Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

نفسانی انسان اور حقیقی مسیحی

THE CARNAL MAN AND THE REAL CHRISTIAN
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز،جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
28 جولائی، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, July 28, 2013

’’جو لوگ جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات نفسانی خواہشات کی طرف لگے رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ رُوح کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات رُوحانی خواہشوں کی طرف لگے رہتے ہیں۔ جسمانی نیّت مَوت ہے لیکن رُوحانی نیّت زندگی اور اِطمینان ہے۔ اِس لیے کہ جسمانی نیّت خدا کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے۔ جو لوگ جسم کے غلام ہیں خدا کو خُوش نہیں کر سکتے۔ لیکن تُم اپنے جسم کے نہیں بلکہ رُوح کے تابع ہو بشرطیکہ خدا کا روح تُم میں بسا ہُوا ہو۔ اور جس میں مسیح کا رُوح نہیں وہ مسیح کا نہیں‘‘ (رومیوں 8:‏5۔9).

یہ آیات جو نفسانی خواہشات رکھتے ہیں اُن کا موازنہ کرتی ہیں اُن کے ساتھ جو روحانی خیالات رکھتے ہیں۔ اِس چھے آیات پر نظر ڈالیں۔

’’کیونکہ جسمانی نیّت مَوت ہے: لیکن رُوحانی نیّت زندگی اور اِطمینان ہے‘‘
       (رومیوں 8:‏6).

ہمیں یہاں پر ٹھہرنا ہے اور احساس کرنا ہے کہ ’’جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے‘‘ مسیحی نہیں ہیں۔ لفظ ’’جسمانی نیت یا نفس carnal‘‘ یونانی لفظ ’’سارکس sarx‘‘ کا ترجمہ کرتا ہے۔ اِس کا مطلب ’’جسم‘‘ ہوتا ہے۔ ’’جسمانی نیت کے خیالات‘‘ میں ہونے کا مطلب جسم کے اختیار میں ہونا ہوتا ہے۔ غور کریں کہ پولوس نے کہا، ’’جسمانی نیت موت ہے۔‘‘ اِس لیے یہ جدید تصور کہ ’’جسمانی نیت کے مسیحی‘‘ ہوتے ہیں سراسر غلط ہے۔ ڈاکٹر جیمس مونٹگمری بوئس Dr. James Montgomery Boice نے کہا، ’’پولوس یہاں اُن کے درمیان فرق جو مسیحی ہیں اورجو مسیحی نہیں ہیں کی بات کر رہا ہے۔ یعنی کہ، وہ صرف دو قسم کے لوگوں کی بات کررہا ہے، تین قسم کے نہیں۔ بالخصوص، وہ اِس بارے میں بات نہیں کر رہا کہ کیسے ایک ’’جسمانی نیت والے مسیحی‘‘ کو خُداوند کا ایک بہت زیادہ سنجیدہ شاگرد بننے کے لیے وابستگی کی ایک کمتر حالت سے پرے زندگی گزارنی چاہیے‘‘ (جیمس مونٹگمری بوئس، پی ایچ۔ ڈی۔ James Montgomery Boice, Ph.D.، رومیوں Romans، جلد دوئم، بیکر بُکس Baker Books، اشاعت 2008، صفحہ 807)۔

ڈاکٹر مارٹن لائیڈ جونز Dr. Martyn Lloyd-Jones نے بھی یہ واضح کیا کہ اِن آیات میں پولوس دو قسم کے مسیحیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا، ’’یہ کہنے کے لیے غلط تشریح ہوگی کہ ’وہ جو جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ وہ ’جسمانی نیت‘ والے مسیحی کہلاتے ہیں ... یہ ناممکن [ہے] کہ وہ سرے سے ہی مسیحی ہوں‘‘ (ڈی۔ مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ڈی۔ D. Martyn Lloyd-Jones, M.D.، رومیوں باب 8:‏5۔17 کے تفسیر Romans: An Exposition of Chapter 8:‏5-17، دی بینر اور ٹرتھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، اشاعت 2002، صفحہ 3)۔

