Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

بائبل کی پیشن گوئی میں یہودی

THE JEWS IN BIBLE PROPHECY

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
یکم جولائی، 2012، خُداوند کے دِن، شام کو
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, July 1, 2012

’’میں تمہیں مختلف قوموں میں سے نکال لاؤں گا اور تمہیں مختلف ممالک میں سے جمع کروں گا اور تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا‘‘ (حِزِقی ایل 36:24).

ہماری تلاوت میں ایک وعدہ ہے جو خُدا نے بار بار یہودی لوگوں کے ساتھ بائبل میں دہرایا تھا۔ صرف پرانے عہد نامے ہی میں کم از کم 25 واضح وعدے ہیں کہ خُدا یہودیوں کو واپس اُن کی سرزمین میں اکٹھا کرے گا، جیسا کہ ایک ہماری تلاوت میں دیا گیا ہے،

’’میں تمہیں مختلف قوموں میں سے نکال لاؤں گا اور تمہیں مختلف ممالک میں سے جمع کروں گا اور تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا‘‘ (حِزِقی ایل 36:24).

اِس پیشن گوئی کا پورا ہونا بائبل کی سچائی اور خُدا کی یقین دہانیوں کے عظیم ثبوتوں میں سے ایک ہے۔ کیا آپ کبھی کسی بابلی، یا ہیتائی، یا فلستائی یا ایملکائٹ سے ملے ہیں؟ کسی دور میں یہ تمام عظیم قومیں تھیں۔ آج یہ ناپید ہیں۔ لیکن یہودی آج بھی ایک جدید قوم کے طور پر اپنی خود کی ریاست اسرائیل کے ساتھ موجود ہیں۔

اِس کے باوجود تقریباً 2,000 سالوں کے لیے یہودیوں پر زمین پر بسنے والے کسی بھی لوگوں میں سے سب سے زیادہ ظلم و ستم ہوا تھا۔70 بعد از مسیح رومی طیطُس کی ماتحتی میں یروشلم میں داخل ہوئے اور 1,300,000 یہودیوں کو قتل کیا، اور جو زندہ بچ گئے زیادہ تر کو غلامی میں لے لیا۔ یروشلم پر کسی کھیت کی مانند ہل چلا دیا گیا تھا۔ یہ یہودیوں کے انتشار کے آغاز کی علامت تھا۔

پہلی اور دوسری صدیوں کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودی بابل کی طرف کوچ کر گئے۔ 200 سال بعد از مسیح تک، لگ بھگ 20 لاکھ یہودی وہاں پر تھے۔

رومی حکومت میں، شہنشاہ قسطنطین نے یہودیوں کو خلافِ قانون قرار دیا تھا اور اُن کے کان کاٹ کر اُنہیں آوارہ گردوں کے طور پر منتشر کر دیا تھا۔ پانچویں اور چھٹی صدیوں کے دوران یہودیوں پر بہت سے پابندیاں عائد کی گئیں، اور اُنہیں سرکاری ملازمتیں کرنے سے ممنوعہ قرار دیا تھا۔ بے شمار یہودیوں کی برادریوں پر حملہ کیا گیا اور ہزاروں یہودیوں کا قتل کیا گیا۔

چھٹی صدی میں تقریباً 60,000 یہودیوں کو ذبح کر دیا گیا اور مذید ہزاروں کو غلامی میں بیچ دیا گیا تھا۔ آٹھویں صدی میں ہسپانیہ میں اُن کے ساتھ ہولناک حد تک بُرا سلوک کیا گیا اور اُنہیں اذیت دی گئی۔ فرانس میں ہزاروں یہودیوں کو زندہ جلا کر مار دیا گیا تھا۔

صدی کے صدی یہودی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے، ایک ملک کے بعد دوسرے میں اُنہیں قتل کیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ کے دوران جرمن ریاستوں نے یہودیوں کو شہنشاہ کے غلام سمجھا تھا، اور اُن پر ظالمانہ حد تک محصول عائد کیا گیا اور اُنہیں اذیتیں دی گئیں۔ زیادہ تر یورپین ممالک میں اُنہیں زمین کا مالک بننے سے ممنوعہ قرار دیا گیا، اور اُنہیں کسی بھی سکول یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ 1020 بعد از مسیح انگلستان سے تمام یہودیوں کو نکال دیا گیا تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران کیتھولک لوگوں نے کہا، ’’ایک یہودی کو مارو اور یہ آپ کی روح بچائے گا۔‘‘

