Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

وراثتاً آدمی کے تباہ ہونے اور نئی تخلیق پر

ON THE RUIN AND REGENERATION OF FALLEN MAN

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
6 مارچ، 2011، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, March 6, 2011

’’بشر سے تو بشر ہی پیدا ہوتا ہے؛ اور مگر جو روح سے پیدا ہوتا ہے وہ روح ہے۔ حیران نہ ہوکہ میں نے تجھ سے کہا کہ تُم سب کو نئے سرے سے پیدا ہونا لازمی ہے‘‘ (یوحنا 3:6۔7).

’’بشر‘‘ آدم سے آتا ہے۔ نیا جنم خُدا کی روح سے آتا ہے۔ لیکن ہمیں نئے جنم کی کیوں ضرورت ہوتی ہے؟ اِس سوال کا جواب پوری طرح سے اُس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ ہم اِنسان کے گناہ میں گرنے کو نہ سمجھ لیں – اور اُس کی بحیثیت مسخ شُدہ گنہگار کےموجود حالت کو نہ سمجھ لیں۔ یہ واعظ یہی ظاہر کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے کہ بائبل ہمیں اِس موضوع پر کیا سیکھاتی ہے۔ بہت سے لوگ نئے سِرے سےجنم کی ضرورت کو محسوس کرنا شروع نہیں کریں گے جب تک کہ وہ خود پہلے اپنی مسخ شُدہ گنہگار حالت کو محسوس نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل ہمیں اِنسان کے گِرنے اور اُس کی قدرتی حالت کے بارے میں بتاتی ہے۔

1۔ اوّل، نسلِ اِنسانی کی اصلی حالت۔

پہلا آدمی اور عورت پاک تخلیق کیے گئے تھے، اور کچھ عرصہ تک خُدا کی خدمت بغیر گناہ کے کی تھی۔

’’چنانچہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا، اُسے خدا کی صورت میں پیدا کیا؛ اور اُنہیں مرد اور عورت کی شکل میں پیدا کیا‘‘ (پیدائش 1:27).

آدمی کو خُدا کی ’’صورت‘‘ پر پیدا کیا گیا تھا۔ روح کی ناگزیر خصوصیت ذہانت (دماغی استعداد)، قوت اِحساس (ضمیر) اور مرضی ہیں۔ ڈاکٹر چارلس ہُاج Dr. Charles Hodge نے کہا، ’’خُدا ایک روح ہے۔ روح کی ناگزیر خصوصیات دماغی استعداد، ضمیر اور مرضی ہیں. . . اِس لیے، آدمی کو خود اپنی مانند بناتے وقت خُدا نے اُسے وہ خصوصیات عطا کیں جو خود اُس کی اپنی قدرت میں بحیثیت ایک روح کے تھیں. . . اگر ہم خُدا کی مانند نہ ہوتے، ہم اُسے جان نہ پاتے۔ ہم اُس درندے کی مانند ہوتے جو ناپیدا ہو گیا ہے‘‘ (چارلس ہُاج، پی ایچ. ڈی.، درجہ بہ درجہ علمِ الہٰیات Systematic Theology، عئیرڈ مینز Eerdmans، 1946، جلد دوئم، صفحہ 97).

اِس لیے، اصلی آدمی کے پاس دونوں راستبازی اور پاکیزگی ہیں۔ واعظ کی کتاب 7:29 اِس کی تائید کرتی ہے، ’’خُدا نے نوعِ انسان کو راستکار بنایا۔‘‘ اِسی کو پیدائش 1:31 میں ظاہر کیا گیا ہے،

’’خدا نے جو کچھ بنایا تھا اُس پر نظر ڈالی، اور، وہ بہت ہی اچھا تھا۔‘‘

’’اِس میں آدمی شامل ہوتا ہے، اور یہ درست نہ ہوتا اگر آدمی [گنہگار یا] اخلاقی اعتبار سے ناموزوں ہوتا‘‘ (ھنری سی. تھائسِن Henry C. Thiessen، پی ایچ. ڈی.، درجہ بہ درجہ علمِ الہٰیات پر تعارفی لیکچرز Introductory Lectures on Systematic Theology، عئیرڈ مینز Eerdmans، اشاعت 1949، صفحہ 221). ڈبلیو. جی. ٹی. شیڈ W. G. T. Shedd نے کہاکہ آدمی کو پاک تخلیق کیا گیا تھا، پاکیزگی معصومیت سے بڑھ کر ہوتی ہے. . . آدمی نا صرف منفی طور پر معصوم تھا، بلکہ مثبت طور پر پاک تھا۔ آدمی کے تجدید یا احیاء کی حالت اُس کی کنوارپن کی حالت [گرنے سے پہلے] کی بحالی کا عمل ہے. . . ’جو کہ خُدا کی راستبازی اور سچی پاکیزگی کے بننے کے بعد ہے،‘ افسیوں 4:24‘‘ (ڈبلیو. جی. ٹی. شیڈ W. G. T. Shedd، پی ایچ.ڈی.، عقائد کا علمِ الہٰیات Dogmatic Theology، سکرائبینرز، Scribners، 1889، جلد دوئم، صفحہ 96). ڈاکٹر جان ایل داگ Dr. John L. Dagg نے کہا، ’’کتنے عرصے تک [پہلا آدمی اور عورت] اپنی معصومتی اور [پاکیزگی] کی حالت میں رہے ہمیں اِ سکے بارے معلوم کرنے کا کوئی اندازہ نہیں ہے؛ لیکن یہ [پیدائش کی کتاب میں واضح ہے] کہ اُنہوں نے کچھ وقت تک اپنی اصلی حالت گزاری۔ خُدا کے ساتھ آزادنہ [باہمی رابطے] کا وجود ہے. . . ہم شاید ازروئے پیدائش اُس پاک اور مقدس حالت کو ماضی میں دیکھ سکتے ہیں جو جس میں ہمارے والدین رہے تھے جب وہ اپنے خالق کے ہاتھوں سے گزرے تھے؛ اور ہم شاید، بہت اچھے تاثر کے ساتھ، یہ یاد کر سکتے ہیں ہم کب گرے ہیں۔ اِس موضوع [کےبارے میں سوچنا] اُس تجدید یا احیاء کے پُرفضل منصوبے [کو قبول کرنے میں ہماری مدد] کرے گا جس میں [مسیح نے ہمیں] [آخری] آدم دیا ہے‘‘ (جان ایل. داگ، ڈی.ڈی.، علم الہٰیات کا کِتابچہ A Manual of Theology، مغربی بپتسمہ دینے والی اشاعتی انجمن Southern Baptist Publication Society ، 1858، صفحات 141، 143، 144).

