Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

میسح کے مصائب – دُرست اور غلط

(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 5)
CHRIST’S SUFFERING – THE TRUE AND THE FALSE
(SERMON NUMBER 5 ON ISAIAH 53)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
17 مارچ، 2013 ، خُداوند کے دِن کی صبح
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, March 17, 2013

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر بھی ہم نے اُسے خدا کا مارا، کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا 53:‏4).

ہمارے کلام کا پہلا حصہ بتاتا ہے کہ یسوع ’’نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے۔‘‘ آیت کا یہ حصہ نئے عہد نامے میں متی8:‏17 میں دُہرایا گیا تھا،

’’تاکہ یسعیا [اشعیا] نبی کی معرفت کہی گئی یہ بات پوری ہوجائے کہ، اُس نے خود ہماری کمزوریاں لے لیں اور بیماریاں اُٹھا لیں‘‘ (متی 8:‏17).

متی 8:‏17 اشعیا 53:‏4 کے براہ راست حوالے کے مقابلے میں زیادہ بجا طور پر ایک درخواست ہے. ڈاکٹر ایڈورڈ جے۔ یَنگ نے کہا، ’’متی 8:‏17 کا حوالہ مناسب ہے کیونکہ یہاں جو بیماری کا حوالہ ہے وہ خود گناہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آیت میں گناہ کے اثرات کو ترک کرنے کی سوچ بھی شامل ہے۔ بیماری گناہ سے کبھی نہ الگ ہونے والا ساتھی ہے‘‘ (ایڈورڈ جے۔ یَنگ، پی ایچ۔ ڈی۔، اشعیا کی کتاب، The Book of Isaiah ، ولیم بی۔ عئیرڈ منز پبلشنگ کمپنی، جلد3، صفحہ 345).

متی8:‏17 میں توبہ کا عمل[کفارہ] بیماری کی شفا کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ متی کی طرف سے صرف ایک درخواست ہے، اور یہ ہماری تلاوت میں پیش کیا گیا یہ بنیادی معنی نہیں ہے۔ پروفیسر ’’ہینگس ٹنبرگ Hengstenberg درست طور پر بیان کرتے ہیں کہ خادم [مسیح] نے گناہ اُن کے اثرات کے ساتھ اُٹھائے ، اور اُن میں بیماریوں اور تکلیفوں کی نمایاں حیثیت ہے۔ اس بات کو ضرور توجہ دینی چاہیے کہ متی جان بوجھ [اشعیا 53:‏4 میں عبرانی] سے رُخ موڑ تا ہے . . . اس حقیقت پر زور دینے کے لیے کہ مسیح نے درحقیقت میں ہماری بیماریوں کو اُٹھایا تھا‘‘(دہرایا گیا ہے یَنگ، ibid، صفحہ 345، تنقیدی حاشیے 13 میں).

چاروں اناجیل کے محتاط مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مسیح نے ثبوت کے طور پر کہ وہ بیماروں کو شفا دے سکتا تھا، بیماریوں سے شفا دی، اور اسے تبدیلی میں محفوظ کر دیا۔ اس کی مثال دس کوڑھیوں میں دیکھی جا سکتی ہے جو مسیح پر چلائے تھے، اور کہا تھا، ’’مالک، ہم پر رحم کر‘‘ (لوقا 17:‏13). یسوع نے اُنہیں ہیکل بھیجا تھا کہ اپنے آپ کو کاہنوں کو دکھائیں، اور ’’جب وہ جا رہے تھے، اُنہوں نے شفا پائی تھی‘‘ ( لوقا 17؛14). وہ جسمانی طور پر مسیح کی قوت سے شفا یاب ہوئے تھے، لیکن وہ بچائے نہیں گئے تھے۔ اُن میں سے صرف ایک واپس آیا تھا۔ اس تبدیلی میں اُس نے اپنے گناہوں کی روحانی شفا پائی تھی، جب وہ یسوع کے پاس آیا تھا، ’’اور اُس کے قدموں میں منہ کے بل گر کر اُس شکریہ ادا کر کرنےلگا‘‘ (لوقا 17:‏16). پھر یسوع نے اُس سے کہا ، ’’اُٹھ اور رخصت ہو، تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا‘‘ (لوقا 17:‏19). یہ تب تھا کہ وہ نا صرف جسمانی طور پر بلکہ روحانی طور پر شفا یاب ہوا تھا۔ ہم اس چیز کو مسیح کی ادا کی گئی بے شمار معجزاتی شفایابیوں میں دیکھ سکتے ہیں، جیسا کہ یوحنا کی انجیل کے نویں باب میں ایک اندھے آدمی کی آنکھوں کو بینائی دینا۔ پہلے اُس آدمی نے اندھے پن سے شفا پائی تھی، لیکن اُس نے سوچا تھا کہ یسوع صرف ’’ایک نبی‘‘ تھا (یوحنا 9:‏17)۔ بعد میں اُس نے کہا،