سال 1298 میں یورپ میں ہزاروں یہودیوں کو قتل کیا گیا تھا۔ پھر، 1350 میں، کالے طاعون یورپ میں پھیل گیا، جس نے ایک چوتھائی آبادی قتل کر دی۔ طاعون کا الزام یہودیوں پر لگایا گیا، اور یورپ میں موجود تمام یہودیوں کی آدھی تعداد کو قتل کر دیا گیا۔

1353 میں تمام یہودیوں کو فرانس سے نکال دیا گیا۔ ہسپانیہ اور پُرتگال نے بھی اُن کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ جرمنی نے 1560 میں پراگ Prague میں سے تمام یہودیوں کو جلا وطن کر دیا۔ سپین نے 1492 میں 800,000 یہودیوں کو سمندر میں دھکیل دیا تھا۔ اُن میں سے زیادہ تر ڈُوبنے یا سورج کی تپش سے مر گئے۔

1411 میں رومن کیتھولک چرچ نے تفتیش کرنے کی بنیاد قائم کی۔ ہزاروں لاکھوں یہودی تفتیش کے دوران مر گئے۔ مشکلوں سے ہی اُنہیں انسان گردانا جاتا تھا۔

سیزار Czars کے دور کے دوران روس میں تقریباً پانچ ملین یہودی تھے۔ 1881 میں روسی چرچ کے سربراہ نے ایک پالیسی کا آغاز کیا جس میں ایک تہائی لوگوں کو مرنا تھا، اور ایک اور تہائی کو روس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، اور ایک تہائی کو روسی چرچ میں شمولیت پر مجبور کیا گیا تھا۔

جنگ عظیم اول کے دوران یہودیوں نے مذید اور مصائب برداشت کیے۔ روسیوں سے اُن میں سے ہزاروں کو مجرموں کے طور پر سائبیریا میں بھیج دیا تھا۔ یہودیوں کے خلاف پولینڈ، رومانیہ، ھنگری اور یوکرائین میں منظم ایذارسانیاں وقوع پزیر ہوئی تھیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے آغاز میں زیادہ تر یہودی مشرقی یورپ میں رہ رہے تھے۔ ھٹلر کا ہدف یورپ میں موجود تمام یہودیوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا تھا۔ ھٹلر کے دھشتناک دورِ حکومت میں چھ ملین یہودیوں کو بیہمانہ طور پر قتل کیا گیا تھا، اور اِس کا ساتھ اُن میں سے ہزاروں لاکھوں کو ھٹلر کے اجتماعی کیمپوں میں زہریلی گیس کے ساتھ مارا گیا تھا۔ جب ھٹلر سے پیچھا چُھٹا تو یورپ میں ہر دس میں سے چھے یہودی قتل ہو چکے تھے۔

پھر بھی دنیا کی تاریخ میں کوئی سے لوگوں کی صدیوں کی بدترین ایذارسانیوں کے باوجود، یہودیوں کی اسرائیلی ریاست 1948 میں قائم ہوئی! اسرائیل کے سابقہ وزیر اعظم گولڈا مائیر Golda Meir نے کہا، ’’لاکھوں جسموں کو توڑا گیا[جنگ عظیم دوئم میں]، یہودیوں کو زندہ دفن کیا گیا، زندہ جلایا گیا۔ لیکن کوئی بھی کبھی بھی لوگوں کی روح کو توڑنے میں کامیاب ہونے کے قابل نہیں ہو سکا ہے۔ ہم بکھرنے کے لیے انکار کرتے ہیں۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کتنی مضبوط اور ظالمانہ اور سنگدل قوتیں ہمارے خلاف ہوں، ہم یہاں ہیں۔‘‘

