Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


صرف آٹھ لوگوں نے نجات پائی تھی!

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 47)
ONLY EIGHT SOULS WERE SAVED!
(SERMON #47 ON THE BOOK OF GENESIS)
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خداوند کے دِن کی صبح، 4 مئی، 2008
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Morning, May 4, 2008

’’’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

ڈاکٹر جان سی وٹکومبDr. John C. Whitcomb اور ڈاکٹر ہنری ایم مورس Dr. Henry M. Morris نے اندازہ لگایا کہ نوح کے زمانے میں ’’زمین کی کل آبادی 1,030 ملین رہی ہو گی‘‘ (پیدائش [کی کتاب میں] سیلاب The Genesis Flood، بیکر بک ہاؤس، 1983 ایڈیشن، صفحہ 26)۔ اس کا مطلب ہے کہ عظیم سیلاب کے وقت زمین پر تقریباً ایک ارب لوگ تھے۔ یہ وہی تعداد ہے جو 1850 میں زمین پر موجود تھی۔ آج زمین پر تقریباً سات ارب لوگ ہیں۔ اگر آج اس ہی فیصد [کے تناسب سے لوگوں] کو بچایا جائے تو زمین پر 7 بلین [لوگوں] کے ساتھ، صرف 56 لوگ بچ پاتے ہیں!

’’’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی 24: 37)۔

ویسے آج کل کتنے لوگ نجات پا گئے ہیں؟ یہ ابھی تک عددی طور پر اتنا برا نہیں ہوسکتا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے جس کا آج کسی کو احساس ہے۔ میرے خیال میں بہت بڑے بڑے عظیم گرجا گھر ہیں جہاں پر مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے بغیر ایک بھی [شخص] نہیں ہے، عظیم انجیلی بشارت کے اِجلاس ہوتے ہیں جن میں کوئی بھی نجات نہیں پاتا، اور حتّیٰ کہ بنیادی گرجا گھروں میں بھی لوگ اس ہی حالت میں ہیں۔

گیلپ کی رائے شماری کے مطابق، 74 فیصد امریکیوں نے ’’یسوع مسیح کے ساتھ عہد کرنے کا‘‘ دعویٰ کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کِتنوں نے نجات پا لی؟ ڈاکٹر جان آر رائس نے کہا،

حالیہ برسوں میں انتہائی بے شمار تعداد میں گرجا گھر کے ارکان کو تلاش کرنے کے لیے بہت فکر مند رہا ہوں… جو کبھی دوبارہ پیدا ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دکھاتے ہیں [اور] ابھی تک مطمئن اور مستقبل کے بارے میں پریشان نہیں ہیں۔ میں نے بائبل میں اس قسم کے لوگوں کے لیے بار بار واضح انتباہات [نصیحتیں] پڑھیں (جان آر رائس، ڈی ڈیJohn R. Rice, D.D.، مذہبی لیکن کھوئے ہوئے Religious But Lost، سورڈ آف دی لارڈ پبلشرز، 1939، صفحہ 9)۔

یسوع نے ہمیں بتایا کہ زمانے کے آخر [دِنوں] میں حالات نوح کے زمانے کی طرح ہوں گے۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی 24: 37)۔

نوح کے دِنوں میں یہ کیسا تھا؟

’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہم تیزی سے ایک ایسے وقت کے قریب آ رہے ہیں جب چند ہی لوگ جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں سچ مچ نجات پاتے ہیں۔ ہماری تلاوت کہتی ہے،

‘’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

اُن الفاظ کے بارے میں تین باتوں پر غور کریں۔

I۔ پہلی بات، وہ تعداد جو بچائی گئی۔

نوح کے زمانے میں بہت کم لوگ بچائے گئے، جب عظیم سیلاب کے پانی نے زمین کو ڈھانپ لیا تھا،

