Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


یہ آوارہ گرد نسل

THIS WANDERING GENERATION
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خداوند کے دِن کی شام، 5 جون، 2011
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, June 5, 2011

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا۔ کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

میں اِس واعظ کی کئی مرتبہ ہمارے گرجا گھر میں منادی کر چکا ہوں۔ میرے اب تک تبلیغ کیے جانے والے واعظوں میں سے میں ’’اِس آوارہ گرد نسل‘‘ کو سب سے اہم ترین واعظوں میں سے ایک سمجھتا ہوں، اور میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آج کی شام اِس کو بھرپور احتیاط کے ساتھ کریں۔

تلاوت کہتی ہے،

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا…‘‘ (دانی ایل12:4)۔

اِس آیت کے تمام معنوں کو اُس وقت تک مکمل طو رپر سمجھا نہیں جا سکتا جب تک ’’زمانے کا آخر‘‘نہیں ہو جاتا۔ یہ جب تک زمانے کا آخر نہیں ہو جاتا اُس وقت تک کے لیے ’’بند‘‘ یا خُفیہ رہے گا۔ غور کریں کہ خود دانی ایل بھی مکمل طور پر اُس پیشن گوئی کو سمجھ نہیں پایا تھا جو اُس پر منکشف کی گئی تھی:

’’اور میں نے یہ سُنا لیکن سمجھ نہ پایا: تب میں نے پوچھا، میرے خُداوند اِن سب کا اِنجام کیا ہوگا؟ اور اُس نے کہا، اے دانی ایل تو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخر زمانہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہیں اور اِن پر مہر لگا دی گئی ہے‘‘ (دانی ایل12:8۔9)۔

صرف بیسویں صدی ہی میں اِن الفاظ کے انبیانہ معنوں کی سمجھ آنی شروع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ڈبلیو اے۔ کرسویل Dr. W. A. Criswell نے کہا کہ دانی ایل 12:4 ہمیں’’آخری ایام کے لیے حیرت انگیز حرکت پزیری اور عمل و شعور کا یادگار اضافہ ہونے کی پیشن گوئی کے بارے میں بتاتی ہے‘‘ (کرسویل مطالعہ بائبل Criswell Study Bible، دانی 12:4 پر غور طلب بات)۔

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا۔ کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

قرونِ وسطی میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے آج کل لوگ بائبل کی پیشن گوئیوں میں نہایت دلچسپی رکھتے ہیں۔ آبادی میں اِضافے اور ماحولیاتی مسائل، اور بہت بڑے بڑے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل جس کا نسل اِنسانی کو سامنا ہے اُس کے سبب سے بھی بے شمار لوگوں نے جواب پانے کے لیے بائبل کی پیشن گوئیوں کی جانب رُخ کیا۔ لوگ اکثر پوچھتے ہیں، ’’کیا بائبل اُن واقعات کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات کہتی ہے جن کے بارے میں اخبارات میں پڑھتا ہوں؟ مجھے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اگر میں بائبل کا یقین نہ کرتا توجو کچھ دُنیا میں رونما ہو رہا ہے اُس سے میں نہایت خوفزدہ ہوتا اور حوصلہ ہار چکا ہوتا۔ بائبل کیا کہتی ہے؟

I۔ پہلی بات، بائبل بے شمار علامات پیش کرتی ہے کہ ہم اب ’’زمانے کے آخر‘‘ میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جس کے بارے میں دانی ایل 12:4 میں پیشن گوئی کی گئی ہے۔

ہماری تلاوت کہتی ہے،

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا…‘‘ (دانی ایل12:4)۔

میں یقین کرتا ہوں کہ ہم اب اُسی زمانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ’’وہ زمانے کا آخر۔‘‘ ہر علامت نشاندہی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ہم دُنیا کے خاتمہ کے انتہائی نزدیک زندگی بسر کررہے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔

پہلے، ماحولیاتی علامتیں ہیں کہ خاتمہ قریب ہی ہے۔ یسوع نے پیشن گوئی کی تھی

’’جگہ جگہ بڑے بڑے بھونچال آئیں گے… آسمان پر عظیم نشانات ظاہر ہوں گے… سورج، چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے اور زمین پر قوموں کو اذیت پہنچے گی کیونکہ سمندر اور اُس کی لہروں کا زور و شور اُنہیں خوفزدہ کر دے گا۔ ڈر کے مارے اور آنے والی مصیبتوں کا انتظار کرتے کرتے اُن کے ہوش و حواس باقی نہ رہیں گے، اِس لیے کہ آسمان کی قوتیں ہِلا دی جائیں گے‘‘ (لوقا21:11، 25۔26)۔

یسوع نے کہا کہ لوگوں کے ہوش و حواس اُڑ جائیں گے جب وہ دیکھیں گے کہ ’’زمین پر‘‘ کیا رونما ہو رہا ہے۔ اُس نے کہا کہ نسل انسان کا ماحولیات مسائل کے ساتھ سامنا کرنے کی وجہ سے شدید خوف پھیلا ہوا ہوگا!

دوسری بات، مسیح نے کہا نسلیاتی اختلافات ایک علامت ہوگی کہ خاتمہ نزدیک ہے۔

’’ایک قوم [’ethnos‘ یا ’تہذیبی گروہ‘] دوسری قوم [تہذیبی گروہ] کے خلاف اور ایک سلطنت [’basilean‘ یا ’قومی گروہ‘] دوسری سلطنت [قومی گروہ] کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی‘‘ (لوقا21:10)۔

تہذیبی گروہ کے خلاف تہذیبی گروہ، قومی گروہ کے خلاف قومی گروہ – کیا یہی نہیں ہے جو ہم آج کل دیکھتے ہیں؟ ہماری تمام کی تمام انسانی حکمت، ٹیکنالوجی اور سانئس کے ساتھ ہم قوموں کے درمیان جنگوں اور نسلوں کے درمیان تہذیبی اِختلاف کو روکنے کے اہل ہوتے ہوئے دیکھائی نہیں دیتے!

تیسری بات، بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ زمانہ کے آخری میں قوموں کے لیے اسرائیل ایک بہت بڑا مسئلہ ہونگے۔ خُداوند نے کہا:

’’میں یروشلیم کو ساری قوموں کے لیے جنبش نہ کھانے والی چٹان بنا دُوں گا‘‘ (زکریاہ 12:3).

اِن ہی دِنوں میں سچے مسیحیوں کو اسرائیل کے لیے کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن بائبل پیشن گوئی کرتی ہے کہ دُنیا کی قومیں زمانہ کے آخر میں اسرائیل کے خلاف ہوں گی۔ اسرائیل پر تناؤ میں اضافہ ایک علامت ہے کہ ہم آخری زمانہ میں ہیں۔

چوتھی بات، بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ مسیحیوں کے خلاف اذیتوں میں اضافہ خاتمہ کی علامت ہے۔ یسوع نے کہا،

’’لیکن اِن سب باتوں کے ہونے سے پہلے تمہارے دشمن تمہیں محض میرے نام کی وجہ سے گرفتار کریں گے، ستائیں گے… قیدخانوں میں ڈلوائیں گے‘‘ (لوقا 21:12).

