Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

نوح – فضل کے وسیلے سے بچایا گیا!

!NOAH – SAVED BY GRACE
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 42)
(SERMON #42 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی شام، 20 اپریل، 2008
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, April 20, 2008

’’لیکن نوح خُدا کی نظر میں مقبول ہوا۔ نوح کے حالات یوں ہیں: نوح راستباز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘‘ (پیدائش 6:8۔9)۔

آج صبح (20 اپریل، 2008) میں نے پیدائش 6:1۔5 میں سے ’’ایک بدنصیب دُنیا کی شبیہہ‘‘ کے عنوان سے ایک واعظ کی تبلیغ کی۔ ہم نے دیکھا کہ سیلاب سے پہلے نوع انسانی شیطانی طور پر قابو میں تھی۔ ہم نے دیکھا کہ نسل انسانی نے خُدا کے روح کے قائل کر دینے اور تبدیل کر دینے والے اعمال کی مزاحمت کی۔ اور ہم نے انسان کی گناہ میں گری ہوئی مکمل مسخ شُدہ حالت کو دیکھا جو اِس قدر واضح طور پر بیان کی گئی،

’’اور خُداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی ہے، اور اُس کے دِل کے خیالات ہمیشہ بدی کی طرف مائل رہتے ہیں‘‘ (پیدائش6:5)۔

ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan ایک عظیم بائبل کے اُستاد تھے جن کو میں نے پنتالیس سال پہلے خود ذاتی طور پر لاس اینجلز کے مرکزی قصبے میں اوپن ڈور کے گرجہ گھر میں سُنا تھا، جب ڈاکٹر جے۔ ورنن میکجی Dr. J. Vernon McGee پادری تھے۔ میں ایک ہفتے تک ڈاکٹر ڈیحان کو تبلیغ کرتے سُنتے رہا۔ میں اُس سے جو اُنہوں نے کہا انتہائی شدت کے ساتھ متاثر تھا اور کبھی بھی اُنہیں نہیں بُھلایا۔ بعد میں اُن کی نوح کا زمانہ The Days of Noah نامی کتاب میں نے پڑھی۔ یہ واضح مختصر اور جامع ہے۔ اگر آپ اُس کی نقل پا سکیں، تو ہر ممکن طرح سے ایسا کریں، شاید انٹر نیٹ پر سے۔ نوح کے زمانے سے تعلق رکھتے ہوئے، ڈاکٹر ڈیحان نے کہا،

یوں لگتا ہے جیسے انسانیت کی یہ تنزلی اِس قدر پستی تک چلی گئی ہے کہ فوری عمل کی ضرورت تھی... یوں لگتا تھا کہ وہاں پر صرف ایک خاندان تھا جو شیطان کے پروگرام سے متاثر نہیں ہوا تھا، اور یہ ایک خاندان نوح کا تھا۔ شیطانی سرگرمیوں کے نتیجے کے طور پر ناقابل بیان بدکاری، غلاظت اور تذلیل کے بعد، ہم ایک معنی خیز ’’لیکن‘‘ پر پہنچتے ہیں۔ اِس جملے کے بعد، ’’میں انسان کو جسے میں نے پیدا کیا روئے زمین پر سے مٹا دوں گا...‘‘ (پیدائش6:7)، اگلی آیت کہتی ہے، ’’لیکن نوح خُداوند کی نظر میں مقبول ہوا‘‘ (پیدائش 6:8)۔ شیطانی بدکاری کے گھٹیا اندراج میں واحد مثتثنٰی قرار دینے والی بات نوح دکھائی دیتا ہے (ایم۔ آر۔ ڈیحان، ایم۔ ڈی۔ M. R. DeHaan, M.D.، نوح کا زمانہ The Days of Noah، ژونڈروان پبلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، 1963، صفحہ 147)۔

’’لیکن نوح خُدا کی نظر میں مقبول ہوا۔ نوح کے حالات یوں ہیں: نوح راستباز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘‘ (پیدائش 6:8۔9)۔

پیدائش چھ باب میں کلام پاک کا یہ حوالہ تین اہم سچائیوں کو ظاہر کرتا ہے جن کے بارے میں مَیں چاہتا ہوں کہ آپ آج رات کو سوچیں۔

