Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

دُعّا کی قِسم جس کا خُدا جواب دیتا ہے

THE KIND OF PRAYER GOD ANSWERS
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
14 اکتوبر 2012، خُداوند کے دِن، شام کو
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, October 14, 2012

میرے ساتھ لوقا 11:5 کھولیئے۔ میں نے اِن آیات پر آج صبح بات کی تھی۔ لیکن میں آپ کو یہاں کچھ اور دکھانا چاہتا ہوں جو مسیح نے ہمیں یہاں سکھایا، کچھ ایسا جو میں آج صبح واعظ میں سامنے نہیں لایا تھا۔ مہربانی سے کھڑے ہو جائیے جیسے میں حوالہ پڑھتا ہوں۔

’’پھر اُس نے اُن سے کہا: فرض کرو کہ تُم میں سے کسی کا ایک دوست ہے۔ وہ آدھی رات کو اُس کے پاس جاکر کہتا ہے کہ اَے دوست! مجھے تین روٹیاں دے؛ کیونکہ میرا ایک دوست سفر کرکے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ اُس کی خاطر تواضع کر سکوں۔ اور وہ اندر سے جواب میں کہتا ہے: مجھے تکلیف نہ دے دروازہ بند ہے اور میں اورمیرے بال بچّے میرے ساتھ بستر میں ہیں، میں اُٹھ کر تجھے دے نہیں سکتا۔ میں تُم سے کہتا ہُوں کہ اگرچہ وہ اُس کا دوست ہے، وہ اُٹھ کر نہ بھی دے تو بھی اُس کے بار بار اصرار کرنے کے باعث ضرور اُٹھے گا اور جتنی روٹیوں کی اُسے ضرورت ہے دے گا۔ پس میں تُم سے کہتا ہوں: مانگتے رہو گے تو تمہیں دیا جائے گا، ڈھونڈتے رہو گے تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاتے رہو گے تو تمہارے لیے کھول دیا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اُسے ملتا ہے، جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے اور جو کھٹکھٹاتا ہے اُس کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا۔ تُم میں سے کون سا باپ ایسا ہے کہ جب اُس کا بیٹا روٹی مانگے تو اُسے روٹی نہیں بلکہ پتھر پکڑا دے؟ یا تُم میں سے کون سا باپ ایسا ہے کہ جب اُس کا بیٹا مچھلی مانگے تو اُسے مچھلی نہیں بلکہ سانپ پکڑا دے؟ یا انڈا مانگے تو اُس کے ہاتھ میں بچھو تھمادے۔ پس جب تُم بُرے ہوکر بھی اپنے بچّوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہوتو کیا آسمانی باپ اُنہیں پاک روح افراط سے عطا نہ فرمائے گا جو اُس سے مانگتے ہیں‘‘ (لوقا 11:5۔13).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

یسوع نے ہمیں سیکھایا کہ جب ہم دُعّا کریں تو پُریقین ہونا چاہیے۔ ’’پُریقین‘‘ سے میرا مطلب ’’واضح‘‘ اور ’’بالکل درست‘‘ ہے۔ چینی گرجہ گھر کے میرے دیرینہ پادری ڈاکٹر ٹموتھی لِن Dr. Timothy Lin نے کہا، ’’کبھی کبھی ہماری دُعّاؤں کا جواب نہیں ملتا [کیونکہ] وہ انتہائی سرسری ہوتی ہیں۔ دُعّائیں جو خُدا چاہتا ہے وہ ہیں جو تفصیلات سے بھرپور ہوں ... خُدا کی خواہش ہے کہ ہم اُس پر ہر فکر اور پہلو ظاہر کریں یا دُعّا کی ہر تفضیل بتائیں بجائے اِس کے کہ محض اپنی ضرورت کا نام لیں دیں‘‘ (ٹموتھی لِن، پی ایچ۔ ڈی۔، کلیسیا کے بڑھنے کا راز The Secret of Church Growth، پہلا چینی بپتسمہ دینے والا گرجہ گھرFirst Chinese Baptist Church، 1992، صفحہ 107)۔

