Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

ڈاکٹر جَون سُنگ کی حقیقی تبدیلی

THE REAL CONVERSION OF DR. JOHN SUNG
(جُان سُنگ پر واعظ # 1)
(SERMON #1 ON DR. JOHN SUNG)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
2 اکتوبر 2011 ، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, October 2, 2011

’’آدمی اگر ساری دُنیا حاصل کر لے مگر اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘ (مرقس 8:36).

4 جُون، 2011 ’’ٹیّانانمین سکوائر کے قتلِ عام‘‘’’Tiananmen Square Massacreکی بائیسویں برسی کو نمایاں کرتا ہے۔ 1989میں چھ ہفتوں تک ، ہزاروں چینی طالب علموں نے سوچ کے اظہار کی آزادی کےلیے پُر امن طریقے سے مظاہرہ کیا تھا۔ پھر 4جُون کے ابتدائی گھنٹوں میں، حکومت کی فوج نے ہزاروں غیر مسلح مظاہرین پر اندھا دُھند گولیاں چلا کر، ہزاروں لاتعداد کو قتل کیا اور ہزاروں سے زیادہ کو زخمی چھوڑ دیا تھا۔ ہُونگ یُو جیان Hong Yujian جو کہ پینسیلوانیا یونیورسٹی کے ایک تبادلہ شُدہ طالبِ علم تھے انہوں نے بیجینگ میں رونما ہونے والا یہ ظلم و ستم ٹیلی ویژن پر دیکھا۔ اُنہوں نے کہا کہ ٹیّانانمین سکوائر کے قتلِ عام نے اِن کی سائنس اور سیاست میں اُمید پر سوال کھڑا کر دیا اور مسیحی بننے میں راہنمائی کی تھی۔

اُنہوں نے کہا کہ ٹیانانمین کے قتلِ عام نے اُنہیں اور دوسروں کو اُن کے اپنے گناہ اور مسیح کی طلب دیکھانے میں مدد کی تھی: ’’ میرے خیال میں خُدا نے اس واقعہ کو چینی لوگوں کے لیے راہ ہموار کرنے اور اُنکے دل تیار کرنے کے لیے استعمال کیا تھا" (عالمی رسالہ، World Magazine ، 6 جُون، 2009، صفحہ 38).

’’سب کچھ یسوع کے لیے۔‘‘ کورس گایئے!

سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن؛
سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن۔
   (’’سب کچھ یسوع کےلیے‘‘ شاعر میری ڈی۔ جیمس Mary D. James, 1810۔1883).

عالمی رسالہ لکھتا ہے،

گذشتہ 20 سالوں میں چین میں مسیحیت کے بڑھنے کی شرع بہت تیزی سے پھیلی ہے۔ ماہرین بہت تیزی سے شہر بننے کے عمل اور با اثر مفکرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کا مسیح کو قبول کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اُو ایم ایف OMF بین الا قوامی (سابقہ چین کا اندرونی وفد) نے اندازہ لگایا ہے کہ چین میں تقریباً 70 ملین مسیحی ہیں۔ اِس گروپ کا کہنا ہے کہ چین میں غیر مقلد مسیحی (پروٹسٹنٹ) 1949 میں ایک ملین سے کم تھے [جب اشتراکیت پسند حکومت نے قبصہ جمایا تھا] (ibid.).

ڈاکٹر سی۔ ایل۔ کیگن، ایک ماہرِ شماریات، نے اندازہ لگایا کہ اب چین میں ہر روز کے 24 گھنٹوں کے ہر گھنٹے میں 700 سے زائد لوگ مسیحیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ’’ سب کچھ یسوع کے لیے۔‘‘ یہ کورس دوبارہ گائیں!

سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن؛
سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن۔

ہر جگہ کے مسیحیوں کے لیے چین میں مسیحیت کی تاریخ بہت دلچسپ ہونی چاہیے۔ چین میں جدید مسیحی تبلیغی تحریک رابرٹ موریسن Robert Morrison (1782۔1834) سے شروع ہوئی تھی۔ رابرٹ کو چین میں لندن کی مسیحی مبلغینِ تبلیغ کی انجمن نے 1807 میں بھیجا تھا۔ اُن کی معاونت ولیم مِلن William Milne کی تھی، انہوں نے [موریسن] مکمل بائبل کا ترجمہ چینی زبان میں 1821 تک کیا تھا۔ چین میں اُنکے 27 سالوں کے دوران صرف کچھ ہی چینیوں نے بپتسمہ لیا تھا – پھر بھی وہ تمام وفادار مسیحی رہے تھے۔ موریسن کا چینی زبان میں بائبل کا ترجمہ اور اناجیل کے ادب کی اشاعت چین میں مسیحی انجیلی بشارت کی بنیاد بنی تھی۔

1853میں ایک انگریز طبی ڈاکٹر جیمس ہڈسن ٹیلر James Hudson Taylor نے چین کے لیے بحری سفر کیا تھا۔ 1860 میں اُنہوں نے چین کے اندرونی وفد China Inland Missionکی بنیاد رکھی تھی، جو کہ اب سمندر پار کے مسیحی تبلیغی مبلغین کی رفاقت Overseas Missionary Fellowship کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ٹیلر کے رفقاء آخرکار چین کے تمام اندرون میں پھیل گئے تھے۔ ہڈسن ٹیلر 1905 میں چَینگشاہ Changsha میں فوت ہوئے تھے۔

جَون سُنگ 1901میں پیدا ہوئے تھے۔ چین کی تاریخ میں وہ ایک عظیم مبشرِ انجیل کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں وہ جو اُن کی تبلیغات کے تحت تبدیل ہوئے تھے اشتراکیت پسندوں کے 1949 میں قبضہ کر لینے کے بعد بھی مسیح کے وفادار رہے تھے۔جدید تاریخ میں، گذشتہ 60 سالوں سے چین میں مسیحیت کی عظیم تجدیدِ نو میں مسیحیوں کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ بڑھی ہے۔ آج کی صبح میں آپ کو ڈاکٹر جَون سُنگ کی غیر معمولی کہانی بتاؤں گا۔ میں اُن کی زندگی کا خلا صہ بتانے کا آغاز شروع کروں گا ڈاکٹر عیلگِن ایس۔ مُوئیر Dr. Elgin S. Moyer سے۔

جَون سُنگ (1901۔1944)، چین کے مشہور قومی مبشرِ انجیل؛ چین، فُوکئین، ھِینگھوا میں پیداہوئے؛ ایک میتھوڈسٹ پادری کے بیٹے تھے۔ [تقریباً نو سال کی عمر میں فرضی ’’تبدیل‘‘ ہوئے تھے۔] ذہین طالبِ علم؛ ویزلِیان یونیورسٹی۔ اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی، اور یونین تھیولوجیکل سیمنری۔ علمِ کیمیا میں پی ایچ۔ ڈی۔ تھے۔ چین میں واپس سائنس پڑھانے کی بجائے انجیل کی تبلیغ کے لیے آئے تھے۔ اپنی منفرد قوت اور پُر تاثیر انداز کے ساتھ تمام چین اور ارد گرد کے ممالک میں انجیلی بشارت کی تبلیغ میں پندرہ سال گزارے (عیلگِن ایس۔ مُوئیر، پی ایچ۔ ڈی۔، کلیسیا کی تاریخ میں کون، کون تھا Who Was Who In Church History، موڈی اشاعت خانہ، شمارہ1968 ، صفحہ 394).

’’سب کچھ یسوع کے لیے ۔‘‘ دوبارہ گایئے!

سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے ہے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن؛
سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے ہے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن۔

ابھی جَون سُنگ کی زندگی کا یہ صرف مختصر سا خاکہ ہے۔ ماضی کی مذید تفصیل میں جائیں، میں یقین نہیں کرتا کہ انہوں نے نو سال کی عمر میں مذہب تبدیل کیا تھا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ انہوں نے مذہب تبدیل کیا تھا جب تک وہ فروری 1927 میں 26 سال کی عمر کے نہ ہو گئے تھے۔

امریکہ میں بہت سالوں بعد جَون سُنگ نے خود کہا تھا کہ انہوں نے مذہب تبدیل نہیں کیا تھا جب تک کہ وہ ایک روحانی بحران سے نہ گزرے تھے۔جب وہ نو سال کی عمر کے تھے تو ہِینگھوا میں ایک تجدیدِ نو ہوا تھا۔ ایک مہینے کےاندر اندر تقریباً 3,000 پیشے بنے تھے۔ پاک جمعے کی ایک صبح انہوں نے ’’یسوع گتسمنی کے باغ میں‘‘ پر ایک واعظ سُنا تھا۔ مبلغ نے سوئے ہوئے شاگردوں کا موازنہ یسوع کی بے خوفی کے ساتھ کیا تھا۔ واعظ کے اختتام پر بہت سے لوگ دُکھ سے رُو رہے تھے۔ ان غمگساروں میں ایک میتھوڈسٹ مبلغ کا نو سال کا بیٹا، جَون سُنگ بھی تھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جَون سُنگ نے اپنی زندگی یسوع کے نام ’’وقف‘‘ کر دی تھی لیکن اُس وقت حقیقتاً مذہب تبدیل نہیں کیا تھا۔ جیسا کے مجھ سے پہلے پادری، ڈاکٹر ٹیموتھی لِن Dr. Timothy Lin (جن کے والد بھی ایک مبلغ تھے) جَون سُنگ نے تیرہ سال کی عمر سے اپنے والد کی مدد کرنا اور تبلیغ کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن، ڈاکٹر لِن ہی کی طرح، اُنہوں نے ابھی تک حقیقی تبدیلی کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ جَون سُنگ ایک مستقل مزاج طالبِ علم تھے اور ہائی سکول اپنی جماعت میں نمایاں کامیابی کے ساتھ مکمل کیا تھا۔ اِس وقت کے دوران وہ ’’ننھے پادری‘‘ کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے تھے۔ لیکن اپنے تمام تر اشتیاق اور فعالیت کے باوجود اُن کا دل مکمل طور پر مطمئین نہیں تھا۔ جو کام وہ اپنی منادی میں کر رہے تھے انہوں نے اُسے ایسے بیان کیا ’’اتنا قابلِ دید جتنا کِنگ فیشر پرندے کے پَر کا نیلا رنگ، اَتنا وافر جتنا موسمِ سرما میں سبزہ، لیکن خُداوند یسوع کو پیش کرنے کے لیے ایک بھی تازہ پھل توڑ کر دینے کے لیے نہیں تھا‘‘ (لیزلی ٹی۔ لیعل Leslie T. Lyall ، جَون سُنگ کی حالاتِ زندگی A Biography of John Sung ، چینی اندرونی وفد China Inland Mission، اشاعت 1965، صفحہ 15).

1919میں، 18 سال کی عمر میں، سُنگ نے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا، اور اُوہائیو ویزلیان یونیورسٹی نے وظیفے کے ساتھ انہیں قبول کیا۔ انہوں نے علمِ طبیعات اور علمِ اِلہٰیات کے نصابِ تعلیم کی تیاری کا آغاز کیا تھا، لیکن علمِ الہٰیات کی تیاری کے سلسلوں کو چھوڑا تھا اور حساب اور علمِ کیمیا میں ماہر ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ باقاعدہ طور پر گرجہ گھر جاتے اور طالب علموں کے درمیان انجیلی بشارت کے گروہ منظم کرتے۔ لیکن اپنے امتحان کی آخری معیاد میں انہوں نے دُعّا اور بائبل کے مطالعے کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور اپنے امتحانی پرچاجات میں سے ایک میں نقل کی۔ تین سو کی جماعت کے اوّل چار طالب علموں میں سے ایک آپ تھے جنہوں نے امتیازی طور پر 1923 میں گریجویشن کی تھی۔ اُنہیں کیمیا اور طبیعیات کے لیے نقد انعام اور سونے کے میڈل سے نوازا گیا تھا۔ انہیں انجمنِ فی بِیٹا کپّا Phi Beta Kappa کے لیے چُنا گیا تھا، جو کہ سب سے بہترین عالمین کی ایک خصوصی تنظیم تھی، جس نے انہیں ایک سونے کی چابی دی جو کہ علمیت میں شاندار امتیازیت کی نشانی تھی۔

