Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


کیا آپ یسوع کی آواز سُنیں گے؟

WILL YOU HEAR THE VOICE OF JESUS?
(Urdu)

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خداوند کے دِن کی شام، 25 نومبر، 2001
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Evening, November 25, 2001

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

یسوع کو ’’سردار کاہنوں اور فریسیوں کے آدمیوں اور افسروں‘‘ کے ایک گروہ نے گرفتار کیا تھا (یوحنا 18: 3)۔ وہ وہاں آئے جہاں وہ رات کو ’’لالٹینوں اور مشعلوں اور ہتھیاروں کے ساتھ‘‘ دعا کر رہا تھا (ibid.)۔ وہ یسوع کو باندھ کر سردار کاہن کے پاس لے گئے۔ ’’پھر اُنہوں نے اُس کے منہ پر تھوک دیا، اور اُسے مارا اور دوسروں نے اُسے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے مارا‘‘ (متی 26: 67)۔ پھر، ’’جب صبح ہوئی تو تمام سردار کاہنوں اور لوگوں میں سے بزرگوں نے یسوع کے خلاف مشورہ دیا کہ اُسے قتل کر دیا جائے۔ اور پھر اُسے باندھ کر لے گئے، اور اُسے گورنر پینطس پیلاطس کے حوالے کر دیا‘‘ (متی 27: 1-2)۔

پیلاطس اُس وقت یہودیہ کا رومی گورنر تھا۔ وہ یسوع کو رومی دربار میں لے آئے۔ گورنر نے ان سے پوچھا کہ تم اس آدمی پر کیا الزام لگاتے ہو؟ (یوحنا 18: 29)۔ انہوں نے کوئی حقیقی جواب نہیں دیا، بلکہ آخر کار گورنر کو یسوع سے سوال کرنے پر آمادہ کر لیا۔

تَب پِیلاطُسؔ محل کے اَندر چلا گیا، اَور اُس نے یِسوعؔ کو وہاں طلب کرکے اُس سے پُوچھا، ’’کیا تو یہُودیوں کا بادشاہ ہے؟‘‘ یِسوعؔ نے جَواب دیا، ’’تُم یہ بات اَپنی طرف سے کہتے ہو، یا اَوروں نے میرے بارے میں تُمہیں یہ خبر دی ہے؟‘‘ پِیلاطُسؔ نے جَواب دیا، ’’کیا میں کویٔی یہُودی ہُوں؟ تمہاری قوم نے اَور اہم کاہِنوں نے تمہیں میرے حوالہ کیا ہے۔ بتاؤ آخِر تم نے کیا کیا ہے؟‘‘ یِسوعؔ نے کہا، ’’میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر دُنیا کی ہوتی، تو میرے خادِم جنگ کرتے اَور مُجھے یہُودی رہنماؤں کے ہاتھوں گِرفتار نہ ہونے دیتے۔ لیکن ابھی میری بادشاہی یہاں کی نہیں ہے۔‘‘ پَس پِیلاطُسؔ نے کہا، ’’تو کیا تو بادشاہ ہے۔‘‘ یِسوعؔ نے جَواب دیا، ”یہ تو تیرا کہنا ہے کہ میں ایک بادشاہ ہُوں۔ دراصل، میں اِس لیٔے پیدا ہُوا اَور اِس مقصد سے دُنیا میں آیا کہ حق کی گواہی دُوں۔ ہر کویٔی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے۔‘‘ (یوحنا 18: 33۔37)۔

یسوع نے جو بات کہی تھی گورنر نے احتیاط کے ساتھ اُس کو نہیں سُنا تھا۔ کیوں کہ اُس نے یسوع کے الفاظ پر توجہ ہی نہیں دی تھی، اُس نے کہا:

’’حق کیا ہے؟ اور جب وہ یہ کہہ چکا تو پھر سے یہودیوں کے پاس گیا اور اُس نے کہا، میں تو اِس شخص کو مجرم نہیں سمجھتا‘‘ (یوحنا 18: 38)۔

آج رات یہاں آپ میں سے بہت سے لوگ پیلاطس کی طرح کے ہیں۔ آپ کہتے ہیں، ’’میں یسوع میں کوئی عیب نہیں پاتا! مجھے اُس میں کوئی عیب نظر نہیں آتا!‘‘ لیکن یہ صحیح جواب نہیں ہے! صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ آپ کو اُس میں کوئی قصور نظر نہیں آتا!

