Print Sermon

اِس ویب سائٹ کا مقصد ساری دُنیا میں، خصوصی طور پر تیسری دُنیا میں جہاں پر علم الہٰیات کی سیمنریاں یا بائبل سکول اگر کوئی ہیں تو چند ایک ہی ہیں وہاں پر مشنریوں اور پادری صاحبان کے لیے مفت میں واعظوں کے مسوّدے اور واعظوں کی ویڈیوز فراہم کرنا ہے۔

واعظوں کے یہ مسوّدے اور ویڈیوز اب تقریباً 1,500,000 کمپیوٹرز پر 221 سے زائد ممالک میں ہر ماہ www.sermonsfortheworld.com پر دیکھے جاتے ہیں۔ سینکڑوں دوسرے لوگ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، لیکن وہ جلد ہی یو ٹیوب چھوڑ دیتے ہیں اور ہماری ویب سائٹ پر آ جاتے ہیں کیونکہ ہر واعظ اُنہیں یوٹیوب کو چھوڑ کر ہماری ویب سائٹ کی جانب آنے کی راہ دکھاتا ہے۔ یوٹیوب لوگوں کو ہماری ویب سائٹ پر لے کر آتی ہے۔ ہر ماہ تقریباً 120,000 کمپیوٹروں پر لوگوں کو 46 زبانوں میں واعظوں کے مسوّدے پیش کیے جاتے ہیں۔ واعظوں کے مسوّدے حق اشاعت نہیں رکھتے تاکہ مبلغین اِنہیں ہماری اجازت کے بغیر اِستعمال کر سکیں۔ مہربانی سے یہاں پر یہ جاننے کے لیے کلِک کیجیے کہ آپ کیسے ساری دُنیا میں خوشخبری کے اِس عظیم کام کو پھیلانے میں ہماری مدد ماہانہ چندہ دینے سے کر سکتے ہیں۔

جب کبھی بھی آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں ہمیشہ اُنہیں بتائیں آپ کسی مُلک میں رہتے ہیں، ورنہ وہ آپ کو جواب نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای۔میل ایڈریس rlhymersjr@sbcglobal.net ہے۔


حقیر جانا گیا لیکن سراپا عشق انگیز!

DESPISED BUT LOVELY!
(Urdu)

ایک واعظ جسے ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئر نے تحریر کیا
اور جس کی منادی محترم جناب جان سیموئیل کیگن نے
لاس اینجلز کی بپتسمہ دینے والی عبادت گاہ میں کی
خُداوند کے دِن کی صبح، 13 مئی، 2018
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr.
and preached by Rev. John Samuel Cagan
at the Baptist Tabernacle of Los Angeles
Lord's Day Morning, May 13, 2018

’’وہ سراپا عشق انگیز ہے‘‘ (غزل الغزلات 5:16)۔

میں نے کبھی بھی غزل الغزلات میں سے واعظ کی منادی نہیں کی۔ سپرجیئن کے واعظوں کی حروف تہجی کی ترتیب والی مکمل فہرست پر نظر ڈالنے سے، مجھے معلوم ہوا کہ مبلغین کے شہزادے نے لندن میں اپنی مذہبی خدمت کے دوران غزل الغزلات پر 63 واعظ دیے۔ اِس لیے میں آج اِس تلاوت پر واعظ کر رہا ہوں۔

’’وہ سراپا عشق انگیز ہے‘‘
’’وہ سراپا عشق انگیز ہے‘‘
’’وہ سراپا عشق انگیز ہے‘‘

ڈاکٹر میگی نے کہا، ’’یہودی غزل الغزلات کو پاک کلام کا مقدس ترین سے بھی مقدس کلام کہتے ہیں۔ اِس لیے، ہر کسی کو اِس مقدس احاطے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہاں ہے جہاں پر آپ اعلیٰ اقدس کی خفیہ جگہ میں بس رہے ہوتے ہیں… اگر خداوند یسوع آپ کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور آپ اُس سے محبت کرتے ہیں تو پھر یہ چھوٹی سی کتاب آپ کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہو گی۔ غزل الغزلات شاعرانہ اور عملی کتاب ہے۔ یہاں پر خُداوند اپنے لوگوں کے ساتھ شاعرانہ گیتوں میں باتیں کر رہا ہے جو ایک کہانی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ہمیں اپنے پیروں میں سے اپنے اپنے روحانی جوتے اُتارنے کی ضرورت ہوتی ہے جب ہم اِس کتاب پر پہنچتے ہیں۔ ہم پاک زمین پر ہوتے ہیں۔ غزل الغزلات ایک نازک پھول کی مانند ہے جس کو نزاکت سے سنبھالنا درکار ہوتا ہے۔ اِس کتاب میں چار مختلف اور اہم معنی پائے جا چکے ہیں‘‘ (جے۔ ورنن میگی، ٹی ایچ۔ ڈی۔، بائبل میں سے Thru the Bible، تھامس نیلسن پبلیشرز Thomas Nelson Publishers، 1982، جلد سوئم، صفحہ 143)۔

