Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا

THIS SAYING WAS HID FROM THEM
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ خُداوند کے دِن کی شام، 22 مارچ، 2015
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord’s Day Evening, March 22, 2015

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا‘‘ (لوقا18:34)۔

لوقا کی انجیل میں یہ تیسری مرتبہ ہے کہ یسوع نے بارہ شاگردوں کو بتایا کہ وہ مرنے جا رہا تھا (لوقا9:22؛ 9:44)۔ لوقا18:31۔33 میں یسوع نے یہ انتہائی واضح کیا، جب اُس نے کہا،

’’دیکھو، ہم یروشلیم جا رہے ہیں اور نبیوں نے جو کچھ ابنِ آدم کے بارے میں لکھا ہے وہ پورا ہوگا۔ وہ غیر یہودی لوگوں کے حوالے کیا جائے گا اور وہ اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑائیں گے بے عزت کریں گے اور اُس پر تھوکیں گے: اور وہ اُسے کوڑوں سے ماریں گے اور قتل کر ڈالیں گے: لیکن تیسرے دِن وہ پھر زندہ ہو جائے گا‘‘ (لوقا18:31۔33)۔

اِس سے زیادہ یہ اور کیا واضح ہو گا؟ اِس کے باوجود، ’’یہ باتیں اُنھیں سمجھ نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا‘‘ (لوقا18:34)۔ مرقس 9:32 کہتی ہے، ’’یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آئیں۔‘‘ مرقس 9:32 پر ڈاکٹر اے۔ ٹی۔ رابرٹسن نے یہ رائے پیش کی، ’’اُنھوں نے نہ سمجھنا جاری رکھا۔ وہ [مسیح کی] موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے موضوع پر [بے اعتقادے] اگنوسٹکس agnostics تھے‘‘ (اے۔ ٹی۔ رابرٹسن، لِٹریچر ڈی۔ A. T. Robertson, Litt.D.، نئے عہد نامے میں کلام کی تصاویر Word Pictures in the New Testament، براڈمین پریسBroadman Press، 1930، جلد اوّل، صفحہ 344؛ مرقس9:32 پر غور طلب بات)۔

مسیح کی خوشخبری کو پولوس رسول کے ذریعے سے مختصراً اور سادہ طور پر بیان کیا گیا ہے،

’’کتابِ مقدس کے مطابق مسیح ہمارے گناہوں کے لیے قربان ہوا؛ اور کہ وہ دفنایا گیا اور کتاب مقدس کے مطابق تیسرے دِن زندہ ہو گیا‘‘ (1۔کرنتھیوں15:3۔4)۔

اس کے باوجود، اس وقت، بارہ شاگردوں نے نہ سمجھا یا خوشخبری پر یقین نہ کیا۔

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا‘‘ لوقا18:34)۔

جیسا کہ ڈاکٹر اے۔ ٹی۔ رابرٹسن نے کہا، ’’وہ [مسیح کی] موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے موضوع پر [بے اعتقادے] اگنوسٹکس agnostics تھے‘‘ (ibid.)۔ وہ بارہ شاگرد ابھی تک خوشخبری پر یقین نہیں کر پائے تھے! مرقس 9:30۔32 پر تبصرہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee نے کہا، ’’یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کہ اُس نے اُنھیں اپنی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بارے میں اعلانیہ بتایا تھا اور اِس کے باوجود وہ سمجھ نہیں پائے تھے‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔J. Vernon McGee, Th.D.، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1983، جلد چہارم volume IV، صفحہ 201؛ مرقس9:30۔32 پر غور طلب بات)۔

