Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

حیاتِ نو کے بارے میں دورِ حاضر کی چھ غلطیاں

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 15)
SIX MODERN ERRORS ABOUT REVIVAL
(SERMON NUMBER 15 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ خُداوند کے دِن کی شام، 16 نومبر، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, November 16, 2014

آج کی شام کا میرا موضوع ’’حیاتِ نو کے بارے میں دورِ حاضر کی چھ غلطیاں‘‘ ہے۔ میری پہلی مرتبہ حیاتِ نو میں دلچسپی 1961 میں ماضی میں ہوئی تھی۔ میں نے پہلی عظیم بیداری کے بارے میں بائیولہ کُتب گھر سے ایک چھوٹی سی کتاب خریدی تھی۔ اِس میں جان ویزلی John Wesley کے جریدے میں سے اقتباسات شامل تھے اور اِس کو موڈی پریس Moody Press نے شائع کیا تھا۔ میں تقریباً ترپن سالوں سے زیادہ عرصے سے حیاتِ نو کے بارے میں سوچتا اور اِس کے لیے دعائیں مانگتا رہا تھا۔ بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں میں دو غیرمعمولی حیاتِ نو کا تجربہ میرے لیے اعزاز کی بات رہی ہے۔ یہ کوئی انجیلی بشارت کے پرچار کے اِجلاس یا ’’کرشماتی charismatic‘‘ اِجلاس نہیں تھے۔ وہ اِس قسم کے حیاتِ نو تھے جن کے بارے میں ہم مسیحی تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ میں نے 1960 کی دہائی کے آخری اور 1970 کی دہائی کے ابتدائی دور کی ’’تحریک یسوع Jesus Movement‘‘ کے دوران خُدا کے بھیجے ہوئے حیاتِ نو بھی دیکھے تھے۔

اِس موضوع کے بارے میں ترپن سالوں تک کے مطالعے اور سوچ و بچار کے بعد، میں خود کو حیاتِ نو پر ایک مقتدر نہیں سمجھتا ہوں۔ میں حیاتِ نو سے تعلق رکھتی ہوئی کچھ اہم سچائیوں کو صرف سمجھنا شروع کر رہا ہوں۔

میں ماضی میں حیاتِ نو سے تعلق رکھتے ہوئے غلطیاں کر چکا ہوں۔ کئی سالوں تک میں چارلس جی فنی Charles G. Finney کی تصانیف کے ذریعے سے گمراہی کا شکار رہا۔ حتیٰ کہ اب بھی میں پُریقین نہیں ہوں کہ میں موضوع کو مکمل طور پر سمجھتا ہوں،

’’اِس وقت تو ہمیں آئینہ میں دُھندلا سے دکھائی دیتا ہے‘‘ (1 کرتھیوں13:12)۔

مگر آج کی شام میں حیاتِ نو کے بارے میں چھ غلطیاں پیش کر رہا ہوں، وہ باتوں جن کو میں مسترد کرتا ہوں، میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ باتیں آپ کی مدد کریں گے جب آپ ہمارے گرجہ گھر مں خُدا سے حیاتِ نو بھیجنے کے لیے دعا مانگیں گے۔

I۔ اوّل، یہ غلطی کہ آج کوئی بھی حیاتِ نو نہیں ہو سکتا۔

میں اِس پر زیادہ وقت صرف نہیں کروں گا، مگر میں اِس کا تزکرہ ضرور کروں گا کیوں بہت سے اِس پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اِس قسم کی باتیں کرتے ہیں، ’’حیاتِ نو کے عظیم دِن ختم ہو چکے ہیں۔ ہم آخری ایام میں ہیں۔ مذید کوئی اور حیاتِ نو نہیں ہو سکتے۔‘‘ وہ آج بے شمار بائبل پر یقین رکھنے والے مسیحیوں کے درمیان عام سی سوچیں ہیں۔

مگر میں تین وجوہات کی بِنا پر اِس پر یقین رکھتا ہوں کہ یہ ایک غلطی ہے:

(1) بائبل کہتی ہے، ’’یہ وعدہ تم سے اور تمہاری اولاد سے ہے اور اُن سے بھی ہے جو اُس سے دور ہیں، حتیٰ کہ اُن تمام سے ہے جن کو خُداوند ہمارا خُدا اپنے پاس بُلائے گا‘‘ (اعمال2:39)۔ پینتیکوست پر عظیم حیاتِ نو کے بارے میں یہ پطرس رسول نے کہا تھا، کہ اِس زمانے کے آخر تک خُداوند کے روح کا نازل کیا جانا ہوگا!

