اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
یہ ابنِ آدم کون ہے؟WHO IS THIS SON OF MAN? ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے ’’لوگوں نے اُس سے کہا، ہم نے شریعت میں سُنا ہے کہ مسیح ہمیشہ زندہ رہے گا اور تو کیسے کہتا ہے کہ ابنِ آدم کا صلیب پر چڑھایا جانا ضروری ہے؟ یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحنا 12: 34)۔ |
حال ہی میں کسی نے میرے ایک واعظ پر ردعمل ظاہر کیا اور مجھے درج ذیل غور طلب بات لکھی،
میں جاننا چاہتا ہوں، یہ کہاں کہا جاتا ہے کہ دوسرے مذاہب جیسے بدھ مت یا ہندو مت آپ کو نہیں بچائیں گے، یا مرنے کے بعد آپ کو جنت میں نہیں پہنچائیں گے؟ بائبل کہاں کہتی ہے کہ صرف مسیحیت ہی آپ کو بچائے گی؟ کیا مسیحیت مختلف باتوں کو برداشت کرنے کے بارے میں نہیں ہے، جیسے کہ مذہب، لوگ، وغیرہ؟
میں پہلے آخری جملے کا جواب دوں گا۔ جی ہاں، سچی مسیحیت دوسرے مذاہب کو برداشت کرتی ہے۔ لیکن لفظ ’’برداشت‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ’’منظور کرنا‘‘ یا ’’اجازت دینا۔‘‘ پروٹسٹنٹ اور بپتسمہ دینے والی مسیحیت کے پاس دوسروں کو مختلف عقائد پر عمل کرنے کی منظوری اور اجازت دینے میں کسی بھی عالمی مذہب کا بہترین ریکارڈ ہے۔ اپنی کتاب زیرِاثر ہونے کے تحت: کیسے مسیحیت نے تہذیب کو بدل ڈالا Under the Influence: How Christianity Transformed Civilization (ژونڈروان Zondervan، 2001) میں، ماہر عمرانیات ڈاکٹر ایلون جے شمٹ Dr. Alvin j. Schmidt ظاہر کرتے ہیں کہ ہم مغربی دنیا میں جن آزادیوں اور حقوق کو قبول کرتے ہیں وہ ’’بڑی حد تک مسیحی اثر و رسوخ کا نتیجہ ہیں‘‘ (گذشتہ بات سے منسلک ibid.، صفحہ 248)۔ لیکن جب کہ مسیحی دوسروں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے کی ’’منظوری‘‘ دیتے ہیں اور ’’اجازت دیتے ہیں‘‘، ہم یقین رکھتے ہیں کہ گناہ سے نجات صرف یسوع مسیح کے ذریعے ملتی ہے۔
جس شخص نے مجھے وہ غور طلب بات لکھی اس نے پوچھا، ’’یہ کہاں لکھا ہے کہ دوسرے مذاہب جیسے بدھ مت یا ہندو مت آپ کو نجات نہیں دلائیں گے… بائبل کہاں کہتی ہے کہ صرف مسیحیت ہی آپ کو نجات دلائی گی؟‘‘ میں نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ میرا یہ مطلب کبھی نہیں تھا کہ ’’مسیحیت‘‘ آپ کو نجات دلائے گی۔ میں نے کہا، ’’یسوع ہی واحد نجات دہندہ ہے۔‘‘ یہ وہ ہستی ہے جو بنی نوع انسان کی نجات دہندہ ہے۔ پھر میں نے اس شخص کو بائبل کی دو آیات دی جو یہ بتاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، یسوع نے کہا،
’’راہ اَور حق اَور زندگی میں ہی ہُوں۔ میرے وسیلہ کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا 14: 6)۔
پطرس رسول نے کہا،
’’یِسوع ہی وہی پتّھر ہے جسے تُم مِعماروں نے ردّ کر دیا، لیکن وُہی کونے کے سِرے کا پتّھر ہو گیا۔ نَجات کسی اَور کے وسیلہ سے نہیں ہے، کیونکہ آسمان کے نیچے لوگوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں دیا گیا ہے جِس کے وسیلہ سے ہم نَجات پا سکیں۔“ (اعمال 4: 11۔12)۔
