Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

پاک روح کے خلاف کُفر

BLASPHEMY AGAINST THE HOLY SPIRIT
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 18 جنوری، 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, January 18, 2015

’’اِس لیے میں تُم سے کہتا ہُوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر معاف کیا جائے گا لیکن جو کفر پاک رُوح کے خلاف ہوگا وہ انسان کو نہیں بخشا جائے گا۔ اگر کوئی ابنِ آدم کے خلاف کچھ کہتا ہے تو اُسے بھی معاف کردیا جائے گا لیکن جو پاک رُوح کے خلاف کچھ کہتا ہے اُسے نہ تو اِس دنیا میں معاف کیا جائے گا نہ آنے والی دنیا میں‘‘ (متی 12:31۔32).

آج کی صبح میں نے شدت کے ساتھ ’’امریکہ کیوں بائبل کی پیشنگوئی میں نہیں ہے Why America is Not in Bible Prophecy‘‘ پر واعظ دیا تھا۔ میری تلاوت عاموس8:2 میں سے تھی، ’’میری قوم اسرائیل کا وقت آ پہنچا ہے؛ اب میں اِسے دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ ’’اب میں اِسے دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ وہ میری تلاوت تھی۔ جب خُدا مذید اور آپ کے پاس فضل بخشنے کے لیے نہیں آتا تو کچھ بھی انتظار نہیں کر رہا ہوتا ماسوائے انصاف کے۔ یہ ایک شخص کے ساتھ ہو سکتا ہے اور یہ ایک قوم کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ’’اب میں اِسے دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ جب ایسا ایک قوم کے ساتھ ہوتا ہے، تو اِس کو شدید نفرت کا شکار ہونے دیا جاتا ہے۔ جب ایسا ایک شخص کے ساتھ ہوتا ہے تو اِس کو ناپسندیدہ خیالوں کا شکار ہونے دیا جاتا ہے، اُس کا ذہن مذید اور خُدا کے کلام کو قبول نہیں کرتا، اُن کا دِل پاک روح مذید اور نہیں چھوتا – بائبل کہتی ہے، ’’خُدا نے اُنہیں ناپسندیدہ خیالوں کا شکار ہونے دیا‘‘ (رومیوں1:28)، adŏkīmŏs noǔs (دو کوڑی کا، مسترد کیا ہوا، تباہ ہوا ذہن!) وہ ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے! وہ موت کے لیے گناہ ہے!

میں لاس اینجلز کے مرکزی علاقے میں، فلاور سٹریٹ پر، تثلیثی میتھوڈسٹ گرجہ گھر کے مقدس مقام پر کھڑا تھا۔ یہ وہ گرجہ گھر تھا جہاں پر ’’لڑاکو باب Fighting Bob‘‘ شولر نے پادری کی خدمات سر انجام دیں، جہاں پر اُنہوں نے ایمان کے لیے سنجیدگی کے ساتھ جانفشانی کی، جہاں کی واعظ گاہ سے اور ریڈیو پر دہائیوں تک مسیح کی خوشخبری کی منادی کی جاتی رہی۔ میں ایک دور کے اُس عظیم گرجہ گھر کے مقدس مقام میں کھڑا تھا جبکہ دیواروں میں سے ایک پر ایک تباہ کرنے والا گیند اُسے گرانے کے لیے ہتھوڑے کی مانند برس رہا تھا، اور عمارت سچی مچی میں میرے اردگرد ڈھے رہی تھی۔ کسی نے بھی پرواہ نہیں کی۔ کوئی ایک آنسو بھی نہیں بہا۔ باب شُلر Bob Shuler کے بیٹے کچھ ہی منٹوں کی مسافت پر رہتے تھے۔ یہ اُن کے بچپن کا گرجہ گھر تھا۔ مگر وہ اُس دِن جب اُس عمارت کو بُلڈوزرز کے ساتھ روندا گیا وہاں پر نہیں تھے۔ اُنہوں نے پرواہ نہیں کی۔ نا ہی کسی اور نے پرواہ کی! ’’میں اب اِسے دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

