Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

تیسرا راستہ – بحرانی تبدیلی

THE THIRD WAY – CRISIS CONVERSION
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 9 مارچ، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, March 9, 2014

اور آیئعن ایچ۔ مرے کی جانب سے ’تفسیراتی منادی کے لیے احتیاط‘‘
and “A Caution For Expository Preaching” by Iain H. Murray

’’پھر یسوع نے کہا: کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ اُن میں سے چھوٹے نے اپنے باپ سے کہا: اَے باپ! جائداد میں جو حِصّہ میرا ہے مجھے دے دے۔ اُس نے جائداد اُن میں بانٹ دی۔ تھوڑے دِنوں بعد چھوٹے بیٹے نے اپنا سارا مال و متاع جمع کیا اور دُور کسی دوسرے ملک کو روانہ ہو گیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش وعشرت میں اڑا دی۔ جب سب کچھ خرچ ہو گیا تو اُس ملک میں ہر طرف سخت قحط پڑا اور وہ محتاج ہو کر رہ گیا۔ تب وہ اُس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈنے پہنچا۔ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُور چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُور کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا لیکن کوئی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا۔ تب وہ ہوش میں آیا اور کہنے لگا: میرے باپ کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زیادہ کھانا ملتا ہے لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مررہا ہوں۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اُسے کہوں گا: اَے باپ! میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہُوں۔ اب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں۔ مجھے بھی اپنے مزدوروں میں شامل کرلے‘‘ (لوقا 15:11۔19).

آج کھوئے ہوئے لوگوں کو انجیل کی منادی کرنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ عموماً ’’آسان یقین دہانی‘‘ کہلاتا ہے۔ دوسرا طریقہ ’’خُدائی نجات‘‘ کہلاتا ہے۔ اِن دونوں طریقوں میں واضح طور پر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ اِن دونوں میں سے کسی کو بھی خُدا کی جانب سے 1859 کے حیات نو کے بعد انگریزی بولی جانے والی دُنیا میں کسی نے بھی بہت بڑے پیمانے کی بیداری میں استعمال نہیں کیا۔

اِس کے علاوہ، کامیاب مبلغین نے کہا کہ آج زیادہ تر گرجہ گھروں کے اراکین سرے سے کبھی تبدیل ہوئے ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ہماری کتاب مرتی ہوئی قوم کو منادی کرنا Preaching to a Dying Nation میں، میرے رفیق ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگنC. L. Cagan اورمیں نے ایسے بہت سے رہنماؤں کا حوالہ دیا جنہوں نے نشاندہی کہ کہ زیادہ تر مبشران انجیل اور بنیاد پرست کھوئے ہوئے ہیں، جن میں سنڈے سکول کے اساتذہ، مناد، پادریوں کی بیویاں اور حتیٰ کہ خود پادری بھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر Dr. A. W. Tozer نے کہا، ’’انجیلی بشارت کے گرجہ گھروں کے مابین غالباً کوئی دس میں سے ایک نئے جنم کے بارے میں تجرباتی طور پرکچھ جانتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویلDr. W. A. Criswell جو ٹیکساس کے شہر ڈلاس کے بہت بڑے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے مشہور مغربی بپٹسٹ پادری تھے اُنہوں نے کہا، ’’وہ آسمان میں اپنے گرجہ گھر کے 25 % اراکین کو مل کر حیران ہونگے۔‘‘ ماضی میں 1940 کی دہائی میں نوجوان بلی گراھم نے اعلان کیا کہ ہمارے گرجہ گھر کے 85 % اراکین نے ’’کبھی نئے سرے سے جنم لیا ہی نہیں‘‘ تھا۔ ڈاکٹر مونرو ’’درویش‘‘ پارکرMonroe “Monk” Parker نے بنیاد پرست گرجہ گھر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، اگر ہم گرجہ گھر کے آدھے اراکین کو بھی نجات دلا پائیں تو ہم ایک عظیم حیات نو دیکھ پائیں گے۔ دراصل، میں سوچتا ہوں اگر امریکہ میں آدھے مبلغین کو ہی مسیح میں تبدیل کرلیں تو ہم ایک عظیم تر حیات نو دیکھ پائیں گے‘‘ (مونرو ’’درویش‘‘ پارکرMonroe “Monk” Parker، سایوں اور اُجالوں میں سے Through Sunshine and Shadows، خُداوند کی تلوار پبلیشرز Sword of the Lord Publishers، 1987، صفحات 61، 72)۔

یہ تمام اعداد وشمار ہماری کتاب مرتی ہوئی قوم کو منادی کرنا Preaching to a Dying Nation میں اُنکے ذرائع سے تنقیدی حاشیوں میں درج ہیں (صفحات 42، 43)۔ یہ اعداد و شمار جو ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر، ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل، نوجوان بلی گراھم اور ڈاکٹر ’’درویش‘‘ پارکر نے پیش کیے بِلاشُبہ محض اندازے ہیں۔ مگر وہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ رہنمائی کرنے والی ہستیاں یقین کرتی ہیں کہ جس طرح سے ہم انجیلی بشارت کرتے ہیں اُس کے ساتھ ہولناک طور پر کچھ نہ کچھ غلط تھا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، انجیل کو پیش کرنے کے وہ دو طریقے ’’آسان یقین دہانی‘‘ اور ’’خُدائی نجات‘‘ ہیں۔ اِن دونوں میں سے کوئی ایک بھی انتہائی زیادہ تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے خُدا کے ذریعے سے استعمال نہیں کیا گیا۔

پہلا طریقہ عموماً ’’آسان یقین دہانی‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ مبشران انجیل اور بنیاد پرستوں کے ذریعے سے آج اکثریت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس کا انحصار ایک بھٹکے ہوئے شخص کو جسے ہم ’’گنہگار کی دعا‘‘ کہتے ہیں وہ پڑھوانے پر ہوتا ہے، یسوع سے ’’اُن کے دِلوں میں آنے‘‘ کے لیے پوچھنا ہوتا ہے۔ تب بھٹکے ہوئے لوگوں کو ’’نجات پائے ہوئے‘‘ مانا جاتا ہے، حالانکہ وہ کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی ظاہر نہیں کرتے اور گہرے گناہ میں زندگی گزارنا جاری رکھتے ہیں اور لگاتار گرجہ گھر جانے سے انکار کرتے ہیں۔ انگریزی بولنے والی دُنیا میں واقعی میں ایسی حالت میں لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

