Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

برّے کی خاموشی

THE SILENCE OF THE LAMB
(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 8 )
(SERMON NUMBER 8 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
31 جولائی، 2011 ، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, July 31, 2011

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا؛ وہ برّہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے خاموش رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

مسیحی شہیدوں کے آخری الفاظ سُننا ہمیشہ سے متاثر کُن رہا ہے۔ اُنکے مرتے وقت کے آخری الفاظ سُن کر دلوں کو حوصلہ ملتا ہے۔ دوسری صدی کی ابتدا میں پولی کارپ ایک مبلغ تھا۔ انگریزی میں اُس کا نام پولی کارپ ہے، لاطینی میں اُسے پولی کارپُس کہتے ہیں۔ پولی کارپ یوحنا رسول کا شاگرد ہوا کرتا تھا۔ کئی سالوں بعد وہ ایک خُدا کو نا ماننے والے منصف کے سامنے کھڑا تھا، جس نے کہا، ’’تم ایک بوڑھے آدمی ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ تم مرو. . . حلف اُٹھا لو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ اِس میں کیا حرج ہے اگر تم ’خُداوند قیصر ‘ کہو ، اور لُوبان چڑھاؤ؟ تمہیں اور کُچھ نہیں کرنا بس صرف قیصر کی قسم اُٹھانی ہے اور میں تمہیں بخُوشی آزاد کردوں گا۔ مسیح سے منکر ہو جاؤ تو تم زندہ رہو گے۔‘‘

پولی کارپُس نے جواب دیا، ’’چھیاسی سالوں تک میں نے [مسیح] کی خدمت کی، اور اُس نے کبھی بھی مجھ سے بُرا نہیں کیا۔ میں کس طرح اپنے بادشاہ کو بُرا بھلا [گالی] کہوں جس نے مجھے بچایا؟’’ منصف نے کہا، ’’میں تمہیں آگ میں ہڑپ [جلا]کرواسکتا ہوں۔‘‘ پُولی کارپُس نے جواب دیا، ’’جس آگ کی تم دھمکی دے رہے ہو محض ایک گھنٹے تک جلتی ہے اور پھر اُس کی پیاس بُجھ جاتی ہے۔ کیا تم آنے والے فیصلے کی آگ اور نافرمان[گمشدہ] پر موجود ابدی سزا کے بارے میں نہیں جانتے؟ لیکن تم تاخیر کیوں کر رہے ہو؟ چلو، جو کچھ تم کر سکتے ہو ، کرو۔‘‘

اِس پر منصف نے اپنا ایک پیغام رسان کھیلوں کے لیے مخصوص میدان[ایرینا] میں لوگوں کو باآوازِ بُلند اِعلان کرنے کے لیے بھیجا، ’’پُولی کارپ نے اپنے مسیحی ہونے کا اقرار کیا ہے!‘‘ ’’اِسے زندہ جلا دو!‘‘ کافروں [خُدا کو نا ماننے والے لوگوں] کے ہجوم نے چیخ کر کہا۔ ایک آلاؤ تیار کیا گیا۔ جلاد پُولی کارپ تک اُس کو کھمبے پر باندھنے کے لیے پہنچا۔ پُولی کارپ نے سکون سے کہا، ’’مجھے باندھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جو مجھے آگ کو برداشت کرنے کی ہمت دیتا ہے وہی مجھے چِتا پر ساکن رہنے میں مدد دے گا، بغیر اُس ضمانت کے جو آپ کی خواہش کے مطابق کیلوں سے ہوگی۔

پحر پُولی کارپ نے دُعّا میں اپنی آواز بُلند کی، اور خُداوند کی حمد وستائش کرنے لگاکہ’’ اُس کے خیال میں وہ مرنے کے لائق‘‘ تھا۔ جب اُس کا جسم شعلوں میں نہیں جُھلسا، تو ایک جلاد نے اُسے خنجر گھونپ دیا۔ اور یوں سُمرنہ کے پادری اور یوحنا رسول کے شاگرد، پولی کارپ کی زندگی کا اختتام ہوا۔ (دیکھیئے جیمس سی. حیفلے، ایمان کے ہیروز Heroes of the Faith، موڈی اشاعت خانہ، 1963، صفحات 12۔14).

