Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

دائمی اِمتیاز

ETERNAL DISCRIMINATION
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 29 دسمبر، 2013
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, December 29, 2013

’’یہ لوگ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی پائیں گے‘‘ (متی25:46).

میں ایک ایسے زمانے میں پلا بڑھا تھا جب امریکہ میں نسلی امتیاز ایک طاقتور قوت تھا۔ میں اِس سے بچا رہا کیونکہ میری ماں نے مجھے سیکھایا تھا کہ یہ ایک گناہ تھا۔ میرے ابتدائی سالوں سے ہی مجھے اُس کا بتانا یاد ہے کہ خُدا کی نظر میں تمام لوگ برابر تخلیق کیے گئے ہیں۔ ہماری بات چیت کچھ اِس طرح سے ہوا کرتی تھی: ماں نے کہا، ’’رابرٹ، تم نے فیصلہ نہیں کیا تم کونسی نسل سے ہوگے، کیا تم نے فیصلہ کیا؟‘‘ میں نے کہا، ’’جی نہیں، ماں۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’نا ہی کسی اور نے کیا، اِس لیے اُن تمام کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرو۔‘‘ لیکن میں یہ کبھی بھی مکمل طور پر سمجھ نہیں پایا کہ کسی کی نسل کے خلاف امتیاز کیاجانا کس قدر ہولناک ہے جب تک کہ میں زیادہ عمر کا نہ ہو گیا۔ پھر میں نے نسلی امتیاز کے ڈنگ کو محسوس کیا کیونکہ میں ایک گورا آدمی تھا۔ مجھے بگڑنے سے روکے رکھنے کے لیے میری ماں کی نسلی رواداری کی دوائی کی ایک کافی شدید خوراک کی ضرورت پڑی تھی۔ اِس کے باوجود، خُدا کے فضل کے وسیلے سے، اُس نے اُس تجربے کو مجھے سب لوگوں کے لیے ایک انسان بنانے کے لیے استعمال کیا! اپنی زندگی کے اُن تجربوں اور اپنی ماں کی تربیت کے بغیر میں لاس اینجلز کے مرکز میں اِس گرجہ گھر کی بنیاد اور قیادت رکھنے کے قابل کبھی بھی نہ ہوا ہوتا۔

کچھ سالوں بعد مجھے احساس ہوا کہ میں تو یہاں تک کہ کسی کی نسل کے بارے میں سوچتا تک نہیں ہوں جب میں اُنہیں ملتا ہوں۔ یہ ایک نایاب خصوصیت ہے، اور میں خُدا کا یہ مجھے عطا کرنے کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔ میں پاس یہ گرجہ گھر کبھی بھی نہ ہوتا اگر خُدا نے میرے دِل سے تمام نسلی امتیازات کے نشانات کو جلا نہ دیا ہوتا۔ ایک مشنری جنہوں نے حال ہی میں ہمارے گرجہ گھر میں کچھ عرصہ کے لیے آئے اُنہوں نےکہا، ’’ آپ کی مذہبی جماعت میں حیرت انگیزتہذبی تنوع سے میں خوشگوار طور پر متعجب ہوا تھا۔ یہ بالکل ایسا ہے جسے آسمان [جنت] ہوگی!‘‘ جی ہاں! آسمان میں ہم یسوع کے لیے گائیں گے،

’’تو نے ذبح ہو کر اپنے خون سے ہر قبیلہ، ہر زبان، ہر اُمّت اور ہر قوم سے لوگوں کو خدا کے واسطے خرید لیا‘‘ (مکاشفہ 5:9).

