Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

اِرتداد

THE APOSTASY
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
29 دسمبر، 2012، خُداوند کے دِن، شام کو
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Saturday Evening, December 29, 2012

’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا: کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا، جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں، اور وہ مردِ گناہ ظاہر نہ ہو جائے، جس کا انجام ہلاکت ہے‘‘ (2۔ تھِسّلُنیِکیوں 2:‏3).

’’وہ دِن‘‘ آیت دو میں ’’خُداوند کے دِن‘‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ تھسّلُنیکیوں کی کلیسا خوفزدہ نہیں تھی کہ مسیح دوبارہ آیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ لیکن وہ پریشان تھے کہ خُداوند کے دِن کا پہلا حصہ آ گیا تھا، اور کہ وہ پہلے ہی سے قیامت کے دور میں تھے۔ وہ شدید ایذا رسانیاں جن کا تجربہ وہ کافر رومی حکومت سے کر رہے تھے اُس نے اُنہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ پہلے سے ہی قیامت میں تھے۔ وہ خوفزدہ تھے کہ خُداوند کے قہر و غضب کا آخری وقت شروع ہو چکا تھا۔ اب، ہماری تلاوت میں، پولوس رسول نے سمجھایا ہے کہ وہ کیوں قیامت کے دور میں نہیں رہ رہے ہونگے۔ دو واقعات کو پہلے رونما ہونا ہوگا۔ ولیم میکدونلڈ William MacDonald نے کہا،

      سب سے پہلے تو لوگوں کا ایمان سے برگشتہ ہونا ہوگا، یا اِرتداد۔ اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ ... یہ مسیحی ایمان سے بہت بڑے پیمانے پردست برداری کی طرف اشارہ کرتا پے، مسیحی ایمان سے ایک مثبت تردید۔
      پھر ایک عظیم عالمگیر ہستی اُٹھ کھڑی ہوگی۔ جہاں تک اُس کے کردار کا تعلق ہے، وہ ’’لاقانونیت کا مرد‘‘ ہے۔ یعنی کہ، گناہ اور بغاوت کا ایک اوتار (ولیم میکڈونلڈ، ایمان والوں کی بائبل کا تبصرہ Believer’s Bible Commentary، تھامس نیلسن اشاعت خانے
 Thomas Nelson Publishers، اشاعت 1995، صفحہ 2053؛ 2۔ تھسّلُنیکیوں 2:‏1۔3 پر تبصرہ)۔

’’لاقانونیت کا مرد‘‘ دشمن مسیح کی طرف اشارہ کرتا ہے، دُنیا کا حتمی آمر حاکم۔ اِس لیے، رسول ہمیں بتاتا ہے کہ اِس سے پہلے کی قیامت رونما ہو دو باتوں کو رونما ہونا ضروری ہے – اِرتداد یا انحراف، اور دشمن مسیح یا دجال کا رونما ہونا۔ اِس حوالے میں، مَیں اِس میں سے پہلی والی بات پر بات چیت کر رہا ہوں – اِرتداد۔ خُداوند کا دِن نہیں آئے گا ’’ماسوائے کہ اُس سے پہلے ایمان سے برگشتگی آئے گی۔‘‘ ڈاکٹر ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell نے کہا،

اِس جملے ’’ایمان سے برگشتگی‘‘ کا شاید ترجمہ ’’اِرتداد یا انحراف‘‘ ہو سکتا ہے۔ اِس میں آرٹیکل [the] کا اِستعمال اشارہ کرتا ہے کہ پولوس کے ذہن میں ایک مخصوص اِرتداد ہے۔ اِس میں مُضمر یہ ہے کہ ’’خُداوند کے دِن‘‘ سے پہلے اقراری ایمانداروں کا واضح طور پر ایمان سے برگشتہ ہونا رونما ہوگا (ڈبلیو۔ اے۔ کرسویل، پی ایچ۔ ڈی۔، کرسویل کی بابئل کا مطالعہ
 The Criswell Study Bible
، تھامس نیلسن اشاعت خانے
 Thomas Nelson Publishers، ‏1979؛ 2۔ تھسّلُنیکیوں 2:‏3 پر ایک یاداشت)۔

