Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مسیح کی فتح پا لینے والی قوت

!THE OVERCOMING POWER OF CHRIST
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 16فروری، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, February 16, 2014

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘
(فلپیوں4:‏13)۔

میں اِکسٹھ سالوں سے گاہے بگاہے ٹیلی وژن پر ’’ٹونائٹ Tonight‘‘ شو دیکھتا رہا ہوں۔ جے لینو Jay Leno سے پہلے جانی کارسن Johnny Carson تھا۔ جانی کارسن سے پہلے جیک پار Jack Paar تھا، اور اُس سے پہلے سٹیو ایلن Steve Allen تھا۔ لیکن وہ ایک جس کو میں نے سب سے زیادہ دیکھا جیک پار تھا، اور میرے رائے میں وہ سب سے بہترین تھا۔ جیک پار کے ’’ٹونائٹ‘‘ شو کا خاصہ بے فکرے سرور اور بنا کسی پہلے سے لکھی ہوئی ہدایت پر مشتمل ہوتا تھا، کچھ ایسا جس کے بارے میں آج سُنا نہیں جاتا۔ پار نے کبھی بھی پہلے سے کوئی تیاری یا بات چیت نہیں کی کہ اُس کو یا اُس کے مہمان کو کس بارے میں بات چیت کرنی ہوگی۔ وہ تمام کا تمام بے ساختہ ہوتا تھا۔ پار کا بار بار آنے والا ایک مہمان جو ایک عمر رسیدہ مزاحیہ اداکار کلف آرکیٹ Cliff Arquette ہوتا تھا، جو خود کو ’’چارلی ویور Charlie Weaver‘‘ کہلاتا تھا۔ کسی کسی رات وہ دونوں وہاں بہت سے دوسرے مہمانوں سے باتیں کیے بغیر بس ایسے بیٹھے رہتے۔ لیکن وہ اِس قدر اچھا ہوتا تھا کہ 1960 کی ابتدائی دہائی میں چند سالوں تک مَیں نے اُس پروگرام کو تقریباً ہر رات کو دیکھا تھا۔ ایک رات کو مسٹر پار کے مہمان کے طور پر سابقہ نائب صدر رچرڈ نیکسن Richard Nixon تھے۔ کم از کم بھی کہا جائے تو وہ بہت دلچسپ تھا! نیکسن مطالعے کے پُرجوش شوقین تھے۔ ایک موقعے پر پار نے نیکسن سے پوچھا کن پانچ کتابوں نے سب سے زیادہ اُن کی زندگی کو متاثر کیا تھا۔ نیکسن نے چار ناموں کو دھیرے دھیرے بتایا۔ پھر اُنہوں نے کہا، ’’اِس ایک نے مکمل طور پر میری زندگی بدل دی تھی،‘‘ اور اُنہوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیل Dr. Norman Vincent Peale کی لکھی ہوئی کتاب ’’مثبت سوچ کی قوت The Power of Positive Thinking ‘‘ تھی۔ نیکسن نے کہا کہ جب کبھی بھی اُنہوں نے ہمت ہارتے ہوئے محسوس کی تو وہ اُس کتاب کو اُٹھا لیتے اور اُس میں سے کچھ پڑھ لیتے۔ اُنہوں نے کہا اِس نے اُنہیں وہ کام کرنے میں جن کے بارے میں وہ سوچتے تھے کہ ناممکن ہیں متاثر کیا۔