’’اے خداوند، میں ایمان لاتا ہوں۔ اور اُس نے یسوع کو سجدہ کیا‘‘ (یوحنا 9:‏38).

اور یہ صرف اُس ہی وقت تھا کہ وہ آدمی بچایا گیا۔

اس لیے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جسمانی شفا ثانوی ہے اور کہ اشعیا 53:‏4کی خاص اہمیت روحانی شفا کی طرف ہے۔ ڈاکٹر جے۔ ورنن میکجی نے کہا،

اشعیا نبی کی کتاب میں سے یہ حوالہ واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ ہم اپنی خلاف ورزیوں اور بد اعمالیوں سے شفا پاتے ہیں [اشعیا53:‏5]۔ آپ مجھے کہتے ہیں، ’’کیا آپ کو اس بارے میں یقین ہے؟‘‘ میں جانتا ہوں یہی ہے جو یہ آیا ت کہہ رہی ہیں کیونکہ پطرس نے کہا، ’’وہ خود اپنے ہی بدن پر ہمارے گناہوں کا بوجھ لیے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا تاکہ ہم گناہوں کے اعتبار سے مردہ ہوجائیں مگر راستبازی کے اعتبار سے زندہ ہو جائیں: اُسی کے مار کھانے سے تم نے شفا پائی‘‘ (1۔پطرس 2:‏24). کس سے شفا پائی؟ ’’گناہوں سے‘‘ پطرس اس بات کو بہت واضح کر رہا ہے کہ وہ گناہ کے بارے میں بات کر رہا ہے (میکجی، ibid، صفحہ 49).

یہ وضاحت واپس ہمیں ہمارے کلام کی طرف لے جاتی ہے،

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر بھی ہم نے اُسے خدا کا مارا، کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا 53:‏4).

قدرتی طور پر یہ آیت دو حصوں میں تبدیل ہوتی ہے: (1) بائبل میں پیش کی گئی حقیقی وجہ جس کے لیے مسیح نے مصائب برداشت کیے؛ اور (2) غلط وجہ جس پر اندھا آدمی یقین لایا تھا۔

1۔ اوّل، مسیح کے مصائب برداشت کرنے کی حقیقی وجہ، جو مقدس ضحیفوں میں پیش کیے گئے۔

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے. . . ‘‘ (اشعیا 53:‏4).

’’یقیناً‘‘ کا لفظ متعارف کروا تا ہے اُس فرق کے درمیان جو مسیح کے مصائب برداشت کرنے کی حقیقی وجہ تھی اور غلط وجہ جس کے سبب سے اندھے آدمی نے یقین کیا تھا۔ ’’یقیناً ‘‘، پھر درست بیان ہے؛ ’’ پھر بھی‘‘ تب غلط بیان ہے؛

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر بھی ہم نے اُسے خدا کا مارا، کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا 53:‏4).