اب اُنہیں بے شمار یونیورسٹیوں سے وظیفے کی پیشکش ہونے لگی جن میں ہارورڈ بھی شامل تھی۔ اُنہوں نے سائنس کی ماسٹر ڈگری کے لیے اُوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کا وظیفہ قبول کیا۔ اُنہوں نے یہ ڈگری صرف نو مہینوں میں مکمل کر لی! انہیں ہارورڈ میں دوا سے علاج [میڈیسن] کرنے کے مطالعے کے لیے وظیفے کی پیشکش ہوئی۔ اُنہیں ایک اور پیشکش ایک [سیمنری] مذہبی مطالعے کی درسگاہ میں سے ہوئی۔ انہیں احساس ہوا کہ اُنہیں علمِ الہٰیات کا مطالعہ کرنا چاہیے، لیکن اُنہوں نے جو شہرت پائی تھی اُس نے اُن کی مذہبی رہنما بننے کی خواہش کی شدت کو کم کر دیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اُوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں کیمیا کے ڈاکٹری سے متعلق نصاب تعلیم میں داخلہ لیا۔ انہوں نے اپنی پی ایچ۔ ڈی صرف اِکیس مہینوں میں مکمل کر لی! اِس طرح وہ پہلے چینی تھے جنہوں نے متحدہ ریاست سے پی ایچ۔ ڈی کا اعزاز حاصل کیا۔ اخبارات میں انہیں ’’ اُوہائیو کے مشہور ترین طالبِ علم‘‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔ لیکن اُن کے دل کی گہرائیوں میں سکون نہیں تھا۔ بڑھتے ہوئے روحانی انتشار نے گزرتے وقت کے ساتھ شدید ذہنی دباؤ اور گھبراہٹ کا مظاہرہ کیا‘‘ (لِیعل Lyall ibid., صفحہ 22)

.

اسی دوران وہ آزاد خیال الہٰیات اور اُن کی ’’معاشرتی انجیل‘‘ کی تعلیمات کے زیر اثر آئے۔ آزاد خیال الہٰیات سیکھاتی تھی کہ یسوع ایک بلند مرتبہ و معزز مثال تھا، لیکن نجات دہندہ نہیں تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ جَون سُنگ نے جب وہ نو سال کا تھا تو یسوع کو ایک ’’ بلند مرتبہ و معزز مثال‘‘ سمجھا تھا، اور اِسی وجہ سے اُس وقت اُن کی مذہبی تبدیلی مصنوعی تھی۔ لیکن خُدا ابھی تک انہیں بُلا رہا تھا۔ ایک شام جب وہ تنہائی میں بیٹھے ہوئے تھے، انہیں محسوس ہوا کہ خُدا کی آواز اُن سے کہہ رہی ہے، ’’ آدمی اگر ساری دُنیا حاصل کر لے مگر اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘

اگلے دن انہوں نے ایک آزاد خیال میتھوڈسٹ پروفیسر سے مذہبی تبدیلی کی۔ اُنہوں نے پروفیسر کو بتایا کہ حقیقتاً وہ امریکہ علمِ الہٰیات کا مطالعہ کر نے آئے تھے۔ پروفیسر نے اُنہیں نیویارک کی ایک انتہائی آزاد خیال ’’یونین تھیولوجیکل سیمنری‘‘ میں مذہبی تعلیم کے لیے للکارہ۔ صرف چند لمحوں کی ہچکچاہٹ کے بعد اُنہوں نے جانے کا فیصلہ کیا۔ یونین سیمنری میں اُنہیں مکمل وظیفہ دیا گیا اور گزر بسر کے لیے فیاض دلانہ خرچ۔ بعد میں اُنہوں نے کہا تھا کہ اُنہیں مذہبی منادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن صرف اپنے والد کو تسلی دینے کے لیے ایک سال تک علم الہٰیات کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے، اور پھر واپس سائنسی پیشہ اختیار کرنا تھا۔ اُن کا دل تاریکی اور افراتفری سے بھرا تھا۔

