Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اِس قِسم

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 1)
THIS KIND
(SERMON NUMBER 1 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ خُداوند کے دِن کی شام، 20 جولائی، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, July 20, 2014

’’اور جب وہ گھر میں داخل ہُوا تو اُس کے شاگردوں نے چُپکے سے اُس سے پُوچھا، ہم اُس بدرُوح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28۔29).

آج کی رات میں بدروحوں اور شیطان پر واعظ دینے جا رہا ہوں، جس کو ڈاکٹر جے۔ آئی۔ پیکر Dr. J. I. Packer نے ’’آج کے دِن کی کلیسیا کی بگڑی ہوئی حالت‘‘ کہا، اور اِس وجہ سے بھی کہ 1859 سے لیکر امریکہ میں کوئی بھی بڑا قومی حیات نو نہیں آیا ہے۔ میں ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones کے واعظ کے لُبِ لُباب پر انحصار کر رہا ہوں – وہ واعظ جو اُنہوں نے اِس تلاوت پر لندن میں ویسٹ منسٹر کی عبادت گاہ میں 1959 میں دیا۔ میں اُن کے واعظ کو لفظ بہ لفظ نہیں پیش کر رہا ہوں، اور میں بےشمار خیالات شامل کر رہا ہوں، مگر بنیادی موضوع اور لُبِ لُباب ’’ڈاکٹر‘‘ سے ہی ہیں۔

’’اور جب وہ گھر میں داخل ہُوا تو اُس کے شاگردوں نے چُپکے سے اُس سے پُوچھا، ہم اُس بدرُوح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28۔29).

میں آپ سے اُن دو آیات کے بارے میں سوچنے کے لیے چاہتا ہوں۔ میں اُن آیات کو امریکہ اور مغربی دُنیا میں ’’بدحال‘‘ گرجہ گھروں میں خُدا کے بھیجے ہوئے حیات نو کے لیے پکارتی ہوئی ضرورت پرلاگو کرنے جا رہا ہوں۔

میں جانتا ہوں کہ یہ انتہائی لفظ ’’حیات نو‘‘ آج لوگوں کا مُنہ پھیر دیتا ہے۔ وہ اِس کے بارے میں سُننا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ مگر اُن کے اِس طرح سے محسوس کرنے کی وجہ شیطانی ہے! یہ وہ موضوع ہے جس کے بارے میں شیطان نہیں چاہتا کہ لوگ سوچیں۔ لہٰذا میں دعا مانگتا ہوں کہ آپ احتیاط کے ساتھ سُنیں جب میں ہمارے گرجہ گھر میں، اور تمام گرجہ گھروں میں اِس نازک ضرورت پر بات کروں گا۔

یہ وہ ایک موضوع ہے جس میں ہم میں سے ہر ایک کو شدت کے ساتھ دلچسپی ہونی چاہیے۔ جب تک ہم آج گرجہ گھروں کی اِس حالت کے بارے میں انتہائی شدید فکرمندی محسوس نہیں کرتے ہم انتہائی بیچارے مسیحی ہوتے ہیں۔ درحقیقت، اگر آپ کی حقیقی حیات نو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تو آپ کو سوال کرنا چاہیے کہ آیا آپ واقعی میں سرے سے مسیحی ہیں بھی کہ نہیں! اگر آپ کو ہمارے گرجہ گھر اور دوسروں کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہوتی ہے، تو آپ یقیناً جوشیلے مسیحی نہیں ہیں! میں دھراتا ہوں، حقیقی حیات نو کو کچھ ایسا ہونا چاہیے جس کے لیے ہم میں سے ہر ایک میں شدت کی دلچسپی ہونی چاہیے۔

