Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔

حیاتِ نو کے لیے ایک دعا

(حیاتِ نو پر واعظ نمبر 13)
A PRAYER FOR REVIVAL
(SERMON NUMBER 13 ON REVIVAL)
(Urdu)

ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر کی جانب سے
.by Dr. R. L. Hymers, Jr

لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں دیا گیا ایک واعظ
خُداوند کے دِن کی صبح، 2 نومبر، 2014
A sermon preached at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Morning, November 2, 2014

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے، اور پہاڑ تیرے حضور میں لرزنے لگیں، جس طرح آگ سوکھی ٹہنیوں کو جلادیتی ہے اور پانی میں اُبال لاتی ہے، اُسی طرح تُو نیچے ا ٓکر اپنا نام اپنے دشمنوں میں مشہور کر اور تیری حضوری میں قوموں پر کپکپی طاری ہوجائے!‘‘ (اشعیا 64:1،2).

ڈاکٹر جان ایچ۔ آرمسٹرانگ Dr. John H. Armstrong مذھبی سُدھار اور حیاتِ نو کی منسٹریوں کے صدر ہیں۔ وہ ’’آنے والی انجیلی بشارت کے پرچار کے بحران The Coming Evangelical Crisis‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ ڈاکٹر آرمسٹرانگ نے کہا،

مغرب میں معاشرے کا زوال گھمبیر سوال سے پرے ہے… ہم موجودہ زمانے میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتی ہوئی تہذیب کے چشم دید گواہ ہیں جیسا کہ ہم اِس کو جان چُکے ہیں۔ ہم … سوچتے ہیں کہ حالات جیسے ہیں اِسی طرح سے وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ہم … پہلے ہی بھول چکے ہیں کہ محض چند ہی دِنوں میں وہ جو کبھی ناقابلِ تسخیر ’’لوہے کا پردہ Iron Curtain‘‘ ہوا کرتا تھا گِر چکا ہے (جان ایچ۔ آرمسٹرانگ، پی ایچ۔ ڈی۔ John H. Armstrong, Ph.D.، سچا حیاتِ نو True Revival، ہارویسٹ ہاؤس پبلیشرز Harvest House Publishers، 2001، صفحات 125، 126)۔

اُن کا مطلب تھا کہ ہماری تہذیب بالکل اتنی ہی جلدی ختم ہو جائے گی جتنی جلدی سابقہ سویت یونین میں اشتراکیت ختم ہو گئی تھی – محض چند ایک ہی دِنوں میں! میرے خیال میں یہ ہو جائے گی۔ ڈاکٹر آرمسٹرانگ نے یہ بات تیرہ سال قبل 2001 میں لکھی تھی۔

اگلی ہی رات اپنے بستر پر بالکل جانے ہی سے پہلے میں نے ورلڈ میگزین World Magazine میں ایک پریشان کر دینے والا آرٹیکل پڑھا۔ جب میں نیند کی وادیوں میں جا رہا تھا، میں نے سوچا، ’’ہم اب وہیں پر ہیں۔ ہماری تہذیب اب ٹکڑے ٹکڑے ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اتنی ہی جلدی ہو سکتا ہے جتنی جلدی سویت یونین کی شکست ہوئی تھی۔‘‘

گمشدہ دُنیا اِس کے بارے میں نہیں جانتی ہے، مگر مسیحیت وہ گوند ہے جس نے ہماری تہذیب کو اکٹھے جکڑا ہوا ہے۔ مگر ہمارے گرجہ گھر اِس قدر کمزور ہیں کہ اِس کو مذید اور نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمارا طرز زندگی خود ہماری اپنی ہی آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہا ہے۔

