Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

مسیح کی تدفین کی متضاد منطق

THE PARADOX OF CHRIST’S BURIAL
(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 10 )
(SERMON NUMBER 10 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
14 اگست، 2011 ، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, August 14, 2011

’’اور وہ شریروں کے درمیان دفنایا گیا، لیکن ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی؛ حالانکہ اُس نے کبھی ظلم نہ کیا، نہ ہی اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی‘‘ (اشعیا 53:9).

مسیح کی تدفین پر آپ نےکتنے واعظ سُنے ہیں؟ میں نے ایک بھی کبھی نہیں سُنا، حالانکہ میں 53برس سے زیادہ منادی کر چکا ہوں اور 57 برس سے گرجہ گھر سے منسلک ہوں۔ میں تو مسیح کی تدفین پر ایک بھی واعظ یاد نہیں کر سکتا جو میں نے پڑھا ھی ہو! ہمیں اس سے کہیں زیادہ سُن چُکنا چاہیے۔ آخر کار، یسوع کی تدفین اتنی غیر اہم نہیں ہے۔ درحقیقت یہ انجیل کا دوسرا موضوع ہے!

’’کتابِ مقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قربان ہوا‘‘
      (1۔کرنتھیوں15:3).

وہ انجیل کا پہلا موضوع ہے۔

’’اور یہ کہ وہ دفن ہوا‘‘ (1۔کرنتھیوں 15:4).

یہ انجیل کا پہلا موضوع ہے۔

ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم انجیل کی منادی کرتے ہیں اگر ہم کبھی اُس کے دوسرے موضوع پر ایک بھی تبلیغی واعظ نہیں دیتے؟ لیکن، پھر، آج کچھ واعظ یا تو پہلے موضوع یا تیسرےموضوع پر مکمل توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ یہی جدید تبلیغ کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔ ضروری ہے کہ ہم انجیل کو مرکز بنائیں۔ ہمیں اپنی تبلیغ میں مسیح کو مذید تعظیم ، اور اُسے اور اُس کے کفارے کے عمل کو واضع ترین اہمیت دینی چاہیے۔

بُہترے اس حقیقت پر افسوس کرتے ہیں کہ آج کل پہلے جیسی عظیم تبلیغ بہت کم رہ گئی ہے۔ جس سے میں مکمل طور پر متفق ہوں۔ لیکن کیوں یہ سچ ہے؟ ایسا زیادہ تر اِس لیے ہے کہ بجائے اس کے کہ کھوئے ہوؤں کو انجیل کی منادی سُنانے کے، ’’مسیحیوں کو تعلیم‘‘ دینے کے لیے خوشخبری کی تبلیغ کرنے والے پادری اب بہت کم ہیں، حالانکہ بے شک اُن کے گرجہ گھر کھوئے ہوئے لوگوں سے حقیقتاً بھرے پڑے ہوں! اس طرح کہلائے جانے والے ’’مسیحیوں‘‘ کو دی جانے والی ’’اخلاقی تعلیم‘‘ کبھی بھی عظیم تبلیغ نہیں مانی جا سکتی! جب مسیح مرکز نہیں ہے، تو منادی کبھی عظیم ہو ہی نہیں سکتی!

انجیل کا علم ہونا محض مسیح کے بارے میں حقائق جاننا نہیں ہے۔ انجیل کا حقیقی علم خود مسیح کو جاننا ہے۔ یسوع نے کہا،

’’ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ واحد اور سچے خُدا کو جانیں، اور یسوع مسیح کو بھی جانیں جسے تُو نے بھیجا ہے‘‘ (یوحنا 17:3)۔

جارج رِیکر بَیری نے کہا کہ یوحنا 17:3 میں لفظ ’’جاننا‘‘ کے ترجمے کا مطلب ہے کہ ’’تجربے کے ساتھ . . . جاننا‘‘ (نئے عہد نامے کی یونانی سے انگریزی میں لُغت Greek-English New Testament Lexicon). حقیقی مسیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ مسیح کو تجربے سے جانے۔ حقائق کے محض علم سے کام نہیں چلے گا۔ ضروری ہے کہ آپ ہمارے گناہوں کے لیے مسیح کی موت تجربہ سے جانیں۔ آپ کو اُس کی تدفین تجربے سے جاننی چاہیے۔ آپ کو اُس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا تجربے سے جاننا چاہیے۔ یہی راستہ نجات کی جانب جاتا ہے۔ دائمی زندگی کا یہی راستہ ہے۔