(2) اس زمانے کے انتہائی آخر میں دشمن مسیح [دجال] کے تحت، بہت بڑی مصیبت کے دور کے درمیان تمام حیاتِ انواع میں عظیم ترین حیاتِ نو آئے گا (حوالہ دیکھیں مکاشفہ 7:1۔14)۔

(3) عوامی جمہوریہ چین میں اور تیسری دُنیا میں دوسرے ممالک میں آج رات، بالکل ابھی مشرق بعید کے کُل تاریخ میں عظیم ترین حیاتِ نو جاری ہے۔ دورِ حاضر کے زمانے کے عظیم ترین حیاتِ نو بالکل ابھی وہاں پر جاری ہیں!


یہ سوچنا ایک ہولناک غلطی ہے کہ آج کوئی بھی حیاتِ نو نہیں ہو سکتا!

II۔ دوئم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو کا انحصار ہماری انجیلی بشارت کے پرچار کی کوششوں پر ہوتا ہے۔

یہ مغربی بپتسمہ دینے والوں اور دوسروں کے درمیان ایک عام سی غلطی ہے۔ یہ تصّور اُن میں چارلس جی فنی سے سرایت ہوا ہے۔ فنی نے کہا، ’’ایک حیاتِ نو اِتنا ہی مناسب ذرائع کے استعمال کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے جتنی کہ ایک فضل اُس کے مناسب استعمال کا نتیجہ ہوتی ہے‘‘ (سی۔ جی۔ فنی C. G. Finney، حیاتِ نو پر لیکچرزLectures on Revival، ریول Revell، n.d.، صفحہ 5)۔ بے شمار گرجہ گھر اب بھی ایک مخصوص دِن پر ’’حیاتِ نو‘‘ کے آغاز کے لیے مشہوری کرتے ہیں – اور ایک مخصوص دِن پر اختتام کر دیتے ہیں! یہ خالص فنی اِزم ہے! حیاتِ نو کا انحصار ہماری انجیلی بشارت کے پرچار اور لوگوں کے دِل جیتنے کی کوششوں پر نہیں ہوتا ہے!

اعمال 13:48۔49 کو سُنیں،

’’اور جب غیر یہودیوں نے یہ سُنا تو بہت خوش ہوئے اور خُدا کے کلام کی تمجید کرنے لگے اور جنہیں خُدا نے ہمیشہ کی زندگی کے لیے چُنا ہوا تھا ایمان لائے۔ اور خُدا کا کلام اُس سارے علاقے میں پھیل گیا۔‘‘

میرے خیال میں وہ دو آیات اِس تصور کو کہ حیاتِ نو کا انحصار ہماری انجیلی بشارت کے پرچار کی کوششوں پر ہوتا ہے شفاف طور پر واضح کر دیتی ہیں۔ حالانکہ خوشخبری ’’سارے علاقے میں پھیل گئی‘‘ تھی صرف وہی جنہیں خُدا نے ہمیشہ کی زندگی کے لیے چُنا ہوا تھا ایمان لائے۔‘‘

جی ہاں، ہمیں ’’تمام لوگوں میں انجیل کی منادی کرنے کے لیے‘‘ کہا گیا ہے (مرقس16:15) – مگر ہر شخص ایمان نہیں لے آئے گا! دوسرے ادوار کے مقابلے میں حیات نو کے دور میں زیادہ لوگ ایمان لائیں گے – مگر یہ بالکل واضح ہے کہ حیاتِ نو کا انحصار تنہا ہماری انجیلی بشارت کے پرچار کی کوششوں پر نہیں ہوتا ہے۔

