Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مسیح ۔ ہر جگہ حقیر جانا گیا

(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 4)
CHRIST – UNIVERSALLY DEVALUED
(SERMON NUMBER 4 ON ISAIAH 53)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
16 مارچ، 2013 ، ہفتے کی شام
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Eveing, March 16, 2013

’’ لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا،; وہ ایک غمگین انسان تھاجو رنج سے آشنا تھا: اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا53:‏3).

ڈاکٹر ایڈورڈ جے۔ یَنگEdward J. Young نے کہا،

یہ بے اعتقادی جس کا نقشہ اشعیا نبی نے یہاں کھینچا ہے بالکل ایسی ہی بے اعتقادی ہے جو آج ہمارے بارے میں پائی جاتی ہے۔ لوگ [مسیح] کے بارے میں خوشگوار اور تعریفی باتیں کہتے ہیں۔ وہ اُس کے اخلاق کی تعریف کریں گے، اُس کی تعلیمات اعلان کرتی ہیں کہ وہ ایک نیک انسان اور عظیم نبی تھا، واحد وہ ہی تھا جس نے اُن معاشرتی مسائل کے حل پیش کیے ہیں جن کا سامنا آج دنیا کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہ گنہگار ہیں، جو کبھی نہ ختم ہونے والی سزا کے مستحق ہیں، اور کہ مسیح کی موت خد اکے انصاف کی تسلی کے لیے دی گئی ایک واضح قربانی ہے، اور جو ایک ناراض خد ا کی مفاہمت گنہگار سے کراتی ہے۔ لوگ نہیں جان پائیں گے کہ خدا اپنے بیٹے کے متعلق کیا کہتا ہے۔ آج بھی، خادم [مسیح] لوگوں میں حقیر جانا جاتا ہے اور مسترد کیا جاتا ہے، اور لوگ اُس کی قدر نہیں کرتے (ایڈورڈ جے۔ ینگ، پی ایچ۔ ڈی۔، اشعیا کی کتاب The Book of Isaiah، ولیم بی۔ عئیرڈ مینز اشاعت خانہ، 1972 جلد 3، صفحہ 344).

لوتھر نے یقین کیا تھا کہ اشعیا کا ترپن باب بائبل کا دل تھا۔ میرے خیال میں وہ درست تھا۔ اگر آپ یہ تسلیم کریں، پھر ہمارے کلام کی اہمیت شدید بڑھ جاتی ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ یہ آیت اُن واضح بیانات میں سے ایک ہے جو بائبل میں دی گئی نسل انسانی کی تمام بدکاری کے بارے میں بتاتی ہے۔ ’’بدکاری‘‘ سے ہماری مراد ’’اخلاقی زوال‘‘ ہے۔ اور ’’تمام‘‘ سے مراد ’’مکمل‘‘ ہے۔ لوگ مکمل طور پر ہمارے پہلے والدین کے گناہ کی وجہ سے اخلاقی زوال میں مبتلا ہو گئے۔ جیسا کے ہیائیڈلبرگ Heidelberg کی مذہبی تعلیم کہتی ہے، انسانی فطرت کا اخلاقی زوال جنت میں ’’ہمارے پہلے والدین آدم اور حوّا کی نافرمانی اور دھوکا کھانے سے شروع ہوتا ہے۔ اس دھوکا کھانے نے ہماری فطرت کو اس قدر زہریلا کر دیا ہے کہ ہم ماں کے پیٹ سے ہی – گنہگار پیدا ہوتے ہیں ‘‘ (ہائیڈلبرگ کی مذہبی تعلیم The Heidelberg Catechism، سوال سات)۔ مکمل بدکاری لوگوں کی خدا کی طرف عداوت سے ظاہر ہوتی ہے،

’’اس لیے کہ جسمانی نیت خدا کی مخالفت[بغاوت] کرتی ہے ‘‘ (رومیوں8:‏7 ).

یہ بغاوت مسیح تک جاتی ہے، جو خُدا بیٹا ہے۔ مکمل بدکاری اس بات کی بھی وضاحت کرتی ہے کہ کیوں رومی سپاہیوں نے جب اُسے [یسوع] گرفتار کیا

’’وہ اُس پر تھوکتے تھے اور سرکنڈا لے کر اُس کے سر پر مارتے تھے‘‘ (متی 27:‏30).

