Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

کہ جہنم کے عذاب انتہائی شدید ہیں –
جاناتھن ایڈورڈ کے دیئے گئے واعظ کا حصّہ نمبر 3
جدید انگریزی کے لیے موافق اور مختصر کیا گیا

THAT THE TORMENTS OF HELL ARE EXCEEDING GREAT –
PART III OF A SERMON BY JONATHAN EDWARDS
CONDENSED AND ADAPTED TO MODERN ENGLISH
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہیمرز کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں تبلیغی واعظ
29 جنوری، 2008، منگل کی شام کو
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Wednesday Evening, January 30, 2008

’’اور اُس نے چلّا کر کہا، اَے باپ ابرہام، مجھ پر رحم کر، اور لعزر کو بھیج، تاکہ وہ اپنی اُنگلی کا سراپانی سے ترکر کے میری زبان کو ٹھنڈک پہنچائے؛ کیونکہ میں اِس آگ میں تڑپ رہا ہُوں‘‘ (لوقا 16:24).

گنہگار لوگ اپنے ضمیر کو سکون اور تسلی دینے کے لیے اور جہنم کے خوف سے آرام پانے کے لیے بے شمار دلائل دیتے ہیں۔ لیکن اُن کے جہنم کے خوف سے فرار کرنے کی کوشش ہی وہ یہ یقینی بنا لیتے ہیں کہ وہ وہاں جائیں گے، اور اپنے بے اعتقادی کے گناہ کی وجہ سے اپنے پر پہلے سے بھی زیادہ بڑا عذاب مُسلط کر لیتے ہیں۔ یوں وہ خود اپنے آپ کو بدعا دیتے ہیں۔

اِس لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ انسان کو جیسا کہ مقدس صحائف میں بیان کیا گیا ہے جہنم کی سچائی کا قائل کیا جائے۔چونکہ جہنم کے عذاب بہت مہیب ہیں، اُنہیں اِس کی اگاہی کرنی چاہیے، تاکہ وہ اُن سے دور رہ سکیں، جیسے انسان ایک زہریلے سانپ سے دور رہتا ہے۔ اِس لیے درج ذیل دلائل سے یہ ظاہر کرنا میرا مقصد ہے کہ جہنم کی پریشانی بلاشُبہ انتہائی شدید ہے۔ (واعظ کے گذشتہ دو حصّوں میں ایڈورڈ نے اِن دلائل میں سے چار پیش کیے ہیں۔ ہم اُس کے پانچویں دلیل سے جاری رکھیں گے، ’’کہ جہنم کے عذاب انتہائی شدید ہیں۔‘‘)

