اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔
واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔
جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔
تین ناقابلِ یقین ثبوت
|
یسوع نے اپنے آپ کو زندہ ظاہر کیا۔ اس نے اپنے آپ کو رسولوں کے سامنے ’’پیش کیا‘‘ (رائینیکرRienecker، نئے عہد نامے کی ایک لسانی کلیدA Linguistic Key to the New Testament)۔ اُس نے اپنے آپ کو ’’اپنے دُکھ سہنے کے بعد زندہ‘‘ پیش کیا، یعنی جب وہ ’’دُکھ اُٹھا‘‘ چکا تھا اُس کے بعد (سٹرانگ کی [اہم الفاظ اور سیاق و سباق کے اشاریوں والی] کتاب Strong's Concordance)۔ اس تکلیف میں کوڑے مارنا بھی شامل تھا، جس نے اس کی کمر سے جلد کو چھین لیا، اور بڑے بڑے زخم لگائے۔ اس کی مصلوبیت، جس کے دوران اس کے پاؤں اور ہاتھ صلیب پر کیلوں سے جڑے ہوئے تھے۔ اس کی اذیت ناک موت؛ اور اس کے پہلو کو چھیدنا، جب اس کے دل میں نیزہ پیوست کیا گیا۔ لیکن مسیح دفن ہونے کے تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھا۔ اور اُس نے ’’اپنے آپ کو اپنے دُکھ اُٹھا چکنے کے بعد بہت سے ناقابلِ یقین ثبوتوں سے زندہ ظاہر کیا۔‘‘
الفاظ ’’ناقابلِ یقین ثبوت‘‘ یونانی لفظ ’’ٹیکمیریاؤزtěkmērios‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’ظاہری ثبوت‘‘ (رائینیکرRienecker، ibid.) ’’طبّی زبان میں ’ظاہری ثبوت‘‘‘ (ولیم ہوبارٹWilliam Hobart، مقدس لوقا کی طبّی زبانیں، بیکرBaker، 1954، اعمال 1: 3 پر غور طلب بات)۔ کیلون نے کہا،
یعنی اِس سے تعلق رکھنے والی سچائی پر سوال نہ اُٹھایا جائے، اس نے کہا کہ یہ بہت سے نشانوں اور نشانیوں سے ثابت ہوا ہے [کہ] میں نے ثبوتوں کا ترجمہ کیا ہے (جان کیلونJohn Calvin، اعمال 1: 3 پر تبصرہ)۔
یہاں صرف، اعمال 1: 3 میں، ہمیں بتایا گیا ہے کہ مسیح ’’ چالیس دِن تک اُنہیں نظر آتا رہا اَور خُدا کی بادشاہی کی باتیں سُناتا رہا‘‘ (اعمال 1: 3)۔
اگر وہ ان کے سامنے صرف ایک بار ظاہر ہوتا تو یہ کسی حد تک مشتبہ ہوسکتا تھا، لیکن اپنے آپ کو ان کے سامنے کثرت سے ظاہر کرنے میں، اور اس ذریعہ سے ظاہر کرنے سے، وہ اس جہالت کی ملامت کو بھی دور کرتا ہے جو اس نے کہا کہ رسولوں میں تھی، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ان کی تبلیغ کو بدنام کردیتی (گذشتہ بات سے منسلک ibid.)۔
مسیح بار بار رسولوں پر ظاہر ہوا تاکہ وہ اپنے جی اُٹھنے کو یقینی بنائے اور ان کی منادی کو مضبوط کرے۔
’’دُکھ سہنے کے بعد، یِسوعؔ نے اَپنے زندہ ہو جانے کے کئی قوی ثبُوتوں سے اَپنے آپ کو اُن پر ظاہر بھی کیا‘‘ (اعمال 1: 3)۔
ہم آج صبح مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے اِن تین ’’ناقابلِ یقین ثبوتوں‘‘ کے بارے میں سوچیں گے۔