’’چنانچہ لکھا ہے، کہ پہلا آدمی یعنی آدم زندہ نفس بنا؛ آخری آدم زندگی بخشنے والی رُوح بنا‘‘ (1۔ کرنتھیوں 15:45).

پہلے آدم نے نوعِ انسانی کو گناہ کی دوڑ میں غرق کیا تھا۔ ’’آخری آدم‘‘ مسیح، آیا کہ اپنے لوگوں کو گناہ سے نجات دلائے۔

2۔ دوئم، نوعِ انسانی کا وراثتاً گِرنا۔

پہلے آدمی نے خُدا کی شریعت کی حکم ادولی کی تھی، اور اپنے اوپر اور اپنی آل اولاد پر موت لایا۔ خُدا کی شریعت، اُس کو توڑنے پر سزا کے ساتھ دی گئی تھی،

’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا، تو اس باغ کے کسی بھی درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے: لیکن تو نیک و بدکی پہچان کے درخت کا پھل ہر گز نہ کھانا: کیونکہ جب تو اُسے کھائے گا تو یقیناً مر جائے گا‘‘ (پیدائش 2:16۔17).

ڈاکٹر داگ Dr. Dagg نے کہا، دھوکہ مت کھائیے؛ خُدا کا مذاق نہیں اُڑایا جاتا ہے۔ وہ جو خُدا کی نافرمانی کرتا ہے، اُس کی حکومت کو مسترد کرتا ہے؛ اور خُدا یہ جانتا ہے۔ آدم کے لیے فرمانبرداری کا امتحان [دیا جانا] آسان تھا؛ اور یہی واحد حقیقت [اُسکی] خلاف ورزی کو مذید اور زیادہ ناقابلِ معافی بناتی ہے۔ یہ ابراہام کے ایمان کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے، کہ وہ ایک کڑے امتحان میں ڈالا گیا تھا جب اُس کو اپنا بیٹا اضحاق قربانی کرنے کے لیے کہا گیا تھا؛ اور یہ آدم کے گناہ کی بڑائی کو ظاہر کرتا ہے، کہ وہ سرزد کیا گیا تھا، جب کہ وہ اُس با آسانی ٹال سکتا تھا‘‘ (داگ، ibid.). اُس نے خُدا کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا تھا، اژدہے کی سُنی تھی، خُدا کی منکری کی تھی، خود اپنے نفس، اور اپنی تمام آل اولاد کے نفسوں کو تباہ کیا تھا۔

’’پس جیسے ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں داخل ہوا اور گناہ کے سبب سے موت آئی ویسے ہی موت سب انسانوں میں پھیل گئی…‘‘ (رومیوں 5:12).

’’کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے‘‘ (رومیوں 6:23).

’’اور جیسے ایک آدمی کی نافرمانی سے بہت سے لوگ گنہگار ٹھہرے، ویسے ہی ایک آدمی کی فرمانبرداری سے بہت سے لوگ راستباز ٹھہرائے جائیں گے‘‘ (رومیوں 5:19).

1599 کی جینیوا بائبل ہمیں رومیوں 5:19 پر یہ تنکیدی حاشیہ دیتی ہے، ’’یہ دو آدمی [آدم اور مسیح] دو جڑوں کی مانند . . . قائم ہیں، اِس لیے کہ اُن میں سے ایک قدرتاً گناہ کے ذریعے سے ہے، اور اُن میں سے دوسرا، فضل کے ذریعے سے راستباز ہے دونوں ہی دوسروں پر سبقت لے جاتے ہیں۔ لہٰذا گناہ ہم میں صرف ہمارے آباؤاِجداد [آدم] کے نقش قدم پر چلنے ہی سے داخل نہیں ہوتا ہے، بلکہ ہم وراثت میں اُس سے اِخلاقی زوال لیتے ہیں۔‘‘