مجھے غلط مت سمجھیں۔ یہ سوچنا غلط نہیں ہے کہ یسوع میں کوئی بھی قصور نہیں ہے۔ یہ بیان سچ ہے – جہاں تک بھی اِس پر سوچا جائے۔ لیکن اِس پر زیادہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں، یسوع بس صرف ایک بے قصور ہستی سے زیادہ ہے، حالانکہ وہ وہی ہے۔

درحقیقت، پیلاطس کا بیان نظریاتی اور بائبلی سچائی سے بھرا ہوا ہے۔ درحقیقت، ’’میں اُس میں کوئی عیب نہیں پاتا۔‘‘ کتنا زبردست بیان ہے – جہاں تک اِس پر سوچا جائے! پیلاطس کا مطلب یقیناً یہ تھا کہ یسوع شہنشاہ کے اختیار یا ریاست کے امن کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لہذا، پیلاطس نے یہودیوں کے اس الزام کے بارے میں یسوع میں کوئی غلطی نہیں پائی کہ اس نے خود کو بادشاہ بنایا ہے۔ لیکن دیگر نتائج بھی ہیں جو ہم پیلاطس کے بیان سے نکال سکتے ہیں۔ واقعی، مسیح کی پوری زندگی اور کردار میں کوئی نقص نہیں پایا جا سکتا۔ یسوع واحد انسان ہے جس نے کبھی گناہ نہیں کیا۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع ’’گناہ سے واقف نہ تھا‘‘ (II۔ کرنتھیوں 5: 21)۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ وہ ’’مقدس، بے ضرر، بے داغ‘‘ ہے (عبرانیوں 7: 26)۔ صحیفے اسے ’’بے عیب اور بے داغ برّہ‘‘ کہتے ہیں (I پطرس 1: 19)۔ اور I یوحنا میں ہم پڑھتے ہیں،

’’اور آپ جانتے ہیں کہ یسوع اِس لیے ظاہر ہوا کہ ہمارے گناہوں کو اُٹھا لے جائے؛ اور اُس کی ذات میں کوئی گناہ نہیں‘‘ (I یوحںا 3: 5)۔

اگرچہ پیلاطس کو اس کی باتوں کی [جو اُس نے کہا تھا] صرف ایک مدھم اور سطحی سمجھ تھی، پھر بھی اس کا یہ بیان بڑی حد تک سچ ہے: ’’مجھے اُس میں کوئی قصور نظر نہیں آتا‘‘ (یوحنا 18: 38)۔

تاہم، جب مسیح نے بات کی تو گورنر نے غور سے نہیں سنا۔ اگر اُس نے [سُنا] ہوتا تو یہ نہ پوچھتا کہ ’’سچ کیا ہے؟‘‘ یسوع نے پہلے ہی اس سوال کا جواب یہ کہہ کر دیا تھا:

’’دراصل، میں اِس لیٔے پیدا ہُوا اَور اِس مقصد سے دُنیا میں آیا کہ حق کی گواہی دُوں۔ ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے۔“ (یوحنا 18: 37)۔

یسوع نے پیلاطس کو آیت سینتیس میں اپنی بادشاہی کے بارے میں سچ بتایا تھا۔ اُس نے پیلاطس کو اپنی شہنشاہی حیثیت کے بارے میں آیت سینتیس کے پہلے نصف میں سچ بتایا۔ سینتیسویں آیت کے آخر میں وہ کہتا ہے، ’’میں دنیا میں اسی لیے آیا ہوں کہ سچائی کی گواہی دوں۔‘‘ اسے سچ بولنا چاہیے۔ یہ دنیا میں آنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

جب پیلاطس نے کہا، ’’سچائی کیا ہے؟‘‘ جواب آسان ہے: یسوع مسیح کے الفاظ سچ ہیں۔ اور مسیح بذات خود سچ ہے (حوالہ دیکھیں یوحنا 14: 6)۔ یسوع نے کہا:

’’جو باتیں مَیں نے تُم سے کہی ہیں وہ رُوح اَور زندگی دونوں سے پُر ہیں‘‘ (یوحںا 6: 63)۔

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ یسوع ’’فضل اور سچائی سے معمور‘‘ ہے (یوحنا 1: 14)۔ ’’فضل اور سچائی یسوع مسیح کے ذریعے آئی‘‘ (یوحنا 1: 17)۔

اور یہ اس لیے ہے کہ یسوع نے سچ کہا کہ وہ مصلوب ہوا تھا۔ اُس نے کہا:

’’لیکن اَب تم مجھے ہلاک کر دینے کا اِرادہ کر چُکے ہو، وہ آدمی جِس نے تُمہیں وہ حق باتیں بَیان کیں جو مَیں نے خُدا سے سُنی‘‘ (یوحنا 8: 40)۔

وہ یسوع سے نفرت کیوں کرتے تھے کہ وہ انہیں سچ بتاتا تھا؟ وجہ سادہ ہے: ’’لوگوں نے نور کی بجائے تاریکی کو پسند کیا، کیونکہ اُن کے کام بُرے تھے‘‘ (یوحنا 3: 19)۔

یسوع سچ بولتا ہے۔ یسوع خدا کے الفاظ کہتا ہے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کہا:

’’جسے خُدا نے بھیجا ہے وہ خُدا کی باتیں کہتا ہے‘‘ (یوحنا 3: 34)۔

لہذا، ہم نے بائبل سے یہ سادہ خیال قائم کیا ہے: سچ وہی ہے جو یسوع نے کہا۔ اور سچائی یسوع مسیح ہے، خود (حوالہ دیکھیں 14: 6)۔

اب، ہماری تلاوت پر غور کریں:

’’ہر کویٔی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے۔“ (یوحنا 18: 37)۔

خیال یہ ہے: ہر وہ شخص جو سچائی کی طرف ہے یسوع کی آواز سنتا ہے، جس نے کہا:

’’جِس کی زندگی سچّائی کے لیٔے وقف ہے وہ نُور کے پاس آتا ہے‘‘ (یوحنا 3: 21)۔

دوبارہ، مسیح نے کہا:

’’جو خُدا کا ہوتا ہے وہ خُدا کی باتیں سُنتا ہے۔ چونکہ تُم خُدا کے نہیں ہو اِس لیٔے خُدا کی نہیں سُنتے۔“ (یُوحنّا 8: 47)۔

اور پھر سے دوبارہ:

’’میری اَور بھیڑیں بھی ہیں جو اِس گلّہ میں شامل نہیں۔ مُجھے لازِم ہے کہ میں اُنہیں بھی لے آؤں۔ وہ میری آواز سُنیں گی‘‘ (یوحنا 10: 16)۔

اور ایک مرتبہ پھر سے:

’’میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں۔ میں اُنہیں جانتا ہُوں اَور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں‘‘ (یوحنا 10: 27)۔

مسیح کا یہ آخری بیان بالکل واضح کرتا ہے: اگر آپ مسیح کی آواز نہیں سنتے اور اُس کی پیروی نہیں کرتے، تو آپ حقیقی مسیحی نہیں ہیں۔

’’میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں۔ میں اُنہیں جانتا ہُوں اَور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں‘‘ (یوحنا 10: 27)۔

جیسا کہ یسوع نے ہماری تلاوت میں کہا:

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

آپ کو یسوع کی آواز سننے کی ضرورت کیوں ہے؟ یسوع کی آواز کیا ہے؟ آپ یسوع کی آواز سننے سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں؟ یسوع کی آواز نہ سننے کے کیا نتائج ہیں؟ یسوع کی آواز آپ کو کیا بتاتی ہے؟

I۔ پہلی بات، آپ کو یسوع کی آواز سننے کی ضرورت کیوں ہے؟

کیونکہ اگر آپ اُس کی آواز نہیں سُنیں گے تو آپ کو ہمیشہ کی زندگی نہیں ملے گی۔ یسوع نے کہا:

’’میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں۔ میں اُنہیں جانتا ہُوں اَور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ میں اُنہیں اَبدی زندگی دیتا ہُوں۔ وہ کبھی ہلاک نہ ہوں گی …‘‘ (یوحنا 10: 27۔28)۔

اگر آپ یسوع کی آواز نہیں سنتے ہیں، تو آپ کو اپنے اندر ہمیشہ کی زندگی نہیں ملے گی۔ آپ ہلاک ہو جاؤ گے، اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں زندگی گزارو گے۔ یسوع نے کہا:

’’پاک رُوح کے خِلاف کُفر بکنے والا ایک اَبدی گُناہ کا مُرتکب ہوتا ہے؛ اِس لیٔے وہ ہرگز نہ بخشا جائے گا“ (مرقس 3: 29)۔

یسوع نے کہا:

’’اور یہ لوگ اَبدی سزا پائیں گے‘‘ (متی 25: 46)۔

یاد رکھیں یسوع نے ہماری تلاوت میں کیا کہا:

