Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

ابتدائی کلیسیا میں بشروں کو جیتنے والی آگ

SOUL WINNING FIRE IN THE EARLY CHURCH
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
28 اپریل، 2013، خُداوند کے دِن کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, April 28, 2013

’’جب کبھی میں بولتا ہُوں، میں زور سے پُکارتا ہُوں اور تشدّد اور تباہی کا اعلان کرتا ہُوں۔ اِس لیے خداوند کا کلام دِن بھر میرے لیے تذلیل اور ملامت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میں کہوں، میں اُس کا ذکر نہ کروں گا نہ اُس کے نام سے پھر کبھی بولوں گا، تو اُس کا کلام میرے دل میں آگ کی طرح دہکتا ہے، گویا میری ہڈّیوں میں آگ بند کی گئی ہو۔ جسے میں ضبط کرتے کرتے تھک گیا، اور مجھ سے رہا نہیں جاتا‘‘ (یرمیاہ 20:‏8۔9).

یرمیاہ نے پیشن گوئی کی تھی کہ یہودی اپنے گناہوں کی وجہ سے بابلیوں کی اسیری میں چلے جائیں گے۔ لوگوں نے اُس کی منادی کو قبول نہیں کیا۔ اُنہوں نے اُس کو نہ سُننے پر اتفاق کیا۔ ہیکل کی پولیس کا ناظمِ اعلٰی فشحُور Pashur تھا۔ فشحور نے اُسے پٹوایا اور کال کوٹھڑی میں ڈلوا دیا۔ مار دُرّے سے چالیس کوڑے پٹوانے کی تھی، بالکل ویسی ہے سزا جو یسوع نے پینطُس پیلاطوس سے پائی تھی۔ کال کوٹھڑی میں بیڑیاں جن میں اُس کو جکڑا گیا تھا ایسی تھیں کہ اُس کے ہاتھوں اور پیروں اور گردن کو سوراخوں میں جکڑا گیا تھا جس سے اُس کا بدن انتہائی دردناک حالت میں مُڑجاتا تھا۔ جب یرمیاہ کو کال کوٹھڑی میں سے رہا کیا گیا تو اُس نے فشحورکو بتایا کہ وہ اور اُس کا خاندان، باقی یہودہ کے ساتھ بابلیوں کی اسیری میں چلے جائیں گے۔ پھر نبی نے شدید مایوسی کے دور کا تجربہ کیا تھا۔ اُس نے خُدا سے شکایت کی کہ اُس کا تمسخر اُڑایا گیا اور اُسے ٹھٹھوں میں لیا گیا۔ اُس نے کہا، ’’لعنت اُس دِن پر جس میں مَیں پیدا ہوا ... میں رحم سے باہر ہی [کیوں] نکلا کہ دُکھ اور رنج دکھوں اور اپنے دِن رُسوائی میں گزاروں؟‘‘ (یرمیاہ20:‏14، 18)۔ اُس نے شکوہ کیا کہ خُداوند کا کلام جس کی اُس نے منادی کی اُس کے لیے دِن بھر تذلیل اور ملامت کا باعث بنا۔

’’لیکن اگر میں کہوں، میں اُس کا ذکر نہ کروں گا نہ اُس کے نام سے پھر کبھی بولوں گا‘‘ (یرمیاہ 20:‏9).

میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اُس نے کیسا محسوس کیا تھا یا کم از کم اُس کے کافی قریب تر کہ اُس نے کیسا محسوس کیا تھا۔ 1972 میں سان فرانسسکو کے نزدیک گولڈن گیٹ بپتسمہ دینے والی سیمنری میں میں نے ویسا ہی کیا تھا جیسا یرمیاہ نے کیا تھا۔ میں نے منادی کرنا چھوڑ دیا تھا۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ ہر کوئی میرے خلاف تھا، اور کوئی بھی نہیں سُنے گا۔ میں نے واقعی اپنے دِل میں کہا تھا، ’’میں اِس کا ذکر نہیں کروں گا، نہ اُس کے نام سے پھر کبھی بولوں گا۔‘‘ لیکن یہ صرف چند دِن تک ہی برقرار رہا تھا۔ پھر ایک رات تقریبا 2:00 بجے کے قریب، خُدا نے مجھے دوسری مرتبہ منادی کرنے کے لیے بُلایا۔ میں تقریباً وہی الفاظ کہہ چکا ہوتا جیسے یرمیاہ نے کہے تھے،

’’لیکن اگر میں کہوں، میں اُس کا ذکر نہ کروں گا نہ اُس کے نام سے پھر کبھی بولوں گا، تو اُس کا کلام میرے دل میں آگ کی طرح دہکتا ہے، گویا میری ہڈّیوں میں آگ بند کی گئی ہو۔ جسے میں ضبط کرتے کرتے تھک گیا، اور مجھ سے رہا نہیں جاتا‘‘ (یرمیاہ 20:‏9).