5.  دلیل 5 – تشبیہات (تصوراتی الفاظ) جو کلامِ پاک استعمال کرتا ہے جہنم میں عذاب کی شدید انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔ اِسے مکاشفہ 20:1 میں ’’اتھاہ گڑھا‘‘ کہا گیا ہے اور مکاشفہ کی کتاب میں بے شمار دوسری جگہوں پر کہا گیا ہے۔ گڑھے کی گہرائی دونوں انتہائی وسعت اور اِس کی پریشانی کی بے پناہ گہرائی کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ مقدس صحائف میں گرنا یا گڑھے میں پھینکا جانا ہمیشہ پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ جہنم کو ’’اتھاہ گڑھا‘‘ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ اِس کی مصیبت ناقابلِ فہم شدید ہے۔ ایک اور بات جو اِس اصطلاح سے ظاہر ہوتے ہوئے نظر آتی ہے وہ ہے پریشانی کی دائمیت، کہ اِس کا کوئی اختتام نہیں ہے، اور کہ ایک اتھاہ گڑھے کی کوئی تہہ یا حد نہیں ہے۔
      دوبارہ، اِس پریشانی کو ’’تاریکی کا اندھیرا‘‘ کہا گیا ہے۔ یہودہ 13 باب کہتا ہے، ’’جن کے لیے تاریکی کا اندھیرا ہمیشہ کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔‘‘ بائبل میں تاریکی عام طور پر بدنصیبی کو ظاہر کرتی ہے۔ اِس لیے، ’’تاریکی کا اندھیرا‘‘ اِس کی انتہائی شدید انتہا کو نری بدنصیبی ظاہر کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رسول یہ بتانے کے لیے کہ جہنم کا اندھیرا کتنا شدید ہے ایک تاثر چاہتا تھا، اور اِس لیے اُس نے اِسے ’’تاریکی کا اندھیرا‘‘ کہا۔
      ایک اور تشبیہہ جو اِس عذاب کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہے وہ ’’کیڑا‘‘ ہے جو کبھی نہیں مرتا ہے۔ متی 9:44 کہتی ہے، ’’جہاں اُن کا کیڑا مرتا نہیں۔‘‘ یہ وضاحت اشعیا 66:24 سے لی گئی ہے، جو کہتی ہے، ’’پھر وہ نکل کر اُن لوگوں کی لاشوں پر نظر ڈالیں گے جنہوں نے مجھ سے سرکشی کی تھی: کیونکہ اُن کا کیڑا نہ مرے گا۔‘‘ یہ اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جب ایک جسم مرتا ہے تو یہ گلناسڑنا شروع کرتا ہے،اور جلد ہی کیڑوں سے بھر جائے گا۔ مردہ جسم کیڑہ سے بھرا ہو گا جو اُس کو کاٹ رہے ہونگے۔ یہ الفاظ جہنم کی پریشانی کی شدت کو بتاتے ہیں۔ ایک انسان کے لیے یہ کس قدر پریشان کُن ہے کہ وہ آگاہ بھی ہو اور اِس کے باوجود ایسے کیڑوں سے جو کبھی مرتے نہیں اپنے آپ کو مسلسل کٹوا رہا ہو۔
      لیکن مرکزی تشبیہہ جو جہنم کو واضح کرنے کے لیے بیان کی گئ وہ آگ ہے، جو مقدس صحائف میں اِسے بیان کرنے کے لیے زیادہ تر اکثر استعمال کی گئی ہے۔ غیر تبدیل شُدہ بدکار کے مستقبل کی سزا کے بارے میں اکثر کہا گیا ہے کہ اُنہیں آگ میں جھونک دیا جاتا ہے، جہاں وہ سدا کے لیے جلتے رہتے ہیں، ایک آگ جو کبھی بھی بجھائی نہیں جائے گی، جیسا ہماری تلاوت میں ہے،

’’اور اُس نے چلّا کر کہا، اَے باپ ابرہام، مجھ پر رحم کر، اور لعزر کو بھیج، تاکہ وہ اپنی اُنگلی کا سراپانی سے ترکر کے میری زبان کو ٹھنڈک پہنچائے؛ کیونکہ میں اِس آگ میں تڑپ رہا ہُوں‘‘ (لوقا 16:24).