1926 کے موسمِ خزاں میں ڈاکٹر جَون سُنگ نے یونین تھیولوجیکل سیمنری کی فہرست میں اپنا اندراج کرایا۔ انتہائی آزاد خیال ڈاکٹر ہنری سلواین کوفّین Dr Henry Sloane Coffin اُس وقت ابھی صدر بنے ہی تھے۔ پروفیسرز کے درمیان انتہائی شدید آزاد خیال ڈاکٹر ہیری ایمرسن فوسڈِیک Dr. Harry Emerson Fosdick بھی تھے، جو کہ ’’بنیاد پرستی کے خلاف کئی کتابوں کے مصنف تھے، جیسے کے، ’’بائبل کا جدید استعمال‘‘The Modern Use of the Bible اور ’’ آقا کی مردانگی‘‘ The Manhood of the Master۔ فوسڈِیک کی سب سے مشہور تقریر تھی ’’ کیا بنیاد پرستوں کو جیتنا چاہیئے؟‘‘ (1922). وہ ہر ہفتے اپنی ریڈیو کی نشریات میں مسیح کے جسمانی طور پر مردوں میں سے جی اُٹھنے اور بائبل کی صداقتوں کے خلاف تبلیغ کرتے تھے۔ یہ سیمنری بائبل پر تنقید اور انجیلی بشارت کی الہٰی تعلیم کو مسترد کرنے کی ایک مشہور ترین جگہ تھی۔ بائبل کی کوئی بھی بات جسے سائنسی طریقے کے مطابق ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا اُسے لائق مذمت اعتقاد تصور کر کے مسترد کر دیا جاتا ! پیدائش کی کتاب کو غیر تاریخی قرار دیا اور معجزات پر یقین کو غیر سائنسی۔ تاریخی یسوع کو ایک مثالی حسنِ مجسم کی نقل کے طور پر پیش کیا، جبکہ اُس [یسوع] کی موت اور جسمانی طور پر مردوں میں سے جی اُٹھنے جیسے تبدلیاتی اقدار کو تسلیم ہی نہ کیا گیا۔ دُعّا کو وقت کے شدید زیاں کے طور پر تصور کیا گیا۔ اِس طرح کے نقطہ نظر سے [غیر متفق ہونا] اپنے آپ کو تضحیک اور ہمدردی کا مستحق قرار دینا تھا‘‘ (لیعل ibid., صفحات 29۔30).

ڈاکٹر سُنگ نے اپنی تمام تر دماغی استعدادی قوتوں کے ساتھ اپنے آپ کو آزاد خیال الہٰی علم کے مطالعے میں غرق کر دیا۔ اُس سال کے دوران اُنہوں نے اعلٰی تعلیمی کامیابیاں حاصل کیں، لیکن بُدھ مت مذہب اور ٹاؤازم Taoism کے مطالعے کے سبب سے مسیحیت سے پِھر گئے تھے۔ اس اُمید کے ساتھ کہ خود منکری اُنہیں سکون دلائے گی، انہوں نے اپنے کمرے کی تنہائی میں بُدھ مت مذہب کے ضیحیفوں کے جاپ شروع کر دیے تھے۔ اُنہوں نے لکھا، ’’ میری روح بیابانوں میں بھٹکتی تھی۔‘‘

اس ذہنی حالت کے ساتھ وہ ایک چینی ہم جماعت کے گہرے دوست بن گئے، لیکن اس حقیقت سے کہ وہ چین میں ایک اور لڑکی کے منگیتر بھی تھے اُنہوں نے اس تعلق کو توڑ دیا۔ اُن کی زندگی ناقابلِ برداشت بن گئی۔ اُنہوں نے لکھا، ’’ نہ میں سو سکتا ہوں اور نہ کھا سکتا ہوں… میرا دل گہری ترین افسردگیوں سے بھرا تھا۔‘‘ سیمنری میں موجود عہدے داروں نے محسوس کیا کہ وہ ایک مسلسل ذہنی دباؤ کی حالت میں تھے۔

