Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

جارج وائٹ فیلڈ کی جانب سے ’’ فضل کا طریقۂ کار‘‘
جدید انگریزی کے لیے موافق اور مختصر کیا گیا

,THE METHOD OF GRACE" BY GEORGE WHITEFIELD"
CONDENSED AND ADAPTED TO MODERN ENGLISH
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
4 جنوری، 2009، صبح، خُداوند کے دِن
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, January 4, 2009

’’وہ میرے لوگوں کے زخموں پر اِس طرح پٹی باندھتے ہیں گویا وہ معمولی گھاؤ ہوں اور سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:14).

تعارف: جارج وائٹ فیلڈ 1714 میں انگلستان کے شہر گلوسیسٹر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک مے خانے کے مالک کے بیٹے تھے۔ اِس ماحول میں بحیثیت ایک بچے کے اُن پر مسیحیت کا کم اثر ہوا تھا، لیکن سکول میں اُن کے اہلیت غیر معمولی تھی۔ اُنہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جہاں وہ جان اور چارلس ویزلی کے دوست بنے اور اُن کے بائبل کے مطالعے اور دعا کے گروہ کا حصہ بنے۔

جب وہ آکسفورڈ میں ایک طالب علم ہی تھے تو اُنہیں مسیح میں تبدیلی کا تجربہ ہوا۔ اِس کے کچھ ہی عرصے بعد اُنہیں انگلستان کے گرجہ گھر میں مذہبی عُہدے پر فائز کیا گیا۔ اُن کی نئے سرے سے پیدائش کی انتہائی ضرورت کی منادی کے نتیجے میں گرجہ گھروں نے اُن پر اپنے دروازے بند کر دیے، چونکہ جسمانی پادری خوفزدہ تھے کہ اُن کے نئے سِرے سے جنم پر واعظ اُن کے علاقہ داروں کو ناراض کریں گے۔ یوں، اُنہیں زبردستی گرجہ گھروں سے نکال باہر کیا گیا، کہ وہ کُھلے میدانوں میں تبلیغ کریں، جس کی وجہ سے وہ مشہور ہو گئے۔

وائٹ فیلڈ نے 1738 میں امریکہ کے لیے سفر کیا اور ایک یتیم خانے کی بنیاد رکھی۔ اُنہوں نے بعد میں تمام امریکی نو آبادیوں اور برطانیہ میں سفر کیا تبلیغ کرتے گئے اور یتیموں کو سہارا دینے کے لیے فنڈ جمع کرتے رہے۔ اُنہوں نے سپین، ہالینڈ، جرمنی، فرانس، انگلستان، وھیلز اور سکاٹ لینڈ میں منادی کی، اور امریکہ میں منادی کرنے کے لیے بحر اوقیانوس کو تیرہ مرتبہ عبور کیا۔

وہ بنجامِن فرینکلن، جانتھن ایڈورڈز اور جان ویزلی کے گہرے دوست تھے، اور اُن میں سے ایک تھے جنہوں نے ویزلی کو میدانوں میں تبلیغ کرنے کے لیے، جیسا کہ وہ کرتے تھے، قائل کیا تھا۔ بنجامِن فرینکلن نے ایک دفعہ اندازہ لگایا کہ وائٹ فیلڈ نے تیس ہزار سامعین کو مخاطب کیا تھا۔ اُن کی بیرونی عبادتوں میں حاضرین کی تعداد اکثر 25,000 ہزار سے زیادہ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ اُنہوں نے سکاٹ لینڈ میں گلاسگو کے قریب ایک ہی اجتماع میں 100,000 سے زیادہ لوگوں کو تبلیغ کی تھی – ایک ہی دِن میں جب کہ اُن دِنوں میں مائیکروفون بھی نہیں ہوتے تھے! دس ہزار لوگوں نے اُس عبادتی پروگرام میں مسیح میں تبدیلی کا اقرار کیا۔

بہت سے تاریخ دان اُن کا شمار اب تک کے انگریزی بولنے والے مبشرانِ بشارتِ انجیل کے عظیم ترین لوگوں میں کر چکے ہیں۔ حالانکہ بلی گراہم الیکٹرانک مائیکروفون کی مدد سے اِن سے زیادہ لوگوں سے مخاطب ہوئے تھے ، تہذیب و ثقافت پر وائٹ فیلڈ کا اثر بِلا کسی سوال کے انتہائی شدید اور زیادہ مثبت تھا۔

