Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اُوباما کے زمانے میں دعا اور روزے رکھنا

PRAYER AND FASTING IN THE AGE OF OBAMA
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 12 جولائی 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, July 12, 2015

’’جب وہ گھر میں داخل ہُوا تو اُس کے شاگردوں نے چُپکے سے اُس سے پُوچھا، ہم اُس بدروح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ اور یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28،29).

یہ کہانی سادہ سی ہے۔ یسوع اوپر پہاڑ پر رہا تھا۔ جب وہ نیچے آیا تو اُس نے شاگردوں کے ارِد گرد ایک بہت بڑا ہجوم اکٹھا دیکھا۔ یسوع نے اُن سے پوچھا کیا ہو رہا تھا۔ ہجوم میں سے ایک آدمی سامنے آیا اور یسوع کو بتایا کہ اُس کا بیٹا آسیب زدہ تھا۔ اُس نے کہا آسیب کی وجہ سے اُس کے بیٹے کو طوفانی دورے پڑتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ اُس نے شاگردوں سے آسیب کو نکالنے کے لیے کہا تھا، مگر وہ ایسا کر نا پائے۔ یسوع نے آدمی سے اُس کے بیٹے کو یسوع کے پاس لانے کے لیے کہا۔ یسوع نے بدروح کو جھڑکا اور کہا، ’’اِس میں سے باہر نکل جا اور دوبارہ اِس میں مت آنا۔‘‘ بدروح چیخ مار کر لڑکے میں سے نکل گئی۔ یسوع نے لڑکے کو ہاتھ سے پکڑا اور اُس کو اُٹھایا اور وہ شفا پا چکا تھا۔ چند ایک منٹ کے بعد یسوع ایک گھر میں گیا۔ شاگرد اُس کے پاس آئے اور کہا، ’’ہم اُس کو بدروح کو کیوں نہ نکال پائے؟‘‘ (مرقس9:28)۔

ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا، ’’اُنہوں نے اپنی تمام تر کوشش کی تھی، مگر وہ ناکام رہے تھے۔ وہ دوسرے بے شمار معاملات میں کامیاب رہے تھے۔ یہاں وہ مکمل طور ناکام ہو چکے تھے۔ اور اِس کے باوجود ایک ہی لمحے میں بغیر کسی دقت کے ہمارے خُداوند [یسوع مسیح] نے صرف منہ سے الفاظ نکالے اور لڑکے نے شفا پالی۔ ’ہم اُس بدروح کو کیوں نہ باہر نکال پائے؟‘ اُنہوں نے کہا، اور [مسیح] نے اُنہیں جواب دیا، ’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘‘ (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیات نو Revival، کراسوے کُتب، Crossway Books، 1994 ایڈیشن، صفحہ 9؛ مرقس9:28، 29 پرتبصرہ)۔

بدرُوح کا یہ واقعہ جس کو شاگرد نکال نہیں پائے تھے نہایت ہی اہم ہے۔ یہ اِس قدر اہم تھا کہ پاک روح نے نئے عہد نامے میں اِس کو تین مرتبہ درج کیا – متی میں، مرقس میں اور دوبارہ لوقا میں۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا آج یہ ہمارے لیے بہت ہی اہم ہے۔ میں اُن کے ساتھ مکمل طور پر متفق ہوں۔ مگر اِس سے پہلے کہ اپنے گرجہ گھر کے لیے اِس کہانی کے معنوں کا میں اِطلاق کروں، مجھے بائبل پر تنقید کرنے والوں سے نمٹنا چاہیے جنہوں نے دورِ حاضرہ کے تمام ترجموں میں سے ’’اور روزہ رکھنا‘‘ حذف کر دیا۔