یہی سب کچھ اِس وقت عوامی جمہوریہ چین میں، سوڈان میں، انڈونیشیا میں، قرون وسطی میں، اور دُنیا کے بے شمار دوسرے حصوں میں رونما ہو رہا ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ مسیحیوں کی ہولناک ایذا رسانیاں، جو کہ اب عالمگیر سطح پر دیکھی جا سکتی ہیں، ایک علامت ہیں کہ خاتمہ قریب ہی ہے۔

پانچویں بات، یہاں مذہبی اِرتداد کی علامت ہے۔ بائبل کہتی ہے:

’’نہ ہی کسی طرح کسی کے فریب میں آنا کیونکہ وہ دِن نہیں آئے گا جب تک کہ لوگ پہلے ایمان سے برگشتہ [اِرتداد] نہ ہو جائیں … ‘‘ (2۔ تھسلنیکیوں 2:3).

یہاں تک کہ جب سینکڑوں ہزاروں لوگ چین میں، افریقہ اور دُنیا کے دوسرے حصوں میں گرجا گھروں میں اُمڈتے چلے آ رہے ہیں، وہیں پر، اس عرصے کے دوران، سچے مسیحیت سے ایک بہت بڑی برگشتگی، ایک بہت بڑا اِرتداد، یہاں مغربی دُنیا میں ہے۔ یہ بھی ایک علامت ظاہر ہوتی ہے کہ ہم دُنیا کے خاتمہ کے اور یسوع مسیح کی آمد ثانی کے انتہائی قریب زندگی بسر کر رہے ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔

تمام کی تمام بڑی بڑی علامتیں اپنی جگہ پر ہیں۔ بائبل کی پیشن گوئیاں سچی ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ میں قائل ہو چکا ہوں کہ ہم اِس وقت ’’زمانہ کے آخر میں‘‘ زندگی بسر کر رہے ہیں جس کے بارے میں دانی ایل12:4 میں بات کی گئی تھی۔

II۔ دوسری بات، تلاوت ہمیں بتاتی ہے کہ سفر اور تحقیق و تفتیش کا زمانے کے آخر میں اِضافہ ہو جائے گا۔

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا۔ کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

گذشتہ 150 سالوں میں انسانی تحقیق و تفتیش کے اِضافے نے انسانی حرکت پزیری اور سفر میں بہت زیادہ اِضافہ ممکن کیا ہے۔ دانی نبی نے ایک گھوڑا جتنا بھاگ سکتا ہے شاید زیادہ سے زیادہ 15 میل فی گھنٹہ کے مقابلے میں کبھی بھی اِتنا تیز سفر نہیں کیا ہوگا۔ اُس کی سب سے زیادہ عام رفتار اِتنی ہی تیز رفتار تھی جتنا کہ ایک آدمی تیز رفتاری سے پیدل چل سکتا تھا۔ دانی ایل کے زمانے میں کسی نے بھی 15 یا 20 میل فی گھنٹہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ کبھی بھی تیز رفتار سفر نہیں کیا تھا۔ لیکن بھاپ کے انجن برقی توانائی کی ایجاد کے ساتھ ہی، لوگوں نے سڑکوں اور دریاؤں کے ذریعے سے پہلی مرتبہ 20 سے 30 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا۔ پھر ہنری فورڈ نے انٹرنل کمبسیچن انجن کو مشہور کیا، اور بالاآخر 25، 35 اور یہاں تک کہ 70 میل فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ گیا۔ آج یہاں پر گاڑیاں ہیں جو 600 میل فی گھنٹہ تک سفر کر سکتی ہیں۔ ہوائی جہاز 2,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں اور خلائی جہاز 24,000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ آج ایک جیٹ ہوائی جہاز دُنیا کے اِردگرد 24 گھنٹوں میں اُڑ سکتا ہے۔ اور خلائی جہاز میں ایک شخص بس صرف 80 منٹوں میں دُنیا کے گرد سفر کر سکتا ہے۔ اور سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ریڈیو کا پیغام دُنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ سکتا ہے۔ وہ تو اب انسان کے مستقبل میں روشنی کی رفتار سے سفر کرنے یا ایک سیکنڈ میں دُنیا کے اِردگرد ½ 7 مرتبہ سفر کرنے کی ممکنات کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ یہ شاید رونما ہو جائے اگر کشش ثقل کے خلاف آلات کو کامل کر لیا جائے۔ اِس کے بارے میں سوچیں!

اپنی معیاری کتاب یسوع آ رہا ہے Jesus is Coming میں، ڈبلیو۔ ای۔ بلیک سٹون W. E. Blackstone نے یہ بات ماضی میں 1917 میں کہی تھی:

اب ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اُس [یسوع] کی آمد قریب ہے پر یقین کرنے کے لیے کیا ثبوت مہیا ہیں۔ اُن بے شمار وجوہات میں سے یہ یقین کرنے کے لیے کہ دُنیا کا خاتمہ قریب ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ قریب ہے، اُن وجوہات میں سے ہم درج ذیل سات وجوہات پیش کریں گے۔ پہلی وجہ، تحقیق و تفتیش اور سفر کا پھیلاؤ۔

یہ بات ماضی میں 1917 میں لکھی گئی تھی۔ پھر بلیک سٹون نے دانی ایل 12:4 کا حوالہ دیا۔ پھر اُس نے کہا،

حالیہ سالوں کا موجودہ سالوں کے ساتھ موازنہ، دونوں تحقیق و تفتیش اور سفر میں بہت زیادہ شاندار اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

وہ جاری رہتے ہوئے لکھتے ہیں،

انگلستان میں ایک عورت کے بارے میں ایک واقعہ بتایا جاتا ہے جس نے کافی غورو فکر کے بعد ایک سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوستوں نے اُس کی رخصتی پر اکٹھے ہو کر مدد کی۔ اور اُس کو خدا حافظ کہنے کے لیے ایک میل یا زیادہ کا پیدل سفر کیا، ایک بہت بڑا ہجوم اُس کو خدا حافظ کہنے کے لیے اکٹھا ہوا۔ اِس کے باوجود اُس کا کُل سفر صرف پچاس میل کا ہونا تھا۔

اور وہ تمام کے تمام اُس کو خُدا حافظ کہنے کے لیے آئے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اُس کو پھر کبھی دوبارہ نہیں دیکھ پائیں گے! وہ پچاس میل دور جا رہی تھی! اور اِس کے باوجود آج، اگر کشش ثقل کے مخالف دریافت کی جا سکے، انسان روشنی کی رفتار سے سفر کر رہا ہو گا – یا ایک سیکنڈ میں دُنیا کے اِردگرد ½ 7 مرتبہ سفر کر رہا ہوگا!