میں اُن پادریوں کے لیے دُکھ محسوس کرتا ہوںجو نسلی تبدیلیوں کے علاقوں میں ہیں۔ وہ اکثر اپنے اینگلو گرجہ گھروں کو بچانے کے لیے ہسپانوی امریکیوں یا ایشیائیوں کو دوسری عمارت میں سنڈے سکول کے کمرے میں اُن کی نسل کے ایک پادری کے ساتھ کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ شاذ و نادر ہی کام کرتا ہے۔ تقریباً ہمیشہ اینگلو گرجہ گھر سکڑتے جاتے ہیں جب تک وہ اتنے کم رہ جاتے ہیں کہ عمارت کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عموماً عمارت کسی فرقے یا پُراسرار مسیحی گروہ کے ہاتھوں میں پڑ جاتی ہے۔ میں اُن پادریوں کے لیے دُکھ محسوس کرتا ہوں جو اپنی جماعتوں کی نسلی علیحدگی ختم [کو یکجا] کرنے کے لیے انتہائی بزدل ہیں۔ پینتیکوست مشن والوں نے اپنے گرجہ گھروں کو ایک سو سال سے بھی زیادہ پہلے یکجا کر لیا تھا! ہمارے پبلک سکول 50 سالوں سے بھی زیادہ عرصہ ہوا یکجا ہو چکے ہیں! ہم یہاں بیسویں صدی میں ہیں۔ آسمان کی خاطر ہی سہی، کیا یہ وقت نہیں ہے کہ ہمارے تمام بنیادی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھروں کو بھی اکٹھا ہو جانا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ اِس ویب سائٹ کو دیکھنا چھوڑ دیں گے کیونکہ میں نے یہ کہا۔ لیکن مجھے آپ کو سچائی تو بتانی ہی ہے! کوئی بھی گرجہ گھر جو آج مکمل طور پر یکجا نہیں ہے مسیح کے لیے ایک بُری گواہی ہے۔ اور اِس میں ایک چھوٹے سے ایشیائی یا ہسپانوی امریکیوں کے گروہ کو ایک سنڈے سکول کے کمرے میں گھسا دینا شمار نہیں ہوتا! ایک گرجہ گھر اُس وقت تک مکمل طور پر یکجا نہیں ہوتا جب تک کہ تمام کے تمام لوگ ایک ہی وقت میں اکٹھے پرستش نہیں کرتے – اُسی پادری کے ساتھ۔

لیکن آج شام میرے واعظ کا موضوع نسلی امتیاز نہیں ہے۔ ماہرین عمرانیات تمام لوگوں کو نسلی گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں – اُن کی کھال کی رنگت کے مطابق، اُن کے سروں کی شکلوں کے مطابق، اور یوں ہی اور بہت سی باتوں سے۔ لیکن مسیحی لوگ نسل انسانی کو صرف دو گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔

روحانی لوگ جانتے ہیں کہ تمام نسل انسانی ایک جوڑے سے وجود میں آئی۔ پھر بھی وہ جانتے ہیں کہ وہ تمام جو زندہ ہیں اُنہیں دو خاندانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جو ایک دوسرے سے اتنے ہی مختلف دکھائی دیتے ہیں جتنی رات دِن سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسے اب دو خاندان ہیں۔ وہ یقین کرتے ہیں کہ یہ دو خاندان وقت کے آغاز سے ہی وجود رکھتے ہیں۔ ایک خاندان غلیظ اور گھناؤنا ہے۔ دوسرا خاندان خُدا کی نظر میں اتنا ہی شفاف ہے جتنا کہ ایک شفاف شیشہ [کرسٹل] ہوتا ہے۔