وائٹ فیلڈ پہلی عظیم بیداری کی نمایاں ہستی ہیں، وہ شدید تجدید نو جس نے 18 ویں صدی کے وسط میں امریکہ کے کردار کی تشکیل کی تھی۔ ہمارے مُلک میں نو آبادیوں میں تجدید نو کے ساتھ شعلے بھڑک اُٹھتے تھے جب وہ منادی کرتے تھے۔ اِس تجدید نو کا بُلند ترین دور وہ تھا جب 1740 میں چھے ہفتے کے دورانیے کا دورہ وائٹ فیلڈ نے نئے انگلستان میں کیا۔محض صرف پینتالیس دِنوں میں اُنہوں نے ایک سو پچتر واعظوں کی تبلیغ ہزاروں لاکھوں کو کی، اور اُس علاقے کو ایک روحانی ہنگامہ خیزی میں بدل دیا، جو امریکہ کی مسیحیت کو ادوار میں سے ایک شاندار دور کہلایا۔

اپنی موت کے وقت تک اُنہوں نے لوگوں کے دِل جیت لیے تھے اور تمام انگریزی بولنے والی دُنیا کی توجہ پر حکمرانی کی۔ اُنہوں نے پرنسٹن یونیورسٹی، ڈارتھماؤتھ کالج،اور پینسِلوانیا کی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اُن کا انتقال امریکی انقلاب سے چھے سال پہلے 1770 میں میساشوسٹز کے شہر نیوبری پورٹ میں تبلیغ کرنے کے کچھ ہی دیر بعد ہوا۔ جارج واشنگٹن ہمارے مُلک کے باپ ہیں، لیکن جارج وائٹ فیلڈ اِس کے دادا تھے۔

درج ذیل واعظ وائٹ فیلڈ کی جانب سے جدید انگریزی میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ اُن کا اصل واعظ ہے، لیکن میں نے الفاظ کی ترمیم کی ہے تاکہ یہ ہمارے دور میں زیادہ سمجھ میں آ جائے۔

’’وہ میرے لوگوں کے زخموں پر اِس طرح پٹی باندھتے ہیں گویا وہ معمولی گھاؤ ہوں اور سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:14).

واعظ: سب سے بہترین برکت جو خُدا ایک قوم کو دے سکتا ہے وہ ہے اچھے اور ایماندار مبلغین ہو سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بدترین لعنت جو خُدا کسی قوم کو دے سکتا ہے وہ ہے گرجہ گھروں کو ایسے مبلغین کے حوالے کر دینا جن کا تعلق صرف پیسے بٹورنے سے ہو۔ اِس کے باوجود ہر دور میں جھوٹے مبلغین رہے ہیں جو تسکین بخش واعظ دیتے ہیں۔ اِس طرح کے بہت سے مذہبی راہب ہیں جو بائبل کو تروڑ مروڑ کر بگاڑ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایسا ہی یرمیاہ کے دِنوں میں تھا۔ اور یرمیاہ خُدا کی ایماندار تابعداری میں اُن کے خلاف بولتا تھا۔ وہ اپنا منہ کھولتا اور اِن جسمانی و دنیاوی خواہشات والے مبلغین کے خلاف منادی کرتا تھا۔ اگر آپ اُس کی کتاب پڑھیں، تو آپ دیکھیں گے کہ کسی نے بھی اِس قدر شدت کے ساتھ جھوٹے مبلغین کے خلاف بات نہیں کی۔ اور اُس کے خلاف انتہائی شدت سے اِس باب میں بولا جس سے ہماری تلاوت ہے۔

’وہ میرے لوگوں کے زخموں پر اِس طرح پٹی باندھتے ہیں گویا وہ معمولی گھاؤ ہوں اور سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:14).

یرمیاہ کہتا ہے کہ وہ صرف پیسے کے لیے منادی کرتے ہیں۔ تیرویں آیت میں، یرمیاہ نے کہا،

’’کیونکہ اُن میں چھوٹوں سے لے کر بڑوں تک سب ہی اپنے مفاد کے لالچی ہیں، اور کیا نبی اور کیا کاہن سبھی مکار ہیں‘‘ (یرمیاہ 6:13).

وہ اپنے مفاد کے لالچی ہیں اور مکاری سے منادی کرتے ہیں۔ ہماری تلاوت میں، وہ طریقوں میں سے ایک ظاہر کرتا ہے کہ وہ مکاری سے منادی کرتے ہیں۔ وہ دکھاتا ہے کہ یہ کس طرح دھوکہ بازی سے کھوئے ہوئے لوگوں کے ساتھ پیش آتے تھے:

’’وہ میرے لوگوں کے زخموں پر اِس طرح پٹی باندھتے ہیں گویا وہ معمولی گھاؤ ہوں اور سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:14).

