Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

گرجہ گھر کے کھوئے ہوئے اراکین اور بھیڑیں چُرانے والے مبلغین

(آخری ایام کی کلیسیائیں – حصّہ دوئم)
LOST CHURCH MEMBERS AND SHEEP STEALING PREACHERS
(THE CHURCHES OF THE LAST DAYS – PART II)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
ہفتے کی شام، 19 اکتوبر، 2013
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, October 19, 2013

’’یسُوع ہیکل سے نکل کر جارہا تھا کہ اُس کے شاگرد اُس کے پاس آئے تاکہ اُسے ہیکل کی مختلف عمارتیں دکھائیں۔ اور یسُوع نے اُن سے کہا، کیا تُم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہو؟ میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ یہاں کوئی پتھر اپنی جگہ باقی نہ رہے گا بلکہ گرا دیا جائے گا۔ اور جب وہ کوہِ زیتون پر بیٹھا تھا تو اُس کے شاگرد تنہائی میں اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے، ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور تیری آمد اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ (متی 24:‏1۔3).

یسوع یروشلم میں ہیکل سے باہرنکلا۔ یہ دُنیا کے اُس حصّے میں سب سے زیادہ اہم عمارت تھی۔ شاگرد اُس کے پاس آئے۔ وہ اُس کو اِردگرد کی عمارات دکھانا چاہتے تھے جو ہیکل سے ملحقہ تھیں۔ جب یسوع ہیکل کے احاطے سے پرے گیا تو اُس نے شاگردوں سے کہا، ’’کیا تم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہو؟ میں تم سے سچ کہتا ہوں یہاں کوئی پتھراپنی جگہ باقی نہ رہے گا، بلکہ گرا دیا جائے گا‘‘ (NIV)۔

جب میں اور میری بیوی یروشلم میں تھے تو ہم اُس جگہ پر گئے تھے جہاں کبھی ہیکل ہوا کرتی تھی۔ وہ اب وہاں نہیں ہے۔ 70 بعد از مسیح میں رومی جنرل ٹائٹس Titus آیا اور یروشلم کے شہر کو تباہ و برباد کر دیا۔ تمام ہیکل کو گرا دیا گیا، اور جن پتھروں سے وہ بنا تھا اُنہیں رومیوں نے منتشر کر دیا۔ صرف ہیکل کے باہر کی ایک دیوار باقی رہ گئی ہے۔ اِس کو ’’آہ و زاری والی دیوار Wailing Wall‘‘ کہتے ہیں۔ تمام دُنیا سے یہودی لوگ یہاں پر مسیحا کے آنے اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ جب میرا بیٹا لیزلی Leslie وہاں پر تھا، اُس نے یہودیوں والی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ اُس نے آہ و زاری والی دیوار پر دعا مانگنے کے لیے ہاتھ رکھا۔ ایک ربّی نے سوچا کہ وہ یہودی ہے۔ وہ لیزلی کے پیچھے سے آیا اور اُس کو تیل کے ساتھ مسح کیا!

رومیوں کے ذریعے سے ہیکل کی تباہی ہمارے لیے ایک قدیم تاریخ ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ شاگرد حیران رہ گئے تھے جب یسوع نے اُنہیں بتایا تھا کہ یہ ہوگا۔ اُس نے کہا، ’’یہاں کوئی پتھر اپنی جگہ باقی نہ رہے گا، بلکہ گِرا دیا جائے گا۔‘‘ اُس پیشن گوئی کو چالیس سال سے کم عرصے کے دوران ٹائٹس اور اُس کی فوج نے بعد میں واقعی میں پورا کیا۔

پھر یسوع ہیکل کے علاقے سے کچھ ہی دور کوہِ زیتون پر گیا۔ جب وہ اُس پہاڑ کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا تو شاگرد اُس کے پاس آئے اور اُس سے دو سوال پوچھے۔

1.  ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ [ہیکل کب تباہ کیا جائے گا؟]

2.  تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا – [اِس زمانے میں؛ دُنیا کا خاتمہ جیسا کہ ہم یہ جانتے ہیں؟]


پہلے سوال کا جواب متی کی انجیل میں درج نہیں ہے۔ یہ لوقا21:‏20۔24 میں درج ہے۔ اُن آیات میں اُس نے کہا کہ یروشلم کو فوجیں گھیر لیں گی،

’’اور وہ تلوار کا لقمہ ہو جائیں گے اور اسیر ہوکر سب قوموں میں پہنچائے جائیں گے اور غیر قوموں کی میعاد کے پُورے ہونے تک یروشلیم غیر قوموں سے پامال ہوتا رہے گا‘‘ (لوقا 21:‏24).

