Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مصرف بیٹے کی غلط تعبیر کرنا

(مصرف بیٹے پر واعظ نمبر 2)
MISINTERPRETING THE PRODIGAL SON
(SERMON NUMBER 2 ON THE PRODIGAL SON)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
25 اگست، 2013 ، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, August 25, 2013

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور دوبارہ زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا اور اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے‘‘ (لوقا 15:‏27).

مصرف بیٹے کی تمثیل بائبل میں سب سے زیادہ پیاری کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اور اِس کے باوجود یہ آج، سب سے زیادہ غلط سمجھی جانے والی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ میں تمثیل کا مختصر سا بیان پیش کروں گا، اور پھر میں آپ کو بتاؤں گا کہ کیسے اِس کو اُلجھایا اور مسخ کیا جاتا ہے، حتٰی کہ جانے مانے مبلغین کے ذریعے سے بھی۔

جیسا کہ میں اِس شام کو پیغام لایا ہوں، میں اِس تمثیل کے ساتھ دو طرح سے پیش آؤں گا۔ پہلے، میں ظاہر کروں گا کہ کیسے اِس کو ’’فیصلہ سازوں‘‘ کے ذریعے سے مسخ کیا جاتا رہا ہے۔ دوئم، میں ظاہر کروں گا کہ اِس کا اصل میں مطلب کیا ہوتا ہے۔ اور پھر میں ظاہر کروں گا کہ اِس کا آپ پر اِطلاق کیسے ہوتا ہے۔ لیکن ہم تمام تمثیل کو سُننے کے ذریعے سے آغاز کریں گے۔

یسوع نے کہا کہ ایک آدمی تھا جس کے دو بیٹے تھے۔ چھوٹا بیٹا اپنے باپ کے پاس آیا، اور اپنے حصے کی جائیداد کا اُسی وقت تقاضہ کیا، باپ کے مرنے سے پہلے۔ باپ راضی ہوگیا، اور چھوٹے بیٹے کو اُس کے حصے کی آدھی جائیداد دے دی۔ چھوٹے بیٹے نے سب کچھ لیا اور گھر بار چھوڑ کر چلا گیا۔ اور ایک بہت دور دراز کے مُلک میں چلا گیااور تمام کی تمام دولت گناہ سے بھرپور اور بنا روک ٹوک کی زندگی گزار کر فضول خرچی میں ضائع کر دی۔

جب وہ اپنی تمام دولت خرچ کر چکا، تو ایک قحط آیا اور وہ فاقے کر رہا تھا۔ وہ اُس مُلک کے ایک شہری کے پاس گیا جس نے اُسے سؤروں کو چارہ کھلانے کی ملازمت دی۔ وہ اِس قدر بھوکا تھا کہ وہ اُن پھلیوں کو کھانا چاہتا تھا جو سؤر کھا رہے تھے، اور کسی نے اُس کو کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں دیا۔

تب وہ اپنے ہوش و حواس میں آیا اور احساس کیا کہ اُس کے باپ کے ملازمین کے پاس پیٹ بھر کر کھانے کو روٹی تھی، جب کہ وہ فاقے کر رہا تھا۔ اُس نے اپنے باپ کے پاس گھر واپس جانے اور اُسے یہ کہنے کا فیصلہ کیا، ’’اے باپ، میں خُدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہوں، اب تو میں اِس لائق بھی نہیں رہا کہ تیرا بیٹا کہلا سکوں؛ مجھے بھی اپنے مزدوروں میں شامل کر لے۔‘‘ وہ اُٹھا اور اپنے باپ کے پاس چل پڑا۔ ابھی وہ آ ہی رہا تھا، کہ اُس کا باپ دوڑا اور اُسے گلے سے لگا لیا اور اُسے چوما۔ اُس کے باپ نے ایک مہنگا ترین چوغہ اُسے پہنایا، اُس کی انگلی میں ایک انگوٹھی پہنائی، اور اُس کے پیروں میں جوتے پہنائے۔ اُس باپ نے ایک بچھڑا ذبح کیا اور خوب خوشی منائی۔ اُس باپ نے کہا،

’’کیونکہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا زندہ ہو گیا ہے، کھو گیا تھا اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے‘‘ (لوقا 15:‏27).

یہ تمثیل کا بنیادی خاکہ ہے۔ اب، میں واپس جاؤں گا اور آپ کو دکھاؤں گا کہ کیسے اِس کو ہمارے دور میں غلط سمجھا جاتا ہے، اور پھر میں آپ پر ظاہر کروں گا کہ اِس کا اصل میں کیا مطلب ہوتا ہے۔

I۔ اوّل، وہ طریقہ جس سے بہت سے جدید مبلغین اِس تمثیل کی غلط تشریح کرتے رہے ہیں۔

مجھے یہ کہنے سے نفرت ہے کہ ڈاکٹر جے۔ ورنن میکجی Dr. J. Vernon McGee نے یہ تمثیل غلط سمجھی، مگر اُنہوں نے ایسا کیا۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا، ’’یہ ایک گنہگار کی تصویر نہیں ہے جو نجات پا جاتا ہے... اِس کہانی میں ہمارے خُداوند نے بتایا کہ یہاں کبھی ایسا کوئی سوال تھا ہی نہیں کہ آیا وہ لڑکا ایک بیٹا تھا یا نہیں ... وہ سارا وقت ایک بیٹا تھا ... واحد وہ ہی تنہا اپنے باپ کے گھر کے لیے جانا چاہتا ہے جو ایک بیٹا ہے؛ اور ایک دِن وہ بیٹا کہے گا، ’’میں اُٹھوں گا اور اپنے باپ کے پاس جاؤں گا‘‘‘ (جے۔ ورنن میکجی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ J. Vernon McGee, Th.D. ، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم، صفحات314، 315؛ لوقا15:‏11۔19)۔

