Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

آج کی دُنیا میں شیاطین

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 79)
DEMONS IN THE WORLD TODAY
(SERMON #79 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائمیرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 25 مئی، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, May 25, 2014

’’جب رُوئے زمین پر آدمیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور اُن کے بیٹیاں پیدا ہُوئیں تو خدا کے بیٹوں نے دیکھا کہ آدمیوں کی بیٹیاں خوبصورت ہیں اور اُنہوں نے جن جن کو چُنا اُن سے بیاہ کر لیا‘‘ (پیدائش 6:1۔2).

اِس حوالے پر اپنی بائبل کھلی رکھیں۔ اِس سے پہلے کہ میں اِن دو آیات کو سمجھاؤں، میں آپ کو آج کے اِرتداد کی کُلید پیش کروں گا۔ گذشتہ اِتوار کو ہم نے اُس پیشنگوئی کو دیکھا جو یسوع نے دی تھی، اور ہم اُس کے بارے میں اب دوبارہ سوچنے کے لیے جا رہے ہیں۔

شاگردوں نے یسوع سے پوچھا، ’’تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ (متی24:3)۔ مسیح نے اُنہیں بے شمار نشانات پیش کیے۔ مگر پھر اُس نے اُنہیں ایک بہت بڑا نشان پیش کیا جس میں دوسرے تمام شامل ہو جائیں گے۔ مسیح نے کہا،

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

اگر ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اِس زمانے کے اختتام اور مسیح کی دوسری آمد ثانی سے پہلے عمومی مدت میں کیسا ہوگا، ہمیں اتنا کرنا ہے کہ سیلاب سے پہلے نوح کے زمانے میں کیسا تھا صرف پڑھنا ہے۔ اور اِس کی تفصیل بائبل کے صرف تین ابواب میں پیش کی گئی ہے – پیدائش کی کتاب میں باب 4، 5، اور 6۔

گذشتہ اتوار کی شب میں نے آپ پر ظاہر کیا تھا کہ پیدائش کی کتاب، باب 5 میں، بزرگان کے دور میں اِرتداد کے بڑھنے کا وقت تھا، اور بہت زیادہ ایمان کا بالکل بھی زمانہ نہیں تھا! اُس باب میں بزرگان کوئی روحانی رہنما نہیں تھے۔ وہ باب اتنا بتاتا ہے کہ وہ جیئے، بیٹوں اور بیٹیوں کے باپ بنے اور مر گئے۔ بس یہی سب کچھ! بزرگان کی اِس فہرست کے درمیان میں سے ایک شخص تھا جس نے بالاآخر کچھ کیا۔ اُس کا نام حنوک تھا۔ اُس نے اِس دور کے بڑھتے ہوئے اِرتداد کے خلاف منادی کی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ خُداوند ’’سب لوگوں کا انصاف کرنے کے لیے‘‘ آ رہا ہے (یہوداہ 15)۔ اُس نے عظیم سیلاب کی آنے والی سزا پر منادی کی۔ اور بائبل کہتی ہے، ’’حنوک خُداوند کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘‘ (پیدائش5:22)۔ نوح کے آنے تک وہ کسی دوسرے بزرگ کے بارے میں ایسا کچھ نہیں کہتی ہے، ’’اور نوح خُداوند کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘‘ (پیدائش6:9)۔ ماسوائے اِن دونوں آدمیوں – حنوک اور نوح کے۔ عبرانیوں 11 باب میں پیش کی گئی فہرست میں ایمان والے لوگوں میں اِس زمانے کے تمام بزرگان کے نام درج نہیں کیے گئے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ پیدائش 5 باب کا زمانہ ایک بڑھتے ہوئے اِرتداد کا زمانہ تھا۔

