Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


ظلم یا مصیبت کے ذریعے سے تبدیل ہو جانا!

TRANSFORMED THROUGH TRIBULATION!
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خداوند کے دِن کی شام، 20 فروری، 2011

’’جو بیج پتھریلی زمین پر گِرا وہ اُس شخص کی مانند ہے جو کلام کو سُنتے ہی خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔ لیکن وہ اُس میں جڑ نہیں پکڑنے پاتا اور دیرپا ثابت نہیں ہوتا [عارضی طور پر ہوتا ہے] کیونکہ جب کلام کے سبب سے ظلم یا مصیبت آتی ہے تو وہ فوراً گِر جاتا ہے‘‘ (متی 13: 20-21)۔

یہ پیغام گزشتہ اتوار کی صبح کے واعظ کا دوسرا حصہ ہے، ’’حقیقی امتحان!‘‘ میں مصیبت کے موضوع پر صحائف سے تین خیالات نکالنے جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر آر سی ایچ لینسکی Dr. R. C. H. Lenski نے کہا کہ متی 13: 20-21 سے مراد وہ شخص ہے جو گرجا گھر آتا ہے اور منادی سنتا ہے۔ یہ وہی ہے جو کلام کو سنتا ہے اور فوراً اسے خوشی سے قبول کرتا ہے، جس سے آپ اس سے بڑی چیزوں کی توقع کرتے ہیں۔ لیکن شروع سے ہی کچھ غلط ہے: یہ آدمی ’اپنے اندر کوئی جڑ نہیں رکھتا‘‘(آر سی ایچ لینسکی Dr. R. C. H. Lenski، ٹی ایچ ڈیTh.D.، مقدس متی کی انجیل کی تفسیر The Interpretation of St. Matthew’s Gospel، آگسبرگ پبلشنگ ہاؤس Augsburg Publishing House، 1964 ایڈیشن، صفحہ 520، متی 13: 20-21 پر غور طلب بات)۔ یہ وہ شخص ہے جو گرجا گھر آتا ہے، واعظوں کو سن کر خوش ہوتا ہے لیکن صرف گرجا گھر میں عارضی طور پر رہتا ہے۔ جلد ہی یہ شخص ناراض ہو جاتا ہے اور ٹھوکر کھاتا ہے، مرتد ہو جاتا ہے، گر جاتا ہے، ’’اور اس طرح [تھوڑی دیر تک] برداشت کرتا ہے‘‘ (مرقس 4:17)۔ اس شخص کے گرجا گھر کو چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ’’ظلم یا مصیبت‘‘ سے نہیں گزرے گا۔

ہم نئے عہد نامے میں لفظ ’’مصیبت‘‘ کے تین استعمالات کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ ان آیات میں سے ہر ایک میں ’’تھلیپسس thlipsis‘‘ وہ یونانی لفظ ہے۔ سٹرانگ ایگزاسٹیو کنکورڈینسStrong's Exhaustive Concordance کا کہنا ہے کہ لفظ ’’thlipsis‘‘ کا مطلب ہے ’’دباؤ، تکلیف، مصیبت‘‘ (سٹرانگ Strong #2347)۔ آئیے ان تین صحیفوں کو دیکھیں جہاں لفظ ’’مصیبت‘‘ ظاہر ہوتا ہے۔