میں اِس بات کا قائل ہوں کہ یہ دو قسم کے مسیحی (ایک جسمانی نیت والا اور ایک روحانیت والا) ہونے کا تصور ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے براہ راست نتیجے کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ ’’فیصلہ ساز‘‘ اِس جھوٹے عقیدے کو اِس لیے وجود میں لائے تھے تاکہ اُن تمام لوگوں کو سمجھا سکیں جنہوں نے ’’ایک فیصلہ لیا تھا‘‘ لیکن جہنمی طور سے ایک گناہ سے بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ ’’فیصلہ ساز‘‘ اِس کی تشریح یہ کہنے سے کرتے ہیں کہ وہ ’’جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے مسیحی‘‘ ہیں – اور ہمیں اُن کو روحانی نیت رکھنے والے مسیحی بنانے کے لیے مذید اور زیادہ ’’نتیجے پر پہنچا کر دَم لینے‘‘ اور ’’اُنہیں تعلیم دینے‘‘ کی ضرورت ہے۔ وہ تمام کی تمام واقعی جھوٹی تعلیمات ہیں، اور یہ ہمارے گرجہ گھروں کو کافی سے زیادہ نقصان پہنچا چکی ہیں۔ لفظ کے کسی بھی حقیقی معنوں میں – وہ ’’جسمانی نیت والا مسیحی‘‘ کہلانے والا بالکل بھی مسیحی نہیں ہے! ہمارے پاس نشے کے عادی ہیں جو ’’جسمانی نیت والے مسیحی‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس لوگ ہیں جو گرجہ گھر عبادت کےلیے بالکل بھی نہیں آتے ہیں اور جو’’جسمانی نیت والے مسیحی‘‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک گرجہ گھر میں جہاں میں چھٹیوں میں گیا تھا، میں نے ایک عورت کی نام نہاد ’’گواہی‘‘ دینے کے بارے میں سُنا کہ جب اُس نے نجات پائی تھی تو وہ ایک فحاشہ تھی، تن فروشی کا کاروبار کرتی تھی – کیونکہ اُس وقت وہ ’’جسمانی نیت رکھنے والی مسیحی‘‘ تھی۔ اب وہ واپس گرجہ گھر میں آ چکی تھی اور اپنی زندگی کو ’’دوبارہ وقف‘‘ کر دیا تھا، اور اب ایک ’’روحانی‘‘ مسیحی بن چکی تھی۔ اُس عبادت میں میری والدہ بھی میرے ساتھ تھیں۔ حالانکہ والدہ صرف تھوڑے عرصے ہی کے لیے مسیحی رہ چکی تھیں، وہ اُس جھوٹی تعلیم کے خطرے کو بھانپ گئیں تھیں۔ اُنہوں نے کہا، ’’اُنہیں اِس خاتون کو اِن تمام نوجوان لوگوں کے سامنے اِس قسم کی بات نہیں کرنے دینی چاہیے۔ وہ سوچیں گے کہ وہ بھی نجات پا لیں اور وہ ہولناک حرکات کریں گے۔‘‘ مجھے وہ سوچنا یاد ہے کہ میری والدہ، جنہیں نجات پائے ہوئے ابھی صرف چند ہی ماہ ہوئے تھے، اُن کے پاس اُس گرجہ گھر کے پاسبان کلیسیا سے زیادہ سمجھ تھی! جب اُس ’’مسیحی‘‘ کہلائی جانے والے فحاشہ نے بات کرنی ختم کی، تو پاسبان کلیسیا نے کہا، ’’کیا وہ عظیم نہیں تھا؟‘‘ جماعت میں موجود بہت سے لوگ ’’آمین‘‘ پکار اُٹھے۔ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہمارے بہت سے گرجہ گھر اِس قسم کی قابل رحم حالت کا شکار ہیں! جی نہیں! یہاں اِس حوالے میں صرف دو قسم کے ہی لوگ ہیں – ’’ وہ جو ’’جسمانی نیت رکھنے والے‘‘ ہیں، جو کھوئے ہوئے لوگ ہیں، اور ’’روحانی خیالات رکھنے والے‘‘ ہیں، جو نجات پائے ہوئے لوگ ہیں! میری خواہش ہے کہ ہمارے مبلغین ڈاکٹر بوئس Dr. Boice اور ڈاکٹر لائیڈجونز Dr. Lloyd-Jones کے دیے گئے تبصروں کو پڑھیں! یہ ’’دو قسم کے مسیحی‘‘ ہونے کے اِس جھوٹے عقیدے کا بھانڈا پھوڑ دیں گے۔ اِس کے علاوہ، اِن نام نہاد ’’جسمانی نیت رکھنے والے مسیحیوں‘‘ میں سے جب کوئی ایک اپنی زندگی کو دوبارہ وقف کرتا ہے، تو یہ اُن کی قبر کو سربمہر کر دیں گے – کیونکہ نجات ’’دوبارہ وقف‘‘ کر دینے کے ذریعے سے نہیں آ سکتی ہے۔ ’’آپکو نئے سرے سے جنم لینا چاہیے‘‘ (یوحنا3:‏7)۔ یہاں ہزاروں لاکھوں کھوئے ہوئے بپتسمہ یافتہ اور کئی دوسرے اِس ناگفتہ با حالت میں ہیں۔ وہ اکثر مصرف بیٹے کے واقعے کے لیے التماس کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایک ’’جسمانی نیت رکھنے والا مسیحی‘‘ تھا جس نے اپنی زندگی ’’دوبارہ وقف‘‘ کر دی تھی۔ لیکن خود مصرف بیٹے کے اپنے باپ نے کہا کہ وہ کھو چکا تھا۔ اُس باپ نے کہا تھا، ’’وہ کھو گیا تھا‘‘ (لوقا15:‏24)۔ وہ مصرف بیٹا ایک ’’کھوئے ہوئے‘‘ آدمی کی تصویر ہے جو بچایا گیا تھا، اپنی زندگی دوبارہ وقف کرنے سے نہیں! اب آیت 6 پر توجہ مرکوز کریں۔ آئیے کھڑے ہوں اور اِس کو با آواز بُلند پڑھیں۔