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

اگر آپ سچائی کی طرف ہیں، تو آپ یسوع کی آواز سنیں گے۔ آپ اس کی آواز سنیں گے جب وہ آپ سے کہے گا کہ آپ کو ہمیشہ کی زندگی پانے کے لیے اسے آپ کو جاننا چاہیے (یوحنا 10: 28)۔ آپ اس پر یقین کریں گے جب وہ آپ کو بتائے گا کہ اگر آپ روح القدس کے خلاف توہین کریں گے تو آپ کو ابدی سزا ملے گی (مرقس 3: 29)۔ آپ اُس کے الفاظ پر یقین کریں گے جب وہ کہتا ہے، ’’اور یہ لوگ ابدی سزا پائیں گے‘‘ (متی 25: 46)۔

ہو سکتا ہے آپ یہ سب باتیں پوری طرح نہ سمجھ سکیں۔ آپ اس میں سے کچھ باتیں سن کر لطف اندوز نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ سچائی کی طرف ہیں تو آپ یسوع کی آواز سنیں گے۔

’’ہر ایک‘‘ – غور کریں کہ مسیح نے کہا، ’’ہر ایک۔‘‘

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

اور یاد رکھیں کہ آپ کو یسوع پر یقین نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی سے جہنم میں ابدی سزا دی جا چکی ہے، کیونکہ یسوع نے کہا:

’’جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے اُس پر سزا کا حُکم نہیں ہوتا لیکن جو بیٹے پر ایمان نہیں لاتا اُس پر پہلے ہی سے سزا کا حُکم ہو چُکا ہے کیونکہ وہ خُدا کے اِکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہیں لایا‘‘ (یوحنا 3: 18)۔

لہذا، اگر آپ نے یسوع پر یقین نہیں کیا ہے تو آپ کو پہلے ہی سے سزا دی گئی ہے۔ اِس لیے آپ کو اُس کی آواز سننی چاہیے، اور اُس کے پاس آنا چاہیے، اور اُس کے خون کے وسیلے سے اپنے گناہوں سے پاک صاف ہو جانا چاہیے!

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

کیا آپ یسوع کی آواز سنیں گے؟ کیا آپ اپنے گناہوں کو پیچھے چھوڑیں گے؟ کیا آپ ہر اتوار کو اس مقامی گرجا گھر میں آئیں گے؟ کیا آپ خدا کے بیٹے یسوع کے پاس آئیں گے؟ کیا آپ ان معاملات پر خداوند یسوع مسیح کو سنیں گے اور اُس کی اطاعت کریں گے؟

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

II۔ پھر، دوسری بات، یسوع کی آواز کیا ہے؟

کچھ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ یسوع کی آواز ایک سنائی دینے والی آواز ہے – کہ آپ اسے اپنے ساتھ بات کرتے ہوئے سن سکتے ہیں۔ اس طرح کے ایک کٹّر پینٹی کوسٹلسٹ پر یقین نہ کریں! کوئی بھی یسوع کی طرف سے سنائی دینے والی آواز نہیں سنتا! وہ ایک شیطان ہے – ہر بار! اگر آپ ایک آواز سنتے ہیں جو کہتی ہے کہ یہ یسوع کی آواز ہے، تو آپ یقین کر سکتے ہیں کہ یہ ایک بدروح ہے۔

جوزف سمتھ نے ایک بدروح کی آواز سنی جو ایک فرشتہ ہونے کا بہانہ کر رہی تھی – اور اس نے مورمن گرجہ گھر شروع کیا۔

چارلس جی فنی نے محسوس کیا کہ اس کا سامنا تنہا مسیح سے ہوا، درختوں کے جھنڈ میں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس کا سامنا درحقیقت ایک شیطان سے ہوا تھا۔ اور اس نے ’’فیصلہ سازیت‘‘ شروع کی - جس نے گرجا گھروں کو برباد کر دیا ہے – مسیح میں ایمان نہ لائے ہوئے غیرتبدیل شُدہ لوگوں کے ساتھ گرجا گھر کی حاضریوں کی بھرمار کر لینا۔

بائبل کہتی ہے کہ ہمارے پاس خُدا کی طرف سے الفاظ آسمان سے آنے والی آواز سے زیادہ یقینی اور زیادہ پُراعتماد ہیں – اور خُدا کی طرف سے وہ سچے الفاظ بائبل میں دیے گئے ہیں! (حوالہ دیکھیں II پطرس 1: 17۔19)۔ آسمان سے آنے والی آواز کے مقابلے میں ’’ہمارے پاس پیشن گوئی کا زیادہ یقینی کلام ہے‘‘! (II پطرس 1: 19)۔