I۔ پہلی بات، جب وہ قبر پر آئے تو وہ خالی تھی۔
وہ عورتیں جو قبر پر آئیں تھی اُسے خالی پایا۔ وہ اُس کے بدن پر لگانے کے لیے مسالے لے کر آئی تھیں – لیکن قبر خالی تھی۔ ’’داہنی طرف بیٹھے ایک نوجوان شخص‘‘ نے اُن سے کہا، (مرقس 16: 5)۔
’’تم یسوع ناصری کو ڈھونڈتی ہو جسے مصلوب کیا گیا تھا: وہ جی اُٹھا ہے؛ وہ یہاں نہیں ہے: دیکھو یہ وہ جگہ ہے جہاں اُنہوں نے اُسے رکھا تھا‘‘ (مرقس 16: 6)۔
خود رسولوں نے قبر کو خالی پایا۔ مریم مگدلینی نے دوڑ کر پطرس کو بتایا کہ مسیح کی لاش وہاں نہیں ہے۔
’’یہ سُنتے ہی پطرس اَور وہ دُوسرا شاگرد [یوحنا خود] قبر کی طرف چل دئیے۔ دونوں دَوڑے جا رہے تھے لیکن وہ دُوسرا شاگرد، پطرس سے آگے نکل گیا اَور قبر پر اُس سے پہلے جا پہُنچا۔ اُس نے جُھک کر اَندر جھانکا اَور سُوتی کپڑے پڑے دیکھے لیکن اَندر نہیں گیا۔ اِس دَوران شمعُون پطرس بھی پیچھے پیچھے وہاں پہُنچ گیا اَور سیدھا قبر میں داخل ہو گیا۔ اُس نے دیکھا کہ وہاں سُوتی کپڑے پڑے ہویٔے ہیں، اَور کفن کا وہ رُومال بھی جو یِسوع کے سَر پر لپیٹا گیا تھا۔ سُوتی کپڑوں سے الگ ایک جگہ تہہ کیا ہُوا پڑا تھا‘‘ (یوحنا 20: 3۔8)۔
یہاں تک کہ کافر رومی اور یہودی بھی جانتے تھے کہ قبر خالی ہے۔ متی ہمیں بتاتا ہے،
’’ابھی وہ عورتیں راستے ہی میں تھیں کہ پہرے داروں میں سے بعض شہر گئے اَور اہم کاہِنوں سے سارا ماجرا کہہ سُنایا۔ اِس پر اہم کاہِنوں نے بُزرگوں سے مِل کر مشورہ کیا اَور سپاہیوں کو منصُوبہ کے تحت، ایک بڑی رقم اَدا کی، اور کہا، تُم یہ کہنا، ’رات کے وقت جَب ہم سو رہے تھے تو اُس کے شاگرد آئے اَور یِسوع کی لاش کو چُرا لے گئے۔ اور اگر یہ خبر حاکم کے کان تک پہُنچی تو ہم اُسے مطمئن کر دیں گے اَور تُمہیں خطرے سے بچا لیں گے۔ چنانچہ سپاہیوں نے رقم لے کر جیسا اُنہیں سِکھایا گیا تھا وَیسا ہی کیا اَور یہ بات آج تک یہُودیوں میں مشہُور ہے‘‘ (متی 28: 11۔15)۔
لی سٹروبلLee Strobel مسیح کا مقدمہ The Case of Christ اور ایمان کا مقدمہ The Case for Faith کے مصنف ہیں۔ سٹروبل ہمیں بتاتا ہے،
یہودی رہنماؤں نے یہ مضحکہ خیز کہانی پیش کی کہ محافظ سو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ تنکے کو پکڑ رہے تھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ: انہوں نے اس مفروضے کے ساتھ آغاز کیا کہ قبر خالی تھی!... قدیم ترین یہودی دلیل خالی قبر کی سچائی کو پیش کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کوئی بھی یہ دعویٰ کرنے والا نہیں تھا کہ قبر میں اب بھی یسوع کا جسم موجود ہے۔ سوال یہ تھا کہ جسم کو کیا ہوا؟ (لی سٹروبل، فیصلہDecision، اپریل، 2003، صفحہ 9)۔