اِس لیے، ڈاکٹر میکجی نے وہ غلط طور پر کہا کہ یہ نوجوان آدمی سارا وقت ہی نجات پایا ہوا تھا۔ اُس نے بغاوت کی اور ایک گہری، طویل گناہ کی زندگی میں چلا گیا، لیکن وہ پھر بھی نجات پایا ہوا تھا۔ بعد میں اُس نے اپنے گناہ سے توبہ کی اور اپنی زندگی دوبارہ وقف کر دی۔

میں یہ کہتے ہوئے بہت افسردہ ہوں کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کیسے ڈاکٹر میکجی جدید ’’فیصلہ سازی‘‘ سے متاثر تھے۔ یہی ہے وہ طریقہ جس سے بہت سے جدید مبلغین جیسے بلی گراھم Billy Graham نے تمثیل کی تشریح کی ہے۔ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اُنہوں نے ایسا اِس لیے کیا کیونکہ ہزاروں لاکھوں لوگوں نے ’’فیصلہ‘‘ لیا اور پھر واپس گناہ میں چلے گئے۔ وہ واحد ذریعہ جس کی یہ مبلغین وضاحت کر سکتے ہیں یہ کہنے کے لیے کہ وہ مصرف بیٹے کی مانند ہیں، اور کسی نہ کسی دِن وہ بیدار ہو جائیں گے اور خود کو دوبارہ وقف کر دیں گے۔ آپ اُنہیں کہتے ہوئے سُنیں گے کہ یہاں ’’نجات یافتہ‘‘ شرابی ہیں، ’’نجات یافتہ‘‘ نشے کے عادی ہیں، اور یہاں تک کہ ’’نجات یافتہ‘‘ طوائفیں بھی ہیں۔ چونکہ سارے ’’گرجہ گھر میں پرورش پائےہوئے بچوں میں سے 88 % اپنے گرجہ گھر کو ’’کبھی واپس نہ لوٹنے‘‘ (برنا) کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور اُن تمام نے ایک ’’فیصلہ‘‘ لیا ہوتا ہے، پادری اُن کے والدین کو جھوٹی اُمید دلاتے ہیں یہ کہہ کر کہ وہ مصرف بیٹے ہیں، نجات یافتہ لیکن اخلاقی طور پر گِرے ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تمام لوگ جو گہرے گناہ میں زندگی بسر کرتے ہیں اور گرجہ گھر نہیں جاتے ہیں، وہ بھی اِسی طرح سے ’’نجات یافتہ‘‘ ہیں۔ اُنہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ واپس آنا ہے اور مستقبل میں کچھ وقت دوبارہ وقف کر دیں۔ لیکن اگر وہ یہ بھی نہیں کرتے، تب بھی وہ نجات یافتہ ہی ہیں۔ جیسا کہ ڈاکٹرمیکجی نے کہا، ’’یہاں کبھی ایسا کوئی سوال تھا ہی نہیں کہ آیا وہ لڑکا ایک بیٹا تھا یا نہیں۔ وہ سارا وقت ایک بیٹا ہی تھا۔‘‘ لہٰذا، بل کلینٹن Bill Clinton، ایک بپتسمہ یافتہ ’’بیٹا‘‘ تھا یہاں تک کہ جب وہ اوول آفس Oval Office میں مونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی تعلقات میں ملوث تھا۔ ایسا ہی، ایک اور بپتسمہ یافتہ، ’’بیٹا‘‘ جمی کارٹر Jimmy Carter تھا یہاں تک کہ جب وہ بائبل کی صادقت کو جُھٹلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مورمنز Mormons سچے مسیحی ہیں! چند سال پیشتر یہاں لاس اینجلز میں ایک عورت نے جو عصمت فروشی کے ایک گروہ کی سرغنہ تھی کہا کہ وہ ’’نئے سرے سے جنم لی ہوئی مسیحی‘‘ تھی۔ ایک بشارتی انجیل کے رہنما نے مجھے کہا، ’’اِس کا فیصلہ مت کرو۔‘‘ کیسی دیوانگی! مبشرانِ انجیلی بشارت کا یہ پریشان کُن کلنک کا دھبہ ’’اینٹی نومیئین ازم antinomianism‘‘ کہلاتا ہے اور یہ اِس اعتقاد سے جنم لیتا ہے کہ کوئی سؤوروں کے گناہ کے باڑے میں زندگی گزار سکتا ہے اور اِسی اثنا میں خُدا کا ایک بچہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ’’جسمانی نیت والے مسیحی‘‘ کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جوننز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے کہا، [رومیوں8:‏5۔8] کی یہ غلط وضاحت ہے یہ کہنے کے لیے کہ ’’وہ جو جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ’’جسمانی نیت‘‘ والے مسیحی کہلاتے ہیں؛ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اُن کے بارے میں کچھ کہتا ہے جو اِس بات کو ناممکن بناتا ہے کہ اُن تمام کو سرے سے مسیحی ہی ہونا چاہیے... مسیحیت، جیسا کہ رسول نے ہمیں اکثر بتایا ہے، نوع انسانی کی فطرت میں ایک مکمل، اور بنیادی تبدیلی شامل ہوتی ہے‘‘ (ڈی۔ مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ D. Martyn Lloyd-Jones, M.D. ، رومیوں8:‏5۔17 کی تفسیر، ’’خُدا کے بیٹےExposition of Romans 8:‏5-17, The Sons of God‘‘، سچائی کے عَلَم کا ادارہ The Banner of Truth Truth، دوبارہ اشاعت 2002، صفحہ3)۔