تبلیغ کرنے سے روکے جانے پر اُس کی حالت بُری ہو گئی تھی۔ خُدا کے کلام اُس کی ہڈیوں میں ایک جلتی ہوئی آگ تھا۔ وہ دوبارہ منادی کرنے کے لیے مجبور تھا! وہ نہیں رُک سکا ہوگا کیونکہ خُدا کا کلام اُس کی ہڈیوں میں آگ کی مانند جل رہا تھا! ڈاکٹر رائس Dr. Rice نے کہا، ’’صرف وہی مبلغ جو تبلیغ کرتا ہے کیونکہ اُسے ہڈیوں میں جلتی آگ کے ساتھ منادی کرنی چاہیے، اُن لوگوں کو تبلیغ کرے گا جو اُس سے نفرت کرتے ہیں، یا اُس کی تضحیک کرتے ہیں، یا اُس کو نظر انداز کرتے ہیں‘‘ (جان آر۔ رائس، ڈی۔ ڈی۔، ’’بشروں کو جیتنے کی آگ The Soul Winner’s Fire،‘‘ غُنچۂ بائبل The Bible Garden، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1982، صفحہ 343)۔ پولوس رسول نے بھی اپنی ہڈیوں میں آگ محسوس کی تھی جب اُس نے کہا،

’’اگر میں انجیل کی منادی کرتا ہُوں تو اِس لیے نہیں کہ شیخی بگھاروں کیونکہ یہ تو میرا فرض ہے۔ بلکہ مجھ پر افسوس ہے اگر میں انجیل کی منادی نہ کروں!‘‘ (1۔ کرنتھیوں 9:‏16).

ابتدائی مسیحیوں نے ایسی ہی آگ اپنی ہڈیوں میں محسوس کی تھی جب پاک روح نازل ہوا تھا، ’’آگ کے شعلوں کی سی، اور ... اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں‘‘ (اعمال 2:‏3)۔ آگ پطرس کی ہڈیوں میں اِس قدر شدت سے لگی کہ وہ شریعت کے عالمین کے سامنے زور سے پُکار اُٹھا، ’’ممکن نہیں کہ ہم نے جو کچھ دیکھا اور سُنا ہے اُس کا ذکر نہ کریں‘‘ (اعمال4:‏20)۔ ایک بہت مشہور بپتسمہ دینے والے پادری، جان پائپر John Piper، کچھ ہفتے قبل ہی ’’ملازمت سے فارغ retired‘‘ ہوئے تھے۔ عہدہ چھوڑنے کے ایک دِن بعد اُنہوں نے اِس قدر سکون محسوس کیا کہ اُنہوں نے کہا، ’’واحد آنسو جو آئے وہ شکرگزاری کے تھے ... یہ اختتام پزیر ہوا۔‘‘ میں اِس قسم کے انسان کو واقعی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ بہت طرح سے ایک اچھے انسان ہیں، لیکن اُن کی ہڈیوں میں وہ آگ کہاں ہے؟ وہ پاک شفاعیت کہاں ہے جس نے اذیت میں مبتلا رسولوں کو زور زور سے پکارنے پر مجبور کیا تھا، ’’ہم پر انسان کے حکم کی بجائےخُدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے‘‘؟ (اعمال 5:‏29)۔ کہاں ہے ہڈیوں میں وہ آگ جس نے پولوس کو یہ کہنے پر مجبور کیا تھا، ’’مجھ پر افسوس اگر میں انجیل کی منادی نہ کروں!‘‘ (1۔ کرنتھیوں9:‏6)؟ جیسا کہ ڈاکٹر رائس Dr. Rice نے کہا، ’’صرف وہی مبلغ جو تبلیغ کرتا ہے کیونکہ اُسے ہڈیوں میں جلتی آگ کے ساتھ منادی کرنی چاہیے، اُن لوگوں کو تبلیغ کرے گا جو اُس سے نفرت کرتے ہیں، یا اُس کی تضحیک کرتے ہیں، یا اُس کو نظر انداز کرتے ہیں‘‘ میں کہتا ہوں بہت ہو چکی نرمی کے ساتھ بائبل کی تعلیمات دینا۔ ہمیں وائٹ فیلڈ Whitefield اور ویزلی Wesley جیسے مبلغین کی ضرورت ہے – لوگ اپنی ہڈیوں میں آگ کے ساتھ!