I۔ پہلا، وہ جو مصائب کی وجہ سے ناراض ہوئے اور گرجا گھر چھوڑ کر چلے گئے۔

مہربانی سے آیت 21 کو باآوازِ بُلند پڑھیں،

’’لیکن وہ اُس میں جڑ نہیں پکڑنے پاتا اور دیرپا ثابت نہیں ہوتا [عارضی طور پر ہوتا ہے] کیونکہ جب کلام کے سبب سے ظلم یا مصیبت آتی ہے تو وہ فوراً گِر جاتا ہے‘‘(متی 13: 21)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو واعظوں میں مسیح کے بارے میں سُنتے ہیں۔ وہ جب پہلے مرتبہ خوشخبری سُنتے ہیں تو خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اُن کی ’’اپنی جڑیں نہیں ہوتی ہیں‘‘ (مرقس4:17)۔ ڈاکٹر گِل نے کہا، ’’اِس میں دِل سے کوئی کام نہیں ہے، صرف [نظریاتی خیالات] اور چمکدار [جذبات]؛ ان میں فضل کی کوئی جڑ نہیں‘‘ (جان گِل، ڈی ڈی John Gill, D.D.، نئے عہد نامے کی ایک تفسیرAn Exposition of the New Testament، دی بپٹسٹ سٹینڈرڈ بیئرر The Baptist Standard Bearer، دوبارہ اشاعت 1989، جلد اوّل، صفحہ 400؛ مرقس4:17 پر غور طلب بات)۔ یہ لوگ [مسیح میں] ’’جڑ پکڑے اور تعمیر ہوتے ہوئے نہیں ہیں،‘‘ (کلسیوں2:7)۔ ڈاکٹر گل نے کہا، ’’اس کی اپنی ذات میں اور نا ہی مسیح میں جڑ ہوتی ہے‘‘ (ibid. ، صفحہ 147؛ متی 13:21 پر غور طلب بات)۔ دوسرے لفظوں میں اِس قسم کی ہستی کبھی بھی مسیح کے پاس نہیں آئی ہوتی، اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئی ہوتی۔ اُسے صرف ایک جذباتی ’’خوشی‘‘ گرجا گھر میں نئے دوستوں کے ساتھ ہونے سے ہوتی ہے، حمدوثنا کے گانے گانے سے، تبلیغ سننے سے، اور کھانے اور رفاقت سے لطف اندوز ہونے سے۔ لیکن اُس نے کبھی بھی یسوع کی کوئی حقیقی ضرورت محسوس نہیں کی۔

پھر، ایک وقت کے بعد، وہ ’’ظلم یا مصیبت‘‘ محسوس کرتا ہے۔ یاد رکھیں کہ لفظ ’’مصیبت‘‘ یونانی لفظ سے ہے جس کا مطلب ہے ’’دباؤ، تکلیف اور پریشانی۔‘‘ کچھ ایسا ہوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ پریشان یا دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات وہ اصل میں انتہائی الفاظ ’’دباؤ‘‘ یا ’’مصیبت‘‘ استعمال کریں گے۔ وہ کہیں گے، ’’میں اِجلاسوں میں آنے کے لیے ’دباؤ‘ محسوس کرتا ہوں‘‘، یا ’’ہر ہفتے آنا بہت زیادہ ’پریشانی‘ ہے۔‘‘ جب وہ اس دباؤ کو محسوس کرتے ہیں، تو یہ وہ مصیبت ہے جس سے وہ نمٹنے سے انکار کرتے ہیں۔ تو، وہ دیر پا ثابت نہیں ہوتا: کیونکہ جب مصیبت ... پیدا ہوتی ہے ... تو وہ گِر جاتا ہے‘‘ (متی 13:21) لوقا کی انجیل میں مزید کہا گیا ہے، ’’اور آزمائش کے وقت گر جاتے ہیں‘‘ (لوقا 8:13)۔ ہر ہفتےمحض آنے کے احساس کا محض ’’دباؤ‘‘ ہی ان کو آزماتا ہے، اور وہ گر جاتے ہیں، اپنا گرجا گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

’’اور اَسی طرح بعض لوگ اُس پتھریلی زمین کی طرح ہیں جس پر بیج گرتا ہے؛ وہ خدا کے کلام کو سُنتے ہی قبول کر لیتے ہیں۔ مگر وہ کلام اُن میں جڑ نہیں پکڑنے پاتا۔ چنانچہ وہ کُچھ دِنوں تک ہی قائم رہتے ہیں …‘‘ (مرقس4:16-17)۔