میرے زندگی میں اُس مخصوص موقعے پر، میں نے اتنا زیادہ مایوس محسوس نہیں کیا ہوگا۔ مجھے بالکل اُسی وقت کالج سے کم سے کم کارکردگی نہ دکھا سکنے پر نکالا گیا تھا۔ میرے پاس کوئی پیسے نہیں تھے۔ میرے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ میرے پاس گاڑی نہیں تھی۔ میری ماں نے مجھے رہنے کے لیے جگہ تو دے دی تھی، مگر میرے باپ کی طرف سے مجھے بالکل بھی کوئی مدد نہیں ملی تھی، جس نے ایک ایسی عورت سے شادی کی تھی جو مجھے اُن کی زندگی میں دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی۔ یوں، وہ میں تھا، ایک مکمل طور پر مایوس کُن حالت میں۔ مَیں بالکل ابھی ابھی بچایا گیا تھا۔ لیکن مجھے خود پر اعتماد نہیں تھا۔ بالکل بھی نہیں تھا! میں نے چینی لوگوں کے لیے ایک بپتسمہ دینے والا پادری اور مشنری بننے لیے خود کو مجبور ہوتا ہوا محسوس کیا۔ میں نے ایسا خودبخود کرنے کے لیے محسوس کیا۔ لیکن اِس سے پہلے کہ میں مغربی بپتسمہ دینے والا مشنری بننے کے بارے میں سوچتا بھی مجھے کالج سے اور ایک سیمنری سے تین سال کے پروگرام کی گریجوایشن کو پاس کرنا تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں ایسا کبھی بھی نہیں کر سکوں گا! میں نہیں جانتا کہ آیا میں اُس مایوسی اور بے بسی کے درجے کو جو میں نے محسوس کیا آپ تک منتقل کر سکتا ہوں۔ چند سالوں کے بعد میں نے فرانز کیفکہ Franz Kafka (1883۔1924) کا تجرباتی ناول محل The Castle پڑھا۔ میں اپنے احساسات کو بیان کرنے کے قریب آ گیا تھا جیسے جیسے میں نے کالج اور سیمنری سے گریجوایشن کرنے کی جدوجہد کی، اور ایک مشنری بنا – ایک ایسے پیشے میں داخل ہونے کی مشقت کا ہولناک ڈراؤنا خواب جو ناقابل حصول تھا جو نا کرنے کے قابل تھا، جو ہمیشہ ہی پہنچ سے باہر تھا۔

میں کچھ ہفتے پہلے ہی بچایا جا چکا تھا۔ لیکن اُس کے کچھ ہی عرصے بعد میں کالج میں فیل ہوگیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ میں جیک پار کو دیکھ رہا تھا جس وقت رچرڈ نیکسن نے بتایا کہ کیسے ’’مثبت سوچ کی قوت The Power of Positive Thinking‘‘ نے اُس کی مدد کی تھی۔ میں نے کتاب خریدی اور اُس کو ایک ہی رات میں پڑھ ڈالا۔ مجھے احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک آزاد خیال نے لکھی تھی۔ میں اُس میں سے زیادہ تر جو اُس نے لکھا تھا بھول گیا تھا، لیکن ایک باب نے مجھے اُمید دلائی۔ اُس باب میں نارمن ونسنٹ پیل نے فلپیوں4:‏13 آیت کو رٹنے کے لیے کہا تھا اور دِن میں کئی مرتبہ دھرانے کے لیے کہا تھا۔ اُس کا مطلب ایک طرح سے خود ہی ذہن کو قائل کر لینے کی تکنیک کے طور پر اپنانا تھا۔ لیکن میں نے اُس کو خُدا کے کلام کے طور پر اپنایا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اُس آیت کے الفاظ نے مجھے قوت بخشی اور وہ کرنے کے لیے مجھے متاثر کیا جس کو میں نے سوچا کہ انسانی طور پر کرنا ممکن تھا۔ میں نا صرف اسی فیصد سے زیادہ A minus grade نمبروں کی قابلیت کے ساتھ رات کو اپنے کالج کا تمام کام کرنے کے قابل ہو گیا تھا بلکہ دِن کے وقت ہفتے میں چالیس گھنٹوں کی ایک دُنیاوی نوکری کرنے کے بھی قابل ہو گیا تھا اور ہر اِختتام ہفتہ پر لاس اینجلز کے پہلے بپتسمہ دینے والے چینی گرجہ گھر پر گھنٹوں مذہبی کام کرنے کے بھی قابل ہو گیا تھا۔ میں ایک انسانی بارود بن چکا تھا، جو ہر رات کو چھے یا اِس سے کم کی نیند سوتا تھا! اِس طرح یہ رہی آپ کے سامنے وہ کہانی کہ کیسے فلپیوں4:‏13 میری زندگی کی آیت بنی۔ آج کے دِن تک میں تقریباً ہمیشہ اُس آیت کو اپنے نام کے نیچے زیادہ تر خطوط اور غور طلب باتوں میں جو میں لکھتا ہوں ڈالتا ہوں،