اِس لیے، اِس سے پہلے کہ میں پیغام کو شروع کروں، میں آپ سے آیت 29 میں اُن لفظوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں – ’’اور روزہ رکھنا۔‘‘ سیکوفیلڈ بائبل کی مرکزی غور طلب بات ’’u‘‘ کہتی ہے، دو بہترین [مسودوں] MSS میں سے ’اور روزہ رکھنا‘ کا مِنہا کیا جانا۔‘‘ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہاں تک کہ انتہائی قدامت پسند سیکوفلیڈ مطالعۂ بائبل بھی 19 ویں صدی کے آخر میں بائبل پر تباہ کُن تنقید سے متاثر ہوئی تھی۔ کیوں وہ دو مسودے جنہوں نے روزہ رکھنا کو مِنہا کر دیا تھا ’’بہترین مسودے‘‘ تھے؟ وہ اہم مسودہ جس کو تنقید نگاروں نے استعمال کیا سائی نائی ٹی کس Sinaiticus مسودہ تھا۔ تنقید نگاروں کا نظریہ یہ تھا کہ جتنا پرانا ہوتا ہے اُتنا ہی بہترین ہوتا ہے۔ مگر ہم کیسے اُس نظریہ پر یقین کر سکتے ہیں؟

کئی سال پہلے میں اور میری بیوی سینائی پہاڑ کے پہلو میں مقدس کیتھرین کی خانقاہ میں تھے۔ ہم نے دیکھا تھا کہ مسودہ کہاں سے مِلا تھا – اُس قدیم خانقاہ میں ایک کباڑ کے ڈھیر میں سے۔ خانقاہ کے دروازے پر انسانی کھوپڑیوں کا ایک بہت بڑا ڈھیر ہے۔ یہ اُن راہبوں کی کھوپڑیاں ہیں جو کئی صدیوں تک وہاں رہے۔ اندر جو میں نے کبھی بھی دیکھی ہونگی اُن میں سے سب سے زیادہ تاریک اور شیطانی احساس والے گرجہ گھر کی مقدس جگہوں میں سے ایک ہے۔ درجنوں شُترمرغ کے انڈے چھت سے لٹک رہے تھے۔ اُس جگہ کو سڑی ہوئی موم بتیوں سے روشن کیا گیا ہے۔ یہ ایک اُس جگہ کی مانند لگتی ہے جو آپ ’’ریڈرز آف دی لاسٹ آرک Raiders of the Lost Ark‘‘ میں دیکھ پائیں گے! میں اُس ناخوشگوار جگہ میں رات گزارنا پسند نہیں کروں! یہ اِسی تاریک اور افسُردہ جگہ سے تھا جہاں سے شینڈوروف نے اناجیل کا وہ پرانا مسودہ پایا تھا۔ بعد میں میری بیوی اور میں نے لندن میں برٹش عجائب گھر میں اصلی مسودہ دیکھا تھا۔

میں قائل ہوں کہ اُس خانقاہ میں قدیم راہب گنوسٹک اِزم سے متاثر تھے۔ بِلاشُبہ گنوسٹک لوگ نہیں چاہیں گے کہ روزہ رکھنے پر زور دیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ اُن گنوسٹک اِزم سے متاثرہ راہبوں نے ’’روزہ رکھنا‘‘ کو حذف کر دیا تھا جب اُنہوں نے مرقس کی انجیل کو ہاتھوں سے لکھا تھا۔

پھر میرے خیال میں ایک اور وجہ ہے کہ وہ لفظ ’’روزہ رکھنا‘‘ خود مرقس کے ذریعے سے وہاں پر لکھا گیا تھا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جملے کی کوئی سمجھ نہیں بنتی اگر آپ اُس لفظ ’’روزہ رکھنا‘‘ کو حذف کر دیتے ہیں۔ دورِ حاضرہ کے سارے تراجم کی مانند نئی انٹرنیشنل بائبل NIV میں بھی یہ ہے، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقے سے نہیں نکل سکتی۔‘‘ صرف اپنے ذہن کو استعمال کریں۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ رسولوں نے دعائیں مانگی تھیں؟ بِلاشُبہ اُنہوں نے دعائیں مانگی تھیں! مگر ’’یہ قسم‘‘ دعاؤں سے کہیں کچھ زیادہ مانگتی تھی۔ کیا یہ واضح نہیں ہے؟ جیسا کہ سی۔ ایس۔ لوئیس C. S. Lewis نے اپنے مضامین میں سے ایک میں نشاندہی کی، بائبل کے اِن تنقید نگاروں کو انگریزی لٹریچر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر اُنہوں نے انشاپردازی یا تالیف پڑھی ہوتی اور اُنہیں احساس ہو چکا ہوتا کہ کچھ نہ کچھ موجود نہیں ہے۔ ’’اِس قسم کی بدروح صرف دعا سے نکل سکتی ہے‘‘؟ مضحکہ خیز! بیشک اُنہوں نے دعائیں مانگی تھیں۔ جب کہ تُک نہیں بنتی جب تک یہ کہتا نہیں، ’’اِس قسم کی بدروح صرف دعا اور روزہ رکھنے سے نکل سکتی ہے۔‘‘