متی کی انجیل یسوع پر بطور اسرائیل کے بادشاہ توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یہ معلومات وہاں پر مناسب نہیں لگتی۔ یہ لوقا میں درج ہے، جو غیر قوموں کے بارے میں زیادہ تفصیل میں بتاتی ہے۔

لیکن شاگردوں کے دوسرے سوال کا جواب متی کے اِس باب میں تفصیل میں پیش کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے پوچھا، ’’تیری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟‘‘ اُس نے یہ سوال پوچھنے پر اُنہیں نہیں جھڑکا۔ اُس نے نہیں کہا، ’’کوئی بھی نشان نہیں ہونگے۔‘‘ اُس کے لیے ایسا کرنے کا یہ ایک بہترین موقعہ تھا، لیکن اِس کے بجائے اُس نے اُنہیں نشانیوں کی ایک فہرست پیش کر دی۔ یہ ہیں نشانات اُس کی دوسری آمد اور دُنیا کے آخر ہونے کے، اِس زمانے کے خاتمے کے۔ جی ہاں، بائبل تعلیم دیتی ہے کہ یہ زمانہ ختم ہو گا، اور اِس دُنیا کا خاتمہ ہوگا۔ بدھ مت تعلیم دیتی ہے کہ تاریخ خود کو دھراتی ہے، یہ کبھی نہ ختم ہونے والے چکروں میں جاری رہتی ہے۔ جب ڈیزنی کی کارٹون فلم لائن کِنگ میں زندگی کے دائرے کے بارے میں بات کی گئی تو وہ بدھ مت کی تاریخ کا نظریہ پیش کر رہا تھا۔ لیکن بائبل تعلیم دیتی ہے کہ تاریخ سیدہ لائن میں ہے، یعنی کہ، یہ ایک لائن میں چلتی ہے بجائے ایک دائرے کے۔ اِس کا ایک آغاز، ایک درمیان اور ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ خُدا نے شروع میں دُنیا کو کسی چیز کے بغیر تخلیق کیا۔ یسوع دُنیا کے درمیان میں آیا۔ بالکل آخر میں دُنیا آگ میں جل جائے گی۔ اور اِس لیے اُنہوں نے اُس سے اُس کی دوسری آمد اور اِس زمانے کے آخر ہونے کے بارے میں پوچھا – دُنیا کا خاتمہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ اُس نے اُنہیں بہت سی نشانیاں بتائیں۔

کئی سالوں تک ڈاکٹر جان ایف۔ والوورد Dr. John F. Walvoord ڈلاس علم الہٰیات کی سیمنری Dallas Theological Seminary کے صدر تھے۔ اُن کو بائبل کی پیشن گوئیوں کی ترجمانی کے لیے بھی بہت اعلٰی رُتبہ دیا جاتا تھا۔ اُنہوں نے ماضی میں 1980 کی دہائی میں ہمارے گرجہ گھر میں منادی کی تھی۔ ڈاکٹر والورد نے متی 24:‏4۔14 میں یسوع کے وسیلے سے پیش کی گئی ’’نشانیوں‘‘ کو ’’عمومی نشانیاں، جن کا مشاہدہ ابھی کیا جا سکتا ہے لیکن قیامت کے زور زیادہ تفصیل کے ساتھ پوری ہو جائیں گی‘‘ کہا تھا (جان ایف۔ والورد، ٹی ایچ۔ ڈی۔ John F. Walvoord, Th.D.، بائبل کی خاص پیشن گوئیاں Major Bible Prpphecies، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، 1991، صفحہ 254)۔

میں ڈاکٹر والورد کے بیان سے متفق ہوں۔ ہم آج کی دُنیا میں اِن ’’عمومی نشانیوں‘‘ کو اپنے اردگرد دیکھتے ہیں۔ نشانیاں جو یسوع نے متی 24:‏4۔14 میں بتائیں یہ ہیں:‏

1.  جھوٹے مسیح، 24:‏5۔ میرا یقین ہے کہ یہ بنیادی طور پر آسیبوں کے لیے حوالہ ہے جو مسیح کی حیثیت سے ظاہر ہوتے ہیں۔ آیت 24 میں یسوع نے کہا، ’’جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘ میں یقین کرتا ہوں کہ یہ مسیح کے دھوکے میں رکھنے والے آسیب ہیں، جیسا کہ مورمن مسیحMormon Christ، یہواہ کی گواہی والا روحانی مسیح Jehovah’s Witness spirit-Christ، مسیحی سائنس کا مسیح، آزاد خیال پروٹسٹنٹ اِزم کا مسیح، اور رومن کاتھولک اِزم کا ’’کرسٹو Cristo۔‘‘ جھوٹے نبی وہ اُستاد ہیں جو جھوٹے مسیح کو بڑھاوا دیتے ہیں! یہ یسوع کے دھوکے میں رکھنے والے جھوٹے آسیب ہیں۔ اِن جھوٹے مسیحیوں کا اُٹھ کھڑے ہونا بِلاشُبہ ایک نشانی ہے کہ ہم آخری ایام میں زندگی گزار رہے ہیں۔