لہٰذا آئیے اِس کا آغاز مرقس کے نویں باب میں اِس واقعہ کے بارے میں سوچنے سے کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم واقعہ ہے، کیونکہ پاک روح نے چار میں سے تین اناجیل متی، مرقس اور لوقا میں اِس کے واقعات کو ہمیں پیش کرنے کے لیے انتہائی احتیاط برتی۔ مسٹر پرودھوم نے بالکل ابھی لوقا کی انجیل میں سے واقعہ پڑھا، اور میں اِس میں سے دو آیات مرقس میں سے پڑھ رہا ہوں۔ باب کے ابتدائی حصے میں مرقس ہمیں بتاتا ہے کہ مسیح نے پطرس، یعقوب اور یوحنا کو لیا صورت بدل جانے والے پہاڑ پر چلا گیا جہاں اُنہوں نے ایک حیرت انگیز واقعہ دیکھا۔ مگر، جب وہ پہاڑ سے نیچے آئے، اُنہوں نے باقی شاگردوں کو لوگوں کے ہجوم میں گھرے ہوئے اور اُن سے بحث کرتے ہوئے پایا! وہ تین جو یسوع کے ساتھ نیچے آئے تھے سمجھ نہ پائے کہ یہ سب کس کے بارے میں تھا۔ پھر ہجوم میں سے ایک آدمی سامنے آیا اور یسوع کو بتایا کہ اُس کے بیٹے پر بدروح کا سایہ ہے جس کے سبب سے اُس کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے اور وہ اپنے دانتوں کو پیستا ہے۔ پھر اُس آدمی نے کہا، ’’میں اِس کو تیرے شاگردوں کے پاس لایا [بدروح کو نکالنے کے لیے] اور وہ ایسا کر نہ پائے‘‘ (مرقس9:18)۔ اُنہوں نے کوشش کی تھی مگر وہ ناکام رہے۔

یسوع نے آدمی سے چند ایک سوالات پوچھے۔ پھر اُس نے انتہائی تیزی سے لڑکے میں سے بدروح کو نکال باہر کیا، جو ایک ہی لمحے میں شفایاب ہو گیا۔ پھر یسوع گھر میں چلا گیا، اور شاگرد اُس کے ساتھ چلے گئے۔ اُن کے گھر میں جانے کے بعد شاگردوں نے اُس [یسوع] سے پوچھا، ’’ہم اُس بدروح کو کیوں نہیں نکال سکے؟‘‘ (مرقس9:28)۔ اُنہوں نے ایسا کرنے کی شدید کوشش کی تھی۔ وہ اِس سے پہلے بہت مرتبہ کامیاب رہے تھے۔ مگر اِس مرتبہ وہ مکمل طور پر ناکام رہے تھے۔ جبکہ مسیح نے سادگی سے کہا، ’’اِس میں سے باہر نکل جا‘‘ اور لڑکا شفایاب ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا، ’’ہم کیوں نہیں اُس بدروح کو نکال پائے؟‘‘ مسیح نے جواب دیا، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس9:29)۔

اب میں ہمارے گرجہ گھروں کے مسائل کو ظاہر کرنے کے لیے اِس واقعہ کو اِستعمال کرنے جا رہا ہوں۔ وہ لڑکا جدید دُنیا میں نوجوان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ شاگرد آج ہمارے گرجہ گھروں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کیا یہ واضح نہیں ہے کہ ہمارے گرجہ گھر نوجوان لوگوں کی مدد کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں؟ جارج برناGeorge Barna ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم گرجہ گھروں میں پرورش پائے ہوئے خود ہمارے اپنے 88 % نوجوان لوگوں کو کھو دیتے ہیں۔ اور ہم انتہائی چند نوجوان لوگوں کو جیت رہے ہیں، انتہائی ہی چند، ساری دُنیا میں سے۔ ہمارے گرجہ گھربنجر ہو رہے ہیں اور تیزی سے ناکام ہو رہے ہیں۔ مغربی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر ہر سال تقریباً 1,000 گرجہ گھروں کو کھو رہے ہیں! یہ اُن کی اپنی تعداد ہے! اور ہمارے خود مختیار گرجہ گھروں میں بھی کوئی بہتری نہیں ہوئی ہے۔ کوئی بھی جو اعداد وشمار پر نظر ڈالے گا دیکھ سکتا ہے کہ ہمارے گرجہ گھر آدھے بھی اتنے مضبوط نہیں ہیں جتنے کہ ایک سو سال پہلے وہ مضبوط تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر جے۔ آئی پیکر نے ’’آج کے دِن کی کلیسیا کی بگڑی ہوئی حالت‘‘ کے بارے میں بات کی تھی۔