مسیحی زمانے یا فرائض سے سُبکدوشی کے زمانے کے دوران اِرتداد کے بے شمار دورانیے آ چکے ہیں۔ لیکن جدید زمانوں تک کسی دور میں بھی ایک مکمل حلقے میں ’’مسیحی ایمان کی بڑے پیمانے پرسبکدوشی‘‘ نہیں ہوئی تھی (میکڈونلڈ، ibid.)۔ آج تمام بڑے بڑے پروٹسٹنٹ فرقے اِرتداد کی الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ میتھوڈسٹ سکولوں اور اداروں کے ساتھ ساتھ لوتھرن جو مرکزی پریسبائیٹیرین Presbyterian فرقے ہیں، دی ایپی کو پیلئینز Episcopalians اور بہت سے بپتسمہ دینے والے، جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب آج کا اِرتداد Today’s Apostasy میں تصدیق کی ہے کے بارے میں سچ ہے (ھرتھسٹون اشاعت خانے Hearthstone Publishing، ‏1999؛ دوسری اشاعت 2001)۔ آزاد خیال اِرتداد میں جھکاؤ تو یہاں تک کہ رومن کاتھولک کلیسیا میں بھی آیا ہے، جہاں خود پاپائے اعظم اب مکمل طور پر ڈارون کے ارتقاء کو قبول کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ھیرالد لِنڈسِل نے اپنی اِمتیازی کتاب بائبل کے لیے جنگ
The Battle for the Bible
(ژونڈروان Zondervan، ‏1976) میں گرجہ گھروں میں اِرتداد پر تفصیل سے تحریری دستاویز کیا ہے۔ اُس کتاب میں درج کچھ ابواب کے عنوانات اِرتداد کے معالجوں پر تشکیل دیے گئے ہیں جن میں،

دی لوتھرن میسوری۔کلیسیائی مجلس The Lutheran Church-Missouri Synod
فُلر علم الہٰیات کا دینوی مدرسہ Fuller Theological Seminary
اور دوسرے فرقے اور ذیلی گرجھ گھروں کے گروہ۔ and Other Denominations and Parachurch Groups

گورڈن کونویل علم الہٰیات کے دینوی مدرسہ Gordon-Conwell Theological Seminary میں تاریخ اور درجہ بہ درجہ علم الہٰیات کے پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ ایف۔ ویلز Dr. David F. Wells نے انجیلی بشارت میں اِرتداد پر بے شمار کتابیں لکھیں ہیں، جن کے اِس قسم کے عنوانات ہیں جیسے، بنجر زمین میں خُدا God in the Wasteland، اپنی نیکیاں کھونا Losing our Virue، اور سچ کے لیے کوئی جگہ نہیں No Place for Truth: یا جو کچھ بھی انجیل بشارت کے علم الہٰیات کو ہوا What Ever Happened to Evangelical Theology؟ ٹائم میگزین Time Magazine نے ڈاکٹر ویلز کی کتابوں کو ’’انجیلی بشارت کی علم الہٰیاتی بدعنوایوں کے ڈس لینے والے الزامات‘‘ کہا ہے۔ اپنی کتاب سچائی کے لیے کوئی جگہ نہیں No Place for Truth (عئیرڈمینز Eerdmans، ‏1993) میں ڈاکٹر ویلز نے کہا،

جیسے جیسے مسیحی سچائی کی دُنیا ٹوٹتی جا رہی ہے ... اُس کا نتیجہ … عملی دہریت ہے، اِس سے فرق نہیں پڑنا چاہے یہ آزاد خیال ہوں یا بنیاد پرست ہوں جو اِس میں مصروف ہیں۔ یہ دہریت ہے جو کلیسیا کو ماسوائے اُن عبادات سے زیادہ جو یہ پیش کرتی ہے یا اُن اچھے خیالات سے زیادہ جو راہب پیدا کر سکتے ہیں ختم کر دیتی ہے... ایک معاون پیشے سے زیادہ کم کردیتی ہے… ہمارے پاس صرف احساس رہ جاتا ہے ... جو بغیر انصاف کیے سُننا چاہتا ہے،جس کی ... سچائی میں کم دلچسپی ہوتی ہے، جو کہ ہمدردانہ ہے مگر اُس کے لیے جو درست ہے کوئی جذبہ نہیں رہتا (صفحات 248، 249)۔

