ آپ ہمارے گِرجا گھر میں تھے لیکن اس میں تھے نہیں! آپ زمین پر گِرجا گھر میں تھے، لیکن آسمان سے ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئے! اُداس، وہ انتہائی شدید غمگین ماتم ہوگا – تقریباً – لیکن گمراہ ہو چکا ہے۔ ’’تقریباً نجات پانے کا مطلب مکمل طور پر گمراہ ہو جانا ہوتا ہے۔‘‘ آپ جہنم کے علاوہ کسی چیز کے راستے پر نہیں ہو۔ آپ بالکل گمراہ ہو چکے ہیں۔

ایک اور گروہ ہے جس سے مجھے بات کرنی ہے۔ ایسے بچے اور نوجوان بالغ ہیں جو گرجا گھر میں پلے بڑھے ہیں، لیکن [مسیح میں ایمان لائے بغیر] غیر تبدیل شدہ رہتے ہیں۔ آپ گُھل مِل جاتے ہیں۔ آخر کار، آپ ساری زندگی یہاں رہے ہیں۔ آپ گرجا گھر آتے ہیں کیونکہ یہ آپ کی عادت ہے۔ آپ کے والدین آپ کو یہاں لائے ہیں، اور آپ اب یہاں ہیں۔ آپ نے دنیا کے بعض گناہوں سے پرھیز کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ گرجا گھر میں کس طرح کپڑے پہننا ہے۔ آپ کے پاس ایک بائبل ہے۔ بائبل میں کیا کچھ موجود ہے آپ اِس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں اور مسیحی تعلیم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ آپ کے یہاں دوست ہیں۔ لوگ آپ کو جانتے ہیں۔ آپ گُھل مِل جاتے ہیں۔ یقیناً، آپ نے مسیح پر بھروسہ نہیں کیا ہے۔ صلیب پر اس کی موت کا اطلاق خُدا کے سامنے آپ کے گناہ کی ادائیگی کے لیے نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے خون نے آپ کے گناہ کو دھویا نہیں ہے۔ آپ کے پاس اس کی مُردوں میں سے جی اُٹھنے والی زندگی نہیں ہے۔ اوہ، آپ کسی نہ کسی دِن نجات پانا چاہیں گے، لیکن آپ موجودہ حالت میں خود کو چلائے رکھنا جاری رکھتے ہیں۔

ہو سکتا ہے آپ نے اپنے والدین کو بے وقوف بنایا ہو۔ وہ آپ سے پیار کرتے ہیں۔ وہ سوچ سکتے ہیں کہ آپ ایک مسیحی ہیں۔ حتّیٰ کہ چاہے وہ جانتے ہوں کہ آپ گمراہ ہو گئے ہیں، محبت کرنے والے والدین عام طور پر سوچتے ہیں کہ ان کے بچے مسیحی بن جائیں گے۔ آخر ان کے بچے واعظ سنتے ہیں۔ یقینی طور پر، وہ دوسروں سے ذاتی شہادتیں سنتے ہیں جو نجات پا چکے ہیں۔ اس طرح والدین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ ان کے بچے مسیحی ہو جائیں گے۔ ایسے والدین اکثر سوچتے ہیں، ’’یقیناً وہ مسیحی بن جائیں گے۔ وہ ایسا کیوں نہ سوچیں؟‘‘ وہ فرض کرتے ہیں کہ اُن کے بچے مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جائیں گے حالانکہ مسیح نے کہا، ’’چند ہیں جو اِسے پاتے ہیں۔‘‘ آپ کے والدین شاید سوچ سکتے ہیں، ’’ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن کیا وہ آپ کے لیے روتے ہیں؟ کیا وہ تنہائی میں آپ کے لیے گھنٹوں دعا کرتے ہیں؟ کیا وہ مسلسل آپ کو نجات پانے کے لیے ترغیب دیتے ہیں؟

دنیا میں سے آنے والے بہت سے لوگوں کی طرح، آپ اپنے بارے میں ’’جزوی طور پر مسیحی‘‘ کی حیثیت سے سوچتے ہیں۔ یعنی کہ، آپ مسیحی بننے کے بارے میں سیکھ رہے ہیں، کیا آپ نہیں سیکھ رہے ہیں؟ یعنی کہ، آپ تقریبا ایک مسیحی ہیں، کیا آپ نہیں ہیں؟ آپ کے والدین بھی آپ کے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں، کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ آپ مسیحی بننے جا رہے ہیں۔ آپ کے گمراہ ہونے سے انہیں تکلیف ہوگی۔ آپ کے والدین، یہ بات کہے بغیر، آپ کو چھوٹے مسیحی سمجھتے ہیں۔ آپ ظاہری طور پر گُھل مِل جاتے ہیں، لہذا آپ تقریباً ایک مسیحی ہیں، ایک چھوٹے سے مسیحی، جو یقیناً ایک حقیقی مسیحی بن جائیں گے – کسی نہ کسی دن۔ مسیحی والدین اکثر اپنے بچوں کے بارے میں اس طرح سوچتے ہیں – چھوٹے مسیحیوں کے طور پر، تقریباً کسی حد تک، یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے یقینی طور پر – کسی نہ کسی دن۔ وہ آپ کو اپنی روح کھو دینے کا تصور نہیں کر سکتے – لیکن آپ کھو دیں گے۔

’’چھوٹے مسیحی‘‘ جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ مسیحی نام کی کوئی بات تربیت میں، یا سیکھنے میں، یا راستے میں نہیں ہوتی ہے۔ نجات پائے ہوئے اور گمراہ ہوئے کے درمیان کچھ نہیں ہے! جنت اور جہنم کے درمیان کوئی چیز نہیں ہے۔ پادری صاحب نے درست کہا جب اُنہوں نے کہا، ’’تقریباً نجات پانے کے لیے مکمل طور پر گمراہ ہو جانا ہوتا ہے۔‘‘ آپ یہاں بیٹھتے ہیں، لیکن آپ مکمل طور پر کھوئے ہوئے ہوتے ہیں۔