اِس عمارت سے کچھ فاصلے پر نیچے سڑک پر 550 ساؤتھ ہوپ سٹریٹ پر، آزادنہ رسائی کا عظیم گرجہ گھر موجود تھا۔ اُس کے بانی پادری ڈاکٹر آر۔ اے۔ ٹورے Dr. R. A. Torrey تھے۔ میری نوجوانی میں اِس میں پادری کی خدمات ریڈیو کے مشہور بائبل ٹیچر ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee (1904۔1988) کی تھی۔ اِس میں پانچ ہزاروں لوگوں کی گُنجائش ہے۔ اُنہوں نے اِس کو 27 ملین ڈالرز میں فروخت کر دیا۔ اُنہوں نے سوچا یہ بہت زیادہ قیمت تھی۔ مگر تقریبا دس سال بعد یہ 227 ملین ڈالرز میں بِکا۔ وہ بزرگان چھوٹے ذہن کے لوگ تھے۔ اُن کے ہاتھ کانپتے تھے۔ اُن کے چہرے خوف سے پیلے پڑ گئے تھے۔ اُنہوں نے سوچا، ’’اگر ہم ٹھہرے تو کچھ نہ کچھ کھو دیں گے!‘‘ اور اِس طرح، خوف میں آ کر اور خُدا میں ایمان کی کمی کی وجہ سے اُنہوں نے 200 ملین ڈالرز کھو دیے! ایک اور گرجہ گھر نے اِسے خریدنے کے بارے میں سوچا۔ مگر اُن کے مُناد بھی چھوٹے ذہن کے اور خوف سے بھرے ہوئے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے بھی ایک عمارت کو کھو دیا جس کو اُنہیں پا لینا چاہیے تھا – وہ اُس کو 27 ملین ڈالرز میں پا سکتے تھے۔ اُنہوں نے بھی 200 ملین ڈالرز کھو دیے۔ اور لاس اینجلز کا اندرونی شہر ایک تاریک کھڈا بن گیا، مسیح اور خُدا کی گواہی کے بغیر! ’’اب میں اِسے دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

پھر خُدا نے ہمیں اِس عمارت میں جو ہوپ سٹریٹ پر واقع ہے لا ڈالا – جو باب شُلر کے گرجہ گھر سے تین بلاک اور ڈاکٹر میگی کے گرجہ گھر سے آٹھ بلاک کے فاصلے پر ہے – لاس اینجلز کے دِل میں۔ ہمارے بھی بدکار رہنما تھے جن کی سوچیں چھوٹی تھیں اور جن کے دِل خوف سے بھرپور تھے۔ اُنہوں نے چھوڑا اور ہمارے 300 لوگ اپنے ساتھ لے گئے۔ مگر بڑے دِل والے اور بے خوف مرد اور عورتوں نے اِس عمارت کو بچا لیا اور اِس کی قیمت چکائی۔ انجیل کی خوشخبری اب اِس گرجہ گھر کی عمارت سے باہر پھیلتی ہے – 29 زبانوں میں، دُنیا کے چاروں کونوں میں۔

مگر آج کی رات میں نوجوان لوگوں سے کہتا ہوں، کیا آپ اتنے بڑے ہونگے اور اتنے مضبوط ہونگے اور اتنے ہی روحانی ہونگے کہ اِس کو چلتا ہوا جاری رکھیں جب ہم لوگ نہ رہیں؟ یا خُدا کہے گا، ’’اب میں اُنہیں دوبارہ نہیں چھوڑوں گا‘‘؟ اگر ایسا رونما ہوتا ہے تو اِس گرجہ گھر سے بھی موت تک کے لیے گناہ سرزد ہو جائے گا اور خُدا کہہ چکا ہوگا، ’’اب میں اُنہیں دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ اِس کو سرسری طور پر مت لیں! یہ مت سوچیں یہ رونما نہیں ہوگا! مکاشفہ کے پہلے تین ابواب میں موجود تمام کی تمام ساتوں کلیسیائیں جا چکی ہیں۔ اُن میں سے کسی میں سے بھی کوئی بھی علامت، یا ٹوکن نہیں ہے، کوئی بھی سُراغ یا انسان کی بنائی ہوئی کوئی بھی شے نہیں بچی۔ ہم بالکل بھی نہیں جان پاتے کہ اُن کا کبھی وجود بھی تھا اگر اُن کے نام اور اُن کے ریکارڈ مکاشفہ کے اُن تین ابواب میں لکھے ہوئے نہ ہوتے۔ کیا اب سے پچاس سال بعد ہمارے گرجہ گھر کا کوئی نشان یا کوئی ٹوکن یا کوئی سراغ ہوگا جو اِس کی وجودیت کو ظاہر کرتا ہو؟ یا کیا اِس سے بھی بہت ہی پہلے خُدا کہہ چکا ہوگا، ’’اب میں اُنہیں دوبارہ نہیں چھوڑوں گا‘‘؟ یہی وجہ ہے کہ آپ کو حیات نو کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہو جانا چاہیے! ہمارے لیے یہ بقا کے لیے حیات نو ہے، کیونکہ بغیر حیات نو کے ہم ایک گرجہ گھر کی حیثیت سے اور ایک گواہ کی حیثیت سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ کیوں اتنی دور شہر کے مرکز میں جایا جائے جبکہ صرف ایک بلاک کے فاصلے پر گرجہ گھر ہے؟ اگر یہ گرجہ گھر اپنی زندہ دِلی کو کھو دیتا ہے (اور یہ حیات نو کے بغیر کھو دے گا) تو پھر اِس کے پاس لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے کچھ بھی خاص باقی نہیں بچے گا… اور یہ مرنا شروع ہو جائے گا۔