تخلیق کے شروع سے ہی وہ دونوں مختلف خاندان ہمیشہ رہے ہیں – ھابل جو اپنی قبول کی جانے والی قربانی کا نزرانہ پیش کرتا ہے، اور اُسی میدان میں غصیلہ اور قاتل قائین؛ حنوک جو خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، اور لمک جو گناہ میں چلتا رہا؛ نوح اور اُس کا خاندان جنہوں نے خُدا کی نظروں میں فضل پایا، اور بےدینوں کی وہ دُنیا جو سیلاب میں غرق ہو گئی؛ ابراہام جس نے خُدا کی پرستش کی، اور صدوم کے باشندے جو لالچ اور ہوس میں زندگی گزارتے رہے؛ اسرائیل جو خُدا کے لوگ ہیں، اور اُن کے مصری غلام آقا جو پتھر اور لکڑی کے خداؤں کی پوچا کرتے تھے۔ جب اسرائیل وعدے کی سرزمین میں تھا تو وہاں پر وہ تھے جو بعل کی پوجا کرتے تھے، اور وہ تھے جو یہوواہ کی پرستش کرتے تھے؛ بابل کی اسیری میں وہاں پر مردکی تھے جو دیندار یہودی تھے، اور وہیں پر وہ مکار ہامان تھا، جو اپنی ہی زندگی لینے کے منصوبے بنا رہا تھا؛ مسیح کے زمانے میں وہاں پر وہ لوگ تھے جو اُس میں یقین رکھتے تھے اور اُس کی پیروی کرتے تھے، اور وہیں پر وہ بھی تھے جنہوں نے چلا چلا کر کہا ’’اِسے صلیب دو! اِسے صلیب دو! اِسے صلیب دو!‘‘ اور ایسا ہی آج بھی ہے۔ آپ کے پاس ایک طرف پاک اور بے ضرر مسیحی ہیں، اور دوسری طرف امریکہ دہریے ہیں۔ خُدا کی نظر میں ہمیشہ دو گروہ ہوتے ہیں!

’’اور یہ لوگ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی‘‘ (متی25:46).

شریر اور راستباز کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ وہ ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں – اتنے ہی مختلف جتنے کہ اگر ایک شیطان کی نسل ہے تو دوسری خُدا کی نسل ہے – گنہگار اور راستباز۔ ایسا ہی آج شام کو ہے۔ ایسا ہی اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو بالکل میرے سامنے ابھی بیٹھے ہوئے ہیں! اگر مسیح کے استقبال کے لیے اوپر آسمان میں بادلوں میں جانے کا واقعہ ابھی ہو جائے تو،

’’ایک لے لیا جائے گا اور دوسرا چھوڑ دیا جائے گا‘‘ (متی 24:40).

اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خُدا ہمیشہ اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے، یا شریروں کو اِس زندگی میں ہمیشہ سزا دیتا ہے۔ اگر ایک زلزلہ آ جاتا ہے، تو وہ مسیحیوں کے گھروں اور بدکاروں کے گھروں میں امتیاز نہیں کرے گا۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے جیسے خُدا راستباز کی جانب حمایت کے مقابلے میں شریروں کی جانب زیادہ طرفداری کرتا ہے۔ زبور نویس نے کہا،

’’لیکن میرے لیے تو میرے پاؤں پھسلنے ہی والے تھے؛ میرے قدموں کے نیچے کی زمین گویا کھسکنے کو تھی۔ کیونکہ جب میں شریروں کی اقبال مندی دیکھتا تھا، تو مجھے مغروروں پر رشک آتا تھا‘‘ (زبور 73:2۔3).

لعزر کو اپنے ناسور کتوں سے چٹوانے پڑتے تھے، حالانکہ اُس کی دعائیں خُدا نے سُنی تھیں – جبکہ دولت مند شخص ارغوانی قبا پہنتا تھا اور نفیس قسم کے سوتی کپڑے استعمال کرتا تھا، اور ہر روز عیش و عشرت میں مگن رہتا تھا، جبکہ خُدا کا قہر اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ جی نہیں، ضروری نہیں کہ اُس سے جوکچھ بھی اُن کے ساتھ اِس دُنیا میں ہوتا ہے وہ تقسیم جو خُدا راستباز اور شریر کے درمیان قائم کرتا ہے بدل جاتی ہے۔