اُنہوں نے دوبارہ کہا،

آج کے دور کے ساتھ مطابقت کےلیے ایک لمبے عمل کے ذریعے سے انجیلی بشارت کی دُنیا نے اپنی انقلاب پسندی کھو دی ہے۔ درد ناک طور پر، اُس نے خُدا پر اکتفایت اور اُس کی مرکزیت پر اپنی روایتی سمجھ بوجھ کھو دی ہے ... کلیسیا کو اب جس بات کی ضرورت ہے وہ حیات نو نہیں بلکہ مذہبی اصلاح ہے (ibid. صفحات 295، 296)۔

وہ کہتے ہیں کہ قوی کلیسیائیں، اُبھرتی ہوئی کلیسیائیں اور ترقی یافتہ ’’ایک زیادہ آزاد خیال مسیحیت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ آنے والے دور میں اِن انجیلی بشارت والوں کے بچے کُلی طور پر مکمل آزاد خیال بن چکے ہوں گے۔ مجھے اندیشہ ہے، بالکل اُنہی کی طرح جن کے خلاف ہمارے آباؤ اِجداد نے حقیقت میں احتجاج کیا تھا۔‘‘ (ڈیوڈ ایف۔ ویلز، پی ایچ۔ ڈی۔، پروٹسٹنٹ ہونے کے حوصلہ The Courage to Be Protestant، عئیرڈ مینز اشاعتی ادارہ Eerdmans Publishing Company، ‏2008، صفحہ 2)۔ میں اُس کے ساتھ متفق ہوں، ماسوائے اِس کے کہ میں سوچتا ہوں اُن میں سے بہت سے پہلے ہی سے ’’مکمل آزاد خیال‘‘ ہیں۔ مثال کے طور پر، راب بیل Rob Bell کے دائمی جہنم پر حملے یا ماضی میں سے دوسرے آزاد خیالوں میں سے کسی کی بھی رائے ھیری ایمرسن فوسڈیک Harry Emerson Fosdick کی ایک کتاب میں یکدم ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اور بیل کی کتابوں کو مکمل طور پر فُلر علم الہٰیات کے دینوی مدرسے Fuller Theological Seminary کی حمایت حاصل تھی!

’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا: کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا، جب تک کہ لوگ ایمان سے برگشتہ نہ ہو جائیں…‘‘ (2۔ تھِسّلُنیِکیوں 2:‏3).

ہم بِلا کسی سوال کے اب اِرتداد کے بالکل اُسی دور میں رہ رہے ہیں!

مگر اِرتداد کا آغاز کیسے ہوا تھا؟ ڈاکٹر مارٹن جونز درست تھے جب اُنہوں نے کہا،

مجھے یہ اعلانیہ طور پر یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ آج مسیحی گرجہ گھر کی حالت کی، اور پوری دُنیا کی حالت کی اہم ترین وجہ ہولناک اِرتداد ہے جس نے تدریجی طور پر گذشتہ سو سالوں سے کلیسیا کی تصویرکشی کی ہے (ڈی۔ مارٹن لائیڈ جونز D. Martyn Lloyd-Jones، ایم۔ ڈی۔، حیات نو Revival، کراس وے کُتب خانے Crossway Books، اشاعت
 1987، صفحہ 55)۔

ڈاکٹر لائیڈ جونز نے یہ 1970 کی ابتدائی دہائی میں کہا تھا۔ اگر اُنہوں نے یہ بیان آج دیا ہوتا تو وہ کہتے، ’’وہ ہولناک اِرتداد جس نے تدریجی طور پر گذشتہ ایک سوپچاس سال سے کلیسیا کی تصویر کشی کی ہے۔‘‘