ڈاکٹر میکجی کی تصحیح کرنے سے مجھے واقعی میں نفرت ہے۔ 1960 کی دہائی کے دوران اور 1970 کی ابتدائی دہائی میں اُنہوں نےمجھے بائبل کے بارے میں انتہائی زیادہ تعلیمات فراہم کی ہیں، جب میں اُنہیں ہر روز ریڈیو پر سُنتا تھا۔ مصرف بیٹے کے اُن کے نظریے کے بارے میں اُنہیں دُرست کرنے کے خیال ہی سے میں واقعی میں ڈر سے دُبک جاتا ہوں۔ لیکن میرے پاس اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا کہ اُنہوں نے خود اُس وقت نجات پائی تھی جب ’’بہت سال پہلے مغربی اوکلاہوما Oklahoma میں ایک مبشر انجیل نے خوشخبری کو پیش کرنے کے لیے اِس تمثیل کو استعمال کیا تھا... ایک رات اُس نے مصرف بیٹے پر تبلیغ دی، اور اُس رات میں آگے بڑھا تھا‘‘ (ibid.، صفحہ314)۔ لیکن پھر ڈاکٹر میکجی نے کہا، تمثیل یہ نہیں ہے کہ گنہگار کیسے نجات پاتا ہے‘‘ (ibid.)۔ اُنہوں نے کہا بنیادی طور پر یہ اِس بارے میں ہے کہ کیسے خُدا ’’اُس بیٹے کو جو گناہ کرتا ہے واپس اپناتا‘‘ ہے۔

ڈاکٹر میکجی نے وہ تصور اُس پرانی طرز کے مبلغ سے نہیں پایا تھا جس نے ماضی میں اُنہیں اوکلاہوما میں نجات دلائی تھی۔ جی نہیں، اُنہوں نے یہ تصور بلی گراھم Billy Graham جیسے جدید نئے انجیلی بشارت کے مبلغین سے پایا تھا، سیدھی سادھی مسیح میں تبدیلی کی بجائے ’’دوبارہ وقف‘‘ ہو جانے کے لیے بُلاتے ہیں۔ تمثیل کو اِس نئی طرز سے دیکھنے ’’اخلاقی طور پر گرے ہوئے مسیحی‘‘ کہلانے والوں کے ایک بھرے ہوئے سمندر کو جنم دیا ہے جو کبھی سرے سے مسیح میں تبدیل ہوئے ہی نہیں تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’یہ ناممکن ہے کہ اُن تمام کو سرے سے مسیحی ہی ہونا چاہیے۔‘‘

حال ہی میں مَیں نے انجیلی بشارت کے ایک مبلغ کا لکھا ہوا ایک جزیرے کا نشرپارہ پڑھا جس میں اُس نے کہا،

میں مغربی کیرولینہ South Carolina میں رہتا ہوں، اور میں مغرب سے محبت کرتا ہوں، اور میں وہاں سے کسی کا تمسخر نہیں اُڑا رہا ہوں، لیکن یوں لگتا ہے جیسے وہاں پر رہنے والا ہر شخص کہتا ہے کہ وہ نجات یافتہ ہے! کچھ مغربی ریاستوں میں، تقریبا ہر گلی کے کونے پر ایک گرجہ گھر واقع ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے سیاست دان اور فلمی ستارے بیان دیتے ہیں کہ وہ نجات یافتہ ہیں... اِس کے باوجود ہمارے ہاں پہلے سے بھی زیادہ قتل، عصمت دری، منشیات، فحش فلمیں دیکھنا، طلاقیں، جھوٹ بولنا اور چوری چکاری ہوتی ہے... اِس لیے گڑبڑ کیا ہے؟ کیوں ہمارے مقامی گرجہ بڑھنے اور دوسرے تک پیغام پہنچانے کے معاملے میں ختم ہوتے جا رہے ہیں؟ ... مسئلہ کیا ہے؟ (جیری سیونسکزٹی Jerry Sivnksty، ’’پیاسی انجیل یا تر انجیل؟ Gospel Soaked or Gospel Thirsty?‘‘، فرنٹ لائین میگزین Frontline Magazine، جولائی\ اگست2013، صفحہ38)۔