ہمارے گرجہ گھر، شاگردوں ہی کی مانند، وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو کر سکتے ہیں، اور اِس کے باوجود وہ ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ اتنی ہی بُری طرح سے ناکام ہو رہے ہیں جیسے شاگرد ہوئے تھے جب اُنہوں نے اُس لڑکے میں سے بدروح نکالنے میں مدد کرنے کے لیے کوشش کی تھی۔ سوال جو ہمیں پوچھنا چاہیے یہ ہے ’’ہم کیوں اُس بدروح کو باہر نہیں نکال پائے؟‘‘ اِس ناکامی کا سبب کیا ہے؟

یہاں، مرقس کے نویں باب میں، مجھے یوں لگتا ہے کہ مسیح اِس ہی انتہائی سوال کے ساتھ نمٹ رہا ہے۔ اور جو جواب اُس نے دیا ہے وہ آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ یہ اُس وقت تھا۔

’’اور جب وہ گھر میں داخل ہُوا تو اُس کے شاگردوں نے چُپکے سے اُس سے پُوچھا، ہم اُس بدرُوح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28۔29).

تلاوت کو تین سادہ مضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

I۔ پہلا موضوع ہے ’’یہ قِِسم۔‘‘

ہم اِس کو کیوں نہیں نکال پائے؟ مسیح نے کہا، ’’اِس قسم کی بدروح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی۔‘‘ اُس نے اُنہیں بتایا کہ ایک معاملے اور دوسرے کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ ماضی میں مسیح نے اُنہیں منادی کرنے اور بدروحوں کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا – اور وہ باہر گئے تھے اور منادی کی تھی اور بے شمار بدروحوں کو بھی نکالا تھا۔ وہ خوشی مناتے ہوئے واپس آئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہی بدروحوں کو اُن کا تابع کر دیا گیا ہے۔

اِس لیے جب یہ آدمی اپنے بیٹے کو اِن کے پاس لایا تو وہ پُریقین تھے کہ وہ اُس کی مدد کر پائیں

گے بالکل اُسی طرح سے جیسے اُنہوں نے پہلے کیا تھا۔ مگر اِس دفعہ وہ مکمل طور پر ناکام ہوئے۔ اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود لڑکے کی کسی طور بھی مدد نہ ہو پائی، اور اُنہوں نے تعجب کیا کہ کیوں۔ پھر مسیح نے ’’اِس قسم‘‘ کے بارے میں بتایا۔ ’’اِس قسم‘‘ میں اور اِس سے پہلے جس قسم سے تم نمٹتے رہے ہو اِن کے درمیان فرق ہے۔

ایک طرح سے دیکھا جائے تو معاملہ ہمیشہ یہی رہا ہے۔ گرجہ گھر کا کام نوجوان لوگوں کو شیطان اور بدروحوں کے چنگل سے نجات دلانا ہوتا ہے، ’’اُنہیں تاریکی سے نور اور شیطان کے اختیار سے پھیر کر خُدا کی جانب لانا ہوتا ہے‘‘ (اعمال26:18)۔ یہ ہر زمانے اور ہر تہذیب میں ایسا ہی رہا ہے۔ گرجہ گھروں کو ہمیشہ سے ہی شیطان اور بدروحوں سے نمٹنا ہوتا ہے۔ لیکن بدروحوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ وہ سب ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں۔ پولوس رسول نے کہا کہ ’’ہمیں خون اور گوشت یعنی انسان سے نہیں بلکہ تاریکی کی دُنیا کے حاکموں، اختیار والوں اور شرارت کی روحانی فوجوں سے لڑنا ہے جو آسمانی مقاموں میں ہیں‘‘ (افسیوں6:12)۔ اُس نے ہمیں بتایا کہ بدروحوں کے مختلف درجے ہوتے ہیں، اور اُن کا رہنما خود شیطان ہے، ’’جو ہوا کی عملداری کا حاکم ہے اور جس کی روح اب تک نافرمان لوگوں میں تاثیر کرتی ہے‘‘ (افسیوں2:2)۔ شیطان یہاں پر اپنے تمام تر اختیار کے ساتھ ہے۔ مگر اُس کے نیچے یہ نچلے درجے کی بدروحوں کی قوتیں ہیں۔ شاگرد کمزور تر بدروحوں کو تو آسانی سے نکال پاتے تھے۔ مگر یہاں، اُس لڑکے میں، بہت بڑے اختیار کی ایک روح تھی۔ ’’یہ قِسم‘‘ فرق ہے، اور اِسی لیے ایک بہت زیادہ بڑا مسٔلہ ہے۔ پہلی بات جو ہمیں تلاش کرنی چاہیے یہ ہے کہ آج ’’یہ قِسم‘‘ کونسی ہے جس کے ساتھ ہمیں نمٹنا ہے۔