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

یہ گرجہ گھر وجود میں نہ ہوتا اگر خُداوند نے کلام پاک کی اُس آیت کو استعمال نہ کیا ہوتا۔ اِس کے ذریعے سے مسیح نے میری زندگی کو بدل ڈالا! میں تجربے سے جانتا ہوں کہ مسیح آپ کی ہر رکاوٹ کو پار کرنے کے لیے مدد کر سکتا ہے، اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو خُدا چاہتا ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کریں! ایک گیت کا بند ہے جو کہتا ہے،

آپ کے خیال میں ایسے دریا بھی ہیں جنہیں پار نہ کیا جا سکے؟
   اور کیا ایسے پہاڑ ہیں جن میں سے آپ سُرنگ نہ بنا سکتے ہوں؟
مسیح ناممکن سوچی جانے والی باتوں میں مہارت رکھتا ہے
   اور وہ وہ کر سکتا ہے جو کوئی دوسری قوت نہیں کر سکتی!
(مصنف انجان)۔

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

اِس واعظ میں مَیں اِس تلاوت کو دو طریقوں سے لاگو کرنے کے لیے جا رہا ہوں۔ اوّل، میں آپ میں سے اُن پر لاگو کروں گا جو پہلے سے ہی بچائے ہوئے ہیں۔ پھر میں اِس کو آپ میں سے اُن پر لاگو کروں گا جو ابھی تک کھوئے ہوئے ہیں۔

I۔ اوّل، میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے وہ جو پہلے سے ہی بچائے ہوئے ہیں اِس تلاوت میں سچائی کو گرفت میں لیں۔

یہ آپ کی زندگی بدل سکتی ہے – جیسا کہ اِس نے میری زندگی کو بدلا!

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

یونانی لفظ میں ’’میں کر سکتا ہوں‘‘ کے ترجمے کا مطلب ’’مضبوط ہونا‘‘ یا ’’قوت رکھنا‘‘ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا اِس کا مطلب ’’آپ کے زندگی کے لیے مسیح کی مرضی کے تناظر میں آپ سب کام کر سکتے ہیں۔ جو کچھ بھی آپ کے کرنے کے لیے مسیح کے پاس ہے، وہ قوت مہیا کرے گا... میں وہ تمام کام کر سکتا ہوں جو خُدا نے میرے لیے رکھے ہیں اُس وقت سے لیکر جب اُس نے مجھے بچایا اور اُس وقت تک جب وہ مجھے اِس دُنیا سے باہر لے جائے گا۔ ’مسیح کی مدد سے جو مجھے طاقت بخشتا ہے۔‘ مسیح ہی وہ اکیلا ہے جو آپ کو طاقت بخشے گا اور وہ تمام کام کرنے کے قابل کرے گا جو آپ کے لیے اُس کے مرضی میں شامل ہے... جب آپ اور میں مسیح میں ہیں، اور مسیح میں چل رہے ہیں… ہم ناقابل مزاحمت ہیں۔ ہمیں کچھ بھی روک نہیں سکتا‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد 4، صفحات 327۔328)۔

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

اِسے پولوس رسول کی زندگی سچا ثابت کرتی ہے۔ پولوس نے واقعی میں ایک حیران کُن زندگی گزاری – ایک حیرت انگیز زندگی! میں جو کچھ اُس نے 2کرنتھیوں11:‏23۔31میں لکھا اُسے یہ سوچے بغیر نہیں پڑھ سکتا کہ ہماری تلاوت اُس کی زندگی سے مکمل طور پر مصدقہ ہے۔ پولوس نے کہا،