I۔ اوّل، حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ چند ہی بچائے جاتے ہیں۔

نوح اور اُس کے خاندان کے علاوہ کوئی بھی سیلاب سے پہلے کے زمانے میں سے نہیں بچا تھا۔ ’’جدید‘‘ ذہن اِس خیال کو سوچ کر ڈر سے دُبک جاتا ہے کہ اِس قدر کم بچائے گئے تھے۔ اور اِس کے باوجود یہ کلام پاک کے بڑے مرکزی موضوعات میں سے ایک ہے۔ تمام بائبل میں سے ہم دریافت کرتے ہیں کہ نجات ہمیشہ سے ایک چھوٹی سی اقلیت کو ملی ہے۔ خُداوند یسوع مسیح کے مقابلےمیں کسی اور نے اِس قدر واضح تر نہیں کیا جب اُس نے کہا،

’’تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں کیونکہ وہ دروازہ تنگ اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی 7:13۔14).

اس دُنیا میں جو غلط راستے پر گامزن ہے حقیقی مسیحی ہمیشہ ایک اقلیت رہے ہیں۔ لیکن یسوع نے کہا،

’’اَے چھوٹے گلّے؛ ڈر مت، کیونکہ تمہارے باپ کی خوشی اِسی میں ہے کہ وہ تمہیں بادشاہی عطا فرمائے‘‘ (لوقا 12:32).

جب یسوع یروشلم کی جانب سفر کر رہا تھا تو کسی نے کہا،

’’ اَے خداوند! کیا تھوڑے سے لوگ ہی نجات پا سکیں گے؟ اُس نے اُن سے کہا، تنگ دروازے سے داخل ہونے کی پوری کوشش کرو کیونکہ میں تُم سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن نہ جا سکیں گے‘‘ (لوقا 13:23۔24).

بہت سے مسیح کے لیے اندر جانے کی ’’تلاش‘‘ کریں گے، لیکن صرف چند ایک ہی ایسا کرنے کی ’’کوشش‘‘ کرتے ہیں۔ یونانی لفظ ’’اگونیزومائی agonizomai‘‘ – ’’اذیت برداشت کرنا‘‘ ہوتا ہے۔ صرف چند ایک ہی حقیقی تبدیلی کی اذیت سے گزرتے ہیں۔ وہ جو ’’کوشش‘‘ کرتے ہیں داخل ہو جاتے ہیں۔ وہ جو محض ’’تلاش‘‘ کرتے ہیں کھوئے رہتے ہیں۔ ایسا ہی نوح کے زمانے میں ہوتا تھا، اور ایسا ہی آج کے زمانے میں ہوتا ہے۔ کوئی بھی کشتی میں داخل نہیں ہوا، اور کوئی بھی بچایا نہیں گیا تھا ماسوائے نوح اور اُس کے خاندان کے۔ آج بھی کوئی اتنا فرق نہیں ہے،

’’تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں کیونکہ وہ دروازہ تنگ اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی 7:13۔14).

ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے کہا،

اِس کا موازنہ لوقا13:24 کے ساتھ کریں۔ تو ہولناک معنی واضح ہوتا ہے۔ جہنم کی طرف جانے والا راستہ جنت کی طرف جانے والے راستے کے مقابلے میں کُشادہ تر ہے۔ زیادہ لوگ جنت کے مقابلے میں جہنم میں جاتے ہیں۔ دروازہ اور راستہ یسوع ہے (یوحنا14:6)۔ اِس دُنیا میں اِس کے علاوہ کوئی اور راستہ جس سے لوگ نجات پانے کی کوشش کریں مسیح میں ایمان کے وسیلے سے نئے سرے سے جنم لیے بغیر تو وہ ہمیشہ کی تباہی کی جانب رہنمائی کرے گا۔ جنت میں جانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے۔ دیکھیں یوحنا10:1؛ اعمال4:12 (جان آر۔ رائس، ڈی۔ڈی۔ John R. Rice, D.D.، یہودیوں کا بادشاہ: متی کی انجیل کے مطابق آیت بہ آیت تبصرہ The King of the Jews: A Verse-by-verse Commentary on the Gospel According to Mathew، خداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1980 ایڈیشن، صفحہ 121)۔