اپنی عظیم کتاب، دُعّا: مانگنا اور پوچھنا Prayer: Asking and Receiving، میں ڈاکٹر جان آر۔ رائس Dr. John R. Rice نے کہا،

      روزمرّہ زندگی کے معاملے میں، ہم اپنی درخواستیں بالکل واضح کرتے ہیں۔ ہم کبھی بھی ریستوران جا کر یہ نہیں کہتے، ’’مجھے کھانے کو کچھ لا دو۔‘‘ ہم بہت احتیاط کے ساتھ کھانے کی فہرست میں سے جو ہمیں محض کھانا ہوتا ہے اور اُس کی قیمت کی ادائیگی کا سوچ کر چُنتے ہیں۔ شاید ہم کہتے ہیں، ’’مجھے چھوٹے گوشت کے قتلے، درمیانی پکے ہوئے؛ کچھ فرینچ تلے ہوئے آلو، اور سلاد چاہیے۔ مجھے کالی چائے، گرم، ملائی کے ساتھ؛ اور سنگترے کی جیلی میٹھے میں چاہیے۔ جب آپ کھانا لیتے ہیں تو آپ پُریقین ہوتے ہیں کہ آپ کیا مانگ رہے ہیں (جان آر۔ رائس۔، ڈی۔ڈی۔، دُعّا: مانگنا اور پانا Prayer: Asking and Receiving، خُداوند کی تلوار اشاعت خانے Sword of the Lord Publishers، 1970، صفحہ 146)۔

دوبارہ، ڈاکٹر رائس نے کہا،

      کوئی عورت بھی کریانہ کی دکان میں جا کر نہیں کہتی، ’’مہربانی سے مجھے کریانے کی ایک ٹوکری دے دیں۔‘‘ اِس کے بجائے،وہ خالص گندم کی روٹی کے ایک مخصوص برانڈ کو، بہترین تروتازہ سلاد کی گٹھی، تین چکوترے grapefruit، اور اُس کے پسندیدہ سؤر کی پشت کے گوشت کے دو پاؤنڈ کو [منتخب] چُنتی ہے۔ دوسرے معاملات سے تعلق رکھنے والی درخواستوں کے سلسلے میں ہم بہت پُریقین ہوتے ہیں۔ تو پھر ہم کیوں نہیں یقین کے ساتھ دُعّا بھی کرتے ...
      دُعّا کے بارے میں جدید تصور اور جدید عمل اِس قدر غیر واضح ہے کہ یہ احمقانہ اور مکارانہ لگتا ہے۔ دُعّا بہت یقین کے ساتھ خُدا سےکچھ مانگنا ہے۔ اِس کو اتنا ہی مخصوص ہونا چاہیے جتنا... ایک نوکری کے بغیر آدمی کا نوکری کے لیے درخواست کرنا، جیسے ایک بچہ کُون آئسکریم کے لیے پوچھتا ہے (رائس، ibid.)۔

غور کریں کے ہماری تلاوت میں ملتجیانہ دوست کی درخواست کس قدر مخصوص اور بالکل ٹھیک تھی۔ اُس نے کہا، ’’مجھے تین روٹیاں دے دو‘‘ (لوقا 11:5)۔ اُس نے نہیں کہا تھا، ’’مجھے میرے دوست کے کھانے کے لیے کچھ دے دو۔‘‘ جی نہیں، اُس نے روٹی کے لیے پوچھا تھا، اور اُس نے خصوصی طور پر تین روٹیوں کے لیے پوچھا تھا۔ اور اُسے دیا گیا جس کی ’’اُسے ضرورت‘‘ تھی (آیت 8)۔ اُسے بالکل وہی دیا گیا جو اُس نے مانگا تھا۔ اُسے کچھ اور نہیں دیا گیا تھا۔ اور تمثیل کی وضاحت میں، یسوع نے اِسے بالکل واضح کیا کہ ہمیں بالکل وہی ملتا ہے جس کی ہم دُعّا کرتے ہیں، اُس کے علاوہ کچھ اور نہیں ملتا،