بائبل کی وہ آیات آج بہت سے لوگوں کو پریشان کرتی ہیں۔ لیکن جو سوال انہیں خود سے پوچھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ کیا یہ سچ ہے یا غلط؟ کیا یسوع مسیح نسل انسانی کا نجات دہندہ ہے یا نہیں؟ ان سوالات کا جواب دینے کے لیے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ بائبل اس کے بارے میں کیا کہتی ہے۔
آج صبح ہماری بائبل کی تلاوت یوحنا کے بارہویں باب سے تھی۔ کلام پاک کے اس حوالے میں یسوع نے لوگوں کو بتایا کہ اُسے مارنے کے لیے سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ ان میں سے بہت سے لوگ پہلے ہی مان چکے تھے کہ وہ المسیح، یعنی مسیحا ہے۔ لیکن وہ سمجھتے تھے کہ مسیحا کبھی نہیں مرے گا۔ انہوں نے پرانے عہد نامہ کے بعض حصوں کو پڑھا تھا جو اس کی ابدی حکومت کی پیشن گوئی کرتے تھے، جیسے اشعیا 9: 7۔ لیکن وہ پرانے عہد نامے میں دیگر پیشن گوئی کے حوالے یاد رکھنے میں ناکام رہے جن میں انسان کے گناہ کے لیے اس کے مصائب اور موت کی پیشن گوئی کی گئی تھی، جیسے اشعیا 53 باب، جہاں نبی نے کہا،
’’لیکن وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا، اَور ہماری بداعمالی کے باعث کُچلا گیا؛ جو سزا ہماری سلامتی کا باعث ہُوئی وہ اُن پرائی، اَور اُس کے کوڑے کھانے سے ہم شفایاب ہُوئے‘‘ (اشعیا 53: 5)۔
وہ یہ بھی یاد رکھنے میں ناکام رہے کہ داؤد نے ایک ہزار سال پہلے کیا لکھا تھا۔
’’میرے خُدا، میرے خُدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟... اُنہوں نے میرے ہاتھ پاؤں چھیدے… اُنہوں نے میرے کپڑوں کو آپس میں بانٹ دیا، اور میرے لباس پر قرعہ ڈالا‘‘ (زبور 22: 1، 16، 18)۔
انہوں نے زکریا نبی کے الفاظ کے بارے میں بھی نہیں سوچا، جو مسیح کی پیدائش سے تقریباً پانچ سو سال پہلے کہے گئے تھے:
’’وہ مجھے دیکھیں گے جسے انہوں نے چھیدا ہے‘‘ (زکریا 12: 10)۔
وہ صرف اس کی ابدی بادشاہی کی پیشن گوئیوں کے بارے میں سوچتے تھے۔ اور اس لیے کہنے لگے،
”ہم نے شَریعت [پرانے عہدنامے] میں سُنا ہے کہ المسیح [یعنی مسیح] ہمیشہ زندہ رہے گا، پھر آپ کیسے کہتے ہیں، اِبن آدم کا صلیب پر چڑھایا جانا ضروُری ہے؟ یہ اِبن آدم کون ہے؟“ (یوحنا 12: 34)۔
یہ ابن آدم کون ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جو آج دنیا کے ہر مرد اور عورت کو درپیش ہے۔ نئے عہد نامہ کا پیغام اسی نکتے پر مرکوز ہے۔ یہ یسوع کا اپنے لیے پسندیدہ نام ہے۔ اُس نے چاروں اناجیل، متی، مرقس، لوقا اور یوحنا میں تریاسی بار خود کو ’’ابن آدم‘‘ کہا۔ آئیے اس اصطلاح کے معنی پر غور کریں۔
’’یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحںا 12: 34)۔
I۔ پہلی بات، اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ایک حقیقی شخص ہے۔
بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ یسوع ایک روح ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ روح القدس ہے۔ لیکن وہ غلط ہیں۔ مسیح روح نہیں ہے۔ کرسمس کے حقیقی معنی لفظ ’’متجسم ہونا‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ خدا بیٹا اپنی پیدائش کے وقت ’’انسانی جسم میں پیدا ہوا‘‘ تھا۔ بائبل کہتی ہے،