ہم یہاں پر ہیں، اُن انتہائی چند ایک گرجہ گھروں میں سے ایک میں جس میں اب بھی یہاں لاس اینجلز میں اِتوار کی شام کی عبادت ہوتی ہے۔ اور اُن میں سے زیادہ تر میں تو اب مذید اور بُدھ کی شام کا دعائیہ اجلاس بھی نہیں ہوتا ہے! خُدا ہماری مدد کرے! ہم تنہا ہیں اور ہم اِس کو محسوس کرتے ہیں۔ ہم تنہا ہیں اور ہم کمزور ہیں۔ ہمارے دشمن اتنہائی مضبوط اور گرجدار ہیں۔ ہم روزانہ اُن کی نہایت اونچی آوازیں سُنتے ہیں۔ کیا ہمارے دور میں یہ مسیحیت کے اختتام کا آغاز ہے؟ اب تمام سوچ سے بھرپور مسیحیوں کے ذہنوں میں سے اِس جیسے تاریک خیالات گزرتے ہیں۔ اور ہم تعجب کرتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم گرجہ گھروں کو دیکھتے ہیں اور گواہیوں کو بوسیدہ ہوتا دیکھتے ہیں۔ ہم انجیلی بشارت کا پرچار کرنے والوں کی کمزوری اور بے دینی کو دیکھتے ہیں۔ یہ ہمیں کسی اور بات کے مقابلے میں سب سے زیادہ پریشان کرتا ہے۔

1950 کی دہائی کے بوڑھے مسیحی مر چکے ہیں۔ صدر ریگن مر چکے ہیں۔ فرانسس شیفر Francis Schaeffer مر چکے ہیں۔ جان آر۔ رائس John R. Rice مر چکے ہیں۔ ھیرالڈ لِینڈسیل Harold Lindsell، بِل برائٹ Bill Bright، ڈبلیو۔ اے۔ کرِسویل W. A. Criswell، جیری فالویل Jerry Falwell اور ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones مرچکے ہیں۔ بلی گراھم، 96 برس کی عمر میں، شمالی کیلیفورنیا کے پہاڑوں میں اوپر، بہت دور ایک وھیل چئیر میں تنہا بیٹھتے ہیں۔ ہم تنہا ہیں – اور یہاں کوئی مضبوط آدمی نہیں ہے جو ہمیں تحفظ دے جب مغربی تہذیب پر اندھیرا چھاتا جا رہا ہے۔

اشعیا نبی نے اسی طرح محسوس کیا تھا۔ اُس کو خُدا کی تلاش کرنے کے لیے ہمت باندھنی پڑی تھی۔ اُس نے کہا،

’’بِلاشک و شبہ تُو ہمارا باپ ہے، حالانکہ ابرہام ہمیں نہیں جانتا اور نہ اسرائیل ہمیں پہچانتا ہے: تو بھی اَے خداوند، تُو ہمارا باپ ہے، اور ہمارا فدیہ دینے والا ہے، ازل سے تیرا یہی نام ہے‘‘ (اشعیا 63:16).

ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones نے کہا،

آپ کو اور مجھے خُدا کی حضوری میں محض رواج کی خاطر نہیں جانا چاہیے… محض اُن کی خاطر جو ہم سے پہلے جا چکے ہیں۔ میں پرواہ نہیں کرتا وہ کون تھے، چاہے وہ میتھوڈسٹ فادر تھے یا پیوریٹن یا مذھبی سُدھار والے تھے۔ جی نہیں، ہم اُن کے ناموں ابراھام، یعقوب کی التجا نہیں کرتے – بالکل بھی نہیں کرتے۔ ’’تُو ہمارا باپ ہے۔‘‘ مذھبی سُدھار والے ہمیں نجات نہیں دِلا سکتے، میتھوڈسٹ باپ ہمیں نہیں بچا سکتے۔ آج [یہاں] شدید خطرہ ہے کہ ہم بانی بزرگان کا سہارا لیں۔ جی نہیں، یہ خُدا ہے۔ ’’تُو ہمارا باپ ہے،‘‘ اور کوئی اور نہیں ہے… خُدا، ’’ازل سے تیرا یہی نام ہے،‘‘ خُدا کوئی مُردوں کا خُدا نہیں ہے، بلکہ زندہ لوگوں کا خُدا ہے اور وہ جیتا جاگتا خُدا ہے (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیاتِ نو Revival، کراسوے کُتب Crossway Books، 1987، صفحات 301، 302)۔