جب ہم اُن الفاظ ’’اِس قِسم‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو میں تعجب کرتا ہوں کہ آیا اتنے ڈھیر سارے پادری صاحبان کو آج یہ احساس بھی ہے کہ جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں وہ ایک روحانی جنگ ہے۔ میں پُر یقین ہوں کہ بہت سے پادری صاحبان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اُن کا کام شیطان اور اُس کی بُری روحوں سے جنگ کرنا ہے۔ سیمنریاں اور یہاں تک کہ بائبل کے کالج، انسانی طریقوں پر انتہائی شدید زور دیتے ہیں۔ مگر وہ مبلغین کو یہ تعلیم نہیں دیتے کہ اُن کے اہم مسائل روحانی سلطنت میں موجود ہیں۔

اِس لیے وہ کچھ مخصوص طریقوں پر چلتے رہتے ہیں جو ماضی میں کبھی کامیاب ہوا کرتے تھے۔ وہ اِس بات کا احساس نہیں کرتے کہ وہ پرانے طریقے آج ’’اِس قِسم‘‘ کے ساتھ نہیں نمٹ سکتے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں اِس کی ضرورت ہے۔ مگر سوال یہ ہے – اصل میں وہ ضرورت ہے کیا؟ آج جب تک ہم بالکل ٹھیک اُسی ضرورت سے آگاہ نہیں ہوتے، تو ہم بھی اُتنے ہی ناکام ہونگے جتنے کہ وہ شاگرد اُس لڑکے کے ساتھ ہوئے تھے۔

II۔ دوسرا موضوع وہ طریقے ہیں جو ناکام ہو چکے ہیں۔

میں ہمارے گرجہ گھروں کو ایسی باتیں کرتے ہوئے دیکھتا ہوں جو ماضی میں بہت مددگار و معاون ہوا کرتی تھیں، مگر اِس قدر زیادہ اثر ’’اِس قِسم‘‘ پر نہیں ہوتا تھا۔ اور چونکہ ہم پرانے طریقوں پر انحصار کرتے ہیں، تو ہم تقریباً اپنے تمام کے تمام نوجوان لوگوں کو کھو دیتے ہیں، اور ہم مشکل سے ہی دُنیا میں سے کسی کو مسیح میں تبدیل کر پاتے ہیں۔ غلط سمجھے جانے کے خطرے کے اِمکان میں، مَیں سنڈے سکول کو اِس زمرے میں ڈالوں گا۔ ایک سو پچیس سال پہلے یہ بہت مؤثر تھا۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ آج اِس کی وقعت کم ہو چکی ہے۔ یہی بات میں نجات کے چھوٹے چھوٹے کتابچوں کے بارے میں کہوں گا۔ ایک دور تھا کہ لوگ واقعی میں اُنہیں پڑھتے تھے اور گرجہ گھر کے لیے آتے تھے۔ لیکن میں کسی بھی پادری سے محض اِتنا پوچھوں گا، ’’کیا آپ کے گرجہ گھر میں کوئی بھی نوجوان لوگ ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے کتابچے پڑھنے سے گرجہ گھر آئے ہوں اور اُنہوں نے نجات پائی ہو؟‘‘ میں سوچتا ہوں کہ یہ یقینی ہے کہ ’’ماضی میں استعمال کیے گئے طریقوں کے ساتھ ’’اِس قِسم‘‘ کا ردعمل بہتر نہیں ہوتا ہے۔ میں اِسی زمرے میں گھر گھر جا کر منادی کرنا بھی ڈالوں گا۔ ماضی میں اِس کو انتہائی جوش کے ساتھ استعمال کیا گیا تھا، مگر اِس سے ہمیں اب اُن نوجوان لوگوں کو جن سے ہم ’’اِس قِسم‘‘ کے ساتھ نمٹ رہے ہیں گرجہ گھر میں لانے میں مدد نہیں ملتی۔