3۔ نسِل انسان کی موجودہ حالت۔

ڈاکٹر داگ نے کہا، بُرے [نتائج جو آئے] ہمارے پہلے والدین کی نافرمانی کی وجہ سے وہ صرف اُن تک ہی ذاتی طور پر محدود نہیں رہ گئے تھے، بلکہ اُن سے اُن کی آل اولاد کو [منتقل ہو گئے] تھے۔ آدم خُدا کی صورت پر تخلیق کیا گیا تھا؛ لیکن جب وہ صورت [گناہ کی وجہ سے تباہ کی جا چکی تھی]، اُس کی اپنی صورت کی مانند اُس کا بیٹا ہوا (پیدائش 5:3). اِس لیے [آدم کی] تمام آل اولاد جو اُس وقت سے پیدا ہوئی اپنے [گناہ میں گرے ہوئے باپ دادا کی] صورت پر پیدا ہوئی، اور اُس کی مانند ہی رہی نا صرف کردار میں بلکہ کیفیت میں‘‘ (داگ، ibid.، صفحہ 150).

اِس لیے تمام زمانوں میں تمام آدمی اور اقوام نے خُدا کی شریعت کو توڑا۔ کیوں؟ کیونکہ، آدم کی آل اولاد ہونے کے طور پر، وہ، قدرتاً قہر و غضب کے بچے ہیں‘‘ (افسیوں 2:3)،

’’اُن کی عقل تاریک ہو گئی ہے، اور وہ اپنی سخت دلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں، اور خدا کی دی ہوئی زندگی میں اُن کا کوئی حصّہ نہیں‘‘ (افسیوں 4:18).

’’کیونکہ کوئی بھی بشر ایسا نہیں جو گناہ نہ کرتا ہو‘‘ (2۔ تواریخ 6:36).

’’ہم تو پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں کہ یہودی اور غیر یہودی سب کے سب گناہ کے قابو میں ہیں؛ جیسا کہ پاک کلام میں لکھا ہے، کوئی راستباز نہیں، ایک بھی نہیں: کوئی سمجھدار نہیں، کوئی خدا کا طالب نہیں۔ سب کے سب گمراہ ہو گئے، وہ کسی کام کے نہیں رہے؛ کوئی نہیں جو بھلائی کرتا ہو، ایک بھی نہیں۔ اُن کے حلق کھُلی ہوئی قبروں کی مانند ہیں؛ اُن کی زبان سے دغابازی کی باتیں نکلتی ہیں؛ اُن کے ہونٹوں میں سانپوں کا زہر ہے۔ اُن کے منہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرے ہوئے ہیں۔ اُن کے قدم خُون بہانے کے لیے تیز رفتار ہو جاتے ہیں؛ اُن کی راہوں میں تباہی اور بدحالی ہے، وہ سلامتی کی راہ سے واقف ہی نہیں۔ نہ ہی اُن کی آنکھوں میں خدا کا خوف ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ شریعت جو کچھ کہتی ہے اُن سے کہتی ہے جو شریعت کےما تحت ہیں تاکہ ہر منہ بند ہو جائے اور ساری دنیا خدا کے سامنے سزا کی مستحق ٹھہرے‘‘ (رومیوں 3:9۔19).

اپنی موجودہ کیفیت میں، آدم کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے، اب آدمی ’’گناہ کے تحت‘‘ ہے (رومیوں 3:9)، یعنی کہ وہ گناہ کی حکومت کے تحت ہے، جو کہ رومیوں 3:9۔19 بہت وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ جیسا کہ پولوس رسول نے اِسے لکھا، آدمی، ’’گناہ میں مردہ‘‘ ہیں (افسیوں 2:5).

کس طرح سے کوئی گناہ میں گرا ہوا آدم کی نسل کا گناہ کی بدکاری اور غلامی سے بچایا جا سکتا ہے؟ اور اِس کا جواب یہ ہے – تمہیں دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونا ہے‘‘ (یوحنا 3:7). آپ کی پہلی پیدائش پر، آپ آدم کے بیٹے کے طور پر پیدا ہوئے تھے، گناہ میں مردہ۔ اب ابدیت میں اور زندگی پانے کے لیے آپ کو دوبارہ نئے سرے سے جنم لینا چاہیے۔

نئی تخلیق ایک الہٰیاتی اصطلاح ہے جسے مسیح نے نیا جنم کہا ہے (یوحنا3:3، 7). ڈاکٹر جان ایل. داگ Dr. John L. Dagg (1794۔1884)، جو کہ ایک ابتدائی مغربی بپتسمہ دینے والے عالمِ الہٰیات ہیں اُنہوں نے کہاکہ نئی تخلیق (نئے سِرے سے جنم) ’’کردار میں ایک تبدیلی‘‘ پیدا کرتی ہے، ’’دِل کی ایک تبدیلی۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’پیدا ہوئی تبدیلی اِس قدر عظیم ہے، کہ زیرِ اثر ایک نئی مخلوق کہلاتا ہے‘‘ (جان ایل. داگ، ڈی.ڈی.، علمِ الہٰیات کا کتابچہ A Manual of Theology، مغربی بپتسمہ دینے والی اشاعتی انجمن، 1858، صفحہ 277). پھر ڈاکٹر داگ نے یہ تلاوت حوالے میں کہی،