میں بہت سے بپتسمہ دینے والوں کو مذھبی سُدھار کی جانب واپس جاتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں۔ مگر، میں جتنا مذھبی سُدھار والوں سے پیار کرتا ہوں، میں جانتا ہوں، اشعیا کی مانند، کہ مذھبی سُدھار والے اور پیوریٹنز ہمیں نجات نہیں دِلا سکتے! وہ تو یہاں تک کہ ہماری مدد بھی نہیں کر سکتے! ہماری تہذیب اُن لوگوں کے علمِ الٰہیات کے ذریعے سے نجات پانے کے لیے انتہائی دور نکل چکی ہے، انتہائی گناہ سے بھرپور ہو چکی ہے، انتہائی اوباش ہو چکی ہے۔ ہمیں واپس خُدا کے پاس جانا چاہیے! ہم واپس مذھبی سُدھار والوں کا سہارا نہیں لے سکتے چاہے وہ کتنا ہی زیادہ اورشاندار کیوں نہ ہو۔ ہمیں واپس خُدا کے پاس جانا چاہیے! تنہا خُدا ہی ہماری مدد کر سکتا ہے!

لیکن ہمیں خُدا کے پاس نہیں جانا چاہیے اور اُس سے صرف اپنی قوم کو نجات دلانے کے لیے نہیں کہنا چاہیے۔ اوہ، جی نہیں! اہمیت میں، ہماری قوم کے لوگ خُدا کے لوگ نہیں ہیں۔ وہ جیتے جاگتے خُدا کے ساتھ کچھ بھی نہیں چاہتے ہیں! اشعیا نے کہا،

’’ہم اُن کی مانند ہوگئے: جن پر تُو نے کبھی حکومت نہیں کی؛ نہ وہ تیرے نام سے کہلاتے ہیں‘‘ (اشعیا 63:19).

خُداوند کے نام کی ستائش کریں! ہم نہیں چاہتے، نا ہی ہم ’’اخلاقی اکثریت،‘‘ ’’امریکہ پہلے،‘‘ جمہوریہ سے متعلق پارٹی، یا کسی دوسرے دُنیاوی سہارے پر آسرا کرنے کی تلاش کرتے ہیں! ہمیں تو یہاں تک کہ ایسی حقیر اور رفوچکر ہو جانے والی خوش فہمیوں پر اپنی دعائیں بھی ضائع نہیں کرنی چاہیے! ہمیں تو اب تنہا خُداوند ہی کے بازو کا سہارا لینے کے لیے آنا چاہیے! ’’تُو، اے خُداوند، ہمارا باپ ہے، ہمارا فدیہ دینے والا ہے؛ ازل سے تیرا یہی نام ہے‘‘ (اشعیا63:16)۔

پہاڑوں سے پہلے ترتیب میں کھڑے،
   یا زمین نے اپنے ڈھانچے میں ڈھال لیا ہو،
ازل سے تو اے خُدا،
   لامتناہی سالوں سے ایسا ہی ہے۔

ہزاروں زمانے، تیری نظر میں،
   ایک گزرتی شام کی مانند ہیں؛
اُس پل کی مانند مختصر جو رات کو ختم کرتا ہے،
   سورج کے طلوع ہونے سے پہلے۔
(’’اے خُداوند، گزرے زمانوں میں ہماری مدد O God, Our Help in Ages Past‘‘ شاعر آئزک واٹز، ڈی۔ ڈی۔ Isaac Watts, D.D.، 1674۔1748)۔

اب ہم اپنی تلاوت کی جانب آتے ہیں۔ یہ خُدا کی طرف ہے کہ نبی اپنا چہرہ موڑتا ہے۔ یہ خُدا ہی ہے جس کی جانب وہ جب دعا مانگتا ہے تو حسرت سے التجا کرتا ہے،

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے…‘‘ (اشعیا 64:1).