2.  جنگیں اور جنگوں کی افواہیں۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ بیسویں صدی میں دو عالمگیری عظیم جنگیں ہوئی تھیں۔ اُس کے بعد سے اب تک دُنیا کے بہت سے حصوں میں مسلسل جنگی مڈبھیڑ جاری ہیں

3.  قحط سالی۔ آج دُنیا میں قحط کروڑوں لوگوں کو ہرسال تباہ کر رہی ہے۔ گذشتہ 100 سالوں میں کسی اور واحد وجہ کے مقابلے میں زیادہ لوگ فاقہ کشی سے مر چکے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی بھی امریکہ میں کافی مقدار میں خوراک ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں مکاشفہ 6 کے ’’کالے گھوڑے‘‘ نے ساری ترقی پزیر دُنیا میں قحط کی ہولناکیوں کو پھیلا دیا ہے۔

4.  موذی امراض۔ درست یونانی تلاوت اِس کو خاتمے کے ایک اہم نشان کے طور پر پیش کرتی ہے۔ نئی اقسام کے امراض، جیسے ایڈزAIDS، ترقی پزیر دُنیا میں ان گنت تعداد میں اموات کا سبب بن چکی ہے۔ بہت سی غیر مہذب جگہوں پر طبعی امداد میسر ہی نہیں ہے۔ برڈ فلو Bird flu اور سؤر فلو swine flu، اور دوسرے ناقابل علاج موذی امراض آج ایک مسلسل خطرہ ہیں۔

5.  زلزے۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے ساتھ، زلزے بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ خطرناک بن چکے ہیں، کیونکہ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ بائبل مسیح کی دوسری آمد سے بالکل پہلے ایک انتہائی بڑے زلزلے کی پیشن گوئی کرتی ہے۔ یہ دُنیا کے بہت سے بڑے بڑے شہروں کو تباہ کر دے گا (مکاشفہ16:‏18۔20)۔

6.  شہادتیں اور اذیتیں۔ مسیحیوں کی ایذا رسانیاں، اور یہاں تک کہ شہادتیں، ہمارے زمانے کی خصوصیات ہیں۔ لاکھوں اپنے ایمان کے لیے مر چکے ہیں۔ یسوع نے اِس کی پیشن گوئی متی24:‏9۔10 میں کی تھی۔

7.  جھوٹے نبی۔ تاریخ میں کسی اور دور کے مقابلے میں گذشتہ 100 سالوں میں زیادہ جھوٹے اُستاد اور دھوکے میں رکھنے والے مذھب اُبھر چکے ہیں، جن میں علم الہٰیات کی آزاد خیالی شامل ہے، جو بائبل کو جھٹلاتی ہے، اور بڑے بڑے علم الہٰیات کے سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے، جیسے کہ کیلیفورنیا کے علاقے پساڈینا Pasadena میں فُلر سیمنری Fuller Seminary ۔

8.  بڑھی ہوئی لاقانونیت اور مسیحی محبت کی قلت۔ ’’بے دینی کے بڑھ جانے کے باعث بہت سے لوگوں کی محبت (آگاپے agapē) ٹھنڈی پڑ جائے گی‘‘ (متی24:‏12)۔ (دیکھیں جان ایف۔ والورودJohn F. Walvoord ، ibid.، صفحات 354۔356)