اور پھر بلیک سٹون نے یہ بات کہی:

کسی بھی ایجاد نے بھاپ اور بجلی کی شاندار قوتوں کو محلاتی بوگیوں کے ساتھ زمین اور سمندر میں زنجیریں نہیں پہنائیں، تاکہ کوئی بھی با آسانی اور آرام کے ساتھ 60 دِنوں میں دُنیا کے اِردگرد جا سکے۔

1917 کے ماضی میں یہ بات بلیک سٹون کے لیے حیرت انگیز لگتی ہو گی۔ اُس سے صرف چند ایک سال پہلے، جولز ورنے Jules Verne نے اپنا مشہور سائنس فکشن کا ناول اَسی دِنوں میں دُنیا کے اِردگرد Around the World in Eight Days لکھا تھا۔ اِس پر فلم بنائی گئی تھی آپ اِس کو اب بھی ٹیلی ویژن پر دیکھ سکتے ہیں جس میں ادکاری ڈیوڈ نائیون David Niven نے کی تھی۔ اور جب جولز ورنے نے وہ لکھا تھا، تو لوگوں نے ایک غبارے میں دُنیا کے اِردگرد 80 دِنوں میں سفر کرنے والے تصور کا مذاق اُڑایا تھا۔ آج، یہ بہت پرانے زمانے کی اور قدیم بات لگتی ہے کہ دُنیا کے اِردگرد 80 دِنوں میں جانے کے بارے میں بات کی جائے، کیونکہ اب یہ بات لوگوں کے لیے عام سی لگتی ہے کہ دُنیا کے اِردگرد 20 گھنٹوں میں سفر کر لیا جائے۔ اور خلائی جہاز میں تو ایک شخص اِس سے بھی بہت زیادہ تیزی کے ساتھ دُنیا کے گرد جا سکتا ہے!

ہماری تلاوت کہتی ہے،

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا۔ کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

یہ بات 20 صدی میں رونما ہوئی، میرے والدین اور دادا پردادا کی زندگی میں۔ جب میری دادی پیدا ہوئیں تھی تو کوئی گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں۔ انسان نے ابھی تک ہوائی جہاز ایجاد نہیں کیا تھا۔ میری دادی کو وہ پہلے دونوں لوگ یاد تھے جنہوں نے ہوائی جہاز میں پرواز کی تھی – رائٹ برادرز Wright Brothers۔ اور اِس کے باوجود وہ سیٹلائیٹ میں ایک شخص کو دُنیا کے اِردگرد مُدار میں دیکھنے کے لیے زندہ تھیں۔ یہ ایک ہی زندگی میں رونما ہوا تھا! سانئٹیفک تحقیق و تفتیش میں وہ تمام اِضافہ، اور رفتار اور سفر ایک علامت ہیں جیسا کہ ہم جانتے ہیں ہم دُنیا کے خاتمہ کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

ڈاکٹر ایم۔ آر۔ ڈیحان Dr. M. R. DeHaan نے اپنی کتاب زمانوں کی علامتیں The Signs of the Times میں یہ کہا:

دانی زمانے کے آخر کی دو علامتیں پیش کرتا ہے۔ وہ یہ ہیں: (1) بے شمار لوگ اِدھر اُدھر بھاگتے پھریں گے، اور (2) تحقیق و تفتیش میں اِضافہ ہوگا۔ میں اِن دونوں کو سفر کی علامت اور تعلیم کی علامت کہتا ہوں۔ خاتمہ کے زمانے کی خصوصیات سفر میں بے مثل اضافے اور اِس وقت تک کی تحقیق و تفتیش، تعلیم اور سائنس کی دریافتوں میں ناقابلِ تصور ترقی سے کی جائے گی۔ دانی کہتا ہے، ’’بے شمار لوگ اِدھر اُدھر دوڑیں گے۔‘‘ اُس نے پیشن گوئی کی تھی کہ یہ بے مثل مسافت کا ایک زمانہ ہوگا۔ دانی نبی کے الفاظ میں ایسے لفظوں کو پڑھنا جو 2,500 سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے لکھے گئے تعجب کا باعث ہیں۔ اِس کے باوجود یہ مکمل طور پر ہمارے جدید دور کی تشریح کرتے ہیں۔ دُنیا سُکڑ چکی ہے۔ یہ رفتار اور مسافت کا ایک زمانہ ہے۔ پہلے بھاپ اور پھر بجلی آئی۔ پہلے ٹرین آئی پھر ڈیزل کی گاڑیاں آئیں۔ یہ گاڑیاں، تیز بحری جہاز۔ ہوائی جہاز۔ اور اب جیٹ جہاز جس کے بعد سٹیلائٹ ہیں۔ ایک شخص کسی طور بھی اِن الفاظ کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتا، ’’بے شمار لوگ اِدھر اُدھر دوڑیں گے۔‘‘

لیکن آئیے دانی ایل کی اِس پیشن گوئی اور اِس کے پورے ہونے کی گہرائی میں چلیں، جو ہم آج کے زمانے کی دُنیا میں دیکھتے ہیں۔

III۔ تیسری بات، تلاوت ہمیں زمانے کے آخر میں نسل انسانی کی بے چینی کے بارے میں بتاتی ہے۔

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا۔ کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

خود سے پوچھیں، کیوں لوگ اِدھر اُدھر دوڑتے پھریں گے؟ کیوں آج اِس قدر زیادہ مسافت ہوتی ہے؟ میرے خیال میں ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ اِس طرف کھینچے چلے جا رہے ہیں، اُن کے دِلوں میں کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے جو اُنہیں اِس مسلسل سفر اور تبدیلی کے لیے تحریک دیتی ہے۔

یاد رکھیں جو قائین نے پیدائش کی کتاب میں کہا تھا:

’’آج تُو مجھے وطن سے نکال رہا ہے اور میں تیرے حُضور سے رُوپوش ہو جاؤں گا اور بے چین ہو کر رُوئے زمین پر مارا مارا پھرتا رہُوں گا‘‘ (پیدائش 4:14).

قائین سے ایک گناہ سرزد ہوا تھا۔ اُس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا۔ گناہ کے نتیجے کے طور پر اُس کو زمین پر ایک آوارہ گرد کی حیثیت سے پھرنے پر مجبور ہونا پڑا، مسلسل مسافت میں رہنا، کبھی بھی ایک جگہ پر ٹھہرنے سے مطمئن نہ ہونا۔

میں قائل ہو چکا ہوں کہ لوگوں کی آج کل اِدھر اُدھر پھرنے کی اہم وجہ یہ ہے کیونکہ اُنہیں گناہ سے تحریک ملتی ہے۔ وہ اہم وجہ کے لوگ امریکہ آتے ہیں گناہ کی وجہ سے ہے، طمع کا گناہ ہے۔ لوگ امریکہ میں اچھے مسیحی بننے کے لیے نہیں آتے! وہ یہاں پر لالچ کی وجہ سے آتے ہیں، طمع کی وجہ سے آتے ہیں، زیادہ پیسہ کمانے کے لیے آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ چین سے تبادلے والے طالب علموں کو حقیقی مسیحی بننا قطعی طور پر ناممکن ہوتا ہے۔ چین میں دور جدید کی تاریخ کا سب سے بڑا مسیحیت کا حیاتِ نو رونما ہو رہا ہے۔ لیکن جب وہ چینی طالب علم یہاں پر آتے ہیں تو اُن کی دلچسپی صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے میں ہوتی ہے۔ وہ ہفتہ وار تعطیلات میں لاس ویگاس بھاگنا چاہتے ہیں – پیسے کے لیے جؤا کھیلنے۔ وہ گرجا گھر آنے کے مقابلے میں کام پر جانا چاہتے ہیں – زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے۔ پیسہ اُن کا خُدا بن چکا ہے – بالکل جیسے یہ امریکیوں کا خُدا بن چکا ہے۔

ہسپانوی بولنے والے لوگ مسلسل مسافت میں ہیں، مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ اُن کے بچوں کو تباہ کر دیتا ہے اور یہ اُنہیں تباہ کر دیتا ہے۔ ایک ہی جگہ پر ٹھہریں! یہاں ہمارے ساتھ ٹھہریں!

اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر نے حقیقی مسیحیوں کے بارے میں بتایا جو کبھی ہمارے ہاں امریکہ میں ہوا کرتے تھے:

وہ تنومند بوڑھا مناد جس نے ایک ہی مُلک میں اپنی ساری زندگی گزار دی تھی جہاں وہ پیدا ہوا تھا مر چکا ہے اور ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے۔ وہ دورِ حاضرہ کے خانہ بدوش سے پہلے کے زمانے میں وجود رکھتا تھا… اُس کی بنیادی غلطی یہ تھی … اُس کو تبدیلی اور آرام کی ضرورت تھی… لیکن درازیِ عمر اور صحت کی اِن شاندار امداد کے بارے میں سُنا ہوا نہ ہونے کی وجہ سے، اُس نے اپنا دھیان چکّی پر لگائے رکھا، دس صحت مند بچوں کی پرورش کی، اپنے فارم پر خود کام کیا، اور مہینے میں ایک یا دو اچھی کتابیں بھی پڑھنے کا وقت نکالا… وہ اب بھی عینک کے بغیر سو گز کے فاصلے سے بلوط کے درخت پر موجود گلہری کا نشانہ لے سکتا تھا اور جب وہ ستاسی برس کی عمر کا تھا تو درجنوں مرتبہ خود کو بھاگ دوڑ میں لٹکائے رکھتا تھا۔ جب وہ بالاآخر فوت ہوا تو اُس کے خاندان اور حقیقی پڑوسیوں کے ایک ہجوم نے اُس پر خلوص کے ساتھ ماتم کیا جو اُس کے ساتھ ایک طویل مدت تک زندگی گزرانے کی وجہ سے اُس کی پُرخلوص قیمت کو سراہانا سیکھ چکے تھے۔ کیسے کوئی دعویٰ کر سکتا کہ اُس کا پوتا جو ہر دو سال کے بعد اپنا اپارٹمنٹ بدل ڈالتا ہے اور اپنی گرمیاں بادلوں کے گالوں میں ارضی منظر میں سے گرجتا ہوا گزارتا ہے، وہ اُس کے برابر مردانہ کردار کا ہے عقل و فہم سے پرے ہے۔ (اے۔ ڈبلیو۔ ٹوزر A. W. Tozer، ’’بیچ گرمیوں کی دیوانگی Midsummer Madness‘‘)۔

کیوں سارے امریکہ میں لوگ اِس قدر زیادہ اِدھر اُدھر گھومتے ہیں؟ وہ کیوں اپنے گرجا گھروں کو چھوڑ جاتے ہیں اور مُلک میں گھومتے پھرتے ہیں؟ یہ ہمیشہ تقریباً اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ وہ زیادہ اور زیادہ پیسے کے لیے لالچی ہوتے ہیں۔ میں بے شمار باتوں پر بلی گراہم کے ساتھ متفق نہیں ہوتا ہوں، لیکن میں مکمل طور پر اُس کے ساتھ متفق ہوں جب اُس نے کہا کہ امریکہ کا سب سے بڑا گناہ طمع کا گناہ ہے، زیادہ اور زیادہ سے زیادہ پیسے کے لالچ کا گناہ ہے۔

نوجوان ہستی، یہ تمام کی تمام مسلسل تبدیلی اور گھومنا پھرنا، اور زیادہ پیسے کی خواہش نے آپ کی نسل کو نقصان پہنچایا ہے۔ آپ کے والدین آپ کو اُدھیڑ کر رکھ دیتے ہیں، آپ کے سکول میں سے، اور آپ کو دوستوں سے دور کر دیتے ہیں، اور جس کے نتیجے میں آپ تنہا ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ امریکہ میں زیادہ تر نوجوان لوگ ہولناک طور پر تنہا ہوتے ہیں۔ آپ کبھی بھی ایک پائیدار گھر اور حقیقی دوست نہیں پا سکتے اگر آپ مسلسل گھوم پھر رہے ہیں۔

اُنہیں مت آپ کو کہنے دیں کہ کالج کرنے کے لیے کسی اور جگہ پر جاؤ! اِس گرجا گھر سے ڈرائیونگ کے فاصلے کے اندر اندر پندرہ یا بیس کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ اور بالکل یہیں پر رہیں اور سکول جائیں! بالکل یہیں اِس گرجا گھر میں رہیں اور بالکل یہیں پر دوست بنائیں! تنہا کیوں رہا جائے؟ گرجا گھر کے لیے – گھر چلے آئیں Why be lonely? Come home – to Church! سب سے اہم کام جو آپ کر سکتے ہیں وہ ایک حقیقی مسیحی بننا ہوتا ہے – اور بالکل یہیں اِس بپٹسٹ گرجا گھر میں ٹھہریں اور لاس اینجلز پر ایک مثبت تاثر ڈالنے میں ہماری مدد کریں! چلے مت جائیں۔ یہ آپ کو صرف تنہا کر دے گا – دوبارہ۔ گرجا گھر کے لیے – گھر چلے آئیں!

اگر آپ اپنے گرجا گھر کو چھوڑ دیتے ہیں تو آپ اپنی جڑیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ ہر ایک چیز چھوڑ دیتے ہیں جس کا واقعی میں زندگی میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ہی تھا جو قائین نے کیا تھا۔ اور اِس نے اُس کی زندگی کو تباہ کر دیا تھا، اور اُس کے بچوں کی زندگی کو تباہ کر دیا تھا۔ وہ کافر بن گئے تھے – دُنیا میں پہلے کافر – کیونکہ قائین خُداوند کی حضوری میں سے چلا آیا تھا نود کے علاقے میں رہنے کے لیے۔ ڈاکٹر ڈیحان Dr. DeHaan بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں:

نود کی زمین کا واقعی میں مطلب ’’آوارہ گردی کی سرزمین‘‘ ہوتا ہے۔ یہ ہی ہے جو عبرانی لفظ کا مطلب ہوتا ہے، آوارہ گردی کی سرزمین۔ اِس کا اِطلاق ایک جگہ سے دوسری جگہ مسافت کرتے رہنے پر ہوتا ہے۔ روایت بتاتی ہے کہ قائین انڈیا اور چین اور دوسرے دور دراز کی سرزمینوں میں گیا… عمومی وضاحت یہ ہے کہ قائین اپنے گھر سے کافی فاصلے پر چلا گیا۔ یہ ایک بے چین ایک بے آرامی کی رائے دیتا ہے۔

پھرنا، پھرنا، پھرنا۔ یہ ہے جو لوگوں نے قائین کے زمانے میں کیا، عظیم سیلاب کے آنے سے پہلے والے دِنوں میں۔ اور مسیح نے ہمیں بتایا کہ سیلاب سے پہلے قائین کی آل اولاد کے اعمال آخری ایام میں لوگوں کی خصوصیت ہونگے۔ اُس نے کہا،

’’جیسا [نُوح] کے دِنوں میں ہُوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہوگا‘‘ (متی24:37).