’’ تُم میں سے کون سا باپ ایسا ہے کہ جب اُس کا بیٹا روٹی مانگے تو اُسے روٹی نہیں بلکہ پتھر پکڑا دے؟ یا تُم میں سے کون سا باپ ایسا ہے کہ جب اُس کا بیٹا مچھلی مانگے تو اُسے مچھلی نہیں بلکہ سانپ پکڑا دے؟ یا انڈا مانگے تو اُس کے ہاتھ میں بچھو تھمادے؟‘‘ (لوقا 11:11۔12).

یسوع کے مطابق جب ہم دُعّا کریں تو ہمیں خُدا کو بالکل وہی بتانا چاہیے جو ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں دے۔ اور، یسوع نے کہا، خُدا ہمیں وہی چیز دے گا جس کی ہم مانگ کرتے ہیں۔

بائبل میں ہمیں لوگوں کی بہت سی مثالیں دی گئیں ہیں جنہوں نے یقینی طور پر مخصوص چیزوں کی مانگ کی۔ اور اُنہیں بالکل وہی ملا جس کی اُنہوں نے دُعّا کی تھی۔ جِدعون نے اپنی اون کے گیلے ہونے کے لیے دُعّا کی تھی۔ اُسے بالکل وہی ملا جس کی اُس نے دُعّا کی تھی۔ اگلی صبح اُون اُوس سے تر تھی۔ پھر اُس نے دُعّا کی کہ اُون خشک رہے اور اُس کے اردگرد کی زمین گیلی ہو۔ اگلی صبح اُون خشک تھی اور اُس کے اردگرد کی زمین گیلی تھی۔ اُس نے ایک یقینی بات کے لیے دُعّا کی تھی، اور اُس کو بالکل وہی ملا جس کی اُس نے دُعّا کی تھی (قضاۃ 6:36۔39)۔ ایلیاہ نے قحط کی دُعّا مانگی تھی، اور اُسے قحط ملا تھا۔ پھر اُس نے بارش کی دُعّا مانگی تھی، اور اُسے بارش ملی تھی۔ اُس نے آسمان سے آگ برسنے کی دُعّا مانگی، اور اُسے آسمان سے آگ برستی ہوئی ملی تھی۔ اُس نے بہت یقین کے ساتھ اِن چیزوں کے لیے دُعّا مانگی تھی، اور اُسے بالکل وہی ملا تھا جس کی اُس نے دُعّا مانگی تھی۔

نئے عہد نامے میں، یائر نے یسوع سے اپنی مُردہ بیٹی پر اُس کا ہاتھ رکھنے کے لیے پوچھا تھا، ’’اور وہ زندہ ہو جائے گی‘‘ (متی 9:18)۔ یسوع اُس کے گھر آیا، اور اُس کا ہاتھ پکڑا اور لڑکی اُٹھ گئی‘‘ (متی 9:18)۔ یائر نے ایک یقینی دُعّا کی تھی، اور اُسے بالکل وہی ملا جو اُس نے مانگا تھا! کنعانی عورت نے یسوع سے اپنی بد روح زدہ بیٹی کو نجات دینے کے لیے پوچھا تھا، ’’اور اُس کی بیٹی نے اُسی وقت شفا پائی‘‘ (متی 15:28)۔ اُس عورت نے یسوع سے اپنی بیٹی کو عام طریقے سے برکت دینے کو نہیں کہا تھا۔ اُس نے خصوصی طور پر یسوع سے اپنی بیٹی کو بدروح سے نجات دلانے کے لیے پوچھا تھا۔ اور اُسے بالکل وہی ملا جس کی اُس نے دُعّا کی تھی۔ افسیوں 6:18 میں، پولوس رسول نے کہا،

’’ پاک رُوح کی ہدایت سے ہر وقت اور ہر طرح دُعّا اور منّت کرتے رہو اور اِس غرض سے جاگتے رہو اور سب مُقدسوں کے لیے بلاناغہ دُعّا کرتے رہو ‘‘ (افسیوں 6:18).

اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خُدا جو دُعّائیں چاہتا ہے وہ تفضیلات سے بھری ہوں۔ ڈاکٹر لِن Dr. Lin نے کہا،

      خُدا کی خواہش ہے کہ ہم اُس پر ہر دُعّا کی ہر چیز کے پہلو اور تعلق کو اُس پر ظاہر کریں،بجائے اِس کے کہ اپنی ضرورت کا نام لے دیں۔ [ہمیں دُعّا کی ضرورت ہے] ہر پہلو کی تفضیل ... اگر ہم محض اپنی دُعّا کے پہلوؤں کے محح نام غائب دماغی کے ساتھ لیتے ہیں، تو ہم آسمان میں اپنے باپ سے توجہ کے ساتھ سُننے کی کیا توقع کر سکتے ہیں؟ (لِن، ibid.، صفحہ 107)۔

میں نے اپنے گرجہ گھر میں چھ نوجوان لوگوں کے نجات پانے کے لیے دُعّا کی تھی۔ لیکن میری دُعّائیں اِس قدر غیر یقینی تھیں کہ خُدا نے اُن کا جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے زیادہ تفصیل کے ساتھ دُعّا کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے خُدا سے خصوصی طور پر دُعّا کی کہ مجھ پر ظاہر کرے کہ کیا بات اُن میں سے ہر ایک کو مسیح پربھروسہ کرنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔ میں نے ہرایک کے لیے انتہائی یقین کے ساتھ دُعّا مانگی، کہ خُدا مجھے بتائے، ہر ایک فرد کے معاملے میں، کیا چیز اُنہیں مسیح پر بھروسہ کرنے سے روک رہی ہے۔ خُدا نے مجھے یہ دکھا کر جواب دیا کہ اُن میں سے تین کے گھروں میں بُدھا کے بُت ہیں۔ میں نے اِس بارے میں کبھی بھی نہیں سوچا تھا۔ لیکن جب میں نے خصوصی طور اُس سے دُعّا مانگی تھی کہ مجھے بتائے کیا غلط تھا، تو اُس نے بالکل ویسا ہی کیا۔ جب ایک دفعہ خُدا نے مجھے جواب دے دیا، اور مجھ پر بجا طور سے ظاہر کردیا، کہ کیا اُنہیں نجات پانے سے روکے ہوئے تھا، تو دو نوجوان عورتیں اور ایک نوجوان مرد بہت جلد مسیح میں نجات پانے کے لیے تبدیل ہو گئے تھے۔ دوسرے تین کے لیے بھی یہی سچ ثابت ہوا تھا۔ جب میں نے یقین کے ساتھ خُدا سے دُعّا مانگی کہ مجھ پر ظاہر کردے کہ اُس کو کیا بات مسیح پر بھروسہ کرنے سے روکے ہوئے تھی، تو اُس نے بالکل مجھے وہی دیا جو میں نےمانگا تھا۔ جلد ہی وہ تینوں بھی ایسے ہی مسیح میں نجات پانے کے لیے تبدیل ہو گئے تھے۔ ہم اکثر اپنے کھوئے ہوئے رشتہ دار یا دوست کے نجات پانے کے لیے عمومی طریقے سے دُعّا کرتے ہیں، ’’اوہ، خُداوندا، اُنہیں بچا لے۔‘‘ لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ ہم اُس شخص کے بارے میں جس کے لیے ہم دُعّا کر رہے ہوتے ہیں بہت گہرائی کے ساتھ سوچنا ہوتا ہے۔ اور ہمیں خُدا سے خصوصی طور پر پوچھنے کے ضرورت ہوتی ہے، تفصیل میں، کہ ہم پر ظاہر کرے کیا چیز اُنہیں روکے ہوئے ہے۔ ایک دفعہ وہ ہمیں یہ بتا دے، تو ہم یقین کے ساتھ اُن کے لیے دُعّا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں، کیونکہ پھر ہم بالکل درست طور پر جانتے ہونگے کہ خُدا سے کیا مانگنا ہے۔