متی 12:‏24 میں ’’بے دینی iniquity‘‘ کا یونانی لفظ میں ترجمے کا مطلب ’’لاقانونیت‘‘ ہوتا ہے۔ وہ یونانی لفظ ’’آنومیہ anomia‘‘ ہے۔ یہ اُن کہلائے جانے والے ’’مسیحیوں‘‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بے آئینی زندگی گزارتے ہیں۔ انگریزی لفظ اینٹی مونیئن antinomian ہے۔ یوں یسوع نے پیشن گوئی کی کہ آخری ایام کی کلیسیائیں غیر آئینی اور جسمانی نیت کے ساتھ اینٹی مونیئن لوگوں سے بھری ہوگی۔ انتہائی کمینگی سے بھرے ہوئے لوگوں میں سے کچھ جنہیں میں جانتا ہوں اینٹی نومیئن ہیں جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آج گرجہ گھر اُن سے بھرے ہوئے ہیں۔ میں اُن کے بارے میں جس طرح سے وہ مجھ پر ذاتی طور پروحشیانہ طریقے سے حملہ کرتے ہیں ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہوں۔ شاید میں کسی دِن لکھوں۔ کبھی کبھی میں نے اُن کی کمینگی کی وجہ سے خود کو اِس قدر حوصلہ شکن ہوتے ہوئے محسوس کیا ہے کہ میں نے مذہبی امور کو چھوڑ دینے کے بارے میں سوچا۔ کبھی کبھار یہ غیر آئینی لوگ اِس قدر بدکار ہو جاتے ہیں کہ اِس نے اصل میں مجھے گرجہ گھر چھوڑ دینے کے لئے آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ اور بالکل یہی وہ اثر ہے جو اِن کا حقیقی مسیحیوں پر ہوتا ہے۔ بے ہودہ ترین لوگوں میں سے کچھ نے جنہیں میں جانتا ہوں کہا وہ نئے سرے سے جنم لیے ہوئے مسیحی ہیں! اِن مسیحی کہلانے والے مسیحیوں کی بڑھتی ہوئی لاقانونیت کی وجہ سے، یہاں تک کہ ’’آگاپےagape‘‘ حقیقی مسیحیوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی! یہی ہے جو مسیح کا متی 24:‏12 میں مطلب تھا۔ ڈاکٹر میکجی Dr. McGee نے کہا، ’’جب بے دینی بڑھتی ہے، تو بہت سوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے، اور یہ زمانے کے خاتمے تک تو مذید اور سچی ہو جائے گی‘‘ (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحہ127؛ متی24:‏12 پر غور طلب بات)۔

23 سالوں تک چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر میں میرے پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin تھے۔ آخر ایام میں کلیسیاؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے۔ ڈاکٹر لِن Dr. Lin نے کہا، ’’آج ’ایک دوسرے سے محبت کرنا‘ صرف ایک نعرہ رہ گیا ہے جو کلیسیا میکینکی انداز میں مارتی رہتی ہے، لیکن اِس کے بارے میں سوچتی کم ہے… جب ایک کلیسیا محبت کی اہمیت اور رُوح کو نہیں سمجھتی ہے، تو خُدا کے لیے اُس کے ساتھ ہونا ناممکن ہوتا ہے‘‘ (ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔ Timothy Lin, Ph.D.، کلیسیا کے بڑھنے کا راز The Secret of Church Growth، FCBC، 1992، صفحہ33)۔

’’لیکن جو کوئی آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا‘‘ (متی 24:‏13).

ایک سچا مسیح میں تبدیل شخص ہی ’’جھوٹے مسیحی بھائیوں کی طرف سے اُٹھائی گئی‘‘ ظالم اور متنفرانہ روح کو برداشت کرنے کے قابل ہو گا (گلِتیوں2:‏4)۔ یہ جسمانی نیت میں پڑے ہوئے گرجہ گھر کے اراکین آخری ایام کی کلیسیاؤں میں بے انتہا درد اور غم لاتے ہیں۔ بائبل اِن کے بارے میں تفصیل پیش کرتی ہے۔

I۔ اوّل، آخری ایام میں بہت سے کلیسیا کے اراکین نئے سرے سے جنم نہیں لیتے ہیں۔

2 تیموتاؤس3:‏1۔7 آخری ایام میں کھوئے ہوئے کلیسیا کے اراکین کی وضاحت پیش کرتی ہے۔ مہربانی سے اِس کو کھولیے۔ ڈاکٹرجان میک آرتھر Dr. John MacArthur مسیح کے خون کے سلسلے میں غلط ہیں، مگر وہ دُرست تھے جب اُنہوں نے کہا کہ یہ حوالہ ’’عام طور پر نوع انسانی کے لیے اشارہ نہیں دیتا ہے یا غیر نجات یافتہ دُنیا کے لیے بلکہ اراکین کے لیے... مسیح کی کلیسیا میں‘‘ (جان میک آرتھر، ڈی۔ڈی۔ John MacArthur, D.D.، میک آرتھر کا نئے عہد نامے پرتبصرہ، 2تیموتاؤس The MacArthur New Testament Commentary, 2 Timothy، موڈی پریس Moody Press، 1995، صفحہ108)۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا کہ یہ حوالہ ’’کلیسیا کے آخری ایام‘‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے (میکجی McGee، ibid.، جلد پنجم، صفحہ469)۔ اُنہوں نے کہا، ’’اگلی چند آیات میں ہمارے پاس اُنیس مختلف وضاحتیں پیش کی گئی ہیں۔ یہ ایک ناگوار خیال ہے، مگر ہم اِن پر نظر ڈالنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ بہترین منظر کشی پیش کرتے ہیں... کلیسیا کے آخری ایام کی… میں یقین کرتا ہوں کہ ہم اِن ’خطرناک‘ دِنوں میں ہیں جو اِس حصے میں بیان کیے گئے ہیں‘‘ (میکجی McGee، ibid.، صفحات469، 470)۔ آج غیرنجات یافتہ گرجہ گھروں کے اراکین کی ایک بہت بڑی تعداد لاپرواہ انجیلی بشارت کی مشقوں کا نتیجہ ہے جو چارلس جی فنی Charles G. Finney (1792۔1875) کی مذھبی جماعت سے جڑ پکڑتی ہے۔ لوگوں کو کلیسیاؤں کے رُکن کے طور پر اُن کی نجات کی گواہیوں کی احتیاط کے ساتھ پڑتال کیے بغیر قبول کر لیا جاتا ہے۔ اِن غیر نجات یافتہ کلیسیا کے افراد کو 2تیموتاؤس3:‏2۔4 صفحہ نمبر – میں بیان کیا گیا ہے۔