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا‘‘ (لوقا18:34)۔

تلاوت میں تین الفاظ ہمیں خوشخبری میں اُن کی بے اعتقادی کے بارے میں بتاتے ہیں۔

I۔ پہلی بات، اُنہیں خوشخبری کی سمجھ نہیں آئی تھی۔

’’اِن میں سے کوئی بھی بات اُن کی سمجھ میں نہ آ سکی۔‘‘ جس یونانی لفظ نے ’’سمجھunderstood‘‘ کا ترجمہ کیا اُس کا مطلب ہوتا ہے ’’ذہنی طور پر کسی چیز کے معنی سمجھنا‘‘ (سٹرانگ Strong)۔ حالانکہ مسیح نے سادگی سے اور سرا سر بتایا تھا، شاگرد اُس نےجو کہا تھا اُس کے معنوں کو گرفت میں لینے کے قابل نہیں تھے۔ تلاوت کہتی ہے، ’’اِن میں سے کوئی بھی بات اُن کی سمجھ میں نہ آ سکی۔‘‘ میتھیو پول Mathew Poole نے کہا، ’’لفظ سمجھنے کے لیے کافی آسان تھے‘‘ (تمام بائبل پر ایک تبصرہ A Commentary on the Whole Bible، دی بینر آف ٹرٹھ ٹرسٹ The Banner of Truth Trust، دوبارہ اشاعت1990، جلد سوئم، صفحہ 258؛ لوقا18:34 پر غور طلب بات)، اِس کے باوجود اِن میں سے کوئی بھی بات اُن کی سمجھ میں نہ آ سکی! شاگرد سمجھ نہیں پائے تھے کہ مسیح کو ’’غیر یہودیوں کے حوالے کیا‘‘ جائے گا۔‘‘ وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ ’’اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑائیں گے بے عزت کریں گے اور اُس پر تھوکیں گے۔‘‘ وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ اُسے دُرّے سے ’’کوڑے مار مار کر‘‘ کمر کی ہڈی تک ننگی کر دیں گے۔ وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ اُسے صلیب دے کر ’’مار ڈالیں‘‘ گے۔ وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ مُردوں میں سے ’’تیسرے دِن‘‘ جی اُٹھے گا۔ جیسا کہ ہمیں مرقس کی انجیل میں بتایا گیا ہے،

’’اِبنِ آدم لوگوں کے حوالے کیا جائے گا اور وہ اُسے مار ڈالیں گے؛ لیکن وہ اپنی موت کے تین دِن بعد پھر زندہ ہو جائے گا۔ مگر وہ اُس کے مطلب نہ سمجھ سکے اور اُس سے پوچھتے ہوئے بھی ڈرتے تھے‘‘ (مرقس9:31۔31)۔

اُن کی لا علمی کے لیے جواب ولیم میکڈونلڈWilliam MacDonald کے ذریعے سے واضح کیا گیا،

اُن کے ذہن ایک دُنیاوی نجات دہندہ کی سوچوں کے ساتھ اِس قدر بھرے ہوئے تھے جو اُنھیں روم سے بچائے گا اور فوراً بادشاہت قائم کرے گا، کہ اُنھوں نے کسی اور پروگرام کو قبول ہی نہیں کیا (ولیم میکڈونلڈ William MacDonald، بائبل کا یقین کرنے والوں کا تبصرہ Believer’s Bible Commentary، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، اشاعت 1989، صفحہ1440؛ لوقا18:34 پر غور طلب بات)۔

اُن کے ذہن ایک مصائب زدہ مسیحا (مسیحا بن یوسف) میں یقین کرنے کے خلاف بدگمان تھے کیوں کہ اُس زمانے کے زیادہ تر یہودی لوگ ایک ایسے مسیحا کی تلاش میں تھے جو اُنھیں روم سے آزاد کرائے گا (مسیحا بن داؤد)۔ اُنھیں احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ دونوں مسیحا ایک ہی تھے۔ میرے واعظ ’’شاگردوں کا خوف The Fear of the Disciples” – click here to read it دیکھیں۔ مگر اُن کی خوشخبری کی لاعلمی کے بارے میں ایک وجہ اور بھی ہے۔