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

جارج وائٹ فیلیڈ George Whitefield (1714۔1770) جو کہ مشہورِ زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تربیت یافتہ مبشرِ انجیل تھے، اُنہوں نے پہلی عظیم بیداری کے دوران وھیلز Wales، انگلستان، سکاٹ لینڈ اور امریکہ کے کھلے میدانوں میں بہت بڑے بڑے جمِ غفیروں کے سامنے مسلسل نئے جنم پر تبلیغ کی تھی۔ دوسرا واعظ جو اُنہوں نے دیا، جب وہ محض بائیس سال کے ایک نوجوان تھے، وہ اِسی تلاوت پر تھا، اور وہ اگست، 1737 میں شائع ہوا تھا۔ میں اب آپ کو وائٹ فیلڈ کے واعظ باعنوان ’’نئی تخلیق‘‘ میں سے ترمیم اور چھوٹی کی ہوئی نقل (میرے اپنے کچھ تبصروں کے ساتھ) پیش کروں گا (جارج وائٹ فیلڈ George Whitefield، واعظ Sermons، پائٹن اشاعت خانے، ایڈیشن 1994، جلد سوئم، صفحات 107۔118). اُن کی تلاوت تھی،

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

وائٹ فیلڈنے کہا کہ نئی تخلیق (نئے سِرے سے جنم) کا عقیدہ مسیحیت کے سب سے زیادہ اہم اور بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر ہماری نجات قائم ہے۔ یہی وہ نقطہ بھی ہے جس پر تمام فرقوں کے مسیحی مبشرانِ انجیل کہتے ہیں کہ وہ متفق ہیں۔ اِس کے باوجود نئے سِرے سے جنم پر شاذونادر تبلیغ کی جاتی ہے، اور آج بے شمار مبشرانِ انجیل نے اِس کا تجربہ نہیں کیا ہوا ہے۔ بہت سے ایسے جو اپنے آپ کو مسیحی کہلاتے ہیں اُنہوں نے تو یہاں تک کہ شاید ہی یہ بھی سُنا ہو کہ کوئی نئی تخلیق جیسی بات بھی ہے۔ لہٰذا، ہم اب اُسی افسوس ناک حالت میں ہیں جس میں گرجہ گھر اُس وقت تھے جب وائٹ فیلڈ نے تبلیغ کا آغاز کیا تھا۔

یہ سچ ہے کہ بے شمار لوگ ہمارے گرجہ گھروں میں کہتے ہیں کہ وہ بائبل پر یقین کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اُنہیں بتائیں کہ اُنہیں نئی تخلیق ہونا چاہیے، نیا جنم لینا چاہیے، اپنے ذہن کی نہایت اندرونی ترین ذہنی صلاحیتوں میں دوبارہ تازہ کرنا ہے اِس سے قبل کہ وہ بھرپور سچائی کے ساتھ مسیح کو ’’خُداوند‘‘ کہہ سکیں یا اُس کے خون کے ذریعے سے کوئی نجات کی اُمید رکھ سکیں؛ وہ نیکودیمس کے ساتھ چِلّانے کے لیے تیار ہیں، ’’یہ باتیں کیسے ہو سکتی ہیں؟‘‘ یا ایتھینیوں Athenians کے ساتھ، ’’یہ پُرجوش تقریر کرنے والا کیا کہے گا؟‘‘ اگر ہم گرجہ گھر کے ارکان کو بتائیں کہ وہ کھو گئے ہیں، اور کہ اُنہیں نئی تخلیق ہونا چاہیے، اُن میں سے زیادہ تر سوچیں گے ہم عجیب و غریب عقیدوں کی تبلیغ کر رہے ہیں، کیونکہ ہم اُنہیں نئے جنم اور مسیح کے بارے میں تبلیغ کرتے ہیں – جُزوی طور پر کیونکہ اُنہیں گرجہ گھر کے ارکان کھو دینے کا خوف ہے، اور یہاں تک کہ اِن میں سے کچھ مبلیغین نے تو خود نئی تخلیق کا تجربہ بھی نہیں کیا ہوا ہوتا ہے۔ اُن کے لیے، اور اُن کی جماعت میں ایک وسیع غیر تبدیل شُدہ لوگوں کے لیے، ہمیں پولوس رسول کے ساتھ مل کر کہنا چاہیے،

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

لیکن ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے، اگر کوئی آدمی مسیح میں نہیں ہے، تو وہ نیا مخلوق نہیں ہے، ایک حقیقی مسیحی نہیں ہے، بلکہ ایک کھویا ہوا گنہگار ہے جو جہنم کے ابدی شعلوں کے لیے جا رہا ہے!

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں ).

وائٹ فیلڈ کے واعظ کو جاری رکھتے ہوئے،

4۔ چہارم، انسان کے لیے میسح میں ہونے کی ضرورت۔

تلاوتِ کلام پاک کہتی ہے، ’’اگر کوئی آدمی مسیح میں ہے۔‘‘ اِ سکا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اِ س کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ آپ نے مسیح کے لیے ’’فیصلہ بنا لیا‘‘ ہوتا ہے! اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ آپ ’’آگے بڑھ چکے‘‘ ہیں اور بپتسمہ لے چُکے ہیں۔ لاکھوں بپتسمہ لے چکے ہیں جو فقط مسیحی ہیں – نام کے میسحی ہیں – لیکن ’’میسح میں‘‘ نہیں! اگر آپ ’’مسیح میں‘‘ نہیں ہیں، تو آخری فیصلے کے وقت وہ یہ کہہ کر آپ کو جہنم کے شعلوں میں جھونک دے گا،

’’اِس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، اور اُسے باہر دور اندھیرے میں ڈال دو جہاں وہ روتا اور دانت پیستا رہے گا‘‘ (متی 22:13).