III۔ سوئم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو کا انحصار مسیحیوں کی وابستگی [یا وقف ہو جانے] پر ہوتا ہے۔

میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ 2 تواریخ 7:14 کا حوالہ دیتے ہیں۔ مگر یہ عجیب سا لگتا ہے کہ وہ نئے عہدنامے میں سے آیت کا حوالہ نہیں دیتے ہیں کہ حیاتِ نو کے اُن کے نظریے کا انحصار مسیحیوں کا ’’خُدا کے ساتھ صحیح‘‘ ہو جانے پر ہوتا ہے۔ کیوں اِس آیت کو جو سلیمان بادشاہ کو دی گئی تھی، نئے عہد نامے کی کلیسیا میں حیاتِ نو کے لیے ایک فارمولے کے طور پر استعمال کی جانا چاہیے؟ مجھے ایسا کرنے کے لیے کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی ماسوائے اِس کے کہ ایک مبلغ اپنی کلیسیا سے بحری جہاز ’’سونا، چاندی، ہاتھی دانت اور بندر اور مور‘‘ لائیں، جیسے 2 تواریخ 9:21 میں سلیمان نے محض دو باب بعد میں کیا!

آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray نے 2 تواریخ7:14 سے تعلق رکھتے ہوئے کہا، ’’پہلی بات یقینی طور پر کہنے کے لیے یہ ہے کہ جس کا وعدہ کیا گیا [نئے عہد نامے] کا حیاتِ نو نہیں ہے، کیونکہ وعدے کو پہلی مثال سے ہی اُس وقت سے تعلق رکھتے ہوئے جس میں وہ کیا گیا، سمجھ لیا جانا چاہیے۔ یہ پرانے عہد نامے کے اسرائیل کے بارے میں اور اُس کی اُس سرزمین کے بارے میں ہے جس کی یہاں پر شفایابی کی بات کی گئی ہے (میورے Murray، ibid.، صفحہ 13)۔ یہ تصور کہ حیاتِ نو کا انحصار مسیحیوں کی وابستگی [یا وقف ہو جانے] پر ہوتا ہے فنی سے آیا ہے۔

ونسٹن چرچل نے ایک مرتبہ اپنے نوجوان پوتے کو خط لکھا، جس میں اُس کو تاریخ پڑھنے کے لیے کہا، کیونکہ تاریخ مستقبل کے بارے میں ذہین اندانے قائم کرنے کے لیے بہترین ذرائع پیش کرتی ہے۔ چرچل کی ’’مطالعۂ تاریخ‘‘ کی رائے کی پیروی کرنے سے، ہمیں پتا چلتا ہے کہ حیاتِ نو کا انحصار مسیحیوں کی ’’مکمل وابستگی‘‘ پر ہوتا ہے کا وہ تصور سچا نہیں ہے۔ یوناہ نبی مکمل طور پر خُدا کے لیے وقف نہیں ہوا تھا۔ یوناہ کا آخری باب پڑھیں اور آپ اُس کی کمزوریاں اور ایمان کی کمی کو دیکھیں گے۔ جی نہیں، پرانے عہد نامے میں غیریہودیوں کے درمیان عظیم حیاتِ نو کا انحصار نبی کے ’’مکمل ہتھیار ڈالنے‘‘ یا ’’کاملیت‘‘ پر نہیں تھا۔ جان کیلوِن John Calvin کام انسان کے مقابلے میں کمتر تھا۔ اُس نے بدعت کے لیے ایک شخص کو زندہ جلوا دیا تھا – جو کہ مشکل سے ہی نئے عہد نامے کے روئیے کا مظاہرہ کرتا ہے! اِس کے باوجود خُدا نے اُس کی منادی کے تحت اور اُس کی تحاریر کے ذریعے سے عظیم حیاتِ نو بھیجا۔ کبھی کبھار لوتھر Luther کا مزاج لائق مذامت ہوتا تھا اور ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہودیوں کی عبادت گاہوں کو جلا دیا جانا چاہیے۔ پھر بھی لوتھر کی کبھی کبھار کی تلخ، گناہ سے بھرپور یہودی لوگوں کے خلاف شدید ناپسندیگی اور تعصب کے باوجود، خُدا نے اُس کی منادی کے تحت حیاتِ نو بھیجا۔ ہم کیلوِن اور لوتھر کو معاف کر دیتے ہیں کیونکہ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ قرونِ وسطیٰ کے لوگ تھے، جو کہ ابھی تک اِن معاملات میں کاتھولک اِزم سے متاثر تھے۔ پھر بھی، اُن کی کمزوریوں کے باوجود، خُدا نے اُن کی منادیوں کے تحت بہت بڑے اصلاحی حیاتِ نو بھیجے۔ وائٹ فیلڈ Whitefield نے کبھی کبھار ’’باطنی گمانوں‘‘ کی وجہ سے غلطیاں کیں کہ جو کہ اُس نے غلط طور پر سوچا خُدا کی طرف سے تھے۔ ویزلی Wesley خُدا کی مرضی کو جانچنے کے لیے اکثر دیکھے جانے والے مقامات پر قرعے (چھکے پھینکا کرتا) ڈالا کرتا تھا۔ اِس کے باوجود وائٹ فیلڈ، ویزلی، لوتھر اور کیلوِن نے اپنی منادیوں میں عظیم حیاتِ نو دیکھے۔

