Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

شیطانی اندھا پن

SATANIC BLINDING
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 22 فروری، 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, February 22, 2015

’’اگر ہماری خوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے: چونکہ اِس جہاں کے خُدا نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے، اِس لیے وہ خُدا کی صورت یعنی مسیح کے جلال کی خوشخبری کی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں4:3، 4)۔

میں آج کی صبح شیطان کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں۔ یہ مشکل ترین واعظوں میں سے ایک ہے جو میں نے کبھی تیار کیے۔ میں پُر یقین ہوں کہ شیطان نہیں چاہتا میں آج آپ کو اِس کی منادی کروں۔ میرے پاس ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو میں مددگار کے طور پر استعمال کرنے جا رہا تھا۔ میں نے شیطان اور آسیبوں پر اُن کے واعظوں کا مطالعہ کیا اور سوچا کہ مجھے اُس میں سے کچھ جو اُنہوں نے کہا خود میرے اپنے واعظ کے تعارف کے لیے استعمال کروں۔ میں نے کتاب کو اپنے ڈیسک پر سنبھال کر رکھا تھا۔ لیکن جب واعظ تیار کرنے کا میرا وقت آیا تو میں اُس کو تلاش نہ کر پایا! یوں لگتا تھا کہ وہ غائب ہو چکی ہے! اُس کو میری مطالعہ گاہ ہی میں ہونا چاہیے تھا، مگر میں نے اُس کو تلاش کرنے تقریباً تین گھنٹے لگا دیے، اور اُس کو تلاش نہ کر پایا۔ میں پُر یقین ہوں شیطان کا اِس میں کچھ نہ کچھ ہاتھ تھا۔

پھر علیانہ Ileana گھر آ گئیں۔ میں ٹھہر گیا اور خُدا سے اِسے تلاش کرنے میں مدد کی دعا مانگی۔ علیانہ نے میرے ڈیسک کے اردگرد فرش پر بکھری ہوئی تمام کتابوں کو چھان مارا۔ جب وہ ایسا کر رہی تھیں میں نے سوچا مجھے ایک مرتبہ پھر اِس کو وہیں پر دیکھنا چاہیے جہاں میں نے اِس کو دیکھا تھا۔ میں پہلے ہی وہاں پر تین مرتبہ دیکھ چکا تھا، مگر میں نے ایک مرتبہ اور کوشش کی۔ وہ وہیں پر تھی! میرا دِل خوشی سے جھوم اُٹھا! خُداوند نے میری دعا کا جواب دے دیا تھا اور مجھے دکھا دیا تھا کہ وہ کتاب کہاں پر تھی!

کوئی شاید سوچے کہ یہ تو ایک چھوٹی سی بات ہے – ایک کتاب کو تلاش کرنا۔ مگر یہ اکثر ’’چھوٹی چھوٹی باتوں‘‘ ہی میں ہوتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں شیطان کس قدر محتاط اور سازباز ہوتا ہے۔ عبرانی میں اِس کا نام ’’شیطانSatan‘‘ ہے۔ ’’سوطان Sawtan‘‘ – اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’مخالفopponent،‘‘ اِس کا مطلب ہوتا ہے ’’حریفadversary،‘‘ ’’دشمنenemy،‘‘ اور ’’فریق مخالف opposer۔‘‘ ’’شیطان‘‘ ایک اور عبرانی لفظ سے آتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’حملہ attack۔‘‘ شیطان خُدا کا دشمن ہے۔ وہ خُدا کی مخالفت کرتا ہے۔ وہ خُدا کے کلام پر حملہ کرتا ہے۔ اور وہ بہت طاقتور ہے۔ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویلDr. W. A. Criswell تقریباً ساٹھ سالوں تک ٹیکساس کے شہر ڈلاس کے پہلے پبتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے پادری تھے۔ اُنہوں نے علم الٰہیات اور یونانی میں بائبل پر پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ وہ بائبل کے بے خطا ہونے کے چیمپئین تھے۔ وہ مغربی بپتسمہ دینے والے ایک عظیم مبلغ تھے، بیسویں صدی کے عظیم ترین مبلغین میں سے ایک۔ ڈاکٹر کرسویل نے کہا،