اس کے ساتھ ساتھ الفاظ ’’دُکھوں‘‘ اور ’’غموں‘‘ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ عبرانی زبان میں ’’دُکھوں‘‘ کا مطلب ’’بیماریاں‘‘ ہے۔ اشعیا نے اسے اشعیا 1:‏5۔6 میں ’’گناہ‘‘ کے نعم البدل کے طور پر ستعمال کیا ہے۔ یہاں بھی یہ ’’گناہ‘‘ کا ہی نعم البدل ہے۔ دُکھوں سے مراد گناہ کا مرض اور علالت ہے۔ ’’غموں‘‘ سے مراد ’’تکلیف اور شدید ذہنی اذیت محسوس کرنا‘‘ ہے۔ لہٰذا، اس تمام سے مراد گناہ کے ’’مرض، یا علالت‘‘، سے ہے جس سے ’’شدید تکلیف اور ذہنی اذیت پیدا‘‘ ہوتی ہے – گناہ کی خاص بیماری اور اُس کا درد ۔

پھر توجہ طلب ہے لفظ ’’برداشت کئے‘‘۔ اس کا مطلب ہے ’’اُٹھانا‘‘۔ لیکن اس کا’’ زیادہ اصل مطلب ہے اُٹھا [یا اُٹھانا] لے جانا۔ زیادہ تر سوچا یہی جاتا ہے کہ اُٹھا رہا اور اُوپر اُٹھا رہا‘‘ (یَنگ، ibid۔، صفحہ 345). مسیح وہ گناہ اُٹھا لیتا ہے جو لوگوں کے ہوتے ہیں، خود اپنے اوپر اُٹھا لیتا ہے، اور اُن گناہوں کو اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ جیسا کہ مسیح نے اپنی صلیب اُٹھائی تھی اور کلوری کے پہاڑ کے طرف لے گیا تھا، لہٰذا وہ تبدیل ہوئے شخص کے گناہ اُٹھاتا ہے اور اُنہیں اُٹھا کر لے جاتا ہے۔ یہی ہے جو پطرس رسول کا مطلب تھا جب اُس نے مسیح کے متعلق کہا،

’’وہ خود اپنے ہی بدن پر ہمارے گناہوں کا بوجھ لیے ہوئے صلیب پر چڑھ گیا‘‘ (1۔پطرس 2:‏24).

جیسے کہ کئیل اور ڈیلژسچ Keil and Delitzsch کا تبصرہ کہتا ہے،

اس معنی کا محض یہ مطلب نہیں ہے کہ [مسیح] ہماری تکلیفوں اور مصائب کی رفاقت میں شامل ہوا، لیکن یہ ہے کہ اُس نے خود اپنے اوپر مصائب اُٹھا لیے جو اُس کو برداشت کرنے تھے اور جنہیں برداشت کرنے کا وہ مستحق تھا، اور اس لیے ناصرف اُنہیں اُٹھا کر لے گیا. . . بلکہ اُنہیں اپنی ہستی [اُس کا اپنا جسم] پر برداشت کیا، کہ وہ شاید ہمیں اُن سے نجات دلا دے۔ لیکن جب ایک شخص وہ مصائب اپنے اوپر لیتا ہے جو کسی دوسرے کو برداشت کرنے پڑ سکتے تھے، اور اس لیے ناصرف اُس کے ساتھ جھیلتا ہے بلکہ اُس کی جگہ پر جھیلتا ہے، اسی کو تبادلہ کہتے ہیں (فرانژ ڈیلژسچ، ٹی ایچ۔ ڈی۔، پرانے عہد نامے کی دس جلدوں پر تبصرہ Commentary on the Old Testament in Ten Volumes ، ولیم بی۔ عیئرڈمنز پبلشنگ کمپنی، 1973 دوبارہ اشاعت، جلد ساتویں، صفحہ 316).

مسیح نے ہمارے گناہ اپنے جسم میں اُٹھائے اور اُنہیں اُٹھا کر اوپر کلوری کے پہاڑ پر لے گیا، صلیب تک، اور جہاں اُس نے ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کی۔ ’’اس کو تبادلہ کہتے ہیں‘‘!!! ’’بیہودہ ٹھٹھوں اور شرم کو برداشت کیا۔‘‘ اسے گایئے!