پھر ایک تیسری وجہ بھی ہے۔ مسیحیت کی طویل تاریک میں مسیحیوں نے یقین رکھا تھا کہ دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ روزہ رکھنے کی ضرورت بھی تھی، جب مخصوص شیطانی قوتیں خُدا کے کام کو روکتی تھیں۔ ماضی کے حیاتِ انواع کے تمام عظیم مبلغین جانتے تھے کہ ایسے وقت آتے تھے جب اُنہیں روزے رکھنے پڑتے تھے۔ مگر اُن الفاظ ’’دعا مانگنا اور روزہ رکھنا کے حذف کیے جانے سے وہ روزہ رکھنے سے باز کیے گئے تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جان ویزلی John Wesley پہلی عظیم بیداری کے دوران ہفتے میں دو یا زیادہ مرتبہ روزہ رکھتے تھے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جاناتھن ایڈورڈز Jonathan Edwards نے ’’ناراض خُدا کے ہاتھوں میں گنہگارSinners in the Hands of an Angry God‘‘ کی تبلیغ کرنے سے پہلے تین دِن تک روزہ رکھا تھا؟ اِس واعظ نے اُن کے گرجہ گھر میں ایک شاندار حیاتِ نو کی رہنمائی کی تھی جو سارے نئے انگلستان میں پھیل گیا تھا – اور پھر خود انگلستان میں۔ کیا وہ حیات نو آیا ہوتا اگر ایڈورڈز نے روزہ رکھے بغیر دعا مانگی ہوتی؟ اِس حد تک بات یقینی ہے – خُدا نے حیاتِ نو بھیجا تھا جب اُس نے دعا مانگنے کے ساتھ ساتھ روزہ بھی رکھا تھا! کیا آج ہمارے گرجہ گھروں میں روزہ نہ رکھنے وجوہات میں سے ایک ہے کہ کوئی حیاتِ نو نہیں ہوتا؟ اِس حد تک بات یقینی ہے – اگر کوئی حیاتِ نو ہو تو بہت ہی کم ہوتا ہے، اِسی وقت کے دوران اگر کوئی روزہ رکھے تو بہت کم ہوتا ہے! یہ یقینی ہے!

پھر وہ الفاظ ’’اور روزہ رکھنا‘‘ کو رکھنے کی ایک چوتھی وجہ ہے۔ لوتھر Luther نے کلام مقدس کی ’’مطابقت‘‘ کے بارے میں بات کی تھی۔ اُن کا مطلب تھا کہ ہمیں دوسرے ایسے ہی صحائف کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کہتے ہیں، جب ہم ایک حوالے کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے بارے میں بائبل میں سب سے زیادہ مشہور حوالہ کونسا ہے؟ یقینی طور پر بائبل کے ایک طالب علم کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اشعیا 58:6 میں ہے۔

’’روزہ جو میری پسند کا ہے، کیا وہ یہ نہیں؟ کہ نااِنصافی کے بندھن [کی زنجیریں] توڑی جائیں جُوئے کی رسیاں کھول دی جائیں، مظلوموں کو آزاد کیا جائے اور ہر جُوا توڑ دیا جائے‘‘ (اشعیا 58:6).

یسوع اشعیا کو بخوبی جانتا تھا۔ جب اُس نے ناصرت کی ہیکل میں منادی کی تھی تو اُس نے اشعیا61:1، 2 میں سے بات کی تھی۔ یقینی طور پر یسوع انتہائی کم اشارہ58:6 کی طرف اشارہ کر رہا تھا جب اُس نے کہا، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29)۔

’’روزہ جو میری پسند کا ہے، کیا وہ یہ نہیں؟ کہ نااِنصافی کے بندھن [کی زنجیریں] توڑی جائیں جُوئے کی رسیاں کھول دی جائیں، مظلوموں کو آزاد کیا جائے اور ہر جُوا توڑ دیا جائے‘‘ (اشعیا 58:6).