حیات نو کا انحصار بہت شدت کے ساتھ اِس بات پر ہوتا ہے کہ آیا آپ نوجوان لوگ موت تک کے لیے گناہ کا اِرتکاب کرتے ہیں یا نہیں۔ اِس گرجہ گھر کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے! اگر آپ میں سے زیادہ تر نوجوان لوگ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کرتے ہیں تو اِس عمارت کے لیے، اِس کام کے لیے، یا اِس عالمگیری مذہبی منادی کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہوگا! خُداوند ہماری مدد کرے!

میں اب یقین کرتا ہوں کہ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کرنا آسان ہے۔ آپ کو صرف اتنا ہی کرنا ہے کہ گرجہ گھر میں بیٹھ جائیں اور انتظار کریں۔ خود کے بچائے جانے کے بارے میں اپنے آپ کو پریشان مت کیجیے۔ صرف بیٹھے رہیں اور انتظار کریں۔ آپ جلد ہی ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کر جائیں گے – آپ کی سوچ سے بھی بہت پہلے! آپ کی سوچ سے بھی بہت آسان! آپ کے سوچنے سے بھی بہت پہلے موت کی علامتیں آنا شروع ہو جائیں گے۔ یہاں چند ایک ہی بزرگ باقی بچے ہیں۔ آپ کے بال بھی کم ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ آپ اپنے چہرے پر چند جُھریاں دیکھتے ہیں جو کہ وہاں پر پہلے نہیں تھیں۔ وہ موت کے پیغامبر ہیں۔ موت کا وہ سرد، پیلا دشمن آپ کے پیچھے ہی کھڑا ہے۔ بائبل کہتی ہے، ’’انسان کا ایک بار مرنا اور اُس کے بعد عدالت کا ہونا مقرر ہے‘‘ (عبرانیوں9:27)۔

عربی دُنیا میں بصرہ میں ایک نوکر کے بارے میں کہانی بتائی جاتی ہے۔ وہ اپنے آقا کے پاس آیا اور کہا، ’’میں نے آج بصرہ کی سڑکوں پر موت کو دیکھا۔ موت نے مجھ پر نظر ڈالی۔ میرے آقا، مجھے آپ برق رفتار گھوڑا مستعار دیجیے تاکہ میں بغداد کے لیے فرار ہو سکوں۔‘‘ آقا نے اپنا برق رفتار گھوڑا اُسے مستعار دے دیا – اور نوکر جتنی تیزی سے ہو سکتا تھا بغداد کے لیے روانہ ہو گیا۔ اگلے دِن آقا بصرہ میں سڑک پر پیدل جا رہا تھا جب اُس کی ملاقات موت کے ساتھ ہوئی۔ وہ چل کر اُس کے پاس گیا اور کہا، ’’اے موت، میرے نوکر کو اِس قدر زیادہ خوفزدہ کرنے سے تمہارا کیا مطلب تھا؟‘‘ موت نے کہا، ’’جناب، میرا اُس کو خوفزدہ کرنے کا اِرادہ نہیں تھا۔ میں تو صرف اُس کو بصرہ میں سڑک پر دیکھ کر حیران تھی۔ آپ دیکھیں نہ، کل میرا اُس سے بغداد میں ملنے کا وقت مقرر ہے!‘‘ انسان کے لیے ایک مرتبہ مرنا مقرر ہے۔ ٹھیک اُسی وقت، ٹھیک اُسی جگہ پر آپ یقینی طور پر مر جائیں گے۔ پھر آپ کے بارے میں خدا کے ذریعے سے کہا جائے گا، ’’میں اب اُنہیں دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ آپ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کر چکے ہوں گے۔

’’اِس لیے میں تُم سے کہتا ہُوں کہ آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر معاف کیا جائے گا لیکن جو کفر پاک رُوح کے خلاف ہوگا وہ انسان کو نہیں بخشا جائے گا‘‘ (متی 12:31).