’’ہماری عظیم بپتسمہ دینے والی شہید جین بوژیئر Jane Bouchier جب وہ کرئمر اور رِیڈلی کے سامنے لائی گئی تھی. . . ،‘‘ کے بارے میں سپرجئین کہتے ہیں کہ انگلستان کے گرجہ گھروں کے دو اُسقف، جنہوں نے اِس بپتسمہ دینے والی کو زندہ جلا دینے کی سزا یہ کہہ کر سُنائی تھی کہ آگ کے ذریعے جل کر مرنا ایک آسان موت تھی۔ تو اُس نے اُن سے کہا تھا، ’’میں یسوع کی اتنی ہی سچی خادم ہوں جتنا تم میں سے کوئی ہو سکتا ہے؛ اور اگر تم اپنی اس لاچار بہن کو موت کے حوالے کر رہے ہو، تو اپنی حفاظت [احتیاط] کرنا، کہیں خُداوند تم پر روم کے بھیڑئیے نہ چھوڑ دے، اور تمہیں بھی کہیں خُداوند کے لیے مصائب نہ برداشت کرنے پڑ جائیں۔‘‘ وہ کس قدر سچی تھی، کیونکہ اُس کے کچھ عرصے کے بعد ہی یہ دونوں آدمی شہید کر دیے گئے تھے! (دیکھیئے سی. ایچ. سپرجیئن، ’’آل سفیشی اینسی میگنیفائیڈ All-Sufficiency Magnified،‘‘ نئے پارک سٹریٹ کے خُطبہ گاہ سے The New Park Street Pulpit ، جلد ششم، صفحات 481۔482).

پولی کارپ اور جین بوژیئر Jane Bouchier کے درمیان بے شک دو صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن اُنہوں نے جب اُنہیں آ گ میں زندہ جلایا گیا تھا، ایمان کے انتہائی مضبوط بیانات دیئے تھے ۔ پھر بھی خُدواند یسوع مسیح نے ایسا کچھ نہیں کیا جب اُسے اذیت اور موت کی دھمکیاں دی گئی تھیں! جی ہاں، اُس نے سردار کاہن سے بات کی تھی۔ جی ہاں، اُس نے رومی گورنر پینطُس پیلاطُس سے بات کی تھی۔ لیکن جب یسوع کا کوڑے کھا کر ادھ مرے ہونے اور صلیب پر کیلوں سے ٹُھکنے کا وقت آیا، تو اشعیا نبی کے الفاظ یہ حیرت ناک حقیقت بیان کرتے ہیں کہ وہ [یسوع] خاموش تھا!

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا؛ وہ برّہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے خاموش رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

جب وہ یسوع کو مار رہے تھے اُس نے ایک لفظ نہیں کہا! جب وہ یسوع کو صلیب پر کیلوں سے جڑ رہے تھے اُس نے ایک لفظ نہیں کہا! آئیے ہم اپنی تلاوتِ کلام پاک پر توجہ دیں اور یہ تین سوال پوچھ کر اور اُن کے جواب دے کر گہرائی کے ساتھ اس سے مستفید ہوں۔

1۔ اوّل، یسوع نامی یہ شخص کون تھا؟

وہ کون تھا جس کے بارے میں نبی نے کہا،

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا. . . ؟
       (اشعیا 53:7).

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ وہ جلال کا بادشاہ تھا، مقدس تثلیث کی دوسری ہستی، انسانی شکل میں خُدا بیٹا! ہمیں کبھی بھی یسوع کے بارے میں محض ایک انسانی اُستاد کی حیثیت سے نہیں سوچنا چاہیے یا محض ایک نبی کی حیثیت سے! یسوع نے اِن اصطلاحات میں سوچنے کے لیے ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں چھوڑی، کیونکہ اُس نے کہا،

’’میں اور میرا باپ ایک ہیں‘‘ (یوحنا 10:30).

دوبارہ، یسوع نے کہا،

’’قیامت اور زندگی میں ہوں، جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے ، وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا‘‘ (یوحنا 11:25).

اگر کسی اور شخص نے ایسی باتیں کی ہوتی تو ہم اُسے بدروحوں سے گِھرا ہوا، آسیب زدہ، بدحواس، دیوانہ، پاگل کہتے! لیکن جب یسوع نے کہا کہ وہ اور اُس کا باپ ایک ہیں، اور جب اُس نے کہا، ’’قیامت اور زندگی میں ہوں،‘‘ اور اسی قسم کے اور الفاظ، تو ہم تھم جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہم میں سے بدترین بھی، حیران ہوگا کہ اگر وہ [یسوع] اس تمام کے بعد بھی دُرست نہ ہوا تو!