’’کیونکہ جسمانی نیّت مَوت ہے لیکن رُوحانی نیّت زندگی اور اِطمینان ہے‘‘
      (رومیوں 8:‏6).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ یہاں پر دو قسم کے لوگوں کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ رومیوں 8:‏6 اِس کو واضح کرتی ہے۔ آپ یا تو جسمانی نیت رکھنے والے اور کھوئے ہوئے ہیں، یا پھر روحانی نیت رکھنے والے اور نجات پائے ہوئے ہیں۔ اور ہم اِن دونوں پر ہی نظر ڈالیں گے۔

I۔ اوّل، جسمانی نیت رکھنے والے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ لفظ ’’جسمانی نیت carnal‘‘ یونانی لفظ ’’سارکس sarx‘‘ سے نکلتا ہے – جس کا مطلب ’’جسم‘‘ ہوتا ہے۔ ’’جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے‘‘ سے مُراد ایک ایسا شخص جس کا ذہن ’’نفسانی خیالات پر گامزن‘‘ ہوتا ہے۔ وہ شخص جس کا ذہن نفسانی خیالات پر گامزن ہوتا ہے وہ ایک انتہائی خطرناک حالت میں ہوتا ہے۔

وہ ہیں کون؟ آیت 5 کہتی ہے، ’’جو لوگ جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات نفسانی خواہشات کی طرف لگے ... ‘‘ نئی کنگ جیمس بائبل اِس کا ترجمہ یوں کرتی ہے، ’’وہ لوگ جو جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات نفسانی خواہشات کی طرف گامزن رہتے ہیں...‘‘ یہ ہے جہاں پر اُن کے ذہن مرکوز ہوتے ہیں – ’’جسم کی چیزوں پر۔‘‘ 1۔ یوحنا2:‏15۔16 میں، ہمیں اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے کہ اپنے ذہن کو ’’جسم کی چیزوں‘‘ پر مرکوز رکھنا، اُس کی ایک تصویر پیش کی گئی ہے۔ یہ کہتی ہے،

’’نہ دُنیا سے محُبت رکھّو نہ دُنیا کی چیزوں سے۔ اگر کوئی آدمی دُنیا سے محّبت رکھتا ہے اُس میں خدا باپ کی محّبت نہیں ہے۔ کیونکہ جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش، آنکھوں کی خواہش اور زندگی کا غرور، وہ خدا کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے‘‘ (1۔ یوحنا 2:‏15۔16).

جسم کی خواہش۔ آنکھوں کی خواہش۔ زندگی کا غرور۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر جسمانی نیت رکھنے والے خیالات کے لوگوں کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ جان بعنیان John Bunyan نے ایسے لوگوں کو جو اپنی توجہ ایسی چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں ’’دُنیاوی ذہنیت‘‘ کے لوگ کہتے ہیں۔ یہ ’’جسمانی نیت رکھنے والے خیالات کے لوگوں‘‘ کا ایک اور نام ہے۔ بعنیان اِن کو ’’دُنیاوی ذہنیت والے لوگ‘‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones واضح کرتے ہیں کہ جسمانی نیت رکھنے والے خیالات کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا،