1.  ’’خود اپنی ذات کو پیار کرنے والے [خودغرض]۔‘‘ ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’آپ اِس کو کلیسیاؤں میں پا سکتے ہیں‘‘ (ibid.)۔

2.  ’’زردوست‘‘ مطلب پیسے کے پُجاری۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’یہ خود پرستی کی پیروی کرتا ہے کیونکہ خود سے پیار کرنے والے ہی پیسے کے پچاری بنتے ہیں۔ یہ پرانی فطرت خود پر بے شمار پیسہ خرچنا پسند کرتی ہے‘‘ (ibid.)۔

3.  ’’شیخی باز۔‘‘

4.  ’’مغرور۔‘‘

5.  ’’بدگو۔‘‘ یونانی لفظ کا مطلب ’’بدنام کرنے والےrailers‘‘ ہوتا ہے۔ یہ کلیسیا کے وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ ’’دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑاتے رہتے ہیں‘‘ (میکجی، ibid.)۔ یہ غیبت کرنے والے ہیں۔ یہ اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ گرجہ گھر میں دوسروں کی عزت خاک میں مل جائے۔ یہ بنیادی تصور ہوتا ہے۔

6.  ’’ماں باپ کے نافرمان۔‘‘ نوجوان لوگ جنہوں نے والدین کے خلاف بغاوت کی ہوتی ہے، ڈاکٹر میک آرتھر کہتے ہیں، ’’کسی کے بھی خلاف بغاوت کرنے کے بارے میں کبھی بُرا محسوس نہیں ہوگا‘‘ (ibid.، صفحہ114)۔ وہ کسی بھی گرجہ گھر میں بہت بڑی پریشانی اور کُھلبلی کا سبب بنتے ہیں۔

7.  ’’ناشکرے۔‘‘ کسی گرجہ گھر کے وسیلے سے ایک شخص کو مفت میں سیمنری کی تعلیم دی گئی، اور اُس کی بیوی کو مفت میں کالج کی ڈگری دی گئی۔ جیسے ہی اُنہیں اُن کی مفت میں ڈگریاں حاصل ہوئیں، وہ شخص گرجہ گھر کے خلاف ہو گیا اور اُس کو تباہ کرنے کی کوشش کی! یہ ایک سچی کہانی ہے۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’بہت سے لوگ دوسروں سے ہمدردی پاتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اُنہیں اُن کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے‘‘ (ibid.)۔

8.  ’’ناپاک۔‘‘

9.  ’’قدرتی محبت سے خالی۔‘‘ اِس کا مطلب گرجہ گھر کے لیے یا خاندان کے لیے کسی محبت کا نہ ہونا ہوتا ہے۔ اُن کی دلچسپی صرف اِس میں ہوتی ہے کہ دوسرے اُن کے لیے کیا کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اِسی قدر خود پرست ہوتے ہیں۔

10. ’’بے رحم۔‘‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کبھی بھی معاف نہیں کرتے اور نہیں چاہتے کہ کوئی اُنہیں بھی معاف کرے۔ آپ اُن کے ساتھ کبھی بھی صُلح جوئی نہیں کر سکتے۔ وہ اپنا وعدہ کبھی پورا نہیں کریں گے۔ اُن کے لیے کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ماسوائے خود کو خوش کرنے کے!