’’مسیح میں‘‘ ہونے کا مطلب اُس کی ظاہری قبولیت سے زیادہ ہے۔ اُس میں ہونے کا مطلب اُس کے مصائب اور صلیب پر موت کے منفعت کو بانٹنا ہے۔ مسیح میں ہونے کا مطلب اُس کے لیے آنا ہے اور ایمان کے ذریعے سے پُراسرار طور پر اُس میں متحد ہونا ہے۔ مسیح میں ہونے کا مطلب ہے، ’’اُس نے ہمیں جب کہ ہم اپنے قصوروں کے باعث مردہ تھے مسیح کے ساتھ زندہ کیا۔ اُسی کے فضل سے تمہیں نجات ملی ہے۔ اُس نے ہمیں یسوع مسیح کے ساتھ زندہ کیا اور آسمانی مقاموں پر اُس کے ساتھ بٹھایا۔ اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے‘‘ (افسیوں 2:5، 6، 9). اگر آپ مسیح کے لیے کھینچے جا چُکے ہیں، اور ’’مسیح میں‘‘ ہیں، تو پھر آپ ایک نئی مخلوق ہیں۔ اگر آپ مسیح میں نہیں کھینچے گئے تو پھر آپ اب بھی ایک کھوئے ہوئے گنہگار ہیں۔ آپ کسی طرح بھی ایک نئی مخلوق نہیں ہیں۔

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

5۔ پنجم، آدمی کے لیے نئی مخلوق ہونے کا مطلب کیا ہے۔

تلاوت کہتی ہے، ’’اِس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17). یہ جسمانی تبدیلی نہیں ہے۔ نیکودیمس نے لاعلمی میں نئے جنم کے بارے میں اِس طرح سے سوچا تھا۔ اُس نے مسیح سے کہا، ’’اگر کوئی آدمی بوڑھا ہو تو وہ کس طرح دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ ممکن نہیں کہ وہ پھر سے اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو کر پیدا ہو؟‘‘ (یوحنا 3:4). اگر آپ ایسا کر بھی سکتے ہوں، تو یہ کیسے آپ کی نئی مخلوق بننے میں مدد کرے گا؟ چونکہ ’’جو بشر ہے وہ بشر سے ہی پیدا ہوتا ہے‘‘ (یوحنا 3:6) اِس کے بعد بھی آپ وہی گناہ میں گھرے ہوئے، مسخ شُدہ ہستی ہوں گے جو آپ اب ہیں۔

جی نہیں، ’’ایک نئی مخلوق‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کا دِل مکمل طور پر بدل گیا۔ سکوفیلڈ نے ’’مخلوق creature‘‘ لفظ کے ساتھ درمیانی یاداشت میں ’’r‘‘ کو یونانی لفظ ’’تخلیق [ابتدا] ‘‘کے ساتھ تشریح کی ہے۔ ’’اگر کوئی آدمی بھی مسیح میں ہے تو وہ نئی تخلیق ہے۔‘‘ اپنی روح یا باطن میں وہ اب بھی وہی آدمی ہے، لیکن ایک نیا دِل (وہ کسے پیار اور نفرت کرتا ہے) اور ایک نیا ذہن (وہ کیا سوچتا ہے) اُس میں تخلیق ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ داؤد نے دعا کی تھی،

’’ اے خدا! میرے اندر پاک دل پیدا کر‘‘ (زبور 51:10).

یا جیسا کہ خُدا نے حزقی ایل میں وعدہ کیا تھا،

’’میں تمہیں نیا دل بخشوں گا اور تمہارے اندر نئی رُوح ڈال دوں گا: میں تمہارے جسم میں سے تمہارا سنگین دل نکال کر تمہیں گوشین دل عطا کروں گا‘‘ (حزقی ایل 36:26).

یہ نئی تخلیق ہے! یہ نئے سِرے سے جنم ہے! یہ ہے جو آپ کو ’’ایک نئی مخلوق‘‘ بناتا ہے، ’’ایک نئی تخلیق بناتا ہے!