یہاں کچھ مخصوص باتیں ہیں جو آج کل بیکار ہیں، جب اُنہیں ’’اِس قِسم‘‘ پر لاگو کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، مسیح مؤثر انداز میں کہہ رہا تھا، ’’تم اِس معاملے میں ناکام رہے ہو کیونکہ جو اختیار تمہارے پاس تھا، جو دوسرے معاملات میں کافی تھا اُس کی یہاں پر کوئی وقعت نہیں ہے۔ یہ اُس لڑکے کی مدد کرنے کے لیے تمہیں بے اختیار کر دیتی ہے جو ’’اِس قِسم‘‘ کے اختیار کے تحت ہے۔‘‘

میں جانتا ہوں کہ پادری صاحبان ہیں جو احساس کرتے ہیں کہ ماضی میں بہت سی باتیں جو ہم نے کیں آج کل بیکار ہیں۔ لیکن چونکہ شیطان کی ’’چالبازیوں‘‘ کے بجائے اُنہیں طریقے کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار کیا ہوتا ہے (2کرنتھیوں2:11) – وہ بہت آسانی کے ساتھ نئے طریقوں کی جانب جھول جاتے ہیں جو کہ پرانوں سے کسی طور بھی بہتر نہیں ہوتے – یعنی کہ، آیا ہم نوجوان لوگوں کو گرجہ گھر کا پکا رُکن بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض لوگ ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ اس کا جواب نوجوان لوگوں کو یہ ’’ثابت‘‘ کرنے میں ہے کہ پیدائش کی کتاب میں تخلیق کا واقعہ سچا ہے اور کہ ارتقاء جھوٹ ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ نوجوان لوگ تبدیل ہو جائیں گے، اور دُنیا میں دوسرے شامل ہو جائیں گے، اگر ہم ارتقاء کو غلط ثابت کر سکتے ہیں اور اُنہیں پیدائش کی کتاب میں جوابات ڈھونڈنے کے لیے رضامند کر دیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اِس طریقے سے ہم موجودہ صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا، ’’بالکل ٹھیک ایسا ہی اٹھارویں صدی کے آغاز میں ہوا تھا، جب لوگ اپنے ایمان کو [معافیوں] پر دھر رہے تھے۔ یہ وہ باتیں ہیں، جس کی اُنہوں نے ہمیں تعلیم دی تھی، جو مسیحیت کی سچائی ظاہر کرنے کے لیے ہو رہی ہیں، مگر وہ ایسا کرتے نہیں ہیں۔ ’اِس قسم کی بدرُوح اُس نسل میں سے کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی۔‘‘

ایک اور طریقہ جو ناکام ہو چکا ہے وہ جدید ترجموں کا استعمال ہے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ نوجوان لوگوں کو کنگ جیمس نسخۂ بائبل سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ جدید زبان میں ایک بائبل ہے۔ تب نوجوان لوگ اِس کو پڑھیں گے۔ تب وہ کہیں گے، ’’یہ مسیحیت ہے‘‘ – اور وہ ہمارے گرجہ گھروں میں بھاگے چلے آئیں گے۔ مگر ایسا ہوا نہیں ہے۔ درحقیقت، اِس کا بالکل اُلٹ ہو چکا ہے۔ میں تقریباً مکمل طور پر 55 سالوں سے نوجوان لوگوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ میں ایک حقیقت جانتا ہوں کہ یہ جدید ترجمے نوجوان لوگوں کو بالکل بھی متوجہ نہیں کرتے ہیں۔ درحقیقت، میں نے اُس میں سے بہتوں کو کہتے ہوئے سُنا ہے، ’’یہ ٹھیک نہیں لگتا ہے۔ یہ بائبل کی مانند تو لگتا ہی نہیں۔‘‘