اور بالکل ایسا ہی ہے جو آج ہے۔ لوگ مسلسل گھومتے پھرتے رہتے ہیں، بالکل جیسے اُنہوں نے سیلاب سے پہلے کے دِنوں میں کیا تھا۔ بالکل یہی ہے جو لوگ آج کل کرتے پھر رہے ہیں۔

’’کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

لوگ کیوں اِس قدر زیادہ گھومتے پھرتے ہیں؟ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اِس میں سے زیادہ تر وجہ لالچ کی ہے، طمع کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے لیے۔ بائبل کہتی ہے:

’’یاد رہے کہ آخری زمانہ میں بُرے دِن آئیں گے لوگ خُود غرض، زَردوست، مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکرے، ناپاک، لالچی…‘‘ (2۔ تیموتاؤس 3:1۔2).

آخری دِنوں میں لوگ واقعی میں ’’پیسے کے پُجاری‘‘ اور خود کے پُجاری‘‘ ہیں – یہ واقعی میں یونانی ہے۔ اور میں یہ کہہ چکا ہوں کہ گھومنے پھرنے کی یہ مستقل خواہش عمومی طور پر ایک قسم کے یا دوسری قسم کے لالچ پر مشتمل ہوتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں، ’’میں ایک نوکری کرتا ہوں اور یہیں اِس گرجا گھر میں ٹھہر جاتا ہوں، لیکن میں کچھ تھوڑا زیادہ کما لوں گا اگر میں وہاں پر چلا جاتا ہوں۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں اِس سکول میں جا سکتا ہوں، یہ کافی اچھا ہے۔ لیکن میں اِس سے بھی زیادہ پیسے مستقبل میں کما سکتا ہوں اگر میں اُس سکول میں جاتا ہوں – جو بہت دور وہاں ہے۔‘‘ لہٰذا آپ کے پاس مسقتل آوارہ گردی کرتی ہوئی، گھومتی پھرتی ہوئی مادیت پرستی کی، لالچی، خودغرض یہ نسل ہے۔

اب اِس کے بارے میں یسوع کے پاس کہنے کے لیے کچھ تھا۔ یسوع نےکہا:

’’پہلے تُم اُس کی بادشاہی اور راستبازی کی جستجو کرو تو یہ چیزیں بھی تمہیں عطا کر دی جائیں گی‘‘ (متی 6:33).

یہ ہے جو مسٹر مینسیا نے کیا۔ یہی ہے جو مسٹر گریفتھ نے کیا۔ یہی ہے جو ڈاکٹر چعین نے کیا۔ یہی ہے جو ڈاکٹر کیگن نے کیا۔ یہی ہے جو مسز سلازار اور ڈاکٹر جوڈتھ کیگن نے کیا۔ یہ ہی ہے جو میری بیوی نے کیا۔ ہمارے گرجا گھر کے تمام کے تمام رہنماؤں نے خُدا کی بادشاہی کو پہلے نمبر پر رکھا۔ دیکھیں کس قدر خوش اور نارمل اُن کے خاندان ہیں! اور یہی ہے جو میں چاہتا ہوں کہ آپ کریں۔ کہیں اور بھاگتے دوڑتے مت پھریں۔ یہیں پر ٹھہریں رہیں اور پہلے خُدا کی بادشاہی کو ڈھونڈیں۔ جیسا کہ مسٹر گریفتھ نے چند لمحے پہلے گایا تھا:

ایک دِل جو مطمئن ہے، ایک مطمئن ذہن،
یہ وہ خزانے ہیں جنہیں پیسہ نہیں خرید سکتا۔
اگر آپ کے پاس یسوع ہے، تو آپ کی جان میں زیادہ دولت ہے
ایکڑوں کے ہیروں اور سونے کے پہاڑوں کے مقابلے میں۔

میں یہاں لاس اینجلز کے مرکز میں ساٹھ سالوں سے بھی زیادہ عرصے سے رہ رہا ہوں۔ تقریبا میری ساری کی ساری تریپن سالوں کی مذہبی خدمت لاس اینجلز کے مرکز ہی میں رہی ہے، پہلے ایک سفید فام گرجا گھر میں، اور پھر ایک چینی گرجا گھر میں، اور پھر اِس گرجا گھر میں۔ میں نے اکثر لاس اینجلز کو چھوڑنا چاہا۔ لیکن خُدا چاہتا تھا کہ میں یہیں پر ٹھہروں۔ ایسے بے شمار ادوار آئے جب یہاں پر رُکنا انتہائی دشوار تھا، اکثر مالی مشکلات اور جذباتی مشکلات۔ لیکن میں نے پایا کہ ایک ’’بہتر‘‘ جگہ پر ہونے کے مقابلے میں خدا کی مرضی پر ہونا زیادہ اہم ہوتا ہے۔ سی۔ ٹی۔ سٹڈ C. T. Studd جو افریقہ اور چین کے لیے ایک عظیم مشنری تھے، اُںہوں نے کہا، ’’رہنے کے لیے محفوظ ترین جگہ خُدا کی مرضی کے مرکز میں ہوتی ہے۔‘‘ اور میں اُن کے ساتھ متفق ہوں!

اب وہ سب کے سب جن کے ساتھ میں سکول میں گیا تھا اِس شہر سے باہر جا چکے ہیں۔ میرا خاندان مر گیا یا یہاں سے چلا گیا۔ اُن میں سے ہر ایک لاس اینجلز سے جا چکا ہے۔ کبھی یہاں پر بے شمار ہوا کرتے تھے۔ اپنی نسل میں سے میں ہی واحد ہستی ہوں جو اِس شہر میں رہ گئی ہے جہاں کبھی درجنوں ہوا کرتے تھے۔ لیکن وہ جو یہاں سے چلے گئے اور وہ جنہوں نے اِس جگہ کو چھوڑ دیا اچھی زندگی نہیں پا سکتے اور وہ نہیں پا سکے جو وہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اب اُن کے مقابلے میں جو بھاگ گئے اور اِس شہر کو چھوڑ گئے میرے پاس ایک مکمل ترین اور امیر ترین اور بہترین زندگی ہے۔ اِس شہر ہی میں ٹھہرے رہیں۔ اور میرے خیال میں یہی وہ پیغام ہے جس کی مبلغین کو امریکہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہمارے عظیم شہروں میں منادی کرنی چاہیے۔ اِس شہر ہی میں ٹھہریں! مقامی گرجا گھر ہی میں رُکیں! باہر کہیں کچھ بھی نہیں ہے!