یہی وہ جذباتی کیفیت تھی جس میں وہ اپنے کچھ اور طالب علموں کے ساتھ ڈاکٹر آئی۔ ایم۔ ہالڈیمین Dr. I. M. Haldeman کو سننے گئے، جو کہ نیویارک شہر کے پہلے بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر کے بنیاد پرست پادری تھے۔ ڈاکٹر ہا لڈیمین اپنی اس بات کی وجہ سے مشہور تھے، ’’ جو کوئی بھی کنواری سے پیدائش کی تردید کرتا ہے بائبل کی مسیحیت سے تردید کرتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ہالڈیمین کا بلاواسطہ متصادم ہیری ایمرسن فوسڈیک اور یونین تھیولوجیکل سیمنری کے ساتھ تھا۔ جَون سُنگ اُن [ہالڈیمین] کی تبلیغ تجسس کے باعث سننے گئے تھے۔ لیکن اُس رات ڈاکٹر ہالڈیمین نے تبلیغ نہیں کی۔ اس کے بجائے ایک پندرہ سالہ لڑکی نے اپنی گواہی دی۔ اُس نے صیحیفوں کو پڑھا اور یسوع کی تبّدلیاتی صلیبی موت پر گفتگو کی۔ سُنگ نے کہا وہ خُدا کی موجودگی محسوس کر سکتا ہے۔ اُن کے سیمنری کے ساتھیوں نے اُن کی تضحیک کی، لیکن وہ خود لگاتار مذید چار شامیں انجیلی بشارت کی عبادتوں میں شریک ہونے کے لیے واپس جاتے رہے۔ ’’سب یسوع کے لیے۔‘‘ دوبارہ گایئے۔

سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن؛
سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن۔

انہوں نے جُان ویزیلی، جارج وائٹ فیلڈ اور دوسرے عظیم مبلغیں جسے انسانوں کی مسیحی حالاتِ زندگیاں پڑھنا شروع کیں تاکہ اُن قوتوں کو دریافت کر سکیں جو اُنہوں نے پہلے بپتسمہ دینے والےگرجہ گھر کے اُن انجیلی بشارت کے جلسوں میں محسوس کی تھیں۔ سیمنری میں ایک اجلاس کے دوران ایک مقرر نے یسوع کی تبّدلیاتی صلیبی موت کے خلاف سخت الفاظ کہے۔ جَون سُنگ لیکچر کے اختتام پر کھڑے ہوئے اور حیرت زدہ طالب علموں کی ایک جماعت کے سامنے اُسے جواب دیا۔

آخر کار، 10 فروری، 1927 کو اُنہوں نے حقیقی مذہبی تبدیلی کا تجربہ کیا۔ ’’ اُنہوں نے اپنی زندگی کے تمام گناہ اپنے سامنے پھیلے ہوئے دیکھے۔ شروع میں یوں لگتا تھا کہ اُن سے چھٹکارہ پانے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور کہ وہ ضرور جہنم میں جائیں گے۔ اُنہوں نے اپنے گناہوں کو بُھلانے کی کوشش کی، لیکن نہیں بُھلا سکے۔ اُن ہی[گناہوں]نے اُن کا دل چیر دیا… اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ وہ وہاں صلیب کے قدموں تلے ہیں اور قیمتی خُون سے اپنے تمام گناہوں کو دھونے[صاف کرنے] کی التجا کر رہے ہیں… آدھی رات تک انہوں نے رونا اور دُعائیں کرنا جاری رکھا۔ پھر اُنہیں محسوس ہوا کہ ایک آواز کہہ رہی ہے، ’بیٹے، تمہارے گناہ معاف کیے گئے،’ اور اُن کے گناہوں کا تمام بوجھ ایکدم اُن کے کندھوں سے اُترتا ہوا محسوس ہوا… ’وہ ھیلیلویا!‘ چیخ کر اپنے قدموں پر اُچھل پڑے۔‘‘ (لیعل، ibid. ، صفحات 33۔34). وہ خُداوند کی ستائش کرتے ہوئے اور چیختے ہوئے اجتماعی سونے والے کمرے سے دوڑے۔ اب اُنہوں نے ہر کسی سے اُن کے لیے یسوع کی ضرورت کے بارے میں بات چیت کرنی شروع کردی، جن میں اُن کے ہم جماعت اور سیمنری کے اساتذہ بھی شامل تھے۔ ’’سب کچھ یسوع کے لیے۔‘‘ دوبارہ گایئے!

سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن؛
سب کچھ یسوع کے لیے! سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام اوقات اور میرے تمام دن۔

سیمنری کے صدر نے سوچا کہ اُنہوں نے شدید عالمانہ فلسفیاتی کوششوں کی وجہ سے دماغی توازن کھو دیا ہے، اور اُنہیں[جَون سُنگ کو] ایک پاگل خانے کے دماغی مریضوں کے ہسپتال میں داخل کرا دیا۔ انہوں نے پاگل خانے میں چھ ماہ گزارے۔ اِس وقت کے دوران اُنہوں نے بائبل شروع سے اختتام تک چالیس مرتبہ پڑھ ڈالی۔ ’’اس طرح دماغی ہسپتال جَون سُنگ کے لیے حقیقتاً الہٰیاتی کالج بن گیا۔ جَون سُنگ نے یونین سیمنری کے ساتھ تعلقات اُس دن توڑ دیئے تھے جب اُنہوں نے آزاد خیال الہٰیاتی کتابوں کو جلا ڈالا تھا، یہ کہہ کر کہ یہ ’’شیطانوں کی کتابیں‘‘ ہیں۔ یونین سیمینری نے کبھی بھی چین کی تاریخ کے سب سے عظیم مبشرِ انجیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر محسوس نہیں کیا۔

چین کی طرف اپنے بحری سفرمیں واپسی پر وہ جانتے تھے کہ وہ آسانی سے کسی بھی چینی یونیورسٹی میں کیمیا کے پروفیسر کے طور پر رُتبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ’’ایک دِن، جیسے ہی جہاز اپنے بحری سفر کے اختتام کے قریب تھا، جَون سُنگ نیچے اپنے کمرے میں گئے، اپنے کمرے کے صندوق میں سے اپنی اسناد ، میڈلز اور اپنی انجمن کی چابیاں نکالیں اور اُنہیں جہاز پر سے پھینک دیا[سمندر میں]۔ سب کچھ ماسوائے اپنے ڈاکٹر بننے کی سند کے، جو انہوں نے اپنے والد کی تسلی کے لیے محفوظ رکھی تھی۔‘‘ (لِیعل، صفحہ 40).