II۔ دوسری بات، خوشخبری اُن سے چُھپی ہوئی تھی۔

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا…‘‘ (لوقا18:34)۔

لفظ ’’پوشیدہhid ‘‘ ایک یونانی لفظ سے ترجمہ کیا گیا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ’’خُفیہ concealed، چُھپا ہواhidden ‘‘ (سٹرانگ Strong)۔ یہ بالکل وہی یونانی لفظ ہے جو یوحنا8:59 میں پایا گیا جو کہتا ہے، ’’یسوع اُن کی نظروں سے بچ نکلا۔‘‘ اِس لیے ہماری تلاوت میں، ’’یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا۔‘‘ یہاں ایک فوق الفطرت عنصر شامل تھا جب یسوع اُن کی نظروں سے بچا نکلا، جب اُنھوں نے ہیکل میں اُس پر پتھر برسانے کے لیے اُٹھائے (یوحنا8:59)۔ یہاں بھی ہماری تلاوت میں ایک فوق الفطرت عنصر ہے، ’’اور یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا۔‘‘ لوقا 18:34 میں اُن الفاظ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فرینک گیبلئین Dr. Frank Gaebelein کا تبصرہ کہتا ہے، ’’لوقا شاگردوں کی لاعلمی کو بظاہر سمجھ بوجھ کی ایک فوق الفطرت رکاوٹ سے منسوب کرتا ہے‘‘ (فرینک ای۔ گیبلئین، ڈی۔ڈی۔ Frank E. Gaebelein, D.D.، جنرل ایڈیٹر، تفسیر کرنے والے کا بائبل پر تبصرہ The Expositor’s Bible Commentary، ژونڈروان بپلیشنگ ہاؤس Zondervan Publishing House، 1984 ایڈیشن، جلد ہشتم volume 8، صفحہ1005؛ لوقا18:34 پر غور طلب بات)۔ بالکل یہی ہے جو میں سوچتا ہوں تلاوت کا مطلب نکلتا ہے۔ یہ سمجھ بوجھ کی ایک فوق الفطرت رکاوٹ تھی۔ اور یہ قول [وہ انجیل] اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا۔‘‘

اب ہم دیکھتے ہیں کہ شاگرد اُس زمانے کے عظیم مقدسین نہیں تھے۔ وہ صرف آدمی تھے۔ وہ ویسے ہی آدمی تھے جیسے کہ باقی کے ہم ہیں، آدم کی آل اولاد۔ یوں، وہ اُتنے ہی ’’قصوروں اور گناہوں میں مُردہ‘‘ تھے جتنا کہ میں گرجہ گھر میں سات سالوں تک تھا اِس سے پہلے کہ میں بچایا گیا تھا؛ اور جتنے کے آپ میں سے کچھ ابھی بھی ہیں (افسیوں2:1، 5)۔ آدم کی آل اولاد ہونے کی حیثیت سے، اُن کی جسمانی نیت ’’خُدا کی مخالفت‘‘ کرتی تھی (رومیوں8:7)۔ آدم کی آل اولاد ہونے کی حیثیت سے وہ صرف قدرتی آدمی تھے اور ’’جس میں خُدا کا پاک روح نہیں وہ خُدا کی باتیں قبول نہیں کرتا‘‘ (1۔کرنتھیوں2:14)۔ آدم کی آل اولاد ہونے کی حیثیت سے، ’’ہلاک ہونے والوں کے لیے تو صلیب کا پیغام بیوقوفی تھی‘‘ (1۔ کرنتھیوں1:18)۔ اتنے ہی سچے طور پر جتنا کہ مسیح نے نیکودیمس سے کہا، ’’تجھے دوبارہ جنم لینا چاہیے‘‘ (یوحنا3:7)، اِس لیے شاگردوں کو ’’دوبارہ جنم لینا چاہیے۔‘‘ وہ اپنے پیشے کو چھوڑے بغیر اور مسیح کی پیروی کیے بغیر دوبارہ جنم نہیں لے سکتے تھے۔ وہ اعمال کے وسیلے سے نجات ہوگی! اِس ہی طرح سے رومن کاتھولک اِس کی ترجمانی کرتے ہیں! مگر ہم فضل کے وسیلے سے نجات میں یقین رکھتے ہیں، اِس لیے وہ اُس یسوع کی پیروی کرنے سے بچائے نہیں جا سکے ہونگے!