ڈاکٹر گل نے کہا، وہ انجیل کے سننے والوں اور پروفیسرز کو تھوڑی مدت تک جاری رکھتے ہیں‘‘ (ibid. ، صفحہ 400) چونکہ مسیح ان کے دلوں میں جڑ نہیں پکڑتا ہے وہ اپنے گرجا گھر میں زیادہ دیر نہیں رہیں گے۔ وہ یقینی طور پر اس گرجا گھر کے عمر بھر کے ممبر نہیں بنیں گے! وہ ہوں گے جسے سپرجیئن کہتے ہیں، ’’گزرگاہ کے پرندے جو کہیں گھونسلے نہیں بناتے۔‘‘ وہ صرف اپنے گرجا گھر میں عارضی طور پر قائم رہیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ میں اب تقریبا53 سال سے مذہبی خدمت یعنی مِنسٹری میں ہوں۔ میں جتنا بوڑھا ہوتا جاتا ہوں مجھے اتنا ہی یقین ہوتا جاتا ہے کہ تقریباً ہر کوئی جو اپنے گرجا گھر کو چھوڑتا ہے ایسا ہی کرتا ہے کیونکہ وہ غیر تبدیل شدہ ہیں۔ یوحنا رسول نے کہا،

’’یہ لوگ ہم ہی میں سے نکلے ہیں لیکن دِل سے ہمارے ساتھ نہیں تھے، اگر ہوتے تو ہمارے ساتھ ہی رہتے…‘‘ (1 یوحنا2:19)۔

1یوحنا2:19 پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر میگی Dr. McGee نے کہا،

یوحنا کہتا ہے کہ جس طریقے سے آپ بتا سکتے ہیں کہ آیا [کسی کو مسیح میں ایمان دِلا کر تبدیل کیا گیا] وہ یہ ہے کہ بالآخر وہ بندہ [گرجا گھر] کو چھوڑ دے گا اگر وہ خدا کا بچہ نہیں ہے (جے ورنن میگیJ. Vernon McGee،Th.D. ، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلشرز، 1983، جلد پنجم، صفحہ 777؛ 1یوحنا 2:19 پر غور طلب بات)۔

ہفتہ کے دن گرجا گھر میں آنے اور انجیل بشارت پر جانے کی ہلکی سی ’’مصیبت‘‘ کافی ’’دباؤ‘‘ اور ’’مصیبت‘‘ ہو گی جو اسے ’’ناراض‘‘ کرے گی – مصیبت کو بہت زیادہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر گل نے کہا، ’’جیسے ہی ان پر کوئی چھوٹی سی مصیبت آتی ہے ... ایسے سننے والے ٹھوکر کھاتے ہیں [کیونکہ وہ] کسی چیز کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے، یا کسی بھی چیز کو برداشت نہیں کر سکتے‘‘ (ibid.) ایک چینی لڑکی نے چند سال قبل گرجا گھر چھوڑ دیا کیونکہ اس نے کہا تھا کہ ہفتہ کی شام انجیلی بشارت کے ’’کام پر جانا ضرورت سے زیادہ کام تھا۔‘‘ ایک اور چینی لڑکی چھوڑ کر چلی گئی کیونکہ وہ ایک اضافی کالج کی کلاس لینا چاہتی تھی جس کے لیے اسے گریجویٹ ہونے کی بھی ضرورت نہیں تھی! اس نے کہا، ’’میں صرف اسے لینا چاہتی ہوں،‘‘ اور اسی طرح، وہ گرجا گھر چھوڑ گئی۔ ایک چینی آدمی اپنے چچا کے ساتھ ڈنر پر باہر جانے کے لیے چلا گیا – حالانکہ وہ اس سے پہلے کی رات، آسانی سے ڈنر کا اہتمام کر سکتا تھا! چنانچہ اس نے ڈنر کی تاریخ تبدیل کرنے کے بجائے گرجا گھر چھوڑ دیا! جیسا کہ ڈاکٹر گل نے کہا، وہ ’’کسی چیز کا نقصان برداشت نہیں کر سکتے، نہ ہی کسی چیز کو برداشت کر سکتے ہیں ... جیسے ہی ان پر کوئی چھوٹی سی مصیبت آتی ہے [وہ] ٹھوکر کھاتے ہیں ...‘‘ آپ دیکھتے ہیں کہ یہ حقیقی امتحان ہے! یہ وہ نہیں ہے جو آپ بائبل سے سیکھتے ہیں۔ یہ وہ نہیں ہے کہ آپ تفتیشی کمرے میں کیا الفاظ کہتے ہیں۔ حقیقی امتحان یہ ہے - کیا آپ گرجہ گھر آتے رہیں گے چاہے کچھ بھی ہو۔ کیا آپ اتوار کی صبح اور شام آتے رہیں گے اور ہفتہ کو انجیلی بشارت کے لیے؟ کیا آپ آتے رہیں گے ’’جب خداوند کے کلام کی وجہ سے مصیبت یا ظلم و ستم پیدا ہوتا ہے‘‘؟ کیا آپ اس وقت تک آتے رہیں گے جب تک کہ آپ اچھی طرح مسیح میں ایمان لا کر تبدیل نہ ہو جائیں-اور پھر اپنے مقامی گرجا گھر کے تاحیات رکن بن جائیں؟ یہی حقیقی امتحان ہے۔