تبصرہ نگار ’’سیت کی دیندار نسل‘‘ اور ’’قائِن کی بے دین نسل‘‘ کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔ لیکن وہاں پر ایک بھی لفظ نہیں ہے – ایک لفظ بھی نہیں – جو بائبل میں وہ تعلیم دے رہا ہو! جی ہاں، دو نسلیں تھیں، وہ نسل جو قائِن سے تھی، اور وہ نسل جو سیت سے قائم ہوئی تھی۔ مگر دونوں ہی گروہ بے دین تھے! دونوں ہی گروپ سیلاب میں غرق ہو گئے تھے! قدیم یہودی ربّیوں نے بزرگان کے دور کے بارے میں ایک بڑھتے ہوئے اِرتداد کے زمانے کے طور پر بات کی ہے۔ جو ہمیں ہماری تلاوت میں اِرتداد اور گناہ کے عروج تک لے جاتا ہے۔ اِس پر دوبارہ نظر ڈالیں، پیدائش 6:1۔2 میں۔

I۔ اوّل، یہ انتہائی شدید شیطانی سرگرمیوں کا ایک زمانہ تھا۔

’’جب رُوئے زمین پر آدمیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور اُن کے بیٹیاں پیدا ہُوئیں تو خدا کے بیٹوں نے دیکھا کہ آدمیوں کی بیٹیاں خوبصورت ہیں اور اُنہوں نے جن جن کو چُنا اُن سے بیاہ کر لیا تب خداوند نے کہا، میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ فانی ہے۔ اُس کی عمر ایک سو بیس برس کی ہوگی۔ اُن دِنوں میں زمین پر بڑے قد آور اور مضبوط لوگ موجود تھے بلکہ بعد میں بھی تھے جب خدا کے بیٹے اِنسانوں کی بیٹیوں کے پاس گئے اور اُن سے اولاد پیدا ہُوئی۔ یہ قدیم زمانہ کے سورما اور بڑے نامور لوگ تھے۔ اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش 6:1۔5).

سیکوفیلڈ کی غور طلب بات کہتی ہے کہ یہ ’’قینانیوں کی سیتیوں کے ساتھ شادیاں‘‘ تھیں۔ مگر وہ غور طلب بات غلط ہے۔ ’’خُدا کے بیٹے‘‘ باغ عدن میں سے نکالے ہوئے باغی فرشتے تھے جن کے ’’آدمزادوں کی بیٹیوں‘‘ کے ساتھ جنسی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر رائیری Dr. Ryrie نے کہا، ’’خُدا کے بیٹے‘‘ والا جملہ پرانے عہد نامے میں تقریباً صرف فرشتوں کے بارے میں استعمال ہوا ہے... اس منفرد موقعے پر انسانی اولاد پیدا کرنے کے لیے انسانی عورتوں کے ساتھ وہ رہنے لگے‘‘ (رائیری مطالعہ بائبل Ryrie Study Bible، پیدائش 6:2 پر غور طلب بات)۔ ذرائع کے طور پر یہوداہ 6 اور 7 کا حوالہ دیتے ہوئے، ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے کہا، ’’یہ فرشتے جو اپنی پہلی ذاتی ملکیت سے گرے تھے کبھی پاک فرشتے ہوتے تھے۔ اُن کا گناہ بھی وہی تھا جو کہ صدوم کا تھا – عجیب اجسام کے پیچھے پڑنا، ناجائز جسمانی تعلقات میں ملوث ہونا، بدکاری و زناکاری – جس سے خُداوند کی سزا نازل ہوئی‘‘ (ایم۔ آر۔ ڈیحان، ایم۔ ڈی۔ M. R. DeHaan, M.D.، نوح کے دِن The Days of Noah، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، 1963، صفحہ 144)۔

یہی قدیم یہودی ربّیوں کا بھی نظریہ تھا، اور میں قائل ہوں کہ یہ بنیادی طور پر درست ہے۔ تاہم، عالمین تعجب کرتے ہیں کہ کیسے باغی فرشتے (جنہیں اب شیاطین کے طور پر جانا جاتا ہے) نوح کے زمانے کی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھ پائے ہونگے۔

چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں میرے دیرینہ پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Linتھے۔ وہ پرانے عہد نامے کے عالم تھے جو کہ نیو امریکی سٹینڈرڈ بائبل (NASV) کے ترجمانوں میں سے ایک تھے، اور اُنہوں نے کئی قدامت پسند سیمنریوں میں بھی تعلیم دی تھی۔ ڈاکٹر لِن نے جواب میں تجویز پیش کی کہ کیسے فرشتانہ ہستیوں نے انسانی عورتوں کو اپنی بیویوں کے طور پر اپنایا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ گمراہ فرشتوں نے آدمیوں پر قبضہ کیا، اور پھر اِن شیطان کے قبضے میں جکڑے آدمیوں نے تب عورتوں کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کیے۔ اُنہوں نے کہا، ’’اِن بدکار گمراہ فرشتوں سے اِسی وجہ سے شیطان کے اثر کے تحت بچے پیدا ہوئے [جو] کہ انتہائی شدت کے ساتھ اخلاقی طور پر بدکار تھے‘‘ (ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، پیدائش: ایک بائبلی علم الہٰیات Genesis: A Biblical Theology، بین الااقوامی بائبلی مطالعاتی مذہبی جماعتیں Biblical Studies Ministries International، 2002، صفحات 96۔97)۔ ڈاکٹر لِن نے یہ بھی کہا،

     جوں جوں شیطان انسانوں کے معاملات میں اپنی مداخلت میں مذید اور آزاد ہوتا گیا، اُس نے مذید اور لوگوں میں جنسی شہوت کی شدت میں اضافہ کیا جنہیں وہ پہلے ہی بدچلن کر چکا تھا۔ اِس عرصہ کے دوران آپس میں شادیوں نے نا صرف شادی جیسے مقدس دستور کو بگاڑ کر خودغرضانہ اور ہوس سے بھرپور خواہشات کی تسکین کے ذرائع میں بدل کر رکھ دیا بلکہ عام طور پر سوچی جانے والی بات کے مقابلے میں کچھ بہت زیادہ انتہائی سنگین کر دیا۔ اِس نے انسان کی بیٹیوں کے مابین خُدا کے بیٹوں سے مباشرت قائم کر دی، اِس مقصد کے تحت کہ انسانی نسل شاید نسل انسانی کے کمتر درجے سے گر کر بدچلن اور عیاش ہو جائے۔ یہ کامیاب رہا تھا، انسان شاید اب انسان کی اولاد نہیں رہا تھا بلکہ شیطان کا بیچ بن چکا تھا، اور اِسی لیے وعدہ کیے گئے نجات دہندہ سے انکاری تھا جو کہ انسان بننے کا ایک وسیلہ تھا۔
     شیطان کے منصوبے نے کُل ملا کر زمین کی آبادی کو بدکار کر دیا تھا۔ لوگ مجموعی طور پر’’کھاتے پیتے اور شادی بیاہ کرتے کراتے تھے، نوح کے کشتی میں داخل ہونے کے دِن تک یہ سب کچھ ہوتا رہا‘‘ (متی24:38)۔ اِس کے علاوہ، ’’زمین ظلم و تشّدد سے بھر گئی تھی،‘‘ (پیدائش 6:11، 13)۔ اِس عرصے کے دوران بدکاری، بُرائی، اخلاقی زوال اور ظلم و تشّدد کی وجہ بننے کے لیے شیطان کا اہم ہتھیار ’’خُدا کے بیٹوں‘‘ کے ذریعے سے چڑھائی اور ہنگامہ آرائی کرنا تھا، جنہوں نے ... اُس دور میں لوگوں کو بدکار اور بدچلن کرکے اخلاقی زوال میں مبتلا کر دیا (ibid.)۔

اب پیدائش 6:4 پر نظر ڈالیں،

’’ اُن دِنوں میں زمین پر بڑے قد آور اور مضبوط لوگ موجود تھے بلکہ بعد میں بھی تھے جب خدا کے بیٹے اِنسانوں کی بیٹیوں کے پاس گئے اور اُن سے اولاد پیدا ہُوئی۔ یہ قدیم زمانہ کے سورما اور بڑے نامور لوگ تھے‘‘ (پیدائش 6:4).