جے. اے. کلارک J. A. Clark نے کہا، ’’کائیرو Cairo کے عجائب گھر میں کالے گرینائٹ کا ایک پتھر ہے جس کے ایک طرف لکھائی کُھدی ہوئی ہے۔ یہ تقریباً 1400 قبل از مسیح میں ریمسس دوئم کے بیٹے کے زمانے میں بنایا گیا تھا۔ فرعون اپنی فتوحات اُس پتھر پر کُندواتا تھا۔ کُندکاری کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے، ’اسرائیل مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل کی کوئی آل اولاد نہیں ہوگی۔‘ لیکن وہ مغرور فرعون نہیں جانتا تھا کہ خُدا نے کہا تھا کہ اُس کے لوگ زمانوں تک اُس کے گواہاں کے طور پر زندہ رہیں گے! سارے فرعون صدیوں پہلے غائب ہو گئے تھے، لیکن یہودی جیتے رہے اور جیتے رہے!‘‘ (ذریعہ: پال لی ٹین Paul Lee Tan، ٹی ایچ. ڈی.، 7,700 خاکوں کی اِنسائیکلوپیڈیا Encyclopedia of 7,700 Illustrations، ایشورنس پبلیشرز، 1979، صفحات 635۔637).

فریڈرک دوئم 1712 سے لیکر 1786 تک زندہ رہا تھا۔ پروشیا کے بادشاہ کے طور پر وہ عظیم فریڈرک کے طور پر جانا گیا۔ بائبل میں وہ بےاعتقادی کے دور میں رہتا تھا۔ ایک شام کو اُس نے اُن کو جو اُس کی عدالت میں ہوتے تھےبلایا، ’‘ کیا کوئی مجھے خُدا کی موجودگی کی ٹھوس دلیل دے سکتا ہے؟‘‘ بادشاہ کے پادری نے جواب دیا، ’’جہاں پناہ، یہودی! یہودی خُدا کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔‘‘ پادری کے جواب نے بلا شُبہ خُدا کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت پیش کیا تھا۔ خُدا نے یہودیوں کے ساتھ اپنا وعدہ نبھایا تھا۔ یہودیوں کا محفوظ رہنا اور اسرائیل کی جدید ریاست کا ہونا، خدا کی موجودگی کے سب سے بڑے ثبوت ہیں جس نے کہا،

’’میں تمہیں مختلف قوموں میں سے نکال لاؤں گا اور تمہیں مختلف ممالک میں سے جمع کروں گا اور تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا‘‘ (حِزِقی ایل 36:24).

میں دہراتا ہوں، کیا آپ کبھی کسی بابلی، یا ہیتائی، یا فلستائی یا ایملکائٹ سے ملے ہیں؟ کسی دور میں یہ تمام عظیم قومیں تھیں۔ آج یہ ناپید ہیں۔ لیکن یہودی آج بھی ایک جدید قوم کے طور پر اپنی خود کی ریاست اسرائیل کے ساتھ موجود ہیں! میں یروشلم میں جا چکا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ یہ سچ ہے!

یروشلم! یروشلم! گاؤ، کیونکہ رات گزر گئی ہے!
عالم بالا میں ہوشعنا، ہمیشہ کے لیے ہوشعنا!
عالم بالا میں ہوشعنا، ہمیشہ کے لیے ہوشعنا!
   (’’مقدس شہرThe Holy City ‘‘ شاعر فریڈرک ای. ویتھرلیFrederick E. Weatherly،
      1848۔1929).

اِسے میرے ساتھ گائیے!

یروشلم! یروشلم! گاؤ، کیونکہ رات گزر گئی ہے!
عالم بالا میں ہوشعنا، ہمیشہ کے لیے ہوشعنا!
عالم بالا میں ہوشعنا، ہمیشہ کے لیے ہوشعنا!