جیسا کہ اشعیا کے ساتھ، یسوع شاگرد کو بتا رہا تھا کہ دعا اور روزہ ’’مظلوموں کو آزاد کر دیتے‘‘ ہیں – اور شیطان کے ہر جوئے کو توڑ دیتے ہیں! یہ ہی کلام مقدس کی ’’مطابقت‘‘ ہے! یہ ہے کہ خود بائبل کو ہی ہماری تلاوت پر بہترین تبصرہ کرنے دیا جائے۔ میں یقین محسوس کرتا ہوں کہ لوتھر نے اِس بات پر میرے ساتھ اتفاق کیا ہوتا۔

’’اور روزہ رکھنا‘‘ کو قبول کرنے کی پانچویں وجہ اِس حقیقت سے عیاں ہوتی ہے کہ وہ جو آسیبوں کو نکالتے تھے اُنہوں نے ہمیشہ تعلیم دی کہ بعض معاملات میں روزہ رکھنا مددگار ہوتا ہے۔ قابلِ احترام جان ویزلی نے متی 17:21 میں متماثل حوالے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، ’’اِس قسم کے شیاطین دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں جاتے – روزہ رکھنے کی اثرانگیزی کے بارے میں یہاں پر کیسی ایک گواہی ہے، جب سرگرم اور جوشیلی دعاؤں کا اضافہ کیا جائے۔ شیاطین کی کچھ اقسام جن کو رسولوں نے اِس سے پہلے نکالا بغیر روزہ کے تھا‘‘ مگر اِس قسم کی بدروحیں دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتیں (جان ویزلی، ایم۔ اے۔ John Wesley, M.A.، نئے عہد نامے پر ویزلی کی غور طلب باتیں Wesley’s Notes on the New Testament، بیکر کُتب گھر Baker Book House، 1983، جلد اوّل؛ متی17:21 پر غور طلب بات)۔

ویزلعین میتھوڈزم کے بانی کی حیثیت سے اپنی طویل مذھبی خدمت میں جان ویزلی (1703۔1791) آسیبوں سے نجات کے بارے میں بہت زیادہ جانتے تھے۔

ڈاکٹر تھامس ھیلDr. Thomas Hale تھائی لینڈ کے لیے ایک طبی مشنری تھی۔ مشن کے میدان میں کئی مرتبہ شیاطین کا سامنا کر چکنے کے بعد ڈاکٹر ھیل نے اپنے تبصرے میں روزہ رکھنے کی تلقین کی۔ مرقس9:29 پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ھیل نے کہا، ’’بعض حالات میں خُدا سے اپنی درخواست پانے کے لیے روزہ رکھنا ضروری ہوتا ہے… جب، روزہ رکھنے سے، ہم خُدا کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم سنجیدہ ہیں… وہ ہماری دعاؤں کا جواب ہمیں شدید طور کی قوت اور حکمت اور روحانی برکات بخشنے کے وسیلے سے دے گا۔‘‘ مشن کے میدان میں شیاطین سے سامنا کر چکنے کے بعد، ڈاکٹر ھیل نے کہا ہمیں تلاوت میں ’’اور روزہ رکھنا‘‘ رکھنا چاہیے۔ (تھامس ھیل، ایم۔ ڈی۔ Thomas Hale, M.D.، نئے عہد نامے پر لاگو تبصرہ The Applied New Testament Commentary، کنگزوے پبلیکشینز Kingsway Publications، 1997، صفحہ 265؛ مرقس9:29 پر غور طلب بات)۔

اب میں آپ کو ’’اور روزہ رکھنے‘‘ کی چھٹی اور آخری وجہ پیش کرتا ہوں۔ صرف دو ہی مسودے ہیں جو اِس کو حذف کر دیتے ہیں، مگر واقعی میں سینکڑوں مسودے ہیں، جو انتہائی قدیم ہیں جن میں یہ موجود ہے۔ تنقیدنگاروں نے فیصلہ کیا کہ اُن دو کو لیا جائے جنہوں نے اِس کو حذف کیا اور باقی سینکڑوں انتہائی قدیم مسودوں کو بُھلا دیا جائے جن میں یہ موجود ہے۔ خُدا ہماری مدد کرے! میرا نہیں خیال ہم کبھی بھی حیاتِ نو لا پائیں گے جب تک کہ ہم دعا مانگنے اور روزہ رکھنے کی جانب واپس نہیں لوٹتے!