انجیلی بشارت کا دوسرا طریقہ ’’خُدائی نجات‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ طریقہ ’’آسان یقین دہانی‘‘ کے خلاف ایک رد عمل کے طور پر اختیار کیا گیا۔ مگر ’’خُدائی نجات‘‘ ’’آسان یقین دہانی‘‘ کو دُرست کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بے شک جو یہ نظریہ رکھتے ہیں اُن دوسروں کے مقابلے میں اکثر زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔ اُن کا طریقہ کبھی بھی معیاری حیات نو میں استعمال نہیں ہوا، نہ ہی یہ ہمارے گرجہ گھر میں حقیقی تبدیل شُدہ لوگوں کا اضافہ کرنے میں کسی بڑے طریقے سے استعمال ہوا۔ ’’خُدائی‘‘ مبلغین ’’آسان یقین دھانی‘‘ کے گناہ اور غیرقانونیت کو دُرست کرنے کی کوشش شدت کے ساتھ اور بار بار عقیدے پر زور دینے سے کرتے ہیں اور جسے وہ ’’توبہ‘‘ کہتے ہیں، اُس پر زور دینے سے کرتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ عموماً ایک بھٹکے ہوئے شخص کا ’’سینڈی مینئین اِزم Sandemanianism‘‘ کی ایک قسم میں قائم ہونے پر ہوتا ہے، اور اعمال کی راستبازی کی ایک قسم کو قائم کرنے میں ہوتا ہے۔ ’’سینڈی مینئین اِزم Sandemanianism‘‘ یسوع مسیح بخود کے بجائے بائبل کی آیات اور عقیدے میں یقین کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بجائے یسوع مسیح بخود کے بائبل کی آیات اور عقائد پر بھروسہ کرنے میں ہوتا ہے۔ اِن مبلغین میں سے ایک نے کہا، ’’ہمارا بھروسہ یا یقین جو کچھ خُدا نے کیا اُس پر ہونا چاہیے۔‘‘ حالانکہ وہ اِسے جانتا نہ ہو، یہ ’’سینڈی مینئین اِزم Sandemanianism‘‘ کی تعریف ہے۔ یہ گنہگار کو بتاتی ہے کہ وہ یسوع مسیح بخود پر بھروسہ کرنے کے بجائے جو بائبل کہتی ہے اُس پر بھروسہ کرنے سے بچایا جائے گا۔ ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones کی کتاب پیوریٹنز: اُنکی شروعات اور جانشین The Puritans: Their Origins and Successors، بینر آف ٹرٹھ Banner of Truth، ایڈیشن 2002، صفحات 170۔190 میں ’’سینڈی مینئین اِزم Sandemanianism‘‘ پر باب میں پڑھیں۔ ’’سینڈی مینئین اِزم Sandemanianism‘‘ پر میرے واعظ کو پڑھنے کے لیے یہاں پر کِلک کریں۔

مسیح کے زمانے میں فریسی کسی بھی قسم کی ’’آسان یقین دہانی‘‘ پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ وہ بیرونی طور پر صاف سُتھری زندگی گزارتے تھے۔ وہ صحائف کا مطالعہ لگاتار کرتے تھے اور اُن پر یقین کرتے تھے۔ اُن کی زندگیوں میں کمی کس بات کی تھی؟ صرف ایک بات کی – خود یسوع مسیح کی! یسوع نے اُن سے کہا،

’’تُم پاک کلام کا بڑا گہرا مطالعہ کرتے ہو کیونکہ تُم سمجھتے ہو کہ اُس [پاک کلام] میں تمہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ یہی پاک کلام میرے حق میں گواہی دیتا ہے۔ پھر بھی تُم زندگی پانے کے لیے میرے پاس آنے سے اِنکار کرتے ہو‘‘ (یوحنا 5:39،40).

سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon نے کہا، ’’وہ ایمان جو جان کو نجات دلاتا ہے ایک شخص پر یقین کرنے، یسوع پر انحصار کرنے سے ہوتا ہے‘‘ (’’ایمان کا ضمانت The Warrant of Faith،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، جلد نہم، پِلگِرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، 1979، صفحہ 530)۔

اِس ہی والے واعظ میں سپرجیئن نے کہا، [بائبل میں] اِن حقائق کا محض علم، تاہم، ہمیں نہیں بچائے گا، جب تک کہ ہم اپنی جانوں کو نجات دہندہ کے ہاتھوں میں حقیقی اور سچے طور پر نہیں سونپتے‘‘ (ibid.)۔

کھویا ہوا بیٹا جیسا کہ ہم نے تلاوت میں دیکھا، جانتا تھا کہ ’’باپ‘‘ کے پاس ضرورت سے بھی زیادہ کھانے کو ہے‘‘ (لوقا15:17)۔ لیکن اُن حقائق کا محض علم اُس کو فاقے کرنے سے نہیں روک سکا۔ اُس کو براہ راست ’’باپ‘‘ کے پاس ’’روٹی‘‘ پانے کے لیے جانا پڑا۔ بائبل میں یقین، یہاں تک کہ سچے یقین نے، کبھی بھی کسی کو نہیں بچایا۔ لوگ نجات پائے پغیر بائبل میں یقین کر سکتے ہیں اور عظیم عقیدوں میں یقین کرسکتے ہیں جیسا کہ ویسٹ مِنسٹر یعنی مذہبی تعلیم بغیر نجات پائے ہوئے۔ پولوس رسول نے ’’پاک صحائف‘‘ کے بارے میں بتایا، جو آپ کو ایمان کے وسیلے سے جو مسیح یسوع میں ہے نجات کے لیے دانشمند ہونے کے قابل بناتے ہیں (2 تیموتاؤس 3:15)۔ بائبل میں یقین اور اُس پر مشتمل عقائد نہیں بچائیں گے۔ بائبل ہمیں یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہم ’’ایمان کے وسیلے سے جو مسیح یسوع میں ہے‘‘ بچائے جاتے ہیں! ہم ’’گنہگار کی دعا‘‘ مانگنے سے نہیں بچائے جاتے ہیں۔ ہم بائبل جو یسوع کے بارے میں کہتی ہے اُس کے وسیلے سے نہیں بچائے جاتے ہیں۔ ہم مسیح جو خداوند ہے اُس کی فرمانبرداری کے وسیلے سے نہیں بچائے جاتے ہیں۔ ہم صرف اُس ’’ایمان کے وسیلے سے جو مسیح یسوع میں ہے‘‘ بچائے جاتے ہیں (2تیموتاؤس3:15)۔ بائبل اِس کو واضح کرتی ہے جب وہ کہتی ہے، ’’تمہیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے‘‘ (افسیوں2:8)۔ اور اُس ایمان کے مرکز میں تنہا یسوع ہی کو ہونا چاہیے۔ جیسا کہ پولوس رسول لکھتا ہے، ’’خُداوند یسوع مسیح پر ایمان لا تو، تُو اور تیرا سارا خاندان نجات پائے گا‘‘ (اعمال16:31)۔ میرے رفیق ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگن Dr. C. L. Cagan نے کہا، حقیقت میں، ہم مسیح میں ’براہ راست‘ بھروسے کے وسیلے سے نجات پاتے ہیں، جو اُن باتوں سے کہیں بڑھ کر ہے – ’وہ سب چیزوں میں سب سے پہلے ہے، اور اُسی میں سب چیزیں قائم ہیں،‘ کُلسیوں 1:17‘‘ (مرتی ہوئی قوم کو منادی کرنا Preaching to a Dying Nation، صفحہ 220)۔ اِس ایک بنیادی سچ کو سمجھنا تمام ’’آسان یقین دھانی‘‘ اور ’’خُدائی نجات‘‘ کی اقسام کا علاج کر دے گا۔