II۔ دوسرا، وہ جو خداوند کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے مصیبت میں سے گزرتے ہیں۔

مہربانی سے کھڑے ہوں اور اعمال14:22 باآوازِ بُلند پڑھیں۔

’’وہ شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور اُنہیں نصحیت دیتے تھے کہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہو اور کہتے تھے کہ خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے بہت سے مصیبتوں کا سامنا کرنا لازم ہے‘‘ (اعمال14:22)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

جس لفظ نے یہاں پر ’’مصیبتوں‘‘ کا ترجمہ کیا ہے بالکل وہی لفظ ہے جسے ہم نے متی13:21 میں دیکھا تھا۔ اُس لفظ ’’تھلیپسیسthlipsis‘‘ کا مطلب ہوتا ہے ’’دباؤ، ناراضگی اور مصیبت‘‘ (سٹرانگ # 2347)۔ پولوس رسول کو تجربہ سے معلوم تھا کہ ایک مسیحی کے زندگی میں دباؤ، ناراضگی اور مصیبت ہوتی ہی ہے۔

پولوس کو لُسترہ کے شہر میں خوشخبری کی منادی کرنے کے لیے سنگسار کیا جا چکا تھا۔ اُس کے دشمنوں نے اُس کے پتھروں کے ایک ڈھیر کے نیچے یہ ’’خیال کرتے ہوئے کہ وہ مر چکا تھا‘‘ چھوڑ دیا تھا (اعمال14:19)۔ لیکن، خداوند کے فضل اور قوت کے وسیلے سے، ’’وہ اُٹھ کھڑا ہوا… اور اگلے روز برنباس کے ساتھ دربے شہر کے لیے روانہ ہو گیا تھا‘‘ (اعمال14:20)۔ جب پولوس دُربے پہنچا تو اُس نے اُن لوگوں سے باتیں کیں جنہوں نے مسیحی ہونے میں دلچسپی کا اِظہار کیا تھا، ’’اُن کا ایمان میں قائم رہنے کے لیے جوش بڑھایا تھا اور کہ ہمیں خداوند کے بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے بہت سے مصیبتوں کا سامنا کرنا لازم ہے‘‘ (اعمال14:22)۔ پولوس نے کہا، ’’ہمیں بہت [دباؤ، ناراضگی اور مصیبتوں] کا سامنا کر کے خداوند کی بادشاہی میں داخل ہونا ہے۔‘‘