غیر یقینی دُعّا کے ساتھ کیا بُرائی ہے؟ ڈاکٹر رائس Dr. Rice نے کہا،

      غیریقینی دُعّا محض ایک خانہ پُری ہے، اور غیر مخلص ہے۔ بہت سے لوگ کئی کئی دِنوں تک اُن چیزوں کے لیے دُعّا مانگتے ہیں جن کی اُنہیں واقعی خواہش نہیں ہوتی ہے۔ لیکن مرقس 11:24 بیان کرتی ہے کہ ’’تم دُعّا میں جو کچھ مانگتے ہو ... خُدا کیسے اُن دُعّاؤں کا جواب دے گا جو ایک مخلص خواہش کو ظاہر نہ کرتی ہوں؟ کچھ افراد لوگوں کو سُنانے کے لیے دُعّا کرتے ہیں۔ سوچیں ہماری کتنی عوام میں کی گئیں دُعّائیں غیر یقینی ہیں، [واقعی] خُدا سے کچھ مانگ نہیں رہیں ہیں، اور کچھ پا بھی نہیں رہی ہیں! ... ہم ایسی دُعّائیں شاید دوسروں کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ یا شاید ہم ذمہ داری کے احساس کی وجہ سے اِنہیں کہتے ہیں، یہ محسوس کرتے ہوئے کہ دُعّا کرتے رہنے میں کچھ اہلیت ہے، چاہے ہم کسی چیز کے لیے بھی مانگے اور کچھ بھی پائیں، یا نا پائیں۔ یا شاید ہم ایسی دُعّائیں محض عادتاً مانگتے ہیں۔ بہت سے مسیحی کئی کئی دِن تک ایک ہی جیسے الفاظ کہتے ہیں ... دُعّا جو مخلص نہ ہو، محض رسمی دُعّاؤں کا کہنا، یقیناً خُدا کی نظر میں ایک معیوب عمل ہے۔ اور غیر یقینی دُعّا اکثر محض ایک غیرمخلص رسم ہوتی ہے (رائس، ibid.، صفحات 149۔150)۔

ایک بزرگ یورپی بھلے انسان کو ہر بُدھ کی رات کو لینے کے لیے میں بائیولا ہوٹل سے گاڑی چلا کر جایا کرتا تھا، جو کُھلے دروازے کے گرجہ گھر کے پاس تھا جب وہ لاس اینجلز کے مرکز میں تھا۔ میں ہمیشہ اُنہیں چینی گرجہ گھر میں بُدھ کی شب کی عبادت کے اِجلاس کے لیے لینے جایا کرتا تھا۔ میں نے ایسا دو یا تین سال تک کیا تھا۔ وہ ایک بہت نفیس بوڑھے شخص تھے، جو سوٹ اور ٹائی میں ٹوپی اور لمبے کوٹ کو بہت عمدگی کے ساتھ زیب تن کیے ہوتے تھے۔ پھر، جب ہم چھوٹے گروہوں میں دُعّا کرنے کے لیے بٹے، تو میں ہمیشہ اُن کے ساتھ اور ایک یا دو اور دوسروں کے ساتھ دُعّا کے لیے جاتا۔ وہ ہمیشہ ایک بہت خوبصورت دُعّا کیا کرتے تھے حالانکہ اُن کا لب ولہجہ بہت بھاری تھا۔ وہ ہمیشہ ایک خوبصورت دُعّا تھی، لیکن وہ ہمیشہ بالکل ایک جیسی ہوتی تھی – تقریباً حرف بہ حرف۔ اور وہ ایک بہت عام دُعّا تھی۔ وہ کبھی بھی خُدا سے کوئی مخصوص یا یقینی چیز نہیں مانگتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد میں بالکل ٹھیک طرح سے جان گیا تھا کہ وہ کیا دُعّا کریں گے۔ اِسی طرح خُدا بھی۔ اور چونکہ اُنہوں نے کبھی بھی کسی خاص چیز کے لیے دُعّا نہیں مانگی، تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اُنہیں کبھی بھی کوئی یقینی جواب نہیں ملا۔ یاد رکھیں، آپ کو صرف وہی ملتا ہے جو آپ مانگتے ہیں! اگر آپ کی دُعّا انتہائی عام سی ہے، تو آپ کو کچھ خاص ملے گا بھی نہیں!