ہم تاریخ میں اِس مثالوں سے دیکھتے ہیں کہ نامکمل ہستیاں، لوگ جو کبھی کبھار اتنے مقدس یا وابستہ نہیں ہوتے تھے جتنا کہ اُنہیں ہونا چاہیے، اُنہیں خُدا کے ذریعے سے حیاتِ نو کے زمانوں میں شدت کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ ہمیں نتیجہ اخذ کر لینا چاہیے کہ فنی اور اُس کے پیروکار غلط تھے جب اُنہوں نے کہا کہ حیاتِ نو کا انحصار مسیحیوں کے مکمل طور پر وابستہ [وقف] ہو جانے پر ہوتا ہے۔ پولوس رسول ہمیں بتاتا ہے،

’’لیکن ہمارے پاس یہ خزانہ مٹی کے برتنوں میں رکھا گیا ہے تاکہ ظاہر ہو جائے کہ یہ لامحدود قدرت خُدا کی طرف سے ہے نہ کہ ہماری طرف سے‘‘ (2 کرنتھیوں4:7)۔

میں اس نقطے کو استیفنُس کے عدالتِ عالیہ کے لیے واعظ سے حوالہ دیتے ہوئے ختم کروں گا۔ ہمیں خصوصی طور پر بتایا جاتا ہے کہ اِستیفنُس’’خُدا کے فضل اور اُس کی قوت سے بھرا ہوا تھا [اور] لوگوں میں حیرت انگیز کام اور بڑے معجزے دکھاتا تھا‘‘ (اعمال6:8)۔ اِس کے باوجود اِستیفنُس نے اپنی منادی سے حیاتِ نو کو ہوتا ہوا نہیں دیکھا۔ اِس کے بجائے اُس کو سنگسار کر کے مار ڈالا گیا تھا۔ وہ ایک پاک اور راستباز شخص تھا، مگر اِس نے اُس کی منادی میں خودبخود حیاتِ نو کو پیدا نہیں کیا تھا۔ ہم روزے رکھ سکتے ہیں اور دعائیں مانگ سکتے ہیں اور سچے طور پر شاندار مسیحی بن سکتے ہیں، مگر یہ خُدا کو حیاتِ نو بھیجنے کے لیے مجبور نہیں کرے گا، کیوں؟ پولوس رسول جواب پیش کرتا ہے،

’’اِس لیے نہ لگانے والا کچھ ہے، نہ سینچنے والا کچھ ہے؛ مگر خُدا ہی سب کچھ ہے جو اُسے بڑھانے والا ہے‘‘ (1 کرنتھیوں3:7)۔

جی ہاں، ہمیں حیاتِ نو کے لیے مسلسل دعائیں مانگنی چاہیے اور کبھی کبھار روزہ رکھ لینا چاہیے اور اِسی وقت کے دوران ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، ’’مگر خُدا ہی سب کچھ ہے جو اُسے بڑھانے والا ہے‘‘ (1 کرنتھیوں3:7)۔ یہ تنہا خُدا کی قادرِ مطلق قوت ہے جو سچے حیاتِ نو کو پیدا کرتی ہے!