     شیطان ہمارے اِساتذہ کی برادری میں کھڑا ہوتا ہے اور شاندارانہ طور پر لیکچر دیتا ہے۔ وہ تعلیمی کاروائیوں پر عبور رکھتا ہے اور یقین کرنا چاہتا ہے کہ خُدا کو چھوڑا جا چکا ہے۔ شیطان اِس دُنیا کا خُدا ہے۔
     شیطان کو مذھب سے محبت ہے… قدیم دُنیا کی تمام کی تمام کہانی بابلیوں، مصریوں، یونانیوں، اور رومیوں کے خُداؤں کی اصطلاح میں بتائی جاتی ہے۔ آج صرف انڈیا ہی میں 335 ملین مختلف خُداؤں کا پرستش کی جاتی ہے۔ شیطان اِس کو پسند کرتا ہے۔ جتنے آپ چاہتے ہیں اُتنے ہی خُداؤں کی پرستش کریں، صرف اِن میں سے سچے خُدا کو چھوڑ دیں۔ [شیطان] کو دُنیا کے مذاھب پسند ہیں۔ وہ اُن لاکھوں کروڑوں کو پسند کرتا ہے جو بُدھا یا شینٹو کے مزاروں پر پرستش کرتے ہیں۔ اُس کو ہندوؤں کے خُداؤں سے محبت ہے۔ لاکھوں کروڑوں اُن خُداؤں کی پرستش کرتے ہیں اور وہ خوش ہوتا ہے۔ صرف سچے خُدا کو اِن میں سے چھوڑ دیں…
     [شیطان] نور کا فرشتہ ہے، وہ اُن کے جنہیں وہ دھوکہ دیتا ہے حتمی نتائج کو احتیاط کے ساتھ چُھپا دیتا ہے… وہ اہمیت کے حامل ایک شخص کو پیش کرتا ہے۔ آپ اُس پر نظر ڈالتے ہیں۔ وہ کسی ادارے وغیرہ کے امور انجام دینے کا ذمہ دارایک قابل شخص ہوتا ہے، جس نے نفیس اور مہنگا لباس زیب تن کیا ہوتا ہے اور سند یافتہ تجارتی ادارے اور معاشرے میں ایک اونچے مقام پر ہوتا ہے۔ یہ امتیازی حیثیت کا ایک شخص ہوتا ہےجو کے ہاتھ میں ایک [شراب کا] گلاس لیے ہوتا ہے۔ مگر [شیطان] اُس کی اُلٹی میں بدقسمتی کو اور شرابیوں کو اور بکھرے ہوئے گھرانوں اور خاندانوں کو یتیم بچوں کو چُھپا دیتا ہے۔ وہ شاندار ہوتا ہے! [وہ اِس دُنیا کا خُدا ہے]۔
     وہ براڈوے یا ہالی ووڈ یا لاس ویگاس اور فحش فلموں اور کاموں کی کشش کی مُسرت اور شان و شوکت کو چڑھاوا دیتا ہے۔ مگر وہ آتشک اور گونورہیاgonorrhea اور ہرپیسherpes اور ایڈز اور ٹوٹے ہوئے دِلوں اور آنسوؤں اور مایوسی کو چُھپا دیتا ہے۔ وہ شیطان ہے [اِس دُنیا کا خُدا]…
     … وہ زندہ خُدا اور خُداوند مسیح نجات دہندہ کی کلیسیا کو دھوکہ دیتا ہے۔ پولوس رسول جعلی کلیسیا کو بیان کرتا ہے… ’’وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘ (2۔ تیموتاؤس3:5)… جعلی کلیسیا شیطان کی گہری باتوں کو جانتی ہے اور خُدا کی گہری باتوں کو للکارتی ہے۔ شیطان کو وہ بہت اچھا لگتا ہے۔ اُس کو مخلصی دینے والے کے بغیر مذھب اچھا لگتا ہے… کھوئے ہوئے شخص سے بات مت کریں۔ غیرنجات یافتہ کو تبدیل کرنے کی کوشش مت کریں۔ صرف اِس کو خوبصورت، لطوریائی اور شاندار بنائیں، مگر اِس میں سے بچانے والے نجات دہندہ [مسیح] کو نکال دیں۔ وہ شیطان ہے۔ [وہ اِس دُنیا کا خُدا ہے]۔
     اور وہ اتنا ہی شاندار جتنا کہ وہ ہے، وہ نور کا فرشتہ جو ہے، جن کو [شیطان] دھوکہ دیتا ہے احتیاط کے ساتھ اُن کے حتمی نتائج کو چھپا دیتا ہے (ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل، پی ایچ۔ ڈی۔ W. A. Criswell, Ph.D.، ’’ابلیس کی برگشتگی The Fall of Lucifer،‘‘ بائبل کے عظیم عقائد – فرشتوں کا علم الٰہیات Great Doctrines of the Bible – Angelology‘‘ جلد ہفتم، ژونڈروان اشاعتی گھرZondervan Publishing House، 1987، صفحات93۔95)۔