’’کیونکہ تمھیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے؛ اور یہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ نہیں: یہ خُدا کی بخشش ہے: اور نہ ہی یہ تمہارے اعمال کا پھل ہے کہ کوئی فخر کر سکے‘‘ (افسیوں2:8۔9)۔

یہوداہ بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔ کیا اُس نے نئے سرے سے جنم لیا تھا؟ مسیح نے کہا تھا کہ وہ ’’کھویا ہوا‘‘ تھا اور اُس کو ’’جہنم کا بیٹا‘‘ کہا تھا (یوحنا17:12)۔ کیا تھوما نے نئے سرے سے جنم لیا تھا؟ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد، تھوما نے سختی سے کہا تھا، ’’میں یقین نہیں کروں گا‘‘ (یوحنا20:25)۔ میں جانتا ہوں کہ پطرس کو خُداوند کی طرف سے کچھ غیبی ہدایت مل چکی تھی (متی16:17) مگر چند ہی منٹوں کے بعد اُس نے یسوع کو بُرا بھلا کہا اُنھیں یہ بتانے کے لیے کہ [یسوع کو] ’’قتل کیا جائے گا اور وہ [یسوع] تیسرے روز مُردوں میں سے جی اُٹھے گا‘‘ (متی16:21۔22)، اور یسوع نے پطرس سے کہا، ’’اے شیطان! میرے سامنے سے دور ہوجا، تُو میرے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ تجھے خُدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال ہے‘‘ (متی16:23)۔ واضح طور پر پطرس نے خوشخبری یعنی انجیل کا انکار کیا تھا اور مسیح کی مصلوبیت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کو رد کرنے سے شیطان کے ذریعے سے متاثر ہوا تھا۔

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول [خوشخبری یعنی خوشخبری کے بارے میں] اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا…‘‘ (لوقا18:34)۔

پولوس رسول نے کہا،

’’اگر ہماری خوشخبری ابھی بھی پوشیدہ ہے تو صرف ہلاک ہونے والوں کے لیے پوشیدہ ہے: چونکہ اِس جہاں کے خُدا [شیطان] نے اُن بے اعتقادوں کی عقل کو اندھا کر دیا ہے… (2۔ کرنتھیوں4:3۔4)۔

جی ہاں، وہاں ’’فوق الفطرت‘‘ اندھا پن تھا، شاگردوں کا شیطانی اندھا پن، اِس کے ساتھ ساتھ خود اُن کی اپنی جسمانی نیت والی آدم کی قدرت کی وجہ سے خوشخبری سے اندھا پن۔ یسوع نے کہا، ’’اگر تم تبدیل ہو کر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے‘‘ (متی18:3)۔ یہ بات اُس نے کن سے کہی تھی؟ یہ اُس نے ’’اُن شاگردوں‘‘ سے کہی تھی (متی18:1)۔ مہربانی سے کھڑے ہوں اور متی 18:1۔3 پڑھیں،

’’اُس وقت شاگرد یسوع کے پاس آئے اور پوچھنے لگے کہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے بڑا کون ہے؟ اُس نے ایک بچے کو پاس بُلایا اور اُسے اُن کے بیچ میں کھڑا کر دیا اور کہنے لگا، سچی بات تو یہ ہے کہ اگر تم تبدیل ہو کر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے‘‘ (متی18:1۔3)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔ شاگرد جاننا چاہتے تھے کہ اُن میں سے آسمان کی بادشاہی میں سب سے بڑا کون ہو گا (متی18:1)۔ یسوع نے شاگردوں کو بتایا، ’’اگر تم تبدیل ہو کر چھوٹے بچوں کی مانند نہ بنو، تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے‘‘ (متی18:3)۔