ایک شخص کی صحت اور کاروبار میں ترقی کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ خُدا اُس کو برکتوں سے نواز رہا ہے۔ دوسرے آدمی کی مشکلات اور بیماریوں کا مطلب یہ نہیں کہ خُدا اُس کو سزا دے رہا ہے۔ وہ شاید بہت بیمار ہے – اور اُس کے بچے بہت شریر ہیں – اور اِس کے باوجود ایک اچھا مسیحی ہوتا ہے۔ وہ شاید بہت امیر اور خوشحال ہوتا ہے اور اِس کے باوجود شدید شریر ہوتا ہے۔ اِن معاملات میں خُدا نے کوئی امتیاز نہیں کیا۔ خُدا نے کوئی فرق نہیں رکھا۔

مگر دوسرے معاملات میں خُدا نے شریر اور راستباز کے درمیان دائمی امتیاز رکھا ہے۔ ہماری تلاوت ہمیں بتاتی ہے کہ یہ امتیاز ابد تک ہمیشہ قائم رہے گا۔

’’اور یہ لوگ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی‘‘ (متی25:46).

ناراست کی سزا اور راستباز کی آسمانی زندگی، دونوں ہی دائمی ہونگی۔ خود مسیح نے کہا وہ دونوں ’’ہمیشہ کے لیے‘‘ ہونگی۔ شریر کی جانب خُدا جو دائمی امتیاز رکھتا ہے اُس کے بارے میں بے شمار باتوں پر غور کریں۔

اوّل، خُدا نے راستباز اور شریر کے درمیان کتابِ حیات میں دائمی امتیاز قائم کیا ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ راستباز وہ ہیں ’’جن کے نام کتابِ حیات میں ہیں‘‘ (فلپیوں4:3)۔ مکاشفہ 13:8 کہتی ہے کہ شریر وہ ہیں ’’جن کے نام بنائے عالم سے ہی ... کتاب حیات میں لکھے ہوئے نہیں‘‘ ہیں (مکاشفہ13:8)۔ بے دینوں کے نام خُدا کی کتاب میں درج نہیں ہوتے ہیں۔ خُداوند نے دُنیا کے آغاز میں اُنہیں وہاں پر نہیں لکھا تھا۔ خُدا نے اُنہیں نجات کے لیے نہیں چُنا تھا۔ مسیحی کا نام خُدا کی کتاب حیات میں درج ہوتا ہے۔ وہ بنائے عالم سے پہلے ہی خُدا کے وسیلے سے چُنا گیا ہوتا ہے۔ دائمیت سے پہلے ہی اُس کا نام خُدا کی کتاب حیات میں یسوع کے وسیلے سے کُنندہ تھا۔ شریر چاہے اب مسیحی پر ھنس سکتے ہیں، لیکن وہ دِن آئے گا جب مسیحی کی باری ہوگی کہ وہ شریر پر ترس کھائے – کیونکہ اُنہوں نے اس دُنیا کے ختم ہو جانے والی خوشیوں کو چُنا ہے، جبکہ مسیحیوں نے اُن چیزوں کو چُنا ہے جو ابدیت تک قائم رہیں گی!

تب، بھی، خُدا نے اُن کے درمیان جو کھوئے ہوئے ہیں اور وہ جو مقامی گرجہ گھر کے دو ضابطوں میں بچائے گئے ہیں ایک دائمی فرق قائم کیا ہے۔ وہ دو ضابطے بپتسمہ اور عشائے ربانی ہیں۔ بپتسمے کا ضابطہ اُن کے لیے ہے جو بچائے گئے ہیں، اور صرف اُنہی کے لیے ہے۔ پہلے ہم ہر کسی کو اُسی وقت، اُن کے ایمان کے اقرار پر ہی بپتسمہ دے دیا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں ہم نے پایا کہ اُن میں سے بہت سوں نے جھوٹ بولا تھا جب اُنہوں نے مسیح پر بھروسہ کرنے کی اپنی گواہی پیش کی تھی۔ اُن کو بپتسمہ دیے جانے کے بعد اُنہوں نے گرجہ گھر کو چھوڑ دیا اور دُنیا میں واپس چلے گئے تھے۔ اِس لیے ہم اب کسی کو بھی بپتسمہ دینے سے پہلے انتظار کرتے ہیں۔ اور اِسی وجہ کے تحت، یہی ہے جو بہت سے غیرملکی مشنری بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا، بپتسمہ صرف اُنہی کو دیا جاتا ہے جو بچائے گئے ہیں۔