میں آپ کو بتاؤں گا مسئلہ کیا ہے – ہمارے پاس ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جنہوں نے ’’فیصلہ‘‘ لیا ہے مگر مسیح میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں! یہی وہ مسئلہ ہے! اور یہ صرف مغرب ہی میں نہیں رونما ہو رہا ہے۔ یہ تمام امریکہ میں ہے! حال ہی میں ایک مبلغ نے مجھے بتایا کہ تقریبا ہر دروازہ جو وہ انجیلی بشارت کے لیے کھڑکھڑاتا ہے تو لوگ اُسے دفع ہو جانے کے لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے ہی نجات یافتہ ہیں! اُس نے کہا کہ وہ گرجہ گھر کے لیے نہیں آتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے ہیںکیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ وہ پہلے سے ہی نجات یافتہ ہیں! یہ برسوں کی’’فیصلہ سازیت‘‘ کا نتیجہ ہے اور کُلی طور پر وہ جھوٹا تصور ہے کہ ’’مصرف بیٹے‘‘ اصل میں مسیحی ہیں! میں کہتا ہوں، ’’ایسی جھوٹی خوشخبری سے پرے ہٹ جائیں! اِس نے واقعی ہی میں امریکہ کو تباہ و برباد کر دیا ہے!‘‘ اِسے تسلیم کر لیجیے! اِس کے ساتھ قطع تعلقی کر لیں! اِسے اُکھاڑ پھینکیں! اِس نے کڑوروں جانوں کو تباہ کیا ہے، ہمارے گرجہ گھروں کو معزور کر دیا ہے، اور ہماری قوم پر روحانی تباہی لا چکی ہے! مجھے پرواہ نہیں ہے کہ کون اِس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے – چاہے وہ ڈاکٹر میکجی، بلی گراھم، پوپ فرانسس یا ایک مسیح کا دشمن دجال ہی ہو – یہ ایک جہنمی نظریہ ہے، جو شیطانی زہر سے بھرا ہوا ہے! جو ہمیں واپس ہماری تلاوت کی جانب لے جاتا ہے،

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور زندہ ہو گیا ہے؛ وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے‘‘ (لوقا 15:‏27).

(مصرف بیٹے پر دیا گیا میرا ایک اور واعظ باعنوان ’’مسیح میں تبدیل ہونے کا نمونہThe Archetype of Conversion‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کریں۔ آپ کو اِس واعظ کے ساتھ اُسے بھی پڑھنا چاہیے)۔

II۔ دوئم، یہ تمثیل مسیح کے وسیلے سے یہ ظاہر کرنے کے لیے پیش کی گئی تھی کہ کیسے کھوئے ہوئے گنہگار، جو قصوروں اور گناہوں میں مردہ ہیں، نجات پاتے ہیں!

کبھی میں ایک شخص کو جانتا تھا جس نے اپنی بیوی کو چھوڑا تھا اور ایک دوسری عورت کے ساتھ بھاگ گیا تھا۔ پھر اُس نے بندوق کے زور پر ایک بینک میں ڈاکہ ڈالا تھا، اور بینک لوٹنے کے جرم میں کئی سالوں کے لیے جیل چلا گیا تھا۔ وہ ایک زناکار تھا، ایک چور تھا، اور ایک بینک کا لُٹیرا تھا۔ لیکن اُس نے کہا کہ اِس تمام وقت میں وہ نجات یافتہ تھا! میں نے اُس سے پوچھا کیا ہو گیا ہوتا اگر خُداوند یسوع مسیح کی بادلوں میں دوبارہ آمد اُسی وقت ہوتی جب بندوق کے زور پر وہ بینک لوٹ رہا تھا۔ بے تاثر چہرے کے ساتھ اُس نے کہا، ’’بندوق فرش پر گر گئی ہوتی جب میں بادلوں میں خداوند یسوع مسیح کو خوش آمدید کہنے کے لیے آسمان میں اُٹھا لیا جاتا!‘‘ میں نے اُسے بتایا کہ وہ غلط تھا، کہ وہ کبھی بھی مسیح میں تبدیل ہوا ہی نہیں تھا۔ اُس نے مصرف بیٹے کا سہارا لیا اور وہ غلط وضاحت پیش کی جس کی میں نے چند لمحے قبل تشریح پیش کی تھی، کہ وہ شروع سے ہی ’’بیٹا‘‘ تھا۔ میں نے بائبل کھولی۔ میں نے اُس کی شہادت کی اُنگلی اپنے ہاتھ میں پکڑی اور اُس کی اُنگلی کا سِرا لوقا15:‏24 پر رکھا۔ میں نے کہا، ’’اِسے پڑھو۔‘‘ اِس سے پہلے کہ وہ رُک رُک کر آخر کار پڑھتا، مجھے ’’اِسے پڑھو‘‘ کو دو یا تین مرتبہ کہنا پڑا تھا،

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے...‘‘ (لوقا 15:‏27).