میں مکمل طور پر وضاحت نہیں کر سکتا کہ کیوں زیادہ تر لوگ مسیح کے لیے ’’داخل ہونے کی کوشش‘‘ میں ناکام ہوتے ہیں۔ میں 1958 سے مکمل پچاس سالوں تک مذہبی خدمت میں رہ چکا ہوں، اور میں ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھ سکا ہوں کہ کیوں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن میں اپنے طویل تجربے سے جانتا ہوں کہ یہ سچ ہے۔ اتنا ہی یقین کے ساتھ جتنا کہ یہ نوح کے زمانے میں سچ تھا، اتنا ہی یہ آج سچ ہے،

’’اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘(متی 7:13۔14).

II۔ دوئم، حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ نوح فضل کے وسیلے سے بچایا گیا تھا۔

پیدائش6:8 پر نظر ڈالیں،

’’لیکن نُوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا‘‘ (پیدائش 6:8).

اور ویسے بھی میرے دوست یہی واحد طریقہ ہے کہ آدم کی نسل کا کوئی مکمل طور پرمسخ شُدہ فرد بچایا جا سکتا۔ آپ یا تو فضل کے وسیلے سے، یا کھوئے ہوئے ہیں تو بچائے جا سکتے ہیں – تمام زمانوں اور تمام ابدیت کے لیے۔ ڈاکٹر چارلس سی۔ رائیری Dr. Charles C. Ryrie نے آیت 8 میں لفظ ’’فضل‘‘ پر ایک اچھا تبصرہ پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا،

عبرانی، چعن Chen، بنیادی معنوں ’’جُھکنا یا خمیدہ ہونا‘‘ سے ہے، یوں ایک متکبرانہ یا بِلاوجہ بخشش ایک ممتاز ہستی کے مقابلے میں ایک کمتر شخص کو ملتی ہے (چارلس سی۔ رائیری، پی ایچ۔ ڈی۔ Charles C. Ryrie, Ph.D.، رائیری کا مطالعۂ بائبل The Ryrie Study Bible، موڈی پریس، اشاعت 1978، پیدائش6:8 پر ایک غور طلب بات)۔

وہ ’’ممتاز ہستی‘‘ خُدا ہے۔ ’’کمتر شخص‘‘ کھویا ہوا گنہگار ہے۔ فضل کا مطلب ہے کہ خُدا جب ایک کھویا ہوا گنہگار تبدیل ہوتا ہے تو اُس کو متکبرانہ بخشش پیش کرتا ہے۔ بائبل میں اِس موضوع پر واضح ترین آیت افسیوں 2:8۔9 ہے،

’’کیونکہ تمہیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے‘‘ (افسیوں 2:8۔9).

اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ کیسے شاید افسیوں2:8۔9 کو بگاڑیں، وہ آیات تب بھی وہی بات کرتی ہیں: نجات خُدا کے فضل کا تحفہ ہے۔ چونکہ یہ ایک تحفہ ہے، اِس لیے کوئی انسانی کوشش نجات میں شامل نہیں ہوتی ہے۔ نجات یوں مونرجیسٹک monergistic ہے، خُدا کے وسیلے سے اُس کے فضل کے ذریعے سے دی گئی، بغیر کسی گروہی معاونت یا مکمل طور پر مسخ شُدہ شخص کی طرف سے مدد کے۔

نوح کی نجات میں ’’فیصلہ سازیت Decisionism کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ نوح کسی قسم کے فیصلے کو اپنائے بغیر فضل کے وسیلے سے بچایا گیا تھا۔ اگر آپ نوح کو نجات پانے کے لیے کوئی فیصلہ لیتے ہوئے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو آپ ناکام ہو جائیں گے، کیونکہ یہ پیدائش کے چھٹے باب میں نہیں ہے! یہ واقعی میں وہاں نہیں ہے! انسان کی تباہ حالی اور گناہ کی تاریکی سے آیت اچانک ہم پر آ پڑتی ہے۔ یہ الفاظ اچانک کلام پاک کے صفحے پر اُمڈ آتے ہیں،

’’لیکن نُوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا‘‘ (پیدائش 6:8).