میں نے کبھی بھی جدید ترجمے سے تبلیغ نہیں کی، اور نہ ہی میں کبھی کروں گا۔ اور ہم تمام وقت نوجوان لوگوں کو تبدیل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، دونوں ہمارے گرجہ گھر میں اور دُنیا میں سے بھی۔ اِس جدید ترجموں کی چاہے کوئی بھی وقعت ہو، یہ مسئلے کو حل نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ’’اِس قِسم‘‘ کے ساتھ نہیں نمٹتے۔

وہ اور کیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اوہ، بڑے والا جدید موسیقی ہے! ’’ہمیں موسیقی کو دُرست کرنا ہی ہوگا اور تب وہ اندر آئیں گے اور مسیحی ہونگے۔‘‘ یہ نہایت دُکھی بات ہے۔ کیا مجھے واقعی میں اِس پر تبصرہ کرنےکی ضرورت ہے؟ ایک مغربی بپتسمہ دینے والا گرجہ گھر ہے جو لاس اینجلز میں کرائے پر سہولیات مہیا کرنے والی جگہ پر ہوتا ہے۔ پادری صاحب ایک ٹی شرٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک سٹول پر بیٹھتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سی بات پیش کرنے سے پہلے، تقریباً ایک گھنٹے تک راک موسیقی بجتی ہے۔ ہمارے لوگوں میں سے ایک اِس کی پڑتال کرنے کے لیے گیا۔ وہ ہکابکا رہ گیا۔ اُس نے کہا کہ عبادت تاریک اور قابل رحم تھی، اور روحانی تو بالکل بھی نہیں تھی۔ اُس نے کہا کہ وہ لوگ بشروں کو نہیں جیتتے، اور وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ ایک گھنٹے کے لیے بھی ویسے دعا مانگ پائیں جیسے ہمارے لوگ ہر ہفتے مانگتے ہیں۔ ایک گھنٹہ ماسوائے دعا کے اور کچھ نہیں؟ اِس کو بھول جائیں! لہٰذا، جدید راک موسیقی بھی ’’اِس قِسم‘‘ کو نکال باہر کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

III۔ تیسرا موضوع یہ ہے کہ ہمیں کچھ ایسے کی ضرورت ہے جو اُس بُرے اختیار کے پیچھے پڑ جائے، اور اِس کو تِتر بِتر کر دے، اور صرف ایک ہی بات ہے جو ایسا کر سکتی ہے، اور وہ ہے خُدا کا اِختیار!

ڈاکٹر جان لائیڈ نے کہا، ’’ہمیں یہ احساس ہو چکنا چاہیے کہ چاہے جتنی بڑی بھی ’یہ قِسم‘ ہے، خُدا کا اِختیار لامحدود طور پر عظیم تر ہے، کہ جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ مذید اور شعور، سمجھ، مذید معافیاں، [نئے ترجمے، یا راک موسیقی] نہیں ہے – جی نہیں، ہمیں ایک اختیار کی ضرورت ہے جو لوگوں کی روحوں میں داخل ہو سکے اور اُنہیں توڑ سکے اور اُنہیں پیس سکے اور اُنہیں فروتن کر سکے اور پھر اُنہیں بالکل نیا کر دے۔ اور یہ ہی زندہ خُدا کا اختیار ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ ہمیں واپس تلاوت کی طرف لے جاتا ہے،

’’ہم اُس بدرُوح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28۔29).