گنہگاروں کو نئے جنم کے بارے میں سمجھانا مشکل ہے۔ اُن کے لیے اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ جب تک خُدا تمہیں نئے سرے سے جنم عنایت نہیں کرتا تم اپنے گناہ کی سزا سے کبھی بچ نہیں پاؤ گے، اور تم خُدا کی بادشاہی میں کبھی داخل نہیں ہو پاؤ گے۔ مسیح نے کہا، ’’جب تک کوئی نئے سِرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا‘‘ (یوحنا 3:3). یہ رسول کے بیان کے کچھ ثبوت ہیں،

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

نئے سِرے سے پیدا ہونے کے ثبوت کے لیے پرانے عہد نامے میں سے کئی تلاوتوں کے حوالے دیئے جا سکتے ہیں، کس طرح زبور نویس خُدا سے گِڑگڑاتا ہے کہ اُسے ’’ایک پاک دِل‘‘ عطا کر، اور ’’اُس کے باطن میں از سرِ نو مستقیم روح ڈال دے‘‘ (زبور 51:10). کس طرح سے انبیاء نے لوگوں کو تنبیہہ کی کہ اُنہیں خُداوند اپنے خدا کی طرف پھرنے کے لیے ’’نئے دِلوں‘‘ کی ضرورت ہے۔

نئے عہد نامے میں مسیح نے یوحنا 3:3۔8 میں کافی طوالت کے ساتھ نئے سرے سے جنم کے بارے میں بتایا ہے۔ مسیح نے نئے جنم کی ضرورت کو بہت واضح کیا جب اُس نے کہا، ’’تمہیں نئے سِرے سے پیدا ہونا ضروری ہے‘‘ (یوحنا3:7). پولوس رسول نے بھی نئی تخلیق (نئے سِرے سے پیدا ہونا) کے بارے میں بتایا ہے جب اُس نے کہا ہمیں ’’زندہ‘‘ ہونا ہے (افسیوں 2:5)، اور جب اُس نے کہا، ’’تمہارے دِل و دماغ روحانی ہو جائیں‘‘ (افسیوں 4:23)، اور، دوبارہ جب اُس نے کہا ہم بچائے جاتے ہیں. . . نئی پیدائش کا غسل دے کر ہمیں اپنی پاک روح کے ذریعے سے نیا بنا دیا‘‘ (طیطُس 3:5). اگر بائبل میں اور کوئی آیات نہ ہوں تو میرے خیال میں صرف یہی تلاوت یہ ثابت کرنے کے لیے کہ آپ کو نیا جنم لینا ضروری ہے کافی ہونی چاہیے!

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘
       (2۔ کرنتھیوں 5:17).

یہ تمام کی تمام آیات دِل کی جامع اور حقیق تبدیلی کی اشد ضرورت کو ظاہر کرتی ہیں!

اِس کے باوجود ہمارے گرجہ گھروں میں لوگوں کے ہجوموں کے ہجوم دِل کی اِس تبدیلی کے بارے میں نا آشنا ہیں۔ اور یہ اُن کی تبدیلی اور نئے سرے سے جنم پر بہت کم (اگر کوئی ہیں) واعظ سُننے کا نتیجہ ہے۔ مسیح نے اُن کے بارے میں بتایا جو ’’اونچا سُننے لگے ہیں، اور اُنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھیں ہیں؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کی آنکھیں دیکھ لیں، اور وہ اپنے کانوں سے سُن لیں، اور اپنے دِل کے ساتھ سمجھ لیں، اور تبدیل ہو جائیں، اور میں اُنہیں شفا بخش دوں‘‘ (متی 13:15).

نئی تخلیق (نئے سِرے سے جنم) کی ضرورت کا ایک اور ثبوت آدمی کی گناہ کی حالت میں مکمل طور پر مسخ شُدہ حالت ہے۔ بائبل آدمی کے بارے میں گناہ کی حالت میں ’’ماں کے رحم میں پڑنے‘‘ اور پیدا ہونے کے بارے میں بتاتی ہے (زبور 51:5)؛ جیسے اُس میں کوئی نیکی بسی ہوئی نہیں ہے (رومیوں 7:18)، جیسے ’’جسمانی ہو، گناہ کی حالت میں بِکا ہوا ہو‘‘ (رومیوں 7:14) – جیسے جسمانی نیت خُدا کی مخالفت کرتی ہے (رومیوں 8:7) – جیسے ’’عقل تاریک ہو گئی ہے اور وہ اپنی سخت دِلی کے باعث جہالت میں گرفتار ہیں اور خُدا کی دی ہوئی زندگی میں اُن کا کوئی حصّہ نہیں ہے‘‘ (افسیوں 4:18). چونکہ بغیر نئی تخلیق کے آدمی ایسی ہولناک حالت میں ہیں، تو کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایسا غلیظ، بدکار، آلودہ، اور تباہ حال تبدیل ہوئے بغیر ہی پاک اور خالص خُدا کے ساتھ رہ سکتا ہے؟ جی نہیں، ہم شاید ایسا سوچ سکتے ہیں کہ نور کا باہمی رابطہ اندھیرے کے ساتھ ہو سکتا ہے، یا مسیح شیطان کے ساتھ رہ سکتا ہے! آپ کی کھوئی ہوئی اور گناہ سے بھرپور حالت شک سے بالا تر ہو کر یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ مسیح میں ایک نئی مخلوق بنیں یا آپ کبھی بھی خُدا کے ساتھ سکون میں نہیں رہیں گے، نا ہی آپ کبھی یہ اُمید رکھ سکیں گے کہ جب آپ وفات پائیں آپ خُدا کے پاس جائیں اور آسمانوں میں ہوں۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ نئی مخلوق بنیں، یا آپ اپنے گناہوں میں مریں گے۔