سالوں پہلے، جب ہم آدھی رات کے بعد واشنگٹن ڈی۔ سی۔ میں گاڑی پر داخل ہو ئے تھے، میں نے ایک کورس کی ترتیب دی تھی جو کہ ہم بہت گایا کرتے تھے۔

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔
(’’خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج Lord, Send Tongues of Fire ‘‘ شاعر پادری)۔

اِسے میرے ساتھ گائیے!

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

ابتدائی مسیحیوں کے پاس اُن کی ہڈیوں میں خُدا کی آگ جلتی تھی۔ ڈاکٹر فلپ شیف Dr. Philip Schaff نے کہا، (مسیحی کلیسیا کی تاریخ History of the Christian Church، عئیرڈمینز اشاعتی کمپنی Eerdmans Publishing Co.، دوباری اشاعت 1976، جلد دوئم)۔

      یہ ایک شاندار حقیقت ہے کہ رسولوں کے ایام کے بعد عظیم مشنریوں کے ناموں کا تزکرہ نہیں ہے جب تک کہ چھٹی صدی سے سولہویں صدی یعنی قرون وسطیٰ کا دور نہیں آیا ... وہاں کوئی مشنری انجمنیں نہیں تھیں، کوئی مشنری ادارے نہیں تھے، کوئی بھی منظم کوششیں نہیں تھیں ... اور اِس کے باوجود مقدس یوحنا کی موت سے لیکر 300 سالوں سے کم عرصے میں رومی سلطنت کی تمام آبادی جو کہ اُس وقت مہذب دُنیا کی نمائیندگی کرتی تھی کسی حد تک مسیحیت میں بدل گئی تھی۔
      اِس حیرت میں مبتلا کر دینے والی حقیقت کو سمجھنے کے لیے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بنیاد خود رسولوں کے ذریعے سے انتہائی مضبوط اور گہری رکھی گئی تھی۔ اُن کے وسیلے سے بیج جو یروشلم سے لیکر روم تک بکھرا، اور اُن کے خون کے ذریعے سے زرخیز ہوا، کثرت سے تیار فصل کی مانند کِھلا تھا ...
      مسیحیت ... خود اپنی بہترین مشنری تھی۔ یہ قدرتی طور پر خود میں سے پروان چڑھتی رہی۔ اِس نے اپنی خود کی موجودگی سے لوگوں کو محسور کیا۔ یہ اندھیرے میں چمکتی ایک روشنی تھی اور اندھیرے کو منور کر رہی تھی۔ اورجبکہ وہاں کوئی پیشہ ور مشنری اپنی تمام زندگی اِس مخصوص کام کے لیے وقف نہیں کر رہے تھے، ہر مزہبی جماعت [گرجہ گھر] ایک مشنری انجمن تھا، اور ہر مسیحی ایک مشنری تھا، جو مسیح کے پیار کے وسیلے سے اپنے ساتھیوں کو تبدیل کرنے کے لیے تن افروز تھا۔

’’خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج!‘‘ اِسے گائیے!

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

      شہید جسٹن Justin Martyr ایک باعزت بوڑھے آدمی کے ذریعے سے تبدیل ہوا تھا جسں ساحل سمندر پروہ سیر کرتے ہوئے ملا تھا ... ’’ہر مسیحی‘‘ کہتا ہے ٹرٹولین Tertullian، دونوں خُدا کو ڈھونڈتے ہیں اور اُس کا ثبوت دیتے ہیں ...‘‘ سیلسُس Celsus طعنہ زنی کرتے ہوئے رائے دیتا ہے کہ [وہ جو کپڑا بیچتے تھے] اور اُون اور چمڑے کا کام کرنے والے مزدور، دیہاتی اور جاہل لوگ، سب سے زیادہ جوشیلے مسیحیت کا پرچار کرنے والے تھے ... عورتوں اور غلاموں نے اِسے گھریلو حلقوں میں متعارف کروایا ... اُریجن Origen ہمیں مطلع کرتا ہے کہ شہر کے گرجہ گھر اپنے مشنریوں کو دیہاتوں میںبھیجتے تھے۔ بیج پروان چڑھتا رہا جبکہ لوگ سوئے ہوئے تھے ... ہر مسیحی نے اپنے پڑوسی کو بتایا، مزدور نے اپنے ساتھی مزدور کو بتایا، غلام نے اپنے ساتھی غلام کو بتایا، خادم نے اپنے آقا اور مالکن کو بتایا، اپنی خود کی مسیحی میں تبدیل ہو جانے کی کہانی، جیسے ایک [ملاح] بحری جہاز کی تباہی سے بچائے جانے کی کہانی سُناتا ہے
      انجیل [پھیلی] تھی جیتی جاگتی منادی کرنے کے ذریعے سے اور ذاتی [گفتگو] کے ذریعے سے ...