وہ کیا گناہ ہے جو ’’انسان کو نہیں بخشا جائے گا‘‘؟ یہ یسوع کے بچائے جانے والے فضل کے لیے پاک روح کی گواہی کے خلاف گناہ ہے۔ جب ایک مرد یا عورت بار بار پاک روح کی گواہی کو مسترد کرتا ہے، وہ شخص ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کرتا ہے۔ وہ واحد گناہ جس کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جا سکتا اُس وقت سرزد ہوتا ہے جب ایک آدمی یا عورت یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے پاک روح کی بُلاہٹ سے انکاری کرتا ہے۔ اِس کے بارے میں عبرانیوں کی کتاب کے چھٹے باب میں بتایا گیا ہے۔ مسٹر پردھوم Mr. Prudhomme نے اِس کو ایک لمحہ پہلے ہی پڑھا تھا۔

’’کیونکہ یہ ناممکن ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل نُورِ الٰہی سے روشن ہو چُکے ہیں اور جو آسمانی بخشش کا مزہ چکھ چُکے ہیں، جو پاک رُوح پا چُکے ہیں، جو خدا کے عمدہ کلام اور آنے والی دُنیا کی قوتوں کا ذائقہ لے چُکے ہیں، اگر وہ اپنے ایمان سے برگشتہ ہو جائیں تو اُنہیں پھر سے توبہ کی طرف مائل کرنا ممکن نہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنی اِس حرکت سے دوبارہ صلیب پر لٹکا کر اُس کی علانیہ بے عزتی کرتے ہیں‘‘ (عبرانیوں 6:4۔6).

آپ کے ساتھ کیا رونما ہوتا ہے، ’’یہ ناممکن ہے… [آپ کو] پھر سے توبہ کی طرف مائل کرنا‘‘ (عبرانیوں6:4،6)۔ ناممکن؟ یہ ہے جو خُدا نے کہا، ’’ناممکن… اُنہیں پھر سے توبہ کی طرف مائل کرنا۔‘‘ ناممکن؟ جی ہاں! یہی ہے جو خُدا نے کہا۔ ناممکن۔ یہ ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ اور خُدا کہتا ہے، ’’میں اب [اُس] کو دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ یہ اُس کو معاف نہیں کیا جائے گا، نا ہی تو اِس دُنیا میں اور نا ہی آنے والی دُنیا میں‘‘ متی12:32)۔

ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کرنا آسان ہوتا ہے۔ میرا رشتہ دار اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ایک طوائف کو ملنے کے لیے گاڑی چلا کر ٹیجوآنہ Tijuana جایا کرتا تھا۔ مگر وہ جہنم میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ ٹیجوآنہ میں ایک طوائف کو ملا تھا۔ وہ شراب کے دو سے چھے پیمانے اپنے دوستوں کے ساتھ پچھلے صحن میں بیٹھ کر پی جایا کرتا تھا۔ وہ دوسری باتیں بھی کیا کرتا تھا جو میں یہاں گرجہ گھر میں نہیں بتاؤں گا۔ مگر وہ جہنم میں اِس لیے نہیں گیا کیونکہ اُس نے وہ کام کیے تھے۔ جی نہیں، وہ جہنم میں گیا کیونکہ اُس نے ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کیا تھا۔ یہی ہے جو یسوع نے کہا، ’’آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر معاف کیا جائے گا لیکن جو کفر پاک رُوح کے خلاف ہوگا وہ انسان کو نہیں بخشا جائے گا‘‘ (متی12:31)۔

میرے رشتہ دار نے مجھے بتایا، جب اُس کے بیٹا پیدا ہوا تھا،کہ وہ اپنے گھٹنوں پر گِر گیا اور اُس نے دعا مانگی۔ جی ہاں، اور وہ خود کو بپتسمہ یافتہ بھی کہتا ہے، حالانکہ وہ کبھی بھی گرجہ گھر نہیں گیا۔ جب اُس نے مجھے بتایا کہ اُس نے دعا مانگی تھی، میں نے اُس سے یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے اور بچائے جانے کے لیے کہا۔ میں کبھی بھی بھول نہیں پاؤں گا جو اُس نے کہا۔ اُس نے کہا، ’’ہر کسی کے لیے اُس کا اپنا، رابرٹ۔ ہر کسی کے لیے اُس کا اپنا۔‘‘ اُس کا مطلب تھا ’’وہ تمہارے لیے تو ٹھیک ہے مگر میرے لیے نہیں۔‘‘ میں نے اُس کو وہ ہر مرتبہ کہتے ہوئے سُنا جب جب بھی میں نے اُس سے مسیح کے بارے میں بات کی۔ اور وقت کے گزرنے کے ساتھ اُس نے ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کیا۔