’’کیا وہی، مسیح کے خادِم ہیں؟ (میرا یہ کہنا پاگل پن سہی) میں اُن سے بڑھ کر ہُوں؛ میں نے اُن سے بڑھ کر محنت کی ہے، اُن سے زیادہ قید کاٹی ہے۔ اُن سے کہیں زیادہ کوڑے کھائے ہیں۔ میں نے کئ بار مَوت کا سامنا کیا ہے۔ میں نے یہودیوں کے ہاتھوں پانچ دفعہ اُنتالیس، اُنتالیس کوڑے کھائے۔ تین دفعہ رُومیوں نے مجھے چھڑیوں سے پیٹا۔ ایک دفعہ سنگسار بھی کیا۔ تین دفعہ جہاز کی تباہی کا سامنا کیا۔ ایک دِن اور ایک رات کھلے سمندر میں بہتا پھرا۔ میں اپنے سفر کے دوران بارہا دریاؤں کے، ڈاکوؤں کے، اپنی قوم کے اور غیر یہودیوں کے، شہر کے، بیابان کے، سمندر کے، جھوٹے بھائیوں کے خطروں میں گھرا رہا ہُوں۔ میں نے محنت کی ہے، مشقت سے کام لیا ہے، اکثر نیند کے بغیر رہا ہُوں۔ میں نے بھوک پیاس برداشت کی۔ اکثر فاقہ کیا، میں نے سردی میں بغیر کپڑوں کے گزارا کیا ہے۔ کئی اور باتوں کے علاوہ تمام کلیسیاؤں کی فکر کا بوجھ مجھے ستاتا رہا ہے۔ کس کی کمزوری سے میں کمزور نہیں ہوتا اور کس کے ٹھوکر کھانے پر میرا دل نہیں دُکھتا؟ اگر مجھے فخر کرنا ہی ہے تو میں اُن باتوں پر فخر کروں گا جو میری کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں۔ خداوند یسُوع کا خدا اور باپ اُس کی ہمیشہ تمجید ہو جانتا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ہُوں‘‘ (2۔کرنتھیوں11:‏23۔31).

درد، دُکھ یا مایوسی کی کوئی بھی مقدار اُسے روک نہیں پائی!

لیکن مہربانی سے یہ مت سوچیں کہ پولوس ایک فوق البشر تھا! جی نہیں، بِلاشُبہ! وہ اکثر اتنا ہی کمزور اور لاچار محسوس کرتا تھا جتنا کہ کبھی کبھار آپ محسوس کرتے ہیں! مگر مسیح اُس کے پاس آیا اور کہا،

’’میرا فضل تیرے لیے کافی ہے: کیونکہ میری قدرت کمزوری ہی میں پوری ہوتی ہے‘‘ (2 کرنتھیوں12:‏9)۔

اور تب پولوس نے کہا،

’’یہی وجہ ہے کہ میں مسیح کی خاطر کمزوری میں، بے عزتی میں، ضرورتوں میں، اذیّتوں میں اور تنگی میں خوشی محسوس کرتا ہوں: کیونکہ جب میں کمزور ہوتا ہوں تو مجھے اپنے قوی ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے‘‘ (2 کرنتھیوں12:‏10)۔

پیوریٹن یرمیاہ بروز Jeremiah Burroughs (1600?۔1646) نے کہا کہ مسیحی ’’جو کچھ خُداوند اُس پر لادتا ہے اُسے برداشت کرنے کے قابل ہوتا ہے، اُس قوت کے وسیلے سے جو اُسے یسوع مسیح سے ملتی ہے‘‘ (یرمیاہ بروز Jeremiah Burroughs، مسیحی اطمینان کا نایاب ھیرا The Rare Jewell of Christian Contentment، صفحہ 63)۔ عظیم مبلغ چارلس سیمیئن Charles Simeon (1759۔1836) انتہائی شدید آزمائشوں سے گزرا۔ جب وہ پہلے پادری بنا تو گرجہ گھر میں لوگ حقیقی تبدیلی کے لیے اُس کے ضرورت پر منادی کرنے کے لیے اُس کے خلاف تھے۔ ’’مسیحی حلقوں کے رہنے والوں لوگوں نے اپنے مسیحی عبادت کے گھروں کو تالے لگا دیے اور گرجہ گھر کے مہتمموں نے دروازوں میں تالے لگا دیے۔ پانچ سالوں تک سیمیئن [نے کہا] ’میں نے خالی دیواروں کو تبلیغ دی‘... [پھر] اُس کو [اُس کے گرجہ گھر کو کامیاب ہونے سے پہلے] مذید پانچ اور سالوں تک انتہائی شدید قوت والی مخالفت کو جھیلنا پڑا‘‘ (ڈیوڈ ایل۔ لارسن، ڈی۔ڈی۔ David L. Larsen, D.D.، مبلغین کی صُحبت The Company of the Preachers، کریگل پبلیکیشنز Kregel Publications، 1998، صفحہ 403)۔