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول [خوشخبری یعنی خوشخبری کے بارے میں] اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا…‘‘ (لوقا18:34)۔

III۔ تیسری بات، وہ تجربے کے ذریعے سے خوشخبری کو نہیں جانتے تھے۔

ہماری تلاوت کا اختتام کہتا ہے، ’’یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں‘‘ (لوقا18:34)۔ یونانی لفظ جس نے ’’جانناknew‘‘ کا ترجمہ کیا اُس کا مطلب ہوتا ہے ’’خبردار ہونا، پُریقین ہونا، تجربے کے ذریعے سے واقف ہونا‘‘ (جارج رائیکر بیری George Ricker Berry، نئے عہد نامے کے ہم معنی الفاظ کی یونانی سے انگریزی میں لغت A Greek-English Lexicon of New Testament Synonyms، سٹرانگ کے لیے کوڈ کی گئی Coded to Strong، نمبر1097)۔ یہ ہی لفظ فلپیوں3:10 میں استعمال کیا گیا ہے، ’’میں یہی چاہتا ہوں کہ مسیح کو اور اُس کے جی اُٹھنے کی قدرت کو جانوں، اُس کے ساتھ دُکھوں میں شریک ہونے کا تجربہ حاصل کروں…‘‘ شاگرد خوشخبری کو تجربے کے ذریعے سے نہیں جانتے تھے۔ اُنہوں نے الفاظ سُنے تھے، مگر خوشخبری کی حقیقت کا تجربہ نہیں کیا تھا۔ اب آئیے کھڑے ہوں اور پورا حوالہ ایک مرتبہ پھر سے پڑھیں۔ یہ لوقا18:31۔34 .

یسوع نے بارہ شاگردوں کو اپنے ساتھ لیا اور اُن سے کہنے لگا: دیکھو ہم یروشلیم جا رہے ہیں اور نبیوں نے جو کچھ ابنِ آدم کے بارے میں لکھا ہے وہ پورا ہوگا۔ وہ غیر یہودی لوگوں کے حوالے کیا جائے گا اور وہ اُسے ٹھٹّھوں میں اُڑائیں گے بے عزت کریں گے اور اُس پر تھوکیں گے اور وہ اُسے کوڑوں سے ماریں گے اور قتل کر ڈالیں گے لیکن تیسرے دِن وہ پھر زندہ ہو جائے گا‘‘ (لوقا18:31۔34)۔

آپ تشریف رکھ سکتے ہیں۔

کیا آپ نے اب اِسے دیکھا؟ ’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب [تجربے سے] اُن سے پوشیدہ رہا۔‘‘

سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon کی گواہی کو سُنیے۔ وہ خوشخبری کی منادی کرنے والے ایک پادری صاحب کے گھر میں پلے بڑھے تھے – خود اُن کے اپنے والد۔ اُنھوں نے اپنی گرمیوں کی چھٹیاں اپنے دادا کے گھر پر گزاریں، وہ بھی خوشخبری کے منادی کرنے والے ایک مبلغ تھے۔ اُنھوں نے اپنی ساری زندگی خوشخبری کی منادی ہر اِتوار کو سُنی۔ اِس کے باوجود وہ اِس ہی قدر غیرنجات شُدہ تھے جتنے کے مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے پہلے شاگرد تھے۔ سپرجیئن نے کہا،