اِسی طرح سے، عشائے ربانی بچائے ہوئے اور کھوئے ہوؤں کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔ عشائے ربانی صرف بچائے ہوئے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ جو ابھی تک غیر تبدیل شُدہ ہیں اُنہیں صاف طور پر خبردار کر دیا جاتا ہے کہ اِس میں شرکت مت کریں۔ پاک کلام کہتا ہے،

’’اِس لیے جو کوئی غیر مناسب طور پر خداوند کی روٹی کھائے یا اِس پیالہ سے پئے وہ خداوند کے بدن اور خُون کا گنہگار ٹھہرے گا۔ کیونکہ جو اِس روٹی میں سے کھاتے وقت اور اِس پیالہ میں سے پیتے وقت خداوند کے بدن کو نہیں پہچانتا وہ اِس کھانے اور پینے کے باوجود سزا پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تُم میں سے بہت سے لوگ کمزور اور بیمار ہیں اور کئی ایک مَر بھی گئے ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 11:27،29،30).

اگر آپ بپتسمہ پانے کی ہمت رکھتے ہیں، اور اگر آپ عشائے ربانی لینے کے لیے جرأت کرتے ہیں، اگر آپ کا پادری آپ کی گواہی سُنتا ہے اور کہتا ہے کہ بلاشُبہ آپ بچائے گئے ہیں، تب پبتسمہ کے حوض یا پاک شراکت کے پاس آئیں۔ خُدا نے آپ کو آنے کے لیے مدعو کیا ہے۔ لیکن اُس نے غیرنجات یافتہ لوگوں کو ایسا کرنے کے لیے منع کیا ہے۔ یوں یہاں پر اِن دو ضابطوں میں کھوئے ہوئے اور بچائے ہوئے کے درمیان امتیاز ہے – بپتسمہ اور عشائے ربانی۔

اِس کے علاوہ، خُدا اپنی پروردگاری کے رازدارانہ معاملات میں کھوئے ہوؤں اور بچائے ہوؤں کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے۔ میں نے پہلے کہا تھا کہ خُدا ظاہری طور پر راستباز اور شریر کے درمیان کوئی امتیاز قائم نہیں کرتا۔ لیکن اب میں کہتا ہوں کہ وہ خُفیہ طور پر ایک باطنی فرق قائم کرتا ہے۔ پروردگاری کے معاملات شاید ظاہری طور پر محض ایسے ہی دکھائی دیتے ہوں، مگر باطن میں وہ ایسے نہیں ہوتے ہیں۔ جب ایک مسیحی کی گاڑی تباہ ہوتی ہے تو اُس میں برکت ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک گنہگار کی گاڑی تباہ ہوتی ہے تو اُس میں عذاب ہوتا ہے۔ اگر ایک بے اعتقادے کے لیے حالات غیر موافق ہو جاتے ہیں تو وہ خُدا کے عذاب کے ڈنگ کو محسوس کرتا ہے۔ لیکن اگر ایک مسیحی پر بدقسمتی نازل ہوتی ہے، تو وہ پھر بھی کہہ سکتا ہے، ’’میں جانتا ہوں کہ میرا مُنّجی زندہ ہے! خُداوند کی ستائش ہو!‘‘ جب مصیبت مسیحی کے پاس آتی ہے، تو وہ جانتا ہے کہ خُدا اُس کو دُرست کر رہا ہے، اور اُس کو سیکھا رہا ہے، اور اُس کی مصیبتوں کو استعمال کر کے اُس کو مضبوط اور بہتر مسیحی بنا رہا ہے۔ لیکن جب بُرائی ایک بے اعتقادے پر پڑتی ہے تو وہ خُدا کی سزا کو محسوس کرتا ہے – جو دائمی سزا کی پہلے سے ہی ہونے والی ایک ابتدائی محدود آگاہی ہوتی ہے، اور ایک بے دین زندگی کی مایوسی اور بے بسی ہوتی ہے۔ اِس لیے اُس کی پروردگاری میں بھی، خُدا شریر اور راستباز کے درمیان امتیاز کرتا ہے۔