امیر آدمی ایک آگ میں تڑپتا ہے۔ وہ پانی کے ایک قطرے کے لیے چلاتا ہے تاکہ اپنی زبان کو تر کر سکے۔ خیال کر یں کس قدر بڑی بدنصیبی ہوگی، کہ ہمیشہ کے لیے آگ کے شعلوں میں جلنا اور جھلستے رہنا ہوگا، اور اِس کے باوجود کبھی بھی مر نہیں سکنا، کبھی بھی اپنا ہوش نہیں کھونا، آگ کی وجہ سے تکلیف کبھی کم نہیں ہوگی۔ یہ ایک انسان کے لیے زندہ جلائے جانے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا عذاب ہوگا، کیونکہ زندہ جلائے جانے میں اُس کا جسم جلد ہی جل جائے گا اور وہ ہوش و حواس کھو دے گا۔ لیکن جہنم میں وہ مسلسل جلائے جاتے رہیں گے۔ وہ مسلسل ’’اِس آگ میں تڑپتے‘‘ رہیں گے (لوقا 16:24)۔
      مقدس صحائف میں، لیکن یہ آگ، کوئی عام آگ نہیں ہے۔ اِس کو ’’آگ کی بھٹی‘‘ کہا گیا ہے۔ متی 13:42 میں مسیح نے کہا کہ انہیں’’آگ کی بھٹی میں جھونک‘‘ دیں گے۔ بھٹیاں دھاتیں پگھلانےکے لیے بنائی جاتی ہیں،اور انہیں انتہائی درجے کی حرارت چاہیے ہوتی ہے۔ کس قدر بد نصیب ایک گنہگار ہوگا، ہمیشہ کے لیے ایسی بھٹی میں پڑا رہے گا،اور پھر بھی مکمل ہوش میں ہوگا!
      جہنم کو ’’آگ کی جھیل‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ مکاشفہ 20:15 میں ہم پڑھتے ہیں، ’’اور جس کسی کا نام کتابِ حیات میں لکھا ہوا نہ ملا، اُسے بھی آگ کی جھیل میں ڈالا گیا۔‘‘ مائع آگ کی ایک جھیل، جیسے جلتا ہوا گندھک کا تیزاب یا پگھلی ہوئی دھات، یہ کیسی بدنصیبی کی تصویر ہے – اِس قسم کی جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جانا اور ہمیشہ کے لیے وہیں پڑے رہنا۔
      دوبارہ، جہنم کو ایک ’’جلتے ہوئے تندور‘‘ کے طور پر بتایا گیا ہے۔ زبور 21:9 میں، ہم پڑھتے ہیں، ’’اپنے غصے کے وقت میں تو اُنہیں جلتے ہوئے تندور کی مانند کر دے گا: اپنے غضب میں خُداوند اُنہیں نگل جائے گا... ‘‘
      اِس پر شاید بحث کی جاتی کہ بائبل میں تشبیہات کو اگر لفظی لیا جائے، تو وہ موضوع کو حقیقی سچائی سے پرے لے جاتی ہیں، جیسا کہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جب مقدس صحائف میں زمینی تباہی کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
      اِس پر میں جواب دیتا،کہ جب مقدس صحائف زمینی باتوں کے لیے ایسی تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں، تو وہ اکثر مبالغات ہوتے ہیں جو ضرورت سے زیادہ بتاتے ہیں۔ لیکن جو تشبیہات جہنم اور جنت کےلیے استعمال ہوتی ہیں مکمل سچائی کو بتانے میں کم پڑ جاتی ہیں۔ یوں مصر میں اسرائیل کے بچوں کی غلامی ’’لوہے کی بھٹی‘‘ کہلاتی ہے، اِس لیے نہیں کیونکہ وہ بہت ہولناک تھی، مگر کیونکہ اُسے جہنم کی اِس قسم کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اور بےشمار شاندار تشبیہات کنعان کی سرزمین کے بارے میں استعمال کی گئیں کیونکہ کنعان ایک قسم کی جنت تھا۔ بے شمار شاندار تشبیہات جنہیں انبیاء نے خُدا کے لوگوں کو بابل کی اسیری سے نجات پانے کے لیے استعمال کیا لفظی سچائی سے کہیں پرے نکل گئیں، لیکن ایسا اِس لیے تھا کیونکہ وہ یسوع مسیح کی طرف سے آنے والی نجات کی ایک قسم کے طور پر پیش کی گئیں تھی۔
      خُدا کا مقصد، جب وہ ہمیں جہنم کے بارے میں بتاتا ہے، یہ نہیں ہے کہ ہمیں غیر یقینی تشبیہات دے، بلکہ یہ ہے کہ ہمیں بتائے جہنم کس طرح کی ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ کسی اور بات کے بارے میں سوچنا حد سے زیادہ ہوگا۔ لیکن یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ جنت اور جہنم سے تعلق رکھنے والی تشبیہات کم پڑ جاتی ہیں، بجائے اِس کے کہ وہ اُس دوسری دُنیا کی چیزوں سے پرے چلی جائیں، وہ دوسری دُنیا،کیونکہ ہمیں بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ اِس قدر بڑی ہیں کہ ہم اُن کا تصور بھی نہیں کر سکتے، جیسا کہ پولوس رسول ہمیں 2۔کرنتھیوں 12:4میں جنت سے متعلق بتاتا ہے۔ جس کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنت کسی انسانی خیال اور تاثر سے جو اِسے بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں بہت پرے کی چیز ہے۔ اِسی وجہ کی بِنا پر ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ جہنم کے بارے میں بھی سچ ہے، خاص طور پر کیونکہ ہمیں ایسا ہی زبور 90:11 میں بتایا گیا ہے، ’’تیرے قہر کی شدت کو کون جانتا ہے؟‘‘ یعنی کہ، یہ اِس دُنیا میں اِس کو سمجھنا ناممکن ہے۔ اِس لیے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ مقدس صحائف میں جہنم کے بارے میں استعمال کی گئیں تشبیہات اُس سے کہیں پرے اور بڑی ہیں جو پیش کی گئیں ہیں – اور کہ بلاشُبہ مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنے کے بعد آگ تو بالکل بھی کوئی تشبیہہ نہیں ہوگی (حوالے دیکھیے 2۔پطرس 3:10۔12؛ عبرانیوں 12:26۔29)۔