چین کی تاریخ میں مشہور ترین مبشرِ انجیل بننے کے لیے، ڈاکٹر جَون سُنگ نے 1927کے موسمِ خزاں میں شنگھائی میں کشتی سے باہر قدم رکھا۔ اُنہیں اکثر ’’چین کا ویزلی‘‘ Wesley of China بھی کہا جاتا ہے۔ جَون سُنگ انجیل کے ایک شدید قوی مبلغ بن گئے۔ صرف تین ہی سالوں میں اُن کی تبلیغ سے چین میں 100,000 سے زیادہ لوگوں نے مذہب تبدیل کیا! انہوں نے برما، کمبوڈیا، سِنگاپور، انڈونیشا اور فلپائین کے جزائر میں بھی تبلیغ کی۔ وہ ہمیشہ ایک ترجمان کے ساتھ تبلیغ کرتے، یہاں تک کہ چین میں بھی، کیونکہ اُن کی بولی وسیع پیمانے پر نہیں بولی جاتی تھی۔ وائٹ فیلڈ کی طرح، جَون سُنگ ذاتی طور پر زیادہ تر اُن کو ہدایات دیتے تھے جو اُن کی تبلیغ کا ردِعمل ظاہر کرتے تھے۔ ’’آج چین اور تائیوان میں مسیحی سُنگ کی منادی کے بہت مقروض ہیں؛ بیسویں صدی میں مشرقِ بعید کے لیے وہ خداوندکی طرف سے عظیم تحفوں میں سے ایک تھے‘‘ (ٹی۔ فراق، جے۔ ڈی۔ ڈگلِس، پی ایچ۔ ڈی۔، کی کتاب مسیحی تاریخ میں کون، کون ہے، ٹائنڈیل ہاؤس، 1992، صفحہ 650). ڈاکٹر سُنگ کی بہترین مختصر حالاتِ زندگی لکھی ہے ریورنڈ ولیم ای۔ شوبرٹ نے Rev. William E. Schubert جس کا نام، ’’مجھے جَون سُنگ یاد ہے‘‘I Remember John Sung ‘‘، جو کہ مہیا ہے www.strategicpress.org. یہاں پر کلک کریں خریدنے کے لیے ریورنڈ شُوبرٹ کی حالاتِ زندگیRev. Schubert’s biography ۔ یہاں پر کلک کیجیے خریدنے کے لیے ڈاکٹر جَون سُنگ کی حالاتِ زندگی مصنف لیزلی لِیعل a biography of Dr. John Sung by Leslie Lyall (اتنی اچھی نہیں ہے جتنی شُوبرٹ کی لیکن دلچسپ ہے مگر کچھ کچھ تنقیدی)۔ یہاں پر کلک کیجیے خریدنے کے لیے ڈاکٹر جَون سُنگ کی ڈائری، باعنوان ’’ شمارہ جو کبھی کھو گیا تھا۔ The diary of Dr. John Sung, titled “The Journal Once Lost.” ‘‘ یہاں پر کلک کیجیے پڑھنے کے لیے وِکی پِیڈیا میں ڈاکٹر جَون سُنگ پر ایک جریدہ a Wikipedia article on Dr. Sung ۔

وہ کنسر کی وجہ سے 1944 میں بیالیس سال کی عمر میں فوت ہوئے تھے ۔

’’آدمی اگر ساری دُنیا حاصل کر لے مگر اپنی جان کھو بیٹھے تو اُسے کیا فائدہ ہوگا؟‘‘
      (مرقس 8:36).

یہ میری دُعّا ہے کہ آپ بھی حقیقی تبدیلی کا تجربہ کریں جیسے ڈاکٹر سُنگ نے کیا۔ میں دُعّا کرتا ہوں کہ خُدا آپ پر اِس زندگی کا خالی پن ظاہر کرے؛ اور کہ خُدا آپ کو گناہ کے گہرے راسخ عقیدے کے تحت لائے؛ اور خُدا آپ کو مسیح کی طرف متوجہ کرے تاکہ اُس [یسوع] کے کفارہ ادا کرنے والے خون سے گناہوں کو پاک صاف کریں۔ اور میں دُعّا کرتا ہوں کہ آپ آج شام 6:00 بجے واپس آئیں ڈاکٹر سُنگ کے بارے میں ایک اور واعظ سننے کے لیے جس کا عنوان ہے، ’’آزاد خیال سیمنری میں ڈاکٹر سُنگ کے ساتھ‘‘ “With Dr. Sung at the Liberal Seminary” (یہاں کلک کیجیے اِسے پڑھنے کے لیے) ۔ آمین۔ مہربانی سے کھڑے ہویئے اور اپنے گیتوں کے ورق سے حمد نمبر 3 گایئے، ’’ سب کچھ یسوع کے لیے۔‘‘

سب کچھ یسوع کے لیے، سب کچھ یسوع کے لیے! گناہوں کی قید سے بچانے کی قوتیں میری ہستی کے لیے:
میرے تمام خیالات اور الفاظ اور افعال، میرے تمام دن اور میرے تمام گھنٹے۔
سب کچھ یسوع کے لیے، سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام دن اور میرے تمام گھنٹے؛
سب کچھ یسوع کے لیے، سب کچھ یسوع کے لیے! میرے تمام دن اور میرے تمام گھنٹے۔
(’’سب کچھ یسوع کے لیے‘‘ شاعر میری ڈی۔ جیمس Mary D. James, ،1810۔1883).

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ مرقس 8:34۔37.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ نے :Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’تم پھر پیدا ہوؤ گے‘‘ (شاعر ولیم ٹی۔ سلیپر، William T. Sleeper 1819۔1904).