’’خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج!‘‘ اِسے دوبارہ گائیے!

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

      جسٹن شہید کہتے ہیں، دوسری صدی کے وسط کے نزدیک: یہاں کوئی لوگ نہیں ہیں، یونانی یا غیرمہذب، یا کسی دوسری نسل کے ... جن کے درمیان شکرگزاریاں اور دعائیں تمام چیزوں کے خالق اور باپ کے لیے یسوع مصلوب کے نام میں نہیں گزرانی جاتی ہیں۔‘‘ آدھی صدی کے بعد ٹرٹولین Tertullian باغیانہ انداز میں کافروں کو تقریر کرتا ہے، ’’ہم گزرے ہوئے کل کے علاوہ کچھ نہیں ہیں [ہم مسیحی صرف تھوڑے ہی عرصے میں وجود میں آئے ہیں]، اور اِس کے باوجود ہم پہلے ہی تمہارے شہروں، جزیروں، کیمپوں، تمہارے محلوں، قانون سازی کے ایوانوں اور عوامی جرگوں کو بھر چکے ہیں؛ ہم نے تمہارے پاس صرف تمہارے مندر چھوڑے ہیں‘‘ ... تیسری صدی کے اختتام کے قریب مسیح کا نام مشہور تھا، قابل احترام تھا، اور سلطنت کے ہر صوبے اور ہر شہر میں ستایا جاتا تھا۔ میکسیمیعن Maximian اپنے احکامات میں سے ایک میں، کہتا ہے کہ ’’تقریباً سب نے‘‘ اپنے آباؤاِجداد کی پرستش [مسیحیت] کے لیے چھوڑ دی تھی ... تیسری صدی کے خاتمے پر ... رومی حکومت کی ایک تہائی رعایا [مسیحی تھی]، یہ تقریباً لوگوں کی دس ملین [سو لاکھ] تعداد ہے ... لیکن یہ حقیقت کہ مسیحی ... تروتازہ، توانائی سے بھرپور، پُراُمید، تھے اور روزانہ بڑھ رہے تھے، جبکہ کافر ... روزانہ ختم ہو رہے تھے، اِس نے کلیسیا کی صحیح قوت بہت بڑھا دی تھی (ibid.، صفحات 19۔22)۔

عظیم ایذا رسانیوں کے درمیان میں – یاد رکھئیے کہ مسیحیت بغیر سرکاری مشنریوں کے، بغیر گرجہ گھر کی عمارتوں کے، بغیر حکومت کے تحفظ کے پھیلی اور پروان چڑھی تھی۔ اِن ابتدائی مسیحیوں کے پاس کیا تھا جس نے اُن کے ایمان کو کافر روم کو فتح کرنے کا سبب بنایا؟ اُن کے پاس اُن کی ہڈیوں میں مسیح کی آگ جل رہی تھی! یہ ہے جو اُنکے پاس تھی! یہ یہی ہے جو ہمارے پاس بھی ہونی چاہیے! اِسے گائیے!

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

اب غور کریں کہ اُن کی صورتحال ہمارے ساتھ کتنی ملتی تھی۔ ڈاکٹر شیف Dr. Schaff نے کہا،