مکمل بدکاری وضاحت کرتی ہے کہ کیوں رومی گورنر پیلاطوس نے

’’یسوع کو کوڑے لگوا کر[اور] مصلوب کرنے کے لیے اُن کے حوالے کردیا‘‘ (متی 27:‏26).

مکمل بدکاری وضاحت کرتی ہے کہ کیوں لوگ اُس پر چلائے تھے اور اُس کی تحقیر کی تھی جب وہ صلیب پر لٹکا مر رہا تھا۔

مکمل بدکاری وضاحت کرتی ہے کہ کیوں، حتٰی کہ آج بھی،

’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا، وہ ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا: اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا 53:‏3).

1۔ اوّل، مکمل بدکاری کی وجہ سے لوگ مسیح کو حقیر جانتے اور اُس کی قدر نہیں کرتے ہیں۔

’’وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کوئی قدر نہ جانی. . . ‘‘
       (اشعیا 53:‏3).

یہ مسیح کے عام طور پر مسترد کیے جانے کی وضاحت کرتی ہے جو ہم آج اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ ہم اِسے کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر ٹائم Time اور نیوز ویک Newsweekجیسے امریکہ کے رسالوں کے سر ورق پر دیکھتے ہیں۔ یہ باقاعدگی سے شائع ہونے والے خبروں کے جریدے بلا ناغہ مسیح کے اوپر سرِورق کی کہانی ہر دسمبر اور ہر اپریل کے ان دِنوں میں چھاپتے ہیں۔ لیکن میں آپ کو اس بات کا یقین دلا دوں کہ یہ کبھی بھی چاپلوسی والی کہانیاں نہیں ہوتی ہیں۔ وہ ہمیشہ یسوع کی ایک انوکھی نظر آنے والی قرونِ وسطیٰ کی مصوری کی تصویر رسالے کے سرِورق کے لیے چنتے ہیں، ایک ایسی مصوری جو دورِ جدید کے ذہن کے لیے یسوع کو عجیب اور کسی اور زمانے کا ظاہر کرے۔ بے شک یہ مقصداً کیا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ سرِ ورق کی کہانی اُن لوگوں سے لکھواتے ہیں جن کا تعلق انتہائی آزاد خیالانہ علمِ الہٰیاتی نقطہ نظر سےہوتا ہے، وہ لوگ جو مسیح کو خدا کا صرف صلبی بیٹا اور نجات کا واحد ذریعہ ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس قسم کی چیزیں برطانیہ کے چھوٹے سائز کے اخبارات اور تمام دنیا کے رسالوں میں شائع کی جاتی ہیں۔ مسیح پر ٹیلی ویژن میں اور فلموں میں بھی کُھلے عام حملہ کیا جاتا ہے۔

آپ کے دنیاوی ہائی سکول یا کالج ، جس کے آپ طالبِ علم ہیں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آپ کے اساتذہ کے پاس یسوع یا مسیحیت کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے کبھی بھی کارآمد الفاظ نہیں ہوتے ہیں۔ آپ کے اساتذہ کے ذریعے سے مسیح اور اُس کی تعلیمات پر مسلسل حملہ کیا جاتا ہے اور اُنہیں حقیر جانا جاتا ہے ۔

’’وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کوئی قدر نہ جانی‘‘
       (اشعیا 53:‏3).

سکول میں آپ کے ہم جماعت، اور ملازمت پر آپ کے ساتھی کام کرنے والے، مسیح کا نام ایک لعنتی لفظ کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور تقریباً روزانہ اُس کے بارے میں برائی کرتے ہیں۔

اگر آپ ایک غیر مسیحی گھرانے سے ہیں، آپ وہاں پر بھی پناہ نہیں حاصل کرسکتے! آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے غیر مسیحی والدین نجات دہندہ کو حقیر گردانتے اور اُس کی قدر نہیں کرتے ہیں۔ آپ میں سے بہت سے جانتے ہیں کہ اُن کے مسیح پر لگائے گئے ڈھیروں بہتان اور مزاق کو برداشت کرنا کس قدر مشکل ہے – اور آپ پر بھی اُس[مسیح] میں یقین رکھنے کے لیے اور بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے ایک سنجیدہ مسیحی بننے کے لیے بہتان لگاتے اور مذاق کرتے ہیں۔ یہ سب کا سب نسلِ انسانی کے باغی اور مسخ شدہ دل سے نکلتا ہے۔

’’وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کوئی قدر نہ جانی‘‘
        (اشعیا 53:‏3).