خُدا کے لوگ انتہائی بُری حالت میں تھے جب یہ دعا پیش کی گئی تھی۔ اُن کو خود اور دُکھ کی نچلی ترین سطح پر لایا گیا تھا۔ نبی نے اُن کے لیے مالی خوشحالی کی دعا نہیں مانگی تھی۔ اُس نے اُن کے ذہنی سکون کے لیے دعا نہیں مانگی تھی۔ اُس نے تو یہاں تک کہ اُن کی کامیابی کے لیے بھی دعا نہیں مانگی تھی! وہ جوئیل آسٹن Joel Osteen کی مانند نہیں تھا! وہ جانتا تھا کہ وہ جس کی اُنہیں ضرورت ہے اُس کے لیے ناگزیر بات نہیں تھی۔ اشعیا جانتا تھا کہ اُن کے لیے اہم، اشد ضرورت اُن کے درمیان خُدا کی موجودگی تھی۔ اور اِس ہی لیے اُس نے پاک کلام میں درج عظیم ترین دعاؤں میں سے ایک دعا مانگی تھی،

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے…‘‘ (اشعیا 64:1).

میں نہایت کم ہی ڈاکٹر جے ورنن میگی Dr. J. Vernon McGee کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔ مگر میں اُن کی اِس آیت کی تاویل کے ساتھ متفق نہیں ہوں۔ اُنہوں نےکہا، ’’اشعیا بہت بڑی مصیبتوں کے عرصے کے دوران اسرائیل کی دعا کی پیشن گوئی کر رہا ہے‘‘ (بائبل میں سے Thru the Bible، جلد سوئم، صفحہ 342؛ اشعیا64:1 پر غور طلب بات)۔ جی نہیں، یہ بڑی مصیبت میں مسیح کی آمد ثانی کے لیے اسرائیل کے دعا مانگنے کی پیشن گوئی نہیں ہے۔ وہ غالباً اُس کے لیے دعا مانگیں گے، مگر تلاوت کا اہم اِطلاق یہ نہیں ہے۔ نبی خُدا سے ابھی نیچے آنے کے لیے دعا مانگ رہا تھا! سپرجیئن Spurgeon اور ڈاکٹر لائیڈ جونز Dr. Lloyd-Jones دونوں ہی نے کہا کہ یہ پاک روح کے نیچے نازل ہونے کے لیے ایک دعا ہے۔

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے…‘‘ (اشعیا 64:1).

ڈاکٹر لائیڈ جونز نے کہا، میں [کہنے میں] ہچکچاہٹ نہیں کرتا کہ یہ حیات نو کے ساتھ تعلق رکھتے ہوئے حتمی دعا ہے… وہ خصوصی، مخصوص، فوری دعا جو حیات نو میں خُدا کے روح کے آنے کے لیے ہوتی ہے۔ کوئی اور اصطلاح نہیں ہے جو اتنے بہتر طریقے سے اُس حتمی التجا کو بیان کرتی جیسا کہ کاؤپر کے حمدوثنا کے گیت میں اُس فقرے نے کیا،

ہائے آسمانوں کو چاک کر دے، جلدی سے نیچے آ جا،
اور ہزاروں دِلوں کو اپنا بنا لے۔

یہ ہے جو حیاتِ نو میں رونما ہوتا ہے‘‘ (مارٹن لائیڈ جونز، ایم۔ ڈی۔ Martyn Lloyd-Jones, M.D.، حیاتِ نو Revival، ibid.، صفحہ305)۔