کچھ مبلغین کے ہاں گھر واپسی کا دِن منایا جاتا ہے، جہاں پر وہ ہر کسی کو جو گرجا گھر کو چھوڑ کر جا چکا ہوتا ہے واپس مدعو کیا جاتا ہے۔ میں سُن چکا ہوں کہ بے شمار گرجا گھر میں، جہاں پر وہ گھر واپسی والا دِن مناتے ہیں اور ہر کوئی گرجا گھر میں واپس آتا ہے۔ میں نہیں سوچتا اُن کے پاس ایسا ہوتا ہو۔ میں اُن کے لیے گھر واپسی کا دِن نہیں مناؤں گا جو اندرون شہر کو چھوڑ کر چلے گئے اور اپنے گرجا گھر کو چھوڑ دیا۔ اُنہیں جو منانے کی ضرورت ہے وہ ’’گھر میں ٹھہرنے‘‘ کا دِن منانے کی ضرورت ہے اُن لوگوں کے لیے جو ٹھہرے رہے۔ ’’گھر ٹھہرنے‘‘ کا دِن منائیں اور کبھی بھی اُن کو تعظیم مت دیں جو چھوڑ کر چلے گئے۔ کبھی بھی نہیں۔ کبھی بھی اُن کا تزکرہ مت کریں ماسوائے لفنگوں کی حیثیت سے۔

آپ کیا سوچتے ہیں ہمارے گرجا گھر کے ساتھ کیا رونما ہوا تھا؟ امریکہ کے ساتھ کیا رونما ہوا تھا؟ سفید فام لوگ شہروں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اُنہوں نے اپنے گرجا گھروں کو چھوڑ دیا۔ ہمیں اُس کے خلاف منادی کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس نے بخوبی تقریبا امریکہ کو قتل کر ڈالا ہے۔ سفید فام لوگوں کے شہروں کو چھوڑنے، اپنے گرجا گھروں کو چھوڑنے، بھاگ جانے کے مقابلے میں کسی اور چیز نے ہماری قوم کو اتنا زیادہ تباہ نہیں کیا ہے۔ اِس کو ’’سفید فام اُڑان‘‘کہا گیا ہے اور یہ امریکہ کو تباہ کر چکی ہے! بھاگنا چھوڑ دیں! شہر ہی میں ٹھہریں! یہی ہے جس کی منادی کرنے کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ وہ پیغام نہیں ہے جسے لوگ پسند کریں گے، مگر شاید کوئی اِس کو پسند کر بھی لے گا۔ ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے، صرف اُس کی منادی کریں جو لوگ چاہتے ہیں؟ ہمیں وہی منادی کرنے کی ضرورت ہے جس کو سُننے کی لوگوں کو ضرورت ہے۔

اب، واحد میں ہی تنہا بچا ہوں، لیکن اب اُن کے مقابلے میں جو بھاگ گئے اور اِس شہر کو چھوڑ گئے میرے پاس ایک مکمل ترین اور امیر ترین اور بہترین زندگی ہے۔ میں ایسا ہی کرنے کے لیے آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ جوار بھاٹا [زمانے] کے مخالف جائیں۔ جڑیں جمائیں اورجہاں ہیں وہیں رہیں۔

اور پھر ایک اور وجہ، مادیت پرستی کے علاوہ، خود پر قابو کرنے کی کمی۔ ’’کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے۔‘‘ بائبل کہتی ہے کہ یہ نسل ’’محبت سے خالی، بے رحم، بدنام کرنے والی، بے ضبط، تُند مزاج، نیکی کی دشمن‘‘ ہوگی (2تیموتاؤس3:3)۔ اُس لفظ ’’بے ضبطincontinent‘‘ کا مطلب ہوتا ہے وہ خود پر قابو نہیں پا سکتے۔ بے شمار لوگ مستقل گھومتے پھرتے رہتے ہیں کیونکہ بس خود پر قابو نہیں پا سکتے، خصوصی طور پر ہمارے ہسپانوی لوگ کے درمیان۔ وہ ممکنہ طور پر ایک ہی جگہ پر نہیں رہ پاتے۔ اُنہیں ہر تین یا چار مہینوں میں جانا ہی ہوتا ہے۔ یہ کوئی رہنے کا طریقہ نہیں ہے!

بدقسمتی سے، حالانکہ وہ بے شمار دوسری باتوں میں ایک شاندار انسان تھے، میری والدہ کے ابو، میرے نانا، ویسے ہی تھے۔ اُن کے سات بچے تھے، اُن میں سے ہر ایک امریکہ کی مختلف ریاست میں پیدا ہوا تھا۔ وہ مستقل حرکت میں رہتے تھے۔ میری والدہ اُوکلاہوما میں پیدا ہوئی تھیں۔ ایک بھائی نی وا ڈا Nevada میں پیدا ہوا۔ اُن میں سے دو مغربی کینیڈا میں پیدا ہوئے۔ جگہ بدلتے رہنا، جگہ بدلتے رہنا، جگہ بدلتے رہنا۔ تعجب کی کوئی بات نہیں کہ زندگی کے آخر میں اُن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ زندگی گزارنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں! میں نے اپنی ماں کے خاندان اور اپنے باپ کے خاندان کا اُن کی تمام بدلتی ہوئی جگہوں کے ساتھ مشاہدہ کیا اور میں نے فیصلہ کیا میں اپنے بچوں کو اُن کی طرح اِدھر اُدھر نہیں بھٹکاؤں گا۔ ایک رات میں نے اپنے بیوی کے ساتھ سونے سے کچھ دیر پہلے محض اُن کی گنتی کی اور میں نے سکولوں کو گِنّا۔ میں ہائی سکول سے گریجوایشن کرنے سے پہلے 28 مختلف سکولوں میں پڑھا تھا۔ اور میں ایک بچے کی حیثیت سے بے شمار مختلف گھروں میں رہا تھا۔ اور میں نے فیصلہ کیا کہ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو میں اپنی جڑیں ایک ہی جگہ پر سینچوں گا اور ایک ہی جگہ پر ٹھہروں گا۔ کیونکہ مجھے نہیں لگتا لوگ اُس طرح کی نقل و حرکت سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ یہاں پر منتقل ہو چکے ہیں تو اِس کو اپنی آخری منتقلی بنائیں۔ پکا فیصلہ کر لیں اور کہیں، ’’بس یہی ہے۔ یہ آخری مرتبہ ہے کہ میں نقل مکانی کر رہا ہوں۔‘‘