’’ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ واحد اور سچے خُدا کو جانیں، اور یسوع مسیح کو بھی جانیں جسے تُو نے بھیجا ہے‘‘ (یوحنا 17:3)۔

اگر آپ ایسے تجربات سے نہیں گزرے ہیں، تو مجھے اُمید ہے میں نے آپ کو بےچینی کا احساس دلایا ہے۔ اس لیے یہ سوال پیدا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ ایک حقیقی مسیحی نہیں ہیں، کیونکہ آپ نے حقیقی تبدیلی کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ آپ اُس وقت تک پریشانی اور بے چینی میں رہنے والے ہیں جب تک کہ آپ اپنا ذہن بدل نہ لیں، یسوع کے قدموں میں گر یں اور اُس میں سچی نجات پائیں۔

مسیح کو جاننے کےلیے، ضرور ہے کہ آپ کو صلیب تک جانا ہے، اور ایمان کے ساتھ اُس یسوع پر نظر ڈالنی ہے جو ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے مصلوب ہوا۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ایمان کے ساتھ مسیح کے مقبرے میں جائیں اور

’’موت میں شامل ہو نے کا بپتسمہ لے کرہم اُس کے ساتھ دفن بھی ہوں‘‘ (رومیوں 6:4الف)،

تاکہ جس طرح مسیح اپنے آسمانی باپ کی جلالی قوت کے وسیلے سے مُردوں میں سے زندہ کیا گیااُسی طرح ہم بھی ’’نئی زندگی میں قدم بڑھائیں‘‘ (رومیوں 6:4ب(۔

اس لیے ہم یسوع کی تدفین کو جاننے کے لیے ہماری تلاوتِ کلامِ پاک کی طرف واپس آتے ہیں، تاکہ ہم اِس کا تجربہ یسوع کے ساتھ کر سکیں۔

’’اور وہ شریروں کے درمیان دفنایا گیا، لیکن ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی؛ حالانکہ اُس نے کبھی ظلم نہ کیا، نہ ہی اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی‘‘ (اشعیا 53:9).

اِس آیت میں ہم مسیح کی تدفین کی متضاد منطق پاتے ہیں، اِس کی پہیلی بظاہر ایک تضاد ہے۔ اور پھر ہم اِس پہیلی کا حل پاتے ہیں۔

1۔ اوّل، یسوع کی تدفین کی متضاد منظق۔

’’اور وہ شریروں کے درمیان دفنایا گیا، لیکن ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی. . . ‘‘ (اشعیا 53:9).

یسوع کے زمانے میں، ’’ شریر‘‘ [فاسق یا بدکردار] مجرم ہوتے تھے۔ ’’امیر‘‘ معزز تصور کیے جاتے تھے۔ تو پھر کیسے یسوع کی قبر شریروں کے ساتھ تھی اور ایک ہی وقت میں ایسی قبر میں رکھا گیا تھا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی‘‘؟ اِس بات نے قدیم یہودی تبصرہ نگاروں کو تذبذب میں ڈال دیا تھا۔ یہ اُن کے ذہن میں ایک متضاد منطق تھی، جو بظاہر اُلٹ تھی۔

لیکن یہ مُعّمہ یوحنا کی انجیل میں حل کیا گیا ہے۔ یسوع صلیب پر دو چوروں کے درمیان مرا تھا، ایک اُس کے دائیں اور دوسرا اُس کے بائیں ہاتھ تھا۔ ہماری تلاوت کلامِ پاک میں اُن کا حوالہ بطور ’’شریروں‘‘ [بدکرداروں] کے دیا گیا ہے۔ یسوع پہلے فوت ہوا تھا، جبکہ دونوں چور کچھ دیر بعد تک زندہ رہے تھے۔

’’یہ [فسح کی] تیاری کا دِن تھا اور اگلا دِن خصوصی سبت تھا۔ یہودی نہیں چاہتے تھے کہ سبت کے دن لاشیں صلیبوں پر ٹنگی رہیں لہٰذا اُنہوں نے پِیلاطُوس کے پاس جا کر درخواست کی مجرموں کی ٹانگیں توڑ کر اُن کی لاشوں کو نیچے اُتار لیا جائے‘‘
(یوحنا 19:31).