کرس سوسٹم Chrysostom کو ملکہ یوڈوسیا Empress Eudoxia نے جلا وطن کر دیا تھا۔ جان حُس John Hus کو انجیل کی منادی کرنے پر زندہ جلا دیا گیا تھا۔ لوتھرLuther کو کاتھولک چرچ کی جانب سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ بیکسٹر Baxter کو بُرج لندن Tower of London میں قید کر دیا گیا تھا۔ بنیعن Bunyan کو بارہ سالوں کے لیے قیدخانے میں بھیج دیا گیا تھا۔ ویزلی Wesley بھائیوں کو اینگلیکن چرچ سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ وائٹ فیلڈ Whitefield نے لندن میں ہر چرچ کے دروازے میں اُس کو باہر رکھنے کے لیے تالا لگا ہوا پایا۔ جاناتھن ایڈورڈ Jonathan Edwards کو اُسی گرجہ گھر میں سے جہاں اُس ہی کی مذہبی خدمت کے تحت پہلی عظیم بیداری شروع ہوئی تھی گولی ماری گئی تھی! سپرجیئن Spurgeon کی انگلستان کے بپتسمہ دینے والی یونین نے مذمت کی تھی۔ گلیڈس ایلورڈ Gladys Aylward کو لندن مشنری سوسائٹی نے مسترد کر دیا تھا۔ گریشام میکحن Gresham Machen کی مذہبی عہدے پر فائز ہونے کی رسم کو بائبل پر ایمان رکھنے کی وجہ سے پریسبائٹیرین چرچ کی جانب سے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ رچرڈ وُرمبرانڈ Richard Wurmbrand کو یہودی ہونے کے وجہ سے نازیوں نے پیٹا تھا، اور پھر اشتراکیت پسندوں نے مسیح کی انجیل کی منادی کرنے پر 14 سالوں تک قید میں رکھا تھا۔ رابرٹ جرمین تھامس Robert Jermain Thomas کا انجیل کی منادی کرنے پر کوریا کے لوگوں نے سر قلم کر دیا تھا۔ وینگ مینگ داؤ Wang Mingdao، ایلن یواین Allen Yuan، سیموئیل لیمب Samuel Lamb، موزس ژی Moses Xie، لی ٹیانین Li Tianen اور چین میں دوسرے بہت سے پادریوں نے انجیل کی منادی کرنے پر کئی سال قید میں گزار دیئے۔ جان اور بیٹی سٹام John and Betty Stam کو اِس سے پہلے کہ وہ منادی بھی کر پاتے چین میں سزائے موت دی گئی۔ جم ایلیٹ Jim Elliott کو آیوکا اینڈینزAuca Indians نے قتل کر دیا تھا اس سے پہلے کہ وہ اُن کے لیے منادی کر پاتا۔ اُس کی بیوی الزبتھ ایلیٹ واپس گئی اور اُن انڈینز میں سے زیادہ تر کی مسیح کے پاس رہنمائی کی۔ جب میں نے ایڈونیرام Adoniram اور این جڈسن Ann Judson کی کہانی پڑھی تو میں نے سوچا، ’’اِس تمام دُکھ اور تکلیف میں سے زندہ گزرنے کے لیے فوق القدرت قوت چاہیے ہوگی!‘‘ بلاشُبہ! اور وہ فوق القدرت قوت یسوع مسیح سے آتی ہے! اُن میں سے ہر ایک عظیم مسیحی آپ کو بتائے گا،

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

آپ کے خیال میں ایسے دریا بھی ہیں جنہیں پار نہ کیا جا سکے؟
   اور کیا ایسے پہاڑ ہیں جن میں سے آپ سُرنگ نہ بنا سکتے ہوں؟
مسیح ناممکن سوچی جانے والی باتوں میں مہارت رکھتا ہے
   اور وہ وہ کر سکتا ہے جو کوئی دوسری قوت نہیں کر سکتی!

آپ کر سکتے ہیں جو کچھ بھی خُدا آپ کو کرنے کے لیے بُلاتا ہے! آپ وہ بن سکتے ہیں جو خُدا آپ سے چاہتا ہے! آپ زندگی کے ہر مسئلے اور ہر مصیبت پر فتح پا سکتے ہیں – ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے!

ایمان ہی وہ فتح ہے! ایمان ہی وہ فتح ہے!
اوہ جلالی فتح، جو دُنیا پر قابو پاتی ہے۔
   (’’ایمان ہی وہ فتح ہے Faith is the Victory‘‘ شاعر جان ایچ۔ یعتز
      John H. Yates، 1837۔1900)۔

آپ شاید سوچیں کہ آپ یہ نہیں کر سکتے ہیں – چاہے یہ کچھ بھی ہے – مگر آپ کر سکتے ہیں!