خُدا نے نبی کو بتایا تھا کہ لوگوں کو آنے والی جنگ کے بارے میں خبردار کرو۔ خُدا اُس سے چاہتا تھا کہ وہ اُنہیں بتائے کہ اُن کے گھر تباہ کر دیئے جائیں گے – کہ جنگ ہونے والی تھی (دیکھیے یرمیاہ 6:11۔12)۔

یرمیاہ نے ایک طوفانی پیغام دیا تھا۔ اِسے بہت سے لوگوں کو دھشت زدہ کر دینا چاہیے تھا اور اُنہیں توبہ کے مقام تک لے آنا چاہیے تھا۔ لیکن جسمانی اور دنیاوی خواہشوں میں مبتلا نبی اور کاہن لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یرمیاہ محض ایک پاگل دیوانہ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کوئی جنگ نہیں ہوگی۔ اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ امن ہوگا، جب یرمیاہ نے کہا تھا کہ کوئی امن نہیں ہوگا۔

’’وہ میرے لوگوں کے زخموں پر اِس طرح پٹی باندھتے ہیں گویا وہ معمولی گھاؤ ہوں اور سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:14).

تلاوت کے الفاظ بڑی حد تک بیرونی امن کے لیے حوالہ دیتے ہیں۔ لیکن میرا یقین ہے کہ اُن کا مذید اشارہ جان کے لیے بھی ہے۔ میں یہ بھی یقین کرتا ہوں کہ یہ جھوٹے مبلغین کے لیے حوالہ دیتے ہیں جو لوگوں کو بتاتے ہیں کہ وہ بہت نیک ہیں، حالانکہ اُنہوں نے نئے سرے سے جنم بھی نہیں لیا تھا۔ نجات نہ پائے ہوئے لوگوں کو اِس قسم کی منادی اچھی لگتی ہے۔ انسانی دِل اِسی قدر مکاری اور فریبی ہے۔ صرف خُدا جانتا ہے انسان کا دِل کتنا مکار ہے۔

آپ میں سے بہت سے کہیں گے کہ خُدا کے ساتھ آپ امن سے ہیں، جب کوئی حقیقی امن ہو گا ہی نہیں! آپ میں سے بہت سے سوچیں گے کہ وہ مسیحی ہیں لیکن ہوتے نہیں ہیں۔ شیطان اُن میں سے ایک ہے جس نے آپ کو جھوٹا امن دیا ہے۔ خُدا نے آپ کو یہ ’’امن‘‘ نہیں دیا ہے۔ یہ وہ امن نہیں ہے جو انسان کی سمجھ میں آ جائے۔ یہ ایک جھوٹا امن ہے جو آپ کے پاس ہے۔

آپ کے لیے یہ جاننا بہت ضرور ی ہے کہ آیا آپ کے پاس اصلی امن ہے یا نہیں۔ ہر کوئی امن چاہتا ہے۔ امن ایک عظیم برکت ہے۔ اِس لیے میں آپ کو ضرور بتاؤں گا کہ خُدا کے ساتھ حقیقی امن کیسے پایا جائے۔ مجھے آپ کے خون سے بری الزمہ ہونا چاہیے۔ مجھے آپ کے سامنے خُدا کی تمام مُشاورت کا اعلان کرنا چاہیے۔ تلاوت کے الفاظ میں سے، میں کوشش کروں گا کہ آپ کو دکھا سکوں کہ آپ کے ساتھ کیا ہونا چاہیے، اور کیا آپ کے اندر بدلنا چاہیے تاکہ آپ اپنے دِل میں سچا امن پا لیں۔

I. اوّل، خُدا کے ساتھ امن پا سکنے سے پہلے، آپ کو خُدا کی شریعت کے خلاف دکھایا، محسوس کرایا، رولایا، اور اپنی اصل خلاف ورزیوں پر رنج والم کرایا جانا چاہیے۔

اعمال کے ذریعے سے نجات کے مطابق، ’’جو گناہ کرے گا، وہی مرے گا‘‘ (حزقی ایل 18:4)۔ ہر وہ شخص لعنتی ہے جو مسلسل وہ ساری باتیں نہیں کرتا ہے جو شریعت کی کتاب میں لکھی ہیں۔

آپ کو صرف کچھ باتیں ہی نہیں کرنی چاہیں بالکہ آپ کو تمام باتوں پر عمل کرنا چاہیے ورنہ آپ لعنتی ہیں:

’’چنانچہ لکھا ہے، جو کوئی بھی شریعت کی کتاب کی ساری باتوں پر عمل نہیں کرتا وہ لعنتی ہے‘‘ (گلتیوں 3:10).

شریعت کی ذرا سی بھی چُوک، چاہے خیالوں میں ہو، یا الفاظ میں، یا اعمال میں، خُدا کی شریعت کے مطابق، آپ کو دائمی سزا کا حقدار ٹھہراتی ہے۔ اور اگر ایک بُرا خیال، اگر ایک بُرا لفظ، اگر ایک بُرا عمل دائمی لعنت کا حقدار ہے، تو پھر کتنی جہنموں کے وہ تمام مستحق ہونگے جنہوں نے اپنی تمام زندگیاں خُدا کے خلاف مسلسل بغاوت میں گزار دیں! اِس سے پہلے کہ آپ اپنے دِل میں کبھی سچا امن پائیں، آپ کو یہ دکھایا جانا ضروری ہے کہ خُدا سے علیحدہ ہونا اور اُس کی شریعت کے خلاف گناہ سرزد کرنے کتنی ہولناک بات ہوتی ہے۔