کنگز جیمس بائبل KJV ان آسیب زدہ شیطان کے قبضے میں لوگوں کے بچوں کو ’’دیو یا جنات‘‘* پکارتی ہے۔ یہ ایک بدقسمت ترجمہ ہے جو کہ قدیم ربّیوں کی وجہ سے عبرانی لفظ ’’بنی نفیل، نیفیلیم nephilim ‘‘ کی غلط ترجمانی کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ اُنہوں نے قدیم ترین پرانے عہد نامے کے یونانی نسخے Septuagint میں عبرانی کے یونانی میں بطور ’’جنات یا دیو‘‘ کیا۔ مگر عبرانی لفظ ’’بنی نفیل، نیفیلیم nephilim ‘‘ کا مطلب ’’دیو یا جنات‘‘ نہیں ہوتا ہے۔ اِس کے بجائے اِس کا مطلب ’’گرے ہوئے، باغی، باغ عدن سے نکالے ہوئے‘‘ ہے۔ ڈاکٹر ھنری ایم۔ مورس Dr. Henry M. Morris نے کہا کہ اِس کا ’’قدرتی اور ممکنہ مطلب ’وہ جو باغی ہو چکے ہیں‘‘ہوتا ہے، غالباً جنت سے نکالے گئے فرشتے… کے لیے ایک حوالہ ہے... اِس عرصے کے دوران شیطانی طور پر قابو کی ہوئی عورتوں اور آدمیوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والے بچے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ [بنی نفیل، نیفیلیم nephilim یا ’بغاوت والے‘] بن چکے تھے‘‘ (ھنری ایم۔ مورس، پی ایچ۔ ڈی۔ Henry M. Morris, Ph. D.، پیدائش کا ریکارڈ The Genesis Record، بیکر کتب گھر Baker Book House، اشاعت 1986، صفحہ 172؛ پیدائش6:4 پر ایک غور طلب بات)۔ لہٰذا ہم پیدائش 6:4 کا ترجمہ یوں کر سکتے ہیں، ’’اُن دِنوں میں اور اُن کے بعد بھی، زمین پر جنت سے نکالے گئے باغی فرشتے ہوا کرتے تھے، جب خُدا کے بیٹوں [شیطان کے قبضے میں آئے ہوئے آدمیوں] نے انسانوں کی بیٹیوں سے ملاپ کیا، اور اُنہوں نے اُن کے لیے بچے پیدا کیے...‘‘ عظیم سیلاب سے پہلے اِس عرصے کے اختتام پر، تمام کی تمام نسل انسانی شیطان کے قبضے میں آئی ہوئی اور شیطان سے متاثرہ لوگوں پر مشتمل تھی۔ شیطان کے منصوبے نے تقریباً کام کر دکھایا تھا۔ اُس نے تقریباً نسل انسانی کو تباہ ہی کر دیا تھا، اور تقریباً مسیح کی آمد کو ختم ہی کر دیا تھا۔ اِن شیطان زدہ لوگوں کا بیان پیدائش 6:5 میں کیا گیا ہے۔ شیطان کے منصوبے کو کس نے روکا؟ پیدائش6:8 پر نظر ڈالیں،

’’لیکن نوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا‘‘ (پیدائش 6:8).

خُدا کے فضل کے وسیلے سے نوح اور اُس کا خاندان شیطان کے قبضے میں آنے سے محفوظ رہے تھے۔ اُس نے اُنہیں محفوظ رکھا جب اُس نے ’’جنت سے نکالے گئے باغی فرشتوں‘‘ کو تباہ کرنے کے لیے سیلاب بھیجا۔ اگر آپ چنیدہ میں سے ایک ہیں، خُداوند کے ذریعے سے چُنے گئے ہیں، تو آپ کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ شیطان اور اُس کے آسیبوں کے مقابلے میں خُداوند کا فضل نہایت مضبوط ہے۔ لوتھرLuther نے کہا، ’’اور حالانکہ شیاطین کے ساتھ بھری یہ دُنیا ہمیں ختم کرنے کی کوشش کرے گی، ہم خوفزدہ نہیں ہونگے، کیونکہ ہمارے ذریعے سے فتح پانے کے لیے خُداوند نے اپنی سچائی ظاہر کر دی ہے۔‘‘ لیکن اگر آپ بچائے نہیں جاتے ہیں، تو آپ کو خوفزدہ ہونا چاہیے! اور یہ بات ہمیں دوسرے نقطے پر لے جاتی ہے۔