’’زمین پر ہر پرندہ، ہر مویشی، جنگلی جانور اَور ہر اِنسان گویا ہر جاندار فنا ہو گیا۔ خُشکی پر کی ہر شَے جِس کے نتھنوں میں زندگی کا دَم تھا مَر گئی۔ رُوئے زمین پر کی ہر جاندار شَے نابود ہو گئی، کیا اِنسان، کیا حَیوان، کیا زمین پر رینگنے والے جاندار اَور کیا ہَوا میں اُڑنے والے پرندے، سَب کے سَب نابود ہو گئے۔ صِرف نوح باقی بچا اَور وہ جو اُس کے ساتھ کشتی میں تھے‘‘ (پیدائش 7: 21۔23)۔

میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ بات آج بھی سچی ہے۔ یسوع نے کہا،

’’کیونکہ وہ دروازہ تنگ اَور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اَور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں‘‘ (متی 7: 14)۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی 24: 37)۔

’’جو مُجھ سے، ’اَے خُداوؔند، اَے خُداوؔند،‘ کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک شخص آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا، مگر وُہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔ اُس دِن بہت سے لوگ مُجھ سے کہیں گے، ’اَے خُداوؔند! اَے خُداوؔند! کیا ہم نے تیرے نام سے نبُوّت نہیں کی؟ اَور تیرے نام سے بدرُوحوں کو نہیں نکالا اَور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دِکھائے؟‘ اُس وقت میں اُن سے صَاف صَاف کہہ دُوں گا، ’میں تُم سے کبھی واقف نہ تھا۔ اَے بدکاروں! میرے سامنے سے دُورہو جاؤ‘‘ (متی 7: 21۔23)۔

اگر وہ آپ ہوتے تو کیا ہوتا؟ کیا ہوگا اگر مسیح آپ سے کہے،

’’میں تمہیں کبھی نہیں جانتا تھا: مجھ سے دور ہو جاؤ‘‘ (متی 7: 23)؟

اگر آپ آگ کی جھیل میں جاگیں، اور نجات پانے میں بہت دیر ہو جائے تو کیا ہوگا؟

’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

آپ کی بھی ایک روح ہے۔ آپ کے پاس جسم ہے، لیکن آپ کے پاس ایک روح بھی ہے۔ آپ کا جسم ایک دن مر جائے گا، لیکن آپ کی روح ہمیشہ تک کے لیے زندہ رہے گی۔ بائبل سکھاتی ہے کہ آپ کی روح یا تو جنت میں جائے گی یا جہنم میں۔ اور آپ کی روح کی تقدیر مکمل طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ آیا آپ ابھی مسیح کو قبول کرتے ہیں، اور ابھی ہی اپنے گناہوں سے دُھل کر پاک صاف ہو گئے ہیں۔ موت کے بعد نجات پانے میں بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ کو ابھی بچایا جانا چاہیے، اس سے پہلے کہ آپ مر جائیں، ورنہ آپ کبھی بھی نہیں نجات پائیں گے۔

II۔ دوسری بات، نجات بذات خود۔

’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

’’جیسا نوح کے دِنوں میں ہوا تھا ویسا ہی ابنِ آدم کی آمد کے وقت ہو گا‘‘ (متی 24: 37)۔

نوح کے زمانے میں نجات کی تبلیغ کی گئی تھی۔ بائبل نوح کو پکارتی ہے،

’’راستبازی کا ایک مبلغ‘‘ (II پطرس 2: 5)۔

بائبل یہ نہیں کہتی کہ نوح نے زمین کے ہر فرد کو براہِ راست تبلیغ کی۔ پھر بھی زمین پر موجود ہر شخص کشتی کے بارے میں اور آنے والے سزا کے بارے میں نوح کے انتباہات یا نصیحتوں کے بارے میں جانتا تھا۔ ڈاکٹر وہٹکومب اور ڈاکٹر مورس نے کہا،

فضل کی 120 سالہ مدت کے دوران ’’جب ایک بار نوح کے زمانے میں خُدا کی طویل مدت سے برداشت انتظار کر رہی تھی، جب کہ کشتی تیار ہو رہی تھی‘‘ (پیدائش 6: 3؛ 1 پطرس 3: 20)، نوح کی نمایاں سرگرمیوں اور خطرناک انتباہات یا نصیحتوں کی خبر آسانی سے پوری زمین میں پھیل سکتی تھی (پیدائش کی کتاب میں سیلاب The Genesis Flood، گذشتہ موضوع سے منسلک بات ibid.، صفحہ 31).