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

ایمان ہی وہ فتح ہے! ایمان ہی وہ فتح ہے!
اوہ جلالی فتح، جو دُنیا پر قابو پاتی ہے۔

مگر مجھے اپنے وعدے کو قائم رکھنا چاہیے اور اِس تلاوت کا اطلاق اُن کے لیے کرنا چاہیے جو ابھی تک بچائے نہیں گئے ہیں۔

II۔ دوئم، میں چاہتا ہوں کہ آپ جو ابھی تک بچائے نہیں گئے ہیں وہ بھی اِس تلاوت کی سچائی کو گرفت میں لیں۔

اِس کے باوجود، اِس تلاوت کا اِطلاق آپ کے لیے بھی ہوتا ہے۔

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

کیا آپ یسوع کو تلاش کرنے اور بچائے جانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ مایوس کُن سا لگتا ہے؟ کیا یہ ابدی لگتا ہے – جیسا کہ آپ ایک لمبی طویل مایوسی کی سُرنگ کے اختتام پر کبھی بھی روشنی نہیں دیکھیں گے؟ کیا آپ کبھی کبھی کیفکہ Kafka کے کردار کی مانند محسوس کرتے ہیں، جو محل کے اندر داخل نہیں ہو سکا، چاہے اُس نے کتنی ہی سخت کوشش کیوں نہ کی؟ کیا آپ نے کبھی کبھی محسوس کیا کہ مسیح کو پانے کی آپ کی تلاش ایک ہولناک ڈراؤنے خواب کی مانند ہے؟ کیا نجات ناقابل حصول، نا کر سکنے کے قابل، ہمیشہ پہنچ سے دور لگتی ہے؟ اگر یہ لگتی ہے، تو میرے پاس آپ کے لیے ایک خوشی کی خبر ہے! مدد راستے میں ہی ہے!

مجھے غلط مت سمجھیے گا، مدد اُن کے لیے راستے میں نہیں ہے جو بیوقوف بنا رہے ہیں، اور خُدا کے برابر ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یسوع نے کہا،

’’تنگ دروازے سے داخل ہونے کی پوری کوشش کرو: کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا13:‏24)۔

یسوع نے وہ اُس شخص سے کہا تھا جس نے نجات کے بارے میں ایک سوال پوچھا تھا۔ یسوع نے نجات میں داخل ہونے کے لیے ’’کوشش‘‘ کرنے کے لیے کہا۔ اُس نے کہا کہ وہ جو صرف اندر داخل ہونے کے لیے ’’تلاش‘‘ کرتے ہیں وہ ایسا کرنے کے قابل نہیں ہونگے۔ یونانی لفظ میں ’’کوشش‘‘ کے ترجمے کا مطلب ’’جدوجہد،‘‘ جنگ یا لڑائی‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن یونانی لفظ میں ’’تلاش‘‘ کے ترجمے کا مطلب سرسری سی، لاپرواہ سی تفتیش کرنا ہوتا ہے؛ تجسس کے تحت جاننے کے کوشش کرنا کہ بچایا کیسے جا سکتا ہے – جبکہ رہنا بے فکرا ہی ہے۔ وہ شخص جو نجات کے بارے میں کچھ باتوں کو سیکھنے کے ذریعے سے صرف داخل ہونے کی تلاش کرتا ہے وہ یسوع میں داخل ہونے کے لیے ’’قابل نہیں ہوتا ہے۔‘‘ صرف وہی شخص جو نجات کے بارے میں بالکل انتہائی سنجیدہ ہوتا ہے، جو جدوجہد کرتا ہے اور یسوع کو پانے کے لیے لڑتا ہے، وہ مسیح میں نجات پانے کے لے داخل ہونے کے قابل کیا جائے گا۔ صرف وہی جو مسیح کو جاننے کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہوتے ہیں اُنہیں ہی اُس کو پانے کے لیے وہ فضل بخشا جائے گا۔ قبل از متجسم مسیح نے کہا،

’’تُم مجھے ڈھونڈو گے اور جب تم مجھے اپنے سارے دل سے ڈھونڈو گے تو مجھے پاؤ گے‘‘ (یرمیاہ 29:‏13).