یہاں، میں آپ کو اِس آیت پر دورِحاضرہ کے تراجم کو مسترد کرنے کے لیے چھے وجوہات پیش کر چکا ہوں! میں نے کبھی بھی اُن میں سے تبلیغ نہیں کی۔ میں اُن پر بھروسہ نہیں کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں صرف کنگ جیمس کی بائبل ہی میں سے منادی کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ہوں آپ کنگ جیمس بائبل ہی میں سے آیت یاد کریں، اور ہمیشہ اپنا روزانہ کا بائبل کا مطالعہ صرف کنگ جیمس ہی میں سے کریں۔ یہ آپ کو برکت دے گا اور آپ اِس پر بھروسہ کر سکتے ہیں!

’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:29).

اب، باقی کے اِس واعظ کے لیے میں دو سوالوں کے جواب پیش کرنے جا رہا ہوں:


(1) ’’یہ قسم‘‘ ہے کیا؟

(2) ہم ’’اِس قسم‘‘ پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟


میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کے لیے وقت برباد نہیں کروں گا کہ آسیب اور شیطان وجود رکھتے ہیں۔ اگر آپ بشروں کو جیتنے والے ہیں تو آپ پہلے سے ہی تجربے سے آسیبوں کی حقیقت کو جانتے ہیں۔ لہٰذا میں اُن کی وجودیت کے بارے میں آپ کو قائل کرنے کی کوشش کیے بغیر آگے بڑھ رہا ہوں۔

’’یہ قسم‘‘ اُن آسیبوں کے لیے حوالہ دیتی ہے جو ہمیں روک رہے ہیں، جنہیں ہم عام طریقوں کے ذریعے سے کرنے کے قابل ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ بائبل تعلیم دیتی ہے کہ شیاطین ’’اُن کے ذہنوں کو جو یقین نہیں کرتے‘‘ اندھا کر دیتے ہیں (2 کرنتھیوں4:4)۔ اور یہ بات مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے پہلے اِس دُنیا میں ہر شخص کے بارے میں سچی ہے۔ ہم ’’اُس‘‘ قسم کے ساتھ کافی طویل مدت سے نمٹتے رہے ہیں۔ اور ہم اکثر دیکھ چکے ہیں کہ ’’وہ‘‘ قسم مسیح کے وسیلے سے ہماری دعاؤں کے جواب میں قابو میں آ گئی۔

ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ ’’وہ‘‘ قسم بے اعتقادوں کے دِل کلام کو اُکھاڑ پھینکتی ہے – ’’تب ابلیس آتا ہے اور اُن کے دِلوں میں سے کلام کو نکال لے جاتا ہے‘‘ (لوقا8:12)۔ اور ہم اپنی دعاؤں کے جواب میں مسیح کے وسیلے سے ’’اُس‘‘ قسم پر قابو پاتے ہوئے اکثر دیکھ چکے ہیں۔

ابلیس بدروحوں کو زمانے کے شروع سے ہی اُن باتوں کو کرنے کے لیے بھیجتا رہا ہے۔ اُس نے عدن کے باغ میں آدم اور حوا کے ذھنوں کو اندھا کر دیا تھا۔ اُس نے اُس ابتدائی زمانے ہی میں اُن کے دِلوں سے کلام کو اُکھاڑ پھینکا تھا۔