یہ کہا جاتا ہے کہ ایلڈوس ھکسلے Aldous Huxley آئرلینڈ کے شہر ڈبلِن میں برطانوی ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں جانے کے لیے نکلے تھے۔ لیکن اُنہیں اسٹیشن پر پہنچنے میں تاخیر ہو گئی۔ وہ جلد سے قریب ہی کھڑی ہوئی ایک دو گھوڑوں والی بگھی میں سوار ہو گئے۔ اُنہوں نے کوچوان سے کہا، ’’گھوڑوں کو تیز دوڑاؤ۔‘‘ کوچوان نے گھوڑوں کو پیٹا۔ اور وہ بگھی میں روانہ ہو گئے، سڑکوں پر سے ہچکولے کھاتے ہوئے۔ کچھ دیر کے بعد ھکسلے ڈرائیور پر چیخا، ’’کیا تمہیں معلوم ہے تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا، ’’جی نہیں، میں نہیں جانتا میں کہاں جا رہا ہوں، لیکن میں انتہائی تیز بگھی چلا رہا ہوں۔‘‘ اِس ہی طرح کا دورِ حاضرہ کا انسان ہے۔ ’’میں نہیں جانتا میں کہاں جا رہا ہوں، لیکن میں انتہائی تیز جا رہا ہوں۔‘‘

کوکسیCoxe کی فوج میں مارچ کرنے والوں میں سے ایک نے جب وہ واشنگٹن کے طرف حرکت کر رہے تھے یہ کہتے ہوئے اپنے مشن کی وضاحت کرنے کی کوشش کی، ’’ہم نہیں جانتے ہم کیا چاہتے ہیں، لیکن ہم اِس کو بہت بُری طرح چاہتے ہیں، اور ہم اِس کو بہت جلدی جلدی پانا چاہتے ہیں۔‘‘ اور اِس ہی طرح بے شمار نوجوان لوگ آج کل ہوتے ہیں۔ ’’میں نہیں جانتا میں کیا چاہتا ہوں، لیکن میں اِس کو اتنی جلدی پانا چاہتا ہوں جتنی جلدی پا سکوں۔‘‘ ویسے، آپ اپنی زندگی میں کہاں جا رہے ہیں؟ آپ جتنی تیزی سے جا سکتے ہیں جا رہے ہیں، لیکن آپ جا کہاں پر رہے ہیں؟ آپ اپنی زندگی کو تیز رفتار والی لائین میں بسر کر رہے ہیں۔ لیکن آپ کی زندگی آپ کو لے کر کہاں پر جا رہی ہے؟ اب سے پچیس سال کے بعد آپ کہاں پر ہونگے؟ اب سے پچاس سال کے بعد آپ کہاں پر کھڑے ہونگے؟ آپ جتنی تیزی سے ہو سکتا ہے اُتنی تیزی سے جا سکتے ہیں، لیکن آپ جا کہاں پر رہے ہیں؟ آج سے سو سال بعد آپ کہاں پر کھڑے ہونگے؟ آپ ابدیت کہاں پر گزاریں گے؟ آپ جتنی تیز ہو سکتا اُتنی تیزی سے حرکت پزیری میں ہیں، لیکن آپ جا کہاں پر رہے ہیں؟ وہ کیا ہے جو آپ زندگی سے چاہتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ زندگی کے عظیم فلسفیاتی سوالات یہ ہیں: میں کون ہوں؟ میں یہاں پر کیوں ہوں؟ اور میں کہاں پر جا رہا ہوں؟ اور اگر آپ نے اِن سوالات کے جواب نہیں دیے، تو مجھے پرواہ نہیں آپ نے کتنی کالج کی تعلیم حاصل کی تھی، اِس سے آپ کو آخرکار کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ آپ کون ہیں؟ آپ یہاں پر کیوں ہیں؟ آپ کہاں پر جا رہے ہیں؟ آپ ابدیت کہاں پر گزاریں گے؟

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک خاتون سے بات کی تھی۔ اُنہوں نے کہا، ’’اِس گرجا گھر میں آنے سے پہلے میں نہیں جانتی تھی میں یہاں پر کیوں ہوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’میں کام پر جاتی اور میں گھر واپس آ جاتی۔ میں بستر میں جاتی اور اُٹھتی۔ میں کام پر گئی، میں گھر واپس آئی۔ میں بستر پر گئی، میں اُٹھی۔ اور میں خود سے پوچھتی، ’اِس کا مقصد کیا ہے؟‘‘‘ میں یہاں پر کیوں ہوں؟ میں کہاں پر جا رہا ہوں؟ اور اُس نے کہا، ’’جس وقت میں اِس گرجا گھر میں آئی اور مجھے میری زندگی کا مقصد ملا اور مجھے پتا چلا کہ میں یہاں زمین پر کیوں ہوں۔‘‘ یہ ہے جس کی آپ کو ضرورت ہے۔ تنہا اور بِنا مقصد کے کیوں رہا جائے؟ گھر آئیں – گرجا کرنے کے لیے!

ایک بوڑھا مسیحی ایک دِن ایک نوجوان آدمی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اُس نوجوان آدمی نے سوچا وہ جگہوں پرجا رہا تھا۔ وہ پیسے کما رہا تھا۔ اُس بوڑھے شخص نے اُس سے کہا، ’’تم اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنے کا اِرادہ رکھتے ہو؟‘‘ ہاں ٹھیک ہے، اُس نوجوان آدمی نے کہا، ’’میں سخت محنت کرنے والا ہوں۔‘‘ بوڑھے شخص نے اُس پر نظر ڈالی اور کہا، ’’اُس کے بعد؟‘‘ ’’ہاں ٹھیک ہے،‘‘ اُس نوجوان آدمی نے کہا، ’’میں ڈھیروں پیسے کماؤں گا۔‘‘بوڑھے آدمی نے اُس پر نظر ڈالی اور کہا، ’’پھر اُس کے بعد؟‘‘ ہاں تو ٹھیک ہے، اُس نوجوان آدمی نے کہا، ’’میرا خیال ہے میں شادی کر لوں گا۔‘‘ اُس بوڑھے شخص نے کہا، ’’پھر اُس کے بعد؟‘‘ تب اُس نوجوان شخص نے کہا، ’’میرا خیال ہے میرا خاندان ہو گا اور میں اُن کی پرورش کروں گا۔‘‘ پھر اُس کے بعد؟‘‘ ٹھیک ہے، میرا اندازہ ہے کہ میں ریٹائر ہو جاؤں گا اور خود سے لطف اندوز ہوؤں گا اور جو کچھ میں نے اپنی زندگی میں بنایا اُس سے لطف اُٹھاؤں گا۔‘‘ ’’پھر اُس کے بعد؟‘‘ ٹھیک ہے، میرا اندازہ ہے پھر میں مر جاؤں گا۔‘‘ ’’اُس کے بعد؟‘‘ اور اُس سوال نے اُس نوجوان آدمی کو بھونچکا کر دیا۔ اور وہ اِس بات کو ذہن میں سے نکال نہیں پایا۔