اِس کے باوجود یہ چھوٹے چھوٹے فرق ہیں اُن کے موازنے میں جو آگے آنے والے ہوتے ہیں۔ وہ بہت بڑا فرق جو ایک کھوئے ہوئے اور بچائے ہوئے کے درمیان ہوتا ہے ابھی آنے والا ہے۔

یہاں لوگوں کے مرنے کے انداز میں ایک حقیقی فرق ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اب تقریباً ہر کوئی ہی اپنے بسترِ مرگ پر نشے کی دوا کے ساتھ مدہوش ہوتا ہے۔ لیکن بے ہوشی کی دوا ایتھر ether کی دریافت سے پہلے، خانہ جنگی سے بالکل پہلے، کھوئے ہوئے لوگ اپنے بستر مرگ پر چیخا اور کراہیا کرتے تھے۔ آپ ٹام پین Tom Paine یا والٹئر Voltaire اوراِن جیسے دوسرے بہت سے لوگوں کی اموات کے بارے میں نہیں پڑھ سکتے، یہ دیکھے بغیر کہ دہریوں [خُدا کے نا ماننے والوں] کے لیے یہ کس قدر ہولناک رہا ہے جب اُنہوں نے اپنی موت کے وقت خُدا کا سامنا کیا۔ بچے کو جنم دیتی ہوئی ایک عورت کی دردیں کچھ بھی نہیں ہیں جب اُن کا موازنہ موت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے شریر کی چیخوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف، مسیحیوں کی اموات ہمیشہ آسان ہوتی ہیں، اور اکثر کافی فاتحانہ ہوتی ہیں۔ جان اوون John Owen نے بالکل ابھی ہی مسیح کے جلال The Glory of Christ پر اپنی کتاب لکھنی ختم کی ہے۔ اُنہوں نے صفحات کو اپنے بستر پر ایک جانب ڈال دیا تھا اور کہا، ’’ہائے! اِنہیں دور رکھ دو! میں مذید اور نہیں لکھوں گا۔ میں اب خود مسیح کے جلال کو دیکھنے – اور اُس کو سب کا خُداوند ہونے کا تاج پہنانے کے قریب ہوں!‘‘

ہر شریر گنہگار درد اور خوف میں نہیں مرتا ہے۔ اور نہ ہی ہر مسیحی نیک ڈاکٹر اوون کی مانند خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مرتا ہے۔ لیکن اُن کے خاندانوں کا ردعمل ہر مرتبہ کہانی سُناتا ہے۔ کھوئے ہوئے آدمیوں اور عورتوں کے خاندان ناقابل تسلی ہوتے ہیں۔ میں ایک مضبوط آدمی کو ایک مُردہ جسم کو کفن میں سے اپنے بازوؤں پر اُٹھاتے ہوئے دیکھ چکا ہوں، اور ایک ستائے ہوئے آدمی کی مانند اپنے غیر مسیحی دوست کی لاش پر ماتم کرتے ہوئے دیکھ چکا ہوں۔ میں ایک عورت کو اپنی کھوئی ہوئی ماں کی کھلی ہوئی قبر میں چھلانگ مارنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھ چکا ہوں۔ اُس کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے تین مضبوط آدمیوں کی ضرورت پڑی تھی۔ میں اُن لوگوں کے جنازوں پر جو کھوئے ہوئے ہیں، اِس قسم کی ہولناک باتیں دیکھ اور سُن چکا ہوں۔ لیکن ایک مسیحی کے جنازے پر ہمیشہ ایک نرم مٹھاس سی ہوتی ہے، ایک کھوئے ہوئے گنہگار کی موت پر محسوس کی جانے والی تلخ مایوسی اور بے بسی نہیں ہوتی ہے۔