اِس کا مطلب صرف عارضی ہوتا ہے؛ اِس کا دائمیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اِس کا حوالہ صرف اِس دُنیا میں زندگی کے ساتھ ہے، زندگی جو جسم کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور جسمانی ذہنیت کی مختلف خصوصیات اور خاصیتوں کے ساتھ ... ’’جسم کی چیزوں کی ذہنیت‘‘ میں خُدا کے بغیر سیاسی دلچسپیاں، خُدا کے بغیر معاشرتی دلچسپیاں، خُدا کے بغیر تہذیبی و ثقافتی دلچسپیاں شامل ہیں۔ یہ اِس تاثر کا مطلب ہوتا ہے۔ پولوس کے ذہن میں انسان کی اعلیٰ ترین کھوجیں تھیں، اُس کا فلسفہ، اُس کی ہنر مندی، اُس کا تمدن، اُس کی موسیقی، جو کبھی بھی جسم سے پرے نہیں جاتی ہیں۔ خُدا اِن سب سے باہر ہوتا ہے، اُس کو اِس میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے ... وہ کسی قسم کی مثالی معاشرت بنانے کے بارے میں فصاحت سے لکھ سکتے ہیں، وہ ہنرمندی اور ادب اور موسیقی کے شاہکار پیدا کر سکتے ہیں؛ لیکن اِن میں کہیں کوئی روح نہیں ہوتی ہے، اُن میں کہیں خُدا نہیں ہوتا ہے، کوئی روح القدوس نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ ’’جسم کے تعاقب‘‘ میں ہوتا ہے (لائیڈ جونز Lloyd-Jones، ibid.، صفحہ 6)۔

وہ نوجوان لوگ جو باتوں کی دھن والی موسیقی rap music میں ’’مست‘‘ ہیں جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ لوگ جو جسم کی نمائش کرنے والے جدید لباس میں ’’مست‘‘ ہیں جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ جو ’’ورلڈ آف دی وارکرافٹ‘‘ جیسی ویڈیو گیمز اور مار دھاڑ خون خرابے والی دوسری ویڈیو کھیلوں میں ’’مست‘‘ ہیں جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں۔ ایک روحانی نیت کے خیالات رکھنے والا‘‘ مسیحی کبھی بھی اِس قسم کے کچرے میں گھنٹوں صرف نہیں کرے گا! اگر آپ کرتے ہیں، تو اِس میں حیرانی کی بات نہیں ہوتی کہ آپ نجات نہیں پاتے ہیں! اِس میں ’’اینیمی Anime،‘‘ شیطانی جاپانی کارٹون اور فحش فلمیں شامل ہیں۔ وہ جو اِس قسم کی چیزوں میں ’’مست‘‘ ہیں جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں۔ نوجوان لوگ جو مختلف جنس کو لُبھانے، جسمانی طور پر ایک دوسرے کو چومنے چاٹنے اور اِسی فطرت کی دوسری سرگرمیوں میں ’’مست‘‘ ہیں وہ جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں۔ وہ جو بائبل نہیں پڑھتے ہیں، اور دعا نہیں کرتے ہیں وہ بھی جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں!

اب، ’’جسمانی نیت کےخیالات رکھنے والا‘‘ ہونے کے ہولناک خطرے پر غور کریں۔ یہ آیت 6 میں ہے، ’’جسمانی نیت موت ہے۔‘‘ موت! یہ آپ کو جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والا ہونے پر ملتی ہے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا اِس کا ترجمہ ہونا چاہیے، ’’جسمانی نیت کی ذہنیت رکھنا موت ہے‘‘ (ibid.، صفحہ7)۔ پولوس پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ وہ جو ’’جسم کی چیزوں کے خیالات‘‘ رکھتے ہیں مسیحی نہیں ہوتے ہیں۔ اب وہ مذید آگے بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ دُنیاوی ذہنیت کے لوگ ’’مردہ‘‘ ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے ذہنوں کو دُنیاوی چیزوں پر مرکوز رکھتے ہیں مردہ ہوتے ہیں! یہ بیان کہ ’’جسمانی نیت موت ہے‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ نفسانی خیالات رکھنے والا شخص روحانی موت کی حالت میں ہوتا ہے۔ افسیوں2:‏1 میں، وہ اُن کے بارے میں بطور ’’قصوروں اور گناہوں میں مردہ‘‘ بتاتا ہے۔ دوبارہ افسیوں2:‏5 میں وہ اُن کے بارے میں ’’گناہوں میں مردہ‘‘ بتاتا ہے۔ اِس قسم کا انسان کبھی بھی نہیں سمجھ سکتا کہ نجات کیسے پائی جا سکتی ہے،

’’جس میں خدا کا پاک رُوح نہیں وہ خدا کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس کے نزدیک بےوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ ہی اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف پاک رُوح کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہیں‘‘ (1۔ کرنتھیوں 2:‏14).