یسوع کی آواز آسمان سے اترنے والی آواز نہیں ہے۔ جی نہیں، یسوع کی آواز خود بائبل ہے۔

یسوع نے کہا:

’’آسمان اَور زمین ٹل جایٔیں گی لیکن میری باتیں کبھی نہیں ٹلیں گی‘‘ (متی 24: 35)۔

یسوع نے کہا:

’’جو کویٔی اِس زناکار اَور گُناہ آلُود نسل میں سے مُجھ سے اَور میرے کلام سے شرمائے گا تو اِبن آدمؔ بھی جَب وہ اَپنے باپ کے جلال میں مُقدّس فرشتوں کے ساتھ آئے گا، اُس سے شرمائے گا‘‘ (مرقُس 8: 38)۔

’’اگر کوئی میری باتیں سُنتا ہے اَور اُن پر عَمل نہیں کرتا … جو مُجھے ردّ کرتا ہے اَور میری باتیں قبُول نہیں کرتا اُس کا اِنصاف کرنے والا ایک ہے یعنی میرا کلام جو آخِری دِن اُسے مُجرم ٹھہرائے گا۔‘‘ (یوحنا 12: 47۔48)۔

اگر آپ بائبل میں مسیح کے الفاظ کو مسترد کرتے ہیں، تو آپ کو بائبل میں مسیح کے الفاظ کے ذریعے سزا دی جائے گی اور جہنم میں سزا دی جائے گی، جسے آپ نے مسترد کر دیا تھا!

یسوع نے کہا، ’’اگر کوئی مجھ سے محبت کرتا ہے تو وہ میری باتوں پر عمل کرے گا‘‘ (یوحنا 14: 23)۔ بائبل میں یسوع کے الفاظ کو سننا اور ماننا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ، اگر آپ نجات پانا چاہتے ہیں، تو آپ کو خُدا کے کلام کی منادی کے ذریعے یسوع کی آواز سننی چاہیے۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ سچے مبلغین ایک تحفہ ہیں – جو مسیح نے اپنے الفاظ کا اعلان کرنے کے لیے دیے ہیں۔ ہمیں یہ افسیوں 4: 7-16 میں بتایا گیا ہے۔ رومیوں 10: 14 میں ہمیں بتایا گیا ہے:

’’مگر جِس پر وہ ایمان نہیں لائے اُسے پُکاریں گے کیسے؟ جِس کا ذِکر تک اُنہُوں نے نہیں سُنا اُن پر ایمان کیسے لائیں گے اَور جب تک کوئی اُنہیں خوشخبری نہ سُنائے وہ کیسے سُنیں گے؟‘‘ (رومیوں 10: 14)۔

جَب تک کوئی اُنہیں خُوشخبری نہ سُنائے وہ کیسے سُنیں گے؟

خدا کا کلام ہمیں رومیوں 10: 14 میں واضح طور پر بتاتا ہے کہ لوگوں کو نجات پانے کے لیے منادی کا کلام سننا چاہیے۔ یہ عام ذریعہ ہے جو خدا نجات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اعمال کی کتاب کے ذریعے پڑھیں۔ اعمال کی کتاب میں درج ہے کہ عملی طور پر منادی کے ذریعے جو بچایا گیا ہے وہ ہر وہ شخص ہے جو نجات پا چکا ہے – جس میں پولوس رسول بھی شامل ہے!

ہم عام طور پر سوچتے ہیں کہ پولوس مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوا تھا جب اس کا سامنا دمشق کے راستے پر مسیح سے ہوا۔ لیکن ایسا نہیں ہے جو بائبل کہتی ہے۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے، جب پولوس کا مسیح سے سامنا ہوا، پولوس نے کہا، ’’خداوند، تو مجھ سے کیا کرے گا؟‘‘ (اعمال 9: 6 الف)۔ اب مسیح – موقع پر، اسے بتا سکتا تھا کہ نجات پانے کے لیے کیا کرنا ہے۔ لیکن اس نے نہیں کیا! اس کے بجائے، مسیح نے کہا:

’’اَب اُٹھ اَور شہر کو جا، اَور تُجھے بتا دیا جائے گا کہ تُجھے کیا کرنا ہے‘‘ (اعمال 9: 6 ب)۔