اور یہی ہے جو آپ کو کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ خود سے پوچھتے رہے ہیں، ’’میری زندگی کا اصل میں مطلب کیا ہے؟ میری زندگی کس ڈگر پر جا رہی ہے؟ میں اِدھر اُدھر بھاگتا پھر رہا ہوں، لیکن میری زندگی کس ڈگر پر جا رہی ہے؟‘‘

اور یہی وجہ ہے میں چاہتا ہوں آپ اگلے اِتوار یہاں گرجا کرنے کے لیے آئیں۔ میں چاہتا ہوں آپ یہاں اِس گرجا گھر میں گہرے دوست بنائیں۔ یہی طریقہ تنہائی کا علاج کرنے کے لیے طریقہ ہے۔ گرجا گھر کوئی کامل جگہ نہیں ہے، کیونکہ اِس میں انسان ہوتے ہیں، اور انسان کامل نہیں ہوتے۔ لیکن گرجا گھر ’’زمین پر سب سے پُرمسرت ترین جگہ‘‘ ہوتی ہے۔ وہ ڈیزنی لینڈ کے بارے میں کہتے ہیں، لیکن وہ غلط ہیں۔ مقامی گرجا گھر زمین پر سب سے پُرمسرت ترین جگہ ہوتی ہے!

لیکن آپ کو مقامی گرجا گھر کے لیے خود کو وقف کر دینا چاہیے۔ اِس سے آپ کی تنہائی کا علاج نہیں ہوگا اگر آپ کچھ عرصہ کے لیے آئیں اور پھر چھوڑ کر چلے جائیں۔ آپ کو گرجا گھر کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور آتے رہنا چاہیے، ہر ہفتے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اِس قسم کی وابستگی ایک پائیدار شادی کے ہونے کے لیے ضروری ہوتی ہے – اور گرجا گھر کے خاندان کا حصہ ہونا ضروری ہوتا ہے! لوگ تنہا ہوتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کے لیے خود کو وقف کر دینے میں نہایت خود غرض اور لالچی ہوتے ہیں۔ اُن کا آخر ڈِکنسزDickens کے ناول کرسمس کیرل A Christmas Carol میں بوڑھے سکورج Scrooge کی مانند ہوتا ہے۔ وہ اِس قدر خود غرض اور لالچی ہوتے ہیں کہ اُن کا آخر مکمل طور پر تنہائی میں ہوتا ہے – کسی خیراتی گھر میں پھنسے ہوئے، معنی سے بھرپور خونی رشتہ داریوں سے قطعی طور پر کٹے ہوئے۔ اور یہ ابھی سے شروع ہوتا ہے، جب کہ آپ نوجوان ہی ہیں۔ اِس بات کو زندگی کے بڑے بڑے مُسلمہ اصولوں میں سے ایک بنا لیں: اگر آپ خود کو لوگوں کے ایک مستحکم گروہ کے ساتھ وقف نہیں کریں گے، آپ ہمیشہ تنہا ہی ہوں گے۔ اور جہنم سے تنہا ترین جگہ اور کوئی بھی نہیں ہے۔ جہنم میں وہ دولت مند شخص اِس قدر تنہا تھا کہ اُس نے ایک فقیر سے آنے اور اُس کو پانی کا ایک گھونٹ پلانے کے لیے اِلتجا کی تھی۔ آپ کو اِس مقامی گرجا گھر میں آنا چاہیے اور اگر آپ تنہائی پر قابو پانا چاہتے ہیں تو یہیں پر ٹِک جانا چاہیے۔

اور تب، آپ کو مکمل طور پر یسوع مسیح کے پاس آنا چاہیے، جو خُدا کا بیٹا ہے۔ وہ صلیب پر آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے قربان ہوا۔ اُس نے اپنے قیمتی خون کو بہایا تاکہ آپ کے گناہوں کو دھو ڈالے۔ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا اور اب خُدا باپ کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہے، آسمان میں۔ لیکن آپ کو اپنے خودغرضانہ کافرانہ طرزِ زندگی سے مُنہ موڑ لینا چاہیے، اور آپ کو ہر ایک اِتوار کو گرجا گھر آنا چاہیے، غیر حاضر ہوئے بغیر۔ یہ سچی توبہ ہوتی ہے! یہ اِس کا مطلب ہوتا ہے! اور تب آپ کو مکمل طور پر مسیح کے پاس آنا چاہیے، اور اُس کے خون کے وسیلے سے پاک صاف ہونا چاہیے! یہ حقیقی نجات ہوتی ہے! یہ نئے عہدنامے کی مسیحیت ہوتی ہے! یہ زندگی کے بہت بڑے سوال کا جواب ہے! یہ ہمیشہ کی زندگی گزارنے کا طریقہ ہوتا ہے! اِس آوارہ گردی کرتی ہوئی نسل میں سے باہر نکلیں! اِس کو چھوڑ دیں! اِس مقامی، نئے عہد نامے کی بپٹسٹ گرجا گھر میں آئیں! ساری راہ طے کر کے مسیح کے پاس آئیں! اِس کو کریں! اِس کو کریں! اور خُدا آپ کو ہمیشہ کے لیے برکت دے!

واعظ سے پہلے کلام پاک میں سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: اعمال 1:1۔12 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’جواہرات ک ذاتی ملکیت Acres of Diamonds‘‘ (شاعر آرتھر سمتھ Arthur Smith، 1959)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک میں سے تلاوت ڈاکٹر کرھیٹن ایل۔ چعین Dr. Kreighton L. Chan نے کی تھی: اعمال 1:1۔12 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بینجیمن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
نے گایا تھا: ’’جواہرات ک ذاتی ملکیت Acres of Diamonds‘‘ (شاعر آرتھر سمتھ Arthur Smith، 1959)۔

لُبِ لُباب

یہ آوارہ گرد نسل

THIS WANDERING GENERATION

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’لیکن تُو اے دانی ایل، اس طومار کے الفاظ کو زمانہ کے آخر تک بند کر کے مہر لگا۔ کئی لوگ اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اِدھر اُدھر تفتیش و تحقیق کرتے پھریں گے‘‘ (دانی ایل 12:4).

(دانی ایل 12:8۔9)

I.   پہلی بات، بائبل بے شمار علامات پیش کرتی ہے کہ ہم اب ’’زمانے کے آخر‘‘ میں
زندگی بسر کر رہے ہیں، دانی ایل 12:4اے؛ لوقا 21:11، 25۔26؛

لوقا 21:10؛ زکریاہ 12:3؛ لوقا 21:12؛ 2۔ تھسلنیکیوں 2:3۔

II.  دوسری بات، تلاوت ہمیں بتاتی ہے کہ سفر اور تحقیق و تفتیش کا زمانے کے آخر
میں اِضافہ ہو جائے گا، دانی ایل 12:4ب.

III. تیسری بات، تلاوت ہمیں زمانے کے آخر میں نسل انسانی کی بے چینی کے بارے
میں بتاتی ہے، پیدائش 4:14؛ متی 24:37؛ 2۔ تیموتاؤس 3:1۔2؛
متی 6:33؛ 2۔ تیموتاؤس 3:3۔