ہم کم از کم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دورِ حاضرہ کے زمانے تک مغرب اور امریکہ میں لوگوں کو غلام بنانے کے شیطان کے وہ دو اہم طریقے تھے۔ جدید زمانے تک عام طور پر لوگ خُدا میں یقین رکھتے تھے۔ لوگ عام طور پر یقین رکھتے تھے کہ بائبل خُدا کا کلام تھا۔ اُن کے ذہنوں کو اندھا کیا جا چکا ہے۔ کلام اُن کے دِلوں میں سے اُکھاڑ دیا گیا تھا۔ مگر وہ اب بھی عام طور پر خُدا میں اور بائبل میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم اُن کے بارے میں ’’قبل ازیں جدید‘‘ مرد اور عورتوں کی حیثیت سے بات کر سکتے ہیں۔ قبل ازیں جدید لوگ ہونے کی حیثیت سے وہ مسیحیت میں ایک تنقیدی ذھنیت کے ساتھ نہیں آتے۔ وہ شاید مسیح میں بھروسہ نہ کریں – مگر وہ اِس طرح کی باتیں کر کے تنقید نہیں کرتے جیسے ’’کوئی خُدا نہیں ہے،‘‘ یا ’’خُدا مر چکا ہے‘‘ – اور وغیرہ وغیرہ۔ اِس لیے قبل ازیں جدید لوگوں کے ساتھ آپ کو صرف اتنا ہی کرنا ہے کہ انجیل کی منادی کرنی ہے اور اُن کے لیے دعا مانگنی ہے۔ یہ نسبتاً آسان ہے۔

مگر پھر ہم نے ’’جدید‘‘ دور میں قدم رکھا۔ اِس دور کو تکنیکی طور پر نام نہاد کہلائے جانے والے روشن خیالی کے زمانے کی حیثیت سے جانا جا سکتا ہے جو 17 ویں صدی کے آخر میں شروع ہوا تھا اور وولٹائر Voltaire (1694۔1778) جاری رہا تھا۔ اُس دور میں لوگ مادیت پرست ہونا شروع ہو گئے تھے اور بائبل اور خُدا کے بارے میں تنقیدی ہو گئے تھے۔ مگر وہ تنقیدی ذہنیت عام آدمی تک 19 ویں صدی تک نہیں پہنچی تھی۔ اُس ’’جدیدی ذھنیت‘‘ کو نام نہاد کہلائے جانے والے ’’سائنٹیفک طریقہ کار‘‘ کے ذریعے سے ہر ایک بات کو ’’ثابت‘‘ کیا جانا تھا۔ وہ ہر ایک روحانی بات کے بارے میں تنقیدی تھی۔ یوحنا3:16 پر اپنے واعظ میں انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والے مشہور و معروف بلی گراھم نے کہا، ’’آپ خُدا کو ایک ٹسٹ ٹیوب میں نہیں ڈال سکتے۔‘‘ اور ’’دورِ حاضرہ‘‘ کے آدمی کو تبلیغ کر رہا تھا۔ مگر یہ عمومی طور پر مانا جاتا ہے کہ ’’جدید‘‘ دور ہیپیوں کی نسل کے ساتھ ہی مر گیا تھا۔

آج ہم اُس دور میں رہ رہے ہیں جس کو فلسفی ’’دورِ جدید کے بعد‘‘ کا دور کہتے ہیں – وہ دور جو ماڈرن اِزم کے بعد آیا۔ دورِ جدید کے بعد کے نوجوان لوگوں کا ذہن آج بے اصولا ہے۔ کوئی اخلاقیات نہیں ہے۔ اِس کے پاس چند ایک ’’درست سیاسی‘‘ تصورات ہیں، مگر کوئی بھی حقیقی اخلاقی بُنیاد نہیں ہے۔ ’’یہ بات آپ کے لیے تو سچی ہے مگر میرے لیے سچی نہیں ہے۔‘‘ یہاں کوئی بھی دُرست یا غلط کا اخلاقی معیار نہیں ہے۔ ’’اگر یہ اچھا محسوس ہوتا ہے تو یہ دُرست ہے‘‘ یہ دورِ جدید کے بعد کے لوگوں کا نعرہ ہے۔ یہ کہنے کے بجائے ’’کوئی خُدا نہیں ہے‘‘ جیسا کہ دور جدید کے لوگ کہتے تھے – وہ کہتے ہیں ’’اگر خُدا تمہارے لیے حقیقی ہے تو ٹھیک ہے – مگر مجھے تو میرے خُداؤں کو رکھ لینے دو۔‘‘ دوسرے لفظوں میں، کوئی معیار نہیں ہے۔ آپ کے لیے جو کام میں آ جائے وہ اچھا ہے – آپ کے لیے۔