11. ’’بدنام کرنے والے۔‘‘ ’’وہ زندگیوں کو تباہ کرنے اور ساکھ کو برباد کرنے میں خود سر مزہ لیتے ہیں‘‘ (میک آرتھر، ibid.، صفحہ115)۔ اُن جیسے بہت سے ہیں جو خود کو ’’مسیحی‘‘ کہتے ہیں۔

12. ’’بے ضبط۔‘‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا خود پر کوئی قابو نہیں ہوتا ہے۔

13. ’’تُند مزاج‘‘ کا مطلب وحشی ہوتا ہے۔ بہت سے وحشی لوگوں میں سے کچھ جنہیں ہم کبھی مل چکے ہیں گرجہ گھر کے اراکین ہیں۔

14. ’’اُن کے دُشمن جو نیک ہیں۔‘‘ لفظی طور پر ’’نیکی کے دُشمن۔‘‘ وہ جانتے ہیں کہ درست اور اچھا کیا ہے لیکن وہ جو اچھا ہوتا ہے اُس سے نفرت کرتے ہیں – اور وہ اُن سے نفرت کرتے ہیں جو نیک ہوتے ہیں، جیسے کائن نے ھابل سے نفرت کی تھی – اور اُس کو قتل کر دیا تھا۔ آج گرجہ گھروں میں بہت سے اراکین ہیں جو کائن کی مانند ہیں۔

15. ’’دغا باز۔‘‘ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن پر کبھی بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو حتٰی کہ گرجہ گھر میں خود اپنے دوستوں اور خود اپنے خاندان والوں کے خلاف ہو جائیں گے۔

16. ’’بے حیا‘‘ کا مطلب لاپرواہ یا غیر محتاط ہوتا ہے۔

17. ’’گھمنڈی‘‘ کا مطلب غرور یا تکبر کی وجہ سے اندھے۔

18. ’’خُدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے۔‘‘ یہی سب کچھ بتا دیتا ہے! اِن میں گرجہ گھر کے وہ لوگ شامل ہیں جو اِتوار کی شام کی عبادت کے لیے نہیں جائیں گے، یا وسط ہفتہ کی دعائیہ عبادت میں، محض اِس لیے کیونکہ وہ ’’خُدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ پسند کرنے والے۔‘‘


میں نے کہا کہ یہ آخری ایام میں گرجہ گھر کے اراکین کے خوصوصیات ہیں جو کھوئے ہوئے ہیں، غیرتبدیل شُدہ، اور غیر نجات یافتہ ہیں۔ یہ اگلی آیت میں بالکل واضح ہو جاتا ہے (2تیموتاؤس3:‏5) جوکہ 19 واں نمبر ہے۔

19. وہ دینداری کی سی وضع تو رکھیں گے، لیکن زندگی میں دینداری کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے‘‘ (2تیموتاؤس3:‏5)۔


یہ گرجہ گھر کے وہ اراکین ہیں جن کی مسیحیت دکھاوا کی قسم ہوتی ہے – مگر اُنہوں نے کبھی بھی اپنی زندگیوں میں مسیح کی نجات دلانے والی قوت کا تجربہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے نئے سرے سے جنم نہیں لیا ہوتا۔ وہ حقیقی مسیحی نہیں ہوتے ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بائبل کے کتنے حوالے دیتے ہیں، اُن سے برتاؤ کرنے کا صرف واحد ایک ہی راستہ ہوتا ہے، ’’زندگی میں اِن کا کوئی اثر قبول نہ کریں۔‘‘ جس فعل نے ’’اثر قبول نہ کرنے‘‘ کا ترجمہ کیا ہے وہ فعل معروف و مجہول کی درمیانی زبان میں ہے۔ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ ’’خود کو تیار کر لیں‘‘ اثر قبول نہ کرنے کے لیے۔ چاہے وہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، یا کتنا ہی میٹھا کیوں نہ بولتے ہوں، ’’خود کو تیار کر لیں‘‘ اُن کا اثر قبول نہ کرنے کے لیے، اور اُن سے جتنا ممکن ہو سکتا ہے اُتنا ہی دور رہیں! پولوس رسول نے کہا،

’’پس اَے بھائیو! میں تُم سے التماس کرتا ہُوں کہ جو لوگ اُس تعلیم کی راہ میں جو تُم نے پائی ہے روڑے اٹکاتے اور لوگوں میں پھوٹ ڈالتے ہیں، اُن سے ہوشیار رہو اور اُن سے دُور ہی رہو۔ کیونکہ ایسے لوگ ہمارے خداوند مسیح کی نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی خدمت کرتے ہیں اور چِکنی چُپڑی باتوں اور خُوشامد سے سادہ دلوں کو بہکاتے ہیں‘‘ (رومیوں 16:‏17۔18).