2۔ دوئم، مکمل طور پر مسخ کیا جانا مسیح کی غمگینی اور دُکھ کا سبب ہے۔

’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا، وہ ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا...‘‘ (اشعیا 53:‏3).

مسیح کی غمگینی اور دُکھ کا سبب کیا تھا؟ اور کیا ہو سکتا ہے ماسوائے اُس بغاوت اور حقارت سے رد کیے جانے کے علاوہ جو یہ کھوئی ہوئی دنیا اُس[یسوع] سے کرتی ہے!

جب وہ زمین پر رہ رہا تھا تو کاتب، فریسی اور سردار کاہن اُس [یسوع] کے خلاف اس قدر باغی تھے، اور اُس[یسوع] کو اس قدر شدت سے حقیر جان کر رد کرتے تھے، کہ ایک موقع پر وہ [یسوع] روح کی شدید اذیت میں چیخ پڑا تھا:

’’اَے یروشلم ! اَ ے یروشلم ! تو نے نبیوں کو قتل کیا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُنہیں سنگسار کر ڈالا۔ میں نے کئی دفعہ چاہا کہ تیرے بچّوں کو جمع کر لوں جس طرح مرغی اپنے چُوزوں کو اپنے پروں کے نیچے جمع کر لیتی ہے، لیکن تُو راضی نہ ہُوا!‘‘ (لوقا 13:‏34).

مسیح دُکھ اور غم سے اس قدر ٹوٹ گیا تھا، لوگوں کے بوجھ تلے اس قدر دَب گیا تھا، کہ گتسمنی کے باغ میں، اُس رات سے قبل جب اُنہوں نے اُسے گرفتار اور مصلوب کیا تھا،

’’اُس کا پسینہ خون کی بوندوں کی مانند زمین پر ٹپکنے لگا‘‘ (لوقا 22:‏44).

وہاں میرے خُدا نے میری تمام خطائیں برداشت کیں؛
   یہ فضل کے ذریعے سے یقین کیا جا سکتا ہے؛
لیکن جو دھشت ناکیاں اُس نے محسوس کیں
   اِس قدر شدید ہیں کہ اُن کا تصور کرنا بھی محال ہے۔
کوئی بھی تجھ میں سے گزر نہیں سکتا،
   غمگین، تاریک گتسمنی!
کوئی بھی تجھ میں سے گزر نہیں سکتا،
   غمگین، تاریک گتسمنی!
(’’گتسمنی Gethsemane‘‘ شاعر جوزف ہارٹ Joseph Hart،‏ 1712۔1768؛ پادری سے ترمیم کیا
     گیا؛ بطرز ’’آؤ، اے گنہگارو Come, Ye Sinners‘‘)۔

اگر آپ کا گناہ نہیں، تو پھر کیا تھا جس نے مسیح کو اپنے جسم اور اپنی روح پر اِس اذیت کو برداشت کروایا؟ اُس کے دُکھ اور غم کا سبب کیا تھا، اگر بغاوت نہیں تھی اور آپ کی مسخ شدہ فطرت کی عداوت نہیں تھی، جس کے سبب سے اُس[یسوع] پر خداوند کا فیصلہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے اُس کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ آپ کے گناہوں کا بوجھ گتسمنی سے لے کر صلیب تک اُٹھاتا؟

دُکھوں کا انسان، کیا نام ہے
خُدا کے بیٹے کے لیے جو آیا
تباہ حال گنہگاروں کو سنبھالنے کے لیے!
ہیلیلویاہ! کیسا نجات دہندہ ہے!

بیہودہ ٹھٹھوں اور شرم کو برداشت کیا،
میری جگہ پر کھڑے ہو کر اُس نے سزا پائی؛
اپنے خُون سے میری معافی پر مہر لگائی؛
ہیلیلویاہ! کیسا نجات دہندہ ہے!
   (’’ ہیلیلویاہ! کیسا نجات دہندہ ہے!‘‘ شاعر فلپس پی. بلِس، 1838۔1876).