IV۔ چہارم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو ایک عام حالت ہے جس کی ہمیں گرجہ گھر میں توقع کرنی چاہیے۔

 

پینتیکوست کے موقع پر پاک روح رسولوں پر نازل ہوا تھا۔ اُنہوں نے اپنی اپنی زبانوں میں لوگوں کو منادی کی تھی اور اعمال دو باب میں درج، اِس بہت بڑے حیات نو میں تین ہزار لوگ تبدیل ہوئے تھے۔ لیکن ہمیں پتا چلتا ہے کہ اُنہیں پاک روح کے ساتھ دوبارہ لبریز ہونے کی ضرورت پڑی تھی جیسا کہ اعمال4:31 میں درج ہے،

’’اور جب وہ دعا کر چُکے تو وہ جگہ جہاں وہ جمع تھے لرز اُٹھی اور وہ سب پاک رُوح سے معمور ہوگئے اور خدا کا کلام دلیری سے سُنانے لگے‘‘ (اعمال 4:31).

یہ ہمیں ظاہر کرتا ہے کہ ابتدائی کلیسیا میں حیاتِ نو کے دَور تھے، حیاتِ نو کے غیرمعمولی اوقات تھے۔ مگر وہاں دوسرے دَور بھی تھے جب کلیسیاؤں کے کام روز مرّہ کے معمولات کے مطابق جاری رہتے تھے۔ میرے خیال میں یہی ہے جو پولوس رسول کا مطلب تھا جب اُس نے کہا، ’’وقت بے وقت تیار رہ‘‘ (2تیموتاؤس4:2)۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ ہمیں منادی کرتے رہنا اور دعا مانگتے رہنا اور گواہی دیتے رہنا جاری رکھنا چاہیے حیاتِ نو ہو یا نا ہو۔ مسیح ہمیں عظیم مقصد کی فرمانبرداری (متی28:19۔20)، اور ’’تمام لوگوں کو خوشخبری کی منادی کے لیے‘‘ (مرقس16:15) بُلاتا ہے چاہے حیاتِ نو ہو یا نہ ہو! کچھ تبدیل ہو جائیں گے حتیٰ کہ جب خُدا کی کوئی غیرمعمولی تحریک نہ ہو۔

اگر ہم سوچتے ہیں کہ حیاتِ نوخُدا کے کاموں کا عام طریقہ ہے تو ہم بد دِل ہو جائیں گے۔ آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray نے کہا،

یہ اِسی نقطے پر تھا کہ جارج وائٹ فیلڈ کو اپنے دوست ولیم میکولوچ William McCulloch کو جو کیمبسلینگ Cambuslang [سکاٹ لینڈ] کا منسٹر تھا خبردار کرنا پڑا تھا۔ 1749 میں میکولوچ کا حوصلہ پست ہو گیا تھا کیونکہ اُسے اب وہ مذید نظر نہیں آیا جس کی گواہی وہ 1742 کی بیداری میں دیکھ چکے تھے۔ وائٹ فیلڈ کا ردعمل اُس کو یاد دِلانا تھا کہ 1742 کلیسیا کے لیے عام بات نہیں تھی: کیمبسلینگ میں [ایک اور] حیاتِ نو کے بارے میں سُن کر مجھے خوش ہونا چاہیے؛ مگر، پیار سے، آپ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ اِس قسم کی باتیں [صدی میں] [ایک سے زائد مرتبہ] کبھی کبھار ہی دیکھی جاتی ہیں۔ مارٹن لائیڈ جونز ایک ویلش کے مذہبی رہنما کے معاملے میں ایسی ہی مثال کا حوالہ دیتے ہیں جس کی ’’تمام کی تمام مذھبی خدمت تباہ ہو گئی تھی‘‘ اُس کے مسلسل ماضی جو کچھ وہ 1904 کے حیاتِ نو میں دیکھ چکا اور تجربہ کر چکا تھا اُس میں رہنے کی وجہ سے: جب حیاتِ نو کا اختتام ہوا… وہ تب بھی غیرمعمولی واقعات کی توقع کر رہا تھا؛ اور وہ رونما نہیں ہوئی۔ اِس لیے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا اور اپنی زندگی کے چالیس سے زیادہ سال بے ثمری، رنجیدگی اور فضول میں گزار دیے‘‘ (آئعین ایچ۔ میورے Iain H. Murray، ibid. ، صفحہ 29)۔