پھر وہ اچانک ہی مر گیا جب وہ صرف چالیس برس کا تھا۔ اُنہوں نے مجھے اُس کا جنازہ پڑھنے کے لیے کہا۔ اُس کے سر پر کوئی بھی سفید بال نہیں تھا۔ اُس کے چہرے پر کوئی بھی جُھری نہیں تھی۔ وہ اب بھی نوجوان آدمی ہی تھا جب وہ جہنم میں گیا۔ اور وہ جہنم میں گیا کیونکہ اُس نے ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کیا تھا۔ اور خُدا نے کہا، ’’اب میں [اُس] کو دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ یہ اُس کو معاف نہیں کیا جائے گا، نا ہی اُس دُنیا میں اور نہ ہی آنے والے جہاں میں‘‘ (متی12:32)۔

وہاں پر بے شمار لوگ تھے کیونکہ وہ ایک اچھا انسان تھا۔ ہر کوئی اُس کو پسند کرتا تھا۔ میں بھی اُس کو پسند کرتا تھا۔ وہ میرا دوست تھا۔ اُس کو مغربی لوگ پسند تھے۔ وہ تسلسل کے ساتھ مغربی لوگوں کو ہر روز رات کو ٹیلی ویژن پر دیکھا کرتا تھا۔ وہ آپ کو پرانے مغرب میں بندوق بازوں کے بارے میں سب کچھ بتا سکتا تھا۔ وہ آپ کو وائلڈ بِل ھکاک، بلی دی کڈ، ڈاک ہولیڈے، جان ویزلی ہارڈین – اور پرانے مغرب میں اُن سارے مشہور بندوق بازوں کے بارے میں بتا سکتا ہے۔ جب میرے بیٹے پیدا ہوئے تھے تو اُنہیں اِس سے ملوانے کے لیے لے کر آیا تھا۔ اُس نے اُن کے نام پوچھے۔ میں نے کہا، ’’اُن میں سے ایک کا نام جان ویزلی ہائیمرز رکھا تھا۔‘‘ وہ دوسرے کمرے تک بھاگا گیا اور ایک دوست کو فون کیا۔ میں اُس کہتا ہوا سُن سکتا تھا، ’’خُدا کی قسم، رابرٹ نے اپنے بیٹے کا نام ایک بندوق باز – جان ویزلی ہارڈین پر رکھا ہے!‘‘ وہ نہیں جانتا تھا کہ جان ویزلی کے نام سے ایک مشہور مبلغ تھا! جب میں نے اُس کے جنازے پر بات کی تو میں اُس کے خاندان یا اُس کے دوستوں کو اُمید کا ایک لفظ بھی نہیں کہہ پایا! اُمید کا ایک لفظ بھی نہیں! کیونکہ وہ ایک ایسی جگہ پر چلا گیا تھا جہاں پر کوئی اُمید نہیں ہوتی۔ دانتے الی غائیری Dante Alighieri (1265۔1321) نے اپنی مشہور کتاب دی انفرنو The Inferno میں کہا دروازے کے اوپر جہنم کے لیے ایک علامت ہوتی ہے جو کہتی ہے، ’’تمام اُمید کو چھوڑ دو، تم جو یہاں داخل ہو رہے ہو۔‘‘ میرے رشتہ دار نے ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کیا تھا۔ جب پاک روح نے اُس کے دِل سے یسوع کے بارے میں بات کی تھی، اُس نے ’’نہیں‘‘ کہا۔ اور خُدا نے کہا، ’’اب میں [اُس] کو دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ یہ اُس کو معاف نہیں کیا جائے گا، نا ہی اُس دُنیا میں اور نہ ہی آنے والے جہاں میں‘‘ (متی12:32)۔

جہنم میں کوئی ’’دوسرا موقع‘‘ نہیں ہوتا ہے۔ واعظ کی کتاب11:3 کہتی ہے، ’’جو درخت جہاں گرتا ہے وہیں پڑا رہتا ہے۔‘‘ انسان کا کردار بھی آہستہ آہستہ خبطی ہونے کے طرف بڑھتا ہے، خیالات کی بُنی ہوئی سخت اور ثابت قدم عادتوں کی جانب۔ ایک شخص جو اِس سال ہوتا ہے، اگلے سال وہ اور زیادہ اِسی طرح کا ہو جائے گا۔ جوں جوں سال گزرتے جائیں گے اُس کا کردار مستحکم ہوتا جاتا ہے۔ یہ اٹل ہو جاتا ہے۔ آخر کار، یہ اتنا سخت ہو جاتا ہے جتنا کہ سیمنٹ ہوتا ہے۔