اُس نے اپنی آنکھوں میں ایک وحشیانہ جھلک کے ساتھ مجھے گھورا، جیسے کہ وہ پکڑا گیا ہو! پھر وہ بِنا سوچے سمجھے بولنا شروع ہو گیا، ’’لیکن یہ اِس کا مطلب نہیں ہوتا ہے!‘‘ میں نے کہا، میں نے تمہیں نہیں بتایا اِس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ میں نے تمہیں اِسے صرف پڑھنے کے لیے کہا تھا۔‘‘ پھر میں نے اُس کے لیے اِسے پڑھا،

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے...‘‘

پھر میں نے کہا، ’’خود آدمی کے اپنے باپ نے کہا وہ ’مر چکا‘ تھا۔ خود آدمی کے اپنے باپ نے کہا وہ ’کھو گیا‘ تھا۔ اگر خود اُس کے اپنے باپ نے یہ کہا، تو پھر اُس کو غلط ثابت کرنے والے تم کون ہوتے ہو؟‘‘ ویسے اگر آپ ڈاکٹر میکجی کے تبصرے پر نظر ڈالیں، تو آپ دیکھیں گے کہ اُنہوں نے لوقا15:‏24 پر کوئی رائے پیش نہیں کی! وہ کر ہی نہیں سکتے تھے! اِس نے اُن کے جھوٹے نظرئیے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہوتا! لوقا15:‏24 میں باپ نے کہا اُس کا بیٹا مر چکا‘‘ تھا – یعنی کہ، ’’قصوروں اور گناہوں میں مردہ‘‘ (افسیوں2:‏1، 5)۔ پھر اُس باپ نے کہا، ’’وہ کھو گیا تھا۔‘‘ اِس سے زیادہ ممکن طور پر کیا واضح ہو سکتا ہے؟ مصرف بیٹا ایک کھوئے ہوئے گنہگار کی تصویر پیش کرتا ہے!

یسوع نے فریسیوں کو جواب دینے کے لیے لوقا کے پندرھویں باب میں تین تماثیل پیش کیں۔ اُنہوں نے گِلہ کیا تھا کہ وہ گنہگاروں کے ساتھ کھاتا پیتا ہے (لوقا15:‏2)۔ یسوع نے یہ تین تماثیل یہ ظاہر کرنے کے لیے پیش کیں کہ خُداوند کیسے خوشی مناتا ہے جو ایک گنہگار نجات پاتا ہے! تینوں تماثیل میں سے ہر ایک ظاہر کرتی ہے کہ خُداوند کھوئے ہوئے گنہگاروں کو معاف کرتا اور قبول کرتا ہے۔ یسوع نے آیت 3 تا 7 میں کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل پیش کی۔ اُس نے کھوئے ہوئے سکّے کی تمثیل آیت 8 تا 10 میں پیش کی۔ اور پھر اُس نے آیات 11 تا 32 میں کھوئے ہوئے بیٹے کی تمثیل پیش کی۔ اِن تینوں تماثیل میں مرکزی موضوع یہ ہی ہے کہ اُس ’’ایک گنہگار پر جو توبہ کرتا ہے‘‘ خُدا انتہائی خوشی مناتا ہے (لوقا15:‏7، 10، 24)۔ حیرت انگیز طور پر، یہاں تک کہ ڈاکٹر رائیری Dr. Ryrie نے بھی ڈاکٹر میکجی اور بلی گراھم کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔ ڈاکٹر رائیری نے اِس کو درست لیا تھا۔ لوقا15:‏4 پر اپنی غور طلب بات میں، اُنہوں نے کہا، کھویا ہوا‘‘۔ آٹھ مرتبہ اِس باب میں انسان کے کھو جانے پر زور دیا گیا ہے، آیات 4 [دو مرتبہ]، 6، 8، 9، 17، 24، 32‘‘ (چارلس سی۔ رائیری، ٹی ایچ۔ ڈی۔، پی ایچ۔ ڈی۔ Charles C. Ryrie, Th.D., Ph.D.، رائیری کی مطالعۂ بائبل The Ryrie Study Bible، مودی پریس Moody Press، 1978، صفحہ 1576؛ لوقا15:‏4 پر غور طلب بات)۔ ’’انسان کے کھو جانے پر زور دیا گیا ہے۔‘‘ بالکل دُرست!

ڈاکٹر میکجی نے اِس حقیقت پر زیادہ اصرار کیا کہ کھوئے ہوئےکو ’’بیٹا‘‘ کہا گیا۔ اِس تمثیل میں ’’بیٹے‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ نجات پا چکا تھا۔ ڈاکٹر جان میک آرتھر Dr. John MacArthur اِس مخصوص موضوع پر سچے تھے جب اُنہوں نے کہا کہ یہ تمثیل ’’تمام گنہگاروں کی عکاسی کرتی ہے (تخلیق کے وسیلے سے خُدا باپ سے تعلق رکھتے ہوئے) جو اپنی استحقاقی صلاحیتیں ضائع کر دیتے ہیں اور اُس [خُدا] کے ساتھ اپنے کسی تعلق داری سے انکار کرتے ہیں، اور اِس کی بجائے ایک گناہ سے بھر پور خود۔ حماقتی کی زندگی چُنتے ہیں‘‘ (جان میک آرتھر، ڈی۔ ڈی۔ John MacArthur, D.D.، میک آرتھر کی مطالعۂ بائبل The MacArthur Study Bible، کلماتی بائبلز Word Bibles، 1997، صفحہ1545؛ لوقا15:‏12 پر غور طلب بات)۔