میں یہاں جو پیش کر رہا ہوں، اُس کو ہم ’’تیسری راہ – بحرانی تبدیلی‘‘ کہتے ہیں۔ پہلی راہ ’’گنہگار کی دعا‘‘ مانگنے سے نجات ہے۔ دوسری راہ یسوع کو خداوند بنانے کی کوشش کرنا – جو ایک مکمل طور پر تباہ حال گنہگار کبھی بھی نہیں کر سکتا! مگر ’’تیسری راہ – بحرانی تبدیلی‘‘ سچی تبدیلی کی پاک کلام کی راہ ہے۔ میں نے ’’بحرانی تبدیلی‘‘ کی اصطلاح کو بنایا ہے – مگر یہ صرف ’’پرانی تعلیم‘‘ کے نظریات کا ایک نام ہے؛ یہ صرف معیاری پروٹسٹنٹ اور بپٹسٹ تبدیلی کا ایک نیا نام ہے۔ ’’بُحرانی تبدیلی‘‘ وہ ہے جس کا تجربہ لوتھر Luther نے کیا۔ ’’بحرانی تبدیلی‘‘ وہ ہے جس کا تجربہ جان بنعین John Bunyan، جارج وائٹ فلیڈ George Whitefield، جان ویزلی John Wesley اور سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon نے کیا – اور ہر اُس دوسری ہستی نے کیا جو ’’گنہگار کی دعا‘‘ اور ’’خُدائی نجات‘‘ کے مشہور ہونے سے پہلے سچے طور پر تبدیل ہوئی تھی – اور سب نے سوائے ہمارے بپٹسٹ اور پروٹسٹنٹ آباؤاِجداد کے پرانے ’’بُحرانی تبدیلی‘‘ کے تصور کو تباہ کرنے کے کچھ نہ کیا۔ یہ کرنے کے لیے، میں ’’اخلاقی زوال‘‘ کو بیان کروں گا، اور پھر میں ’’بیداری‘‘ کو پیش کروں گا۔

I۔ اوّل، یہ ہے انسان کا ’’اخلاقی زوال‘‘ جیسا کہ ’’بحرانی تبدیلی‘‘ کی تیسری راہ میں آشکارہ کیا گیا ہے۔

میں نے کھوئے ہوئے بیٹے کے واقعے کو پرانے طرز کی ’’بحرانی تبدیلی‘‘ سے کیا مُراد ہے کو بیان کرنے کے لیے چُنا جیسے یہ رونما ہوئی تھی جب تک کہ یہ ’’گنہگار کی دعا‘‘ اور خُدائی نجات‘‘ سے تبدیل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔

کھویا ہوا بیٹا ایک گنہگار تھا۔ اُس نے اپنی جائداد مانگی اور گھر چھوڑ کر’’ایک دور دراز کے مُلک چلا گیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش و عشرت میں اُڑا دی‘‘ (لوقا15:13)۔ یہ ہے جو ہم تمام ایک یا دوسری طرح سے کرتے ہیں۔ ہم مسیح سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں اور گناہ کی حالت میں اُس یسوع کے بغیر زندگی گزارتے ہیں۔ میں مسیح کو مسترد کرتے ہیں، بالکل جیسے کھوئے ہوئے بیٹے نے اپنے باپ کو مسترد کیا تھا۔ دراصل، ہم اپنی غیر تبدیل شُدہ حالت میں، نجات دہندہ کی تحقیر کرتے ہیں اور اُس کو مسترد کرتے ہیں، بالکل جیسے کھوئے ہوئے بیٹے نے اپنے اعمال سے ظاہر کیا تھا کہ کس قدر اُس نے اپنے باپ کی تحقیر کی اور اُس کو مسترد کیا تھا،

’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور ردّ کیا، وہ ایک غمگین اِنسان تھا جو رنج سے آشنا تھا۔ اور اُسے شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ مُنہ موڑ لیتے ہیں وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا 53:3).

اپنے دِلوں میں ہم خُدا اور اُس کے بیٹے یسوع کے دشمن تھے۔ ہم خُدا کی شریعت کے تابع نہیں تھے، جیسے کھویا ہوا بیٹا اپنے باپ کی شریعت کے تابع نہیں تھا،

’’کیونکہ جسمانی نیت [ایک بھٹکے ہوئے شخص کی] خدا کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے‘‘ (رومیوں 8:7).

ہمارے دِل نجات دہندہ کے خلاف ناقابل اصلاح بغاوت پر تھے۔ دراصل ہم مکمل طور پر اخلاقی زوال میں گنہگار ہیں، یہاں تک کہ ہمارے میں راستبازی کی ایک چنگاری تک نہیں ہے۔ پولوس رسول نے کہا کہ ہم ’’گناہوں اور قصوروں میں مُردہ‘‘ تھے، اور ہم شیطان ’’اِس دُنیا کے خُدا‘‘ کے قابو کے تحت تھے (افسیوں2:1)۔

اگر آپ غیرنجات یافتہ ہیں تو یہ آپ کی کوئی خوبصورت تصویرنہیں ہے۔ رسول نے کہا، ’’وہ سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں، جیسا کہ لکھا ہے، کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں‘‘ (رومیوں3:9، 10)۔ اشعیا نبی نے شکل کے لحاظ سے آپ کی روحانی حالت بیان کی جب اُس نے کہا،

’’… تمہارا پورا سر زخمی ہے، اور تمہارا سارا دل مریض ہو چکا ہے۔ پاؤں کے تلوں سے سر کی چوٹی تک کوئی حِصّہ بھی سالم نہیں ہے۔ صرف زخم اور چوٹیں اور سڑے ہوئے گھاؤ ہیں… ‘‘ (اشعیا 1:5،6).

یہ کھوئے ہوئے بیٹے کی حالت تھی۔ بائبل کہتی ہے، ’’تب وہ اُس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈنے پہنچا۔ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُور چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُور کھاتے تھے [اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا] لیکن کوئی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا (لوقا15:15، 16)۔ اور یہ آپ کی بھی حالت ہے۔ ’’اُس مُلک کا باشندہ‘‘ وہ ابلیس ہے جو آپ کے ذہن کو قابو کرتا ہے، ’’جس کی روح نافرمان لوگوں میں تاثیر کرتی ہے‘‘ (افسیوں2:2)۔ آپ اِس ہولناک حالت میں شیطان کے ایک غلام کی حیثیت سے قید میں جکڑے ہوئے ہیں، شیطان کے لیے ایک غلام کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں، ’’گناہوں میں مُردہ‘‘ (افسیوں2:5)۔ اِس کو مکمل ’’اخلاقی زوال‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کھوئے ہوئے بیٹے کی حالت تھی۔ خود اُس کے اپنے باپ نے کہا کہ وہ ’’مرگیا‘‘ تھا، اور کہ وہ ’’بھٹک‘‘ گیا تھا۔ اُس نے کہا، ’’میرا بیٹا جو مرچکا تھا، اور اب دوبارہ زندہ ہو گیا ہے؛ وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے... ‘‘ (لوقا15:24)۔

مسیح کے خلاف اپنی بغاوت میں، آپ سوچتے ہیں کہ آپ آزاد ہیں۔ مگر حقیقت میں آپ ایک غلام ہیں، گناہ میں جکڑے ہوئے، خُدا کے باتوں کے لیے مرے ہوئے، شیطان کے قابو میں اور اسیری میں جکڑے ہوئے۔ آپ شیطان کے اِس قدر زیادہ قابو میں ہوتے ہیں کہ آپ اصل میں سوچتے ہیں کہ گناہ میں آپ کی غلامی آزادی ہے! آپ ایک مایوس کیس [مقدمہ] ہیں، مکمل طور پر اخلاقی زوال میں گرے ہوئے، بالکل جیسے کھویا ہوا بیٹا تھا، جو ختم ہو کر گناہ کی غلامی کی مایوسانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ اور آپ کسی سے بھی جو آپ سے آپ کی کھوئی ہوئی حالت کو بیان کرتا ہے بحث کریں گے۔

II۔ دوئم، یہاں ایک گنہگار کی اُس کی بدنصیبی سے ’’بیداری‘‘ کی وضاحت پیش کی گئی ہے، جیسا کہ ’’بحرانی تبدیلی‘‘ کی تیسری راہ میں آشکارہ کیا گیا ہے۔

’’اور تب وہ ہوش میں آیا اور کہنے لگا: میرے باپ کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زیادہ کھانا ملتا ہے لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مررہا ہوں‘‘(لوقا 15:17).