II۔ دوئم، ہم آج انتہائی شدید شیطانی سرگرمی کے دور میں جی رہے ہیں۔

یہ ہمیں واپس خُداوند یسوع مسیح کی پیشنگوئی کی جانب لے جاتی ہے، جس نے کہا،

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے کہا،

کیا ہم آج کے حالات میں کوئی نوح کے دِنوں کی مشہابت دیکھ سکتے ہیں...؟ یقینی طور پر اِس تمام میں نوح کے دِنوں کے دہرائے جانے کی شناخت کرنے میں ناکام ہونے کے لیے ہمیں روحانیت میں اندھا، اور خُدا کے کلام سے مکمل طور پر لا علم ہونا چاہیے... (ایم۔ آر۔ ڈیحان M. R. DeHaan، نوح کے دِن The Days of Noah، ژونڈروان اشاعتی گھر Zondervan Publishing House، اشاعت 1971، صفحہ 149)۔

نوح کے دِنوں میں شیطانی قوتوں نے دُنیا پر قبضہ کر لیا تھا – اور تقریباً تمام نسل انسانی کو تباہ کر دیا تھا۔

اپنی تمام زندگی میں، میں دُنیا میں شیطان کی قوت کو بڑھتا ہوا دیکھ چکا ہوں۔ 1960 کی دہائی میں بعض اوقات یوں محسوس ہوتا تھا کہ دُنیا تباہی کے دہانے کی جانب جھولتی جا رہی تھی۔ بے شمار نوجوان لوگوں نے ایل ایس ڈی LSD جیسا نشہ لینے کے ذریعے سے خود کو شیطانی قبضے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ آج کل وہ ایسے نشے استعمال کر رہے ہیں جنہوں نے LSD کو اتنا ہی بے ضرر ظاہر کر دیا ہے جتنا کہ ایک مٹھائی یا ٹافی ہوتی ہے۔ 70 کی ابتدائی دہائی میں مَیں سان فرانسسکو کے علاقے میں ہیپیوں کے درمیان منادی کر رہا تھا۔ میں آپ کو ذاتی تجربے سے بتا سکتا ہوں کہ اِن میں سے بے شمار بچے انتہائی شدید شیطانی اثر کے تحت تھے، اور میں نے اُن میں سے کئی ایک کو دیکھا جو مکمل طور پر شیطان کے قبضے میں تھے۔ 1973 میں ریاست ہائے متحدہ کی سپریم کورٹ نے اپنی مرضی سے اسقاط حمل کو سارے امریکہ میں قانونی قرار دے دیا۔ اُس وقت سے لیکر اب تک 55 ملین نوزائیدہ بچوں کو اسقاط حمل کرنے والے شیطان کے نرغے میں آئے ’’ڈاکٹروں‘‘ کے ذریعے سے قتل کیا جا چکا ہے۔ ہم سان فرانسسکو اور لاس اینجلز کے اندرونی شہروں میں نوجوان لوگوں میں مذہبی خدمات سرانجام دیتے ہوئے دریافت کر چکے ہیں کہ تقریباً ہر وہ عورت جس نے ’’اپنی مرضی سے‘‘ اسقاط حمل کروایا آسیبی بن چکی ہے، اور بہت سی مکمل طور پر شیطان کے قبضے میں آ چکی ہیں۔ آج یہ عورتیں، اور نشہ استعمال کرنے والے آدمیوں نے ووٹ دینے والوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ بنا لیا ہے جس نے براک اوباما کو دو مرتبہ صدارت دلوائی۔ مسٹر اوباما کے بہت سے خیالات ہیں جو واضح طور پر شیطانی ہیں۔ میں ذاتی طور پر یقین کرتا ہوں کہ وہ شیطانی ہو گئے تھے جب وہ (21 سالوں تک) ایک گرجہ گھر میں جاتے رہے جس کے پادری ڈاکٹر یرمیاہ رائٹ Dr. Jeremiah Wright تھے، وہ شخص جو ٹیلی ویژن پر چلاتے ہیں ’’خُدا امریکہ کو غارت کرے! خُدا امریکہ کو غارت کرے! خُدا امریکہ کو غارت کرے!‘‘ مجھے نظر نہیں آتا کہ کیسے کوئی بغیر شیطانی بنے 21 سالوں تک تقریباً ہر اتوار کو اُن کے گرجہ گھر میں حاضری کے لیے جا سکتا ہے!