آپ منادی کرسکتے ہیں اور تعلیم دے سکتے ہیں جب تک کہ آپ تھک ہار کر چہرے کی رنگت نیلی نہ کرلیں اور وہ خوشخبری کی سادہ سی سچائیوں کو بھی نہیں سمجھ سکیں گے۔ کیوں؟ ’’کیونکہ وہ صرف پاک روح کے ذریعے سمجھی جا سکتی ہیں۔‘‘ اور جسمانی نیت والا شخص، جو گناہ میں مردہ ہوتا ہے، صرف وہ انتہائی سادہ سی سچائیوں کو بھی نہیں سمجھ سکتا ہے! ’’وہ اُس کے نزدیک بے وقوفی کی باتیں ہیں کیونکہ وہ صرف پاک روح کے ذریعے سمجھی جا سکتی ہیں‘‘ – وہ جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والا شخص ہوتا ہے، اور اِسی لیے اُن سچائیوں کو قبول نہیں کر سکتا ہے! یہی وہ اہم وجہ ہے کہ ہم ہزارہا بار خوشخبری سُنا سکتے ہیں، اور وہ جن کی دُنیاوی ذہنیت ہوتی ہے اُس کو کبھی ’’قبول‘‘ کر ہی نہیں سکتے۔ میں لوگوں کو تفتیشی کمرے میں مہینوں بغیر نجات پائے ہوئے جاتے دیکھتا رہا ہوں۔ کیوں؟ کیونکہ ’’جسمانی نیت کا ہونا موت ہے‘‘ (رومیوں8:‏6)۔

یہاں ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones کی پیش کی گئی ایک مثال ہے۔ آپ میں سے بہتوں نے وہ انجیلی بشارت کی فلم حیرت انگیز فضل Amazing Grace دیکھی تھی جب ہم نے وہ یہاں اپنے گرجہ گھر میں دکھائی تھی۔ یہ ولیم ولبرفورس William Wilberforce ‏(1759۔1806) کی کہانی تھی جو برطانیہ میں غلامی کی منسوخی کا رہنما تھے۔ ولیم پِٹ دی ینگر William Pitt the Younger ‏(1759۔1806) وزیر اعظم تھے۔ وہ بہت گہرے دوست تھے، لیکن ولبرفورس مسیح میں تبدیل ہو گئے تھے، جبکہ ولیم پٹ صرف ایک رسمی طور پر گرجہ گھر جانے والے تھے، یعنی کہ، وہ گرجہ گھر جاتے تھے لیکن مسیح میں تبدیل ہونے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ولبرفورس کو نوجوان وزیر اعظم، پٹ کے کھوئے ہوئے ہونے کے بارے میں بہت زیادہ فکر تھی۔ آخر کار ولبرفورس نے پٹ کو نامور انجیلی بشارت کے مبلغ رچرڈ سیسل Richard Cecil کو سُننے کے لیے اُن کے ساتھ جانے پر قائل کر لیا۔ آخر کار پٹ مبلغ کو سُننے کے لیے ولبرفورس کے ساتھ جانے پر رضامند ہوگئے۔ سیسل نے اِس قدر شاندار منادی کی کہ ولبرفورس نے واعظ کی وجہ سے خود کو آسمان میں اُڑتے ہوئے محسوس کیا۔ لیکن بعد میں پٹ جو کے وزیر اعظم تھے، اُنہوں نے اُن سے کہا، ’’ولبرفورس، تم جانتے ہو، مجھے تھوڑا سا بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ آدمی کس کے بارے میں بات کر رہا تھا۔‘‘ ولبرفورس واعظ کی وجہ سے خوشی سے سرشار تھے، لیکن پٹ اُس سے بیزار تھے۔ وہ اِس کو سمجھ ہی نہیں سکے تھے۔ ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، ’’رچرڈ سیسل ہو سکتا ہے ایک مردہ آدمی کو منادی کرتے رہے ہوں۔ مُردے اِن باتوں کی داد نہیں دے سکتے، نا ہی ولیم پٹ۔ اُنہوں نے خود اِس بات کا اقرار کیا ... یہاں اِس قسم کے لوگ بھی ہیں۔ وہ عبادت کی جگہ پر آتے ہیں، وہ اُن باتوں کو سُنتے ہیں جو ایمانداروں کے دِلوں کو [خوشی] فراہم کرتی ہیں، لیکن وہ اِس میں کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں... یہ اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ روحانی باتوں کے لیے زندہ نہیں ہوتے ہیں۔ وہ مردہ ہیں، خُدا کے لیے مُردہ، خُداوند یسوع مسیح کے لیے مُردہ، روحانی سلطنت اور تمام روحانی حقیقتوں کے لیے مُردہ، خود اپنی جان اور روح اور اُن کے ہمیشہ تک قائم رہنے والی اور دائمی خوشیوں کے لیے مردہ ہوتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اِس قسم کے معاملات کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔ یہ اُن کی مصیبت ہے۔ یہی ہے جو رسول اُن کے بارے میں کہتا ہے۔ یہ جسمانی نیت اُنہیں خُدا کی زندگی سے بہت دور کر دیتی ہے... اگر وہ اِس حالت میں مرجاتا ہے تو وہ تمام دائمیت کےلیے خُدا کی زندگی سے بہت دور رہ جاتا ہے۔ اِس سے زیادہ مذید اور ہولناک کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ روحانی موت کا مطلب ہوتا ہے‘‘ (لائیڈ جونز Lloyd-Jones، ibid.، صفحات10۔11)۔