ڈاکٹر گل نے کہا کہ چرچ میں داخل ہونے سے تعلق رکھتے ہوئے مصیبت آتی ہے اور مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی سے تعلق رکھتے ہوئے مصیبت آتی ہے، ’’دونوں باطن سے بھی، اور دِل کی بدکاری اور بے اعتقادی سے بھی، اور باہر سے بھی، شیطان کی آزمائشوں سے اور انسانوں کی بدکاری اور توہین سے، اور یہاں تک کہ دوستوں اور رشتے داروں سے‘‘ (جان گِل، ڈی ڈی John Gill، D.D.، ibid.، جلد دوئم، صفحہ 279؛ اعمال14:22 پر غور طلب بات)۔ ’’ہمیں بہت سی مصیبتوں کے ذریعے خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا چاہیے‘‘ (اعمال 14:22)

یہی وجہ ہے کہ مسیح نے کہا، ’’اندر داخل ہونے کی کوشش کرو‘‘ (لوقا13:24)۔ ایک اندرونی جدوجہد ہوتی ہے جب ایک ہستی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوتی ہے۔ یہ ’’شیطان کی آزمائشوں‘‘ اور دِل کی بدکاری اور بے اعتقادی‘‘ سے اُبھرتی ہے۔

عموماً ہمیں پتا چلتا ہے کہ حقیقی تبدیلیاں آسانی سے نہیں آتی ہیں۔ شیطان ہمیشہ وہیں ہوتا ہے، ذہن میں جھوٹے خیالات ڈالتا ہے، آپ کو جدوجہد کرنے سے روکنے کے لیے آزمائش کھڑی کرتا ہے، آپ کو گرجا گھر چھوڑنے کے لیے آزماتا ہے، آپ کو کہتا ہے کہ آپ کا معاملہ ایک بیکار معاملہ ہے، یا کہ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے کیونکہ آپ ’’اتنے تو بُرے نہیں‘‘ ہیں، اور دوسرے جھوٹے تصورات اور آزمائشیں۔ پھر یہاں وہ دباؤ، ناراضگی اور مصیبت ہوتی ہے جس سے زیادہ تر لوگ خود اپنے دِلوں کی ’’بدکاری اور بے اعتقادی‘‘ سے گزرتے ہیں۔ خود آپ کا اپنا دِل اِس قدر مسخ شُدہ ہوتا ہے کہ بائبل کہتی ہے، ’’جو خود اپنے دِل پر بھروسہ کرتا ہے احمق ہوتا ہے‘‘ (امثال28:26)۔ جب خداوند آپ کے دِل کے ساتھ نمٹ رہا ہوتا ہے تو آپ غالباً داؤد کی مانند محسوس کرتے ہیں، جس نے کہا،

’’جب میں خاموش رہا تو دِن بھر کے کراہنے سے میری ہڈیاں گُھل گئیں کیونکہ رات دِن تیرا ہاتھ مجھے بوجھ سے دبائے رہا اور میری قوت زائل ہو گئی۔ جیسی گرمیوں کے خشک موسم میں ہو جاتی ہے‘‘ (زبور 32: 3-4)

جب داؤد خاموش رہا تو اس کی ہڈیوں میں درد ہوا۔ وہ سارا دن کراہتا رہا۔ دن رات خدا کا ہاتھ اس پر بھاری تھا۔ اس نے اندر سے سوکھا ہوا محسوس کیا۔ یہ کیسی کسی ایک ایسے بندے کی تصویر ہے جو گناہ کی سزایابی کے تحت ہے، خدا کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے، مسیح میں داخل ہونے کی کوشش کی تکلیف میں! پہلی عظیم بیداری کے دوران، جوناتھن ایڈورڈز نے بہت سے لوگوں کو گناہ کی سزایابی کے تحت روتے اور واویلہ کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ اکثر چین میں اس وقت جاری حیاتِ نو کے دوران ہوتا ہے۔ اوہ، ہم کس قدر زیادہ دعا مانگتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ آپ پر بھاری ہو! ہم کس قدر زیادہ دعا مانگتے ہیں کہ خدا آپ کو اپنی جدوجہد کے ذریعے مسیح کی طرف کھینچ لے!