ہم اِرتداد کی جڑوں کی کھوج ماضی میں روشن خیالی کے دور میں کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر فرانس اے۔ شیفر
 Dr. Francis A. Schaeffer (‏1912۔1984) نے اُجاگر کیا تھا کہ فرانسیسی فلسفہ دان وولٹائر
 Voltaire (‏1694۔1778) کو ’’روشن خیالی کا بانی‘‘ کہا گیا تھا۔ ڈاکٹر شیفر نے کہا،

روشن خیالی کے مثالی معاشرتی خواب کو پانچ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے: سبب، قدرت، خوشی، ترقی، اور آزادی۔ یہ اپنے خیالات میں مکمل طور پر دنیاوی تھا (فرانسس اے۔ شیفر Francis A. Schaeffer، ڈی۔ڈی۔، پھر ہمیں کیسے جینا چاہیے؟ ?How Should We Then Live، اصلی جملہ حقوق 1976؛ کراس وے کُتب خانے کا 2005 میں دوبارہ اشاعت کیا ہوا، صفحہ 121)

روشن خیالی کی سوچ میں انسان مرکزی تھا۔ خُدا اور بائبل کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا تھا۔

اِرتداد کے ہمارے مطالعے کے لیے، تین روشن خیال لوگ کھڑے نظر آتے ہیں اور اُن کا معنی خیز ہونا انتہائی اہم ہے۔ جوحان سیملر Johann Semler (‏1725۔1791) ایک جرمنی کے عالم الہٰیات تھے جنہوں نے کہا کہ علم الہٰیات مسلسل تبدیلی اور نشوونما کے تابع تھا جس کا ماہرین علم الہٰیات مختلف تہذیبی و ثقافتی حالات سے ردعمل کرتے تھے۔ نتیجے کے طور پر، اُنہوں نے کہا کہ بائبل میں اتنا کچھ ہے جس نے متاثر نہیں کیا ہے۔ بائبل کی قدروقیمت کو ہر فرد کے جانچنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ یوں، سیملر نے انسانی سبب کو بائبل سے تعلق رکھنے والے الہٰام سے بالا کردیا، اور بائبل کی تنقید کے لیے دروازہ کھول دیا جس نے جلد ہی جرمنی سے بہہ کرجدید دُنیا میں بائبل کے اختیار کا بیڑا غرق کر دیا۔

دوسرا آدمی جس کی اِرتداد کی نشوونما میں شدید اہمیت تھی چارلس ڈاروِن Charles Darwin (‏1809۔1882) تھا۔ ڈاروِن کی واحد تعلیمی سند علم الہٰیات میں تھی۔ لیکن اُس نے پیدائش کی کتاب میں تخلیق کے واقعے میں اپنے ابتدائی ایمان کو متروکہ کر دیا تھا، اور اپنے انواع کی تقلیب کی عمل کے نظریے کو تشکیل دیا، جو کہ اُن کی کتاب انواع کا نقطہ آغاز The Origin of Species میں ارتقا کے طور پر مشہور ہوا۔ بعد میں، اُنہوں نے اپنے ارتقا کے عقیدے کو 1871 میں اپنی کتاب انسان کی نسل The Descent of Man میں نوع انسانی پر لاگو کردیا۔ تھامس ھکسلے Thomas Huxley (‏1829۔1895) نے مختلف مباحثوں میں جن میں اُنہوں نے مسیحیت پر حملہ کیا ڈاروِن کے ارتقا کو شہرت دی۔ ڈاروِن اور ھکسلے نے شدت سے مسیحی ایمان اور کلام پاک کے اختیار کو کھوکھلا کیا تھا۔