اپنے دِل کا معائنہ کریں۔ اور مجھے آپ سے پوچھنے دیں – کیا کبھی کوئی ایسا وقت بھی آیا جب آپ کے گناہوں کی یاد آپ کے لیے تکلیف دہ رہی ہو؟ کیا کبھی ایسا وقت بھی آیا کہ آپ کے گناہوں کا بوجھ آپ کے لیے ناقابلِ برداشت ہوا ہو؟ کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ خُدا کا غضب آپ پر پڑنا آپ کا اُس کی شریعت کی اصل خلاف ورزیوں کی وجہ سے، شاید درست ہو؟ کیا آپ کبھی باطنی طور پر اپنے گناہوں کے لیے رنجیدہ ہوئے تھے؟ کیا آپ کہہ سکیں گے، ’’میرے گناہ میری برداشت سے باہر ہیں؟‘‘ کیا آپ نے کبھی ایسی کسی بات کا تجربہ کیا تھا؟ اگر نہیں کیا، تو اپنے آپ کو مسیحی مت کہلائیں! آپ شاید کہیں کہ آپ امن و سکون سے ہیں، لیکن آپ کے لیے کوئی حقیقی امن و سکون نہیں ہے۔ خُدا کرے کہ آپ بیدار ہوں! خُدا کرے کہ آپ مسیح میں تبدیل ہوں!

II. لیکن، مذید اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ امن حاصل کر سکیں، گناہ کے تحت سزا یابی مذید گہری ہونی چاہیے؛ آپ کو خود اپنی بگڑی ہوئی حالت کا قائل ہو جانا چاہیے، آپ کی جان کی مکمل بدکاری۔

آپ کو اپنے اصل گناہوں سے قائل ہونا چاہیے۔ آپ کو چاہیے کہ اُن کے اوپر کپکپائیں۔ لیکن سزایابی کو اِس سے بھی زیادہ گہرائی تک جانا چاہیے۔ آپ کو خُدا کی شریعت کو اصل میں توڑا ہوا ہونا چاہیے۔ اِس سے بھی زیادہ، آپ کو خود اپنا اصل گناہ دیکھنا اور محسوس کرنا چاہیے، وہ اصلی بدکاری جو آپ کے دِل میں پیدائشی تھی، جو آپ کو خُدا کی طرف سے لعنتی قرار دینے کے لائق بناتی ہے۔

بہت سے لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ وہ ذہین ہیں وہ کہتے ہیں کہ اصلی گناہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ خُدا کی آدم کے گناہ کو ہم سے منسوب کرنا نااِنصافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم گناہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو نئے سرے سے جنم لینے کے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اِس کے باوجود اپنے اِردگرد کی دُنیا کو دیکھیے۔ کیا یہ وہ جنت ہے جس کا وعدہ خُدا نے بنی نوع انسان سے کیا تھا؟ جی نہیں! دُنیا میں ہر چیز بگڑ چُکی ہے! یہ اِس لیے ہے کیونکہ نسلِ انسانی کے ساتھ کوئی گڑبڑ ہے۔ یہ اصلی گناہ ہے جس نے دُنیا میں تباہی برپا کی ہے۔

اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کس قدر شدت کے ساتھ اِس کا انکار کریں، جب آپ بیدار ہوتے ہیں، آپ دیکھیں گے کہ آپ کی زندگی میں گناہ خود آپ کے اپنے مکروہ دِل سے آتا ہے – ایک دِل جسے اصلی گناہ نے زہریلا کیا ہے۔

جب مسیح میں نجات نہ پایا ہوا شخص پہلی بار بیدار ہوتا ہے، تو وہ حیران ہونا شروع کرتا ہے، ’’میں کیسے اِس قدر بدکار بن گیا؟‘‘ خُدا کی روح پھر اُسے دکھاتی ہے کہ اُس کی طبعیت میں کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ وہ تو سارے کا سارا بدکار اور قابلِ مذمت ہے۔ پھر وہ شخص آخر کار یہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کہ خُدا کا اُس کو لعنتی قرار دینا جائز ہوگا۔ وہ دیکھتا ہے کہ وہ اپنی اِس فطرت میں اِس قدر زہریلا اور باغی ہے کہ خُدا کا اُس کو لعنتی قرار دینا جائز ہوگا، یہاں تک کہ اگر اُس نے اپنی تمام زندگی میں ایک بھی غیرباطنی گناہ نہیں کیا ہوا تھا۔