اگر خُداوند حیاتِ نو نہیں بھیجتا ہے تو ہمیں اِس بات سے خود کی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ہمیں ’’وقت بے وقت میں تیار‘‘ رہنا چاہیے، خوشخبری کا اعلان کرتے رہنا اور گنہگاروں کو ایک ایک کر کے مسیح کی جانب راغب کرتے رہنا چاہیے۔ مگر اِسی عرصے کے دوران، ہمیں خدا سے حیاتِ نو اور بیداری کے خصوصی زمانے کو بھیجنے کے لیے دعا مانگنا جاری رکھنا چاہیے۔ اگر خُدا حیاتِ نو بھیجتا ہے تو ہم خوشیاں منائیں گے۔ لیکن اگر وہ حیاتِ نو نہیں بھیجتا ہے تو ہم ایک ایک کر کے لوگوں کو مسیح کی جانب رہنمائی کرنا جاری رکھیں گے! ہم حوصلہ نہیں ہاریں گے! ہم ہمت نہیں چھوڑیں گے! ہم وقت بے وقت تیار رہیں گے!

V۔ پنجم، یہ غلطی کہ جو کچھ بھی حیات نو کے ساتھ منسلک ہے اُس کی شرائط نہیں ہوتی ہیں۔

پاک صحائف اور تاریخ دونوں ہی ہمیں ظاہر کرتے ہیں کہ حیات نو کا انحصار انسانی انجیلی بشارت کے پرچار کی کوششوں اور مسیحیوں کی مکمل وابستگی میں نہیں ہوتا ہے۔ مگر کچھ مخصوص شرائط ہوتی ہیں جس کا پورا کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ بالخصوص دُرست عقیدہ، اور دعا ہوتی ہے۔ ہمیں حیاتِ نو کے لیے دعا کرنی چاہیے اور گناہ اور نجات سے تعلق رکھتے ہوئے ہمارے پاس دُرست عقیدہ بھی ہونا چاہیے۔

اپنی کتاب حیاتِ نو Revival (کراسوے کُتب Crossway Books، 1992) میں، ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز کے دو باب ہیں جن کا عنوان ’’نظریہ سے متعلق آلودگی Doctrinal Impurity‘‘ اور مرُدہ تقلید پسندی Dead Orthodoxy‘‘ ہے۔ اِن دو ابواب میں اِس شخص نے جس نے اپنی منادی کے ابتدائی سالوں میں حیاتِ نو کو دیکھا تھا ہمیں بتاتا ہے کہ کچھ مخصوص عقیدے ہوتے ہیں جن کی منادی کی جانی چاہیے اور جن پر یقین کیا جانا چاہیے اگر ہم حیاتِ نو بھیجنے کے لیے خُدا سے توقع رکھتے ہیں۔ میں عقیدوں میں سے چار کا تزکرہ کروں گا جو اُنہوں نے پیش کیے۔


1. نسلِ انسانی کی برگشتگی اور تباہی – مکمل اخلاقی زوال۔

2. تجدید احیاء – یا نئے سرے سے جنم – خُدا کے کام کے نتیجے میں، نا کہ انسان کے۔

3. تنہا مسیح میں ایمان کے وسیلے سے راستبازی – نا کہ کسی بھی قسم کے ’’فیصلوں‘‘ میں ایمان۔

4. گناہ کو پاک صاف کرنے کے لیے مسیح کے خون کی تاثیر – دونوں ذاتی اور موروثی گناہ۔