لیکن وہ مسیح کے بغیر زندگی کی تباہی کو چُھپا دیتا ہے۔ وہ خالی پن اور دُکھوں کو چُھپا دیتا ہے۔ وہ غیرمسیحی موت اور مایوس کُن قبر کو چُھپا دیتا ہے۔ وہ غیرنجات یافتہ مُردوں کی آخر عدالت کو چُھپا دیتا ہے۔ وہ دائمی آگ کی جھیل کے شعلوں میں ایک جان کے دائمی عذاب اور اذیت کو چُھپا دیتا ہے! وہ شیطان ہے۔ وہ دُنیا کا خُدا ہے!

اور وہ یہی ہستی ہے، یہی شیطان ہے جس کے بارے میں رسول نے بتایا ہے،

’’اگر ہماری خوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے: چونکہ اِس جہاں کے خُدا نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے، اِس لیے وہ خُدا کی صورت یعنی مسیح کے جلال کی خوشخبری کی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں4:3، 4)۔

I۔ پہلی بات، اُن سے کیا چُھپا ہوا ہے جو کھوئے ہوئے ہیں۔

کیوں، یہ خوشخبری ہے، ’’مسیح کی جلالی خُوشخبری۔‘‘ یہ ہے جو آپ میں سے اُن سے چُھپی ہوئی ہے جو کھوئے ہوئے ہیں۔ مسیح کی خوشخبری سیکھنے کے لیے ایک انتہائی سادہ سی بات ہے۔ آپ پانچ منٹوں سے بھی کم میں خوشخبری کے بنیادی حقائق کو سیکھ سکتے ہیں۔ پولوس رسول خوشخبری کو کلام پاک کی دو چھوٹی سی آیات میں پیش کرتا ہے۔ اُس نے کہا،

’’کتابِ مقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قُربان ہُوا، دفن ہُوا اور کتابِ مقدس کے مطابق تیسرے دِن زندہ ہوگیا‘‘ (1۔ کرنتھیوں 15:3،4).

یہ ایک ہی جملے کا واحد حصہ ہے۔ ایک جملہ خوشخبری کو بیان کرتا ہے!

پہلی بات، ’’مسیح ہمارے گناہوں کے لیے مرا تھا۔‘‘ وہ مسیح تھا جو ہمارے گناہوں کے لیے مرا تھا کوئی دوسرا شخص نہیں تھا۔ وہ یسوع مسیح تھا جس کو خُدا نے آسمان سے بھیجا تھا۔ وہ مسیح تھا جو کنواری مریم سے پیدا ہوا تھا۔ وہ مسیح تھا جو بغیر گناہ کے پیدا ہوا تھا، جو بغیر گناہ کے جیا تھا۔ وہ مسیح ہی تھا جس کے بارے میں یہاں تک کہ رومی گورنر پیلاطوس نے کہا، ’’میں تو اِس شخص کو مجرم نہیں سمجھتا‘‘ (یوحنا18:38)۔ بالکل بھی کوئی قصور نہیں! کتنی سچی بات ہے۔ یہاں تک کہ اُ س کے دشمنوں کو بھی اُن میں کوئی جرم کوئی قصور نظر نہیں آتا تھا۔ اُنہیں اُس کے بارے میں جھوٹ بولنا پڑا تھا، اور کہنا پڑا کہ اِس نے کہا کہ یہ تین دِن میں ہیکل کو دوبارہ تعمیر کروا دے گا، جو اُس نے کبھی بھی نہیں کہا تھا! یہ ایک جھوٹ تھا! اُنہیں جھوٹ بولنا ہی تھا تاکہ اُس کا قتل کیا جانا قابلِ وجہ دکھائی دے۔ یہ یسوع مسیح تھا، جس نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا تھا، اور جس نے لوگوں کی مدد کرنے کے سوا کبھی بھی کچھ نہیں کیا تھا۔ یہ کامل، گناہ کے بغیر خُدا کا بیٹا تھا۔