بیہودہ ٹھٹھوں اور شرم کو برداشت کیا،
   میری جگہ پر کھڑے ہو کر اُس نے سزا پائی؛
اپنے خُون سے میری معافی پر مہر لگائی؛
   ہیلیلویاہ! کیسا نجات دہندہ ہے!
(’’ ہیلیلویاہ! کیسا نجات دہندہ ہے!‘‘ شاعر فلپس پی. بلِس، 1838۔1876).

’’لیکن وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا، اور ہماری بد اعمالی کے باعث کُچلا گیا‘‘ (اشعیا 53:‏5).

’’کتابِ مقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قربان ہوا‘‘ (1۔کرنتھیوں 15:‏3).

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے. . . ‘‘ (اشعیا 53:‏4).

ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرِسویل نے کہا،

صلیب پر یسوع کے موت ہمارے گناہوں کا پھل اور نتیجہ ہے۔ کس نے خُداوند یسوع کو مارا؟ کس نے جلال کے شہزادے کا قتل کیا؟ کس نے یسوع کو صلیب پر کیلوں سے جڑا جہاں یسوع نے اذیت برداشت کی اور مر گیا؟ یہ کس کا قصور ہے؟ یہ ضرور کہا گیا کہ ہم سب اس کا حصہ ہیں۔ میرے گناہوں نے یسوع کی پیشانی پر کانٹوں کا تاج چبویا تھا۔ میرے گناہوں نے یسوع کے ہاتھوں میں سے وہ نوک دار کیل گزار دیئے تھے۔ میرے گناہوں نے وہ نیزہ اُس کے دل میں سے گزارا تھا۔ میرے گناہوں نے خداوند یسوع کو صلیب پر مصلوب کیا تھا۔ یہی ہے مطلب . . . ہمارے خُداوند کی موت کا (ڈبلیو۔ اے۔ کرِسویل، پی ایچ۔ ڈی۔، ’’صلیب کا خون،‘‘The Blood of the Cross، میرے دل سے پیغامات Messages From My Heart ، رِیل اشاعت خانہ، 1994، صفحات 510۔511).

’’کتابِ مقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قربان ہوا‘‘ (1۔کرنتھیوں 15:‏3).

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے. . . ‘‘ (اشعیا 53:‏4).

’’بیہودہ ٹھٹھوں اور شرم کو برداشت کیا۔‘‘ اسے گایئے!

بیہودہ ٹھٹھوں اور شرم کو برداشت کیا،
   میری جگہ پر کھڑے ہو کر اُس نے سزا پائی؛
اپنے خُون سے میری معافی پر مہر لگائی؛
   ہیلیلویاہ! کیسا نجات دہندہ ہے!

مسیح کے مصائب کی حقیقی وجہ یہ ہے – آپ کے گناہوں کے لیے کفارہ ادا کرنا! لیکن نسلِ انسانی نے، اپنے اندھے پن اور بغاوت میں، اس خوبصورت سچائی کو کہ مسیح کی موت ایک تبادلے کی موت تھی جھوٹ کے ساتھ مسخ کر کے رکھ دیا!

2۔ دوئم، مسیح کے مصائب کی جھوٹی وجہ، جو اندھے آدمی نے دی ۔

دوبارہ اپنی تلاوت میں دیکھیں گے۔ آیئے کھڑے ہوئیں اور اس کو با آوازِ بُلند پڑھیں۔

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر بھی ہم نے اُسے خدا کا مارا، کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا 53:‏4).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