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وہ گناہ سے بھرے ذہنوں اور دِلوں کے ساتھ عرش کے لیے جا سکتے ہیں، اور اُن کے مرنے کے بعد اچانک وہاں لطف اندوز ہونگے۔ اور وہ شاید ایسا کرتے اگر سچی جنت مسلمانوں کی بہشت جیسی ہوتی جہاں، وہ کہتے ہیں، کوئی بھی بے شمار گناہ سے بھرپور خوشیوں میں شریک ہو سکتا ہے۔ لیکن چونکہ حقیقی عرش کی خوشیاں صرف روحانی ہیں، اور کوئی بھی گندی شے ممکن ہی نہیں کہ اِس میں داخل ہو پائے، اِس لیے یہ اشد ضروری ہے کہ آپ تبدیل ہوں۔ آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی مسخ شدہ طبیعت کے نئے پن کا مکمل تجربہ کریں، اِس سے قبل کہ آپ اُن عرشِ بریں کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو پائیں۔ اِسی لیے مسیح نے نہیں کہا تھا، ’’[جب تک] ایک آدمی دوبارہ نئے سِرے سے پیدا نہ ہو وہ نہیں ہو گا‘‘ – بلکہ، اس کے بجائے، اُس نے کہا، [جب تک] ایک آدمی نئے سِرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی نہیں دیکھ سکتا‘‘ (یوحنا 3:3، 5). جب تک آپ کا دِل نئے جنم کے ذریعے سے تبدیل نہیں ہو جاتا آپ ’’خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتے‘‘ (یوحنا 3:5).

جو انسان بہرہ ہے وہ سب سے پیاری ترین موسیقی سے کیا لطف اندوز ہو سکتا ہے؟ ایک اندھے آدمی کے لیے سب سے خوبصورت ترین تصویر کیا خوشی لا سکتی ہے؟ کیا ایک آدمی بغیر ذائقہ محسوس کر سکنے والے اعضا جو اُس کے منہ میں کام کرتے ہیں اُن کے بغیر ایک اچھے کھانے سے خوشی پا سکتا ہے؟ کیا ایک غلیظ سؤر کو ایک عمدہ پھولوں کے باغ سے خوش کیا جا سکتا ہے؟ یقیناً بالکل نہیں! اُن میں سے ہر کسی کو خود اپنی طبیعت میں تبدیل ہونا ہوگا تاکہ اِن نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنے۔ اور ایسا ہی آپ کے نفس کے ساتھ بھی ہے۔ آپ کے مرنے کے بعد آپ کی روح تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ اگر آپ کا نفس یہاں زمین پر خُدا کے ساتھ پُرمسرت ہوتا ہے، تو وہ خُدا کے ساتھ عرش پر بھی خوش ہوگا۔ لیکن اگر آپ کے پاس خُدا کی خوشی نہیں ہے، اور اب گرجہ گھر میں ہونے پر محبت نہیں ہوتی ہے، تو جب آپ مریں گے کچھ بھی آپ کو تبدیل نہیں کر سکے گا۔ اگر آپ تبدیل نہیں ہوتے ہیں تاکہ آپ اب گرجہ گھر میں خوشی حاصل کر سکیں، تو آپ مرنے کے بعد عرش بریں میں بھی خوش نہیں ہو پائیں گے۔ اگر آپ نئے سِرے سے پیدا نہیں ہوتے ہیں تو آپ کے لیے ایک ہی جگہ ہو گی – اور وہ ہے جہنم۔

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

نیا جنم خُدا کی روح کے ذریعے سے لایا جاتا ہے۔ یسوع نے کہا، جب تک کوئی انسان روح . . . سے پیدا نہ ہو، وہ خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا’’ (یوحنا 3:5). کچھ لوگ، جیسے کہ میری اپنی بیوی ہیں، یکدم تبدیل ہو جاتے ہیں، لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ خُدا کی روح نئی تخلیق لانے سے یہ کرتی ہے کہ پہلے ایک شخص کو کسی ایسے بڑے گناہ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے جو اُس سے سرزد ہوا ہو، ایک ایسا گناہ جو وہ نہیں چاہے گا کہ اُس کی ماں کو بھی پتہ چلے، اور یقیناً خُدا کو بھی نہیں! اِس بڑے گناہ کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ وہ پھر اپنی زندگی میں ہوئے دوسرے گناہوں کے بارے میں سوچنے پر گامزن ہوتا ہے۔ پھر اُسے یہ سوچنے کے لیے راہنمائی ملتی ہے، ’’میں کیسے ایسی گناہ سے بھرپور باتیں کر پایا ہوں جب کہ میں قدرت کے ذریعے سے ایک گنہگار تھا؟‘‘ پھر خُدا کی روح اُسے دکھاتی ہے کہ وہ ہے، درحقیقت، باطن تک گنہگار، گنہگار پیدا ہوا، اور اپنے تمام دل کے ساتھ گناہ سے بھرپور ہے۔ وہ پھر شاید اپنی راہیں درست کرنے کی کوشش کرے گا اور ایک اچھا شخص بننا چاہے گا۔ لیکن، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنی شدید کوشش کرے، اُسے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود اپنا دِل تبدیل نہیں کر سکتا ہے۔ وہ اپنے گناہ سے چھٹکارہ پانے کے لیے نااُمید ہو جاتا ہے۔ کچھ تو یہاں تک کہ اپنے گناہوں پر رونا شروع کر دیتے ہیں (جیسے کہ لوتھرLuther، جان بنیعن John Bunyan، وائٹ فیلڈ – اور تجدید نو کے دور میں اور بہت سے دوسرے). وہ چلّاتا ہے، ’’ہائے میں کیسا بدبخت آدمی ہوں! اِس موت کے بدن سے مجھے کون چُھڑائے گا؟‘‘ (رومیوں 7:24). اب خُدا کی روح اُسے دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہونے کے لیے تیار کر چکی ہے۔ اب اُسے اپنے لیے مسیح کی ضرورت کو محسوس کرنے کے بارے میں پتہ چل گیا ہے۔ اب وہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی اور نہیں ماسوائے یسوع کے جو اُسے تبدیل کر سکتا ہے۔ وہ اب محسوس کرتا ہے کہ صرف یسوع کا خون ہی اُس کے گناہ پاک صاف کر سکتا ہے۔ اب اُسے پتہ چلتا ہے کہ وہ مسیح کے پاس آنے کے لائق ہو گیا ہے۔ جب مسیح کہتا ہے، ’’اے محنت کشو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو! میرے پاس آؤ. . . ‘‘ (متی 11:28) اُسےپتہ چلتا ہے کہ وہ ایسا خُدا کے فضل کے ذریعے سے کر سکتا ہے۔ خُدا کی روح اُسے مسیح کے پاس آنے کے لائق بناتی ہے، اور وہ نئے سرِے سے پیدا ہوتا ہے۔ اُس کا دِل تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ مسیح یسوع میں ایک نئی تخلیق ہوتا ہے!