دوسری بات، ’’مسیح ہمارے گناہوں کے لیے مرا تھا۔‘‘ مسیح صلیب پر ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ہماری جگہ پر مرا تھا۔ پطرس رسول نے کہا،

’’مسیح نے بھی یعنی راستباز نے ناراستوں کے گناہوں کے بدلہ میں ایک ہی بار دُکھ اُٹھایا‘‘ (1۔ پطرس 3:18).

اشعیا نبی نے مسیح کے بارے میں کہا،

’’وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا‘‘ (اشعیا 53:5).

’’خداوند نے ہم سب کی بدکاری اُس پر لاد دی‘‘ (اشعیا 53:6).

یہ مسیح ہے ہمارا متبادل۔ وہ ہماری جگہ پر مرا تھا – خُدا کی نظروں میں ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے۔

تیسری بات، ’’اُس کو دفنایا گیا تھا، اور … تیسرے روز دوبارہ جی اُٹھا تھا۔‘‘ وہ واقعی میں صلیب پر مرا تھا۔ اُس کے مُردہ بدن کو قبر میں رکھا گیا تھا۔ اُنہوں نے قبر کا منہ مہربند کیا تھا اور اُس کے جسم کو وہیں پر چھوڑ دیا تھا۔مگر تیسرے دِن وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ وہ جسمانی طور پر مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا – ہمیں زندگی بخشنے کے لیے،

’’جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے‘‘ (یوحنا 3:15).

یہ خوشخبری ہے! یہ اتنی ہی سادہ ہے جتنی کہ وہ!

’’جب ہم گنہگارہی تھے تو مسیح نے ہماری خاطر اپنی جان قربان کردی۔ پس جب ہم نے مسیح کے خُون بہانے کے باعث راستباز ٹھہرائے جانے کی توفیق پائی تو ہمیں اور بھی زیادہ یقین ہے کہ ہم اُس کے وسیلہ سے غضب اِلٰہی سے ضرور بچیں گے‘‘ (رومیوں 5:8۔10).

وہ خوشخبری ہے۔ ایک بچہ اِن حقائق کو پانچ منٹوں میں سیکھ سکتا ہے! آپ میں سے وہ لوگ جو اِس گرجہ گھر میں دو یا تین مرتبہ پہلے بھی آ چکے ہیں اِن حقائق کو جانتے ہیں۔ آپ نے پہلے ہی خوشخبری کے حقائق کو سیکھ لیا ہے۔ اور اِس کے باوجود… اور اِس کے باوجود… اور اِس کے باوجود آپ نجات یافتہ نہیں ہیں۔ آپ کو خوشخبری کا معلوم ہے، لیکن آپ نجات یافتہ نہیں ہیں۔ ’’اگر ہماری خوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو یہ صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں4:3)۔

II۔ دوسری بات، کیوں خوشخبری اُن سے پوشیدہ ہے جو کھوئے ہوئے ہیں۔

جواب ہماری تلاوت میں ہے، ’’اِس جہاں کے خُدا نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے‘‘ (2۔کرنتھیوں4:4)۔ شیطان ’’اِس جہاں کا خُدا‘‘ کہلاتا ہے۔ یوحنا12:31 میں شیطان کو ’’اِس دُنیا کا شہزادہ‘‘ کہا گیا ہے۔ 1۔ یوحنا5:19 میں ہمیں بتایا گیا ہے،

’’ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں ہے‘‘ (1۔ یوحنا 5:19).