اِس کا کیا مطلب ہوتا ہے، ’’نیچے آ گیا‘‘؟ میں آپ کو بالکل دُرست بتاؤں گا اِس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ سان فرانسسکو کے شمال میں، مِل وادی Mill Valley میں ایک گرجہ گھر کو شروع کرنے کے بعد میں لاس اینجلز واپس آ گیا تھا۔ اُنہوں نے مجھے فون کیا اور مجھ سے کہا کہ ایک اِجلاس میں جس کو ’’بیٹے کی عید The Festival of the Son‘‘ کہتے ہیں منادی کروں۔ میں بذریعہ پرواز سان فرانسسکو پہنچا اور چند ایک گھنٹوں کی گاڑی میں مسافت طے کر کے مذید آگے شمال میں گیا۔ اِجلاس ایک میدان میں منعقد ہوا تھا۔ جب ہم وہاں پر پہنچے، میں نے خُدا کی موجودگی کو محسوس کیا۔ جب میں گاڑی میں سے باہر نکلا میں بے شمار سینکڑوں نوجوان لوگوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ چند ایک گیتوں کے بعد، میرا تعارف کروایا گیا۔ میں جمِ غفیر کے سامنے کھڑا ہوا اور مائیکروفون پر اپنی تلاوت کا اعلان کیا۔ اِس وقت تک رات ہو چکی تھی۔ ملگجی رات نہیں بلکہ انتہائی تاریک۔ مائیکروفون اور بتیوں کو بجلی ایک موٹر سے چلائے جانے والے جنریٹر سے موصول ہو رہی تھی۔ میرے بالکل تلاوت پڑھ چکنے کے بعد، ساری بجلی چلی گئی۔ مائیکروفون بے جان ہو چکا تھا۔ تمام روشنیاں بجھ چکی تھیں۔ وہاں اِس قدر تاریکی تھی کہ میں خود اپنا ہی ہاتھ نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ میں نے سوچا، ’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ یہاں پر سینکڑوں اور سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان لوگ زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر تو کبھی گرجہ گھر کی عمارت کے اندر بھی نہیں گئے تھے۔ میں کیا کہوں گا؟ میں مکمل تاریکی میں کیا کر پاؤں گا؟ تب خُدا نیچے آیا!

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے…‘‘

میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ خُدا اِس قدر زیادہ قوت کے ساتھ نیچے آ گیا کہ آپ اُس کی موجودگی کو محسوس کر سکتے تھے۔ میں نے اپنا پورا زور لگا کر منادی کا آغاز کر دیا۔ وہاں پر کوئی روشنی نہیں تھی۔ کوئی مائیکروفون نہیں تھا۔ کسی کی ضرورت بھی نہیں تھی! خُدا وہاں پر رات کی تاریکی میں اپنا معجزہ کر رہا تھا۔ جب میں منادی کر رہا تھا تو مجھے سوچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ الفاظ میرے منہ سے ایک سیلاب کی مانند نکل رہے تھے! وہ نوجوان لوگ قطعی طور پر خاموش تھے۔ میری آواز کے علاوہ کچھ بھی سُنائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے واعظ کا اختتام کیا اور ایک یا دو لمحات کے لیے، میں نے تعجب کیا کہ اب آگے کیا کروں۔ بالکل اُسی وقت، میں نے ایک آواز سُنی۔ جنریٹر واپس چالو ہو گیا تھا۔ میدان میں ہر ایک روشنی اچانک جل اُٹھی – اور مائیکروفون بھی چالو ہو گیا۔ میں نے ایک سادہ سی دعوت پیش کی۔ میں واقعی میں سینکڑوں کھوئے ہوئے ہیپیوں کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر بھونچکا رہ گیا تھا، اُن میں سے بہت سے آنسوؤں کے ساتھ رو رہے تھے۔ وہاں پر کوئی موسیقی نہیں تھی۔ کوئی آواز نہیں تھی، ماسوائے اُن کے قدموں کی جب وہ آئے اور زمین پر دوزانو ہو گئے۔ ہم وہاں پر بعد میں اُن سے نمٹنے کے لیے کافی عرصے تک رہے۔ میرے دوست محترم مارک بکلے Rev. Mark Buckley، اُس ناقابلِ فراموش رات کو یاد کرتے ہیں – وہ رات جب روشنیاں بجھ گئی تھیں اور خُدا نیچے آیا تھا – اور سینکڑوں ہیپیوں اور نشے کے عادی لوگوں نے مسیح کے خون کے ذریعے سے خُدا کے ساتھ سکون پایا تھا! اُس قسم کے حیاتِ نو میں سے چالیس سے زیادہ گرجہ گھر پھیلے تھے – سارے امریکہ، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں! خُدا نے یہ تب کیا تھا اور خُدا یہ دوبارہ کر سکتا ہے! یہ سپرجیئن ہی رہے ہونگے جنہوں نے کہا، ’’صرف خُدا ہی خُدا کا معجزہ کر سکتا ہے۔‘‘