کیا آپ نے کبھی اِس کا تجربہ کیا؟ کیا آپ نے کبھی یہ محسوس کیا – کہ یہ بالکل دُرست ہوگا اور کہ خُدا کو آپ کا لعنتی قرار دینا بالکل جائز ہوگا؟ کیا آپ کبھی اِس بات پر متفق ہوئے کہ آپ خود طبعی طور پر ایک قہر کی اولاد ہیں؟ (افسیوں 2:3)۔

اگر آپ نے واقعی کبھی نئے سرے سے جنم لیا تھا، اگر خود ذاتی کبھی واقعی آپ سے لی گئی تھی، تو آپ نے اِسے دیکھا اور محسوس کیا ہوگا۔ اور اگر آپ نے کبھی بھی اصلی گناہ کا وزن محسوس نہیں کیا، تو پھر اپنے آپ کو مسیحی مت کہیں! ایک سچے مسیح میں نجات پائے ہوئے کا سب سے بڑا بوجھ ہی اصلی گناہ ہوتا ہے۔ جو آدمی جس نے واقعی ہی نئے سرے سے دوبارہ جنم لیا ہوتا ہے وہ اپنے اصلی گناہ اور زہریلی طبعیت سے رنج و الم میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک سچا تبدیل شُدہ شخص اکثر چِلّا اُٹھتا ہے، ’’ہائے، کون مجھے اِس موت کے بدن سے چھٹکارہ دِلائے گا، میرے اِس دِل میں بسنے والی یہ بدکاری؟‘‘ (دیکھیے حوالہ رومیوں 7:24 ) یہ ہے جو ایک بیدار شخص کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے – اُس کے گناہ کا باطنی دل۔ اگر آپ اپنی فطرت میں موجود اِس باطنی بدکاری سے کبھی آگاہ نہیں ہوئے ہیں، تو پھر کوئی راستہ نہیں ہے کہ آپ اپنے دِل میں سچا امن و سکون تلاش کر سکیں۔

III. اِس کے بھی علاوہ، اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ سچا امن و سکون پا سکیں، آپ کو ناصرف اپنی زندگی میں گناہوں سے، اور آپ کی فطرت میں موجود گناہوں سے پریشان ہونا چاہیے، بلکہ اُن گناہوں سےبھی جو آپ کے بہترین فیصلوں، وعدوں، اور آپ کی کہلائی جانے والی ’’مسیحی زندگی‘‘ سے ہیں۔

میرے دوست، آپ کی بہترین کارکردگی میں کیا رکھا ہے کہ جو آپ کو خُدا کے لیے قبول کروائے گی؟ آپ اپنی فطرت میں ناراستباز اور غیر تبدیل شُدہ ہیں۔ آپ اپنے بیرونی گناہوں کے لیے دس گناہ جہنم میں لعنتی ہونے کے لیے مستحق ہیں۔ آپ کے اعمال آپ کے لیے کیا بھلائی کریں گے؟ آپ قدرتی طور پر کوئی بھلائی نہیں کر سکتے ہیں۔

’’جو لوگ جسم کے غلام ہیں خدا کو خوش نہیں کر سکتے‘‘ (رومیوں 8:8).

ایک مسیح میں نجات نہ پائے ہوئے شخص کے لیے خُدا کے جلال کے لیے کوئی کام کرنا ناممکن ہے۔

یہاں تک کہ ہم مسیح میں نجات پا لیتے ہیں، اِس کے باوجود ہم صرف جزوی طور پر دوبارہ نئے ہوئے ہیں۔ ہم میں بسیرا کیا ہوا گناہ جاری رہتا ہے۔ اب بھی بدکاری کا ایک مرکب ہم میں سےہر ایک کی ذمہ داریوں میں ہوتا ہے۔ اِس لیے، جب ہم مسیح میں نجات پا لیتے ہیں، اگر یسوع مسیح ہمیں ہمارے اعمال کے مطابق قبول کرتے ہیں، ہمارے کام ہمیں لعنتی کریں گے۔ ہم تو یہاں تک کہ دعا بھی نہیں پاتے اگر اِس میں وہاں کہیں تھوڑا سا بھی گناہ ہوتا ہے، کچھ خودغرضی ہوتی ہے، سُستی ہوتی ہے، کسی قسم کا اخلاقی ادھورا پن ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ کیا سوچتے ہیں، لیکن میں گناہ کیے بغیر دعا نہیں کر سکتا ہوں۔ میں گناہ کیے بغیر آپ کے لیے منادی نہیں کرسکتا ہوں۔ میں گناہ کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا ہوں۔ میرے پچھتاوے کو توبہ کی ضرورت ہوتی ہے، اور میرے آنسوؤں کو میرے پیارے نجات دہندہ خُداوند یسوع مسیح کے قیمتی خون سے دُھلنے کی ضرورت ہوتی ہے!