سیکوفیلڈ کی مرکزی غور طلب بات اس کا ترجمہ یوں کرتی ہے،

’’ساری دُنیا اُس ایک شریر کے قبضہ میں ہے‘‘

اور نئی امریکہ معیاری بائبل NASV یوں پیش کرتی ہے،

’’ساری دُنیا اُس ایک بُرائی کی قوت کے قبضے میں ہے۔‘‘

یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ (اِس کائنات) دُنیا کا نظام اُس کے بے دین حکمرانوں، جھوٹے مذاھب، بدکار لوگوں اور چالباز تصورات کے ساتھ شیطان کے قبضے میں ہے۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت کے تصورات، آرائیں، مقاصد اور نظریات اِس زمانے کی دُنیاوی روح کے قبضے میں ہیں۔ ایلیکوٹ Ellicott نے اِس کو کہا ’’نفرت اور جعل سازی اور خودغرضی کی روح [جو] عملی طور پر ابلیس کو معبود مانتی ہے‘‘ (ایلیکوٹ کا تمام بائبل پر تبصرہ Ellicott’s Commentary on the Whole Bible، جلد ہفتم، ژونڈروان Zondervan، n.d.، صفحہ 375؛ 2۔کرنتھیوں4:4 پر غور طلب بات)۔

اور ایلیکوٹ نے کہا کہ ’’اِس جہاں کا خُدا براہ راست خُدا کے [کاموں] سے عداوت میں ہے‘‘ (ibid.)۔ یہ ہے جو ’’شیطان‘‘ نام کا مطلب ہوتا ہے – مخالف، عداوت رکھنے والا، دشمن، حریف۔

آپ نے شاید اِس کا احساس نہ کیا ہو، مگر ہر کوئی جو غیرنجات یافتہ ہوتا ہے خُدا کی مخالفت کرتا ہے۔ ہر کوئی! کوئی مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاتا! وہ جو ہماری انجیلی بشارت کا کام ٹیلی فون پر کرتے ہیں اِس کو تجربے سے جانتے ہیں۔ اُنہیں ایسا کوئی بھی نہیں ملتا جو گرجہ گھر میں آتا ہے اور بغیر جدوجہد کیے نجات پا لیتا ہے – اکثر اوقات ایک انتہائی شدید، بہت بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے! اور یہ اُنہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو اصل میں آتے ہیں! وہ صرف جدوجہد کے ساتھ آتے ہیں۔ مگر ایک بہت بڑی اکثریت بالکل بھی نہیں آئے گی! یہ خصوصی طور پر سفید امریکیوں کے لیے سچ ہے – مگر، ایک طرح سے یا دوسری طرح سے لیں، یہ ہر دوسرے تہذیبی گروہ کے بارے میں بھی سچ ہے۔ یہاں تک کہ ایک ’’نفیس‘‘ چینی ماں بھی کہے گی، ’’ٹھیک ہے، وہ آ سکتی ہے۔ مگر اُس کو بپتسمہ مت دینا!‘‘ وہ اِس قسم کی بات اِس قدر اکثر کرتے ہیں کہ آپ احساس کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے دِلوں میں خُدا کے خلاف ہیں۔ اُن کی سوچیں اِس جہاں کے قبضے میں ہیں، جیسا کہ ایلیکوٹ نے اِس کو لکھا، ’’جعل سازی اور خودغرضی کی روح‘‘ (ibid.)۔

میں نے اِس گرجہ گھر کا آغاز اپریل، 1975 میں کیا تھا – اور میں چالیس سال تک اِس جہاں کی روح کے ساتھ ایک بہت بڑی جدوجہد سے، کبھی نہ ختم ہونے والی، اذیت دینے والی کشمکش سے گزرا ہوں، اُن کے ساتھ جن کے دِلوں پر شیطان کا قبضہ ہے، جو خُدا اور اُس کے لوگوں کے حریف اور مخالف ہیں۔ افسیوں 2:2 میں شیطان کو ’’ہوا کی عملداری کا حاکم، جس کی روح ابھی تک نافرمان لوگوں میں تاثیر کرتی ہے‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ ہے شیطان! یہ ہے اِس جہاں کا خُدا! یہ ہے سچے خُدا کا دشمن! وہ ہر انسانی دِل میں اُس کو حقیقی مسیحی بننے سے روکتا ہے۔ یہ صرف میری ہی رائے نہیں ہے۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones کو سُنیے، جو ایک برطانوی مبلغ ہیں، جنہیں بیسویں صدی کے عظیم ترین مبلغین میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا،