اِن چار عقائد پر چارلس جی فنی نے حملہ کیا تھا، اور اُس وقت سے لیکر اب تک اِن کو نظر انداز یا اِن کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ہم نے 1859 سے لیکر اب تک اس قدر کم حیاتِ نو دیکھے ہیں! میں تفصیل میں نہیں جا سکتا، مگر یہ شدید اہم عقائد ہیں، جن کی دوبارہ منادی کی جانی چاہیے اگر ہم اپنے گرجہ گھروں میں حیات نو کو آتا ہوا دیکھنےکی اُمید کرتے ہیں۔ ہمارے گرجہ گھروں میں بے شمار کھوئے ہوئے لوگ شامل ہوتے ہیں، جو کہ کبھی بھی سچے طور پر تبدیل نہیں ہوتے ہیں جب تک کہ ہم اِن موضوعات پر شدت کے ساتھ اور جوشیلے طور پر منادی نہیں کرتے – اور بار بار نہیں کرتے!

ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا،

حیاتِ نو کی تواریخ پر نظر ڈالیں اور آپ مردوں اور عورتوں کو مایوس کُن پائیں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کی تمام بھلائیاں ماسوائے غلیظ چیتھڑوں کے کچھ نہیں ہیں، اور کہ اُن کی تمام کی تمام راستبازی بالکل بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اور یہ رہے وہ، یہ احساس کرتے ہوئے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے اور خُدا سے رحم کے لیے اور چاہت کے لیے پُکار رہے ہوتے ہیں۔ ایمان کے وسیلے سے راستبازی۔ خُدا کا عمل۔ ’’اگر خُدا اِسے ہمارے ساتھ نہیں کرتا،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’تب وہ کھوئے ہوئے ہیں۔‘‘ اور اِس طرح سے وہ اُس کی حضوری میں قطعی طور پر[اپنی] بے بسی کو [محسوس] کرتے ہیں۔ وہ کوئی توجہ نہیں دیتے اور خود اپنے ماضی کی مذھبیت، اور گرجہ گھر کی حاضری میں اُن کی تمام وفاداری اور دوسری بے شمار باتوں کے ساتھ کسی بھی اہمیت کو نہیں جوڑتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ سب کچھ کسی کام کا نہیں ہے، یہاں تک کہ اُن کا مذھب بھی کسی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا، کچھ بھی ایسا نہیں ہوتا جس کی کوئی قدروقیمت ہو۔ خُدا کو بے دینوں کو راستباز کرنا چاہیے۔ اِسی لیے، حیاتِ نو کے ہر دورانیے میں، یہی وہ عظیم پیغام ہے جو نکلتا ہے (مارٹن لائیڈ جونز Martyn Lloyd-Jones، ibid.، صفحات 55۔56)۔

’’مگر جو شخص اپنے کام پر نہیں بلکہ بے دینوں کو راستباز ٹھہرانے والے خدا پر ایمان رکھتا ہے، اُس کا ایمان اُس کے لیے راستبازی گِنا جاتا ہے‘‘ (رومیوں 4:5).

’’خدا نے یسوع کو مقرر کیا کہ وہ اپنا خُون بہائے اور اِنسان کے گناہ کا کفارہ بن جائے اور اُس پر ایمان لانے والے فائدہ اُٹھائیں‘‘ (رومیوں 3:24۔25).

VI۔  ششم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو خوشی اور مذاق کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔

نام نہاد کہلایا جانے والا ’’مسرور حیاتِ نو laughing revival‘‘ کسی بھی طور سچا حیاتِ نو نہیں ہوتا ہے۔ میں نے اپنے دوست ڈٓکٹر آرتھر بی۔ ہوک Dr. Arthur B. Houk کے ساتھ ذاتی طور پر اُن کے اِجلاسوں میں سے ایک کو دیکھا تھا۔ یہ سچے حیاتِ نو کی ایک افسردہ نقل تھی۔ لوگ آج کل نجات کے بارے میں جو سوچتے ہیں یہ اُس پر بالکل فِٹ بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر جان آرمسٹرانگ Dr. John Armstrong نے کہا، ’’جو [وہ] چاہتے ہیں وہ راحت، تسکین اور تسلی و اطمینان ہوتا ہے‘‘ (سچا حیاتِ نو True Revival، ہارویسٹ ہاؤس Harvest House، 2001، صفحہ231)۔ وہ اپنے گناہ سے نجات کے لیے اپنی ضرورت کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں!