ہمارے بہترین عزم، ہماری بہترین ذمہ داریاں،ہمارا بہترین مذہب،ہمارے بہترین فیصلے بہت سے شاندار گناہ ہیں۔ ہماری مذہبی ذمہ داریاں گناہ سے بھرپور ہیں۔ اِس سے پہلے کہ آپ اپنے دِل میں سکون پا سکیں آپ کو نا صرف اپنے اصلی گناہ اور اپنے غیرباطنی گناہوں سے تنگ آ جانا چاہیے، بلکہ آپ کو خود اپنی راستبازی، ذمہ داریوں اور مذہبی جوش سے بھی تنگ آ جانا چاہیے۔ اِس سے پہلے کہ آپ اپنی خود راستی سے باہر نکالیں جائیں آپ میں بغیر کسی ثبوت کے ناقابلِ یقین گہرا اعتقاد ہونا چاہیے۔ اگر آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ آپ میں خود کی راستبازی نہیں ہے، تو پھر آپ یسوع مسیح کے ذریعے سے راستباز نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ آپ اب بھی مسیح میں تبدیل شُدہ نہیں ہیں۔

کوئی شاید کہے، ’’ٹھیک ہے، میں اِس سب پر یقین کرتا ہوں۔’’ لیکن ’’یقین کرنے‘‘ اور ’’محسوس کرنے‘‘ میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ آپ میں نجات دہندہ کی کمی ہے، آپ میں مسیح کی کمی ہے؟ کیا آپ نے کبھی محسوس کیا کہ آپ کو مسیح کی ضرورت تھی کیونکہ آپ کی خود کی کوئی نیکی نہیں ہے؟ اور آپ اب کہہ سکتے ہیں، ’’خُداوند، تو مجھے کُوس سکتا ہے اُن بہترین مذہبی اعمال کے لیے جو میں کر سکتا ہوں۔‘‘ اگر آپ اِس طرح سے اپنی ذات میں سے نہیں نکالے جا چُکے ہیں، تو آپ کے لیے کوئی اصلی امن و سکون نہیں ہے۔

IV.  پھر،چوتھے نمبر پر، اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ امن و سکون پا سکیں، ایک مخصوص گناہ ہے جس کے بارے میں آپ کو پریشان ہونا چاہیے۔ اور اِس کے باوجود میں ڈرتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ اِس کے بارے میں سوچیں گے۔یہ دُنیا میں سب سے لعنتی گناہ ہے، اور اِس کے باوجود دُنیا اِسے باحیثیت ایک گناہ کے نہیں سوچتی ہے۔ آپ پوچھتے ہیں، ’’وہ کونسا گناہ ہے؟‘‘ یہ وہ گناہ ہے جس کے بارے میں آپ میں سے زیادہ تر سوچتے ہی نہیں کہ آپ اِس کے قصور وار ہیں – اور یہ ہے بے اعتقادی کا گناہ۔

اِس سے پہلے کہ آپ امن پا سکیں، آپ کو اپنے دِل کی بے اعتقادی سے پریشان ہونا چاہیے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ حقیقت میں خُداوند یسوع مسیح پر یقین نہ کرتے ہوں؟

میں آپ کے خود کے دِل کے لیے التجا کرتا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ خود شیطان کے مقابلے میں آپ کا خُداوند یسوع مسیح میں کوئی ایمان نہیں ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ شیطان بائبل پر آپ میں سے زیادہ تر کے مقابلے میں زیادہ یقین کرتا ہے۔ وہ یسوع مسیح کی الوہیت پر یقین کرتا ہے۔ وہ یقین کرتا ہے اور کپکپاتا ہے۔ وہ اُن سے جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے ہیں ہزار دفعہ زیادہ کپکپاتا ہے۔

آپ سوچتے ہیں کہ آپ یقین کرتے ہیں کیونکہ آپ بائبل پر یقین کرتے ہیں، یا کیونکہ آپ گرجہ گھر جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ شاید آپ یسوع پر سچا ایمان رکھے بغیر بھی کرتے ہیں۔ فقط یقین کرنا کہ کوئی مسیح جیسا ایک ایسا شخص تھا جو آپ کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کرے گا، اِس سے زیادہ یقین کرنا ہےکہ سکندرِ اعظم یا قیصر جیسا کوئی آدمی تھا جو آپ کے ساتھ بھلائی کرے گا۔ بائبل خُدا کا کلام ہے۔ ہم اِس کے لیے شکر ادا کرتے ہیں۔ لیکن آپ شاید اِس پر یقین کریں، اور اِس کے باوجود خُداوند یسوع مسیح پر یقین نہ کریں۔

اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کتنا عرصہ ہو گیا جب سے آپ نے یسوع مسیح میں ایمان رکھا، تو آپ میں سے بہت سے کہیں گے کہ اُنہوں نے ہمیشہ یسوع پر ایمان رکھا۔ آپ مجھے ایک بہتر ثبوت فراہم نہیں کر پائیں گے کہ آپ نے ابھی تک کبھی یسوع مسیح میں یقین نہیں کیا۔ وہ جو واقعی مسیح میں ایمان رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ کوئی وقت تھا جب وہ یسوع میں ایمان نہیں رکھتے تھے۔