لیکن نوح کے زمانے میں رہنے والی نسل نے اُس کی منادی کو مسترد کیا، اور یوں خدا نے

’’پرانی دنیا کو نہیں بخشا بلکہ آٹھویں شخص نوح کو بچایا، جو راستبازی کا مبلغ ہے، بے دینوں کی دنیا پر سیلاب لاتا ہے‘‘ (II۔ پطرس 2: 5)۔

میں پچاس سال سے تبلیغ کر رہا ہوں۔ بہت کم لوگ جن کو میں نے تبلیغ کی ہے بچائے گئے ہیں۔ واقعی بہت کم۔ لیکن ایک بات جو مجھے [تبلیغ کرتے رہنا] جاری رکھتی ہے وہ نوح کی مثال ہے۔ اس نے بہت کم ایمان لانے والی تبدیلیوں کو دیکھا۔ لیکن وہ خدا کے ساتھ وفادار تھا اگرچہ ’’بے دین‘‘ دنیا نے اس کے پیغام کو مسترد کر دیا۔

آج میرا مقصد آپ کو سچ بتانا ہے۔ جو کچھ آپ سچائی کے ساتھ کرتے ہیں وہ آپ کے اور خدا کے درمیان ہے۔ لیکن میرا مقصد، نوح کی طرح، آپ کو سچ بتانا ہے۔ شاید آپ کو میرے واعظوں سے مدد نہیں ملے گی، حالانکہ، نوح کی منادی سے زیادہ کسی نے ان لوگوں کی مدد نہیں کی جو قدیم دقیانوسی دنیا میں تھے۔

’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

III۔ تیسری بات، نجات پانے کے لیے راہ۔

نوح اور اس کے خاندان کو کشتی میں داخل کرنے کے ذریعے سے سیلاب سے بچایا گیا۔ یہ اتنی ہی سادہ سی بات ہے!

’’اور خُداوند نے نوح سے کہا، تُو اور تیرا سارا گھرانہ کشتی میں آ جائے‘‘ (پیدائش 7: 1)۔

’’اور نوح، اور اُس کے بیٹے، اُس کی بیوی اور اُس کے بیٹوں کی بیویاں اُس کے ساتھ، سیلاب کے پانی کی وجہ سے کشتی میں گئے‘‘ (پیدائش 7: 7)۔

پیدائش 6: 14 آیت کی سیکوفیلڈ مطالعہ بائبلThe Scofield Study Bible کی غور طلب بات کہتی ہے،

’’کشتی‘‘: سزا سے اپنے لوگوں کی پناہ کے طور پر مسیح کی شبیہہ ہے ... ’’مسیح میں‘‘ ایماندار کی حیثیت کا ایک موجودہ حوالہ (دی سکوفیلڈ مطالعہ بائبلThe Scofield Study Bible، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 1917 ایڈیشن، پیدائش 6: 14 پر غور طلب بات)۔

کشتی مسیح کی تصویر ہے۔ نوح کو عظیم سیلاب کی سزا سے بچانے کے لیے کشتی میں آنا پڑا۔ اور آپ کو ابدی عدالت سے نجات پانے کے لیے مسیح میں آنا چاہیے۔

یسوع نے کہا،

’’اُس دِن تُم جان لوگے کہ میں اَپنے باپ میں ہُوں، اَور تُم مُجھ میں ہو…‘‘ (یوحنا 14: 20)۔

بائبل کہتی ہے،

’’اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ ایک نئی مخلوق ہے‘‘ (II۔ کرنتھیوں 5: 17)۔

خدا نے نوح سے کہا،

’’کشتی میں …. آ جائے‘‘ (پیدائش 7: 1)۔

یسوع نے کہا،

’’میرے پاس آؤ… اور میں تمہیں آرام دوں گا‘‘ (متی 11: 28)۔

اور اِس کے علاوہ،

’’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

میں نے اکثر سوچا ہے کہ اتنے کم لوگ کشتی میں کیوں سوار ہوئے؟انہوں نے سوچا ہوگا کہ نوح غلط تھا۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ سزا ان پر کبھی نہیں آئے گی، کہ وہ ویسے ہی ٹھیک ہیں جیسے وہ تھے۔ اور اس طرح، انہوں نے مبلغ کی بات نہیں سنی۔ وہ نجات کے بغیر موت کی طرف سے گرفت میں آ گئے تھے. اس طرح وہ ہلاک ہو گئے۔