شیطان ہمیشہ ہی ہمیں تذبذب میں ڈالنے کے انتظار میں ہوتا ہے۔ وہ خُدا کے کام کو تباہ کرنا چاہتا ہے… سمجھ سے انتہائی بالاتر طریقوں سے، وہ اپنی سوچوں کو داخل کر دیتا ہے (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، روحانی برکات Spiritual Blessing، کنگزوے پبلیکیشنز Kingsway Publications، 1999، صفحہ158)۔

ایک اور مقام پر ڈاکٹر لائیڈ جونز نے ابلیس کے بارے میں کہا، اُس کی سب سے بڑی جدوجہد مردوں اور عورتوں کو خدا سے جُدا کرنا ہے۔‘‘ ’’[شیطان] خُدا کا سب سے بڑا فریق مخالف ہے: وہ اپنی تمام تر ذات کے ساتھ خُدا سے نفرت کرتا ہے‘‘ (مستند مسیحیت Authentic Christianity، جلد چہارم، دی بینر آف ٹُرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، 1966، صفحہ42)۔ شیطان – ہی وہ ہستی ہے جو آپ کے ذہنوں کو اندھا کر دیتا ہے اور آپ سے خوشخبری کو پوشیدہ رکھتا ہے۔

III۔ تیسری بات، خوشخبری اُن سے کیسے چُھپی ہوئی ہے جو کھوئے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر لائیڈ جونز نےکہا، ’’ابلیس ہمیشہ سے ہمیں تذبذب میں ڈالنے کے لیے انتظار کر رہا ہے۔‘‘ خوشخبری جلالی ہے، شاندار ہے جو ہمیں آزادی اور اُمید دلا رہی ہے۔ ابلیس نہیں چاہتا کہ آپ کو اُس میں سے کچھ بھی ملے! ہماری تلاوت کہتی ہے کہ اُس نے ’’اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے، اِس لیے وہ خُدا کی صورت یعنی مسیح کے جلال کی خوشخبری کی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہیں۔‘‘ شیطان ’’ہمیشہ سے ہی ہمیں تذبذب میں ڈالنے کے لیے انتظار میں رہتا ہے۔‘‘ میں آپ کو چند ایک طریقے پیش کرنے جا رہا ہوں جن سے شیطان لوگوں کو پریشان کرتا ہے اور اُنہیں یسوع پر بھروسہ کرنے سے باز رکھتا ہے۔ مجھے بے شمار طریقے بتانے کی ضرورت نہیں ہےکیونکہ شیطان انتہائی زیادہ طریقے استعمال کرتا ہی نہیں ہے۔ اُس کو ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ آسانی سے آپ کو نرغے میں لے لیتا ہے اور محض چند ایک چالبازیوں کے ساتھ ہی آپ کو غلام بنا لیتا ہے۔ درج ذیل اُس کی تین چالبازیاں ہیں جو وہ آپ کو نجات پانے سے روکنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

1. شیطان اپنے آپ کو آپ کے ذہن میں داخل کرتا ہے اور آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، ’’یہاں تو بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ گرجہ گھر آنے کی حد تک تو بات ٹھیک ہے لیکن اگر میں ایک حقیقی مسیحی بن جاتا ہوں تو مجھے بے شمار باتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔‘‘ یسوع نے اُس شیطانی سوچ کا ایک سوال کے ساتھ جواب دیا۔ یسوع اکثر ایک سوال کا جواب دوسرا سوال پوچھنے سے دیتا تھا۔ اگر شیطان آپ سے کہتا ہے ’’اِس کے لیے تو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے،‘‘ یسوع کہتا ہے، ’’ایک شخص اپنی جان کے بدلے میں کیا دے گا؟‘‘ ’’اگر آدمی ساری دُنیا حاصل کر لے اور اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا حاصل ہوگا؟‘‘ (مرقس8:36، 37)۔ اگر آپ کو وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو دُنیا پیش کرتی ہے اور آپ اپنی جان کھو دیتے ہیں تو آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدنصیب ہو جائیں گے، بغیر کسی خوشی کے، بغیرکسی مسرت کے، بغیر کسی اُمید کے – تمام ابدیت تک کے لیے مکمل طور پر مایوس۔