مجھے اِس پر مذید بولنا چاہیے،کیونکہ یہ سب سے زیادہ دھوکہ دینے والا فریب ہے۔ بہت سے اِس کے چکر میں آئے ہیں – یہ سوچتے ہوئے کہ وہ پہلے سے ہی یقین کرتے ہیں۔ یہ مسٹر مارشل نے کہا تھاکہ اُنہوں نے اپنے تمام گناہوں کی فہرست خُدا کے دس احکامات کے تحت بنائی تھی، اور پھر ایک مذہبی راہنما کے پاس آئے اور پوچھا کہ وہ امن کیوں نہیں پاسکیں گے۔ اِس مذہبی راہب نے اُن کی فہرست کو دیکھا اور کہا، ’’دور ہو جاؤ! میں تمہاری اِس فہرست میں بے اعتقادی کے گناہ کا ایک لفظ بھی نہیں تلاش کر پایا۔‘‘ یہ خُدا کی روح کا کام ہے کہ وہ آپ کو آپ کی بے اعتقادی پر قائل کرے – کہ آپ کے پاس کوئی ایمان نہیں ہے۔ یسوع مسیح نے پاک روح سے تعلق رکھتے ہوئے کہا:

’’وہ مدد گار آئےجائے گا تو جہاں تک گناہ… تک گناہ، کیونکہ وہ لوگ مجھ پر ایمان نہیں لاتے‘‘ (یوحنا 16:8۔9).

اب، میرے عزیز دوستوں، کیا خُدا نے کبھی آپ پر ظاہر کیا کہ آپ کا یسوع میں ایمان نہیں تھا؟ کیا آپ کو کبھی اپنے بے اعتقادی کے سخت دِل پر دُکھ کے ساتھ افسردہ کیا گیا؟ کیا آپ نے کبھی دعا کی، ’’خُداوند مجھے مسیح کو تھامے رہنے میں مدد دے؟‘‘ کیا خُدا نے کبھی آپ کو مسیح کے پاس آنے کے لیے آپ کی نا اہلیت پر قائل کیا، اور مسیح میں ایمان کے لیے دعا میں رونے پر مجبور کیا؟ اگر نہیں، تو آپ اپنے دِل میں امن نہیں پا سکتے۔ خُدا آپ کو بیدار کرے، اور یسوع میں ایمان کے ذریعے سے ٹھوس امن مہیا کرے، اِس سے پہلے کہ آپ مر جائیں اور کوئی مذید موقع گنوا دیں۔

V. ایک دفعہ پھر، اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ امن پا سکیں، آپ کو مسیح کی راستبازی کو تھامے رہنا چاہیے۔

آپ کو ناصرف اپنے حقیقی اور اصلی گناہ کا، آپ کی اپنی راستبازی کے گناہ، اور بے اعتقادی کے گناہ پر قائل ہونا چاہیے، بلکہ آپ خُداوند یسوع مسیح کی کامل راستبازی کو تھامے رہنے کے لیے بھی قابل ہونا چاہیے۔ آپ کو مسیح کی راستبازی کو تھامے رہنا چاہیے۔ پھر آپ امن پائیں گے۔ یسوع نے کہا:

’’اَے محنت کشو اور بوجھ سے دبے ہُوئے لوگو! میرے پاس آؤ میں تمہیں آرام بخشوں گا‘‘ (متی 11:28).

یہ آیت اُن تمام کو جو خستہ حال اور بھاری بوجھ سے دبے ہوئے ہیں حوصلہ دیتی ہے، لیکن کسی اور کو نہیں۔ اِس کے باوجود آرام کا وعدہ صرف اُن کے ساتھ کیا گیا ہے جو یسوع مسیح میں آتے ہیں اور یقین کرتے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ کبھی امن کر پائیں آپ کو ہمارے خُداوند یسوع مسیح میں ایمان کے ساتھ راستباز ہونا چاہیے۔ آپ کو مسیح کو اپنی جان کے گھر میں لانا چاہیے، تاکہ اُس کی راستبازی شاید آپ کی راستبازی بن جائے، تاکہ اُس کی خوبیاں شاید آپ کے لیے منسوب ہو جائیں۔

میرے عزیز دوستوں، کیا آپ نے کبھی مسیح کے ساتھ شادی کی؟ کیا مسیح نے کبھی اپنے آپ کو آپ کے حوالے کیا؟ کیا آپ کبھی مسیح کے پاس جیتے جاگتے ایمان کے ساتھ گئے؟ میں خُدا سے دعا کرتا ہوں کہ مسیح آئے اور آپ کے لیے امن و سکون بولے۔ نئے سِرے سے جنم لینے کے لیے آپ کو اِن باتوں کا تجربہ ہونا چاہیے۔