6.  دلیل 6 – ہم اُن کی بدنصیبی سے جو اِس کے عتاب میں آتے ہیں جہنم کے عذاب کی لامحدودیت کے لیے بحث کرتے ہیں ۔ ہمارے پاس مقدس صحائف میں کچھ مثالیں ہیں کہ کیسے بدکار اپنی بدنصیبی کے احساس کا بیان جس کا تعلق دونوں خُدا کے قہر کی حکمت عملی، اور اُس کے تجربے سے ہے کرتے ہیں۔
      ہم اشعیا 33:14 میں دیکھتے ہیں کہ کیسے صیّون میں گنہگار اپنے آپ کو اِس بدحالی یا بدنصیبی کی توقع میں بیان کرتے ہیں، ’’صیّون میں رہنے والے گنہگار خوفزدہ ہیں؛ اور بے دینوں کو کپکپی نے آ پکڑا ہے؛ ہم میں سے کون اُس مُہلک آگ میں رہ سکتا ہے؟ ہم میں سے کون اُن ابدی شعلوں کے درمیان بس سکتا ہے؟‘‘ وہ اِس بات سے آگاہ ہیں کہ وہ اِس کو برداشت نہیں کر سکتے، کہ یہ ناقابلِ برداشت ہوگی۔ وہ اُن کی مانند رو پڑتے ہیں جو اِس کے بارے میں صرف سوچ کر ہی کپکپا جاتے ہیں، جیسا کہ یہ کہا گیا، اُنہیں’’خوفزدگی نے حیران کردیا۔‘‘
      مکاشفہ کے چھویں باب میں پندرویں آیت سے لے کر ستارویں آیت تک دوبارہ، ہم پڑھتے ہیں کیسے،

’’تب زمین کے بادشاہ، اُمراء، فوجی افسر، مالدار، زورآور اور سارے غُلام اور آزاد غاروں اور پہاڑوں کی چٹانوں میں جا چھپِے۔ اور پہاڑوں اور چٹانوں سے کہنے لگے کہ ہم پر گر پڑو اور ہمیں اُس کے چہرہ سے جو تخت نشین ہے اور برّہ کے غضب سے چھِپالو کیونکہ اُن کے غضب کا روزِ عظیم آپہنچا ہے اور کون اُس کی تاب لا سکتا ہے‘‘ (مکاشفہ 6:15۔17).