دُعّا اور روزہ۔ ’’اِس قِسم‘‘ کے شیطانی حملے پر قابو پانے کے لیے کچھ بھی اور ہمارے گرجہ گھروں کی مدد نہیں کر سکتا۔ ہمارے گرجہ گھر آج نوجوان لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ’اِس قسم کی بدرُوح روزہ اور دعا کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی۔‘‘

کچھ عالمگیر دانشور ’’عالمین‘‘ کہیں گے، ’’بہترین مسودے وہ نہیں کہتے ’اور روزہ رکھنا۔‘‘‘ مگر وہ ’’عالم‘‘ بدروحوں کے بارے میں کیا جانتا ہے؟ اُس کو ہمارے شہر کی سڑکوں اور کالجوں میں سے کافروں کے بدلنے کے بارے میں کیا معلوم ہے؟ وہ حیاتِ نو کے بارے میں کیا جانتا ہے – حیاتِ نو جس کا وہ بالکل ابھی چین میں تجربہ کر رہے ہیں؟ وہ اُن باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں تین مرتبہ گناہ کو بکھیر دینے والے حیاتِ نو کا چشم دید گواہ رہ چکا ہوں۔ یہ سوچ کر میں خوشی سے سرشار ہو جاتا ہوں کہ حیات نو کے اُن تینوں عرصوں میں مجھے منادی کرنے کے لیے بہت زیادہ عزت بخشی جا چکی ہے۔ وہ انجیل کا پرچار کرنے والے اجلاس نہیں تھے۔ یہ وہ دور تھے جب خُدا کا اختیار لوگوں کی روحوں میں داخل ہو جاتا تھا، اور اُنہیں توڑ دیتا تھا، اور اُنہیں پیس ڈالتا تھا، اور اُنہیں فروتن کر دیتا تھا، اور مسیح یسوع میں اُنہیں ایک نیا مخلوق بنا ڈالتا تھا!

لہٰذا، ہم گناسٹک کاتبوں کے لکھے ہوئے اُن دو قدیم مسودوں کی پیروی کرنے نہیں جا رہے ہیں جنہوں نے لفظ ’’روزے‘‘ کو ہی ہذف کر دیا۔ ہم جانتے ہیں کہ مسیح نے کہا، ’’اور روزہ۔‘‘ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟ ہم اِس کو دو وجوہات سے جانتے ہیں۔ اوّل، شاگردوں نے یقینی طور پر دعا کی ہوئی تھی جب اُنہوں نے پہلے بدروحوں کو نکالا تھا۔ اِس لیے کسی اور بات کا اضافہ کیا جانا تھا۔ کچھ اور تھا جس کی ضرورت تھی – روزہ! خالی دعا ہی کافی نہیں تھی۔ ہم اِس کو تجربے سے بھی جانتے ہیں۔ کیونکہ ہم روزہ رکھ چکے ہیں اور ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ خُدا کیا کر سکتا ہے جب ہمارے دِل روزے اور دعا میںڈوب جاتے ہیں۔

اب میں ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز کی جانب سے ایک اور حوالے کے ساتھ بند کروں گا۔ کیسے ایک مبلغ! کیا بصیرت! میں اُن کے لیے خُدا کا کس قدر مشکور ہوں۔ ایک اور جگہ پر اُنہوں نے کہا،

میں متعجب ہوں کہ آیا ہمیں اِس بات کا کبھی خیال بھی آیا کہ ہمیں روزے کے بارے میں سوال کے لیے فکر مند ہونا چاہیے؟ حقیقت تو ہے، کیا نہیں ہے، کہ یہ تمام کا تمام موضوع ہماری زندگیوں اور ہماری تمام مسیحی سوچ سے بالکل نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے؟

اور وہ، غالباً کسی اور بات کے مقابلے میں سب سے زیادہ، وجہ ہے کہ ہم ’’اِس قِسم‘‘ پر قابو پانے کے قابل نہیں ہو پائے ہیں۔

میں اگلے ہفتے کو 5:00 بجے شام تک کے لیے ہمارے گرجہ گھر میں عمومی روزہ رکھنے کے لیے کہنے جا رہا ہوں۔ اُس وقت ہم یہاں پر گرجہ گھر میں آئیں گے اور انجیل بشارت پر باہر جانے سے پہلے سادہ سا کھانا کھائیں گے۔ ہم اُن نوجوان لوگوں کی تبدیلی کے لیے روزہ رکھنے اور دعا مانگنے جا رہے ہیں جو آتے رہے ہیں مگر ابھی تک تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ اور مذید اور لوگوں کے ہمارے گرجہ گھر میں آنے کے لیے بھی روزہ رکھنے اور دعائیں مانگنے کے لیے جا رہے ہیں۔