اور آج ، جب وہ جنت میں خداوند کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا نیچے آپ پر نظر ڈالتا ہے، تو آپ کی باطنی فطرت میں ایسا کیاہے جس کے سبب سے یسوع کو دُکھ اور غم ملتا ہے ۔ وہ اس حقیقت سے کہ آپ ، خود ہی اُسے حقیر جانتے اور رد کرتے ہیں۔ آپ شاید کہیں کہ آپ اُسے پیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت کہ آپ اُس پر بھروسہ کرنے سے انکار کرتے ہیں ظاہر کرتی ہے کہ آپ واقع ہی میں اُسے حقیر جانتے اور رد کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات سے ایماندار رہیں! اگر آپ اُسے حقیر نہیں جانتے اور رد نہیں کرتے، پھر اور کونسی ممکن وجہ ہو سکتی ہے جو آپ کو اُس پر بھروسہ کرنے سے روکتی ہے؟ آج شام آپ کے ایمان کے ساتھ اُس کے پاس آنے سے انکار نے اُسے شدید غم اور دُکھ پہنچایا ہے۔

’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا، وہ ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا…‘‘ (اشعیا 53:‏3).

3۔ سوئم، تمام بدکاری نسلِ انسانی کو میسح سے اپنا چہرہ چھپانے کا سبب بنتی ہے۔

کلام میں جملے کے تیسرے جُز کو دیکھیے،

’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا، وہ ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا: اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر ہم لوگ اپنے منہ موڑ لیتے ہیں. . . ‘‘ (اشعیا53:‏3).

ڈاکٹر گِل Dr. Gillنے کہا، ’’ اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر ہم لوگ اپنے منہ موڑ لیتے ہیں؛ اتنا ہی ایک کراہت انگیز اور قابلِ نفرت عمل، جتنااُس سے منہ پھیرنا، اور اُس سے متنفر ہونا، جتنا کہ توہین کے ساتھ اُسے دیکھنا، کسی بھی توجہ کے لیے نااہل ہونے کی وجہ‘‘ (جان گِل، ڈی۔ڈی۔، پرانے عہد نامے کا آشکارہ بھید An Exposition of the Old Testament، بپتسمہ دینے والے معیاری بئیرر، 1989 دوبارہ اشاعت، جلد اوّل، صفحات 311۔312).

اُن کی بدکاری کی قدرتی حالت میں، لوگوں نے سچے مسیح سے اپنے منہ موڑ لیے تھے۔ وہ شاید، جیساکہ ڈاکٹر یَنگ نے کہا، ’’ اُس کے بارے میں خوشگوار اور تعریفی باتیں کرتے. . . [لیکن] وہ نہیں کرتے، تاہم، یہ مانتے ہیں کہ وہ گنہگار ہیں، دائمی سزا کے مستحق ہیں، اور یہ کہ میسح کی موت خد اکے انصاف کی تسلی کے لیے دی گئی ایک واضح قربانی ہے ، اور جو ایک ناراض خد ا کی مفاہمت گنہگار سے کراتی ہے۔ لوگ نہیں جان پائیں گے کہ خدا اپنے بیٹے کے متعلق کیا کہتا ہے‘‘ (یَنگ، ibid.).

غیر۔مسیحی مذاہب یا تو یسوع کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، یا پھر اُس کو محض ’’نبی‘‘ یا ’’اُستاد‘‘ کا درجہ دے کر کم تر کرتے ہیں۔ پس، وہ سچے مسیح کو رد کرتے ہیں، جیسا کے بائبل میں اُس کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ایک ہی مسلک کو ماننے والے بھی سچے مسیح کو رد کرتے ہیں۔ وہ تقلید پسند مسیحیت کو رد کرتے ہیں اور حقیقی مسیح کی جگہ پر ’’ایک اور یسوع کو بدلتے ہیں، جس کے بارے میں ہم نے تبلیغ نہیں کی‘‘ (2۔کرنتھیوں 11:‏4). یسوع نے اس کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی جب اُس نے کہا تھا، ’’جھوٹے مسیح اُٹھ کھڑے ہوں گے‘‘ (متی24:‏24). صرف سچا یسوع ایک ہے جس کو پرانے اور نئے عہد نامے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ میسح کے باقی تمام تصورات ’’جھوٹے مسیح‘‘ ہیں، یا، جیسا کہ پولوس رسول نے کہا، ’’ایک اور یسوع، جس کی ہم نے تبلیغ نہیں کی۔‘‘ ایک جھوٹا میسح مورمونز Mormonsکا ہے۔ ایک جھوٹا مسیح یہودہ کے گواہان کا ہے۔ ایک جھوٹا مسیح مسلمانوں کا ہے۔ بے شمار پینتیکوسٹل، کرشماتی اور بپتسمہ دینے والوں کا ایک جھوٹا روحانی۔مسیح ہے۔‘‘ جھوٹے مسیح میں یقین کرنے سے وہ اُس سچے مسیح سے جو مقدس ضحیفوں میں ظاہر کیا گیا ہے اپنے منہ موڑ لیتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ یہ اکثر مبشرانِ انجیل کے مسیحیوں کے لیے بھی سچ ہے۔ ڈاکٹر اے۔ ڈبلیو۔ ٹَوزر Dr. A. W. Tozer، جو کہ ایک انتہائی محترم مبشر مصنف ہیں، اُنہوں نے اس نقطے کو بہت سادگی سے پیش کیا جب اُنہوں نے کہا،