بائبل مذہبی لوگوں کے ساتھ چھوٹے مسیحیوں جیسا سلوک نہیں کرتی ہے۔ اسرائیل کے عظیم استاد نیکدیمس کو یسوع نے کہا، ’’تمہیں دوبارہ جنم لینا چاہیے‘‘ (یوحنا3: 7)۔ پولوس رسول کا مذہبی پس منظر تھا، ’’اُس کا ختنہ آٹھویں دِن ہوا، وہ اِسرائیلی قوم اور بن یمین کے قیبلے سے تھا، عبرانیوں کا عبرانی، شریعت کے اعتبار سے فریسی‘‘ (فلپیوں3: 5)۔ اُس کے پاس خُدا کے لوگوں میں سے ایک ہونے کی ظاہری قِسمیں تھیں – لیکن وہ تھا نہیں! وہ گمراہ ہو گیا تھا اور جہنم میں جا رہا تھا جب تک کہ اس نے یسوع پر بھروسہ نہیں کیا۔ فریسیوں نے مسیح سے کہا، ’’ابراہام ہمارا باپ ہے‘‘ (یوحنا8: 39)۔ اُنہوں نے کہا، ”ہم ناجائز اولاد نہیں ہیں۔ ہمارا باپ ایک ہی ہے یعنی خدا‘‘ (یوحنا8: 41)۔ ہم باہر کے لوگوں کی طرح نہیں ہیں۔" لیکن مسیح نے ان سے کہا، ’’تم اپنے باپ یعنی ابلیس کے ہو‘‘ (یوحنا8: 44)۔ وہ جانتا تھا کہ وہ نافرمان گنہگار تھے – اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

خُدا جانتا ہے کہ آپ ایک نافرمان گنہگار ہیں – اور اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ نے خود کو بے وقوف بنایا ہو۔ ہو سکتا ہے آپ نے اپنے والدین کو بے وقوف بنایا ہو۔ لیکن آپ خدا کو بیوقوف نہیں بنا سکتے! بائبل کہتی ہے، ”فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھّوں میں نہیں اڑایا جاتا‘‘ (گلتیوں6: 7)۔ خُدا جانتا ہے کہ آپ ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ ہیں (افسیوں2: 5)۔ خُدا جانتا ہے کہ آپ ’’دوسروں کی طرح [خدا کے] غضب کے بچے ہیں‘‘ (افسیوں2: 3)۔ خدا جانتا ہے کہ آپ کی ’’جسمانی نیت خدا کی مخالفت کرتی ہے‘‘ (رومیوں8: 7)۔ خُدا جانتا ہے کہ آپ کے دِل میں آپ ’’خُدا کی شریعت کے تابع نہیں ہیں، نہ ہی حقیقتاً ہو سکتے ہیں‘‘ (رومیوں8: 7)۔ وہ جانتا ہے کہ آپ کی ’’عقل تاریک ہوگئی ہے‘‘ (افسیوں4: 18)۔ وہ جانتا ہے کہ آپ ’’اپنے باپ یعنی ابلیس کے ہیں‘‘ (یوحنا8: 44)۔ جی ہاں، خدا جانتا ہے – اور آپ اپنے دل میں جانتے ہیں – کہ آپ ایک چھوٹے سے مسیحی نہیں ہیں، بلکہ ایک چھوٹے شیطان ہیں۔ خدا جانتا ہے، اور آپ اپنے دل میں جانتے ہیں کہ آپ واقعی ایک چھوٹے شیطان ہیں۔ اس لیے آپ اپنے باپ شیطان کی طرح اپنے دل میں خُدا کی مخالفت کرتے ہیں۔

’’جس کے پاس بیٹا ہے اُس کے پاس زندگی ہے اور جس کے پاس خدا کا بیٹا نہیں ہے اُس کے پاس زندگی بھی نہیں ہے‘‘ (1 یوحنا5: 12)۔

آپ کو صرف گرجا گھر آنے کے ذریعے سے ایک چھوٹے شیطان سے ایک حقیقی مسیحی نہیں بنایا جا سکتا۔ آپ باتیں سیکھنے کے ذریعے سے مسیح میں ایمان لانے والی تبدیلی کو نہیں پا سکتے۔ آپ کا دل غلط ہے۔ آپ باطن سے غلط ہیں۔ آپ کا دل ’’شدید شریر‘‘ ہے (یرمیاہ17: 9)۔ آپ اپنے آپ کو بکری سے بھیڑ، چھوٹے شیطان سے حقیقی مسیحی نہیں بنا سکتے۔ ’’اِنسانوں کے لیے یہ ناممکن ہے‘‘ (مرقس10: 27)۔ اور آپ کے ساتھ یہ ناممکن ہے۔ آپ کو خدا کے فضل کی ضرورت ہے! آپ کو خدا کی طرف سے تبدیلی کے معجزے کی ضرورت ہے۔ آپ تقریباً نجات پا گئے ہیں، لیکن مکمل طور پر گمراہ ہو چکے ہیں۔ خدا کے معجزے کے بغیر، آپ ہمیشہ مکمل طور پر گمراہ رہ جائیں گے – اس زندگی میں گمراہ ہو جائیں گے اور اگلی دنیا میں ہمیشہ کے لیے گمراہ رہ جائیں گے۔

اے خدا، میں دعا کرتا ہوں کہ تو ان الفاظ کو کسی کے دل کی بات کہنے کے لیے استعمال کر۔ یسوع کے نام میں، آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