میتھیو ھنری Mather Henry کا تبصرہ کہتا ہے، ’’اِن کے ساتھ بات چیت سے اجتناب کریں، ورنہ آپ بھی اُن کی وجہ سے اُن جیسے ہو جائیں گے۔‘‘ یہ ایک سخت علاج ہے، لیکن یہ سچے مسیحی کو پریشانی اور تباہی سے بچنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

II۔ دوئم، آخری ایام میں مبلغین ہونگے جو لوگوں کو جیتنے کے بجائے ’’بھیڑیں چُرائیں‘‘ گے۔

2تیموتاؤس3:‏6۔7 میں رسول کہتا ہے،

’’اِن میں بعض ایسے بھی ہیں جو گھروں میں دبے پاؤں گھُس آتے ہیں اور نِکمّی اور چھچھوری عورتوں کو اپنے بس میں کرلیتے ہیں جو گناہوں میں دبی ہوتی ہیں اور ہر طرح کی بُری خواہشوں کا شکار بنی رہتی ہیں۔ یہ عورتیں سیکھنے کی کوشش تو کرتی ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتیں کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:‏6۔7).

یہ گرجہ گھروں میں اُن پادریوں اور اُستادوں کے لیے حوالہ ہے جو کمزور عورتوں کے دِلوں میں گھر کر لیتے ہیں اور اُنہیں خود اپنے گرجہ گھر یا بائبل کے مطالعے میں آنے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر عورتوں کو لُبھاتے ہیں، لیکن وہ یہ کمزور آدمیوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں، خصوصی طور پر اُن کمزور آدمیوں کے ساتھ جن کی بیویوں کو ’’بھیڑیں چُرانے والوں‘‘ نے لُبھا لیا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’’نِکمّی اور چھچھوری عورتوں‘‘ کا مطلب ہوتا ہے دونوں جنسوں کی احمق عورتیں‘‘ (ibid.، صفحہ471)۔

بے شک، بھیڑیں چُرانے والے کبھی بھی آپ کو نہیں بتائیں گے، ’’میں بھیڑیں چُرانے والا ہوں۔ میں یہاں پر اِس لیے ہوں کہ آپ سے آپ کا گرجہ گھر چُھڑواؤں اور اپنے گرجہ گھر میں شامل کر لوں۔‘‘ ایک شخص جو انتہائی بدنام بھیڑیں چُرانے والا ہے اُس نے زیادہ عرصہ نہیں گزرا مجھ سے کہا، ’’میں بھیڑیں چُرانے والا نہیں ہوں۔‘‘ دراصل یہ ایک ماہر بھیڑیں چُرانے والا ہے، اور اِس کے باوجود اُس نے یہ مجھے ٹیلی فون پر کہا تھا۔ میرے خیال میں یہ لوگ خود کو اپنی گناہ سے بھرپوری کا سامنا کرنے سے دور رکھنے کے لیے اکثر خود کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ’’دھوکہ دیتے اور دھوکہ کھاتے‘‘ ہیں (2تیموتاؤس3:‏13)۔

وہ کیا کرتے ہیں مستقبل سے تعلق رکھنے والی بھیڑ کو اپنے گرجہ گھر کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اگر وہ دیکھتے ہیں کہ بھیڑ کو کوئی شکایات نہیں ہیں تو بھیڑیں چُرانے والے اُس کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن اگر بھیڑ اُن سے شکایت کرتی ہے، تو وہ اُس کو ہمدردانہ اور میٹھی آواز میں آسان سوالات پوچھنے کے ذریعے سے مائل کر لیتے ہیں۔ اگر وہ بھیڑ کو اپنے پادری کے خلاف کچھ کہنے کے لیے تیار کر لیتے ہیں تو بھیڑ چُرانے والا اِسی نقطے پر کام کرتا ہے، تمام وقت ایک مہربان اور سمجھ دار دوست دکھائی دیتے ہیں۔ آخر میں بھیڑیں چُرانے والا بھیڑ کو قائل کرتا ہے کہ وہ اپنا گرجہ گھر چھوڑ دے اور اُس کے ساتھ چلی آئے۔ یقین کریں یا نہ کریں، ایسے مبلغین ہیں جو ایسا کر کے اپنی روزی کما رہے ہیں۔ اُن کے پاس اُن کے گرجہ گھر میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے ساتھ آنے کے لیے لُبھاتے ہیں۔ حال ہی میں مجھے ایک مبلغ نے آلاباما Alabama میں ایک چھوٹے سے قصبے کے بارے میں بتایا جس میں 66 بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر ہیں۔ اُس نے کہا کہ لوگ ایک بھیڑ چُرانے والے سے دوسرے کی جانب تیرتے پھرتے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں، کہ اُس قصبے میں روحانی سطح بہت نیچی ہونی چاہیے، جس میں شاید ہی کوئی سچے طور پر نجات پایا ہوا ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ اِس طرح کے لوگ ہیں

’’ہمیشہ سیکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن کبھی اِس قابل نہیں ہوتے کہ حقیقت کو پہچان سکیں‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:‏7).