وہ خُدا کے آنے والے قہر سے اِس قدر خوف میں مبتلا ہونگے کہ وہ خوش ہونگے اگر پہاڑ اور چٹانیں اُن پر گِر جائیں، تاکہ وہ اپنے آپ کو اُس کے غصّے سے چُھپا لیں۔ اور، یہ صرف بادشاہ یا اُمرا ہی نہیں ہیں جن کے بارے میں بات کی گئ، بلکہ ’’ہرغلام، اور ہر آزاد آدمی،‘‘ یعنی کہ، ہر کھویا ہوا گنہگار دھشت زدہ ہوگا۔ یہ تمام غاروں میں چُھپے ہوئے نظر آئیں گے، پہاڑوں کے لیے رو رہے ہوں گے کہ اُن پر گِر پڑیں۔ زمین پر قوی اور انتہائی طاقتور لوگ بھی اتنے ہی خوفزدہ ہونگے جتنے کہ عام آدمی اور عورتیں۔ وہ تمام خُدا قادرِمطلق کے انتقام سے دھشت زدہ ہونگے۔
      ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ لعنتی روئیں گے اور ماتم کریں گے اور اپنے دانت پیسیں گے، جیسا کہ ہمیں مسیح نے متی 8:12 میں اور متی 13:42 میں بتایا ہے۔ مسیح ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو بدنصیبی کے سب سے زیادہ ممکن تاثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ روئیں اور ماتم کریں گے۔ وہ بہت غصے میں اپنے دانت پیسیں گے۔ اور ہمارے پاس اِس کا ایک خاص واقعہ ہماری تلاوت میں ہے، جو سادگی سے ہمیں ایک امیر آدمی کے بارے میں بتاتا ہے جو اپنی زبان کو تر کرنے کے لیے پانی کے ایک قطرے کے لیے چلا رہا ہے، جبکہ وہ ’’اِس آگ میں تڑپتا‘‘ ہے (لوقا 16:24)۔


یہ جاناتھن ایڈورڈ کے واعظ کا تیسرا حصّہ ہے، ’’کہ جہنم کے عذاب انتہائی شدید ہیں۔‘‘ کل رات میں مختصر انداز میں جدید انگریزی کے لیے موافق کر کے اِس پر مذید واعظ دوں گا۔ لیکن آج شب کا اختتام میں اِس تلاوت اور ایڈورڈ کی طرف سے کچھ الفاظ کے ساتھ کروں گا۔

’’اور اُس نے چلّا کر کہا، اَے باپ ابرہام، مجھ پر رحم کر، اور لعزر کو بھیج، تاکہ وہ اپنی اُنگلی کا سراپانی سے ترکر کے میری زبان کو ٹھنڈک پہنچائے؛ کیونکہ میں اِس آگ میں تڑپ رہا ہُوں‘‘ (لوقا 16:24).

اگر آپ واقعی سوچتے ہیں کہ آپ جہنم جائیں گےتو آپ کو خوفزدہ ہونا ہوگا۔ لیکن آپ سوچتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے آپ شاید اِس سے بچ سکیں گے۔ تو پھر اِس سے بچنے کا واحد راستہ حقیقی تبدیلی کا تجربہ ہے۔ دائمی عذاب سے بچنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ حقیقی تبدیلی کا تجربہ کریں۔ مسیح نے کہا،

’’ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خدا کی بادشاہی کو نہیں دیکھ سکتا‘‘
      (یوحنا 3:3).

’’کیونکہ وہ دروازہ تنگ اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کے پانے والے تھوڑے ہیں (متی 7:14).

(جاناتھن ایڈورڈ کے واعظ کے تیسرے حصے کا اختتام،
جدید انگریزی کے لیے موافق اور مختصر کیا گیا)

آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.