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے…‘‘

پہلے چینی بپتسمہ دینے والے گرجہ گھر پر، 1969 میں، آپ واقعی میں خُدا کی موجودگی کو اِس سے پہلے کہ آپ گرجہ گھر کی عمارت کے اندر داخل ہوتے محسوس کر سکتے تھے۔ اِس کے بارے میں کوئی بھی دیوانگی والی بات نہیں تھی۔ مگر خُدا وہاں پر تھا۔ میں اِس کو صرف تھوڑا سا یوں ہی بیان کر سکتا ہوں جیسے ہوا میں بجلی ہوتی ہے! بائبل اِس کو خُدا کا ’’جلال‘‘ کہتی ہے۔ اِس کا ترجمہ عبرانی لفظ سے کیا گیا ہے جس کا مطلب ’’وزن‘‘ ہوتا ہے۔ آپ جلال کو محسوس کر سکتے ہیں – ہوا میں خُدا کا وزن!

میں بالکل صحیح جانتا ہوں کہ رئیس بیوان جونز کا کیا مطلب تھا جب اُنہوں نے وھیلز Wales میں ایک حیاتِ نو کی تفصیل پیش کی،

وہ ساری کی ساری جگہ اُس لمحے میں خُدا کے جلال کے ساتھ اِس قدر ہولناک ہوگئی تھی – کوئی لفظ ’’ہولناک‘‘ جان بوجھ کر استعمال کرتا ہے، خُدا کی پاک موجودگی اِس قدر اُجاگر تھی کہ گفتگو کرنے والا بذات خود جذبات سے لبریز تھا؛ وہ منبر جہاں پر وہ کھڑا تھا خُدا کے نور سے اِس قدر بھرا ہوا تھا کہ اُس کو پسپا ہونا پڑا! وہاں؛ اِس کو اِسی پر یہاں چھوڑ دیں۔ الفاظ ایسے تجربے کا مذاق اُڑانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے (برائن ایچ۔ ایڈورڈز Brian H. Edwards، حیاتِ نو! خُدا کے ساتھ لبریز لوگ Revival! A People Saturated with God، ایونجیلیکل پریس Evangelical Press، 1991 ایڈیشن، صفحہ 134)۔