’’تب وہ ہوش میں آیا۔‘‘ یعنی کہ ، جب وہ اپنے حواس میں آیا، جب وہ گناہ کی گہری نیند سے، صدمے سے، گناہ کی بے حسی سے بیدار ہوا۔ ’’جب وہ ہوش میں آیا‘‘؛ جب وہ موت کی نیند سے بیدار ہوا تھا – تب اُس نے سوچا، ’’میں مر رہا ہوں۔‘‘ یہ اُس بدنصیبی کو، اُس عذاب کو، گناہ میں زندگی گزارنے کے اُس دُکھ کو محسوس کرنے کے لیے کھوئے ہوئے گنہگار کی بیداری ہے۔ یہ بیداری صرف پاک روح کے وسیلے سے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ اِس تلاوت پر تبصرہ کرتے ہوئے سپرجیئنSpurgeon نے کہا،

پاگل انسان نہیں جانتا کہ وہ پاگل ہے، مگر جیسے ہی وہ ہوش میں آتا ہے تو وہ درد سے بھرپوری میں [دیکھتا ہے] سمجھتا ہے اُس حالت کو جس سے وہ بچ رہا ہوتا ہے۔ پھر سچی وجہ اور پُختہ فیصلے کے ساتھ کھویا ہوا بیٹا واپس ہوش میں آتا ہے (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، MTP، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1977، جلد 17، صفحہ 385)۔

یہ بیداری اُس آدمی کی مانند ہوتی ہے جس کو محسور کر دیا گیا ہوتا ہے، اور پھر دوبارہ بیدار ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یونانی قصہ کہانیوں میں، جادوگر، لوگوں کو سؤروں میں تبدیل کر دیتے تھے۔ مگر یولائی سیس Ulysses نے جادوگروں کو مجبور کر دیا تھا کہ اُس کے ساتھیوں کو واپس انسانی شکل میں بدل ڈالیں۔ اِس طرح خُدا کے روح نے کھوئے ہوئے بیٹے کو بیدار کیا تھا۔ صرف تب ہی اُس نے احساس کیا تھا کہ وہ کس قدر بے بس اور ناخوشگوار حالت میں تھا۔ پولوس رسول ’’بیداری‘‘ کے بارے میں بتاتا ہے جب اُس نے کہا،

’’اے سونے والے جاگ، اور مُردوں میں سے جی اُٹھ، تو مسیح کا نُور تجھ پر چمکے گا‘‘ (افسیوں 5:14).

لیکن کھوئے ہوئے گنہگار کی ’’بیداری‘‘ پُرسکون نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ ہے جب حقیقی تبدیلی کے تیسری راہ میں بحران وجود میں آتا ہے۔ اب تک جس سب سے زیادہ عام طریقے سے لوگوں کو بیدار کیا جاتا ہے وہ منادی کے ذریعے سے ہے، جیسا کہ پیوریٹن رچرڈ بیکسٹر Richard Baxter (1615۔1691) نے اکثر نشاندہی کی۔ بہت سے مبلغین جب انجیل کی منادی کرتے ہیں تو رومیوں 10:13 کا حوالہ دیتے ہیں۔ مگر شاذونادر ہی اُن میں سے کوئی بالکل اگلی آیت کے بارے میں سوچتا ہے، جو کہتی ہے، ’’وہ کیسے ایک مبلغ کے بغیر سُنیں گے؟‘‘

اِس ہی لیے ہمیں گرجہ گھروں میں انجیلی بشارت کی منادی کرنی چاہیے۔ ’’وہ کیسے ایک مبلغ کے بغیر سُنیں گے؟‘‘ اور مبلغیں کو بھٹکے ہوؤں کے لیے کیسے انجیلی بشارت کی تبلیغ کرنی ہے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آج بہت کم مبلغین جانتے ہیں کہ کیسے ایک انجیلی بشارت کے واعظ کو تیار کرنا اور ادا کیا جانا چاہیے – بلاشبہ انتہائی کم! میں نے کئی سالوں سے کسی ایک کو بھی انجیلی بشارت پر دُرست طریقے سے ایک واعظ بھی دیتے ہوئے نہیں سُنا ہے! یہ ماضی کی ایک بات بن چکی ہے۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ جو ہمارے گرجہ گھروں میں آتے ہیں غیر نجات یافتہ ہی رہ جاتے ہیں! ’’وہ کیسے ایک مبلغ کے بغیر سُنیں گے؟‘‘

انجیلی بشارت کی منادی میں ایک گنہگار پر ظاہر ہونا چاہیے کہ جب تک وہ یسوع کے پاس نہیں تباہی اُس کا مقدر ہے۔ اِسے اُس پر ظاہر کرنا چاہیے کہ گناہ کی انتہائی جڑ خود اُس کے اپنے وجود کے اندر ہے۔ ’’گناہوں‘‘ سے نہیں، بلکہ خود گناہ، اُس کو خُدا سے علیحدہ کرتا ہے۔ گناہ کی خصوصیت بغاوت اور خود غرضی سے پہچانی جاتی ہے۔ گنہگار کو اِس حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ کھوئے ہوئے بیٹے کی طرح، وہ مزاحمت نہ کر سکنے کی حد تک خُدا کے خلاف باغی ہے – اور مزاحمت نہ کر سکنے کی حد تک وہ خُدا کے خلاف خودغرض ہے۔ بھٹکے ہوئے گنہگار کو واعظ گاہ سے یہ منادی سُنائی دی جانی چاہیے جب تک وہ جان نہ لے کہ اُس کے اپنے دِل میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا ہو جانی چاہیے۔ اِس پر اُس وقت تک زور دیا جانا چاہیے جب تک کہ وہ گنہگار واقعی میں اپنے دِل کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اُس کے دِل کو بدلنے میں اُس کی کوششوں کو ہمیشہ ناکامی ہوئے گی۔ اور یہ ناکامی ہوتی ہے جو بعد میں گنہگار کو اُس کے کھوئے پن کے بارے میں ہولناک سچائی کے لیے بیدار کرتی ہے۔ اور اِس کو بار بار بتانا چاہیے کہ وہ بھٹکا ہوا ہے۔ اُس کو بتانا چاہیے کہ اُس کو مسیح کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اُس کو ’’تنگ دروازے سے داخل ہونے کی کوشش ...‘‘ کے لیے بتانا چاہیے (لوقا13:24)۔ جب گنہگار کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوتا، کوشش کرتا ہے اور ناکام ہوتا، اور کوشش کرتا ہے اور پھر ناکام ہوتا ہے تو وہ آخرکار بے بسی کے ساتھ بھٹکا ہوا محسوس کرے گا۔ بالکل اِس ہی طریقے سے اُس محسوس کرنا چاہیے، ورنہ وہ یسوع میں کبھی بھی سکون نہیں پائے گا۔