میں نے ہمیشہ ہی ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے ۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell کو سُننا پسند کیا ہے۔ وہ پچاس سالوں تک ٹیکساس کے شہر ڈلاس کے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے پادری رہے تھے۔ میں نے اُنہیں اُس وقت منادی کرتے ہوئے سُنا تھا جب وہ اوسط عمر کے لال بالوں والے شخص ہوتے تھے۔ میں نے اُنہیں اُس وقت سُنا جب وہ ایک بوڑھے آدمی ہو گئے تھے، خالص سفید بالوں کے ساتھ۔ ایک مناد کے طور پر وہ میرے آئیڈیل تھے۔ میں ڈاکٹر کرسویل کی بتائی ہوئی ایک کہانی آپ کو بتاؤں گا۔

اُنہوں نے کہا، جب وہ ایک نوجوان پادری تھے، ایک مناد نے اُن سے گرجہ گھر کے ایک رُکن کو جا کر ملنے کے لیے کہا جس کو صدمے سے فالج ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر کرسویل نے کہا،

جب میں اُس کے گھر میں داخل ہوا، اُس کی بیوی نے کہا، ’’وہ خواب گاہ میں ہیں۔‘‘ میں کھڑا ہو گیا اور بستر پر موجود شخص پر نظر ڈالی۔ میں نے کہا، ’’میں نیا پادری ہوں… میں آپ کو ملنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ اُس نے کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘ میں نے کہا، ’’میں افسردہ ہوں کہ آپ کو صدمہ لگا اور آپ بستر سے نہیں اُٹھ سکتے۔‘‘ اُس نے کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘ میں نے کہا، ’’باہر اِس قدر خوبصورتی ہے۔ کاش آپ باہر جا سکتے۔‘‘ اُس نے کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘ میری ہر ایک بات کہنے کے بعد، وہ پکارتا، ’’گول ڈینگ!‘‘ میں اِس قدر زیادہ مایوس ہو گیا تھا کہ مجھے نہیں معلوم تھا میں کیا کہوں۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا اور پوچھنے ہی جا رہا تھا کہ میں دعا مانگوں، مگر اُس نے سوچا کہ میں جا رہا ہوں۔ اُس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا اور کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘ ’’گول ڈینگ!‘‘ ’’گول ڈینگ!‘‘ ’’گول ڈینگ!‘‘ ’’گول ڈینگ!‘‘ ’’گول ڈینگ!‘‘ اُس کی بیوی نے مجھ سے کہا، ’’پادری صاحب، وہ چاہتا ہے آپ دعا مانگیں۔‘‘ میں نے اُنہیں بتایا کہ مجھے خوشی ہوگی۔ میں بستر کے پاس ہی دوزانو ہو گیا اور دعا مانگنی شروع کی، ’’اے آسمان میں خُدا، اِس آدمی کے ساتھ اچھائی کرنا جو اِس قدر بیمار ہے۔‘‘ وہ پکار اُٹھا، ’’گول ڈینگ!‘‘ دعا کے ہر حصے کے بعد وہ کہتا، ’’گول ڈینگ!‘‘ جب میں بالاآخر اپنی دعا کے اختتام تک پہنچا تو میں نے کہا، ’’آمین۔‘‘ اُس نے کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘ جب میں کھڑا ہو گیا اور کہا، ’’خُدا آپ کو برکت دے،‘‘ اُس نے کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘ جب میں دروازے تک پہنچا، میں مُڑا اور کہا، ’’خُدا حافظ‘‘ – اُس نے کہا، ’’گول ڈینگ!‘‘
      جب میں قصبے میں واپس پہنچا، میں نے مناد کو دیکھا اور اُس کو بتایا کہ میں اُس آدمی کو ملنے گیا تھا جس کو فالج ہوا تھا۔ اُس نے مجھ سے کہا، ’’اوہ، میں آپ کو بتانا ہی بھول گیا۔ اُس کو ایک ہی بازاری فقرہ آتا ہے۔ اُس نے وہ بازاری فقرہ اپنی ساری زندگی میں بارہا کہا تھا۔ جب اُس کو فالج ہوا تو اُس کی ساری زبان نے ساتھ چھوڑ دیا ماسوائے اُس ایک فقرے کے۔‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں وہ کیا ہے۔ وہ ’’گول ڈینگ!‘‘ ہے زندگی کی سچی ترین خصوصیات میں سے جو میں جانتا ہوں ایک یہ ہے: جو تم کرتے ہو اور جو تم کہتے ہو بالاآخر وہ بن جاتی ہے جو تم ہوتے ہیں۔ یہ آپ کے کردار میں آپ کی روح میں روشن ہو جاتی ہے (’’کیسا ایک نجات دہندہ What a Saviour‘‘ شاعر ڈبلیو۔ اے ۔ کرسویل، پی ایچ۔ ڈی۔ W. A. Criswell, Ph.D.، بروڈمین پریس Broadman Press، 1978، صفحات41، 42)۔