’’ابھی تک ہم اُس خدا کے مارے، کُوٹے ہوئے اور ستائے ہوئے کا احترام کرتے ہیں۔‘‘ ’’ہم ‘‘ جو آدم کی انسانی نسل سے ہیں۔ خُود شیطان کی طرف سے اندھے کیے گئے، ہم یہ دیکھنے میں ناکام ہو گئے کہ مسیح کے مصائب ہمارے تبادلے میں تھے، کہ وہ ہماری جگہ پر مرا تھا، ہمارے متبادل کے طور پر۔ ہم نے سوچا تھا کہ وہ صرف ایک غریب بےوقوف ہے، شاید پاگل اور خبطی، یا جیسا کہ فریسیوں نے کہا، ’’بد روحوں میں بسا ہوا،ُ‘‘ جو خود اپنے مصائب کا ذمہ دار ہے کیونکہ اُس نے بڑے لوگوں (حکمرانوں) کے خلاف سرِعام بکواس کی تھی۔ یعقوب کے دوستوں کی مانند، ہم نے سوچا کہ یسوع کے اپنے گناہوں اور بے وقوفیوں کی وجہ سے خدا کا غضب اُس پر نازل ہوا اور لوگ اُس کے خلاف ہوئے۔ ہم نے سوچا کہ وہ، بہتر طریقے سے ایک شہید تھا، جو بغیر کسی وجہ کے مرا۔ کسی نہ کسی وقت پر، ہم میں سے زیادہ تر نے یہ سوچا تھا کہ یسوع کچھ زیادہ ہی انقلابی تھا۔ ہم میں سے زیادہ تر اِس خیال سے دِل بہلا لیتے ہیں کہ اُس نے مذہبی رہنماؤں کو للکارہ تھا اور خود اپنی موت کو دعوت دی تھی۔

’’خدا کا مارا ہوا؟ جی ہاں، ہم جانتے تھے کہ وہ خدا کا مارا ہوا تھا! کُٹا ہوا؟ جی ہاں، ہم جانتے تھے کہ وہ خُدا کا کُوٹا ہوا تھا! ستایا ہوا؟ جی ہاں، ہم یہ بھی جانتے تھے! ہم سب جانتے تھے کہ اُنہوں نے یسوع کے چہرے پر اپنے مُکّوں سے مارا تھا۔ ہم سب جانتے تھے کہ اُنہوں نے اُس کو کوڑے سے مارا تھا۔ ہم سب جانتے تھے کہ صلیب پر وہ کیلوں سے جڑا گیا تھا! تقریباً ہر کسی کو اِن حقائق کا پتا ہے! لیکن ہم نے انہیں غلط طریقے سے پیش کیا تھا۔ ہم نے انہیں غلط سمجھا تھا۔ ہمیں احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ ہمارے دُکھ تھے جو یسوع نے برداشت کیےتھے، ہمارے غم تھے جو یسوع نے اُٹھائے تھے! جب ہم نےاپنے ذہنوں میں یسوع کو صلیب پر کیلوں سے جڑا ہوا دیکھا، ہم نے سوچا یسوع کو اپنے گناہوں، بےوقوفیوں اور غلطیوں کی وجہ سزا دی گئ تھی۔

’’لیکن نہیں! یہ ہماری خطاؤں کی وجہ سے تھا، ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے تھا، اور اس لیے تھا کہ ہمیں [خدا کے ساتھ] امن ملے، اور اس لیے تھا کہ ہم [گناہ سے] شفا پائیں۔ سچائی تو یہ ہے کہ یہ ہم تھے جو بھٹک گئے تھے اور جو اپنی مرضی پر چلنے لگے تھے، اور [خدا نے] ہماری بداعمالیوں کو یسوع پر ڈال دیا، بےگناہ متبادل‘‘ (ولیم میکڈونلڈ، بائبل کے یقین کرنے والوں پر تبصرہ Believer’s Bible Commentary، تھامس نیلسن اشاعت خانہ، 1995, صفحہ 979).

ہماری خطاؤں کے لیے یسوع نے ہمیں امن دیا،
   ہماری غلامی سے ہمیں چھٹکارا دلایا،
اوریسوع کے کوڑے کھانے سے، اوریسوع کے کوڑے کھانے سے،
   اوریسوع کے کوڑے کھانے سے ہماری روحیں شفا پاتی ہیں۔
(تھامس اُو۔ کِسہولم Thomas O. Chisholm‏، 1866۔1960).

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر بھی ہم نے اُسے خدا کا مارا، کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا 53:‏4).