کیا مجھے یہاں پر فوجیوں میں ہم جنسیت اور ’’لونڈے بازوں‘‘ کی شادیوں کا تزکرہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے؟ کیا مجھے فحاشی کا تزکرہ کرنے کی ضرورت ہے – جس کو کہ اب 95 % سے زیادہ نوعمر لڑکے دیکھتے ہیں؟ کیا مجھے ریوز اور راک موسیقی کے پروگراموں میں جس قسم کی موسیقی سُنی جاتی ہے اُس کا تزکرہ کرنے کی ضرورت ہے، جہاں پر سارے کا سارا ہجوم تال پرمسحور ہو جاتا ہے اور انسانی جسموں کی ایک بہت بڑی تھرکتی تعداد میں پگھل جاتا ہے؟ کیا مجھے آج کل تقریباً تمام ہالی ووڈ کی فلموں میں دیکھی جانے والی ناقابلِ بیان غلاظت اور ڈراؤنی قتل و غارت گری کا تزکرہ کرنے کی ضرورت ہے؟ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا،

آج بے شمار لوگ شیطان کے قبضے میں ہیں... ہم اُس کی جو شیطانی ہے زیادہ اور زیادہ مظاہرے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے بارے میں اِس سب کے بے شمار شواہد موجود ہیں (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل کی ذریعے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، جلد چہارم، 1983، صفحہ 51؛ متی 8:32 پر تبصرہ)۔

ڈاکٹر میگی ایک انتہائی معزز اور جانے مانے مشہور و معروف بائبل کے اُستاد تھے۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones کو بیسویں صدی کے عظیم ترین مبلغین میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ اُنہوں نے پچیس سالوں سے بھی زیادہ عرصے تک انگلستان کے شہر لندن کے دِل میں ویسٹ منسٹر عبادت گاہ میں علاقہ دار پادری کے فرائض سرانجام دیے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا،

تمام مُلک کی بے دینی اور کمتر روحانیت کی وجہ سے شیطانی سرگرمی عروج پر ہے (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، شفائیں اور مقدس ضحائف Healing and the Scriptures، اولیور بیلسن کُتب Oliver-Belson Books، 1988، صفحہ 159)۔

آخری ایام میں بائبل شیطانی سرگرمیوں کی ایک مکمل فہرست کی پیشن گوئی کرتی ہے۔ پولوس رسول نے کہا،

’’لیکن یاد رہے کہ آخری زمانہ میں بُرے دِن آئیں گے، لوگ خُود غرض، زَر دوست، شیخی باز، مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکرے، ناپاک، محبت سے خالی، بے رحم، بدنام کرنے والے، بے ضبط، تُند مزاج، نیکی کے دشمن، دغاباز، بے حیا، گھمنڈی، خدا کی نسبت عیش وعشرت کو زیادہ پسند کرنے والے ہوں گے۔ وہ دینداروں کی سی وضع تو رکھیں گے لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے۔ اَیسوں سے دُور ہی رہنا‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:1۔5).