      قُسطُنطین Constantine کی حکومت تک [مسیحیت] کی رومی سلطنت میں قانونی حیثیت بھی نہیں تھی، بلکہ شروع میں یہودی فرقے کے طور پر نظر انداز کی گئی تھی، پھر توہین کی گئی، [خلاف قانون ٹھہرائی گئی]، اور اذیتیں دی گئیں ... اِس کو اپنانے کی سزا موت ... کے ساتھ واجب قرار دی گئی تھی۔ اِس کے علاوہ اِس نے مسیح میں تبدیلی اور کفارے کے اپنے سنگدلانہ تقاضے کا، خود کی اور دُنیا سے دستبرداری کا اظہار کیا، جس نے، ٹرٹولیعن Tertullian کے مطابق، زندگی سے پیار کے مقابلے میں خوشی دینے والی چیزوں سے پیار کی وجہ سے نئے [مذہب] سے دور رکھا تھا۔
      لیکن اِن تمام [شدید] مشکلات کے باوجود مسیحیت نے ترقی کی اور موافقت پیدا کی جس نے انسان کی انتہائی گہری ضروریات کے لیے اور اِس کی الٰہی ابتدا کو نمایاں ثبوت سے آراستہ کیا ... جی نہیں، [خُدا] کے ہاتھوں میں وہی رُکاوٹیں ترقی دینے کے عمل کا ذریعہ بن گئیں۔ ایذا رسانیوں نے شہادت کے لیے رہنمائی کی، اور شہادت میں تنہا دھشتیں ہی نہیں تھیں، بلکہ دلکشی بھی تھی ... ہر شہید مسیحی مذہب کی پاکیزگی اور سچائی کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ ٹرٹولیعن Tertullian کافروں سے کہہ سکا ہوگا: تمہاری تمام ہوشیار سفاکتیں کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتیں؛ وہ صرف [مذید اور لوگوں کو مسیحی ہونے کے لیے]لُبھاتی ہیں۔ ہمارے افراد جتنے تم ہمیں تباہ کرو گے اُتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ مسیحیوں کا خون اُن کا بیج ہے۔‘‘ مسیحیوں کا اخلاقی خلوص زمانے کی زور آور بدکاری سے محکم طور پر برعکس تھا،اور جس دوران اِس نے [بدکاروں کو دور کیا] اِس نے انتہائی شدت کے ساتھ سب سے زیادہ بُلند مرتبہ اور مفکرانہ ذہنوں کو متاثر کیا ... ٹرٹولیعن نے وثوق کے ساتھ کہا کہ کارتھج Carthage کا دسواں حصہ، اور اُس میں بھی قانون سازی کے ایوانوں کے اِراکین اور انتہائی معزز خاندانوں کی خواتین ... نے مسیحیت کا اقرار کیا (ibid.، صفحات 14، 15)۔
      کافرپرستی نے بیرونی طور پر [طاقت] کو قابو میں کیا ہوا تھا، لیکن اندرونی طور پر وہ گل سڑ چکی تھی اور ناقابلِ ترمیم سڑن کے عمل میں تھی [بالکل جیسے یہ آج کل ہے!]۔ رومی سلطنت کا رُعب صرف تلوار کے زور پر تھا... معاشرے کے اخلاقی بندھن [ٹوٹ] گئے تھے؛ لامحدود [لالچ] اور ہر قسم کی اخلاقی کمزوری ... روم اور اُس کے صوبوں پر حکومت کرتی تھیں ... اُس اُمڈتی ہوئی رات میں اُمید کا واحد ستارہ، حال اور مستقبل کے واحد جیتے جاگتے مذہب کے طور پر، وہ نوجوان، تروتازہ، یسوع کا [نڈر] مذہب تھا،جس کو موت کا خوف نہیں تھا، جوایمان میں مضبوط تھا، [تدریجی طور پر دیکھا گیا تھا] جو پیار کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ جبکہ دُنیا جنگوں، اِنقلابی تبدیلیوں اور عوامی آفتوں کی وجہ سے مسلسل بےچینی کا شکار تھی ... ہر طرف سے مخالفت کے خوف سے بھرپور اور اندرونی خطرے کے باوجود [مسیحیت کا] نیا مذہب، سچائی کی پُرکشش قوت کے ساتھ خاموشی سے بڑھ رہا تھا، اور خود سے ہی نسل کی رگ رگ میں آہستہ آہستہ کام کیا۔ ’’مسیح ظاہر ہوا تھا،‘‘ عظیم آگسٹین Augustin کہتے ہیں، ’’گلتی سڑتی تنزل پزیر دُنیا کے لوگوں کے لیے، کہ جب کہ اُن کے اردگرد سب کچھ تباہ ہو رہا تھا، وہ شاید اُس کے وسیلے سے نئی، نوخیز زندگی پاتے‘‘ (ibid.، صفحہ 17)۔