ڈاکٹر میک آرتھر نے یہ بھی درست طور پر کہا کہ مصرف بیٹا ’’نجات کے لیے ایک اُمیدوار‘‘ تھا جب وہ ’’اپنے ہوش و حواس میں آیا‘‘ (ibid.، لوقا15:‏17 پر غور طلب بات)۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ میک آرتھر دُرست طور پر کہتے ہیں مصرف بیٹا کھویا ہوا تھا۔ میں ڈاکٹر کی حمایت میں ڈاکٹر میک آرتھر کے ساتھ بہت سی باتوں میں مخالف ہوں، خصوصی طورپرمسیح کے خون پر۔ ڈاکٹر میکجی اُس اہم موضوع پر درست ہیں، اور جان میک آرتھر دُرست نہیں ہیں۔ لیکن مصرف بیٹے کی تبدیلی پر، ہماری تلاوت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں جان میک آرتھر کے ساتھ اتفاق کروں،

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے...‘‘ (لوقا 15:‏27).

ویسے از سرے تزکرہ، تمام پرانے تبصرے کہتے ہیں کہ مصرف بیٹا کھویا ہوا تھا، اور پھر اِس تمثیل میں تبدیل ہو گیا تھا۔ پرانے تبصروں میں سے کوئی ایک بھی نہیں کہتا کہ اُس نے اپنی زندگی ’’دوبارہ وقف‘‘ کر دی تھی اور اِس تمام میں اُس نے نجات پا لی تھی! میتھیو پولی Mathew Poole (1624۔1679) نے ہماری تلاوت کے بارے میں کہا، ’’گناہ سے بھرپور ایک انسان ایک مردہ جان ہوتا ہے... ایک گنہگار کی تبدیلی مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی مانند ہوتی ہے۔ نا ہی کوئی انسان سچی شادمانی کا اہل ہوتا ہے جب تک کہ مسیح کے خون کے ذریعے سے خُدا سے صلح میں نہیں آ جاتا‘‘ (لوقا15:‏24 پر ایک غور طلب بات؛ مقدس بائبل پرایک تبصرہ A Commentary on the Holy Bible ، سچائی کے عَلَم کا ادارہ The Banner of Truth Trust، دوبارہ اشاعت1990، جلد سوئم، صفحہ 247)۔

میتھیو ھنری Mathew Henry (1662۔1714) نے کہا، یہ تمثیل خُدا کو تمام نوع انسانی، آدم کے سارے خاندان کے لیے ایک مشترکہ باپ کے طور پر پیش کرتی ہے...‘‘ میتھیو ھنری بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مصرف بیٹا ظاہر کرتا ہے ’’ایک گنہگار کو، ہم میں سے ہر ایک اپنی قدرتی حالت میں... مصرف بیٹے کی حالت ... ہمیں ایک گناہ سے بھرپور حالت پیش کرتی ہے، وہ قابل رحم حالت جس میں انسان گناہ میں گِرا تھا۔‘‘ پھر میتھیو ھنری جاری رہتے ہوئے نو طریقے پیش کرتے ہیں جس میں مصرف بیٹا ایک کھوئے ہوئے شخص کی عکاسی کرتا ہے (میتھیو ھنری کا تمام بائبل پر تبصرہ Mathew Henry’s Commentary on the Whole Bible، ھنیڈریکسن پبلیشرز Hendrickson Publishers، دوبارہ اشاعت 1996، جلد پنجم، صفحات599۔600)۔

ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے ماضی میں پرانے طرز کے معیاری تبصروں میں جھانکا تھا۔ ڈاکٹر رائس، ڈاکٹر میکجی کے بیان کے ساتھ متفق نہیں تھے کہ ’’یہ ایک گنہگار کی جو بچا لیا جاتا ہے تصویر نہیں ہے۔‘‘ ڈاکٹر رائس نے اِس کے بلکل مخالف کہا ہے۔ ڈاکٹر رائس نے کہا، ’’مصرف بیٹا ایک کھوئے ہوئے گنہگار کی عکاسی کرتا ہے‘‘ (جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔، انسان کا بیٹا The Son of Man، خداوند کی تلوار پبلیشرز Sword of the Lord Publishers، 1971، صفحہ 372؛ لوقا15:‏11۔16 پر غور طلب بات)۔

سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon نے جو مبلغین کے شہزادے ہیں، یہی رائے اپنے واعظ ’’مصرف بیٹے کا عروج The Prodigal’s Climax‘‘ میں پیش کی تھی (میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلِگرِم پبلیکیشنز Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1975، جلد اکتالیس XLI، صفحات 241۔249)۔ ہماری تلاوت کہتی ہے،

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے‘‘ (لوقا 15:‏27).

سپرجیئن نے ہماری تلاوت کے بارے میں کہا، ’’ایک انسان کی تبدیلی راستبازوں کے دِلوں میں دائمی خوشی قائم کرنے کے لیے کافی ہے‘‘ (ibid.، باب کی تفسیر، صفحہ251)۔ اِن تمام تبصرہ نگاروں کی بات میں وزن واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ مصرف بیٹا ایک کھویا ہوا انسان تھا، اور تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ وہ کیسے تبدیل ہوا تھا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو زمانوں سے دانشور عالمین کے ذریعے سے پیش کیا گیا – جب تک کہ ہمارے دور کی ’’فیصلہ سازیت‘‘ نے تبدیلی کو ’’دُھندلا‘‘ اور غیر واضح نہ کر دیا!