’’اس لیے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے‘‘ (2۔ کرنتھیوں 5:17).

اب وہ بوڑھے جان نیوٹن کے ساتھ خوشی سے گا سکتا ہے،

حیرت انگیز فضل! کس قدر میٹھی آواز، جس نے مجھ جیسے تباہ حال کو بچایا!
میں جو کبھی کھو گیا تھا، لیکن اب مل گیا ہوں؛ اندھا تھا لیکن اب دیکھتا ہوں۔

یہ فضل ہی تھا جس نے میرے دِل کو خوف کرنا سیکھایا، اور فضل نے ہی میرے تمام خوف ختم کیے؛
کس قدر قیمتی وہ فضل ظاہر ہوا تھا اُس لمحے میں جب میں نے پہلی مرتبہ یقین کیا تھا!
(’’حیرت انگیز فضلAmazing Grace ‘‘ شاعر جان نیوٹن John Newton ، 1725۔1807).

ہم دعا کرتے ہیں کہ آپ جلد ہی خُدا باپ کے فضل سے دوبارہ نئے سرے سے پیدا ہوں گے، مسیح خُدا بیٹا کے خون اور موت میں سے گزر کر، اور پاک روح کی مجرم قرار دینے والی قوت اور اپنے جانب کھینچنے والی قوت کے ذریعے سے، ایک خُدا تین ہستیوں میں! آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے تلاوتِ کلام پاک کی تھی ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نے Dr. Kreighton L. Chan یوحنا 3:1۔7 .
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے
’’تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا چاہیے Ye Must Be Born Again‘‘ (شاعر ولیم
ٹی. سلیپر William T. Sleeper، 1819۔1904).

لُبِ لُباب

گناہ میں گرے ہوے آدمی کے تباہ ہونے اور نئی تخلیق پر

ON THE RUIN AND REGENERATION OF FALLEN MAN

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’بشر سے تو بشر ہی پیدا ہوتا ہے؛ اور مگر جو روح سے پیدا ہوتا ہے وہ روح ہے۔ حیران نہ ہوکہ میں نے تجھ سے کہا کہ تُم سب کو نئے سرے سے پیدا ہونا لازمی ہے‘‘ (یوحنا 3:6۔7).

I.   اوّل، نسلِ انسانی کی اصلی حالت، پیدائش 1:27؛ واعظ کی کتاب 7:29؛
پیدائش 1:31؛ افسیوں 4:24؛ 1۔کرنتھیوں 15:45 .

II.  دوئم، نوعِ انسانی کا وراثتاً گناہ میں گرنا، پیدائش 2:16۔17؛ رومیوں 5:12؛ 6:23؛ 5:19 .

III. نسلِ انسانی کی موجودہ حالت، پیدائش 5:3؛ افسیوں 2:3؛ 4:18؛
2۔ تواریخ 6:36؛ رومیوں 3:9۔19؛ افسیوں 2:5؛ یوحنا 3:7؛
2۔ تواریخ 5:17 .

IV. چہارم، انسان کے لیے مسیح میں ہونے کے ضرورت، متی 22:13؛ افسیوں 2:5، 6، 9 .

V.  پنجم، آدمی کے لیے نئی مخلوق ہونے کا مطلب کیا ہے، یوحنا 3:4، 6؛
زبور 51:10؛ حزقی ایل 36:26؛ یوحنا 3:3؛ زبور 51:10؛
یوحنا 3:3۔8، 7؛ افسیوں 2:5؛ 4:23؛ طیطُس 3:5؛ متی 13:15؛
زبور 51:5؛ رومیوں 7:18، 14؛ 8:7؛ افسیوں 4:18؛ یوحنا 3:3، 5؛
رومیوں 7:24؛ متی 11:28 .