مسیح نے پولوس کو مقامی گرجہ گھر میں بھیجا جو دمشق شہر میں سیدھا نامی کوچہ میں کسی کے گھر میں ملا تھا – اور مبلغ کا نام انانیاس تھا! چنانچہ یسوع مسیح خود پولوس کو نجات کی طرف نہیں لے گیا۔ نہیں، اُس نے پولوس کو خُدا کے عطا کردہ مبلغ کے پاس بھیجا تاکہ وہ گرجا گھر میں اُس کے ساتھ نمٹے۔ یہ آپ کو تبدیلی کی طرف لے جانے کا خدا کا معمول کا طریقہ ہے۔

اس لیے میں نے آپ سے اگلے اتوار کو اس گرجہ گھر میں واپس آنے کا کہنے کے لیے کوئی بھی معافی نہیں مانگنی۔ آپ نے دیکھا، خدا نے مجھے یہاں یہ بتانے کے لیے رکھا ہے کہ کیسے نجات دی جائے۔ اگر آپ اس گرجہ گھر میں واپس نہیں آتے ہیں تو آپ مسیح کی آواز کو پادری کے واعظوں کے ذریعے تبدیل کرنے والے الفاظ بولتے ہوئے نہیں سنیں گے۔ رچرڈ بیکسٹر نے 17ویں صدی میں ان سب کی نشاندہی کی تھی۔ آپ کو اگلے اتوار اور ہر اتوار کو یہاں گرجہ گھر واپس آنا ہوگا۔ آپ کو خوشخبری سننے اور نجات پانے کے لیے اس گرجہ گھر میں واپس آنا ہوگا۔

میں ذاتی طور پر کبھی بھی کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا تھا جو کتابچہ پڑھ کر بچ گیا ہو۔ میں نے کبھی بھی کسی ایسے شخص کے بارے میں نہیں سنا جو تمام ہوٹلوں اور سرائے خانوں کے کمروں میں رکھی گیڈیؤن Gideon کی بائبل کو پڑھنے سے بچایا گیا ہو۔ مقامی گرجہ گھر میں تبلیغ کے ذریعے ہی آپ مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے ہیں۔ میں نے صرف دو لوگوں کے بارے میں سنا ہے جو ٹی وی پر بلی گراہم کو دیکھ کر نجات پانے کا دعویٰ کرتے ہیں – اور مجھے ان دونوں کی تبدیلی پر شک ہے!

میں نے دوسرے دن ایک بزرگ سے بات کی جو ہر اتوار کو دو ممتاز ٹی وی مبلغین کو دیکھتے ہیں۔ لیکن اس بوڑھے آدمی کو نجات کی کوئی سمجھ نہیں ہے – ٹی وی پر ان مبلغین کو برسوں دیکھنے کے بعد بھی۔ کیوں؟ کیونکہ خدا نے ٹی وی کو مسیح میں ایمان لانے کی تبدیلی کے ذریعہ کے طور پر مقرر نہیں کیا ہے! میں یہ کہنے کے لیے کوئی معافی نہیں مانگتا – خدا نے مقامی گرجہ گھر میں مبلغین کو مقرر کیا! یہی طریقہ ہے جس سے آپ کو نجات حاصل کرنی چاہیے! اگلے اتوار کو واپس آؤ! تبلیغ سنو! نجات پاؤ!

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

III۔ تیسری بات، آپ یسوع کی آواز سُننے سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں۔

آپ وعظ کے دوران اِدھر اُدھر دیکھنے کے ذریعے سے یا لوگوں کو کسمساتا ہوا دیکھ کر یسوع کی آواز کو سُننے سے محروم رہ سکتے ہیں۔ آپ واعظ سننے کے بجائے، انہیں کسمساتا ہوا دیکھتے ہیں – اس لیے آپ یسوع کی آواز سننے سے محروم رہتے ہیں۔

آپ گرجہ گھر سے گھر جانے کے بعد گمراہ ہوئے دوستوں کی باتوں کو سن کر یسوع کی آواز کو سُننے سے محروم رہ سکتے ہیں۔ اگر آپ گمراہ ہوئے لوگوں کے الفاظ اور خیالات کو اپنے دماغ پر قبضہ کرنے دیتے ہیں اور اپنے آپ کو واعظ کے بارے میں گہرائی سے سوچنے سے روکتے ہیں تو آپ یسوع کی آواز کو سُننے سے محروم رہ سکتے ہیں۔

آپ یسوع کی آواز کو سُننے سے محروم رہ سکتے ہیں اگر آپ مسیح کو مسترد کرنے والے اپنے مکار دل کی بات کو سنتے ہیں! اگر آپ واعظ کی بجائے اپنے دل کی بات سنیں گے، تو آپ نجات حاصل نہیں کر پائیں گے اور ایک حقیقی مسیحی نہیں بن پائیں گے۔