یہودی رہنماؤں کی دلیل تین وجوہات کی بنا پر غلط تھی:
(1) پیلاطس، رومی گورنر، نے مقبرے کو سیل کر دیا تھا اور رومی محافظوں کو اس کی نگرانی کے لیے مقرر کیا تھا۔ اگر وہ سو جاتے تو ان پہرہ داروں کی اپنی جان کی قیمت لگ جاتی۔ رومی سپاہی آج کے بحریہ کے کمانڈروں کی طرح سخت دل اور تقریباً اتنے ہی تربیت یافتہ تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایسے لوگ سو جائیں۔ مزید برآں، البرٹ روپر بتاتے ہیں کہ مقبرے کی حفاظت کرنے والے رومی سپاہیوں کی تعداد تقریباً بیس تھی، اور وہ ایک رومی صوبےدار کی قیادت میں تھے (حوالہ دیکھیں جوش میک ڈویلJosh McDowell، نئے ثبوت جو عدالتی فیصلے کا مطالبہ کرتے ہیں The New Evidence That Demands a Verdict، صفحہ 235)۔
(2) یہاں تک کہ اگر یہ ناممکن رونما ہو جائے اور ایک صوبہ دار اور بیس رومی سپاہی سو گئے تو یہ محافظ کیسے سوتے رہے جب کہ پتھر کے اردگرد کی مہر ٹوٹ گئی تھی اور وہ بڑا پتھر واپس لڑھک گیا تھا۔ اس نے بڑا شور مچایا ہوگا کیونکہ اسے دروازے سے قبر تک لڑھکایا گیا تھا۔ سخت جاں، بہترین تربیت یافتہ رومی محافظ اس سارے شور میں سو نہیں سکتے تھے جو مہر کے ٹوٹنے اور بڑے پتھر کے لڑھکنے کی وجہ سے ہوتا۔
(3) یہاں تک کہ اگر پتھر کو ہٹا دیا گیا تھا، تو محافظوں کو کیسے پتہ چلتا کہ لاش چوری ہوئی ہے – اگر وہ سو رہے تھے؟ وہ شاید نہیں جان سکتے تھے کہ اگر وہ سو رہے تھے تو کیا ہوا! تو رشوت اور دھوکہ دہی کی یہ ساری کہانی ایک مضحکہ خیز، جھوٹ پر مبنی ہے۔ لیکن بے ایمان یہودی رہنماؤں اور رومی محافظوں کی اس گھناؤنی سازش سے ایک چیز صاف ظاہر ہوتی ہے – وہ جانتے تھے کہ قبر خالی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ مسیح وہاں نہیں تھا۔
لی سٹروبل لکھتے ہیں،
ان حقائق کے پیش نظر، شبہ کرنے والے یسوع کے جسم کو دوبارہ قبر میں ڈالنے میں غیرمؤثر رہے ہیں۔ وہ بھڑک اٹھتے ہیں۔ وہ جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ خود متضاد ہیں۔ اور وہ شواہد کا محاسبہ کرنے کی کوشش کرنے کے لیے غیر معمولی نظریات کی پیروی کرتے ہیں، پھر بھی ہر بار، آخر میں، قبر خالی رہتی ہے (ibid.)۔
مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا پہلا ’’ناقابلِ یقین ثبوت‘‘ خالی قبر ہے۔ میں یروشلم گیا ہوں۔ میں اور میری بیوی نے مسیح کی قبر دیکھی ہے۔ میں خود آپ کو بتا سکتا ہوں – وہ قبر خالی ہے!
’’وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ وہ جی اُٹھا ہے، جیسا کہ اُس نے کہا تھا۔ آؤ، اُس جگہ کو دیکھو جہاں یسوع کو رکھا گیا تھا‘‘ (متی 28: 6)۔
خالی قبر یسوع مسیح کے جی اٹھنے کا پہلا ناقابل یقین ثبوت ہے!