ڈاکٹر ایم. آر. ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے کہا کہ یہودیوں کا اسرائیل کے لیے واپس آنا مسیح کی دوسری آمد کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ ڈاکٹر ڈیحان نے کہا،

      پچیس سو سالوں سے اسرائیلیوں کی بہت بڑی اکثریت، اور گذشتہ انیس سو سالوں سے تقریباً تمام کا تمام اسرائیل دنیا کے چاروں کونوں میں بکھر چکا ہے۔ اسرائیلیوں سے نفرت کی گئی، اُنہیں اذیتیں دی گئیں، حمان کے دِنوں سے لے کر اور موجودہ دور تک، اُنہیں بدنام کیا گیا اور دبایا گیا۔ بار بار اور دوبارہ بار بار اُنہیں مکمل طور پر فنا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اِن تمام کوششوں کے باوجود، وہ کبھی بھی مر نہ سکے۔ وہ قوموں کے درمیان گم نہیں ہوئے ہیں، اُنہوں نے بطور لوگ اپنی شناخت برقرار رکھی، لافانی اور دائمی جیسا کے خدا کے وعدے۔ اب [1948تک] یہ لوگ، غیر قوموں کے درمیان پھیل گئے تھے، اچانک دوبارہ جنم لے چکے ہیں اور اپنی قدیم سرزمین پر ایک آزاد قوم کے طور پر قائم ہو چکے ہیں. . . ہزاروں سالوں تک انسان کہتا رہا، ’’خُدا نے اسرائیل کو چھوڑ دیا ہے، یہودی کبھی بھی فلسطین کی سرزمین پر ایک قوم کی حیثیت سے واپس نہیں آ سکیں گے۔‘‘ تمام کے تمام جھوٹے ثابت ہوئے ہیں، کیونکہ صرف خدا سچا ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ صدیوں بلکہ زمانوں پہلے انبیاء کے ذریعے پرانے عہد نامے میں پہلے ہی بتایا جا چکا ہے (ایم. آر. ڈیحان، ایم.ڈی.، ’’یہودیوں کی نشانیاں The Sign of the Jew، ‘‘ ادوار کی نشانیوں Signs of the Times میں، کرِیگل اشاعت خانے Kregel Publications، 1996 اشاعت، صفحات 25۔26).

اِن جیسی آیات میں، خدا نے کہا،

’’میں تمہیں مختلف قوموں میں سے نکال لاؤں گا اور تمہیں مختلف ممالک میں سے جمع کروں گا اور تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا‘‘
 (حِزِقی ایل 36:24).

1864میں، تقریباً ایک سو پچاس سال پہلے، حزقی ایل 37:1۔10 پر تبلیغ کرتے ہوئے سپرجئین نے کہا،

      اسرائیل اب قوموں کے نقشے سے غائب ہو گیا ہے؛ اُس کے بیٹے اب دور دور تک بکھر گئے ہیں؛ اُس کی بیٹیاں زمین کےتمام دریاؤں کے کناروں پر نوحہ کرتی ہیں. . . لیکن اُسے ’’جیسے مردوں میں سے‘‘ دوبارہ قائم ہونا ہے۔ جب خود اُس کے اپنے بیٹوں نے اُس کی اُمید چھوڑ دی ہے، پھرخُدا اُس کے لیے نمودار ہوگا. . . وہ دوبارہ منظم کیا جائے گا. . . دوبارہ ایک مقامی حکومت ہوگی. . . ایک ریاست تشکیل دی جائے گی. . . ’’میں تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا،‘‘ یہ خُدا کا اُن کے ساتھ وعدہ ہے. . . اُنہیں قومی خوشحالی ملنی چاہیے جو اُنہیں مشہور کر دے گی. . .
      اگر جملوں کاکوئی مطلب ہے تو اِس باب [حزقی ایل 37] کا یہ مطلب ہونا چاہیے۔ میری خواہش ہےکہ میں کبھی بھی خُدا کے اپنے الفاظ کے معنوں کو توڑنے موڑنے کا فن نہ سیکھوں۔ اگر کوئی بات واضح اور سادہ ہے، اِس حوالے کے معنی کا اصل شعور – ایک ایسا مطلب جس کے جوشیلے اور روحانی پن کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے – یہ واضح رہے کہ. . . اسرائیل کے دس قبیلوں کو واپس اپنی سرزمین میں بحال ہونے کے لیے آنا ضروری ہے. . . اگر جملوں میں معنی ہے تو، اسرائیل کو دوبارہ قائم ہونا ہے (سی. ایچ. سپرجئین، یہودیوں کی بحالی اور تبدیلی کا عمل The Restoration and Conversion of the Jews،‘‘ دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ سے The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگرِم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1991، جلد دہم، صفحات 428۔429).