جب میں نے اپنے رشتہ دار کو یسوع پر بھروسہ کرنے کے لیے کہا، اُس نے کہا، ’’ہر کسی کے لیے اُس کا اپنا، رابرٹ۔ ہر کسی کے لیے اُس کا اپنا۔‘‘ میں نے اُس سے بے شمار مرتبہ پوچھا اور ہر مرتبہ اُس نے کہا، ’’ہر کسی کے لیے اُس کا اپنا، رابرٹ۔‘‘ وہ اُس کا فقرہ تھا، اُس کا بہانہ۔ اُس نے مجھ میں یسوع پر بھروسہ کرنے میں کوئی غلطی تلاش نہیں کی۔ یہ محض اُس کے لیے نہیں تھا۔ اُس نے ہر مرتبہ جب میں نے مسیح کے بارے میں اُس سے بات کی ’’نہیں‘‘ کہا۔ آپ ایک آدمی سے کہہ سکتے ہیں، ’’کیا آپ یسوع پر بھروسہ کریں گے؟‘‘ وہ کہے گا ’’نہیں۔‘‘ آپ کہیں گے، ’’کیا آپ یسوع کے پاس آئیں گے؟‘‘ وہ کہے گا، ’’نہیں۔‘‘ آخر کار وہ لفظ ’’نہیں‘‘ اُس کے کردار میں روشن ہو جائے گا۔ اُس کا دِل سختی کے ساتھ خود مسترد کرنے پر ٹھہر جائے گا – نہیں، نہیں، نہیں، نہیں، نہیں! وہ اپنی زندگی میں ایسے مقام پر آ جائے گا جب وہ اِس کو خودبخود ہی کہتا جائے گا۔ اُس کو سُوچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ خود میں ہی ایک بہت بڑی ’’نہیں‘‘ بن چکا ہوتا ہے۔ وہ لفظ ’’نہیں‘‘ اُس کی ذہنیت کی، اُس کے دِل کی، اُس کی انتہائی فطرت کی نمائندگی بن چکا ہوتا ہے۔ اُس نے ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کیا ہوتا ہے اور وہ یسوع کو ’’نہیں‘‘ کہنے سے مذید اور باز نہیں رہ سکتا۔ ’’جو درخت جہاں گرتا ہے وہیں پڑا رہتا ہے۔‘‘ اب میں [اُس] کو دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ ’’یہ اُس کو معاف نہیں کیا جائے گا، نا ہی اِس دُنیا میں اور نا ہی آنے والے جہاں میں۔‘‘ وہ ناقابلِ معافی گناہ ہوتا ہے! وہ گناہ ہوتا ہے جس کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا!

اگر ہماری جانیں فالج زدہ نہیں ہوتیں تو ہم اُس لمحے اور اُس دِن کا انتخاب کر لیتے کہ ہم بچا لیے جاتے۔ مگر جوں جوں دِن گزرتے ہیں، ہماری مرضیاں اور ہماری جانیں اور ہمارے دِل سیمنٹ کی مانند سخت ہوتے جاتے ہیں۔ آخر کار، وہ انسان کے ذریعے سے ہلائے نہیں جا سکتے، اور وہ خُدا کے ذریعے سے بھی نہیں ہلائے جاتے۔ وہ کردار، وہ زندگی، اور دائمی منزل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مہر بند اور مقرر کر دیے جاتے ہیں! وہ ناقابلِ معافی گناہ ہوتا ہے! وہ گناہ ہوتا ہے جس کو کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا!

ایسا ہی اُس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جو ایک مخصوص احساس، یا نجات کے باطنی ثبوت کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ اُس کو یسوع کی جانب دیکھنے کے لیے سمجھا سکتے ہیں، مگر وہ اِس کے بجائے ایک احساس کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ ڈھونڈتے رہنا جاری رکھتا ہے – اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ اُس کو کیا بتاتے ہیں۔ ہر مرتبہ وہ ایک احساس کو ہی ڈھونڈتا ہے، ایک ثبوت کہ وہ بچا لیا گیا ہے۔ آخر کار یہ اُس کی انتہائی فطرت اور کردار کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ آپ اُس کو مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے کہتے ہیں – اور وہ فوراً ایک احساس کو ڈھونڈتا ہے۔ آپ اُس سے پوچھتے ہیں کہ آیا وہ یسوع پر بھروسہ کرتا ہے، اور وہ کہتا ہے، ’’نہیں۔‘‘ میں لوگوں کو اِس میں سے بار بار، بار بار، بار بار اور بار بار گزرتے ہوئے دیکھ چکا ہوں – جب تک کہ آخر کار یہ اِس قسم کی عادت بن جاتی ہے کہ وہ اِس سے فرار حاصل نہیں کر سکتے چاہے وہ کتنی ہی سخت کوشش کیوں نہ کر لیں! یہ اُن کی انتہائی فطرت کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔ وہ یسوع پر مذید اور بھروسہ نہیں کر سکتے، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اُن سے کیا کہتے ہیں۔