ڈاکٹر جے گریشام میکحن Dr. J. Gresham Machen نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب مسیحیت اور لبرل ازم Christianity and Liberalism میں کہا،

گناہ کی سزایابی کے بغیر یسوع کی انفرادیت کی کوئی تعریف نہیں ہو سکتی ... اور گناہ کی سزایابی کے بغیر، [یسوع میں] مخلصی کی خوشخبری ایک بیکار کہانی معلوم ہوتی ہے ... سچی سزایابی [پیش کرتی ہے] کسی کی اپنی کھوئی ہوئی حالت کو گہرائی سے سمجھنا، [کسی کے اپنے ضمیر کی] روشنی کو منور کرنا ... ، جب ایک آدمی اس تجربے سے گزرتا ہے، تو وہ اپنے سابقہ اندھے پن پر حیران ہوتا ہے (جے گریشام میکحن، پی ایچ ڈی، مسیحیت اور لبرل ازم Christianity and Liberalism، عئیرڈ مینز پبلشنگ کمپنی، 1990 کی دوبارہ طباعت، صفحات 105-106)۔

ہم کس قدر دعا مانگتے ہیں کہ خداوند آپ کو سزایابی کے ’’دباؤ، ناراضگی اور مصیبت‘‘ کے ذریعے سے نجات دہندہ یسوع مسیح کی جانب کھینچ لائے گا۔ ہم کس قدر دعا مانگتے ہیں کہ آپ مسیح کے پاس آنے کے لیے ’’داخل ہونے کی کوشش‘‘ کریں گے (لوقا13:24)! ہم کس قدر دعا مانگتے ہیں کہ خداوند آپ کو ایک حقیقی تبدیلی بخشے گا!

III۔ تیسرا، وہ جو مسیحی زندگی کے مصائب میں سے گرزنے کے وسیلے سے تبدیل ہو جاتے ہیں۔

براہ کرم کھڑے ہو کر رومیوں 5: 3-5 کو بلند آواز سے پڑھیں۔

’’اور صرف یہی نہیں ہم اپنی مصیبتوں میں بھی خوش ہوتے ہیں: کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مصیبتوں سے صبر پیدا ہوتا ہے؛ اور صبر سے مستقل مزاجی اور مستقل مزاجی سے اُمید پیدا ہوتی ہے؛ ایسی اُمید ہمیں مایوس نہیں کرتی کیونکہ جو پاک روح ہمیں بخشا گیا ہے اُس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دِلوں میں ڈالی گئی ہے‘‘ (رومیوں 5: 3-5)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

یہاں پر وہ لفظ دوبارہ آ جاتا ہے – ’’مصیبتtribulation۔‘‘ یہ یونانی لفظ ’’تھلیپسیسthlipsis‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے – جس کا مطلب ’’دباؤ، ناراضگی اور مصیبت‘‘ ہوتا ہے۔ صرف ابھی، رومیوں5: 3 تا 5 آیات میں، اِس کا اِطلاق اُن لوگوں پر ہوتا ہے جو پہلے سے ہی مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو چکے ہیں۔

جوں جوں ہم مسیحی زندگی میں بڑھتے جاتے ہیں ہم دُکھوں میں خوش رہنا سیکھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر میگی Dr. McGee نے کہا، ’’دوسرے لفظوں میں، ہم مشکلوں میں خوش ہوتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ مشکل سے صبر پیدا ہوتا ہے – صبر خودبخود تو آتا نہیں ہے – اور صبر سے مستقل مزاجی اور مستقل مزاجی سے اُمید… دوسرے لفظوں میں، [ایک مسیحی کی] زندگی میں بہتری لانے کے لیے مشکل لانی پڑتی ہے‘‘ (جے ورنن میگی J. Vernon McGee، ٹی ایچ۔ ڈی۔ Th. D.، ibid.، جلد چہارم، صفحہ 675، رومیوں5 باب 3 تا 5 آیات پر غور طلب بات)۔

آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزر کر مسیحی صبر کرنے والے، تجربہ کار، امید مند بن جاتے ہیں اور روح القدس کے ذریعے ان کے دلوں میں خدا کی محبت ڈالی جاتی ہے۔ ’’دباؤ، ناراضگی اور مصیبت‘‘ سے گزر کر مسیحی، ’’[اپنے] ذہن کی تجدید سے بدل جاتے ہیں‘‘ (رومیوں 12: 2)۔

میں جن عظیم مسیحیوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ان میں سے ایک پادری رچرڈ ورمبرانڈ (1909-2001) تھے۔ اُنہوں نے انجیل کی تبلیغ کے لیے رومانیہ کی کمیونسٹ جیل میں چودہ سال گزارے۔ ایک دن جب وہ جیل میں تھے تو اُنہوں نے سنا کہ اُن کی بیوی کو بھی انجیل کے لیے گرفتار کیا گیا تھا اور قید کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے کہا، ’’میں اپنی بیوی کو اس طرح کی تکلیفوں سے دوچار ہونے کے خیال کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ دنوں تک میں نے کسی سے بات نہیں کی۔ پھر ایک صبح جیل کے صحن میں، میں نے ایک بوڑھے پادری کو ایک مہربان چہرے کے ساتھ دیکھا۔ ’شاید وہ میری مدد کر سکتا ہے،‘ میں نے سوچا۔ میں اس سے بات کرنے گیا۔ پادری کے پاس میرے مقابلے میں ماتم کرنے کی زیادہ وجہ تھی۔ اس کی بیٹی اور بیٹا جیل میں تھے۔ ایک اور بیٹے نے مسیح کی پیروی نہیں کی۔ اس کے پوتے کو سکول سے نکال دیا گیا تھا۔ لیکن پادری میری طرح اداس نہیں لگتا تھا۔ اس نے اپنے دن دوسروں کو خوش کرنے میں گزارے۔ ’’گڈ مارننگ‘‘ کہنے کے بجائے، اس نے سب کو سلام کرتے ہوئے کہا، ’’خوش رہو!‘‘ ’’تم اپنے تمام مصائب کے بعد کیسے خوش ہو سکتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا، ’ہمیشہ خوش رہنے کی ایک وجہ ہوتی ہے۔ ’آسمان میں اور میرے دل میں ایک خدا ہے۔ میں نے آج صبح کچھ کھایا۔ اور دیکھو – سورج چمک رہا ہے! بہت سے لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ہر دن جس پر آپ خوش نہیں ہوتے وہ ایک دن ضائع ہو جاتا ہے، رچرڈ۔ تمہیں وہ دن دوبارہ کبھی نہیں ملے گا۔‘ [وورمبرانڈ نے کہا] مجھے، بھی، خوش ہونا شروع کر دیا‘‘ (مسیح کے لیے قید کیا گیا Imprisoned for Christ، لیونگ سیکریفائس بُک کمپنی، 2007، صفحات 91 تا 92)۔

دُنیا بھر میں مظلوم مسیحیوں کے بارے میں پڑھنے کے لیے www.persecution.com پر جائیں جس کے بانی پادری وورمبرانڈ تھے۔ قید تنہائی میں تین سال گزار چکنے کے بعد اور جیل میں بارہ مذید اور سال گزار چکنے کے بعد، اور تشدد کے بعد، مار پیٹ کے بعد، فاقہ کشی کے بعد اور جسم میں تپتی سلاخوں سے داغے جانے کے بعد، پادری وورمبرانڈ کا چہرہ زیادہ تر سخت رہتا تھا۔ لیکن جب وہ مسکرائے تو اُن کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ تھی جو میں نے زندگی میں کبھی کسی بوڑھے شخص کے چہرے پر دیکھی تھی۔ آپ کو اُن کی مسکراہٹ میں دکھائی دے پائے گا کہ مصیبتوں نے صبر کا، مستقل مزاجی کا اور اُمید کا کام کیا ہے اور پاک روح کے وسیلے سے خداوند کی محبت اُن کے دِل میں نچھاور کر دی گئی تھی! وہ تکلیفوں کے ذریعے سے ایک مقدس شخص میں تبدیل ہو چکے تھے!