سپرجئین نے یہ الفاظ 1864 میں یہودیوں کے واپس آنے اور 1948 میں اسرائیل کی قوم کے دوبارہ قائم ہونے سے چوراسی سال پہلے کہےتھے۔ سپرجئین کیسے جانتے تھے کہ یہ ہو گا؟ وہ یہ جانتے تھے کیونکہ اُنہوں نے ہماری تلاوت کی لفظی سچائی پر یقین کیا تھا،

’’میں تمہیں مختلف قوموں میں سے نکال لاؤں گا اور تمہیں مختلف ممالک میں سے جمع کروں گا اور تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا‘‘
       (حِزِقی ایل 36:24).

1917 میں سکوفیلڈ بائبل کے مطالعے Scofield Study Bible نے سپرجئین کے ہی جیسی پیشنگوئی پیش کی تھی۔ سکوفیلڈ کا نوٹ کہتا ہے، ’’اسرائیل اب . . . انتشار میں ہے، جس سے یہ دوبارہ قائم ہوگا‘‘ (سکوفیلڈ بائبل کا مطالعہ The Scofield Study Bible، 1917، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس؛ پیدائش 15:18 میں ابراہیم کے عہد پر ایک یاداشت، صفحہ 25). اکتیس سال بعد، 1948 میں، اسرائیل کی قوم دوبارہ قائم ہوئی تھی، بالکل جیسا بائبل نے کہا تھا کہ وہ ہوگی!

جب میں 70 کی دہائی کے آغاز میں سان فرانسسکو میں بے دین آزاد خیال مغربی بپتسمہ دینے والی مذہبی درس گاہ میں پڑھ رہا تھا، دو پروفیسروں نے سیکھایا تھا کہ بحالی کے وعدے صرف ماضی کے لیے تھے، کہ وہ تمام یہودیوں کی بابل میں غلامی سے بحالی کی طرف اشارہ کرتے تھے، اور کہ اِن میں سے کوئی بھی وعدہ 1948 میں اسرائیل کی بحالی کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ یہ ہیں بے شمار وجوہات کہ وہ غلط تھے:

1.  گولڈن گیٹ بپتسمہ دینے والی مذہبی درسگاہ کے پروفیسرز غلط تھے کیونکہ پرانے عہد نامے میں اسرائیل کی بحالی کی پیشنگوئیاں اکثر اِس جملے ’’آنے والے دِنوں میں‘‘ کے ساتھ ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر، حزقی ایل 37 باب میں اسرائیل کی بحالی کی پیشنگوئی فوراً آتی ہے 38 باب میں اِس جملے کے ساتھ، ’’آئیندہ سالوں میں تو اُس ملک پر حملہ آور ہو گا جہاں جنگ بندی ہو چکی ہے، اور بے شمار لوگوں میں سے اکٹھا کیا گیا ہے‘‘ (آیت 8). اِس کو مذید اور کم کیا گیا ہے آیت 16میں، جہاں ہمیں بتایا جاتا ہے ’’یہ آئیندہ دِنوں میں ہوگا۔‘‘ لہذا پیشنگوئی آئیندہ سالوں کے آنے والے دِنوں کے لیے ہے – دوسرے لفظوں میں، مسیح کی دوسری آمد سے پہلے آخری ایام میں۔ ایک اور واضح مثال کے لیے ہوسیع 3:4۔5 پڑھیے،

’’ کیونکہ نبی اِسرائیل بہت دِنوں تک بنا بادشاہ یا حاکم، بنا قربانی یا مُقدّس پتّھروں اور بنا اُفود یا بُت کے رہیں گے۔ اس کے بعد بنی اِسرائیل لَوٹ آئینگے اور خداوند اپنے خدا اور اپنے بادشاہ داؤد کو ڈھُونڈیں گے اور آخری دِنوں میں وہ کانپتے ہُوئے خداوند کے پاس آئینگے اور اس کی رحمت کے طالب ہوں گے‘‘ (ہوسیع 3:4۔5).