’’جسمانی نیّت مَوت ہے لیکن رُوحانی نیّت زندگی اور اِطمینان ہے‘‘
       (رومیوں 8:‏6).

II۔ دوئم، روحانی نیت رکھنے والے۔

ہمیں اِس تصور کو ختم کر دینا چاہیے کہ یہ ’’جسمانی نیت رکھنے والے‘‘ مسیحیوں کے بارے میں ہے۔ رسول غیر مسیحیوں کا سچے مسیحیوں کے ساتھ موازنہ کر رہا ہے۔ یہی ہے جس کے بارے میہں پولوس اِن آیات میں بات کر رہا ہے۔ ’’لیکن روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے‘‘ (رومیوں8:‏6ب)۔ پھر پولوس کہتا ہے،

’’لیکن تُم اپنے جسم کے نہیں بلکہ رُوح کے تابع ہو بشرطیکہ خدا کا روح تُم میں بسا ہُوا ہو۔ اور جس میں مسیح کا رُوح نہیں وہ مسیح کا نہیں‘‘ (رومیوں 8:‏9).

اگر ایک شخص میں پاک روح نہیں ہوتا ہے تو وہ شخص ایک مسیح نہیں ہے۔ موازنہ اُن کے درمیان ہے جو ’’جسم کے تابع‘‘ ہیں اور جو ’’روح کے تابع‘‘ ہیں، اُن کے درمیان ہے جو کھوئے ہوئے ہیں اور جو نجات پائے ہوئے ہیں۔

جب آپ مسیح میں تبدیل ہو جاتے ہیں، تو آپ مذید ’’جسم کے تابع‘‘ نہیں رہتے ہیں۔ مسیح میں تبدیلی پر آپ اچانک ’’روح کے تابع‘‘ ہو جاتے ہیں۔ اُس لمحے پر، آپ نئے سرے سے جنم لیتے ہیں۔ اور رومیوں 8:‏9 اِسی کے ساتھ ختم ہوتی ہے: ’’اب اگر کسی میں مسیح کا روح نہیں تو وہ مسیح کا نہیں۔‘‘ اگر کسی میں مسیح کا روح نہیں ہوتا ہے تو وہ مسیح سے تعلق نہیں رکھتا ہے۔