مجھے یاد ہے، ماضی میں 1940 کی دہائی کے آخر میں، ہمارے پاس ایک پرانا ریکارڈ پلئیر تھا اور کچھ ریکارڈ تھے۔ اُن میں سے ایک ریکارڈ ووڈی ووڈ پیکر کا گیت تھا، ’’ہا، ہا، ہا، ہا، ہا۔ ہا، ہا، ہا، ہا، ہا۔ یہ ووڈی ووڈ پیکر کا گیت ہے۔‘‘ مگر ہم نے اِس کو اتنی مرتبہ بجایا کہ ریکارڈ کے حصے میں جُھری پڑ چکی ہے۔ ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! یہ آپ کو ہنسا ہنسا کر دھرا کر دے گا! یہ ہےجو میں آپ میں سے کچھ سے سُنتا ہوں، تفتیشی کمرے میں بار بار۔ میں کہتا ہوں، ’’کیا آپ یسوع پر بھروسہ کریں گے؟‘‘ آپ کہتے ہیں، ’’جی ہاں۔‘‘ میں کہتا ہوں، اپنے گھٹنوں پر جھک جائیں اور اُس پر بھروسہ کریں۔‘‘ میں انتظار کرتا ہوں۔ چند منٹوں کے بعد میں آپ سے کرسی میں بیٹھنے کے لیے کہتا ہوں۔ میں کہتا ہوں، ’’کیا آپ نے یسوع پر بھروسہ کیا؟‘‘ آپ کہتے ہیں، ’’جی نہیں۔‘‘ یہ ایسے ہی جاری رہتا ہے اور چلتا رہتا ہے۔ ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! ہا، ہا، ہا، ہا، ہا! آپ کا ذہن ایک جُھری میں سیمنٹ کے ساتھ چپکتا جا رہا ہے۔ میرے دوست، آپ ناقابلِ معافی گناہ کا اِرتکاب کرنے کے خطرے میں ہیں۔ پھر خُدا کہے گا، ’’اب میں [اُس] کو دوبارہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ ’’یہ اِس کو معاف نہیں کیا جائے گا، نا ہی اِس دُنیا میں اور نا ہی آنے والے جہاں میں۔‘‘ وہ ناقابلِ معافی گناہ ہے! یہ وہ گناہ ہے جو کبھی بھی معاف نہیں کیا جائے گا!

ایک شخص کو کیا ضرورت ہوتی ہے جو یسوع کو ’’نہیں‘‘ کہتا ہے؟ کیا اُس کا ایک اور واعظ کی ضرورت ہوتی ہے؟ جی نہیں۔ کیا اُس کو ایک اور وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے؟ جی نہیں۔ اُس کو کیا ضرورت ہوتی ہے؟ اُس کو ایک ہی بات کی ضرورت ہوتی ہے – تحریک کی، ردعمل کی، نجات دہندہ پر بھروسہ کرنے کی، اور اِس کو وہیں پر چھوڑنے کی – نجات دہندہ کے ساتھ! یسوع نے کہا، ’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُسے اپنے سے جُدا نہیں ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔ آمین۔ اُس کے پاس آئیں۔ اُس پر بھروسہ کریں۔ اِس کو وہیں پر رہنے دیں۔ اِس کو یسوع پر ہی چھوڑ دیں۔ وہ آپ کو خود سے جُدا نہیں کرے گا! وہ آپ کے لیے سب کچھ کرے گا۔ وہ آپ کو گناہ سے پاک صاف کر دے گا۔ وہ آپ کو راستباز کر دے گا۔ وہ آپ کا پاکیزہ کر دے گا۔ آپ کو اِس کا ’’احساس‘‘ نہیں ہو گا، مگر آپ کو اِس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ یہ آپ کے لیے ہی کر رہا ہوتا ہے۔ یسوع پر بھروسہ کریں اور صلیب پر اُس نے جو قیمتی خون بہایا اُس کے وسیلے سے تمام گناہ سے پاک صاف ہو جائیں! ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: عبرانیوں6:4۔6.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
     نے گایا تھا: ’’اگر آپ نےزیادہ دیر سُستی دکھائی If You Linger Too Long‘‘ (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1985)۔