اِس کو ’’شریعت کی منادی‘‘ کہتے ہیں – جس کو تمام پرانے معیاری مبلغین نے کیا – جب تک کہ گنہگاروں نے خود کو تبدیل کرنے کی تمام اُمید کو چھوڑ نہ دیا! یہ اُس آیت کا مطلب بنتا ہے جو کہتی ہے، ’’شریعت ہی سے گناہ کی پہچان ہوتی ہے‘‘ (رومیوں3:20)۔ بار بار ایک پاکباز انسان بننے کی کوششوں میں ناکام ہونے سے، بار بار خُدا کے ساتھ امن تلاش کرنے میں ناکام ہونے سے – اور خصوصی طور پر، بار بار یسوع کے پاس آنے میں ناکام ہونے سے – وہ گنہگار سوچنا شروع کرتا ہے، ’’میں واقعی میں کھویا ہوا ہوں!‘‘ یہ ہے وہ بیداری جو اُس میں ہونی چاہیے!

’’ اور جب وہ ہوش میں آیا، اُس نے کہا ... میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مررہا ہوں۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا... ‘‘ (لوقا 15:17۔18).

اس موقع پر، جب گنہگار ’’اِس کو دُرست کرنے‘‘ یا ’’اِس کو دُرست طریقے سے کرنے‘‘ کی تمام اُمید چھوڑ چکا ہوتا ہے – تب شاید اُس کو ’’ہوش میں آنا‘‘ چاہیے – بیدار ہونا چاہیے اور احساس کرنا چاہیے کہ اُس کو یسوع میں سکون ملنا چاہیے کیونکہ وہ خود کو نجات دلانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے!

’’اور جب وہ ہوش میں آیا۔‘‘ بھٹکے ہوئے بیٹے کو ایک اندرونی افراتفری سے گزرنا پڑا تھا، زمین پر جہنم جیسا کہ بنیعن Bunyan اِس سے پہلے کہ اُس کا ذہن سچی توبہ کے لیے بدلتا، اپنے ’’ہوش میں آنے‘‘ سے پہلے گزرا تھا۔ آخر کار، یونانی لفظ نے ’’توبہ repent‘‘ کا جو ترجمہ کیا اُس کا مطلب ’’ذہن کی تبدیلی‘‘ ہوتا ہے۔ یہ ’’تیسری راہ‘‘ ہے۔ یہ ’’بحرانی تبدیلی‘‘ ہے۔ ’’میں کچھ بھی نہیں ہوں ماسوائے ایک منافق اور ایک باغی گنہگار کے!‘‘ ’’میرے لیے کوئی اُمید نہیں ہے۔‘‘ ’’میں ایک بحران میں ہوں! مجھے بدلنا چاہیے – مگر میں نہیں کر سکتا! میں بدل نہیں سکتا! میں کوشش کر چکا ہوں! میں جتنی سخت کوشش کرتا ہوں یہ اُتنا ہی شدید ناممکن ہو جاتا ہے! میں ’توبہ‘ نہیں کر سکتا ہوں! میں بدل نہیں سکتا! میں بدل نہیں سکتا! میں اپنے دِل کو بدل نہیں سکتا ہوں! میں بھٹک چکا ہوں! میں بھٹک چکا ہوں! میں بھٹک چکا ہوں! کیا یہی واقعی میں لوتھر Luther، بنیعن Bunyan، جان ویزلی John Wesley، وائٹ فیلڈ Whitefield، سپرجیئن Spurgeon اور ڈاکٹر جان سُنگ Dr. John Sung – اور ہر دوسرے سچے نجات پانے والے کے ساتھ نہیں ہوتا تھا؟

انتہائی شاندار۔ میں خوش ہوں کہ آخر کار آپ اُن جیسا محسوس کرتے ہیں! اب شاید آپ کو یسوع میں سکون میسر آ جائے۔ شاید اب آپ اُس یسوع کی محبت کو محسوس کریں، جس محبت نے اُس یسوع کو آپ کو بچانے کے لیے صلیب کی جانب کھینچا – کیونکہ آپ خود کو نہیں بچا سکتے تھے! پھر آپ یسوع کی جانب، اپنے متبادل کے طور پر صلیب پر مرنے کے لیے، اور آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے اپنا خون بہانے پر، ممنونیت کے اظہار کا احساس کریں گے! تب آپ اپنی باقی تمام زندگی کے لیے یسوع کے شکرگزار رہیں گے – کیونکہ آپ نے اُس کے فضل، اُس کی محبت اور ایک حقیقی ’’بحرانی تبدیلی‘‘ میں اُس کی نجات کا تجربہ کر لیا ہے – یسوع ہی واحد وہ ہستی جو دِل کو بدلتی ہے اورجان کو خُدا کے قہر سے نجات دلاتی ہے! میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ دیکھ پائیں کیسے یہ ’’آسان یقین دہانی‘‘ اور ’’خُدائی نجات‘‘ سے مختلف ہے۔ اور میں دعا کرتا ہوں کہ جب آپ یسوع پر بھروسہ کریں، اور اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے پاک صاف ہوں، تو یہ ہی آپ کا تجربہ ہو! پھر میں دعا کرتا ہوں کہ آپ چارلس ویزلی Charles Wesley کے ساتھ گانے کے قابل ہو جائیں گے،

یسوع، میری جان کے محبوب، مجھے اپنے سینے سے لپٹنے دیں،
   جب تک نزدیک ترین پانیوں میں لہریں ہیں، جب تک طوفان زوروں پر ہے!
مجھے چُھپا لے، اے میرے نجات دہندہ، چُھپا لے، جب تک کہ زندگی کا طوفان گزر نہ جائے؛
   حفاطت کے ساتھ محفوظ ٹھکانے کی رہنمائی کر؛ آخر کار میری جان کو قبول کر لے۔

تیرے پاس فضل کی بہتات ہے، میرے تمام گناہ کو ڈھانپنے کے لیے؛
   شفایابی کے چشموں کو بھرنے دے؛ مجھے اندر تک خالص اور پاک کر ڈال۔
تیرے ہی پاس زندگی کا چشمہ ہے، مجھے تجھ سے آزادانہ لے لینے دے؛
   میرے دِل کو خود سے لبریز کر دے؛ تمام ابدیت میں جنم کے لیے۔
(’’یسوع، میری جان کو پیار کرنیوالا Jesus, Lover of My Soul‘‘ شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788)۔

اگر آپ یسوع کے وسیلے سے نجات پائے جانے کے بارے میں ہم سے بات چیت کرنا چاہیں تو مہربانی سے اپنی نشست ابھی چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو ایک اور کمرے میں لے جائیں گے جہاں پر ہم دعا اور بات چیت کر سکیں گے۔ ڈاکٹر چیعن Dr. Chan ، مہربانی سے دعا کریں کہ آج رات کو کوئی نہ کوئی یسوع پر بھروسہ کرے گا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: لوقا15:14۔19 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’یسوع، میری جان کے محبوب Jesus, Lover of My Soul‘‘ (شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788)