اب سوچیں! سوچیں اب! اگر آپ کو آج رات کو مرنا پڑے، تو کیا آپ ایک مسیحی جنازہ چاہیں گے – یا آپ کی ماں اور دوسرے یہ جان کر کہ آپ مسیح میں یقین نہ رکھنے والی ایک قبر میں جا چکے ہیں روئیں اور ماتم کریں؟ اگر آپ کے پاس اپنی ماں اور اپنے خاندان میں دوسرے لوگوں کے لیے کوئی بھی محبت ہے، تو اِس کو آپ کو فوراً مسیح کی جانب کھینچ لینا چاہیے – اگر کوئی اور وجہ نہیں ہے تو اپنے چاہنے والوں کو ایسے عذاب سے بچانے کی خاطر ہی سہی!

لیکن مجھے تلاوت کو ایک مرتبہ پھر سے پیش کرنے سے اختتام کرنا چاہیے۔

’’اور یہ لوگ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی‘‘ (متی25:46).

جب آپ کا کفن زمین میں اُتارا جاتا ہے اور گھاس اور دیگر پودوں والی زمین سے ڈھانپا جاتا ہے، جب آخری دعا کہی جا چکی ہوتی ہے، اور آپ کے سارے دوست جا چکے ہوتے ہیں، تو آپ کو وہاں قبرستان میں، زمین کے چھے فٹ نییچے، نہیں چھوڑا گیا ہوتا ہے۔ اوہ، جی نہیں! آپ تو وہاں پر بالکل بھی نہیں ہونگے! آپ یا تو ہمیشہ کی سزا میں چیخ رہے ہوں گے – اُس آگ میں جس کی پیاس کبھی نہیں بجھتی – یا آپ آسمانی شہر میں ہونگے، مسیح اور تمام پاک فرشتوں کے ساتھ خوشی مناتے ہوئے! آپ یا تو راستباز کے ساتھ گا رہے ہونگے یا شریر کے ساتھ چیخ رہے ہونگے اُس دِن پر جب آپ کو دفنایا جاتا ہے۔ آپ کے لیے اِن میں سے کیا ہوگا؟

میں آپ سے التجا کرتا ہوں کہ اگر آپ آج رات کھوئے ہوئے ہیں تو اپنے آپ کو مسیح کے رحم پر چھوڑ دیں! خود کو یسوع پر چھوڑ دیں، کیونکہ اُس نے کہا، ’’جو کوئی میرے پاس آئے گا میں اُسے اپنے سے جُدا نہ ہونے دوں گا‘‘ (یوحنا6:37)۔ اُس نے صلیب پر اپنا خون آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے بہایا۔ وہ مُردوں میں سے آپ کو دائمی زندگی بخشنے کے لیے جی اُٹھا۔ یسوع کے پاس ابھی آئیں اور تمام زمانوں اور تمام ابدیت کے لیے اُس کے وسیلے سے بچائے جائیں!

اگر آپ ہم سے چاہتے ہیں کہ آپ کی مشاورت کریں اور یسوع پر بھروسہ کرنے کے بارے میں آپ کے ساتھ دعا کریں اور اُسی کے وسیلے سے بچائے جائیں تو مہربانی سے اپنی نشست چھوڑیں اور ابھی کمرے کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ بالکل ابھی جائیں۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ آج رات کوئی نہ کوئی بچایا جائے۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: لوقا16:19۔24 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’تب پھر آپ کیا کہیں گے؟ What Will You Say Then?‘‘ (شاعر ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice، 1895۔1980)\
’’دائمیت Eternity‘‘ (شاعر علیشاہ اے۔ ھوفمین Elisha A. Hoffman، 1839۔1929)۔