      آج کل ہمارے درمیان بہت زیادہ جعلی [بہروپیے] مسیح [انجیلی مبشر] ہیں۔ جان اُوونJohn Owen، جو کہ ایک قدیم دانشور ہیں، اپنے دِنوں میں اُنہوں نے لوگوں کو خبردار کیا تھا: ’’ تمہارے پاس ایک تصوراتی مسیح ہے اور اگر تم اس تصوراتی مسیح سے خوش ہو تو تم ضرور ایک تصوراتی نجات کے ساتھ بھی خوش ہو گے’’ . . . لیکن صرف ایک ہی سچا مسیح ہے، اور خداوند نے کہا ہے کہ وہ اُس کا بیٹا ہے. . . یہاں تک کہ اُن کے لیے بھی جو مسیح کی خدائی کو مانتے ہیں وہ اکثر اُس کی انسانیت کو پہچاننے میں غلطی کر جاتے ہیں۔ ہم بہت جلدی نتیجہ قائم کر لیتے ہیں کہ جب وہ زمین پر موجود تھا تو وہ لوگوں کے ساتھ خدا تھا، لیکن ہم اسی کے برابر ایک اہم سچائی کو نظر انداز کر جاتے ہیں، کہ وہاں جہاں وہ اب بیٹھتا ہے اپنے مصالحانہ تخت پر [اوپر آسمانوں میں] وہ خدا کے ساتھ انسان ہے۔ اب، اسی لمحے نئے عہد نامے کی تعلیم یہ ہے کہ جنت میں ایک انسان ہے جو خدا کی حضوری میں ہمارے لیے ظاہر ہو رہا ہے۔ وہ یقیناً ویسا ہی انسان ہےجیسے کہ آدم یا موسیٰ یا پولوس تھے۔ وہ ایک نورانی انسان ہے، لیکن اُس کا نور اُسے غیر انسانی نہیں کردیتا۔ آج وہ بنی نوع انسان کی نسل کا ایک حقیقی انسان ہے۔
      نجات ’’مکمل شُدہ کام کے قبول کرنے ‘‘ سے نہیں ملتی ہے یا ’’مسیح کا فیصلہ کرنے سے۔‘‘ [نجات] آتی ہے خداوند یسوع مسیح پر یقین کرنے سے، جو کہ مکمل، زندہ، فاتح خدا ہے، جس نے باحیثیت خد ااور انسان کے ، ہماری لڑائی لڑی اور جیتا، ہمارے قرض [گناہ] قبول کیے اور اُنہیں ادا کیا، ہمارے گناہ اُٹھائے اور اُن کے تحت مرا اور دوبارہ جی اُٹھا تاکہ ہمیں آزادی دلائے۔ یہ سچا مسیح ہے، اور اس سے کم کچھ نہیں ہے (اے۔ ڈبلیو۔ ٹُوزر، ڈی۔ڈی۔، ’’یسوع مسیح خداوند ہے،‘‘ ٹُوزر کی طرف سے جواہرات، Gems from Tozer ، مسیحی اشاعت خانے، 1969، سینڈ دی لائٹ ٹرسٹ کی اجازت سے – 1979 ، صفحات 24، 25).