مسٹر گریفتھ مہربانی سے وہ آیت گائیں۔

کیا یہ آپ کے لیے سچ نہیں؟ کیا آپ نے سوچا تھا کہ یسوع صلیب پر ہمارے گناہوں کو اُٹھا لے جانے کے بجائے کسی اور سبب سے مرا تھا؟ تو پھر جان لیں، جیسا کہ آپ ابھی جان گئے ہیں کہ مسیح آپ کی جگہ پر مرا تھا تاکہ آپ کے گناہوں کی سزا ہٹا سکے، کیا آپ سادہ ایمان میں اُس پر بھروسہ کریں گے؟ کیا آپ خدا کے بیٹے پر اعتماد کریں گے اور اُس کے بیش بہا قیمتی خون کے وسیلے سے انصاف پائیں گے اور ہر گناہ سے صاف کیے جائیں گے ؟

میں آپ سے کہتا ہوں کہ اپنے ذہنوں میں سے ہر غلط اندازہ جو آپ نے اُس کے مصائب اور موت کے بارے میں لگایا ہوا ہے نکال دیں۔ وہ آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مرا تھا۔ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ وہ اب آسمانوں میں خد اکے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہو ا ہے۔ میں آپ سے اُس پر اعتماد کرنے کے لیے اور آپ کے گناہوں سے بچائے جانے کے لیے کہہ رہا ہوں۔

لیکن یسوع کے بارے میں صرف یہی باتیں جان لینا ہی کافی نہیں ہے۔ آپ اُس کے موت کے بارے میں تمام حقائق جان سکتے ہیں اور پھر بھی مسیحی نہیں ہیں۔ آپ مسیح کے صلیب پر ہماری خاطر تبادلے کی موت کی سچائی جان سکتے ہیں؛ آپ جان سکتے ہیں کہ وہ گنہگاروں کی جگہ پر مرا تھا، اور پھر بھی مسیح میں غیر تبدیل شُدہ رہیں گے۔ آپ کا ضرور یسوع مسیح، جی اُٹھے خداوند پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ آپ کو ضرور حقیقت میں یسوع پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو اُس کے حوالے کرناچا ہیے۔ وہ نجات کا راستہ ہے۔ وہ دائمی زندگی کا دروازہ ہے۔ مسٹر گریفتھ وہ بند دوبارہ گائیں گے۔ اگر آپ اپنی نجات کے بارے میں ہمارے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں، تو مہربانی سے کمرے کی پچھلی جانب چلے جائیں جب کہ وہ گاتے ہیں۔

ہماری خطاؤں کے لیے یسوع نے ہمیں امن دیا،
   ہماری غلامی سے ہمیں چھٹکارا دلایا،
اوریسوع کے کوڑے کھانے سے، اوریسوع کے کوڑے کھانے سے،
   اوریسوع کے کوڑے کھانے سے ہماری روحیں شفا پاتی ہیں۔

ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے اُن کے لیے دعا کریں جنہوں نے ردعمل کا اظہار کیا۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا مسٹر ایبل پرودھومی Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی ۔ 1۔پطرس 2:‏21۔25 .
واعظ سے پہلے اکیلے مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گیت گایا تھا:
’’وہ زخمی تھا He Was Wounded‘‘ (شاعر تھامس او۔ چشھوم Thomas O. Chisholm،      
1866۔1960؛ اوک پارک Oak Park کی دُھن پر‘‘)۔

لُبِ لُباب

میسح کے مصائب – دُرست اور غلط

(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 5)
CHRIST’S SUFFERING – THE TRUE AND THE FALSE
(SERMON NUMBER 5 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’یقیناً اُس نے ہماری بیماریاں برداشت کیں، اور ہمارے غم اُٹھا لیے: پھر بھی ہم نے اُسے خدا کا مارا، کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا‘‘ (اشعیا 53:‏4).

(متی 8:‏17؛ لوقا 17:‏13، 14، 16، 19؛
یوحنا 9:‏17، 38؛ 1۔پطرس 2:‏24)

1۔  اوّل، مسیح کے مصائب برداشت کرنے کی حقیقی وجہ،
جسکا مقدس ضحیفوں میں بیان ہے، اشعیا 53:‏4الف، 5؛ 1۔ کرنتھیوں 15:‏3۔

2۔ دوئم، مسیح کے مصائب کی جھوٹی وجہ  ، جو اندھے آدمی نے دی ، اشعیا 53:‏4ب.