جب ڈاکٹر کیگن کو پتا چلا کہ میں اِس واعظ کی منادی کرنے جا رہا ہوں تو اُنہوں نے کہا، ’’چُنیدہ [لوگوں] کے لیے مصائب مثبت ہوتے ہیں لیکن غیر چُنیدہ [لوگوں] کے لیے منفی ہوتے ہیں۔‘‘ مصائب غیر چُنیدہ افراد کے لیے ٹھوکر لگنے اور چرچ سے دور ہونے کا سبب بنیں گے۔ لیکن جو لوگ حقیقی تبدیلی کی مصیبت، اور مسیحی زندگی کی آزمائشوں سے گزرتے ہیں، مصائب کے ذریعے مسیح میں خوش ہونا سیکھتے ہیں! وہ بھی مصیبت کے ذریعے بدل گئے ہیں! آئیے آپ کے گانوں کے ورق سے حمدوثنا کا گیت نمبر آٹھ گائیں۔

کبھی زمینی خوشیاں میری پسندیدہ تھیں، سکون اور آرام کی تلاش میں؛
   اب تنہا تُجھے ہی میں ڈھونڈتی ہوں، جو بہترین ہے وہ بخش؛
یہ ہی میری تمام دعا ہوگی: زیادہ محبت، اوہ مسیح، تیرے لیے،
   تیرے لیے اور زیادہ محبت، تیرے لیے اور زیادہ محبت!

غم کو اپنا کام کر لینے دیں، دُکھ اور درد کو بھیجنے دیں؛
   تیرے پیغامبر پیارے ہیں، اُن کا اِجتناب کرنا پیارا ہے،
جب وہ میرے ساتھ گا سکتے ہیں؛ زیادہ محبت، اے مسیح، تیرے لیے،
   تیرے لیے زیادہ محبت، تیرے لیے زیادہ محبت!
(’’تیرے لیے اور زیادہ محبتMore Love to Thee‘‘ شاعرہ الزبتھ پی۔ پرینٹس Elizabeth P. Prentiss، 1818۔1878)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

ظلم یا مصیبت کے ذریعے سے تبدیل ہو جانا!

TRANSFORMED THROUGH TRIBULATION!

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’جو بیج پتھریلی زمین پر گِرا وہ اُس شخص کی مانند ہے جو کلام کو سُنتے ہی خوشی سے قبول کر لیتا ہے۔ لیکن وہ اُس میں جڑ نہیں پکڑنے پاتا اور دیرپا ثابت نہیں ہوتا [عارضی طور پر ہوتا ہے] کیونکہ جب کلام کے سبب سے ظلم یا مصیبت آتی ہے تو وہ فوراً گِر جاتا ہے‘‘(متی 13: 20-21)۔

(مرقس4:17)

I۔   پہلا، وہ جو مصائب کی وجہ سے ناراض ہوئے اور گرجا گھر چھوڑ کر چلے گئے، متی13:21؛ مرقس4:17؛ کلسیوں2:7؛ لوقا8:13؛ مرقس4:16 تا 17؛ 1یوحنا2:19 .

II۔  دوسرا، وہ جو خداوند کی بادشاہی میں داخل ہونے کے لیے مصیبت میں سے گزرتے ہیں، اعمال14 باب 22، 19، 20؛ لوقا 13:24؛ امثال28:26؛ زبور32باب 3تا4 آیت۔

III۔ تیسرا، وہ جو مسیحی زندگی کے مصائب میں سے گرزنے کے وسیلے سے تبدیل ہو جاتے ہیں، رومیوں 5باب 3تا5؛ 12:2 .