کیا یہ تعجب خیز نہیں ہے؟ یہ یقیناً ہے! اِسی لیے ایک ظالم بدکار بوڑھے غلام تاجر نے جس کو یسوع نے بچایا تھا لکھا،

حیرت انگیز فضل! کس قدر میٹھی وہ آواز
جس نے مجھ جیسے تباہ حال کو بچایا۔
میں جو کبھی کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہوں،
اندھا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں۔
(’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).

جان نیوٹن نے متاثر ہوکر کہا تھا، ’’میں فضل کے وسیلے سے حیرت میں مبتلا ہوں!‘‘ ’’کبھی میں کھویا ہوا تھا، لیکن اب مجھے پا لیا گیا ہے۔‘‘ کبھی میں اندھا تھا، لیکن اب میں مسیح اور انجیل کو واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں – اور وہ فضل جس نے یہ کیا میری ذہنی سمجھ بوجھ سے اِس قدر بالا ہے کہ یہ مجھے حیرت میں مبتلا کر دیتی ہے۔‘‘ یہ مطلب تھا بوڑھے جان نیوٹن کا۔ فضل ہمیشہ حیرت زدہ کر دینے والا ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ سے حیرت انگیز ہوتا ہے جب فضل ایک کھوئے ہوئے گنہگار کو مسیح کی جانب موڑتا ہے۔ یہی جان نیوٹن کے ساتھ ہوا تھا، اور یہی نوح کے ساتھ ہوا تھا، عظیم سیلاب آنے سے بہت عرصہ پہلے۔ دونوں آدمی مسیح میں خُدا کے حیرت انگیز فضل کے وسیلے سے بچائے گئے تھے۔ اور ویسے بھی، اگر آپ کبھی بھی تبدیل ہوئے ہیں، تو یہ بھی تو خُدا ہی کے حیرت انگیز فضل کا نتیجہ ہوگا! اِس کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ ہے ہی نہیں!

عظیم انگریز مبشر انجیل جارج وائٹ فیلڈ نے، اپنے مشہور واعظ ’’فضل کا طریقۂ کارThe Method of Grace‘‘ میں واضح کیا کہ آپ کے ساتھ کیا ہونا چاہیے اگر آپ کو فضل کے وسیلے سے بچایا جانا ہے۔ اُنہوں نے کہا،

1.   .آپ کو خُدا کی شریعت کے خلاف آپ کی اصلی قانون شکنی پر افسوس، ماتم اور احساس کو دکھایا جانا چاہیے۔ (یہ اُنہوں نے کہا دراصل ایک کھوئے ہوئے گنہگار میں فضل کا پہلا عمل تھا) .

2.    آپ کو خود اپنی بدکار فطرت کا قائل ہونا چاہیے، اپنی روح کی کُل تباہ حالی... آپ کو خود آپ کا اپنا اصلی گناہ محسوس کرایا جانا چاہیے، دکھایا جانا چاہیے، وہ موروثی بدکاری جو آپ کے دِل میں بسی ہوئی ہے، جو آپ کو خُدا سے ملعون ٹھہرائے جانے کے لیے اہل قرار دیتی ہے۔ (یہ اُنہوں نے کہا کہ ایک کھوئے ہوئے بشر میں فضل کا گہرا کام تھا، ایک شخص کی رہنمائی خود پر بھروسہ نہ کرنے پر کرنا، اور خود اپنے ہی گناہ سے بھرپور دِل اور ذہن سے نفرت کرنا)۔

3.    آپ کو ناصرف خود اپنی زندگی میں اور اپنی فطرت میں گناہوں سے پریشان ہو جانا چاہیے، بلکہ اپنے بہترین فیصلوں، ارادوں، اور اپنی کہلائی جانے والی ’’مسیحی زندگی‘‘ میں پریشان ہو جانا چاہیے۔ (وائٹ فیلڈ نے کہا کہ خُدا کے فضل کو آپ کو قائل کرنا چاہیے، کہ آپ خود سے، اپنی کھوئی ہوئی حالت میں ایسا کچھ نہیں کر سکتے جو خُدا کو خوش کرے یا جلال بخشے)۔