سالوں پہلے میں ایک یورپین پادری کو ہر اِتوار کی صبح تقریباً پندرہ منٹ کی ایک لمبی سی ’’نگہبانی دُعّا‘‘ کرتے ہوئے سُنتا تھا۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد، میں جان گیا تھا کہ وہ کیا کہنے والے ہیں۔ وہ ایک ہی بات ہر اِتوار کی صبح کہا کرتے تھے۔ اُن کی دُعّائیں بہت خوبصورت تھیں، لیکن وہ صرف عمومی باتوں کے لیےدُعّا کرتے تھے۔ اُنہوں نے کبھی بھی کسی مخصوص بات کے لیے دُعّا نہیں مانگی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حیرت زدہ ہو سکتے ہوں اگر اُن ’’نگہبانی دُعّاؤں‘‘ میں سے کسی کا جواب مل جاتا۔ اُنہیں واقعی توقع نہیں تھی کہ اُن دُعّاؤں کا جواب ملے گا۔ اِس لیے، بِلا شُبہ، وہ پندرہ منٹ ہر اِتوار کی صبح ضائع جاتے تھے۔ اِس سے بھی بدتر یہ، کہ اُن کی دُعّا ہم نوجوان لوگوں کے لیے ایک بُری مثال تھی۔ اِس نے ہمیں یہ محسوس کرانا چاہا تھا کہ دُعّا کرنا حقیقتاً فضول تھا، محض کچھ ایسا جو ہمیں وقت پورا کرنے کےلیے کرنا پڑتا تھا۔ میں کس قدر حیرت زدہ ہوا تھا جب میں چینی گرجہ گھر گیا تھا اور ڈاکٹر لِن Dr. Lin کی نگہبانی دُعّا سُنی تھی۔ اُنہوں نے مخصوص باتوں کےلیے دُعّا مانگی تھی۔ وہ اکثر واقعی چیختے تھے جب وہ دُعّا مانگتے تھے۔ بعض اوقات آنسوؤں کی وجہ سے وہ دُعّا جاری نہیں رکھ پاتے تھے۔ ڈاکٹر لِن حقیقی دُعّائیں مانگتے تھے، اور اُنہیں دُعّاؤں کے حقیقی جواب ملتے تھے!