تفسیراتی منادی کے لیے ایک احتیاط

A CAUTION FOR EXPOSITORY PREACHING

آئیعن ایچ۔ مرے کی جانب سے
by Iain H. Murray
(بینر آف ٹرُتھ ٹرسٹ کے رکھوالے)
(Trustee of the Banner of Truth Trust)

آج حلقوں کی ایک تعداد میں ’’تفسیراتی منادی‘‘ ایک فیشن ہے، اور اِس طریقے سے تبلیغ کرنے کے لیے مبلغین پر زور دیا جا رہا ہے۔ اگر اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مبلغ کا ایک کام خود کو کلام پاک کی تلاوت تک محدود رکھنا ہے، اور دوسروں کے لیے اِس کو سمجھنا آسان کرنا ہے، تو پھر اِس پر مذید اور بحث کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا؛ کون اِس سے اتفاق نہیں کر سکتا ماسوائے اُن کے جو یہ نہیں جانتے کہ بائبل خُدا کا کلام ہے۔

مگر ’’تفسیراتی منادی‘‘ اکثر کچھ زیادہ ہی مطلب کے لیے ہوتی ہے۔ یہ جملہ اُس منادی کو بیان کرنے کے لیے مقبول طور پر استعمال ہوتا ہے جو ایک مذہبی جماعت کو ایک حوالے یا کلام پاک کی ایک کتاب کے ذریعے سے ہفتہ بہ ہفتہ سلسلہ وار طریقے سے لے کر چلتا ہے۔ اِس طریقۂ کار کا موازنہ انفرادی تلاوتوں پر منادی کے طریقے سے کیا جاتا ہے جن کا براہ راست تعلق شاید ایک اتوار کے بعد اگلے اتوار کو ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ آخر میں ذکر کیے گئے ’’تفاسیری‘‘ طریقے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

کیوں ’’تفاسیری منادی‘‘ کا یہ نظریہ نسبتاً مقبول ہو گیا ہے؟ اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی، یہ یقین کیا جاتا ہے کہ اِس کی مشق کرنے سے منادی کرنے کا معیار بڑھ جائے گا۔ پاک کلام کی ایک کتاب کے بارے میں تسلسل کے ساتھ بات کرنے سے، یہ کہا جاتا ہے کہ مبلغ کو کسی قسم کے ہوائی گھوڑوں کو اُڑانے سے باز رکھا جاتا ہے، اور مذہبی جماعتوں کی بہتر طور پر کہا جائے تو ایک حد مقرر ہو جاتی ہے، جو تمام کلام پاک کے بارے میں ایک زیادہ ذہین گرفت رکھتی ہیں۔ مبلغ کو بھی تلاوتوں کے لیے ایک مسلسل تلاش سے نجات مل جاتی ہے – وہ اور لوگ جانتے ہیں کہ اُن کے سامنے کیا ہے۔ یہ وجوہات شاید نوجوان مبلغین کے لیے اس حقیقت کی وجہ سے مستند ہیں کہ ہمارے مرکزی مجالس اور کانفرنسوں میں جانے مانے واعظ کرنے والے عام طور پر چند ایک خُطبات میں ایک حوالے کے ساتھ کام چلاتے ہیں، اور جب یہ باتیں اپنا رستہ بناتی ہوئیں چھپ جاتی ہیں تو بہترین منادی کرنے کے طریقے کے لیے ایک مثال بن جاتی ہیں۔ کسی اور قسم کے شائع شُدہ واعظ بہت کم اور مشکلوں سے ملتے ہیں، کیونکہ پبلیشرز یقینی طور پر ’’تفاسیری‘‘ واعظوں کی حمایت اُن کی شہرت کی بنیادوں پر کرتے ہیں۔1

تاہم، ہمارے نظریے میں، اب وقت آ چکا ہے کہ منادی کرنے کے اس نظریے کے نقصانات پر کم از کم غور کر لیا جائے

1۔ یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ تمام مبلغین اِن خطوط پر پُرتاثر واعظوں کو تشکیل دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ مگر لوگوں کے پاس مختلف نعمتیں ہوتی ہیں۔ سپرجیئنSpurgeon ‘‘تفاسیری منادی‘‘ کے ساتھ ناواقف نہیں تھے (اپنی جوانی میں واعظوں کو سُن کر وہ کبھی کبھی خواہش کرتے تھے کہ عبرانیوں نے اپنے مراسلوں کو اپنے تک ہی محدود رکھا ہوتا!)، اور اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ اُن کی نعمتوں کے ساتھ نہیں جچتے تھے۔ وہ سوچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایک ’’تفسیراتی‘‘ مبلغ ہونا کوئی اِس قدر عام نعمت نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ سوچتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones رفتہ رفتہ ’’تفاسیری‘‘ سلسلے کو متعارف کروانے سے پہلے اپنی مذہبی خدمات میں 20 سال سے تھے۔

2۔ یہ دلیل کہ ’’تفسیراتی‘‘ طریقہ زیادہ تر بائبل کو پڑھنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے انتہائی شدت کے ساتھ اِس خیال کے ساتھ جُڑا ہوا ہے کہ منادی کرنے کا سب سے پہلا مقصد ہی بائبل کے پیغام کو جس حد تک ممکن ہو سکے پھیلایا جائے۔ مگر اِس خیال کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔ منادی کو ہدایات کی ایک ایجنسی ہونے کے مقابلے میں کچھ زیادہ بہتر ہونے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کو آدمیوں اور عورتوں کو للکارنے، بیدار کرنے اور اُبھارنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ خود شاندار مسیحی اور کلام پاک کے روزانہ کے طالب علم بن جائیں۔ اگر منادی کرنے والا مُحرّک پیش کرنے کے بجائے بنیادی طور پر اپنے کام کو ہدایات دینے کی اصلاح میں تصور کرتا ہے، تو وہ واعظ، زیادہ تر ہاتھوں میں بہت آسانی کے ساتھ ایک ہفتہ وار ’’کلاس‘‘ بن جاتے ہیں –– جو خود اپنے آپ میں ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ مگر سچی منادی کو ایک مسلسل جاری رہنے والے عمل کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

3۔ خصوصی طور پر سکاٹ لینڈ میں –– گرجہ گھروں میں –– معنی خیز طور پر –– ایک مرتبہ ’’لیکچر‘‘ اور ’’واعظ‘‘ کے درمیان امتیاز کیا گیا تھا۔ اِس لفظ ’’لیکچر‘‘ کو کسی شدید تنقیدی طریقے میں استعمال نہیں کیا گیا تھا، اِس کا سادہ سے مطلب وہ تھا جو اب عام طور پر ’’تفسیراتی منادی‘‘ سے ہوتا ہے، نام لے کر کہا جائے تو ایک حوالے یا کتاب پر تواتر سے بات چیت۔ اِیڈنبرگ کے شہر براھٹن پلیس Broughton Place, Edinburgh کے جان براؤن John Brown کے تبصرے اس طریقے سے وجود میں آئے تھے۔ ایسے ہی رومیوں پر لائیڈ جونز Lloyd-Jones کی تحریریں وجود میں آئیں تھی –– اُنہوں نے تفسیروں کو ’’لیکچر‘‘ کہا تھا؛ اُن کے نظریے میں، ایک واعظ اور لیکچر کے درمیان فرق یہ ہوتا ہے کہ ایک واعظ مکمل طور پر ختم ہو جاتا ہے، جو ایک واضح پیغام ہوتا ہے –– خود اپنے آپ میں مکمل –– جبکہ کلام پاک پر لیکچر کسی بڑی بات کا حصہ ہوتا اور جاری رہتا ہے۔ اپنے رومیوں کے مندرجات کے برعکس، لائیڈ جونز نے اپنے افسیوں کے مندرجات کو واعظوں کے طور پر سمجھا تھا، اور کوئی بھی اِس طریقۂ کار کا اِن دو سلسلوں (پہلا والا جمعہ کی شام، دوسرا والا اِتوار کی صبح) میں موازنہ کرتے ہوئے تیزی سے فرق دیکھ سکتا ہے۔ اِن کا مقصد مختلف تھا، یہ اُن کے رومیوں کے مندرجات کی قدر کم کرنا نہیں ہے۔