’’کلام مجّسم ہوا اور ہمارے درمیان خیمہ زن ہوا‘‘ (یوحنا 1: 14)۔
جیسے کہ کرسمس کا ایک گیت اِس کو تحریر کرتا ہے،
باپ کا کلام، اب جسمانی طور پر ظاہر ہوتا ہے،
اے لوگو آؤ ہم اُس کی پرستش کریں، اے لوگو آؤ، اُس کی عبادت کریں،
اے لوگو آؤ ہم اُس کو سجدہ کریں، مسیح خُداوند۔
(’’آؤ، اے تمام ایماندارو O Come, All Ye Faithful‘‘ ترجمہ فریڈرک اوکلے Frederick Oakley، 1802۔1880)۔
یا، جیسا کہ چارلس ویزلی اپنے کرسمس کے گیت میں اِس کو تحریر کرتے ہیں،
انسانی جسم کے پردے میں وہ قادرِ مطلق دیکھتا ہے؛
اُس متجسم خُدائی کی ستائش ہو،
لوگوں میں رہنے کے لیے انسان بن کر خوش ہوا،
یسوع، ہمارا عمانوایل،
توجہ سے سُنو! قاصد فرشتے گاتے ہیں،
’’نوزائیدہ بادشاہ کو جلال ہو۔‘‘
(’’توجہ سے سُنیں، قاصد فرشتے گاتے ہیں Hark, the Herald Angels Sing‘‘ شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788)۔
عظیم ماہر الہیات ڈاکٹر ولیم جی ٹی شیڈ Dr. William G. T. Shedd نے کہا،
مسیح پیدا ہوا اور مر گیا، بھوکا رہا اور پیاسا رہا، نوزائیدگی سے بچپن اور جوانی تک پروان چڑھا، لذت اور درد کی تبدیلیوں کا نشانہ بنایا گیا، آزمائش کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور جدوجہد کی – مختصر یہ کہ انسان کے تمام تجربات تھے سوائے ان کے جن میں گناہ شامل ہیں (ڈبلیو۔ جی۔ ٹی۔ شیڈ W. G. T. Shedd، عقیدیاتی علمِ الہٰیات Dogmatic Theology، پی اور آر اشاعتی خانے P and R Publishing، دوبارہ اشاعت 2003، صفحہ 646)۔
مزید برآں، جب مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا، وہ روح نہیں تھا۔ اس کا گوشت اور ہڈیاں قبر سے اٹھیں۔ جی اٹھے مسیح نے کہا،
’’میرے ہاتھ اَور پاؤں دیکھو، مَیں ہی ہُوں! مُجھے چھُو کر دیکھو؛ کیونکہ رُوح کی ہڈّیاں اَور گوشت نہیں ہوتی ہیں، جَیسا تُم مُجھ میں دیکھ رہے ہو۔‘‘ (لوقا 24: 39)۔
اسی گوشت اور ہڈی سے جی اُٹھا یسوع آسمان پر اُٹھا لیا گیا (اعمال 1: 9)، اور ’’وہی یسوع، جو تم سے آسمان پر اٹھا لیا گیا ہے، اسی طرح آئے گا جس طرح تم نے اسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے‘‘ (اعمال 1: 11)۔ اب بھی ’’وہی یسوع‘‘ ’’آسمانی مقامات پر [باپ کے] اپنے دائیں ہاتھ پر ہے‘‘ (افسیوں 1: 20)۔
’’یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحںا 12: 34)۔
وہ حقیقی گوشت اور ہڈیاں کا انسان ہے۔
II۔ دوسری بات، اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ خدا بیٹا ہے۔
ڈاکٹر ہنری تھائیسن نے نشاندہی کی کہ لفظ ’’ابن آدم‘‘ اکثر اس کے الوہیت کو ظاہر کرتا ہے۔