2. شیطان اپنے آپ کو آپ کے ذہن میں داخل کرتا ہے اور آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، میں ہر اِتوار کو گرجہ گھر میں آ رہا ہوں۔ میں یہاں گرجہ گھر میں ہر عبادت کے لیے ہوتا ہوں۔ میرے خیال میں مَیں ٹھیک جا رہا ہوں۔‘‘ سپرجیئن Spurgeon نے کہا، ’’وہ مسیح کی نہیں سُنیں گے جب وہ کہتا ہے، ’وہ جو بے اعتقادہ ہے معلون ٹھہرایا جائے گا،‘‘ چاہے اُس کا اخلاقی کردار کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ جی نہیں، وہ ہلکے اور خوشگوار دِل کے ساتھ تباہی کے لیے… جانا جاری رکھتے ہیں۔ یقینی طور پر یہ لوگ شیطان کے ذریعے سے اندھے ہو چکے ہوتے ہیں۔‘‘

3. شیطان اپنے آپ کو آپ کے ذہن میں داخل کرتا ہے اور آپ کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، ’’مجھے ایک یقینی احساس ہونا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ پادری کہتا ہے مجھے ایک احساس کی تلاش نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر مجھے احساس نہیں ہوتا ہے تو میرے پاس ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan کو تفتیشی کمرے میں بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر کیگن کہیں گے، ’مجھے اِس کے بارے میں بتاؤ۔‘ میرے پاس بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا اگر میں کسی احساس کا تجربہ نہیں کرتا ہوں۔‘‘ اُس بوڑھے برطانوی مبلغ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز کی سُنیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’نجات کے بعد سائلوں سے نمٹتے ہوئے کتنی مرتبہ اکثر کسی کو نشاندہی کرنی پڑتی کہ نیا عہد نامہ کبھی بھی نہیں کہتا، ’جو کوئی محسوس کرتا ہے نجات پائے گا،‘ بلکہ ’’جو کوئی ایمان لاتا ہے،‘… اِس لیے آپ کے لیے یہ ہی کہنا [کافی ہے]، ’میں اِسی پر اپنی زندگی بسر کرتا ہوں؛ چاہے میں محسوس کروں یا نہ کروں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ ہم احساس کرنے سے نہیں نجات پاتے بلکہ یسوع میں یقین کرنے سے نجات پاتے ہیں۔‘‘‘ (خُدا میں زندگی Life in God، کراسوے کُتب Crossway Books، 1995، صفحہ 105)۔


اب میں جانتا ہوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو میں نے کہا کہ وہ آپ کی مدد کرے گا جب تک کہ خُدا یہ سمجھنے میں مدد نہیں کرے گا کہ آپ خود اپنے آپ ہی شیطان سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔ آپ کو دیکھنا چاہیے کہ آپ مسیح کو منتخب نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’وہ ’اِس جہاں کا خُدا‘‘ [آپ] کے لیے ایسا کرنا ناممکن بنا دیتا ہے‘‘ (یقین دہانی Assurance، بینر آف ٹرتھ Banner of Truth، 1971، صفحہ310)۔ اگر آپ واقعی میں خود کے ساتھ اور خُدا کے ساتھ ایماندار ہو جاتے ہیں تو آپ کا دِل پکار اُٹھے گا، ’’میں کھویا ہوا ہوں! اے یسوع، مجھے بچا لے۔‘‘ اُس جیسے ایک لمحے میں، یسوع آپ کے پاس آئے گا اور وہ آپ کو بچا لے گا۔

سُنیے یہ کس قدر سادہ تھا اُس کوڑھی کے لیے جس کے بارے میں ہم نے چند ہی دِن پہلے مرقس کے انجیل میں پڑھا تھا۔ وہ شخص یسوع کے پاس آیا، اور دوزانو ہوا۔ اُس نے یسوع سے کہا، ’’اگر تیری مرضی ہو، تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔‘‘

’’اور یسوع نے اُس پر ترس کھا کر اپنا ہاتھ بڑھایا … اور اُس سے [کہا] میں چاہتا ہُوں کہ تُو پاک صاف ہوجائے … اور وہ پاک صاف ہوگیا‘‘ (مرقس 1:41،42).