انسانی دل کی قدرتی بدکاری غیر تبدیل شدہ لوگوں کا سچے مسیح سے اپنا منہ موڑ لینے کا سبب ہے۔

’’ اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں‘‘ (اشعیا 53:‏3)

4۔ چہارم، مکمل بدکاری کے سبب سے بنی نوع انسان مسیح کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

تیسری لائن میں ہمارے کلام کے آخر میں دیکھیے، آئیے کھڑے ہو جائیں اور با آوازِ بلند جملے کے آخری جُز کو پڑھتے ہیں، جو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ’’ اُسے حقارت سے دیکھا گیا. . .‘‘

’’اُسے حقارت سے دیکھا گیا تھا، اور ہم نے اُس کا احترام نہیں کیا‘‘ (اشعیا 53:‏3).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ اُن الفاظ پر بات کرتے ہیں، ’’ ہم نے اُس کا احترام نہیں کیا‘‘، سُپرجئین، ’’مبلغین کے شہزادے،‘‘ نے کہا،

یہ ضرور نسلِ انسانی کا کائناتی اعتراف ہے۔ عظیم ترین سلطان سے لے کر کمینے [نیچ] ترین کسان تک، اعلیٰ و ارفع ذہانت سے لیکر عیاش ترین دماغ تک، تمام لوگوں کے پسندیدہ سے لیکر انجانے اور غیر اہم تک، یہ ایک اعتراف ضرور آنا چاہیے: ’’ہم نے اُس کا احترام نہیں کیا‘‘ . . . یہاں تک کہ مقدسین میں سے مقدس ترین. . . انہوں نے بھی ایک دفعہ ’’اُس کا احترام نہیں کیا‘‘ . . . ایک دفعہ ’’اُس کا احترام نہیں کیا [اُن کے مذہبی طور پر تبدیل ہونے سے پہلے]‘‘ (سی۔ ایچ۔ سُپرجئین، ’’کیوں مسیح کا احترام نہیں کیا گیا ہے،‘‘ میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی خُطبہ گاہ ، پلگِرم اشاعت خانے، 1978 دوبارہ اشاعت، جلد LIII، صفحات 157).

اسی والے واعظ میں جس کا عنوان تھا، ’’کیوں مسیح کا احترام نہیں کیا گیا ہےWhy Christ is Not Esteemed،‘‘ سُپرجئین نے چار وجوہات پیش کی ہیں کہ کیوں کھوئی ہوئی دنیا مسیح کو سرھانے میں ناکام رہی ہے، کیوں مذہبی طور پر غیر تبدیل شدہ لوگ مسیح کی اہمیت نہیں دیکھتے، اُس کے بارے میں ادب سے نہیں سوچتے، اُس کا احترام اور عبادت نہیں کرتے۔ سُپرجئین کہتے ہیں کہ غیر محفوظ لوگ ان چار وجوہات کی بنا پر اُس کا احترام نہیں کرتے ہیں:

(1)  لوگ مسیح کا اس لیے احترام نہیں کرتے کیونکہ وہ خود اپنے آپ کو بہت زیادہ محترم گردانتے ہیں۔ ’’خود۔اعتمادی،‘‘ اُنہوں نےکہا، ’’یسوع کو دور رکھتی. . . اور جس قدر ہماری خود۔اعتمادی بڑھتی ہے، اتنی ہی مضبوطی سے ہم مسیح کے خلاف دروازہ بند [تالا لگاتے] کرتے ہیں۔ خود سے محبت نجات دہندہ کی محبت کو روکتی ہے۔‘‘

(2)  لوگ مسیح کا احترام اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ دنیا کو بہت زیادہ احترام دیتے ہیں۔ ’’ ہم اُس کا احترام اس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہم دنیا اور اس کی تمام حماقتوں سے پیار کرتے ہیں۔‘‘

(3)  لوگ مسیح کا احترام اس لیے نہیں کرتے کیونکہ وہ اُسے جانتے نہیں ہیں۔ ’’مسیح کے بارے میں جاننا اور مسیح کو خود جاننا، ان دونوں کے درمیان بہت واضح امتیاز ہے. . . جو مسیح کے بارے میں غلط سوچتے ہیں اُسے کبھی جان ہی نہیں سکے. . . ’ہم نے اُس کا احترام نہیں کیا‘ . . . کیونکہ ہم اُسے جانتے ہی نہیں تھے۔‘‘