4.    آپ کو دُنیا میں سب سے لعنتی ترین گناہ کا قائل ہو جانا چاہیے، جو مسیح میں بے اعتقادی کا گناہ ہے۔ (صرف خُدا کا فضل ہی آپ کو قائل کر سکتا ہے کہ آپ نے مکمل طور پر یسوع مسیح پر بھروسہ نہیں کیا ہوا ہے، اور کہ یہی وجہ ہے کہ آپ ابھی تک کھوئے ہوئے ہیں)۔

5.    آپ کو مسیح کی راستبازی کو گرفت میں لینا چاہیے۔ (آپ کو مسیح کو اپنانے کے لیے فضل کے وسیلے سے اِس قابل ہو جانا چاہیے، اور اُس کے پاک صاف کر دینے والے خون کےوسیلے سے پاک صاف اور راستباز ہو جانا چاہیے)۔

(’’فضل کا طریقۂ کارThe Method of Grace‘‘ مصنف محترم جناب جارج وائٹ فیلڈ George Whitefield، 1714۔1770)۔


یوں ہی خُدا کا فضل عموماً ایک گنہگار کے دِل پر کام کرتا ہے، اور اُس کو مسیح یسوع میں مکمل تبدیلی کے لے بدلتا ہے۔ یہ ہی بِلا شُبہ وہ اہم قوت تھی جونوح کے ساتھ رونما ہوئی تھی۔ عبرانیوں 11:7 ہمیں بتاتی ہے کہ نوح ’’خوف کے ساتھ دھل گیا‘‘ تھا۔ وہ الفاظ اُس کو جو وائٹ فیلڈ نے حقیقی تبدیلی کے بارے میں کہے ایک جملے میں شفاف کر دیتے ہیں، ’’خوف کے ساتھ دھل جانا۔‘‘ حقیقی تبدیلی سے پہلے، ’’اُن کی نظروں میں خُدا کا کوئی خوف نہیں ہوتا ہے‘‘ (رومیوں3:18)۔ یہی وجہ ہے کہ غیر تبدیل شُدہ مبشران انجیل اور پبتسمہ دینے والے جیسا وہ کرتے ہیں یقین رکھتے اور برتاؤ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کبھی بھی حقیقی تبدیلی کا تجربہ نہیں کیا ہوتا۔

’’لیکن نُوح خداوند کی نظر میں مقبول ہُوا‘‘ (پیدائش 6:8).

III۔ سوئم، حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ فضل کے وسیلے سے سچی نجات نیک اعمال کو جنم دیتی ہے۔

’’فیصلہ سازیت decisionism‘‘ کے موجودہ دور میں یہ ایک نازک بات ہے، جب لوگ کسی قسم کا فیصلہ لیتے ہیں یا کہا جائے تو ’’اِرادہ‘‘ کرتے ہیں اور جلد ہی بعد میں واپس اپنے پرانے گناہوں کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ وہ شاید الطار تک آتے ہوں اور ’’گنہگاروں کی دعا‘‘ پڑھتے ہوں، لیکن وہ جلد ہی گناہ میں گر جاتے ہیں اور واپس دُنیا اور اُس کی لطافتوں میں دوڑ جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ، نوح کے برعکس اُنہوں نے ’’خُدا کی نظروں میں مقبولیت‘‘ نہیں پائی ہوتی!‘‘ (پیدائش6:8)۔ یہ اِس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی خُدا کے فضل کے وسیلے سے کبھی نہیں بچائے گئے ہوتے ہیں! ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟ کیونکہ فضل کے وسیلے سے سچی نجات ہمیشہ تبدیلی پیدا کرتی ہے، ہمیشہ ایک کی زندگی میں ایک نئی سمت پیدا کرتی ہے، ہمیشہ – بغیرکسی مُستثنٰی قرار دینے کے عمل کے۔ اِسی لیے یعقوب رسول نے کہا،

’’بیوقوف! کیا تُو یہ بھی نہیں جانتا کہ ایمان عمل کے بغیر مُردہ ہے‘‘ (یعقوب 2:20).