’’لیکن بدکار، دھوکہ باز لوگ فریب دیتے دیتے اور فریب کھاتے کھاتے بگڑتے چلے جائیں گے‘‘ (2۔ تیموتاؤس3:13).

پولوس رسول نے نشاندہی کی کہ یہاں تک کہ آخری ایام میں یہ شیطانی سرگرمی قدامت پسند گرجہ گھروں میں بھی دھاوا بول دے گی،

وہ سچائی کی طرف سے کان بند کر لیں گے اور کہانیوں کی طرف توجہ دینے لگیں گے‘‘ (2۔ تیموتاؤس 4:4).

’’جیسا نُوح کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی 24:37).

ہم گردش کرتی ہوئی شیطانی سرگرمی کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف یسوع ہی ہمیں بچا سکتا ہے!

اِن شیطانی ادوار میں جن میں ہم آج زندگی بسر کر رہے ہیں، ہر کسی کو پولوس رسول کی جانب سے ہمیں پیش کی گئی تنبیہہ پر احتیاط کے ساتھ توجہ دینی چاہیے،

’’ہوشیار اور خبردار رہو کیونکہ تمہارا دشمن اِبلیس دھاڑتے ہُوئے شیِر ببر کی مانند ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے‘‘ (1۔ پطرس 5:8).

کیا آپ نے کبھی تعجب کیا کہ کیوں آپ میں سے کچھ کو یسوع پر بھروسہ کرنا اور بچایا جانا اِس قدر دشوار محسوس ہوتا ہے؟ کیا آپ نے کبھی بھی سوچا کہ یہ غالباً آپ کے ذہن پر ایک شیطانی حملہ ہوتا ہے – آپ کو اپنا غلام بنائے رکھنے کے لیے شیطان کی آخری ہنگامی کوشش؟ بائبل اُن کے بارے میں بتاتی ہے جو ’’اپنی تمام زندگی‘‘ کے لیے شیطان کی اسیری (یا غلامی) میں ہیں (عبرانیوں2:14، 15)۔

اِس ہی لیے یسوع آیا تھا – آپ کو شیطان کی اسیری سے نجات دلانے کے لیے، آپ کو شیطان کا غلام بننے سے آزادی دلانے کے لیے! یسوع صلیب پر آپ کے گناہ کا کفارا ادا کرنے کے لیے مرا۔ یسوع مُردوں میں سے آپ کو شیطان کی غلامی سے آزادی دلانے کے لیے جی اُٹھا! آئیں اور یسوع کے ساتھ التجا کریں کہ آپ کو شیطان سے آزادی دلائے! آئیں اور یسوع کے ساتھ آپ کے گناہ کو معاف کرنے اور آپ کو نئی زندگی بخشنے کے لیے التجا کریں! یسوع نے کہا کہ خُدا نے اُسے ’’بھیجا تاکہ قیدیوں کو رہائی دلائے، اور ... اُنہیں جو کچلے ہوئے ہیں آزادی بخشے‘‘ (لوقا4:18)۔ اوہ، آئیں، آئیں، آئیں – یسوع کے لیے آئیں! کوئی بھی نہیں ماسوائے یسوع کے، کوئی بھی نہیں ماسوائے یسوع کے جو بےبس گنہگاروں کے لیے اچھائی کر سکتا ہے!‘‘

شیطان کے بارے میں مذید اور مت سوچیں! صرف یسوع کے بارے میں سوچیں! اپنے آپ کو یسوع کے حوالے کریں اور وہ آپ کو گناہ اور موت سے آزادی بخشے گا! یسوع آپ کو بچائے گا! ’’صرف اُسی پر بھروسہ کریں، صرف اُسی پر بھروسہ کریں، ابھی صرف اُسی پر بھروسہ کریں۔ وہ آپ کو بچائے گا، وہ آپ کو بچائے گا، وہ ابھی آپ کو بچائے گا‘‘! اوہ، گناہ سے منہ موڑیں اور نجات دہندہ پر ابھی بھروسہ کریں!