4۔ دِن کے اختتام پر، بہترین منادی وہ ہوتی ہے جو سُننے والے کی سب سے زیادہ مدد کرتی ہے، اور اِس سلسلے میں ’’تفسیراتی‘‘ طریقۂ کار کے ریکارڈ کا سُراغ اتنا متاثر کُن نہیں ہے۔ لمبے دورانیے میں یہ کبھی بھی اِس قدر شہرت یافتہ نہیں ثابت ہوا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں، یہ واضح ہے: ایک واعظ کو ایک یادگار پیغام ہونے کے لیے بنیاد کے طور پر ایک تلاوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تلاوت شاید یاد رکھی جاتی ہے جب کہ باقی سب کچھ سُننے والوں کے دماغوں سے نکلا چکا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار، یہ سچ ہوتا ہے، تلاوت ایک آیت کے بجائے ایک پیراگراف بھی ہو سکتی ہے–– مثال کے طور پر، انجیل کی ایک تمثیل یا ایک کہانی –– لیکن اگر، جیسا کہ اکثر ’’تفسیراتی منادی‘‘ کے ساتھ رونما ہوتا ہے، آیات کے ایک سلسلے کو مسلسل ’’تلاوت‘‘ بنا دیا جاتا ہے، پھر اُس واعظ میں خیالات کا ایک مکمل سلسلہ چھا جاتا ہے، اور واضح طور پر باقی سارے اسباق (جیسا کہ آپ سپرجیئن کے واعظوں میں دیکھ سکتے ہیں) کھو جاتے ہیں۔ مبلغ صرف ایک تبصرہ نگار بن کر رہ جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ بھی حوالے میں سے ایک تلاوت جو وہ لینا چاہتا ہے پیش کرنے سے رُک جاتا ہے۔ مگر لوگ عام طور پر ایسی ہی مدد، اور شاید اِس سے بہتر، کلام پاک کے اُسی حصے پر تعلیم دینے والی ایک کتاب کو لینے سے حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر شاید یہ کہا جا سکتا ہے، ’’کیا یہ لائیڈ جونز کا افسیوں نہیں ہے جو دونوں تفسیراتی اور تلاوتی منادی ہے؟ وہ ایک وقت میں صرف چند ایک رہنمائی کرنے والے خیالات کو لاگو کرتا ہے، اور اِس کے باوجود مسلسل جاری رہتا ہے – کیوں دوسرے ایسا ہی نہیں کر سکتے؟‘‘ جواب یہ ہے کہ لائیڈ جونز نے افسیوں میں اپنی تلاوتی اور تفسیراتی خصوصیت کو اکٹھے پیش کیا، مگر یہ ہی اصل میں اُس قسم کی منادی ہے جو زیادہ تر مبلغین کی نعمت میں شامل نہیں ہے۔ بہت زیادہ نو سیکھیوں نے قریباً تباہ کر دینے والے نتائج کے ساتھ کلام پاک کی اہم کتابوں میں سے آیت بہ آیت منادی کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات قابل بحث ہے کہ یہ وجوہات میں سے ایک ہے کہ کیوں ’’اصلاحی‘‘ منادی پر ایک سے زیادہ جگہوں پر ’’سمجھ سے بالاتر‘‘ یا بالکل ہی ’’پھیکی‘‘ ہونے کی تنقید کی جا چکی ہے۔ جو کم حوصلہ مند ہوتے ہیں، جو ’’تفسیراتی‘‘ طرز کو اپناتے ہیں، اپنی تلاوت کے لیے واحد آیات کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتے، اور یہی وہ خطرہ ہے جو انتہائی آسانی سے منادی کو چلتے پھرتے تبصرے میں بدل ڈالتا ہے۔

5۔ انجیلی بشارت ’’تفسیراتی‘‘ طرز پر نمایاں طور پر موزوں نہیں ہوتی ہے؛ دراصل، جہاں پر ’’تفسیراتی‘‘ کو مکمل طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہاں سچی انجیلی بشارت کی منادی دِل اور ضمیر کے لیے عموماً غائب ہو جاتی ہے۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو یہ انسان کا قصور ہے نا کہ حوالے کا، کیونکہ کیا تمام صحیفے جوخُدا کے الہام سے ہیں مفید نہیں ہیں؟ یقیناً، اِس پر اعتراض کیا گیا، تمام صحائف بھٹکے ہوؤں تک پہچنے اور بیدار کرنے کے لیے خدا کی روح سے استعمال کیے گئے؟ یہ شاید ہو، مگر پاک کلام سے یہ واضح ہے کہ کچھ مخصوص سچائیاں ہیں جنہیں زیادہ تر نے غیر مسیحیوں سے بات کرنے کے لیے اختیار کیا (ہمارے خداوند کی مثال اِس کی گواہ ہے) اور کہ یہ ہی سچائیاں ہیں، اور وہ تلاوتیں جو اِن کی بہتر طور سے بنیادی خصوصیات کو پیش کرنے کے لیے ہیں، جن کی زیادہ تر مؤثر انجیلی بشارت کی مذہبی جماعتوں میں خاص اور لگاتار پہچان ہوتی ہے۔ ماضی میں گنہگاروں کے تبدیلی میں استعمال کرنے والے زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ یہ تلاوتیں کیا ہیں – وائٹ فیلڈ Whitefield، میکشائن McCheyne، سپرجیئن Spurgeon، لائیڈ جونزLloyd-Jones اور اِس کو اپنانے والے دوسرے بہت سے جانتے تھے۔ آج اُن کو بُھلائے جانے کا کچھ خطرہ موجود ہے۔ آپ نے کب آخری مرتبہ ’’آدمی اگر ساری دُنیا حاصل کر لے مگر اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ پر واعظ سُنا تھا۔

یہ ایک بحث نہیں ہے کہ ایک حوالے کے ذریعے سے لگاتار منادی کرنے کا مکمل خیال ہی غلط ہے، محض اِس لیے کہ اِس کو مذہبی جماعت میں واعظ گاہ کی خصوصی جگہ پر ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ہر مبلغ کو تلاش کر لینے دیجیے کہ وہ کیا کرنے میں سب سے قابل ہے، اور اِس کو ہمیشہ کے لیے یاد کر لیجیے کہ سچائی کو پیش کرنے کا چاہیے کوئی بھی طریقہ ہو، یہ ایمان کے ساتھ اور پاک روح سے لبریز مبلغین ہی ہیں جنہیں اِس لمحے اُس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ دُرست تعلیمات سے کہیں زیادہ کی ضرورت ہے: ہمیں ایسے پیغامات کی ضرورت ہے جو مذہبی جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیں اور یہاں تک کہ سماج کو بھی مائل کر لیں۔