ایک آدمی شاید کہتا ہے کہ اُس کے پاس ایمان ہے، لیکن اُس کی زندگی ظاہر کرتی ہے کہ یہ صرف ایک مردہ ایمان ہے۔ ایمان جو خُدا کے فضل کے وسیلے سے آتا ہے زندہ ہوتا ہے۔ یہ دِل کو بدل دیتا ہے۔ یہ کسی کی زندگی کی تمام سمت کو بدل دیتا ہے۔ زیادہ ترلوگ جنہیں ہم ’’جسمانی نیت کے مسیحی‘‘ کہتے ہیں آج دراصل وہ لوگ ہیں جنہوں نے حقیقی تبدیلی میں خُدا کے فضل کی بدل ڈالنے والی قوت کا تجربہ کبھی بھی نہیں کیا ہوتا۔ اِسی لیے اُن کے ساتھ چلنا اِس قدر مشکل ہوتا ہے۔ اِس ہی لیے وہ مقامی گرجہ گھر سے اتنی آسانی کے ساتھ دور چلے جاتے ہیں۔ اِسی لیے وہ خُدا کے لیے کوئی بھی معیاری بات نہیں کرتے۔ یسوع نے کہا،

’’تُم اُن کے پھلوں سے اُنہیں پہچان لو گے۔ کیا لوگ جھاڑیوں سے انگور یا کانٹے دار درختوں سے انجیر توڑتے ہیں؟ لہٰذا ہر اچھا درخت اچھا پھل اور ہر بُرا درخت بُرا پھل دیتا ہے۔ نہ اچھا درخت بُرا پھل دیتا ہے اور نہ بُرا درخت اچھا۔ وہ درخت جو اچھا پھل نہیں دیتا کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ پس تُم جھوٹے نبیوں کو اُن کے پھلوں سے پہچان لوگے‘‘ (متی 7:16۔20).

ایک ’’اچھا درخت‘‘ کسی ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مسیح میں خُدا کے فضل سے بچایا گیا ہوتا ہے۔ ایک ’’بُرا درخت‘‘ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جس نے مسیح میں خُدا کے فضل کے وسیلے سے حقیقی تبدیلی کا تجربہ نہیں کیا ہوتا۔ آپ ایک ’’اچھے درخت‘‘ صرف نئے سرے سے جنم لینے کے تجربے کے وسیلے سے ہی بن سکتے ہیں، جو کہ صرف خُدا کے فضل کا ایک تحفہ ہوتا ہے، اور واحد مسیح میں ایمان رکھنے سے ملتا ہے۔

نوح ایک ایسے شخص کی بہترین مثال ہے جو واحد فضل کے وسیلے سے بچایا گیا تھا۔ اُس کی نجات نے اچھا پھل پیدا کیا، جیسا کہ یہ ہر اُس شخص میں کرتی ہے مسیح میں خُدا کے فضل کے وسیلے سے سچے طور پر تبدیل ہوتا ہے۔ پیدائش6:9 میں ہمیں نوح کی حقیقی تبدیلی کا پھل پیش کیا گیا ہے۔

نوح کے حالات یوں ہیں: نوح راستباز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘‘ (پیدائش 6:9).

نوح راستباز اور شریف تھا کیونکہ وہ خُدا کی نظروں میں مقبول ٹھہرا تھا۔ نوح خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا کیونکہ وہ فضل کے وسیلے سے بچایا جا چکا تھا۔ اِس کے علاوہ اور کوئی بہترین توجیہح نہیں ہے۔

افسیوں2:8۔10 کو دھیان سے سُنیں۔ کلام پاک کا یہ حوالہ واضح طورپر ظاہر کرتا ہے کہ خُدا کے فضل کے ذریعے سے ایک حقیقی تبدیلی ایک ایسے شخص کو ’’تخلیق‘‘ کرتی ہے جو نیک اعمال کی زندگی بسر کرے گا۔

’’کیونکہ تمہیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا کی بخشش ہے۔ اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے کیونکہ ہم خدا کی کاریگری ہیں اور ہمیں مسیح یسُوع میں نیک کام کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے جنہیں خدا نے پہلے ہی سے ہمارے کرنے کے لیے تیّار کر رکھّا تھا‘‘ (افسیوں 2:8۔10).