مثال کے طور پر، یہ ابن آدم کے طور پر ہے کہ اس کے پاس زمین پر گناہوں کو معاف کرنے کا اختیار ہے (متی 9: 6)، سبت کی شریعت کی تشریح کرنے کا (متی 12: 8)، اور سزا پر عمل کرنے کا (یوحنا 5: 27)۔ یہ ابنِ آدم کے طور پر ہے کہ وہ اپنی جان بہتوں کے لیے فدیہ میں دیتا ہے (متی 20: 28)؛ کہ وہ اپنے فرشتوں کو سبھی ٹھوکر کھِلانے والی چیزوں اَور بدکاروں کو اکٹھا کرنے کے لیے بھیجے گا (متی 13: 41)؛ کہ وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا (متی 19: 28؛ 25: 31)؛ کہ وہ دوبارہ آئے گا (متی 24: 24؛ 26: 64)۔ یقیناً، یہ کہنا بہت زیادہ نہیں ہے کہ وہ اصطلاح [انسان کا بیٹا] ان حوالوں میں الوہیت کو ظاہر کرتی ہے (ہنری سی تھائیسن، پی ایچ ڈیHenry C. Thiessen، درجہ بہ درجہ علمِ الہٰیات میں تعارفی لیکچرزIntroductory Lectures in Systematic Theology، عئیرڈمینز Eerdmans، 1971 دوبارہ اشاعت، صفحہ 141)۔
یسوع نے کہا، ’’ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا‘‘ (متی 19: 28)۔
’’کیونکہ گواہی دینے والے تین ہیں، یعنی باپ، کلام، اور روح القدس: اور یہ تینوں ایک ہی ہیں‘‘ (I یوحنا 5: 7)۔
ابن آدم خدا بیٹا ہے!
فرانسیسی فلسفی جین جیکوایس روسؤ Jean-Jacques Rousseau (1712-1778) نے ایک پروٹسٹنٹ کے طور پر پرورش پائی تھی، لیکن ایک کیتھولک اور آخر میں، ایک ایسا شخص بن گیا جو یہ مانتا تھا کہ خدا نے کائنات بنائی اور پھر اسے چھوڑ دیا۔ اگرچہ وہ کسی بھی آرتھوڈوکس یا تقلید پسند معنوں میں مسیحی نہیں تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ مسیح انسانوں میں منفرد ہے۔ روسؤ نے کہا تھا، ’’اگر سقراط فلسفی کی طرح زندہ رہا اور مر گیا تو یسوع ایک خدا کی طرح زندہ رہا اور مر گیا۔‘‘
’’یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحںا 12: 34)۔
وہ خدا بیٹا ہے، پاک تثلیث کی دوسری ہستی!
III۔ تیسری بات، اِس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ وہ شخص ہے جو گناہ کے لیے کفارہ ادا کرتا ہے۔
یسوع نے کہا،
’’ابن آدم کو زمین پر گناہوں کو معاف کرنے کا اختیار ہے‘‘ (متی 9: 6)۔
اُس نے یہ بھی کہا،
’’یہ نئے عہدنامے کا میرا وہ خُون ہے جو بہتیروں کے گُناہوں کی مُعافی کے لیٔے بہایا جاتا ہے‘‘ (متی 26: 28)۔
جب مسیح صلیب پر مر گیا، تو اس نے انسانی گناہ کا کفارہ ادا کیا۔ جب وہ مر گیا تو اُس نے کہا،
’’یہ تمام ہوا‘‘ (یوحنا 19: 30)۔
اس کا کیا مطلب تھا؟ اس کا مطلب تھا کہ نجات کا سارا کام ختم ہو گیا تھا۔ آپ اس میں کچھ بھی شامل نہیں کر سکتے۔ آپ یا تو مسیح کے پاس آتے ہیں اور گناہ کی سزا سے نجات پا جاتے ہیں – یا آپ اس کے پاس نہیں آتے، اور گناہ سے محفوظ نہیں رہتے۔ آپ جو کچھ یسوع مسیح کے ساتھ کرتے ہیں وہ اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا آپ اپنے گناہ کی سزا سے بچ گئے یا گمراہ ہو گئے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ یسوع لوگوں کو پشیمان کرتا ہے – آج بھی۔ آپ نے دیکھا، دنیا کے تمام مذاہب سکھاتے ہیں کہ آپ کو نجات پانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ لیکن یسوع کہتا ہے، ’’نہیں۔‘‘ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ وہ اکیلا ہی جرمانہ ادا کر سکتا تھا – اور اس نے ادا کیا – صلیب پر۔ اسے ’’صلیب کی رسوائی‘‘ کہا جاتا ہے – اور یہ نئے عہد نامہ کی بنیادی تعلیم ہے۔ صرف مسیح ہی آپ کے گناہ کا کفارہ ادا کر سکتا ہے – کیونکہ صرف مسیح ہی ابن آدم تھا، انسانی جسم میں خدا بیٹا، صلیب پر آپ کے گناہ کی قیمت ادا کر رہا تھا۔ اور اسی لیے اُس نے کہا،