میں اب ایک دوسری ہی دُنیا کی اندیکھی حقیقتوں کی بات کر رہا ہوں، باطنی مسیحیت کی، گنہگار کے دِل پر خُدا کے کاموں کی۔ میں اب آپ کے لیے انتہائی اہم باتوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ آپ سب کا اِس سے تعلق ہے۔ آپ کی جانیں اِس سے تعلق رکھتی ہیں۔ آپ کی دائمی نجات کا انحصار اِس پر ہے۔

آپ شاید مسیح کے بغیر سکون محسوس کرتے ہیں۔ شیطان نے آپ کو سُلا دیا ہے اور آپ کو جھوٹا تحفظ دیا ہے۔ وہ آپ کو اُس وقت تک سُلائے رکھنےکی کوشش کرے گا جب تک کہ آپ کو جہنم نہیں بھیج دیتا۔ وہاں آپ بیدار ہونگے، لیکن یہ ایک ہولناک بیداری ہوگی جہاں آپ خود کو شعلوں میں پائیں گے جہاں اب مسیح میں نجات پانے کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے۔ جہنم میں آپ ابدیت تک اپنی زبان کو پانی کے ایک قطرے کے ساتھ تر کرنے کے لیے چلاتے رہیں گے، اور آپ کو کوئی پانی نہیں دیا جائے گا۔

خُدا کرے آپ کی جان کو اُس وقت تک آرام نہ ملے جب تک آپ یسوع مسیح میں آرام نہیں پا لیتے ہیں! میرا مقصد کھوئے ہوئے گنہگاروں کو نجات دہندہ کے پاس لانا ہے۔ ہائے، کہ خُدا آپ میں سے کچھ کو یسوع کے لیے لائے۔خُدا کرے کہ پاک روح اُنہیں جو گنہگار ہیں قائل کرے، اور آپ کو آپ کے بدکار طریقوں سے موڑ کر یسوع مسیح کی طرف لائے۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

واعظ سے پہلے دعا کی: ڈاکٹر کرہیٹن ایل۔ چَین نے Dr. Kreighton L. Chan
واعظ سے پہلے اکیلے گیت گایا تھا مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے:
      ’’اے خُداوند، کس قدر لائقِ مذمت ہوں میں O Lord, How Vile Am I ‘‘ شاعر جان نیوٹن (1725 ۔1807 )۔

لُبِ لُباب

جارج وائٹ فیلڈ کی جانب سے ’’ فضل کا طریقۂ کار‘‘
جدید انگریزی کے لیے موافق اور مختصر کیا گیا

,THE METHOD OF GRACE" BY GEORGE WHITEFIELD"
CONDENSED AND ADAPTED TO MODERN ENGLISH

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

’’وہ میرے لوگوں کے زخموں پر اِس طرح پٹی باندھتے ہیں گویا وہ معمولی گھاؤ ہوں اور سلامتی، سلامتی کہتے ہیں؛ جب کہ سلامتی ہوتی نہیں ہے‘‘ (یرمیاہ 6:14).

(یرمیاہ 6:13

)

I.   اوّل، خُدا کے ساتھ امن پا سکنے سے پہلے، آپ کو خُدا کی شریعت کے خلاف دکھایا،
محسوس کرایا، رولایا، اور اپنی اصل خلاف ورزیوں پر رنج والم کرایا جانا چاہیے،
حزقی ایل 18:4 ؛ غلاطیوں 3:10 ۔

II.  لیکن، مذید اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ امن حاصل کر سکیں، گناہ کے تحت سزا
یابی مذید گہری ہونی چاہیے؛ آپ کو خود اپنی بگڑی ہوئی حالت کا قائل ہو جانا چاہیے،
 آپ کی جان کی مکمل بدکاری، افسیوں 2:3؛ رومیوں 7:24 ۔

III. اِس کے بھی علاوہ، اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ سچا امن و سکون پا سکیں، آپ کو
 ناصرف اپنی زندگی میں گناہوں سے، اور آپ کی فطرت میں موجود گناہوں سے پریشان
ہونا چاہیے، بلکہ اُن گناہوں سےبھی جو آپ کے بہترین فیصلوں، وعدوں، اور آپ کی کہلائی
جانے والی ’’مسیحی زندگی‘‘ سے ہیں۔ رومیوں 8:8 ۔

IV. اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ امن و سکون پا سکیں، آپ کو مسیح میں بے اعتقادی کے
 لعنتی گناہ سے پریشان ہونا چاہیے، یوحنا 16:8 ، 9 ۔

V.  ایک دفعہ پھر، اِس سے پہلے کہ آپ خُدا کے ساتھ امن پا سکیں، آپ کو مسیح کی راستبازی کو
 تھامے رہنا چاہیے، متی 11:28 ۔