روشن خیالی کا سوچنے والا تیسرا انسان، جس کو عموماً ارتداد کے عروج میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے چارلس جی۔ فنی Charles G. Finney (‏1792۔1875) تھا۔ فنی نے پروٹسٹنٹ اصلاح پسندی کی تعلیمات پر حملہ کیا تھا، اور نجات کو خُدا کے بجائے انسان کے ہاتھوں میں دے دیا تھا۔ فنی نے تعلیم دی تھی کہ انسان اپنی مرضی کے اعمال کے ذریعے سے نجات کو چُن اور مسترد کر سکے گا۔ اِس لیے واحد فضل ہی کے ذریعے سے نجات، جواصلاح کا عظیم عقیدہ ہے اُس کو فنی کے جدید عقیدے neo-Pelagianism نے [جو موروثی گناہ کی تردید اور انسانوں کے راستباز ہونے کے اہلیت کی تصدیق کرتا ہے] بدل دیا تھا – جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان خود اپنے ذریعے سے ایک مسیحی بننے کے لیے فیصلہ کر سکے گا، اور وہ ایسا خود اپنی مرضی کے عمل سے کر سکے گا۔ فنی ایک آرمینئین نہیں تھا۔ وہ ایک بھرپور پیلا گیانسٹ Pelagianist تھا۔ فنی کی پیلاگیانسٹ بدعت نے بالاآخر واحد فضل کے ذریعے سے نجات کی تعلیمی اصلاح کو توڑ دیا اور اُس کی جگہ لے لی۔ فنی اِزم اِس قدر طاقتور ہو گئی کہ اُس نے لگ بھگ کلاسیکل پروٹسٹنٹ علم الہٰیات کو جدید ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے ساتھ بدل ڈالا تھا۔

آئے معائنہ کرتے ہیں کہ کیسے ’’فیصلہ سازیت‘‘ نے گرجہ گھروں کو ڈبویا اور آج کے اِرتداد کو جنم دیا۔ اپنی کتاب، حیات نو اور عقیدہ حیات نو: 1750۔1858 تک کی امریکہ انجیلی بشارت کی تعلیمات کا سنورنا اور بگاڑن
اRevival and Revivalism: The Making and Marring of American Evangelicalism 1750-1858
، میں آئعن ایچ۔ میورے Iain H. Murray نے نقطہ اُٹھایا کہ انیسویں صدی میں انجیلی بشارت کی تعلیمات نے مسیح میں تبدیلی کے پرانے خیال سے منہ موڑ کر چارلس جی۔ فنی (1792۔1875) کی سیکھائی ہوئی ’’فیصلہ سازیت‘‘ کی طرف رُخ کر لیا تھا۔ میورے نے اعلانیہ کہا تھا کہ یہ بدلاؤ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں مشہور انجیلی بشارت کے خیالات میں تقریباً مکمل ہو گیا تھا:

      یہ تصور کہ مسیح میں تبدیل انسان کا کام ہے انجیلی بشارت کی تعلیم کے لیے مقامی علاقائی مرض [انجیلی بشارت کی تعلیم کے لیے ایک اہم جُز] بن گیا تھا، اور بالکل ایسے جیسے انسان بھول گیا تھا کہ احیاء خُدا کا کام ہے، ویسے ہی یہ اعتقاد کہ حیات نو خُدا کی روح کا کام ہے غائب ہو گیا تھا۔ [یہ] فنی کی الہٰی تعلیم کی براہ راست پیداوار تھی
 (آئعن ایچ۔ میورے، حیات نو اور عقیدہ حیات نو: 1750۔1858 تک کی امریکہ انجیلی بشارت کی تعلیمات کا سنورنا اور بگاڑنا:Revival and Revivalism
The  Making and Marring of American Evangelicalism
1750-1858
، سچائی پر بھروسے کا بینر Banner of Truth Trust،
 ‏1994، صفحات 412۔13)۔