یہ ہے وہ ’’یہ قسم‘‘ – یہ ہے جو آج نوجوان لوگ سوچتے ہیں – اُن غیر واضح، تبدیل ہوتے ہوئے، غیر یقینی والی ’’تمہارے لیے کیا دُرست ہے‘‘ سوچیں۔ یہ ہے ’’یہ قسم۔‘‘ یہ ہیں آسیب جن کے خلاف ہم اب لڑ رہے ہیں! میں بزرگ لوگوں کو کہتے ہوئے سُنتا ہوں، اور کس قدر دُرست طور پر، جب سے وہ اُوباما ہے یہاں تاریکی ہے۔ ہر ایک بات مختلف محسوس ہوتی ہے۔ کوئی بھی بات یقینی یا مستحکم نہیں ہے۔ جی ہاں، آپ اِس کو ’’اُوباما‘‘ کی روح کہہ سکتے ہیں، وہ دورِ حاضرہ کے بعد کا آسیب جو ہر ایک پرانی بات کو کچرا کرتا جا رہا ہے – اور اِس کی جگہ پر کسی نئی کو بھی نہیں دے رہا۔ یہ بات ہمارے گرجہ گھروں کو متاثر کر رہی ہے؟ اوہ، جی ہاں! گذشتہ سال مغربی بپتسمہ دینے والوں نے 2,000 گرجہ گھروں کو کھو دیا! اِس کے بارے میں نہیں سُنا! اِس طرح کی کبھی بھی کوئی بات نہیں! ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا، ’’ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم کسی شدید قوت کے خلاف اپنی زندگیوں کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ہم ایک قوت سے بھرپور دشمن کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں‘‘ (پہاڑی واعظ میں مطالعہ Studies in the Sermon on the Mount، حصہ دوئم، صفحہ 148)۔ ’’یہ قسم‘‘ ہمارے لیے انتہائی شدید طاقتور ہے۔ یہ صرف دعا کے ذریعے سے ہی تنہا قابو میں نہیں آ سکتی۔ جی نہیں – ہمیں ضرور بہ ضرور دعائیں مانگنی اور روزہ رکھنا‘‘ چاہیے ورنہ ہماری تمام کی تمام انجیلی بشارت کے پرچار کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ اِس لیے میں آپ سے اگلے ہفتہ کے روز روزہ رکھنے اور دعائیں مانگنے کے لیے پوچھ رہا ہوں۔ اگر آپ کو کوئی طبعی مسئلہ ہو تو روزہ مت رکھیے گا۔ اگر آپ کو کسی بھی قسم کا کوئی طبعی شک ہو تو ڈاکٹر سے چیک کروا لیں۔ اگر آپ واقعی میں ہمارے ساتھ روزہ رکھیں تو اِس بات کو یقینی بنا لیں کہ آپ ڈھیر سارا پانی پئیں، تقریباً ایک گلاس ہر گھنٹے بعد یا جیسے بھی مناسب ہو۔ اور ہم ہفتے کو یہاں گرجہ گھر میں ایک کھانے کے ساتھ شام 5:30 بجے روزہ ختم کریں گے۔ ’’اِس قسم کی بدروح سِوا دعا اور روزہ کے اور کسی طریقہ سے نہیں نکل سکتی۔‘‘ اِ س بات کو یقینی بنائیں کہ آپ ہفتے کے روز خُدا سے گمراہ لوگوں کو یہاں آنے اور یہیں پر رہنے کے لیے اور نجات کے لیے مسیح کی جانب اُس کے خون اور راستبازی کے ذریعے سے کھینچے جانے کے لیے کئی مرتبہ دعا مانگیں۔ اے آسمانی باپ، ایسا ہی ہو۔ یسوع کے نام میں، آمین۔

اگر اِس واعظ نے آپ کو برکت بخشی ہے تو مہربانی سے ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای۔میل بھیجیں اور اُنھیں بتائیں – (یہاں پر کلک کریں) rlhymersjr@sbcglobal.net۔ آپ کسی بھی زبان میں ڈاکٹر ہائیمرز کو خط لکھ سکتے ہیں، مگر اگر آپ سے ہو سکے تو انگریزی میں لکھیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: مرقس9:14۔29.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
     ’’اوہ ہزاروں زبانوں کے گانے کے لیے O For a Thousand Tongues to Sing‘‘
(شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788؛بطرز O Set Ye Open Unto Me‘‘)۔