سپاہیوں نے دونوں چوروں کی ٹانگیں توڑیں۔ یہ اِس لیے کیا گیا تھا تا کہ وہ مذید زندہ رہنے کے لیے سانس نہ لیں اور، اس طرح، جلد مر جائیں۔ لیکن جب وہ یسوع کے پاس آئے، جو کہ بیچ والی صلیب پر لٹک رہا تھا، تو وہ پہلے ہی مر چُکا تھا۔ اُن میں سے ایک نے یسوع کی پسلی کو ایک نیزے سے چھیدا تا کہ یسوع کی موت کو یقینی کرے۔ پانی اور خُون اُبل کر باہر نکلا، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دل کے دورے سے مرا تھا۔

اُس نے ہاتھی دانت کے تخت پر حکومت نہیں کی تھی،
   وہ کلوری کی صلیب پر مرا تھا؛
گنہگاروں کے لیے اُس نے وہاں اپنا سب کچھ شمار کیا لیکن ہار گیا،
   اور اُس نے اپنی بادشاہی کا صلیب پر سے جائزہ لیا۔
اُس کا تخت ایک بوسیدہ صلیب بن گئی،
   اُس کی بادشاہی صرف دلوں میں تھی؛
اُس نے اپنا پیار گہرے لال رنگ سے لکھا تھا،
   اور اپنے سر پر کانٹوں کا تاج پہنا تھا۔
(’’ایک کانٹوں کا تاج‘‘ شاعر عرّہ ایف۔ سٹانفِل، 1914۔1993).

لیکن پھر غیر متوقع طور پر کچھ ہواتھا۔ دو بہت ممتاز آدمی یسوع کے جسم کا دعویٰ کرنے سامنے آئے۔ وہ ایک امیر آدمی اور یہودی سین ہیڈرن [قدیم یروشلم کی مذہبی اور اعلٰی عدلیہ کی کونسل] کا رُکن ، آریماتھیا کا یوسف اور یہودیوں کا حکمران نیکودیمس، جو اس سے قبل ایک رات کو یسوع کے پاس آیا تھا (موازنہ کیجیئے یوحنا 3:1۔2). وہ دونوں خُفیہ بنے ہوئے تھے، لیکن اب وہ پہلی مرتبہ سرِعام سامنے آتے ہیں۔ اُنہوں نے اصل میں ایسا کر کے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔ ڈاکٹر میکجی نے کہا،

اِن دونوں آدمیوں کے لیے اس قدر زیادہ تنقید نہ کی جائے۔ وہ درپردہ رہے تھے لیکن، اب جبکہ خُداوند کے تمام شاگرد بھیڑوں کی مانند تِتر بِتر ہو گئے تھے اور روپوش ہو گئے تھے، تو یہ دونوں آدمی منظر عام پر سامنے آئے (جے. ورنن میکجی، ٹی ایچ.ڈی.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن، 1983، جلد چہارم ، صفحہ 494).

آریماتھیا کے یوسف اور نیکودیمس نے یسوع کا جسم لیا تھا۔ یوسف ایک امیر شخص تھا اور اُس نے یسوع کے جسم کو اپنے نئے مزار میں رکھا تھا،

’’اور اُسے اپنی نئی قبر میں جو چٹان میں کُھدوائی تھی رکھ دیا۔ پھر وہ ایک بڑا سا پتھر قبر کے منہ پر لُڑھکا کرچلا گیا‘‘ (متی 27:60).

یوں مسیح کی تدفین کی متضاد منطق کی وضاحت کی گئی۔ جی ہاں، یسوع نے اپنی قبر شریروں کے ساتھ بنائی، صلیب پر دو چوروں کے درمیان اپنے مرنے سے۔ لیکن وہ دفنایا گیا تھا ‘’ ایک ایسی قبر میں جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی‘‘ (اشعیا 53:9)، ایک امیر آدمی کے مزار میں۔ میسح نے ایک بدذات غُنڈے کی موت کا تجربہ کیا تھا، لیکن اُس کو دولت مند کے لیے بنائی گئی قبر میں دفنا کر عزت دی گئی تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے خُداوند کی بے عزتی کا اختتام ہو رہا تھا۔ اُس کے جسم کو دو چوروں کے ساتھ ایک مشترکہ قبر میں نہیں پھینک دیا گیا تھا۔ اُس کو اُسی عزت و احترام کے ساتھ ایک امیر اور عزت دار شخص کے مزار میں رکھا گیا تھا جس کا وہ مستحق تھا۔ اور اِس طرح یہ متضاد منطق، جو اکثر بوڑھے ربّیوں کو جو اُس کا مطالعہ کرتے تھے مخمسے میں ڈال دیتی تھی، ہماری تلاوت بہت سادہ بنی تھی۔

’’اور وہ شریروں کے درمیان دفنایا گیا، لیکن ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی. . . ‘‘ (اشعیا 53:9).