اپنی جوانی سے میں یسوع کی قربانی کے وسیلے سے نجات کے منصوبے کا سُن چکا تھا، لیکن میں اِس کے بارے میں اپنی روح کی گہرائی سے کچھ بھی نہیں جان پاتا اگر میں [ایک کافر سرزمین] پر پیدا ہوا ہوتا۔ یہ مجھ پر ایک نئے مکاشفے کی طرح آیا، اتنا ہی تازہ جتنا کہ آیا میں نے کلام مقدس کو کھبی بھی پڑھا ہی نہ ہو… [پھر] میں جان گیا اور ایمان کے وسیلے سے دیکھا کہ وہ جو خُدا کا بیٹا ہے انسان بنا اور خود اپنی بابرکت ہستی میں، صلیب پر خود اپنے ہی بدن میں میرے گناہ اُٹھائے… کیا آپ نے کبھی بھی وہ دیکھا ہے؟ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن C. H. Spurgeon، ایک راستباز خُدا کیسے ایک مجرم انسان کو راستباز کر سکتا ہے؟ How Can a Just God Justify Guilty Man?، چھوٹے گرجہ گھر کا کُتب خانہ Chapel Library، پینساکولا Pensacola، فلوریڈا Florida)۔

سپرجیئن مسیح کے بارے میں جانتے تھے۔ اُنھوں نے نجات کا پیغام سُنا ہوا تھا۔ لیکن اُنھیں ’’یہ باتیں [تجربے کے ذریعے سے] سمجھ میں نہ آ سکیں اور یہ قول [انجیل یا خوشخبری] اور اُس کا مطلب [اُن] سے پوشیدہ رہا۔‘‘ خوشخبری اچانک اُن کے پاس آئی تھی، اِس قدر قوت کے ساتھ کہ اُنھوں نے کہا، ’’یہ میرے پاس ایک نئے انکشاف کی حیثیت سے آیا تھا، اِتنا ہی تازہ جتنا کہ میں نے آیا کبھی بھی کلام پاک پڑھا ہی نہیں۔‘‘

’’یہ حقیقی تبدیلی ہوتی ہے – جب آپ کی جان کو آپ کے گناہ کا وزن محسوس کرایا جاتا ہے – اور آپ جی اُٹھے مسیح کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔ کسی نے مجھ سے کہا، ’’بائبل کہاں پر تعلیم دیتی ہے کہ شاگردوں میں تبدیلی جی اُٹھے مسیح کا سامنا کرنے کے وسیلے سے آئی تھی؟‘‘ جواب سادہ ہے – تمام چاروں اناجیل کے آخر میں – متی 28 باب میں؛ مرقس16 باب میں؛ لوقا24 باب میں (خصوصی طور پر یہاں پر واضح ہے، آیات36۔45 میں)، اور یوحنا20:19۔22 میں۔ ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee جو کہ امریکہ کے ایک مشہور و معروف بائبل کے اُستاد ہیں اُنھوں نے یوحنا20:22 کے بارے میں کہا، میں ذاتی طور پر یقین کرتا ہوں کہ جس لمحہ ہمارے خُداوند نے اُن پر پھونکا، اور کہا، ’تم پاک روح پاؤ،‘ اِن لوگوں کی نئی تخلیق [دوبارہ جنم] ہو گئی تھی۔ اِس سے پہلے، خُداوند کا روح اُن میں نہیں سمایا تھا‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔ بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز، جلد چہارم، صفحہ498؛ یوحنا20:21 پر غور طلب بات)۔ آپ ڈاکٹر میگی کو www.thruthebible.org. انٹرنیٹ پر سُن سکتے ہیں۔

اب یہ ہماری دعا ہے کہ پاک روح کے وسیلے سے اپنے گناہ کی سزایابی کے تحت آئیں اور کہ خُدا کا روح آپ کے دِل کو کھولے، اور آپ کو یسوع مسیح کی جانب، جو خُدا کا جی اُٹھا بیٹا ہے، اُس کے قیمتی خون کے وسیلے سے گناہ سے پاک صاف کرنے کے لیے کھینچے۔

ڈاکٹر میگی کا ہر ایک پروگرام ’’یسوع نے اِس تمام کی قیمت چکائی Jesus Paid It All‘‘ کے حمد و ثنا کے گیت کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ یہ آپ کے گیتوں کی کتاب پر نمبر چار ہے۔ کھڑے ہو جائیں اور اِس کو گائیں۔