اوہ، کوئی اور بھی آج کی صبح اُسی طرح یسوع کے پاس آئے گا۔ ’’اگر تیری مرضی ہو، تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔‘‘ میں کروں گا؛ تو پاک صاف ہو جا‘‘ – اور وہ پاک صاف ہو گیا۔ وہ خوشخبری ہے! وہ نجات کی خوشخبری ہے! وہ ہی آپ کی واحد اُمید ہے! شیطان سے اور اُس کے جھوٹ سے دور ہو جائیں! ’’یسوع، اگر تو چاہے، تو مجھے پاک صاف کر سکتا ہے۔‘‘ میں کروں گا؛ تو پاک صاف ہو جا۔‘‘ اگر آپ سپرجیئن کی لکھی ہوئی اِس چھوٹی سی نظم پر یقین کر سکتے ہیں تو آپ فوراً ہی یسوع کے وسیلے سے نجات پا لیں گے۔

ایک قصور وار، کمزور اور بے بس کیڑا،
   مسیح کے مہربان بازوؤں میں مَیں گِرتا ہوں؛
وہ ہی میری قوت اور راستبازی ہے،
   میرا یسوع اور میرا سب کچھ۔

اور مسیح میں خوشی مناتے ہوئے ایسے ہی اپنی راہ پر چلتے رہیں! اے آسمانی باپ میں دعا مانگتا ہوں کہ آج کی صبح یہاں پر کوئی نہ کوئی یسوع کی بانہوں میں گِرے اور بچا لیا جائے۔ آمین۔

اور میں جانتا ہوں، جی ہاں، میں جانتا ہوں،
   یسوع کا خون غلیظ ترین گنہگار کو بھی پاک صاف کر سکتا ہے،
اور میں جانتا ہوں، جی ہاں، میں جانتا ہوں،
   یسوع کا خون غلیظ ترین گنہگار کو بھی پاک صاف کر سکتا ہے۔
(’’جی ہاں، میں جانتا ہوں!Yes, I Know! ‘‘ شاعر آنہ ڈبلیو۔ واٹرمینAnna W. Waterman ، 1920)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: 2۔ کرنتھیوں4:3۔6.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
      ’’جی ہاں، میں جانتا ہوں!Yes, I Know! ‘‘ (شاعر آنہ ڈبلیو۔ واٹرمینAnna W. Waterman ، 1920)۔

لُبِ لُباب

شیطانی اندھا پن

SATANIC BLINDING

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز،جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اگر ہماری خوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے: چونکہ اِس جہاں کے خُدا نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے، اِس لیے وہ خُدا کی صورت یعنی مسیح کے جلال کی خوشخبری کی روشنی کو دیکھنے سے محروم ہیں‘‘ (2۔ کرنتھیوں4:3، 4)۔

(2۔ تیموتاؤس3:5)

I.    پہلی بات، اُن سے کیا چُھپا ہوا ہے جو کھوئے ہوئے ہیں، 1۔ کرنتھیوں15:3، 4؛ یوحنا18:38؛ 1پطرس3:18؛ اشعیا53:5، 6؛ یوحنا3:15؛ رومیوں5:8۔10.

II.   دوسری بات، اُن سے خوشخبری کیوں چُھپی ہوئی ہے جو کھوئے ہوئے ہیں، یوحنا12:31؛
1۔یوحنا5:19؛ افسیوں2:2.

III.  تیسری بات، خوشخبری اُن سے کیسے چُھپی ہوئی ہے جو کھوئے ہوئے ہیں، مرقس8:36، 37؛
مرقس1:41، 42