’’جب تُم مجھے اپنے سارے دل کے ساتھ ڈھونڈو گے۔‘‘ نجات دہندہ کو پانے کے لیے اِس میں بہت زیادہ جدوجہد کا اِطلاق ہوتا ہے۔ یسوع میں داخل ہونے کے لیے جو شخص ’’کوشش‘‘ کرتا ہے اُس کے بارے میں کچھ بھی اتفاقیہ اور بے معنی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے تمام دل کے ساتھ نجات دہندہ کو تلاش کر رہا ہے۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں، تو وہ آپ کو اُسے [یسوع] پانے کے لیے فضل بخشتا ہے!

ایک نوجوان عورت نے کہا کہ وہ خوفزدہ ہے اگر وہ بچائی نہیں جاتی ہے تو اُس کو گرجہ گھر میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے کیونکہ اُسے گرجہ گھر میں ہونا اچھا لگتا ہے۔ لیکن اُس نے جو کہا اُس میں گناہ کی کوئی سوچ نہیں تھی – اور گناہ سے اُسے بچانے کے لیے صلیب پر یسوع کے مرنے کی کوئی سوچ نہیں تھی۔ یہ صرف ایک اتفاقیہ دلچسپی ہے، یہ سیکھنے کی کوشش کرنا کہ گرجہ گھر میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے! یہ یقیناً یسوع کو ڈھونڈنے کے لیے کوشش کرنا نہیں ہے اور اُس کے خون کے وسیلے سے پاک صاف ہونا نہیں ہے! یہ گرجہ گھر میں لوگوں کے ذریعے سے محض ایک سرسری سی دلچسپی ہے – اور اِس سے زیادہ کچھ نہیں ہے (تاہم، اتوار کی رات میرے اِس واعظ کی منادی کرنے کے بعد اُس نے اُمید کی بھرپوری کے ساتھ یسوع پر بھروسہ کیا)۔

اب آپ شاید سوچ سکتے ہیں کہ آپ کے لیے نجات پانا ناممکن ہے۔ لیکن جب خدا آپ کے گناہ سے بھرپور دل میں سزایابی بھیجتا ہے، اور پھر وہ آپ کو یسوع کی طرف کھینچتا ہے، تو آپ خود اپنی نجات کے لیے ہماری تلاوت کا اِطلاق کرنے کے قابل ہو جائیں گے، اور کہیں گے،

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘ (فلپیوں4:‏13)۔

تب آپ اُس کے قیمتی خون کے ذریعے سے نجات کا تجربہ کریں گے جو اُس نے آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے صلیب پر بہایا تھا۔

اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے اور اُس کے وسیلے سے اپنے گناہوں سے نجات پانے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا پسند کریں، تو مہربانی سے اپنی نشست چھوڑیں اور ابھی اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ مسٹر جان سیموئیل کیگن Mr. John Samuel Cagan آپ کی رہنمائی ایک اور کمرے میں کریں گے جہاں پر ہم دعا اور بات چیت کر سکتے ہیں۔ یسوع نے آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے اپنا خون بہایا۔ اجتماع گاہ کی پچھلی جانب ابھی جائیں اگر آپ اُس کے وسیلے سے نجات پانے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹرچیعن Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ کسی نہ کسی کو یسوع پر ابھی بھروسہ کرنے کے لیے فضل بخشا جائے گا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی:
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’ایمان ہی وہ فتح ہے Faith is the Victory‘‘ (شاعر جان ایچ۔ یعتز John H. Yates، 1837۔1900)\
’’آپ کے خیال میں ایسے دریا بھی ہیں جنہیں پار نہ کیا جا سکے؟
Got Any Rivers You Think Are Uncrossable?‘‘ (مصنف انجان)۔

لُبِ لُباب

مسیح کی فتح پا لینے والی قوت

!THE OVERCOMING POWER OF CHRIST

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’میں مسیح کی مدد سے سب کچھ کر سکتا ہوں جو مجھے طاقت بخشتا ہے‘‘
(فلپیوں4:‏13)۔

I.   وّل، میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے وہ جو پہلے سے ہی بچائے ہوئے ہیں اِس تلاوت میں
سچائی کو گرفت میں لیں، 2کرنتھیوں11:‏23۔31؛ 12:‏9، 10 .

II.  دوئم، میں چاہتا ہوں کہ آپ جو ابھی تک بچائے نہیں گئے ہیں وہ بھی اِس تلاوت کی سچائی
کو گرفت میں لیں، لوقا 13:‏24؛ یرمیاہ 29:‏13 .