میورے کی کتاب اِس اہم دورانیے میں گہری بصیرت پیش کرتی ہے۔ چودھویں باب کو پہلے پڑھنا چاہیے۔ یہ انجیلی بشارت کے مذہب کا مسیح میں تبدیلی کے پرانے تصور سے دور ہو کر فنی کے ’’فیصلہ سازیت‘‘ کے نئے عقیدے کی طرف جھکاؤ کا احاطہ کرتا ہے۔ مسیح میں تبدیلی جس طرح سے ابتدائی پروٹسٹنٹ اور بپتسمہ دینے والے تعلیم دیتے تھے آہستہ آہستہ بھلائی گئی تھی، اور مسیح کے لیے محض ایک فیصلے سے تبدیل کی گئی، ایک فرد کے لیے چاہے اِس کا کوئی بھی مطلب نکلتا ہو۔ ’’آگے بڑھنا‘‘، ’’ہاتھ بُلند کرنا‘‘، ’’گنہگار کی دعا کہنا‘‘، ’’مسیح کو کسی کا خُداوند بنا ڈالنا،‘‘ ’’نجات کے منصوبے‘‘ کا یقین کرنا، یا بائبل کی چند آیات کا، اِس نے مسیح میں تبدیلی کے بائبل کے تصور کو ایسے بدل دیا تھا جیسے یہ انسان کے دِل میں خُدا کا ایک کا کام ہے۔

مسیح میں تبدیلی سے فیصلہ سازیت کی جانب تبدیلی، جس کی قیادت فنی کے ذریعے سے ہوئی تھی، کو بے شمار دوسروں نے بھی محسوس کر لیا تھا۔ ڈاکٹر ڈیوڈ ایف۔ ویلز Dr. David F. Wells، جو گورڈن کونویل علم الہٰیات کے دینوی مدرسے Gordon-Conwell Theological Seminary میں درجہ بہ درجہ علم الہٰیات اور تاریخ کے پروفیسر تھے اُنہوںنے کہا، مسیح میں تبدیلی کے بارے میں جاننے میں منتقلی کے بہت سے مراحل تھے۔‘‘ اُنہوں نے اُنہیںپیش کیا اور پھر نقطہ اُٹھایا کہ اِن تبدیلیوں کا تعلق چارلس فنی کی منادی کے ساتھ ہے (ڈیوڈ ایف۔ ویلز، پی ایچ۔ ڈی۔، خُدا کی طرف مُڑنا: جدید دُنیا میں بائبل کی مسیحی تبدیلی Turning to God: Biblical Conversion in the Modern World، بیکر کتاب گھرBaker Book House، 1989، صفحہ 93)۔ مرحوم تاریخ دان ڈاکٹر ولیم جی۔ میکلاہلِن جونئیر William G. McLoughlin Jr. نے چارلس گرینڈِسن فنی کی بات کی تھی، جنہوں نے 1825۔1835 کے سالوں میں، جدید حیات نو کو تشکیل دیا تھا‘‘ (ولیم جی۔ میکلاہلِن جونئیر، پی ایچ۔ ڈی۔، جدید حیات نو: چارلس گرینڈِسن فنی سے لے کر بلی گراھم تک Modern Revivalism: Charles Grandison Finney to Billy Graham، دی رونلڈ پریس کمپنی، 1959، صفحہ 11)۔ انجیلی بشارت کے ماہر الہٰیات جے۔ آئی۔ پیکر J. I. Packer متفق تھے، یہ کہنے میں کہ ’’ جدید قسم کی انجیلی بشارت 1820 کی دہائی میں چارلس جی فنی کے ذریعے سے ایجاد ہوئی تھی‘‘ (جے۔ آئی۔ پیکر، بے دینی کے لیے ایک مہم A Quest for Godliness، کراس وے کتب خانے Crossway Books، 1990، صفحہ 292)۔ رچرڈ رابنوویٹز Richard Rabinowitz نے مسیح میں تبدیلی کا فیصلہ سازیت میں بدلنے کے بارے میں فنی کے دور کے دوران ایک دُنیاوی تاریخ دان کے نقطہ نظر سے لکھا ہے (رچرڈ رابنوویٹز، روزمرہ زندگی میں ذاتی روحانیت: نئے انگلستان میں انیسویں صدی میں ذاتی مذہبی تجربے کی تبدیلی The Spiritual Self in Everyday Life: The Transformation of Personal Religious Experience in Nineteenth-Century New England، شمال مشرقی یونیورسٹی اشاعت خانہ Northeastern University Press، 1989)۔ دوسرے مبلغین کا بھی اِس بدلاؤ میں حصہ تھا، مگر یہ فنی تھا جس نے واضح طور پر قیادت کی تھی۔