حالانکہ میں سی. ایس. لوئیس C. S. Lewis کے ساتھ دوسرے نقاط پر ہمیشہ متفق نہیں ہوتا، لیکن ہم کیسے یسوع مسیح کے بارے میں اِس مشہور بیان سے متفق نہیں ہو سکتے؟ سی. ایس. لوئیس نے کہا،

میں یہاں کسی کو درحقیقت یہ احمقانہ بات کہنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں جو لوگ اکثر اُس [یسوع] کے بارے میں کہتے ہیں: ’’میں یسوع کو ایک عظیم اخلاقی اُستاد قبول کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن میں اُس [یسوع] کا خُدا ہونے کا دعویٰ قبول نہیں کرتا۔‘‘ یہی ایک وہ بات ہے جو ہمیں نہیں کہنی چاہیے۔ ایک آدمی جو محض ایک آدمی تھا اور اِس قسم کی باتیں کہتا تھاجو یسوع نے کہیں ایک عظیم اخلاقی اُستاد نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ یا تو جنونی ہوگا – اُس انسان کی سطح پر جو یہ کہتا ہے کہ وہ پانی میں پکا ہوا ایک انڈا ہے – یا پھر وہ جہنم کا شیطان ہوگا۔ آپ کو اپنا انتخاب کرنا ضروری ہے۔ یا تو یہ شخص خُدا کا بیٹا تھا، اور ہے، یا پھر ایک پاگل آدمی یا کُچھ اُس سے بھی بُرا۔ آپ اُسے ایک بے وقوف سمجھ کر چُپ کرا سکتے ہیں، آپ اُس [یسوع] پر تھوک سکتے ہیں اور اُسے [یسوع] آسیب زدہ سمجھ کر قتل کر سکتے ہیں؛ یا آپ اُس [یسوع] کے قدموں میں گِر سکتے ہیں اور اُسے خُداوند یا خُدا کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اُس [یسوع] کے عظیم انسانی اُستاد ہونے کی کسی بےکار متکبرانہ بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اُس نے اِس کا موقع ہمیں نہیں دیا۔ یسوع یہ چاہتا ہی نہیں تھا (سی. ایس. لوئیس، پی ایچ. ڈی. ، محض مسیحیت Mere Christianity، ہارپر کولنز، 2001، صفحہ 52).

’’آپ اُس [یسوع] پر تھوک سکتے ہیں اور اُسے بدروح سمجھ کر قتل کر سکتے ہیں؛ یا آپ اُس کے قدموں میں گر سکتے ہیں اور اُسے خُدا یا خُداوند کہہ سکتے ہیں. . . آپ کو ضرور اپنا انتخاب چُننا ہے۔‘‘

یسوع نے کہا،

’’راہ حق اور زندگی میں ہوں: میرے وسیلے کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا 14:6).

لیجیئے آپ نے پا لیا! آپ یسوع کو بُدھ مت یا ہندو اِزم یا اسلام کے ساتھ نہیں ملا سکتے کیونکہ یسوع ’’نے اِس کا موقع ہمیں نہیں دیا۔ یسوع یہ چاہتا ہی نہیں تھا۔‘‘ یسوع نے ہمارے پاس اور کوئی دوسرا انتخاب چھوڑا ہی نہیں۔ اُس نے کہا، ’’میرے وسیلے کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا۔‘‘ جیسا کہ سی. ایس. لوئیس نے کہا، ’’آپ اُس [یسوع] کے منہ پر تھوک سکتے ہیں اور اُسے قتل کر سکتے ہیں . . . یا آپ اُس [یسوع] کے قدموں میں گِر سکتے ہیں اور اُس [یسوع] کو خُداوند اور خُدا کہہ سکتے ہیں. . . آپ کو ضرور اپنا انتخاب کرنا ہے۔‘‘یا یہ ہے یا وہ ہے۔ کوئی بھی حقیقت میں اس مسئلے پر غیر جانبدار نہیں ہے! وہ شاید دکھاوا کر تے ہیں، لیکن وہ حقیقتاً ایسے نہیں ہیں۔

2۔ دوئم، کیوں یہ آدمی یسوع، اُن لوگوں کے سامنے جنہوں نے اُسے اذیت دی اور قتل کیا اپنے آپ کا دفاع کرنے میں ناکام رہا تھا؟

یہ ایسا کیوں ہے

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا. . . ؟
       (اشعیا 53:7).