اب مجھے اِس اِجلاس کا یسوع کے بارے میں چند الفاظ کہے بغیر اختتام نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ اُس میں پانا ہے۔ عبرانیوں کی کتاب کہتی ہے،

’’ہم یسوع کو دیکھتے ہیں جسے فرشتوں سے کچھ ہی کمتر کیا گیا تاکہ وہ خدا کے فضل سے ہر اِنسان کے لیے اپنی جان دے اور چونکہ یسوع نے موت کا دکھ سہا اِس لیے اُسے جلال اور عزت کا تاج پہنایا گیا… یہی وجہ ہے کہ یسوع کو ہر لحاظ سے اپنے بھائیوں کی مانند بننا لازم ٹھہرا تاکہ وہ خدا کی خدمت کرنے کے سلسلہ میں ایک رحمدل اور دیانتدار سردار کاہن بنے اور اُن کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے‘‘ (عبرانیوں 2:9،17).

آمین۔

یسوع، خُدا کا بیٹا، گنہگاروں کے متبادل کے طور پر گنہگاروں کی جگہ پر مرا۔ جس لمحے آپ خود کو یسوع کے حوالے کرتے ہیں صلیب پر اُس کی موت کے وسیلے سے آپ کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ جس لمحے آپ خود کو نجات دہندہ کے حوالے کرتے ہیں، آپ کے گناہ خُدا کے اندراج میں سے مسیح کے قیمتی خون کے وسیلے سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیے جاتے ہیں۔ ہم کس قدر دعا کرتے ہیں کہ آپ خُداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کریں گے اور اُس کے وسیلے سے گناہ سے بچائے جائیں گے۔ آمین اور آمین۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیں اور اپنے گیتوں کے ورق میں سے آخری گیت گائیں۔

بغیر ایک التجا کے، میں جیسا بھی ہوں،
   مگر کہ تیرا خون میرے لیے بہایا گیا،
اور کہ تو مجھے اپنے پاس بُلانے کے لیے بیقرار ہے،
   اے خُدا کے برّے، میں آیا! میں آیا!
(’’میں جیسا بھی ہوں Just As I Am‘‘ شاعر شارلٹ ایلیٹ Charlotte Elliott، 1789۔1871)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: لوقا9:37۔45 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’پرانے دور کا اِختیار Old-Time Power‘‘ (شاعر پال رِیڈر Paul Rader، 1878۔1938)۔

لُبِ لُباب

اِس قِسم

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 1)
THIS KIND
(SERMON NUMBER 1 ON REVIVAL)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے .by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’اور جب وہ گھر میں داخل ہُوا تو اُس کے شاگردوں نے چُپکے سے اُس سے پُوچھا، ہم اُس بدرُوح کو کیوں نہیں نکال سکے؟ یسوع نے اُنہیں جواب دیا کہ اِس قسم کی بدرُوح دعا اور روزہ کے سِوا کسی اور طریقہ سے نہیں نکل سکتی‘‘ (مرقس 9:28۔29).

(مرقس9:18)

    پہلا موضوع ہے ’’یہ قِِسم،‘‘ اعمال26:18؛ افسیوں6:12؛ 2:2 .

II۔   دوسرا موضوع وہ طریقے ہیں جو ناکام ہو چکے ہیں، 2۔کرنتھیوں2:11.

III۔  تیسرا موضوع یہ ہے کہ ہمیں کچھ ایسے کی ضرورت ہے جو اُس بُرے اختیار کے پیچھے پڑ جائے، اور اِس کو تِتر بِتر کر دے، اور صرف ایک ہی بات ہے جو ایسا کر سکتی ہے، اور وہ ہے خُدا کا اِختیار! عبرانیوں2:9، 17 .