ان میں سے کوئی بھی یسوع کی آواز نہ سننے کی جائز وجہ نہیں ہے۔ اس کمرے میں موجود ہر فرد انہی بہلاوں یا بہانوں سے گزرا تھا – لیکن وہ بچ گئے تھے – کیونکہ انہوں نے یسوع کو سننے اور تبدیل ہونے کی ’’کوشش کی‘‘۔ وہ یسوع کو سننا چاہتے تھے اور وہ اتنے برے طور پر مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہونا چاہتے تھے کہ انہوں نے جوش کے ساتھ خود کو اس کے حوالے کر دیا – جب تک کہ وہ مسیح کو نہیں پا لیتے اور اُس یسوع کے وسیلے سے قہر سے بچ نہ جاتے!

’’تُم مُجھے ڈھونڈو گے اَور پاؤ گے بھی جَب تُم مُجھے اَپنے پُورے دِل سے ڈھونڈو گے‘‘ (یرمیاہ 29: 13)۔

’’تنگ دروازے سے اندر داخل ہونے کے لیے کوشش کرو (جدوجہد، لڑنا، محنت – سٹرانگ Strong)‘‘ (لوقا 13: 24)۔

اگر آپ مسیح کو سننے اور تبدیل ہونے کے لیے جدوجہد، لڑنے، اور محنت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو ایسا نہیں ہوگا۔ آپ گرجہ گھر میں بیٹھ کر کسی اور چیز کے بارے میں سوچیں گے! آپ مسیح کے الفاظ کو سُننے سے محروم رہ جائیں گے! آپ کو کبھی بھی نجات نہیں ملے گی!

بلی سنڈے نے صحیح کہا:

’’اپنے جسم کو گرجا گھر میں رکھنا آپ کو مسیحی نہیں بناتا، جیسے کہ ایک گھوڑے کو گیراج میں رکھنا اسے ایک گاڑی نہیں بناتا۔‘‘

اگر آپ کا جسم گرجہ گھر میں ہے، لیکن آپ کا ذہن کہیں اور ہے، تو آپ کبھی بھی مسیح کے الفاظ نہیں سنیں گے – آپ کو کبھی نجات نہیں ملے گی۔ آپ کو حقیقت میں مسیح کی آواز سننی چاہیے!

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

IV۔ چوتھی بات، یسوع کی آواز نہ سُننے کے نتائج کیا ہیں؟

میں اِس پر بس مختصراً بات کر سکتا ہوں۔

1. یسوع کی آواز نہ سننے کا پہلا نتیجہ یہ ہے کہ آپ کا دل سخت ہو جائے گا – اور آپ کو آخرکار خُدا کی طرف سے چھوڑ دیا جائے گا۔ ’’آج اگر تم اس کی آواز سنو گے تو اپنے دلوں کو سخت نہ کرو‘‘ (عبرانیوں 3: 7-8)۔

2. یسوع کی آواز نہ سننے کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ آپ جہنم میں جائیں گے۔ یسوع نے یہوداہ کو بے شمار بار منادی کی، لیکن یہوداہ نے واقعتاً کبھی اس کی آواز نہیں سنی۔ اس نے خود کو مار ڈالا، اور بائبل کے مطابق جہنم میں چلا گیا۔ اور آپ اپنے گناہوں کی سزا کے طور پر جہنم میں جائیں گے جب تک کہ آپ یسوع کی آواز نہیں سنتے اور اس کے خون کے ذریعے گناہ سے پاک ہونے کے لیے اس کے پاس نہیں آتے۔

V۔ پانچویں بات، یسوع کی آواز آپ کو کیا بتاتی ہے؟

یسوع کی آواز، جیسا کہ ہم نے دیکھا، بائبل کے الفاظ ہیں۔ یسوع آپ سے بائبل کے ذریعے بات کرتا ہے۔ یسوع اس کتاب کے ذریعے آپ سے کیا کہتا ہے؟

1. سب سے پہلے، یسوع آپ سے کہتا ہے کہ آپ گمراہ ہو چکے ہیں۔ اُس نے کہا کہ غیرنجات یافتہ لوگ ’’مردہ‘‘ اور ’’کھوئے ہوئے‘‘ ہیں (لوقا 15: 24)۔ اور یہ وہی ہے جو مسیح آپ کے بارے میں کہتا ہے – آپ کھو چکے ہیں۔ آپ جنت کا راستہ نہیں پا سکتے۔ آپ مر چکے ہیں۔ آپ کو دلچسپی بھی نہیں ہے – جب تک کہ وہ آپ میں دلچسپی کی چنگاری نہ ڈالے۔