2.  گولڈن گیٹ بپتسمہ دینے والی مذہبی درسگاہ کے آزاد خیال پروفیسرز غلط تھے کیونکہ یہ حوالے عموماً کہتے ہیں کہ یہودی تبدیل ہونے سے پہلے واپس آئیں گے، جو کہ بابل سے واپسی کے لیے اشارہ نہیں کر سکتا، مگر مسیح کی دوسری آمد سے پہلے، حتمی واپسی کے لیے کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر حزقی ایل 36:24۔27 کہتی ہے،

’’میں تمہیں مختلف قوموں میں سے نکال لاؤں گا اور تمہیں مختلف ممالک میں سے جمع کروں گا اور تمہیں تمہارے اپنے ملک میں واپس لاؤں گا میں تُم پر پاک پانی چھڑکوں گا اور تُم صاف ہو جاؤ گے۔ میں تمہیں تمہاری تمام گندگی سے اور تمہارے تمام بُتوں سے پاک کروں گا۔ میں تمہیں نیا دل بخشوں گا اور تمہارے اندر نئی رُوح ڈال دُوں گا۔ میں تمہارے جسم میں سے تمہارا سنگین دل نکال کر تمہیں گوشین دل عطا کروں گا۔ اور میں اپنی رُوح تمہارے باطن میں ڈال دُوں گا اور تمہیں اپنے آئین پر عمل کرنے کی تلقین کروں گا اور اپنی شریعت پر پابند رہنے کے لیے آمادہ کروں گا‘‘ (حِزِقی ایل 36:24۔27).

چونکہ آیت 26 اور 27 نئے جنم سے تعلق رکھتے ہوئے ابھی تک پوری ہوئی ہی نہیں ہے، اِس لیے یہ پیشن گوئی تاریخ کے اختتام پر حتمی مدد کی التجا کے لیے اشارہ دیتی ہے۔

3.  گولڈن گیٹ بپتسمہ دینے والی مذہبی درسگاہ کے آزاد خیال پروفیسرز غلط تھے کیونکہ مسیح نے پیشنگوئی میں اسرائیل کی بحالی 70 بعد از مسیح میں یروشلم کی تباہی کے بعد کی تھی۔ مسیح نے کہا تھا،

’’وہ تلوار کا لقمہ ہو جائیں گے اور اسیر ہوکر سب قوموں میں پہنچائے جائیں گے اور غیر قوموں کی میعاد کے پُورے ہونے تک یروشلم غیر قوموں سے پامال ہوتا رہے گا‘‘ (لوقا 21:24).

مسیح نےکہاکہ اِسرائیل کی قوم غیر قوموں سے ’’پامال‘‘ ہوتی رہے گی جب تک کہ مستقبل میں ’’غیر قوموں کی معیاد پوری نہ ہو جائے‘‘۔ ڈاکٹر وِلبر ایم. سمتھDr. Wilbur M. Smith نے کہا کہ لوقا21:24 بائبل میں دی گئی آیات میں سےایک واضح آیت ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کی بحالی اُس وقت ہوگی جب ’’غیر قوموں کی معیاد‘‘ اپنے اختتام پر آرہی ہوگی، اور مسیح کی دوسری آمد رونما ہونے والی ہوگی۔ ڈاکٹر جان ایف. والوُورد Dr. John F. Walvoord نے بھی ایسا ہی بیان اپنی کتاب قیامت، تیل اور مشرقِ وسطیٰ Armageddon, Oil and the Middle East کے صفحات 49۔51 میں پیش کیا ہے۔ یہودی لوگوں کا اپنی سرزمین پر واپس آنا ظاہر کرتا ہے کہ اِس زمانے کا اختتام اور مسیح کی دوسری آمد بہت قریب ہیں (ڈاکٹر ایڈ ڈوبسن Dr. Ed Dobson کی آخری علامتیں Final Signs بھی دیکھیے، ہارویسٹ ہاؤس Harvest House، 1996، صفحہ 118).