بالکل یہی ہے جو ہم اِس مرتی ہوئی قوم کے درمیان میں نوجوان لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔ جبکہ ہمارا تمدّن ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے، اور یہاں کوئی اُمید بھی نظر نہیں آ رہی ہے – ہم مسیح پیش کرتے ہیں! ہم دعا کی قوت پیش کرتے ہیں! ہم مسیح کی بادشاہت میں مستقبل کے انعام پیش کرتے ہیں! ہم خالص اِخلاقیات پیش کرتے ہیں! ہم باہر نکلنے اور کھوئے ہوؤں کو لانے کے لیے جوش پیش کرتے ہیں کہ شاید وہ مسیح میں زندگی اور اُمید پائیں! یہ وہ چیزیں ہیں جو وہ لاس اینجلز کے تاریک گلیوں میں کہیں نہیں پا سکتے ہیں! اُنہیں اندر لائیں! اُنہیں اندر لائیں! اِسے دوبارہ گائیں!

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

اُن ابتدائی مسیحیوں نے لوگوں کو آنے اور واعظ سُننے کے لیے مدعو کیا تھا، اور مسیح کے لیے وقف کیے ہوئے کھانے میں شامل کیا تھا۔ گرجہ گھر میں پیار کے سادہ سے اوزاروں کے ساتھ، اور گرجہ گھر میں کھانوں کے ساتھ، اور گرجہ گھر میں رفاقت کے ساتھ، ابتدائی مسیحیوں نے رومی سلطنت کو فتح کیا تھا! یہی چیز بالکل ابھی چین میں موجود مسیحی کر رہے ہیں! اُن کے اُوزار ویسے ہی ہیں جیسے ابتدائی مسیحیوں کے تھے۔ ’’آئیں اور ہمارے ساتھ کھانے میں شامل ہوں۔‘‘ آئیں اور مسیح کی انجیل سُنیں۔‘‘ ہمارے ساتھ آئیں کیونکہ ہم جیتنے والی سائیڈ پر ہیں۔‘‘

ہالی ووڈ کے گندے ذہنوں والے امیر تاجر آخر میں ہار جائیں گے! واشنگٹن میں بدذات لوگ آخر میں ہار جائیں گے! وہ جو مسیحی اِخلاقیات سے نفرت کرتے ہیں آخر میں ہار جائیں گے! مسیح سے نفرت کرنے والے کالج کے پروفیسرز آخر میں ہار جائیں گے! باہر نکلیں اور اُنہیں عظیم خوش خبری سُننے کے لیے اندر لائیں –

’’دُنیا کی بادشاہی ہمارے خداوند، اور اُس کے مسیح کی ہو چُکی ہے؛ اور وہ ہمیشہ تک بادشاہی کرتا رہے گا‘‘ (مکاشفہ 11:‏15).

اسے گائیے!

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

کتنے کہیں گے، ’’پادری صاحب، مجھے دکھائی دے گیا! یہی ہے جس کی مجھے ضرورت ہے! مجھے معمور ہونے کے لیے پاک روح کی آگ کی ضرورت ہے – اور کھوئے ہوؤں کے پیچھے جانے اور اُنہیں اندر لانے کے لیے تحریک دینے کے لیے پاک روح کی آگ کی ضرورت ہے۔‘‘ اگر یہی آپ کی خواہش اور آپ کی دعا ہے، تو ابھی سامنے کی جانب آ جائیں۔ جلدی سے آئیں جبکہ ہم وہ کورس گاتے ہیں! بالکل یہاں چوبوترے پر آ جائیں۔ آ جائیں! ہر کوئی جو خُدا کے بشروں کو جیتنے کی قوت چاہتا ہے، آپ آئیں۔ اِسے گائیں جبکہ وہ آتے ہیں۔

خُداوند، شعلوں کی زبانیں بھیج،
   اُن کو مجھ پر اُترنے دے۔
مجھے پاک قوت کے ساتھ آگے بھیج
   تیرے لیے کھوئے ہوئے بشروں کو جیتنے کے لیے۔

(دُعّا)

آپ اپنی نشست کے لیے واپس جا سکتے ہیں۔ یسوع مسیح صلیب پر آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مرا۔ وہ مُردوں میں سے آپ کو زندگی دینے کے لیے جی اُٹھا۔ اگر آپ اُس پر بھروسہ کرنے کے بارے میں اور ایک حقیقی مسیحی بننے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے کمرے کی پچھلی جانب جلدی سے قدم بڑھائیں جبکہ میں دعا کرتا ہوں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: یرمیاہ 20:‏1۔9 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’خُداوند، شعلوں کی زبان بھیج‘‘ (پاسٹر کی جانب سے)۔