2. دوسری بات، یسوع کہتا ہے کہ آپ گنہگار ہیں۔ بار بار مسیح نے گنہگاروں کو اپنے پاس آنے اور اس پر ایمان لانے کے لیے بلایا۔ یسوع نے کہا: ’’یہ نئے عہد نامے کا میرا خون ہے، جو بہت سے لوگوں کے گناہوں کی معافی کے لیے بہایا جاتا ہے‘‘ (متی 26: 28)۔

3. تیسری بات، مسیح کہتا ہے کہ وہ آپ کے لیے، آپ کی جگہ، آپ کے گناہوں کی ادائیگی کے لیے، صلیب پر مرا۔ یسوع نے کہا، ’’ابن آدم خدمت کرانے کے لیے نہیں آیا بلکہ خدمت کرنے اور بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جان فدیہ دینے کے لیے آیا‘‘ (مرقس 10: 45)۔

4. چوتھی بات، یسوع نے کہا کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھا اور آپ کو بچانے کے لیے، خدا کے داہنے ہاتھ، آسمان پر زندہ ہے۔ ’’چنانچہ خُداوند کا اُن سے کلام کر چکنے کے بعد، وہ آسمان پر اُٹھایا گیا، اور خُدا کے داہنے ہاتھ پر بیٹھ گیا‘‘ (مرقس 16: 19)۔

5. پانچویں بات، یسوع آپ کو اپنے پاس آنے اور اپنے گناہوں کو اپنے خون سے دھونے کے لیے بلاتا ہے۔ یسوع کہتا ہے: ’’میرے پاس آؤ… اور میں تمہیں آرام دوں گا‘‘ (متی 11: 28)۔

کیا آپ مسیح کی بات سُنیں گے؟

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

کیا آپ اگلے اتوار کو اس گرجہ گھر میں واپس آئیں گے؟ کیا آپ واعظوں کو پوری توجہ و دھیان سے سنیں گے؟ کیا آپ سزایابی کے تحت آئیں گے اور مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہو جائیں گے؟ خدا آپ کو ایسا کرنے میں مدد کرے! تنہا کیوں رہا جائے؟ گرجا کرنے گھر میں آئیں! کھویا ہوا کیوں رہا جائے؟ یسوع کے پاس آئیں اور اُس کے خون کے ذریعے اپنے گناہوں سے پاک صاف ہو جائیں!

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

لُبِ لُباب

کیا آپ یسوع کی آواز سُنیں گے؟

WILL YOU HEAR THE VOICE OF JESUS?

ڈاکٹر آر ایل ہائیمرز جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’ہر کوئی جو حق کی طرف ہے میری بات سُنتا ہے‘‘ (یوحنا 18: 37)۔

(یوحنا 18: 3؛ متی 26: 67؛ 27: 1-2؛ یوحنا 18: 29، 33-37، 38؛ II کرنتھیوں 5: 21؛ عبرانیوں 7: 26؛ 1 پطرس 1: 19؛ I یوحنا 3: 5؛ یوحنا 18: 38، 37؛ یوحنا 18: 6، 37؛ یوحنا 16: 11؛ 46: 4؛ 8: 40؛ یوحنا 18: 37؛ 10: 16؛ 27؛)

I۔   پہلی بات، آپ کو یسوع کی آواز سننے کی ضرورت کیوں ہے؟ یوحنا 10: 27-28؛
مرقس 3: 29؛ متی 25: 46؛ یوحنا 3: 18۔

II۔  دوسری بات، یسوع کی آواز کیا ہے؟ II پطرس 1: 17-19؛ متی 24: 35؛
مرقس 8: 38؛ یوحنا 12: 47-48؛ یوحنا 14: 23؛ افسیوں 4: 7-16؛
رومیوں 10: 14؛ اعمال 9: 6الف؛ اعمال 9: 6 ب۔

III۔ تیسری بات، آپ یسوع کی آواز سننے سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں؟ یرمیاہ 29: 13؛ لوقا 13: 24۔

IV۔ چوتھی بات، یسوع کی آواز نہ سننے کے کیا نتائج ہیں؟ عبرانیوں 3: 7-8

V۔  پنجم، یسوع کی آواز آپ کو کیا بتاتی ہے؟ لوقا 15: 24؛ متی 26: 28؛ مرقس 10: 45؛
مرقس 16: 19؛ متی 11: 28۔