’’دُکھ سہنے کے بعد، یِسوعؔ نے اَپنے زندہ ہو جانے کے کئی قوی ثبُوتوں سے اَپنے آپ کو اُن پر ظاہر بھی کیا اَور وہ چالیس دِن تک اُنہیں نظر آتا رہا اَور خُدا کی بادشاہی کی باتیں سُناتا رہا‘‘ (اعمال 1: 3)۔
II۔ دوسری بات، شاگردوں نے اُسے کئی بار دیکھا جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا۔
یہ مسیح کے جی اُٹھنے کا دوسرا ’’ناقابلِ یقین ثبوت‘‘ ہے۔ مسیح ایک بار شاگردوں پر ظاہر نہیں ہوا۔ اُس نے اپنے آپ کو چالیس دن کی طویل مدت تک کئی بار اُن پر ظاہر کیا۔ وہ دس رسولوں کے پاس آیا جب وہ ایک بند کمرے میں اکٹھے تھے۔
’’ہفتہ کے پہلے دِن شام کے وقت، جَب شاگرد ایک جگہ جمع تھے، اَور یہُودی رہنماؤں کے خوف سے دروازے بند کیٔے بیٹھے تھے، یِسوع اَچانک اُن کے درمیان آ کھڑا ہوا اَور بولا، تُم پر سلامتی ہو، یہ کہہ کر اُس نے اَپنے ہاتھ اَور اَپنی پسلی اُنہیں دِکھائی۔ شاگرد خُداوند کو دیکھ کر خُوشی سے بھر گیٔے۔ یِسوع نے پھر سے کہا، تُم پر سلامتی ہو! جَیسے باپ نے مُجھے بھیجا ہے وَیسے ہی، میں تُمہیں بھیج رہا ہُوں۔ یہ کہہ کر اُس نے اُن پر پھُونکا اَور کہا، ’پاک رُوح پاؤ‘‘‘ (یوحنا 20: 19۔22)۔
لیکن توُما، شاگردوں میں سے ایک، وہاں نہیں تھا۔ جب دوسرے شاگردوں نے اُس سے کہا، ’’ہم نے خُداوند کو دیکھا ہے‘‘ (یوحنا 20: 25)، اُس نے اُن پر یقین نہیں کیا۔ اس نے کہا
”جَب تک میں کیلوں کے سوراخ کے نِشان اُس کے ہاتھوں میں دیکھ کر اَپنی اُنگلی اُن میں نہ ڈال لُوں، اَور اَپنے ہاتھ سے اُس کی پسلی نہ چُھو لوں، تَب تک یقین نہ کروں گا۔ “ (یوحنا 20: 25)۔
ڈاکٹر جان میک آرتھر، اگرچہ مسیح کے خون اور ’’خداوند کی نجات‘‘ کے بارے میں غلط ہیں، لیکن وہ درست ہے جب وہ کہتے ہیں، ’’توُما کے اعمال نے نشاندہی کی کہ یسوع کو اپنے جی اُٹھنے کے بارے میں زبردستی اپنے شاگردوں کو قائل کرنا تھا، یعنی، وہ بے وقوف لوگ نہیں تھے جو قیامت پر یقین رکھتے تھے۔ بات یہ ہے کہ انہوں نے اسے گھڑ کر یا فریب میں نہیں کہا ہوگا، کیونکہ وہ ان ثبوتوں کے باوجود بھی یقین کرنے سے گریزاں تھے جو وہ دیکھ سکتے تھے‘‘ (میک آرتھر کا مطالعۂ بائبلMacArthur Study Bible، یوحنا 20: 24-26 پر غور طلب بات)۔
’’ایک ہفتہ بعد یِسوع کے شاگرد ایک بار پھر اُسی جگہ مَوجُود تھے، اَور توما بھی اُن کے ساتھ تھا۔ اگرچہ دروازے بند تھے، یِسوع آ کر اُن کے درمیان آ کھڑا ہوا، اَور اُن سے کہا، تُم پر سلامتی ہو! پھر اُس نے توما سے کہا، اَپنی اُنگلی لا؛ اَور میرے ہاتھوں کو دیکھ اَور اَپنا ہاتھ بڑھا اَور میری پسلی کو چھُو، شک مت کر بَلکہ ایمان رکھ ۔ اور توما نے اُس سے کہا، اَے میرے خُداوند اَور اَے میرے خُدا!‘‘ (یوحنا 20: 26۔28)۔
جب توُما نے کہا، ’’اے میرے خداوند اور اے میرے خدا‘‘ اُسے آخر کار یقین ہو گیا کہ مسیح جسمانی طور پر مردوں میں سے جی اُٹھا ہے!