2۔ دوئم، متضاد منطق کی وضاحت سمجھائی گئی۔

ہماری تلاوت کا دوسرا حصہ بتاتا ہے کہ کیوں مسیح، حالانکہ وہ چوروں کے ساتھ بے عزتی کی موت مرا تھا، لیکن اعزاز اور احترام کے ساتھ دفنایا گیا تھا۔ مہربانی سےکھڑے ہو جایئے اور دوسرا حصّہ پڑھیے جو اِن الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ’’ حالانکہ اُس نے کبھی ظلم نہ کیا. . . ‘‘ (اشعیا 53:9).

’’اور وہ شریروں کے درمیان دفنایا گیا، لیکن ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی؛ حالانکہ اُس نے کبھی ظلم نہ کیا، نہ ہی اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی‘‘ (اشعیا 53:9).

آپ تشریف رکھ لیجیے۔

یہ مسیح کے عزت بخش جنازے کی وجہ پیش کرتی ہے۔ یہ عزت یسوع کو اس لیے ملی تھی کیونکہ اُس نے کوئی ظلم نہیں کیا تھا؛ یا کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ وہ چوری یا جبر، قتل یا کسی قسم کی ظلمت کا قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا تھا۔ اُس نے کبھی کو ئی ہجوم اکٹھا نہیں کیا تھا، یا کبھی رُومی یا یہودی دونوں میں سے کسی حکومت کے خلاف فساد برپا کیا تھا۔ نہ ہی اُس کے منہ سے کفر کی کوئی بات نکلی۔ اُس نے کبھی جھوٹے عقائد کی تعلیم نہیں دی۔ اُس نے کبھی لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا جس کا اُس پر الزام لگایا گیا تھا۔ جو کہ سراسر ایک جھوٹ تھا۔ اُس نے کبھی بھی کسی کو خُدا کی حقیقی عبادت سے دور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ آُس نے مسلسل موسیٰ کےقانون اور انبیاء کو برقرار رکھا اور اُن کا احترام کیا، وہ اُن کے مذہب یا اُن کی ریاست کا دشمن نہیں تھا۔ بِلا شُبہ، وہ کسی گناہ کا قصور وار نہیں تھا۔ پُولوس رسول نے کہا کہ مسیح،

’’اُس نے نہ تو کبھی گناہ کیا نہ اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی‘‘
      (1۔پطرس 2:22).

ڈاکٹر ینگ نے کہا، ’’[مسیح] کو آُس کی ذلت کی موت کے بعد ایک معزز طریقے سے دفنایا گیا تھا کیونکہ اُس کی کامل معصومیت کی وجہ سے۔ [چونکہ] اُس نے اپنے مجرم دشمنوں کی طرح برتاؤ نہیں کیا تھا، اِس لیے اُس کو اُن کے ساتھ [ایک] ذلت آمیز طور پر نہیں دفنایا گیا، بلکہ ایک اعزاز کے ساتھ ایک ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی۔‘‘

اِس سے مجھے سر ونسٹن چرچِل کی یاد آ جاتی ہے، جنہوں نے دیہی علاقے کی گرجہ گھر کے صحن میں اپنے باپ کے ساتھ ایک معزز دفنانے کی جگہ چُنی تھی، بجائے اس کے کہ جو وہ سمجھتے تھے ایک بہت کم عزت والی جگہ اُن کے باپ اور اُن کے اپنے دشمنوں کے درمیان، اُن لوگوں کے درمیان جنہوں نے انگلستان کے ساتھ غداری کی، اُن لوگوں کے ہٹلر اور اُس کی نازی سرکار کو خوش کرے والے خطرناک حد تک ناقابِل اعتبار اعمال کے باوجود، پھر بھی اُن لوگوں کو انتہائی شان و شوکت اور تقریب کے ساتھ ویسٹ منسٹر میں خانقاہ سے ملحق گرجہ گھر میں دفنایا گیا۔