آئیں اور ہمارے ساتھ یسوع کے بارے میں آپ کو بچانے کے لیے بات چیت کریں۔ اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ابھی چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو ایک دوسرے کمرے میں لے جائیں گے جہاں پر ہم بات چیت کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ کوئی نہ کوئی آج یسوع پر بھروسہ کرے۔ آمین۔

*قدیم ربّیوں نے عبرانی لفظ ’’بنی نفیل، نیفیلیم nephilim ‘‘ کا ترجمہ [قدیم ترین پرانے عہد نامے کے یونانی نسخے] Septuagint میں’’دیو یا جنات‘‘ کیا۔ یوں، اُنہوں نے غلط تصور متعارف کروایا کہ نیفیلیم دیو یا جنات ہوتے ہیں۔ لفظ ’’بنی نفیل، نیفیلیم nephilim ‘‘ گنتی13:33 میں بھی ظاہر ہوتا ہے جہاں پر کنگ جیمس نسخے KJV میں اس کا بطور ’’جنات یا دیو‘‘ غلط ترجمہ کیا گیا۔ دونوں ہی جگہوں پر یہ بدنصیب ترجمہ [قدیم ترین پرانے عہد نامے کے یونانی نسخے] Septuagint میں (جنات یا دیو) کی غلط ترجمانی سے آتا ہے۔ جس طرح سے گنتی13:33 میں ہم جانتے ہیں کہ وہ بہت قدآور لوگ تھے اور کہ عبرانی خود کو اُن کے سامنے ٹڈّوں کی مانند سمجھنے لگے۔ مگر اِس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ بہت بڑے، ہٹے کٹے لوگ تھے، ناکہ وہ جن یا دیو تھے۔ لفظ ’’بنی نفیل، نیفیلیم nephilim ‘‘ اِس حقیقت کی جانب بھی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ آسیب زدہ تھے، جیسا کہ بے شمار لوگ تھے جو عبرانیوں کے آنے سے قبل کنعان کی سرزمین میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اِن آسیب زدہ لوگوں کے ذریعے سے عبرانی مسلسل خوفزدہ رہتے تھے کیونکہ وہ اُن تمام کو مُلک سے باہر نہیں نکال پائے تھےجیسا کہ خُداوند نے اُنہیں کرنے کے لیے حکم دیا تھا۔ اِن میں سے کسی حوالے میں بھی کوئی ایک ’’جن یا دیو‘‘ نہیں ہے، حالانکہ کچھ تبصرے، اور یہاں تک کہ سٹرانگ Strong بھی قدیم ربیّوں کی غلط ترجمانی سے مخمصے کا شکار ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: پیدائش6:1۔8 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’پھر یسوع آیا Them Jesus Came‘‘ (شاعر ڈاکٹر اوسولڈ جے۔ سمتھ
Dr. Oswald J. Smith، 1889۔1986)۔

لُبِ لُباب

آج کی دُنیا میں شیاطین

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 79)
DEMONS IN THE WORLD TODAY
(SERMON #79 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائمیرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’جب رُوئے زمین پر آدمیوں کی تعداد بڑھنے لگی اور اُن کے بیٹیاں پیدا ہُوئیں تو خدا کے بیٹوں نے دیکھا کہ آدمیوں کی بیٹیاں خوبصورت ہیں اور اُنہوں نے جن جن کو چُنا اُن سے بیاہ کر لیا‘‘ (پیدائش 6:1۔2).

(متی 24:3، 37؛ یہوداہ 15؛ پیدائش 5:22؛ 6:9

)

I. اوّل، یہ انتہائی شدید شیطانی سرگرمیوں کا ایک زمانہ تھا، پیدائش6:1۔5؛ متی 24:38؛ پیدائش 6:11، 13، 4، 8۔

II. دوئم، ہم آج انتہائی شدید شیطانی سرگرمی کے دور میں جی رہے ہیں۔ متی 24:37؛ 2۔ تیموتاؤس 3:1۔5، 13؛ 4:4؛ 1۔ پطرس 5:8؛ عبرانیوں 2:14، 15؛ لوقا 4:18۔