اب، آپکو اِس کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔ جس لمحہ آپ توبہ کرتے اور مسیح میں بھروسہ کرتے ہیں، تو’’مسیح کی روح‘‘ (وہ روح القدوس) آپ کے دِل میں داخل ہوتا ہے اور آپ کو خُداوند یسوع مسیح کے ساتھ متحد کرتا ہے۔ اِسی لیے یہ کہنا بے وقوفانہ ہے، ’’میں کیسے مسیح کے پاس جاؤں؟‘‘ یہ کچھ ایسا نہیں ہےجو آپ بالکل کرتے ہیں۔ یہ پاک روح ہے جو آپ کو گناہ کی سزایابی کے تحت لاتا ہے۔ جب یہ ہوتا ہے تو آپ اپنی پرانی طرز ’’جسمانی نیت کے خیالات میں ہونے‘‘ سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کی تمام جسمانی طور طریقوں کی سوچیں اور زندگی آپ کے لیے نفرت آمیز بن جاتی ہیں۔ پھر، جب آپ مسیح پر بھروسہ کرتے ہیں، تو پاک روح آپ کو اُس کے ساتھ متحد کر دیتا ہے۔ میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سُنا ہے، ’’کیوں، میں نہیں جانتا کیا ہوا تھا، لیکن اب اِس قدر واضح ظاہر ہوتا ہے۔ اب میں یسوع پر بھروسہ کرتا ہوں!‘‘ یہ اُس وقت ہوتا ہے جب پاک روح آپکو یسوع کے ساتھ متحد کرتا ہے۔ یہ جی اُٹھے مسیح کے ساتھ ایک الہٰی انسان کا سامنا ہوتا ہے! صرف پاک روح ہی یہ آپ کے لیے کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر کیگن نے دوسالوں تک مسیح کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ آخر کار، ایک رات، اُنہوں نے کہا، ’’یسوع فوراً میرے لیے موجود تھا۔ چند لمحات میں، میں اُس کے پاس پہنچ گیا تھا۔‘‘ اُس لمحے میں وہ بچائے گئے تھے۔ خود میرا اپنا مسیح کے ساتھ سامنا 1961 کے ستمبر میں بائیولاکالج Biola College میں ایک واعظ کے اختتام پر ہوا تھا۔ اِس کے بارے میں مَیں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یسوع وہاں پر تھا، اور میں نے اُس پر بھروسہ کیا تھا۔ یہی سب کو اِس کے بارے میں وہاں پر تھا! اب میں جانتا ہوں کہ پاک روح نے وہ سب کچھ مجھ میں اور میرے لیے کیا تھا۔ لیکن اُس لمحے پر میں نے صرف زندہ مسیح کا سامنا کیا تھا۔ پھر مسیح کی تمام فلاحیں میری ہو گئیں تھی۔ اُس کے خون نے میرے گناہوں کو پاک صاف کر دیا تھا! اُس نے مجھے دائمی زندگی بخش دی تھی! میں نے نئے سرے سے جنم لیا تھا!

ہمیں مذید اور تفضیل میں نہیں جانا چاہیے، ورنہ آپ جو کچھ میرے اور ڈاکٹر کیگن کے ساتھ ہوا اُس کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایسا بالکل مت کیجئے گا! صرف اپنی مُردہ، جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والی زندگی پر نظر ڈالیں۔ اِس کے ساتھ نفرت کریں۔ اپنی جسمانی نیت کے خیالات رکھنے والی زندگی سے منہ موڑ کر یسوع کے پاس آئیں۔ وہ آپ کوبچائے گا۔ وہ آپ کے گناہوں کو معاف کرے گا۔ وہ آپ کو دائمی زندگی دے گا۔ آپ نئے سرے سے جنم لیں گے!

ہمارے نوجوان لوگوں میں سے ایک نے مجھے ایک غور طلب بات لکھی جس میں لکھا تھا، ’’دعا کریں کہ میرے بھائی کو نظر آ جائے اِس دُنیا کے پاس اُس کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ یہ ہے جہاں پر مسیح میں تبدیل کا آغاز ہوتا ہے، یہ دیکھنے سے کہ اِس دُنیا کے پاس آپ کودینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ہے جہاں پر یہ شروع ہوتا، جب آپ یہ محسوس کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’جسمانی نیت موت ہے۔‘‘ تب یسوع کی طرف رُخ کریں اور آپ جان جائیں گے کہ ’’روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے‘‘ (رومیوں8:‏6)۔

کاش میرے پاس پیش کرنے کے لیے ایک زیادہ فصیح گواہی ہوتی۔ لیکن شاید اِس میں کوئی بھلائی ہے کہ میرے پاس نہیں ہے۔ کیلون Calvin نے خوف کی وجہ سے کبھی بھی اپنی گواہی پیش نہیں کی تھی، میرا خیال ہے، کہ کچھ اِس کی نقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں اپنی گواہی اتنی فصاحت کے ساتھ پیش نہیں کر سکتا جتنی سپرجیئن Spurgeon نے کی تھی۔ لیکن جو کچھ اُنہوں نے محسوس کیا تھا میں نے بھی محسوس کیا تھا جب یسوع نے مجھے میرے گناہ سے نجات دی تھی۔ سپرجیئن، نے ایک پندرہ سالہ لڑکے کی حیثیت سے کہا،

      کوئی بھی چیز میرے لیے اِس قدر سچی نہیں تھی جتنے کہ وہ خون بہتے ہوئے ہاتھ، اور وہ کانٹوں کے تاج والا سر۔ گھر، دوست، صحت، دولت، آرام – اُن تمام نے اُس دِن اپنی لذت کو کھو دیا تھا جب وہ نمودار ہوا تھا... وہ زندگی کی بہترین برکات کا دینے والا اور واحد خداوند تھا، دائمی زندگی کی طرف بہتے ہوئے زندگی کے پانی کا واحد چشمہ۔ جب میں نے یسوع کو اپنی صلیب پر اپنے سامنے دیکھا، اور جب میں نے اُس کے مصائب اور موت پر [سوچا]، میں نے [خیال کیا] کہ میں نے اُس کو اپنے پر ایک محبت بھری نظر ڈالتے ہوئے دیکھا تھا؛ اور تب میں نے یسوع کی طرف دیکھا، اور پکار اُٹھا –