عظیم سائنسدان البرٹ آئینسٹائین، بے شک وہ ایک مسیحی نہیں تھا، نے کہا،

کوئی بھی یسوع کی حقیقی موجودگی کو محسوس کیے بغیر [چاروں] اناجیل نہیں پڑھ سکتا۔ یسوع کی شخصیت ہر لفظ میں دھڑکتی ہے۔ کوئی بھی طلسماتی [دیومالائی] کہانی اس قدر زندگی سے بھرپور نہیں ہے۔ (البرٹ آئینسٹائین، پی ایچ. ڈی. ، ہفتے کی شام کی ڈاک The Saturday Evening Post ، 26 اکتوبر، 1929).

پھر بھی جب اُس پر کوڑے برسائے گئے اور اُس کو مصلوب کیا گیا اُس نے کچھ نہیں کہا! کیوں مسیح اُن لوگوں کے سامنے جنہوں نے اُسے پیٹا اور قتل کیا تھا اپنے آپ کا دفاع کرنے میں ناکام رہا تھا؟ فرانسیسی فلسفہ دان روساؤ Rousseau اُس سوال کے جواب کے نزدیک پہنچ گیا تھا جب اُس نے کہا،

اگر سُقراط ایک فلسفی کی طرح جیا اور مرا تھا، یسوع ایک خُدا کی طرح جیا اور مرا تھا (جین جیکُس روساؤ، فراسیسی فلسفہ دان، 1712۔1778).

یسوع نے اپنے آپ کا دفاع نہیں کیا تھا کیونکہ زمین پر آنے کا اُس کا اصل مقصد مصائب برداشت کرنا اور صلیب پر مرنا تھا۔ مصلوب ہونے سے ایک سال قبل یسوع نے اس بات کو واضح کر دیا تھا۔

’’اُس کے بعد یسوع نے اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ اُس کا یروشلم جانا لازمی ہے تاکہ وہ بزرگوں، سردار کاہنوں اور شریعت کے عالموں کے ہاتھوں بہت دُکھ اُٹھائے، قتل کیا جائے اور تیسرے دِن جی اُٹھے‘‘ (متی 16:21).

نافذ العمل نئے عہد نامے پر تبصرہ The Applied New Testament Commentary کہتا ہے،

پطرس نے صرف اس بات کا اقرار کیا تھا کہ یسوع مسیح یعنی مسیحا تھا، زندہ خُداکا بیٹا [مرقس 8:29]۔ لیکن پطرس ابھی تک یہ نہیں جانتا تھا کہ مسیح زمین پر کیا کرنے آیا تھا۔ اُس نے ایسے ہی سوچا جیسا دوسرے یہودی سوچتے تھے، جیسے کہ، مسیح ایک زمینی بادشاہ بننے آیا تھا۔ اس لیے، جب یسوع نے اُسے بتایا کہ [اُس کا] بے شمار مصائب اُٹھانا ضروری ہے اور . . . قتل کیا جانا، پطرس اس کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔ اُس نے یسوع سے اس قسم کی باتیں کرنے پر اعتراض کیا تھا۔ یسوع نے یہ بھی کہا تھا کہ تین دِن کے بعد [وہ] دوبارہ جی اُٹھے گا۔ یسوع جانتا تھا کہ وہ نا صرف مرے گا، بلکہ وہ تیسرے دِن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ شاگرد اس بات کو قطعاً سمجھ نہیں سکے تھے (تھامس ہیل، نافذ العمل نئے عہد نامے پر تبصرہ The Applied New Testament Commentary، کنگز وے اشاعت خانہ، 1996، صفحات 260 ۔ 261).

لیکن ہمیں اِسے سمجھنا چاہیے۔

یسوع مسیح اِس دُنیا میں گنہگاروں کو بچانے آیا تھا‘‘ (1۔ تیموتاؤس 1:15)

ہمیں جو زندگی ملتی ہے، وہ اُس کے صلیب پر ہمارے گناہوں کی موت مرنے، اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سےملتی ہے۔ یسوع بالکل نہیں بولا تھا اور اپنے خود کا دفاع نہیں کیا تھا جب اُس کو کوڑے مارے گئے تھے اور اُسے مصلوب کیا گیا تھا کیونکہ، جیسا اُس نے حکمران پیلاطُوس کو کہا تھا، ’’ دراصل میں اس لیے پیدا ہوا اور اس مقصد سے اس دنیا میں آیا‘‘ (یوحنا 18:37).