بچائے جانے کا ایک ہی راستہ تھا، اور اُنہوں نے اُس راستے کو رد کر دیا۔ خُدا نے اُن کے لیے نجات کا راستہ تیار کیا تھا، لیکن اُنہوں نے اُس راستے کو رد کر دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ خدا نے نجات حاصل کرنے کا راستہ تیار کر رکھا ہے۔ اس نے یسوع کو صلیب پر مرنے کے لیے بھیجا، آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے۔ مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور اب زندہ ہے، آسمان میں خُدا کے داہنے ہاتھ پر۔ لیکن آپ کو مسیح کے پاس آنا چاہیے۔ مسیح کے بارے میں چیزوں پر یقین کرنا کافی نہیں ہے – آپ کو مسیح کے پاس آنا چاہیے۔ جیسا کہ نوح کشتی میں آیا، آپ کو مسیح کے پاس آنا چاہیے۔

یہ ’’احساس‘‘ نہیں ہے جو آپ کو نجات دلاتا ہے۔ یہ مسیح خود ہے جو نجات دلاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ’’محسوس‘‘ کرتے ہیں کہ نجات پا لی ہے یا نہیں۔ اہم یہ نہیں کہ آپ کیا محسوس کرتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ خدا کیا محسوس کرتا ہے! ذاتی جذبات نے کبھی کسی کو نہیں بچایا۔ مسیح تمام نجات دلانے والا ہے۔ نوح کے زمانے میں جو کچھ اہم تھا وہ یہ تھا کہ آیا وہ کشتی میں تھا یا نہیں۔ آپ کے جذبات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف مسیح اہمیت رکھتا ہے۔ شارلٹ ایلیٹCharlotte Elliott نے یسوع کے بارے میں ایک گانا لکھا، خدا کے برّہ، جو یہ بہت اچھی طرح سے کہتا ہے:

بغیر ایک التجا کے، میں جیسا بھی ہوں،
   مگر کہ تیرا خون میرے لیے بہایا گیا،
اور کہ تو مجھے اپنے پاس بُلانے کے لیے بیقرار ہے،
   اے خُدا کے برّے، میں آیا! میں آیا!

میں جیسا بھی ہوں، تو کمزورکو بھی قبول کر لے گا،
   کمزور کو بھی آرام دیا، پاک صاف اور معاف اور خوش آمدید کیا جاتا ہے
کیونکہ تیرے وعدے پر میں یقین کرتا ہوں،
   اے خُدا کے برّے، میں آیا! میں آیا!
(’’میں جیسا بھی ہوں Just As I Am‘‘ شاعرہ شارلٹ ایلیٹ Charlotte Elliott، 1789۔1871)۔

آئیے ہم کھڑے ہو کر وہ گیت گاتے ہیں۔ یہ آپ کے گیتوں کے ورق پر آخری گیت ہے۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

صرف آٹھ لوگوں نے نجات پائی تھی!

(پیدائش کی کتاب پر واعظ # 47)
ONLY EIGHT SOULS WERE SAVED!
(SERMON #47 ON THE BOOK OF GENESIS)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

‘’چند ہی، یعنی کہ، صرف آٹھ لوگوں نے ہی نجات پائی تھی‘‘ (I پطرس 3: 20)۔

(متی 24: 37)

I.   پہلی بات، نجات پایا ہوا نمبر، پیدائش 7: 21-23؛ متی 7: 14؛
متی 24: 37; 7: 21-23۔

II.  دوسری بات، نجات بذات خود، متی 24: 37؛ II پطرس 2: 5؛
پیدائش 6: 3؛ 1 پطرس 3: 20۔

III. تیسری بات، نجات پانے کے لیے راہ، پیدائش 7: 1، 7؛ یوحنا 14: 20؛
II کرنتھیوں 5: 17؛ پیدائش 7: 1؛ متی 11: 28;
1 پطرس 3: 20۔