III۔سوئم، یہ تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک حقیقی تبدیلی میں کیا ہونا چاہیے۔

اگر آپ تبدیل ہونے کی توقع رکھتے ہیں، اور ایک حقیقی مسیحی بنتے ہیں، تو آپ کو اُنہی تمام حالات میں سے گزرنا پڑتا ہے جن سے مصرف بیٹا گزرا تھا۔ اگر آپ نہیں کرتے، تو خُدا آپ سے یہ کہنے کے قابل نہیں ہوگا،

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا، اور اب ملا ہے...‘‘ (لوقا 15:‏27).

اب آپ اِس تمام وضاحت اور پس منظر میں بیٹھے رہے، اور آپ کا ذہن دباؤ کی وجہ سے مٹر گشت کرتا پھر رہا ہے۔ خواتین اُٹھ بیٹھیں! حضرات اُٹھ بیٹھیں! اب میں آپ سے ہمکلام ہوں! آپ کو کم از کم تھوڑا بہت اُس میں سے گزرنا چاہیے جن حالات میں سے مصرف بیٹا گزرا تھا ورنہ آپ جہنم میں جائیں گے! آپ کو اُس کا تجربہ کرنا چاہیے جس کا اُس نے تجربہ کیا تھا، ورنہ آپ ابد تک گندھک کے شعلوں میں زندگی گزاریں گے، آسیبوں کی طرف سے زبردستی اور عذاب ناک حال میں ہونگے، اور خود اپنے ضمیر کے باعث ٹکڑوں میں پھٹے ہوں گے! یہاں ہے جس سے آپ کو کم از کم کچھ حد تک نجات پانے کےلیے گزرنا چاہیے۔ یسوع آپ کی جگہ پر، آپ کے گناہوں کی ادائیگی کے لیے، صلیب پر مرا تھا۔ وہ مُردوں میں سے آپ کو زندگی عطا کرنے کے لیے جی اُٹھا تھا۔ لیکن یہاں عام طور پر مسیح کے پاس آنے کے لیے جدوجہد ہوتی ہے۔ درج ذیل نکات مصرف بیٹے کی تمثیل سے اخذ کیے گئے ہیں:

1.   خود اپنے آپ میں اعتراف کریں کہ آپ کا دِل واقعی میں خودغرض ہے اور خدا سے اتنا دور ہونا چاہتا ہے جتنا ممکن ہوتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو تفتیشی کمرے میں آئے اور کہا وہ نجات پانا چاہتے ہیں جو اُسی اثنا میں گرجہ گھر کو چھوڑنے کا منصوبہ بھی بنا رہے تھے! یہ ایک کمینی خود فریبی ہے۔ خُدا کو کیوں ایک شخص کو بچائے جانے والا فضل عنایت کرنا چاہیے جو واپس دُنیا میں جانے کے بارے میں سوچ رہا ہے؟ اگر کوئی آدمی دُنیا سے محبت رکھتا ہے تو اُس میں خُدا باپ کی محبت نہیں ہے‘‘ (1۔یوحنا2:‏15)۔ ’’وہ شخص جو دو دِلا ہے اپنے کسی کام میں مستقل نہیں ہوتا ہے‘‘ (جیمس1:‏8)۔

2.   خُدا سے اِس دُنیا کے خالی پن کو ظاہر کرنے کے لیے دعا کریں۔ آپ کو سکڈ رو Skid Row پر ایک سڑک چھاپ شخص بننے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، یہ احساس کرنے کے لیے کہ وہاں جانا نہیں چاہتے ہیں! خُدا آپ پر کسی بھی مادہ پرستی والی طرز زندگی کے زعم باطل کو ظاہر کر سکتا ہے۔ خُدا سے آپ کو بے دین زندگی کے خالی پن کو ظاہر کرنے کے لیے پوچھیں۔ ’’تم کسی چیز کی خواہش کرتے ہو اور وہ تمہیں حاصل نہیں ہوتی ہے‘‘ (جیمس4:‏2)۔

3.   بیدار ہوں، اپنے ہوش میں آئیں! خُدا سے دعا کریں کہ آپ پر ظاہر کرے کہ آپ ’’بھوک سے مر جائیں،‘‘ جب کہ آپ سکون اور خوشی پا سکتے ہیں! آپ اب جس طرح کے ہیں، آپ کے پاس کوئی اندرونی امن نہیں ہے! کیوں پھر گناہ میں رہنا جاری رکھیں جب کہ آپ مسیح کے وسیلے سے معافی پا سکتے ہیں؟ ’’خُدا فرماتا ہے، شریروں کے لیے سلامتی نہیں ہے‘‘ (اشعیا57:‏21) ۔