یسوع، بِلا شُبہ، تمام ہستیوں میں سب سے عظیم تھا۔ جی ہاں، وہ تھا اور ہے ایک ایسا انسان، ’’ یسوع مسیح جو انسان ہے‘‘ (1۔تیموتاؤس 2:5). اُس کی عظمت اس حقیقت میں پنہاں نظر آتی ہے کہ اُس نے اپنی زندگی جانتے بوجھتے ہوئے خُدا باپ کی نظروں میں ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے قربان کر دی۔ اپنے مصلوب ہونے سے کچھ دیر پہلے یسوع نے کہا،

’’اس سے زیادہ محبت کوئی نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لیے قربان کر دے‘‘ (یوحنا 15:13).

اُس کا تخت ایک بوسیدہ صلیب بن گئی،
   اُس کی بادشاہی صرف دلوں میں تھی؛
اُس نے اپنا پیار گہرے لال رنگ سے لکھا تھا،
     اور اپنے سر پر کانٹوں کا تاج پہنا تھا۔

اور اب، میرے دوستوں، آپ اُس یسوع کے ساتھ کیا کرو گے جو مسیح کہلاتا ہے؟ جیسا کہ سی. ایس. لوئیس نے لکھا ہے، اس کی دو ممکن وجوہات ہیں – آپ اُس کے منہ پر تھوک سکتے ہیں اور اُسے ایک شیطان کے طور پر قتل کرسکتے ہیں؛ یا آپ اُس کے قدموں میں گر کر اُسے خُداوند اور خُدا کہہ سکتے ہیں۔‘‘ آپ کے لیے اِن میں سے کونسا ہوگا؟ تیسرا انتخاب صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اُس کو مکمل طور پر نظر انداز کردیں، اور اپنی زندگی میں بڑھتے جائیں جیسے اُس کے تکلیف اور مصائب کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ مجھے اُن کے لیے انتہائی دُکھ محسوس ہوتا ہے جو نجات دہندہ کے ساتھ اس قدر رسوائی کا سلوک کرتے ہیں۔ میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ اُن میں سے ایک نہ ہوں۔ یہ وہ ہیں جن کے بارے میں ٹی. ایس. ایلیٹ نے کہا ’’کُھوکھلے آدمی‘‘ – ایسے انسان جوصرف لمحاتی تسکین کے لیے جیئے۔ جی ہاں، میں دعا کرتا ہوں کہ آپ اُن میں سے ایک نہ ہوں، کیونکہ اُن کے لیے جہنم میں جگہ اٹل ہے۔

اس سے پہلے کہ میں گتسمنی بھول جاؤں؛
   اس سے پہلے کہ میں اُس کی کرب و اذیت کو بھول جاؤں؛
اس سے پہلے کہ میں میرے لیے اُس کا پیار بھول جاؤں،
   مجھے کلوری کی راہ دکھا دے۔
(’’ مجھے کلوری کی راہ دکھا دے‘‘ شاعر جینی ای. ہیوزے، 1874۔1958).

میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ یسوع کے پاس آئیں، اُس پر اپنے تمام دل کے ساتھ بھروسہ کریں، اور سچی مسیحی تبدیلی میں موت سے گزر کر زندگی میں داخل ہوں۔ آمین

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ اشعیا 53:1۔9 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
’’ مجھے کلوری کی راہ دکھا دے‘‘ ( شاعر جینی ای. ہیوزے، 1874۔1958).

لُبِ لُباب

THE PARADOX OF CHRIST’S BURIAL
(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 10 )
(SERMON NUMBER 10 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’اور وہ شریروں کے درمیان دفنایا گیا، لیکن ایسی قبر میں رکھا گیا جو کسی دولت مند کے لیے بنائی گئی تھی؛ حالانکہ اُس نے کبھی ظلم نہ کیا، نہ ہی اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی‘‘ (اشعیا 53:9).

(1۔ کرنتھیوں 15:3۔4؛ یوحنا 17:3؛ رومیوں6:4)

1۔ اوّل، یسوع کی تدفین کی متضاد منظق، اشعیا 53:9الف؛ یوحنا 19:31؛
متی 27:60 .

2۔ دوئم، متضاد منطق کی وضاحت سمجھائی گئی، اشعیا 53:9ب؛ 1 پطرس 2:22؛
1تیموتاؤس 2:5؛ یوحنا 15:13 .