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یسوع نے کچھ ایسا ہی ایک ہفتہ پہلے اُن دس شاگردوں سے کہا تھا جو اس نے توما سے کہا، جب وہ اُن کے پاس آیا تو وہ خوفزدہ ہو گئے،
’’لیکن وہ اِس قدر ہِراساں اَور خوفزدہ ہو گئے، کہ سمجھنے لگے کہ کسی رُوح کو دیکھ رہے ہیں۔ یِسوعؔ نے اُن سے کہا، تُم کیوں گھبرائے ہوئے ہو اَور تمہارے دِلوں میں شک کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ میرے ہاتھ اَور پاؤں دیکھو، مَیں ہی ہُوں! مُجھے چھُو کر دیکھو؛ کیونکہ رُوح کی ہڈّیاں اَور گوشت نہیں ہوتی ہیں، جَیسا تُم مُجھ میں دیکھ رہے ہو۔ یہ کہنے کے بعد، اُس نے اُنہیں اَپنے ہاتھ اَور پاؤں دِکھائے۔ لیکن خُوشی اَور حیرت کے مارے اُنہیں یقین نہیں آ رہا تھا، یِسوع نے اُن سے کہا، کیا یہاں تمہارے پاس کُچھ کھانے کو ہے؟ اُنہُوں نے اُسے بھُنی ہویٔی مچھلی کا قتلہ پیش کیا، اَور اُس نے اُسے لیا اَور اُن کے سامنے کھایا‘‘ (لوقا 24: 37۔43)۔
یہ بیان ہمیں واضح طور پر بتاتا ہے کہ یسوع روح کے طور پر نہیں جی اُٹھا۔ یہوواہ کے گواہ غلط ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں۔ جی نہیں، اُس کا حقیقی ’’گوشت اور ہڈی‘‘ والا جسم مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا۔ یہ وہی لاش تھی جو قبر سے غائب تھی۔ وہ اس کے ہاتھوں اور پیروں میں کیلوں سے زخم دیکھ سکتے تھے۔ وہ اس کے پہلو میں نیزے کا زخم دیکھ سکتے تھے۔ اور یسوع نے ان سے کہا۔
’’مجھے چھو کر دیکو؛ کیونکہ روح کی ہڈیاں ہی ہوتی ہیں اور نہ گوشت جیسا تم مجھ میں دیکھ رہے ہو‘‘ (لوقا 24: 39)۔
یہ اس بات کا مثبت ثبوت تھا کہ مسیح کا اپنا جسم مردوں میں سے جی اُٹھا تھا!