میں نجات دہندہ کو کہتے ہوئے سُنتا ہوں، ’’تیری قوت بِلاشبہ چھوٹی ہے،
کمزروی کے بچے، دیکھ اور دعا مانگ، مجھ ہی میں تمام کا تمام ڈھونڈ۔‘‘
یسوع نے اِس تمام کی قیمت چکائی، اُسی کا میں مکمل مقروض ہوں؛
گناہ نے ایک سُرخ مائل دھبہ چھوڑا تھا، اُس نے اُسے برف کی مانند سفید کر دیا ہے۔

اے خُداوند، اب بلاشبہ میں نے پا لیا ہے، تیری اور واحد تیری قوت ہی،
کوڑھیوں کے داغوں کو بدل سکتی ہے، اور پتھر دِل کو پگھلا سکتی ہے۔
یسوع نے اِس تمام کی قیمت چکائی، اُسی کا میں مکمل مقروض ہوں؛
گناہ نے ایک سُرخ مائل دھبہ چھوڑا تھا، اُس نے اُسے برف کی مانند سفید کر دیا ہے۔

کیونکہ تیرے فضل کے لیے دعویٰ کرنے کے لیے میرے پاس کچھ اچھا نہیں –
میں اپنے لبادے کو کلوری کے برّے کے خون میں دھو کر سفید کر لوں گا۔
یسوع نے اِس تمام کی قیمت چکائی، اُسی کا میں مکمل مقروض ہوں؛
گناہ نے ایک سُرخ مائل دھبہ چھوڑا تھا، اُس نے اُسے برف کی مانند سفید کر دیا ہے۔

اور جب، تخت کے سامنے، مَیں اُس میں مکمل کھڑا ہوتا ہوں،
’’یسوع میری جان کو بچانے کے لیے مرا،‘‘ میرے ہونٹ ابھی تک دھراتے ہیں۔
یسوع نے اِس تمام کی قیمت چکائی، اُسی کا میں مکمل مقروض ہوں؛
گناہ نے ایک سُرخ مائل دھبہ چھوڑا تھا، اُس نے اُسے برف کی مانند سفید کر دیا ہے۔
(’’یسوع نے اِس تمام کی قیمت چکائی Jesus Paid It All‘‘ شاعرہ ایلوینہ ایم۔ ھال
   Elvina M. Hall، 1820۔1889)۔

ڈاکٹر چعین، مہربانی سے دعا میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: افسیوں6:10۔20.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith
     نے گایا تھا: ’’میری آنکھیں کھول دے Open My Eyes‘‘ (شاعر کلارہ ایچ۔ سکاٹ Clara H. Scott، 1841۔1897)۔

لُبِ لُباب

یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا

THIS SAYING WAS HID FROM THEM

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
by Dr. R. L. Hymers, Jr.

’’اور یہ باتیں اُن کی سمجھ میں نہ آ سکیں اور یسوع کا یہ قول اور اُس کا مطلب اُن سے پوشیدہ رہا‘‘ (لوقا18:34)۔

(لوقا18:31۔33؛ مرقس9:32؛ 1۔کرنتھیوں15:3۔4)

I.    پہلی بات، اُنھیں خوشخبری کی سمجھ نہیں آئی تھی، لوقا18:34 الف؛
مرقس9:31۔32 .

II.   دوسری بات، خوشخبری اُن سے چُھپی ہوئی تھی، لوقا18:34ب؛ یوحنا8:59؛
افسیوں2:1، 5؛ رومیوں8:7؛ 1۔کرنتھیوں2:14؛ 1:18؛
یوحنا3:7؛ افسیوں2:8۔9؛ یوحنا17:12؛ 20:25؛ متی16:17؛
متی16:21۔22، 23؛ 2۔کرنتھیوں4:3۔4؛ متی18:1۔3 .

III.  تیسری بات، وہ تجربے کے ذریعے سے خوشخبری کو نہِیں جانتے تھے، لوقا18:34ج؛ فلپیوں3:10 .