(4)  لوگ مسیح کا احترام نہیں کرتے کیونکہ وہ روحانی طور پر مردہ ہیں۔ ’’اس میں حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم مسیح کا احترام نہیں کرتے تھے، کیونکہ ہم روحانی طور پر مردہ تھے. . . ہم ’ مردہ تھے گناہوں اور بے جا مداخلتوں کے سبب سے‘، اور جیسے لعزر اپنی قبر میں تھا، ہر گزرتے ہوئے لمحے کے ساتھ ہم زیادہ اور زیادہ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘


بنی نوع انسان کا نجات دہندہ کو رد کرنے کی یہ وجوہات ہیں جو سُپرجئین نے پیش کیں، اس حقیقت کے لیے کہ وہ اُس [یسوع] میں کوئی احترام نہیں دیکھتے۔ مجھے حیرت ہے، کیا اس کلام کا اطلاق آپ پر ہوتا ہے؟

’’لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا، وہ ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا: اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا 53:‏3).

کیا اس واعظ کے الفاظ نے آپ کو اپنی بدکاری، اور یسوع کے لیے آپ کے دل کی ضدی مدافعت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا ؟ کیا آپ نے اپنے دل کی تھوڑی بہت بدعنوانیوں کو محسوس کیا، جو مسیح کو رد کرتی ہیں اور اُس کا احترام نہیں کرتی ہیں؟ اگر آپ نے خود میں ذرا سی بھی وہ ناخوشگوار بدعنوانی محسوس کی ہے، تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ صرف خدا کے فضل سے ہے کہ آپ نے ایسا محسوس کیا۔ جیسا کہ بوڑھے جان نیوٹن نے لکھا ہے،

حیرت انگیز فضل! کس قدر میٹھی آواز
   جس نے مجھ جیسے تباہ حال کو بچایا!
میں جو کبھی کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہوں،
   اندھا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں

’یہ فضل تھا جس نے میرے دل کو خوف سیکھایا،
   اور فضل ہی نے میرے خوفوں کو نجات دی؛
یہ فضل کس قدر قیمتی لگتا ہے
   جس گھنٹے میں نے پہلی دفعہ یقین کیا تھا!
(’’حیرت انگیز فضل‘‘ شاعر جان نیوٹن، 1725۔1807).

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا ضدی دل یسوع کے خلاف سلاخوں کے پیچھے قید ہے، اور اگر کسی بھی حد تک آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اپنی بد حال بدکاری میں مسیح کو رد کر رہے ہیں، تو کیا آپ اب اپنی زندگی اُس کے حوالے کریں گے؟ کیا آپ مسیح پر بھروسہ کریں گے، جسے دنیا رد کرتی ہے اور حقیر سمجھتی ہے؟ جب آپ یسوع پر بھروسہ کرتے ہیں تو آپ فوراً اُس کے خون اور اُس کی راستبازی کے وسیلے سے گناہ اور جہنم سے بچا لیے جاتے ہیں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا پادری نے کی تھی۔ اشعیا 52:‏13۔53:‏3 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’حیرت انگیز فضل‘‘ (شاعر جان نیوٹن، 1725۔ 1807).

لُبِ لُباب

مسیح ۔ ہر جگہ حقیر جانا گیا

(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 4)
CHRIST – UNIVERSALLY DEVALUED
(SERMON NUMBER 4 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’ لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا، وہ ایک غمگین انسان تھاجو رنج سے آشنا تھا: اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا53:‏3).

(رومیوں 8:‏7؛ متی 27:‏30، 26 )

1۔ مکمل بدکاری کی وجہ سے لوگ مسیح کو حقیر جانتے اور اُس کی قدر نہیں کرتے ہیں۔
اشعیا 53:‏3الف.

2۔ دوئم، مکمل طور پر مسخ کیا جانا مسیح کی غمگینی اور دُکھ کا سبب ہے۔
اشعیا 53:‏3ب؛ لوقا 13:‏34؛ 22:‏44 .

3۔ سوئم، تمام بدکاری نسلِ انسانی کو میسح سے اپنا چہرہ چھپانے کا سبب بنتی ہے۔
اشعیا 53:‏3ج؛ 2۔کرنتھیوں 11:‏4؛ متی 24:‏24 .

4۔ چہارم، بنی نوع انسان کا مسیح کو حقارت کی نظر سے دیکھنا مکمل بدکاری کے سبب ہے۔
اشعیا 53:‏3د.