’’دُکھ سہنے کے بعد، یِسوعؔ نے اَپنے زندہ ہو جانے کے کئی قوی ثبُوتوں سے اَپنے آپ کو اُن پر ظاہر بھی کیا اَور وہ چالیس دِن تک اُنہیں نظر آتا رہا اَور خُدا کی بادشاہی کی باتیں سُناتا رہا‘‘ (اعمال 1: 3)۔
پولوس رسول ہمیں ان لوگوں کی فہرست دیتا ہے جنہوں نے یسوع کو مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد دیکھا،
’’دفن ہُوا اَور کِتاب مُقدّس کے مُطابق تیسرے دِن مُردوں میں سے زندہ ہو گیا۔ اَور کیفا [پطرس کا ایک اور نام] کو اَور پھر بَارہ رسولوں کو دِکھائی دیا۔ اُس کے بعد پانچ سَو سے زِیادہ مسیحی بھائیوں اَور بہنوں کو ایک ساتھ دِکھائی دیا جِن میں سے اکثر اَب تک زندہ ہیں، بعض البتّہ مَر چُکے ہیں۔ پھر یعقوب کو دِکھائی دیا، اِس کے بعد سَب رسولوں کو، اَور سَب سے آخِر میں مُجھے بھی دِکھائی دیا‘‘ (I کرنتھیوں 15: 4۔8)۔
ڈاکٹر ہنری ایم مورسDr. Henry M. Morris تخلیق کی تحقیق کے ادارے Institute for Creation Research کے صدر ہیں۔ وہ ایک سائنسدان ہیں جِنہوں نے مینیسوٹا یونیورسٹی سے ہائیڈرولوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ I کرنتھیوں 15: 4-8 میں درج چشم دید گواہوں کی فہرست کے بارے میں، ڈاکٹر مورس یہ کہتے ہیں:
مسیح کے جی اُٹھنے کے چشم دید گواہوں کی شاندار نمائش میں (جن میں سے زیادہ تر ابھی زندہ تھے جب پولوس نے لکھا تھا اور اگر یہ سچ نہ ہوتا تو [واقعہ] سے انکار کر سکتا تھا) شواہد کے بھاری بھرکم جسم کا حصہ ہے (’’بہت سے ناقابلِ یقین ثبوت‘‘ – اعمال 1: 3) جو اسے تخلیق کے بعد سے تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ بناتا ہے۔ یسوع مسیح نے، درحقیقت، موت پر فتح حاصل کی ہے، اس طرح یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ زندگی کا خالق اور گناہ اور موت سے واحد ممکنہ نجات دہندہ تھا (ہنری ایم مورس، پی ایچ ڈیHenry M. Morris, Ph.D.، دفاع کرنے والوں کا مطالعۂ بائبل The Defender’s Study Bible، I کرنتھیوں 15: 6 پر غور طلب بات)۔
’’دُکھ سہنے کے بعد، یِسوعؔ نے اَپنے زندہ ہو جانے کے کئی قوی ثبُوتوں سے اَپنے آپ کو اُن پر ظاہر بھی کیا اَور وہ چالیس دِن تک اُنہیں نظر آتا رہا اَور خُدا کی بادشاہی کی باتیں سُناتا رہا‘‘ (اعمال 1: 3)۔
شاگردوں اور سینکڑوں دوسرے لوگوں نے اُسے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد کئی بار دیکھا۔ یہ یسوع مسیح کے جی اٹھنے کا دوسرا ناقابل یقین ثبوت ہے!
III۔ تیسری بات، شاگرد مسیح کا انکار کرنے کے بجائے مرنے کے لیے تیار تھے۔
میرے نزدیک یہ سب سے بڑا ثبوت ہے کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا۔ ان لوگوں نے اپنی باقی زندگی یہ اعلان کرتے ہوئے گزاری کہ مسیح جی اٹھا ہے – اور یہ کہ انہوں نے اسے زندہ دیکھا۔ I کرنتھیوں 15:5۔8 ہمیں بتاتا ہے۔
’’وہ کیفا [پطرس] کو دیکھائی دیا تھا‘‘ (5 ویں آیت)۔
’’وہ پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو دکھائی دیا تھا‘‘ (6 ویں آیت)۔
’’وہ یعقوب کو دیکھائی دیا تھا؛ پھر تمام رسولوں کو‘‘ (7 ویں آیت)۔
’’وہ مجھے بھی دیکھائی دیا تھا‘‘ (8 ویں آیت)۔
اُنہوں نے کہا کہ اُنہوں نے اُسے دیکھا ہے، اور اُنہوں نے اِس سے انکار کرنے کے بجائے اذیت اور شہادت کا سامنا کیا!