’’میرے وسیلہ کے بغیر کوئی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ (یوحنا 14: 6)۔
’’یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحںا 12: 34)۔
مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سی ایس لوئیس C. S. Lewis نے کہا،
یا تو یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا، اور ہے: یا پھر دیوانہ یا اس سے بھی بدتر۔ آپ اسے ایک احمق کے طور پر نظر انداز کر سکتے ہیں، آپ اس پر تھوک سکتے ہیں اور اسے شیطان کی طرح مار سکتے ہیں۔ یا آپ اس کے قدموں پر گر سکتے ہیں اور اسے خداوند اور خدا کہہ سکتے ہیں۔ لیکن آئیے ہم اس کے ایک عظیم انسانی استاد ہونے کے بارے میں کسی قسم کی حماقت کا ساتھ نہ دیں۔ اس نے اسے ہمارے کرنے کے لیے گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ اس کا ارادہ نہیں تھا (سی ایس لوئیس پی ایچ ڈی C. S. Lewis, Ph.D، محض مسیحیت Mere Christianity، نیویارک: دی میکمِیلن کمپنی New York: The Macmillan Company، 1952، صفحہ 40۔41)۔
’’یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحںا 12: 34)۔
وہ یسوع ہے۔ خُدا باپ نے اُسے زمین پر آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرنے کے لیے بھیجا تھا۔ وہ جسمانی طور پر مردوں میں سے جی اُٹھا اور ایک اور جہت میں، ’’آسمانی مقامات‘‘ میں ابھی زندہ ہے، (افسیوں 1: 20)۔ آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ کیا آپ اس کے پاس آئیں گے – یا آپ اسے مسترد کریں گے؟ کیا آپ اُس کے ذریعے بچائے جائیں گے – یا آپ ہمیشہ کے لیے گناہ میں کھو جائیں گے؟ آئیے دعا کریں۔
آسمانی باپ، تو نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ گنہگاروں کو صلیب پر اپنی قربانی کی موت کے ذریعے سزا سے بچایا جا سکے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ آپ اندھی آنکھیں اور بہرے کان کھول کر نجات کا یہ شاندار پیغام سنیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ گنہگار توبہ کے ذریعے گناہ کی زندگی سے باز آجائیں، اور اپنے گناہوں کی معافی اور وہ ابدی زندگی کے لیے تیرے بیٹے کے پاس آئیں جو وہ انہیں دے سکتا ہے۔ یسوع مسیح کے ذریعے، ہمارے خُداوند ہم دعا کرتے ہیں۔ آمین۔
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
لُبِ لُباب یہ ابنِ آدم کون ہے؟ WHO IS THIS SON OF MAN? ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے ’’لوگوں نے اُس سے کہا، ہم نے شریعت میں سُنا ہے کہ مسیح ہمیشہ زندہ رہے گا اور تو کیسے کہتا ہے کہ ابنِ آدم کا صلیب پر چڑھایا جانا ضروری ہے؟ یہ ابنِ آدم کون ہے؟‘‘ (یوحنا 12: 34)۔ (یوحنا 14: 6؛ اعمال 4: 11-12؛ حوالہ دیکھیں اشعیا 9: 7؛ اشعیا 53: 5؛
I. پہلی بات، وہ ایک حقیقی آدمی ہے، یوحنا 1: 14؛ لوقا 24: 39; اعمال 1: 9، 11؛
II. دوسری بات، وہ خدا بیٹا ہے، متی 9: 6؛ 12: 8؛ یوحنا 5: 27؛
III. تیسری بات، وہ وہ ہے جو گناہ کا کفارہ دیتا ہے، متی 9: 6؛ 26: 28; |