اے یسوع، میری جان کے محبوب،
مجھے اپنے سینے سے لگ جانے دے۔

اُس نے کہا ’’آؤ‘‘ اور میں اُس کے سینے سے لگ گیا؛ اور جب اُس نے مجھے دوبارہ چھوڑا، تو میں حیران ہوا کہ میں بوجھ کہاں چلا گیا تھا۔ وہ جا چکا تھا! وہ وہاں، مزار میں، پڑا تھا...‘‘ میں نے یسوع کو پا لیا تھا،‘‘ میں، ایک [لڑکے] نے جلال کے بادشاہ کو پا لیا تھا؛ میں، گناہ کے ایک غلام نے، عظیم نجات دہندہ کو پا لیا تھا؛ میں، ایک تاریکی کے بچے نے، اپنے نجات دہندہ اور اپنے خُدا کو پا لیا تھا (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، مسیح میں تبدیلی: ایک عظیم تبدیلی Conversion: The Great Change، پلگرم اشاعت خانےPilgrim Publications ، n.d.، صفحہ 22)۔

ہم کس قدر دعا کرتے ہیں کہ آپ بھی اُس خوشی کو تھوڑا سا تجربہ کریں جو سپرجیئن نے ایک نو عمر کی حیثیت سے 1850 میں جنوری کی ایک سرد صبح کو محسوس کی تھی! پانچ سالوں سے کم عرصہ کی مدت میں سپرجیئن، وہ ’’لڑکا مبلغ‘‘، لندن میں ہزاروں لوگوں سے مخاطب ہو رہا تھا! خُدا کرے آج کی رات آپ یسوع مسیح پر بھروسہ کریں۔ یسوع اب بھی ویسا ہی ہے جیسا وہ اُس وقت تھا۔ اگر آپ اُس پر بھروسہ کریں گے تو وہ آپ کے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا اور آپ کو اپنے قیمتی خون کے ساتھ دھو کر پاک صاف کر دے گا۔ آمین۔

کیا آپ نجات پانے، ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں ہم سے بات چیت کرنا پسند کریں گے؟ اگر ایسا ہے، تو مہربانی سے بالکل ابھی اپنی نشست چھوڑیں اور اجتماع گاہ کی پچھلی جانب چلے جائیں۔ ڈاکٹر کیگنDr. Cagan آپ کو دعا کی ایک پرسکون جگہ پر لے جائیں گے۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے آئیں اور اُن کے لیے دعا کریں جنہوں نے ردعمل کا اظہار کیا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: رومیوں8:‏5۔9 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’کس قدر بے بس قصوروار قدرت پڑی ہے How Helpless Guilty Nature Lies‘‘
(شاعر عینی سٹیلی Anne Steele‏، 1717۔1778؛
بطرز “O Set Ye Open Unto Me”).

لُبِ لُباب

نفسانی انسان اور حقیقی مسیحی

THE CARNAL MAN AND THE REAL CHRISTIAN

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز،جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’جو لوگ جسم کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات نفسانی خواہشات کی طرف لگے رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ رُوح کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اُن کے خیالات رُوحانی خواہشوں کی طرف لگے رہتے ہیں۔ جسمانی نیّت مَوت ہے لیکن رُوحانی نیّت زندگی اور اِطمینان ہے۔ اِس لیے کہ جسمانی نیّت خدا کی مخالفت کرتی ہے۔ وہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے۔ جو لوگ جسم کے غلام ہیں خدا کو خُوش نہیں کر سکتے۔ لیکن تُم اپنے جسم کے نہیں بلکہ رُوح کے تابع ہو بشرطیکہ خدا کا روح تُم میں بسا ہُوا ہو۔ اور جس میں مسیح کا رُوح نہیں وہ مسیح کا نہیں‘‘ (رومیوں 8:‏5۔9).

(یوحنا3:‏7؛ لوقا15:‏24؛ رومیوں8:‏6)

I.   اوّل، جسمانی نیت رکھنے والے، 1یوحنا2:‏15۔16؛ افسیوں2:‏1، 5؛
1کرنتھیوں2:‏14؛ رومیوں8:‏6؛ یوحنا3:‏7 .

II.  دوئم، روحانی نیت رکھنے والے، رومیوں8:‏6، 9 ۔