3۔ سوئم، یسوع کے خاموش مصائب کے بارے میں کلامِ پاک ہمیں کیا بتاتا ہے ؟

برائے مہربانی کھڑے ہو جائیے اور با آوازِ بُلند اشعیا 53:7 ایک بار پھر پڑھیئے۔

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا؛ وہ برّہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے خاموش رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ ’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہوا تھا۔‘‘ ڈاکٹر ینگ کہتے ہیں کہ اس کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے، ’’یسوع نے خود کو ستائے جانے کی[اجازت دی]۔‘‘ ’’ستائے جانے میں وہ رضاکارانہ طور پر مصائب برداشت کر رہا تھا. . . اُس کے منہ سے کوئی احتجاج یا اپنے لیے دفاع جاری نہیں ہوا تھا۔ کوئی اس [پیشنگوئی] کے پورا ہونے کے بارے میں سوچے بغیر نہیں پڑھ سکتا، جب پیلاطُس کی عدالت کے سامنے حقیقی خادم نے ایک لفظ کا جواب بھی نہیں دیا تھا۔ ’جب یسوع کو بدنام کیا گیا، دوبارہ بدنام نہیں کیا گیا‘ [جب اُس نے مصائب برداشت کیے اُس نے دھمکی نہیں دی]‘‘ (ایڈورڈ جے. ینگ، پی ایچ. ڈی.، اشعیا کی کتاب The Book of Isaiah، عئیرڈ مینز، 1972، جلد 3، صفحات 348۔349).

’’اِس پر پیلاطُس نے اُس سے کہا، دیکھ! یہ تیرے خلاف کیا کہہ رہے ہیں، کیا تو سُن نہیں رہا؟ لیکن یسوع نے جواب میں ایک لفظ بھی نہ کہااور پیلاطُس کو بڑا تعجب ہوا‘‘ (متی 27:13۔14).

’’سردار کاہن اُس پر طرح طرح کے الزام لگانے لگے۔ لہٰذا پیلاطُس نے اُس سے دوبارہ پوچھا اور کہا: کیا تیرے پاس کوئی جواب نہیں؟ یہ تجھ پر کتنی باتوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی یسوع نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور پیلاطُس کو بڑا تعجب ہوا‘‘ (مرقس 15:3۔5).

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا؛ وہ برّہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے خاموش رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

اشعیا 53:7 میں مسیح کا موازنہ ایک برّے سے کیا گیا ہے۔ پرانے عہد نامے میں، لوگ خُدا کی حُضوری میں قربانی چڑھانے کے لیے بھیڑیں لا کر ذبح کرتے تھے۔ قربانی چڑھانے کے لیے وہ بھیڑ کو تمام اُون اُتار کر اُس کے بال کُتر کر تیار کرتے تھے۔ جب بھیڑ کے بال کُترےجاتے تھے تو وہ خاموش رہتی تھی۔ جیسا کہ قربانی کی بھیڑ خاموش تھی جب اُس کے بال کُترے گئے اور ذبح کیا گیا، ’’اسی طرح اُس نے بھی اپنا منہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

یوحنا بپتسمہ دینے والا بھی یسوع کا موازنہ ایک قربانی دینے والی بھیڑ سے کرتا ہے جب اُس نے کہا تھا،

’’یہ خُدا کا برّہ ہے جو دنیا کے گناہ اُٹھا لے جاتا ہے‘‘ (یوحنا1:29).

جب آپ یسوع کے پاس ایمان کے ساتھ آتے ہیں، صلیب پر اُس کی قربانی آپ کے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کر دیتی ہے، اور آپ خُدا کی حضوری میں بغیر کسی خطا کے کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کی خطا یسوع کی صلیب پر موت سے مٹ جاتی ہے۔

امریکی انڈینز کے مشہور مشنری ڈیوڈ برینئرڈ، اپنی منادی کے دوران اِس سچائی کا دعویٰ کرتے رہے تھے۔ جیسا کہ وہ امریکی انڈینز کو تبلیغ دیتے تھے، اُنہوں نے کہا، ’’میں کبھی یسوع سے دور نہیں ہوا اور اُسے مصلوب ہونے دیا۔ میں نے پایا کہ ایک دفعہ اپنے طور پر اِن لوگوں کو عظیم . . . مسیح کی قربانی کے مطلب میں جکڑ لوں، تو مجھے اُن کے برتاؤ میں تبدیلی لانے کے بارے میں زیادہ ہدایات دینی نہیں پڑیں گی‘‘ (پال لی ٹَین، ٹی ایچ. ڈی.، 7,700 مثالوں کا انسائیکلوپیڈیا Encyclopedia of 7,700 Illustrations، ایشورنس پبلشرز، 1979، صفحہ 238).