وہ آدمی یا عورت جو مسیح میں خُدا کے فضل سے بچایا جاتا ہے وہ ’’یسوع مسیح میں نیک اعمال کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے‘‘ (افسیوں2:10)۔ اِس سے زیادہ واضح اور کیا ہو سکتا ہے؟ وہ جو ’’اخلاقی طور پر گرے ہوئے‘‘ مانے جاتے ہیں یا اپنے مقامی گرجہ گھر کو چھوڑ دیتے ہیں، ’’یسوع مسیح میں نیک اعمال کرنے کے لیے پیدا نہیں کیے جاتے۔‘‘ اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ اُنہوں نے حقیقی تبدیلی کا تجربہ نہیں کیا ہوتا۔ اِن معاملات میں یہ تقریباً ایک عالمگیری مسٔلہ ہے۔

اِس لیے، آج کی رات آپ کے سامنے نوح کی مثال موجود ہے۔ خوفزدہ مت ہوں کہ اِس قدر کم لوگ مسیح میں ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔ خُدا کے فضل کے وسیلے سے مسیح میں داخل ہونے کے لیے کوشش کریں، اذیت برداشت کریں، اور پھر ’’مسیح یسوع میں نیک اعمال کرنے کے لیے پیدا ہوئے انسان کی حیثیت سے اپنی نجات کوبسر کریں (افسیوں2:10)۔ یہ سب اُس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ، نوح کی مانند، ’’خُدا کی نظروں میں مقبولیت‘‘ پاتے ہیں (پیدائش6:8)۔

خُدا کرے اُس کے فضل کے وسیلے سے پاک روح آپ کو گناہ کی سزایابی کے تحت لائے۔ خُدا آپ کو اپنے فضل کے وسیلے سے مسیح کی جانب لائے۔ خُدا کرے کہ آپ اُس کے فضل کے وسیلے سے اُس [یسوع] کے خون کے ذریعے سے اپنے گناہ سے پاک صاف ہو جائیں۔ تب پھر شاید آپ اُس کے فضل کے وسیلے سے اُس کے لیے اپنے مقامی گرجہ گھر میں نیک اعمال کی ایک نئی زندگی جیئیں۔ سچی نجات مکمل طور پر مسیح یسوع میں خُدا کے فضل پر منحصر ہوتی ہے۔ تب آپ وہ الفاظ گانے کے قابل ہو جائیں گے جو مسٹر گریفتھ Mr. Griffith نے اِس واعظ سے پہلے گائے تھے،

واحد فضل کے وسیلے سے بچایا جاؤں! یہ میری تمام التجا ہے؛
یسوع تمام نوع انسانی کے لیے مرا، اور یسوع میرے لیے مرا۔
   (’’فضل! یہ ایک دلکش آواز ہے Grace! ‘Tis a Charming Sound،‘‘ شاعر فلپ ڈوڈریج Philip Doddridge، 1702۔1751؛
      کورس ترتیب دیا اے۔ ایم۔ ٹاپ لیڈی A. M. Toplady نے، 1740۔1778)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین نے کی تھی: پیدائش6:5۔18 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
(’’فضل! یہ ایک دلکش آواز ہے Grace! ‘Tis a Charming Sound،‘‘ شاعر فلپ ڈوڈریج Philip Doddridge، 1702۔1751؛ کورس ترتیب دیا اے۔ ایم۔ ٹاپ لیڈی
A. M. Toplady نے، 1740۔1778)۔

لُبِ لُباب

نوح – فضل کے وسیلے سے بچایا گیا!

NOAH – SAVED BY GRACE!
(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 42)
(SERMON #42 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’لیکن نوح خُدا کی نظر میں مقبول ہوا۔ نوح کے حالات یوں ہیں: نوح راستباز انسان تھا اور اپنے زمانہ کے لوگوں میں بے عیب تھا اور وہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘‘ (پیدائش 6:8۔9)۔

(پیدائش 6:5، 7)

I.   اوّل، حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ چند ہی بچائے جاتے ہیں، متی 7:13۔14؛
لوقا12:32؛ 13:23۔24 .

II.  دوئم، حوالہ ظاہرکرتا ہے کہ نوح فضل کے وسیلے سے بچایا گیا تھا، پیدائش 6:8؛
افسیوں2:8۔9؛ عبرانیوں11:7؛ رومیوں3:18 .

III. حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ فضل کے وسیلے سے سچی نجات نیک اعمال
کو جنم دیتی ہے، یعقوب2:20؛ متی7:16۔20؛ افسیوں2:8۔10 .