حقیقی، یقینی دُعّا ظاہر کرتی ہے کہ آپ واقعی اُس شخص کے بارے میں پرواہ کرتے ہیں جس کے لیے آپ دُعّا مانگ رہے ہیں۔ اگر آپ کا مقصد واقعی کاروبار ہے تو آدھے دِل سے مانگی ہوئی دُعّا سے کام نہیں چلے گا۔ تمثیل میں آدمی کو اپنے دوست کی کافی پرواہ تھی کہ وہ آدھی رات کو گیا، باہر رات میں، وہ لینے کے لیے جس کی اُس کے دوست کو ضرورت تھی۔ ڈاکٹر رائس نے ایک عورت کے بارے میں بتایا تھا جس کا 16سال کا ایک بیٹا تھا جس نے مسیح میں نجات نہیں پائی تھی۔ اُس نے ڈاکٹر رائس کو بتایا، ’’مجھے یقین ہے کہ انہی کسی دِنوں میں وہ مسیح میں نجات پا لے گا۔‘‘ لیکن ایک رات اُس کو ایک زہریلی کالی بیوہ مکڑی black widow spider نے کاٹ لیا تھا۔ کوئی اور نوجوان شخص حال ہی میں اِسی طرح کے کاٹنے سے مرا تھا۔ اُس نے ڈاکٹر کو بلوایا۔ اور جیسے ہی لڑکا دیکھ بھال والوں کی نگرانی میں آیا، اور رات کے 11:00 بجے قصبہ پار کر کے ڈاکٹر رائس کے گھر گاڑی چلا کر پہنچی اور اُنہیں کہا، ’’میں کبھی سو نہیں سکوں گی جب تک میں جان نہ جاؤں کہ اُس نے مسیح میں نجات پا لی ہے۔ میں بالکل ابھی ابھی یہ دیکھنے کے لیے اُٹھی ہوں کہ شاید وہ مر جائے اور کسی بھی لمحے جہنم میں چلا جائے!‘‘ ڈاکٹر رائس نے کہا، ’’اُس کی چارپائی کے پاس کھڑی اپنی پریشان حال ماں کے ساتھ اُس نے التجائیں کی، لڑکا جلد ہی اپنے گناہوں کی سزا کے تحت آ گیا تھا اور جلد ہی اُس کی مسیح پر بھروسہ کرنےکے لیے راہنمائی کی گئی۔‘‘ ڈاکٹر رائس نےکہا، ’’جہاں دُعّا میں پُریقینی نہیں ہے، وہ اِس لیے ہے کیونکہ اُس کی اشد ضرورت نہیں ہے، حقیقی بوجھ نہیں ہے، دِل کی خواہش نہیں ہے ... غیریقینی دُعّا بغیر بوجھ کے دُعّا ہوتی ہے‘‘ (رائس، ibid. ، صفحہ 151)۔

میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں نے اپنی ماں کے مسیح میں نجات پانے کے لیے سالوں دُعّا کی تھی۔ لیکن میں نے انجیل سُننے کے لیے ہر اِتوار کو اپنی ماں کو گرجہ گھر لے جانے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیا تھا۔ اور میں نے اِس کام کے لیے اپنی ساری قوت استعمال کی تھی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ میری ماں کبھی مسیح میں نجات پا سکی ہوتی اگر میں نے اپنی تمام تر قوت کے ساتھ اُنہیں ہر اتوار کو انجیل کی آواز تلے لانے کے لیے عملی قدم نہ اُٹھایا ہوتا۔ کھوئے ہوئے رشتہ دار یا دوست کے لیے دُعّا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر آپ اُنہیں ’’آنے کےلیے مجبور نہیں کرتے،‘‘ جیسا کہ ہمیں یسوع نے کہا کہ ہمیں ضرور کرنا چاہیے (لوقا 14:23) – اُن سے صرف پوچھنا نہیں ہے، بلکہ اُنہیں آنے کے لیے مجبور کرنا ہے!

اب اگر آپ ابھی تک آج رات کو کھوئے ہوئے ہیں، ہم خُدا سے التجا کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو گناہ کے تحت سزا یابی میں لائے، اور گناہ سے پاک صاف ہونے کے لیے یسوع کے قیمتی خون کے ذریعے سے اُس کی طرف کھینچے۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan مہربانی سے اب آئیں اور اُن کے لیے جو آج رات کو یہاں کھوئے ہوئے ہیں دُعّا مانگیں (دُعّا)۔ ’’تمہارے لیے میں دُعّا کر رہا ہوں۔‘‘ اِسے گائیے!

تمہارے لیے میں دُعّا کر رہا ہوں، تمہارے لیے میں دُعّا کر رہا ہوں،
   تمہارے لیے میں دُعّا کر رہا ہوں،
میں تمہارے لیے دُعّا کر رہا ہوں۔
   (’’ تمہارے لیے میں دُعّا کر رہا ہوں I Am Praying For You ‘‘ شاعر ایس۔ او‘ مالے کلاہ S.O’Malley Clough، 1837۔1910)۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا مسٹر کِیو ڈونگ لِی Mr.Kyu Dong Lee نے کی تھی : مرقس 14:32۔40 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا
                            ’’مجھے دُعّا کرنا سِکھا‘‘ (شاعر البرٹ ایس۔ رِیٹز Albert S. Reitz، 1879۔1966)۔