جان اینکربرگ John Ankerberg اور جان ویلڈنJohn Weldon نے یہ سوال پوچھا،
کیا مسیحی کلیسیا کبھی اس کے نتیجے میں وجود میں آ سکتی تھی جو یسوع کی مصلوبیت اور موت کے بعد، مایوس، خوفزدہ، شکی رسولوں کا ایک گروہ بن گیا تھا؟ کوئی گُنجائش نہیں۔ صرف مسیح کا مردوں میں سے جی اٹھنا ہی شاگردوں کو مسیح کے بارے میں منادی کرنے کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تحریک دے سکتا ہے (جان اینکربرگ اور جان ویلڈن، جواب کے ساتھ تیارReady With and Answer، ہارویسٹ ہاؤس، 1997، صفحہ 82)۔
جان آر ڈبلیو اسٹوٹJohn R. W. Stott کہتے ہیں، ’’… یسوع کے شاگردوں کی تبدیلی مسیح کا مُردوں میں سے جی اُٹھنے کا سب سے بڑا ثبوت ہے‘‘ (جان آر ڈبلیو اسٹوت، بنیادی مسیحیت Basic Christianinty، دوسرا ایڈیشن، انٹرورسٹی پریس InterVarsity Press، 1971، صفحات 58۔59)۔
ہارورڈ کے ایک وکیل سائمن گرین لیف نے رسولوں سے تعلق رکھتے ہوئے یہ کہا، ’’یہ ناممکن تھا کہ وہ ان سچائیوں کی تصدیق کرتے رہتے جو انہوں نے بیان کی ہیں، اگر یسوع حقیقی معنوں میں مردوں میں سے نہیں جی اٹھا تھا، اور اگر وہ اس حقیقت کو اتنا یقینی طور پر نہ جانتے ہوتے جِتنا کہ وہ کسی اور حقیقت کو جانتے تھے۔ فوجی جنگ کے تاریخی واقعات میں [اسی طرح کی] بہادری، ثابت قدمی، صبر اور غیر متزلزل جرأت کی مثال نہیں ملتی‘‘ (سائمن گرین لیفSimon Greenleaf، مبشرین کی گواہی، انصاف کی عدالتوں میں شواہد کے قواعد کے ذریعے جانچ کی گئیThe Testimony of the Evangelists, Examined by the Rules of Evidence، بیکرBaker، 1847 کے ایڈیشن کی 1965 میں دوبارہ اشاعت، صفحہ 29)۔
جوش میک ڈویلJosh McDowell نے کہا،
جس طرح یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی زندگیوں کو بدل دیا، اسی طرح پچھلے انیس سو سالوں میں مردوں اور عورتوں کی زندگیاں بھی بدل گئی ہیں (جوش میکڈویل، وہ نئے ثبوت جو فیصلے کا تقاضا کرتے ہیں The New Evidence That Demands a Verdict، صفحہ 253)۔
جب آپ کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اور آپ کی زندگی مسیح کے ذریعے بدل جاتی ہے، تو یہ سب سے زیادہ ناقابلِ یقین ثبوت ہے – کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا ہے!
یسوع مسیح آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے صلیب پر مرا۔ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور تیسرے آسمان پر چڑھ گیا، جہاں وہ اب خُدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھا ہے۔ آپ یسوع کے پاس آ سکتے ہیں اور اس پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں، تو وہ آپ کے گناہوں کو اپنے خون سے دھو دے گا، اور آپ کو ہمیشہ کی زندگی دے گا۔ پھر عبادت کرنے کے لیے گرجا گھر میں آئیں! تنہا کیوں رہیں؟ گھر آئیں – گرجہ گھر میں!
اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔
(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ
www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔
یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
لُبِ لُباب تین ناقابلِ یقین ثبوت THREE INFALLIBLE PROOFS ڈاکٹر کرسٹوفر کیگن کی جانب سے ’’دُکھ سہنے کے بعد، یِسوعؔ نے اَپنے زندہ ہو جانے کے کئی قوی ثبُوتوں سے اَپنے آپ کو اُن پر ظاہر بھی کیا اَور وہ چالیس دِن تک اُنہیں نظر آتا رہا اَور خُدا کی بادشاہی کی باتیں سُناتا رہا‘‘ (اعمال 1: 3)۔
I۔ پہلی بات، جب وہ قبر پر آئے تو وہ خالی تھی، مرقس 16: 5-6؛
II۔ دوسری بات، شاگردوں نے اُسے کئی بار دیکھا جب وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا،
III۔ تیسری بات، شاگرد مسیح کا انکار کرنے کے بجائے مرنے کے لیے تیار تھے، |