میں جانتا ہوں کہ آج بھی یہ دُرست ہے۔ ایک دفعہ آپ جان لیں کہ

’’کتابِ مقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قربان ہوا‘‘
       (1۔کرنتھیوں 15:3)،

اور ایک دفعہ آپ ایمان کےساتھ اُس مصلوب اور جی اُٹھے نجات دہندہ کی گرفت میں آجائیں ، تو آپ ایک مسیحی ہیں۔ باقی تمام نسبتاً سمجھنا اور بیان کرنا آسان ہے۔ ایمان کے ساتھ مسیح کی گرفت میں آئیں اور آپ بچائے جاتے ہیں!

جیسے وہ مرنے کے لیے لیٹا تھا، سپرجئین نے کہا، ’’ میرا علمِ الہٰیات چار چھوٹے لفظوں میں پایا جاتا ہے – ’یسوع میرے لیے مرا۔‘ میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ وہ تمام ہے جو میں تبلیغ کروں گا اگر میں دوبارہ اُٹھایا جاتا ہوں، لیکن اُس پر مرنے کے لیے یہ بہت کافی ہے۔ ’یسوع میرے لیے مرا۔‘ (ٹَین، ibid.). کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا آپ آج صبح اُٹھائے گئے نجات دہندہ کے پاس آئیں گے اور اُس پر بھروسہ کریں گے؟ کیا آپ کہیں گے، ’’یسوع میرے لیے مرا، اور میں اُس کے پاس اُس کے خُون اور راستبازی کے ذریعے سے مکمل نجات کے لیے آتا ہوں ‘‘؟ خُدا آپ کو ایسا کرنے کےلیے صرف ایمان عطا کرے۔ آمین۔

مہربانی سے کھڑے ہو جائیے اور اپنے گیتوں کے ورق میں سے حمد نمبر سات گائیے، ’’اور کیا یہ ہوسکتا ہے؟‘‘ شاعر چارلس ویزلی۔

اور کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں حاصل کرلوں
   نجات دہندہ کے خُون میں ذرا سی دلچسپی؟
وہ مرا میرے لیے، جو اُس کے درد کا سبب بنا؟
   میرے لیے، وہ جس کا تعاقب موت نے کیا؟
حیران کُن پیار! یہ کیسے ہو سکتا ہے،
   کہ تُو ، میرے خُدا، میرے لیے مرا؟
(’’اور کیا یہ ہو سکتا ہے؟‘‘ شاعر چارلس ویزلی، 1707۔1788).

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دُعّا کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَینDr. Kreighton L. Chan ۔ اشعیا 52:13۔ 53:7 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
(’’ایک کانٹوں کا تاج‘‘ شاعر عِرہ ایف. سٹین فیلڈ 1914۔1993).

لُبِ لُباب

برّے کی خاموشی

THE SILENCE OF THE LAMB
(اشعیا 53 باب پر واعظ نمبر 8 )
(SERMON NUMBER 8 ON ISAIAH 53)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’وہ ستایا گیا اور زخمی ہُوا، پھر بھی اُس نے اپنا مُنہ نہ کھولا؛ وہ برہ کی طرح ذبح ہونے گیا، جس طرح ایک بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے خاموش رہتی ہے، اسی طرح اُس نے بھی اپنا مُنہ نہ کھولا‘‘ (اشعیا 53:7).

1۔ اوّل، یسوع نامی یہ شخص کون تھا؟ یوحنا 10:30؛ 11:25؛ 14:6 .

2۔ دوئم، کیوں یہ آدمی یسوع، اُن لوگوں کے سامنے جنہوں نے اُسے اذیت دی اور قتل کیا اپنے آپ کا دفاع کرنے میں ناکام رہا تھا؟
متی 16:21؛ 1۔تیموتاؤس 1:15؛ یوحنا 18:37 .

3۔ سوئم، یسوع کے خاموش مصائب کے بارے میں کلامِ پاک ہمیں کیا بتاتا ہے ؟
متی 27:13۔14؛ مرقس 15:3۔5؛ یوحنا1:29؛ 1۔کرنتھیوں 15:3 .