4.  گولڈن گیٹ بپتسمہ دینے والی مذہبی درسگاہ کے آزاد خیال پروفیسرز غلط تھے کیونکہ خداوند یسوع مسیح نے متی 24:15 میں ہونے والی ہیکل کی دوبارہ تعمیر کے لیے اشارہ دیا تھا، جب’’اُجاڑ کر دینے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانی ایل نبی نے کیا ہے مقدس مقام پر کھڑا دیکھو۔‘‘ یہ اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک کہ یہودی پہلے واپس نہیں آ جاتے، جیسا کہ اُنہوں نے 1948 میں شروع کیا تھا، اور ہیکل کی دوبارہ تعمیر کرنا جو وہ نزدیکی مستقبل میں کریں گے۔


اِس لیے مجھے احساس ہوا کہ گولڈن گیٹ مذہبی درسگاہ کے وہ پرانے عہد نامے کے پروفیسرز بالکل اتنے ہی روحانی طور پراندھے تھے جتنے کہ مسیح کے دور میں فریسی تھے۔

انتہائی پیاروں، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عظیم بائبل کے اُستاد ڈاکٹر ڈیحان بجا طور پر بالکل درست تھے جب اُنہوں نے کہا، ’’اب، خود ہماری اپنی نسل میں. . . یہ تمام ہونا شروع ہو چکا ہے۔ کلام بتاتا ہے کہ جب یہ وقوع پزیر ہوگا تو خداوند کا آنا نزدیک ہے۔ اگر آخری ایام کے کوئی اور نشانات نہ ہوں، [اسرائیل کی بحالی کا نشان] ہی کافی ہوگا۔ یسوع دوبارہ آ رہا ہے‘‘ (ڈیحان، ibid.، صفحہ 31). مہربانی سے کھڑے ہو جائیے کہ ہم وہ کورس دوبارہ گائیں۔

یروشلم! یروشلم! گاؤ، کیونکہ رات گزر گئی ہے!
عالم بالا میں ہوشعنا، ہمیشہ کے لیے ہوشعنا!
عالم بالا میں ہوشعنا، ہمیشہ کے لیے ہوشعنا!

اب میں تین خیالات کے ساتھ اختتام کرتا ہوں۔ اوّل، یہودیوں کی اپنی سرزمین میں بحالی بائبل کے مکمل طور پر قابلِ اعتماد ہونے کی اہلیت اور سچائی کو ظاہر کرتی ہے۔ دوئم، یہودیوں کی اُن کی سرزمین کے لیے بحالی ظاہر کرتی ہے کہ بائبل کی پیشن گوئی واقعی درست ہے۔ اِس لیے، جہنم کے بارے میں تنبیہہ پر آپ کو خوف کے ساتھ کانپنا چاہیے اور مسیح کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ تلاش کرنا چاہیے۔ سوئم، مسیح کا یہودی لوگوں پر محبت بھرے رحم سے آپ کو احساس ہونا چاہیے کہ یسوع آپ پر بھی رحم کر سکتا ہے اور آپ کو آپ کے گناہ سے بچا سکتا ہے۔ اُسی عظیم قوت کے ساتھ جو اُس نے یہودیوں کو اُن کی سرزمین میں واپس لانے کے لیے استعمال کی، یسوع آپ کو بھی آپ کے گناہ سے باہر نکال سکتا ہے، آپ کو نئے سرے سے جنم دے سکتا ہے، اور اپنے قیمتی خون سے آپ کے تمام گناہ دھو سکتا ہے۔ آج رات میں آپ سے خداوند یسوع مسیح پر بھروسہ کرنے کے لیے کہہ رہا ہوں! اُس نے اسرائیل پر رحم کیا ہے، اور وہ آپ پر بھی رحم کرے گا۔ جیسے برتمائی چلّایا تھا اُس کے لیے چلّائیں، ’’اے یسوع، مجھ پر رحم کر! اے یسوع، مجھ پر رحم کر!‘‘

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نے Dr. Kreighton L. Chan حزقی ایل 36:16۔24 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے
The Holy City” (by Frederick E. Weatherly, 1848-1929).
مقدس شہر‘‘ (شاعر فریڈرک ای. ویتھرلیFrederick E. Weatherly ، 1848۔1929).