4.   اپنے گناہ کے بارے میں سوچئیے۔ انفرادی گناہوں کے بارے میں سوچیں، اُس کے ساتھ ساتھ اپنے گناہ سے بھرپور دِل کے بارے میں سوچیں۔ گہرائی کے ساتھ اپنے گناہ کے بارے میں سوچیں جب تک کہ آپ مصرف بیٹے کے ساتھ کہہ نہ سکیں، ’’میں خدا کی نظر میں اور تیری نظر میں گنہگار ہوں‘‘ (لوقا15:‏18)۔ میرے پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin نے اُس وقت تک نجات نہیں پائی تھی جب تک کہ اُنہوں نے اپنے گناہوں کی ایک طویل فہرست نہ بنا لی۔ وہ گناہوں کی اُس فہرست کو بار بار پڑھتے جب تک کہ خُدا نے اُنہیں گناہ کی سزایابی کے تحت نہیں کر دیا، اور وہ جانتے تھے کہ وہ ایک کھوئے ہوئے گنہگار تھے! میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ کو ایسا کرنا ہوگا، لیکن یہ شاید کسی ایک کی مدد کر سکتے۔

5.   اپنے آپ کو خُدا بیٹےکے حوالے کر دیں، ’’کیونکہ خُدا ایک ہے اور خُدا اور انسانوں کے درمیان ایک صُلح کرانے والا بھی موجود ہے یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے‘‘ (1۔تیموتاؤس2:‏5)۔ یسوع نے کہا، ’’میرے وسیلہ کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا14:‏6)۔ مسیح کے لیے ’’اندر داخل ہونے کی کوشش کریں‘‘ (لوقا13:‏24)۔ وہ جو محض سرسری طور پر مسیح کے پاس آنے کے لیے سوچتے ہیں نہیں نجات پائیں گے۔ اِس کو آپ کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم بات ہونا چاہیے! ’’اندر داخل ہونے کی کوشش کریں‘‘! جب آپ مسیح کو پاتے تو یہ کسی بھی قسم کی کوشش کے مقابلے میں کئی گناہ بہتر ہوگا، چاہے کتنی ہی ’’کوشش‘‘ کی ہو۔ یسوع نےکہا، ’’میرے پاس آؤ... اور میں تمہیں سکون دوں گا‘‘ (متی11:‏28)۔ ’’اُس کے بیٹے یسوع کا خون ہمیں ہر گناہ سے پاک کرتا ہے‘‘ (1۔یوحنا1:‏7)۔


خُدا کرے کہ یہ پرانا حمدوثنا کا گیت آپ کی آج رات کو دعا ہو –

میں خُدا سے بہت دور بھٹکتا رہا ہوں،
   اب میں گھر آ رہا ہوں؛
میں بہت عرصہ گناہ کی راہوں پر چل چُکا ہوں،
   اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔

میں نے بہت سے قیمتی سال گنوا دیے ہیں،
   اب میں گھر آ رہا ہوں؛
میں اب شدید آنسوؤں کے ساتھ توبہ کرتا ہوں،
   اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
گھر آ رہا ہوں، گھر آرہا ہوں،
   کبھی مذید اور بھٹکنے کے لیے نہیں۔
تیرے پیار بھرے بازو کُھلے ہوئے ہیں،
   اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں۔
       (’’اے خُداوند، میں گھر آ رہا ہوں Lord, I’m Coming Home ‘‘
 شاعر ولیم جے۔ کِرک پیٹرک William J. Kirkpatrick‏، 1838۔1821)۔

اگر آپ نجات پانے کے بارے میں ہم سے بات چیت کرنا چاہیں، تو مہربانی سے ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے آئیں۔ ڈاکٹر کیگن Dr. Cagan آپ کو دعا کے لیے ایک پُرسکون کمرے میں لے جائیں گے، ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے دعا کریں کہ آج رات کوئی ایک یسوع پر بھروسہ کرے۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: لوقا15:‏21۔24 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
      ’’اب میں یسوع سے تعلق رکھتا ہوں Now I Belong to Jesus‘‘ (شاعر نارمن جے۔ کلیٹن Norman J. Clayton‏، 1903۔1992)۔

لُبِ لُباب

مصرف بیٹے کی غلط تعبیر کرنا

(مصرف بیٹے پر واعظ نمبر 2)
MISINTERPRETING THE PRODIGAL SON
(SERMON NUMBER 2 ON THE PRODIGAL SON)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے

.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’کیونکہ یہ میرا بیٹا جومر چُکا تھا، اور دوبارہ زندہ ہو گیا ہے، وہ کھو گیا تھا اور اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے‘‘ (لوقا 15:‏27).

I.   اوّل، وہ طریقہ جس سے بہت سے مبلغین اِس تمثیل کی غلط تشریح کرتے ہیں،
 لوقا15:‏24۔

II.  دوئم، یہ تمثیل مسیح کے وسیلے سے یہ ظاہر کرنے کے لیے پیش کی گئی تھی
کہ کیسے کھوئے ہوئے گنہگار، جو قصوروں اور گناہوں میں مردہ ہیں،
 نجات پاتے ہیں! افسیوں2:‏1، 5؛ لوقا15:‏7،10، 24۔

III. سوئم، یہ تمثیل ظاہر کرتی ہے کہ آپ کے ساتھ ایک حقیقی تبدیلی میں کیا ہونا
 چاہیے، 1۔یوحنا2:‏15؛ جیمس1:‏8؛ 4:‏2؛ اشعیا57:‏21؛ لوقا15:‏18؛ 1
۔تیموتاؤس2:‏5؛ یوحنا14:‏6؛  لوقا13:‏24؛ متی11:‏28؛ 1۔یوحنا1:‏7 .