مگر وہ ایک حقیقی تبدیلی میں اور ایک حقیقی حیاتِ نو میں بدل جاتا ہے۔ حیاتِ نو میں، اور انفرادی تبدیلیوں میں، ’’ٹوٹے ہوئے دِل کے ساتھ، مسیح کو مرکز مان کر اعتراف اور توبہ روح کی سچی تحریک کی خصوصیت ہوگی۔ لوگ … گناہ کے سب سے زیادہ گہرے تاثر کے ساتھ روئیں گے‘‘ (آرمسٹرانگ Armstrong، ibid.، صفحہ 63)۔

یہ میرا تجربہ رہا ہے کہ تقریباً ہر کوئی جس نے حقیقی تبدیلی کا تجربہ کیا ہوا ہوتا ہے وہ اپنے گناہوں کے لیے دُکھ اور پچھتاوے کے آنسوؤں کے ساتھ روتا ہے۔ اور ایک چشم دید گواہ کے طور پر حیات نو میں بے شمار لوگوں کے بارے میں مَیں دیکھ چکا ہوں کہ یہ بات سچی ہے۔ اور یہی ہمیشہ ماضی کے معیاری حیات انواع میں سچی رہی ہے۔

ہم کس قدر دعا مانگتے ہیں کہ پاک روح آپ پر نازل ہو! ہم کس قدر دعا مانگتے ہیں کہ وہ آپ کے لیے خُدا کے خلاف آپ کے گناہوں پر رونے اور ماتم کرنے کا سبب بنے۔ ہم کس قدر دعا مانگتے ہیں کہ یسوع کے قیمتی خون کے وسیلے سے آپ کے گناہ پاک صاف ہو جائیں! ’’اُس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں تمام گناہ سے پاک صاف کرتا ہے‘‘ (1یوحنا1:7)۔ آمین۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے آئیں اور خُدا سے ہمارے گرجہ گھر میں اِسی قسم کے حیات نو کو بھیجنے کے لیے دعا مانگیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: زکریا 12:10؛ 13:1.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’اے خُداوند، اپنے کام کو احیاء دے Revive Thy Work, O Lord‘‘ (شاعر البرٹ میڈلین Albert Midlane، 1825۔1909)۔

لُبِ لُباب

حیاتِ نو کے بارے میں دورِ حاضر کی چھ غلطیاں

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 15)
SIX MODERN ERRORS ABOUT REVIVAL
(SERMON NUMBER 15 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

(1 کرنتھیوں13:12)

I.  اوّل، یہ غلطی کہ آج کوئی بھی حیاتِ نو نہیں ہو سکتا، اعمال2:39؛ مکاشفہ7:1۔14 .

II. دوئم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو کا انحصار ہماری انجیلی بشارت کے پرچار کی کوششوں پر ہوتا ہے، اعمال13:48۔49؛ مرقس16:15 .

III. سوئم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو کا انحصار مسیحیوں کی وابستگی [ یا وقف ہو جانے] پر ہوتا ہے،2 تورایخ9:21؛ 2کرنتھیوں4:7؛ اعمال6:8؛ 1کرنتھیوں3:7.

IV. چہارم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو ایک عام حالت ہے جس کی ہمیں گرجہ گھر میں توقع
کرنی چاہیے، اعمال4:31؛ 2تیموتاؤس4:2؛ مرقس16:15 .

V.  پنجم، یہ غلطی کہ جو کچھ بھی حیاتِ نو کے ساتھ منسلک ہے اُس کی شرائط نہیں
ہوتی ہیں، رومیوں4:5؛ 3:24۔25 .

VI. ششم، یہ غلطی کہ حیاتِ نو خوشی اور مذاق کےساتھ شروع ہوتا ہے،
1یوحنا1:7.