جنوری 1907 میں، جب شمالی کوریہ میں اپنے لوگوں کے درمیان خُدا نیچے آیا تھا تو ایک مشنری نے کہا، ’’ہر ایک نے یوں محسوس کیا جیسے وہ گرجہ گھر میں داخل ہو گیا ہو، کہ کمرہ خُدا کی موجودگی سے لبریز ہو گیا تھا… اُس رات پیاؤنگیانگ Pyongyang میں بیان کرنے کے لیے ناممکن خُدا کی موجودگی کا احساس [وہاں تھا]‘‘ (ایڈورڈز Edwards، ibid.، صفحات 135، 136)۔ برائن ایڈورڈز نے کہا، ’’بسااوقات یہ خُدا کی ہولناک موجودگی تھی جو مذھبی جماعت پر گناہ کی گہری سزایابی لائی تھی۔ جب خُدا کی موجودگی ایک ناقابلِ فرار حقیقت ہوتی ہے تب ہم حیاتِ نو میں ہوتے ہیں‘‘ (ایڈورڈز Edwards، ibid.)۔ ڈاکٹر آرمسٹرانگ نے کہا، دونوں عبادت گزار اور کافر جان بوجھ کر آگاہ ہو جاتے ہیں کہ خُدا ایک بھرپور قوت کے ساتھ موجود ہوتا ہے‘‘ جب حیاتِ نو آتا ہے (آرمسٹرانگ Armstrong، ibid.، صفحہ 53)۔

’’کاش کہ تُو آسمان کو چاک کردے اور نیچے اُتر آئے…‘‘

میں اُمید کرتا ہوں کہ ہمارے لوگوں میں سے کچھ اکٹھے جمع ہونگے اور اشعیا64:1 میں سے اُنہی انتہائی الفاظ کی دعا مانگیں گے۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ اُس آیت کے لیے اپنی بائبل کھولیں گے، جب آپ تنہا ہوتے ہیں، اور نبی کے اُن الفاظ کو خود اپنی دعا کے طور پر اپنا لیں گے۔ خُدا کے لیے دعا مانگیں کہ وہ حیاتِ نو کی قوت کے ساتھ ہمارے گرجہ گھر میں نیچے آئے! خُدا آپ کو برکت دے!

کون اِس کے لیے دعا مانگے گا؟ زیادہ تر آپ میں سے اُن کے لیے جو ابھی تک مسیح میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں۔ ہم دعا مانگیں گے کہ خُدا آپ کو آپ کے گناہ کی گہری سزایابی میں لائے۔ آپ کبھی بھی یسوع کے لیے اپنی مایوس کُن ضرورت کو محسوس نہ کر پائیں جب تک کہ آپ پہلے خود اپنے دِل اور ذہن کے گہرے، تاریک گناہ کی سزایابی میں نہ آ جائیں۔ ہم پاک روح کے لیے دعا مانگیں گے کہ وہ نیچے آئے اور آپ کو گناہ سے بھرپور اور کھویا ہوا محسوس کرائے۔ تب، بھی، ہم آپ کے لیے دعا مانگ رہے ہونگے کہ آپ یسوع پر بھروسہ کریں تاکہ اُس کا قیمتی خون آپ کو تمام گناہ سے پاک صاف کر سکے۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے ہم خُدا سے دعا مانگیں گے کہ آپ کی زندگی میں کرے۔ ڈاکٹر چعین Dr. Chan، مہربانی سے ہماری دعا میں رہنمائی فرمائیں۔ آمین۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہیمرز کے واعظwww.realconversion.com پر پڑھ سکتے ہیں
www.rlhsermons.com پر پڑھ سکتے ہیں ۔
"مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

You may email Dr. Hymers at rlhymersjr@sbcglobal.net, (Click Here) – or you may
write to him at P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015. Or phone him at (818)352-0452.

یہ مسودۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے تمام ویڈیو پیغامات حق اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے
جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے کلام پاک سے تلاوت مسٹر ایبل پرودھوم Mr. Abel Prudhomme نے کی تھی: اشعیا64:1۔4.
واعظ سے پہلے اکیلے گیت مسٹر بنجامن کینکیڈ گریفتھ Mr. Benjamin Kincaid Griffith نے گایا تھا:
’’یسوع، جہاں بھی تیرے لوگ مِل جائیں Jesus, Where’er Thy People Meet‘‘
(شاعر ولیم کاؤپر William Cowper، 1731۔1800؛
’’ڈکسالوجی The Doxology‘‘ کی دُھن پر گایا گیا)۔