یوں، چارلس جی۔ فنی کی تصانیف اور منادی کے ذریعے سے بڑی حد تک مسیح میں تبدیلی فیصلہ سازیت میں بدلی تھی، جیسا کہ اِن آدمیوں میں واضح کیا تھا۔ امریکہ کے گرجہ گھروں نے فنی کے نظریات کو اپنا لیا تھا، اور بعد میں، بیسویں صدی کے دوران، برطانوی جزائر کے گرجہ گھروں میں خُفیہ طور پر گھس گئے۔ آج آئعن میورے Iain Murray کا بیان انگریزی بولے جانی والی دُنیا میں کافی حد تک انتہائی عالمگیری ہے: لوگ بھول جاتے ہیں کہ احیاء خُدا کا کام ہے، اس لیے حیات نومیں اعتقاد کہ وہ خُدا کی روح کا کام ہے غائب ہوگیا۔ [یہ] فنی کے علم الہٰیات کی براہ راست پیداوار تھا‘‘ (میورے، حیات نو اور عقیدہ حیات نو Revival and Revivalism، صفحات 412۔413)۔ جیسا کہ ولیم جی۔ میکلاھلِن جونئیر نے بیان دیا،’’اُس نے امریکہ عقیدہ حیات نو میں ایک نئے دور کا اِفتتاح کیا تھا۔ اُس نے انجیل بشارت کے طریقہ کار اور فلسفے کو مکمل تبدیل کر دیا تھا‘‘ (میکلاھلِن، جدید عقیدہ حیات نو، صفحہ 11)۔ ہم آج بھی اُس بدلاؤ کے اثرات کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد اِرتداد ظاہر کرتا ہے کہ فنی کی فیصلہ سازیت نے ہمارے گرجہ گھروں کی موت کی طرف راہنمائی کی ہے۔

فنی روشن خیالی کی ایک پیداوار تھا، جس نے اٹھارویں صدی میں انسان دوستی (انسانی سبب بطور شعور کا منبع) کو فلسفیاتی موضوع میں متعارف کروایا۔ قانون پر بلیک سٹون کے تبصرے Blackstone’s Commentaries ایک مرکزی گزرگاہ تھے جن کے ذریعے سے روشن خیالی کا تصورات فنی کی سوچوں میں آئے تھے۔ فنی کی علم الہٰیات کی کتاب تقریباً مکمل طور پر انسانی اسباب پر مشتمل ہے، جو روشن خیالی کی جانب اُس کا قرض ظاہر کرتی ہیں۔ کانت Kant (d. 1804) اور شلیئعیرمیشر Schleiermacher (d. 1834) کے دلائل، کہ مذہب انسان کے مذہبی تجربات کے مقابلے میں خُدا کے بارے میں کم ہے، کُلی طور پر فنی کے علم الہٰیات اور طریقیات کا تاثر پاتا ہے۔ جی ڈبلیو ایف ھیجل G. W. F. Hegel (d. 1831) نے کہا کہ خُدا ایک شخصیت سے محروم قوت ہے۔ یہ تصور بار بار فنی کی تصانیف میں بھی پنپتا نظر آیا ہے۔ اِس لیے، عمانوئیل کانت Emmanuel Kant، فرائڈرچ شلیئعیر میشر Friedrich Schleiermacher اور جی ڈبلیو ایف ھیجل G. W. F. Hegel جیسے روشن خیال لوگوں کے فلسفیاتی تصورات اِن خیالات کے اُس شاندار نوجوان وکیل کے دماغ میں سے کشید ہو کر پہنچے تھے۔ انسانی مرکزیت اور انسانی اِکتفایت فنی کے دور کی عقلی سوچ کا حصہ بن گئی تھی، اور وہ اِن تصورات سے انتہائی متاثر تھا۔ اور یہ کافی حد تک فنی کے ذریعے سے ہی تھا کہ روشن خیالی نے پھر پروٹسٹنٹ عقیدے اور باقی تمام میں خُفیہ طور پر گھس کر بدلاؤ کیا لیکن اِسے تباہ کر دیا۔ اتنا ہی قبل جتنا کہ 1887 تھا سپرجئین Spurgeon کہہ سکتا تھا، ’’گرجہ گھر کو جدید بدعت کے اُبلتے ہوئے کیچڑ زدہ چھینٹوں کے نیچے دفن کر دیا گیا ہے‘‘ (’’خون بہتوں کے لیے بہایا گیا The Blood Shed for Many،‘‘ دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پلگرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1974،جلد 33، صفحہ 374)۔