پادریوں کے لیے بھیڑیں چُرائی جانے سے بچنے کے لیے واحد راستہ ہے کہ دوسرے گرجہ گھروں سے اراکین کو اُن کے پچھلے گرجہ گھر کی جانب سے تبادلے کا ’’خط‘‘ لیے بغیر قبول مت کریں۔ اراکین کو اُن کے ’’بیان‘‘ کی بنیاد پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تاریخی طور پر بپٹسٹ لوگوں کے حالات ہیں، جو کہ بھیڑیں چُرانے والوں کے ذریعے سے آج خلاف ورزی کرتے ہیں۔

میری خواہش تھی کہ مجھے یہ واعظ منادی کے لیے نہ دینا پڑتا، لیکن ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan نے مجھے کہا کہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہے، اور میرے خیال میں وہ درست ہیں۔ یہ ایک جاری رہنے والا مسٔلہ ہے کیونکہ آخری ایام میں بہت کم پادری جانتے ہیں کہ دُنیا میں سے کیسے لوگوں کو جیتنا اور مسیح میں تبدیل پیروکار بنانا ہے۔ جس کے نتیجے میں، وہ اکثر اقراری مسیحیوں کو خود اُن کے گرجہ گھر چھوڑنے اور اپنے ساتھ چلنے کے لیے لُبھانے کے ذریعے سے اپنے گرجہ گھر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا میں آپ کو اتنی ہی شدت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں جتنا کہ ممکن ہے – میں اِس قسم کی مذہبی خدمت سے گِھن کرتا ہوں! 19 ویں صدی میں بھیڑیں چُرانے والے مبلغین قبروں کے لُٹیروں کی مانند ہیں۔ وہ مردہ جسموں کو کھودتے ہیں جن کو حال ہی میں دفنایا گیا تھا اور میڈیکل سکولوں میں چیرپھاڑ کے لیے بیچ دیتے ہیں۔ میرے نظریے میں ایک قبر کے لُٹیرے کے مقابلے میں بھیڑیں چُرانے والے مبلغ کسی درجے بہتر نہیں ہے!

جب میں اِس پیغام کو ختم کرتا ہوں تو کیا میں آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آخری ایام میں گرجہ گھر کتنے ہی بُرے ہو جائیں، یسوع مسیح خود آپ کے گناہ کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے۔ اُس نے آپ کی جان کو بچانے کے لیے صلیب پرخون بہایا اورمر گیا۔ وہ اب خُدا کے داہنے ہاتھ پر آپ کے لیے دعا کر رہا ہے۔ یہ میری دعا ہے کہ آپ اُس کو ڈھونڈیں گے اور پائیں گے۔ اُس نے کہا،

’’تُم مجھے ڈھونڈو گے اور جب تُم مجھے اپنے سارے دل سے ڈھونڈو گے تب مجھے پاؤ گے‘‘ (یرمیاہ 29:‏13).

آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

گرجہ گھر کے کھوئے ہوئے اراکین اور بھیڑیں چُرانے والے مبلغین

(آخری ایام کی کلیسیائیں – حصّہ دوئم)
LOST CHURCH MEMBERS AND SHEEP STEALING PREACHERS
(THE CHURCHES OF THE LAST DAYS – PART II)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’یسُوع ہیکل سے نکل کر جارہا تھا کہ اُس کے شاگرد اُس کے پاس آئے تاکہ اُسے ہیکل کی مختلف عمارتیں دکھائیں۔ اور یسُوع نے اُن سے کہا، کیا تُم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہو؟ میں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ یہاں کوئی پتھر اپنی جگہ باقی نہ رہے گا بلکہ گرا دیا جائے گا۔ اور جب وہ کوہِ زیتون پر بیٹھا تھا تو اُس کے شاگرد تنہائی میں اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے، ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور تیری آمد اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہے؟‘‘ (متی 24:‏1۔3).

(لوقا21:‏24؛ متی24:‏24، 12، 13؛ گِلتیوں2:‏4

)

I.   اوّل، آخری ایام میں بہت سے گرجہ گھر کے اراکین نے نئے سرے سے جنم نہیں لیا
ہوتا ہے، 2تیموتاؤس3:‏1۔5؛ رومیوں16:‏17۔18 .

II.  آخری ایام میں مبلغین ہونگے جو لوگوں کو جیتے کے بجائے ’’بھیڑیں چُرائیں‘‘ گے،
2تیموتاؤس3:‏6۔7، 13؛ یرمیاہ29:‏13 .