ہر ایک کو سوچ لینا چاہیے کہ درج بالا مشاہدات اپنی نوعیت میں منفرد ہیں، میں گذشتہ صدی کے عظیم ترین ملبغین میں سے ایک آر۔ بی۔ کیوئپر R. B. Kuiper کی رائے کے ساتھ اختتام کرتا ہوں۔ اُن کے سوانح نگار نے نشاندہی کی کہ اُنہوں نے ’’تفسیراتی‘‘ اصطلاح کو پاک کلام کی کتابوں یا حوالوں پر سلسلہ وار قسم میں پیش کیے گئے صرف واعظوں پر لاگو کرنے کی اجازت دینے کو مسترد کر دیا۔ نام کی قابلیت کی حیثیت سے اِس لفظ کو پاک کلام کی تمام تفاسیر کے لیے لاگو ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے جاری رہتے ہوئے کہا:

’’یہ جاری رہتے ہوئے کہتے ہیں کہ تفسیراتی منادی کو بطور بےشمار جائز طریقوں میں سے ایک کے طور پر تجویز کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ نا ہی بہت سے قدامت پسندوں کے روئیوں کے بعد، تفسیراتی طریقے کو سب سے بہترین کی حیثیت سے عزت بخشنا تسلی بخش ہے۔ تمام منادی کو تفسیراتی ہونا چاہیے... وہ عام طور پر قائم کی جانے والی رائے کو بھی مسترد کر رہے تھے کہ صرف پاک کلام (شاید ایک باب) کے ایک توسیع حصے پر جیتے جاگتے تبصرے کو ہی تفسیراتی منادی کہلایا جانا چاہیے۔ کیوئپر Kuiper کے مطابق جیتی جاگتی قسم کی منادی کی کچھ قابل مذمت بُرائیاں ہوتی ہیں۔ تنقیدی تاویلیں سرسری محسوس ہوتی ہیں، چونکہ انتہائی زیادہ مواد کو سمیٹنا ہوتا ہے۔ اور اِس قسم کے واعظوں میں یگانگت کی کمی اکثر ہوتی ہے، اِس طرح سے سُننے والے کو کوئی واضح اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ واعظ تھا کس کے بارے میں۔‘‘2

مبلغ چاہے کوئی سا بھی طریقہ کار اپنائے، کیوئپرKuiper کے درج ذیل الفاظ سب سے تعلق رکھتے ہیں:

’’ایک سادہ... اس کے باوجود ایک قوت بخش تقریر کو دونوں احترام اور ردعمل پر عبوریت حاصل ہوتی ہے۔ گرم جوشی متاثر کرتی ہے۔ منطق قائل کرنے والی ہوتی ہے، غیرمنطقی پریشان کُن ہوتی ہے۔ مبلغین کی حیثیت سے ہمارے پاس ایک دِل ہونا چاہیے۔ آئیے اپنے سُننے والوں کو بیوقوف بنانا چھوڑیں۔ آئیے اپنی منادی کو اِس قدر دلچسپانہ طرز سے جذب ہو جانی والی بنائیں کہ یہاں تک کہ بچے بھی تصویریں بنانے کے بجائے ہمیں سُننے پر ترجیح دیں اور یوں اپنے کاغذ اور پنسل مہیا کرنے والے والدین کو شرم دلا سکیں۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ شاید ہمیں اپنے ذہن کو تیار کرنا چاہیے کہ اِس قسم کی منادی کی غیرمشروط طور پر اولین شرط سب سے زیادہ لگن کے ساتھ تیاری کرنا ہے۔‘‘3

تنقیدی حاشیے

1۔ ضروری نہیں میں اس پر افسوس کر رہا ہوں۔ کچھ اچھی وجوہات ہیں کہ کیوں طباعت کے صفحے پر’’تفسیراتی‘‘ اپیل کرتی ہے، مگر یہ نتیجہ اخذ کرنا خطرناک ہے کہ جو پڑھنے والوں کے لیے بہترین ہے وہ سُننے والوں کے لیے بھی بہترین ہوتا ہے۔ مطالعہ کرنا اور سُننا دو مختلف باتیں ہیں۔

2۔ ایڈورڈ ھیریمہ، آر۔ بی۔ Edward Heerema, R. B.، زمین پر ایک نبی A Prophet in the Land (جورڈن اسٹیشن Jordan Station، اونٹاریو Ontario [پائڈیا Paideia، 1986])، صفحات 138۔9 .

3۔ ibid. ، صفحہ 204 .

لُبِ لُباب

تیسرا راستہ – بحرانی تبدیلی

THE THIRD WAY – CRISIS CONVERSION

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’پھر یسوع نے کہا: کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔ اُن میں سے چھوٹے نے اپنے باپ سے کہا: اَے باپ! جائداد میں جو حِصّہ میرا ہے مجھے دے دے۔ اُس نے جائداد اُن میں بانٹ دی۔ تھوڑے دِنوں بعد چھوٹے بیٹے نے اپنا سارا مال و متاع جمع کیا اور دُور کسی دوسرے ملک کو روانہ ہو گیا اور وہاں اپنی ساری دولت عیش وعشرت میں اڑا دی۔ جب سب کچھ خرچ ہو گیا تو اُس ملک میں ہر طرف سخت قحط پڑا اور وہ محتاج ہو کر رہ گیا۔ تب وہ اُس ملک کے ایک باشندے کے پاس کام ڈھونڈنے پہنچا۔ اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُور چرانے کے کام پر لگا دیا۔ وہاں وہ اُن پھلیوں سے جنہیں سُور کھاتے تھے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا تھا لیکن کوئی اُسے پھلیاں بھی کھانے کو نہیں دیتا تھا۔ تب وہ ہوش میں آیا اور کہنے لگا: میرے باپ کے مزدوروں کو ضرورت سے بھی زیادہ کھانا ملتا ہے لیکن میں یہاں قحط کی وجہ سے بھوکوں مررہا ہوں۔ میں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اُسے کہوں گا: اَے باپ! میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہُوں۔ اب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں۔ مجھے بھی اپنے مزدوروں میں شامل کرلے‘‘ (لوقا 15:11۔19).

(یوحنا5:39، 40؛ لوقا15:17؛ 2تیموتاؤس 3:15؛ افسیوں2:8؛
اعمال16:31؛ کلسیوں1:17)

I.   اوّل یہ ہے انسان کا ’’اخلاقی زوال‘‘ جیسا کہ ’’بحرانی تبدیلی‘‘ کی تیسری راہ میں آشکارہ کیا گیا ہے، لوقا15:13؛ اشعیا53:3؛ رومیوں8:7؛ افسیوں2:1؛ رومیوں3:9، 10؛ اشعیا1:5، 6؛ لوقا15:15، 16؛ افسیوں2:2، 5؛ لوقا15:24 .

II.  دوئم، یہاں ایک گنہگار کی اُس کی بدنصیبی سے ’’بیداری‘‘ کی وضاحت پیش کی گئی ہے، جیسا کہ ’’بحرانی تبدیلی‘‘ کی تیسری راہ میں آشکارہ کیا گیا ہے،
لوقا 15:17؛ افسیوں5:14؛ رومیوں10:14؛ لوقا13:24؛
رومیوں 3:20؛ لوقا 15:17۔18 .