فنی کی فیصلہ سازیت نے پہلے مذہبی جماعتوں کے اراکین Congregationalists کو، پھر میتھوڈسٹ کو،پھر پریسبائیٹیرئین Presbyterians کو، اور پھر مختلف بپتسمہ دینے والے گروہوں کوتباہ کیا تھا۔ آزاد خیالی اِن گرجہ گھروں کی موت کا سبب نہیں تھی، فیصلہ سازیت تھی۔ فیصلہ سازیت نے آزاد خیالی کو پیدا کیا تھا۔ جنوبی بپتسمہ دینے والی سیمنری میں جہاں میں نے تعلیم حاصل کی ہر آزاد خیال پروفیسرنے کسی نہ کسی قسم کا فیصلہ تشکیل دیا تھا۔ لیکن اِن فیصلوں نے اُنہیں مسیح میں تبدیل نہیں کیا تھا – اس لیے وہ آزاد خیالی کو جب اُنہوں نے اُس کا مطالعہ کیا شدت سے اپناتے چلے گئے۔ فیصلہ سازیت آزاد خیالی کو پیدا کرتی ہے کیونکہ ایک مسیح میں نجات نہ پایا ہوا شخص، حالانکہ اُس نے ایک فیصلہ لے لیا ہوتا ہے، بالکل بھی بائبل کا روحانی پیغام نہیں سمجھ سکتا ہے (حوالہ دیکھیں 1۔کرنتھیوں 2:‏14)۔ یسوع نے ایک دفعہ ایک مشہور بائبل کے اُستاد سے کہا، ’’حیران نہ ہو کہ میں نے تجھ سے کہا کہ تم سب کو نئے سرے سے پیدا ہونا لازمی ہے‘‘ (یوحنا کہ تم سب کو نئے سرے سے پیدا ہونا لازمی ہے‘‘ (یوحنا 3:‏7)۔ فیصلہ سازیت نے گرجہ گھروں کو مسیح میں نجات نہ پائے ہوئے لوگوںسے بھر دیا تھا۔ فیصلہ سازیت کے نتیجے میں پروٹسٹنٹ فرقے کھوئے اور مرد اور عورتوں کے تحت قابو میں آ گئے۔ یہ اِس طرح ہے کہ آج کا اِرتداد یعنی مذہبی انحراف گرجہ گھروں کو گھیرے ہوئے ہے۔

اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، آپ نے کیا سیکھا ہے، آپ نے کتنے ’’فیصلے‘‘ یا ’’کتنی مرتبہ نئے طور پر اپنے آپ کو وقف‘‘ کیا ہے، یا آپ نے مسیح کو اپنا خداوند بنانے کی کس قدر کوشش کی ہے، آپ کو اب بھی ایک حقیقی مسیح میں تبدیلی کا تجربہ کرنا ہوگا ورنہ آپ جہنم میں جائیں گے۔ یہ ہماری دعا ہے کہ آپ گناہ کے تحت سزا میں آئیں اور اِس سے پہلے کہ تاخیر ہو جائے مسیح پر بھروسہ ایک حقیقی مسیح میں تبدیلی سے کریں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’مسیح واپس آ گیا Christ Returneth‘‘ (شاعر ایچ۔ ایل۔ ٹرنر H. L. Turnerاِرتداد، 1878)۔