پہلا، غزل الغزلات ایک شوہر اور بیوی کے درمیان محبت کی ایک تصویر ہے۔ دوسرا، یہ اسرائیل کے لیے خُدا کی محبت کی ایک تصویر ہے۔ قدیم ربّیوں نے یہی تاویلیں پیش کی تھیں۔ لیکن مسیحیوں کے لیے دو اور اِطلاق مذید اور ہیں۔ تیسرا، یہ مسیح اور اُس کی کلیسیا کے درمیان محبت کی ایک تصویر ہے۔ چوتھا، یہ ایک انفرادی مسیحی کے لیے مسیح کی محبت کی عکاسی کرتی ہے، اور مسیح کے ساتھ روح کے باہمی رابطے کی عکاسی کرتی ہے۔ خُدا کے بے شمار عظیم مقدسین اِس کا تجربہ کر چکے ہیں۔ رابرٹ میورے میخائین Robert Murray McCheyne کی پسندیدہ کتاب غزل الغزلات تھی، جو سکاٹ لینڈ کے ایک مبلغ تھے اور جنہوں نے اپنی مذہبی خدمت کے دوران بہت بڑے بڑے حیاتِ انواع کی قوت سے بھرپور لہروں کو دیکھا تھا۔ میخائیں کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا، ’’وہ اپنی پیشانی پر دائمی کی مہر کےساتھ منادی کرتے تھے،‘‘ حالانکہ وہ صرف 29 برس کی عمر کے تھے جب اُن کی وفات ہوئی۔ بائبل میں غزل الغزلات اُن کی پسندیدہ کتاب تھی۔ جب رابرٹ میخائین غزل الغزلات میں سے منادی کیا کرتے تھے تو مضبوط سے مضبوط دِل کے لوگ بھی اپنے گھٹنوں پر گِر کر رویا کرتے تھے، اور سخت دِل گنہگار اپنے دِل مسیح کے آگے جُھکا دیا کرتے تھے۔ یہ سکاٹ لینڈ کے عظیم مبلغ سیموئیل روتھرفورڈ Samuel Rutherford (1600۔1661) کی بھی پسندیدہ کتاب تھی، ڈی۔ ایل۔ موڈیD. L. Moody (1837۔1899) اور ھیری آئرن سائیڈ Harry Ironside (1876۔1951)، اور جیسا کہ میں نے کہا، سپرجیئن نے غزل الغزلات میں سے 63 واعظوں کی منادی کی۔ لوئیس کے جزیروں Isle of Lewis میں حیاتِ نو آیا تھا جب ڈنکن کیمپ بیل Duncan Campbell نے غزل الغزلات میں سے منادی کی تھی۔

اب، پھر، ہم تلاوت پر آتے ہیں۔ دُلہن نے اپنے شوہر کے بارے میں کہا، ’’وہ سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘ پس، یسوع کے بارے میں سچے مسیحی مقدسین بھی یہی کہتے ہیں، ’’وہ سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘ جب میں نے اِس آیت پر منادی کرنے کے بارے میں غور کیا تو میں نے سوچا، جیسا سپرجیئن نے سوچا تھا، ’’یہ اعلیٰ پائے کی ہے، میں اِس پر پورا نہیں اُتروں گا۔‘‘ اِس طرح کی گہری تلاوتیں کبھی کبھار مجھے جذبات سے لبریز کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر میں اِس کے تمام معنوں کو سامنے نہیں لا سکتا تو کم از کم میں اُن میں سے کچھ کو تو آج کی صبح سامنے لانے کی کوشش کروں گا۔ زندگی بھر کے لیے دُنیا کے تمام جاہ و جلال کو دیکھنے کے مقابلے میں یسوع پر ایک مختصر سی نظر ڈالنا کہیں بہتر ہے، کیوںکہ تنہا یسوع ہی ’’سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘ آئیے چند لمحات کے لیے یسوع کے دو متقابل نظریات کو سامنے لانے دیں – دُنیا کے بارے میں اور سچے مسیحی کے بارے میں۔

I۔ پہلا نظریہ، گمراہ دُنیا بالکل بھی نہیں سوچتی کہ یسوع سراپا عشق انگیز ہے۔

کیا آپ نے غور کیا کہ دُنیا کیسے آج یسوع کو مٹاتی جا رہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ تو یہاں تک کہ اُس کا نام بھی سُننا گوارا نہیں کرتے۔ میں سُن چکا ہوں کہ ریاست ہائے متحدہ کی ہوائی فوج میں پادریوں کو یسوع کے نام سے دعا مانگنے کی مذید اور اجازت نہیں ہے۔ جب پادری صاحبان کو بلدیاتی تقریبات میں دعا کے لیے کہا جاتا ہے، تو اُنہیں خصوصی طور پر کہا جاتا ہے کہ دعا کا اختتام یسوع کے نام میں مت کیا کیجیے۔ یسوع کے نام کے بارے میں یہ ناپسندیدگی کوئی نئی نہیں ہے، بلکہ یہ ہر سال اور زیادہ شدید ہوتی جاتی ہے۔ بہت پہلے ماضی میں متحرک فلموں کے ابتدائی زمانے میں، جب کبھی بھی مسیحیوں کی دعا کرتے ہوئے عکاسی کی جاتی تھی، تو سٹوڈیوز میں امیر تاجر اُن کے ’’یسوع کے نام میں آمین‘‘ کے کہنے کو فلم میں سے کٹوا دیا کرتے تھے۔ میرا خیال ہے اُن امیر تاجروں نے نہیں سوچا کہ ہم غور نہیں کریں گے جب وہ یسوع کے نام کو مٹاتے تھے۔ لیکن چونکہ ہم ہمیشہ اپنی دعاؤں کو ’’یسوع کے نام میں‘‘ ہی سے ختم کرتے تھے، اِس لیے ہم نے غور کیا، اور اِس سبب سے ہمیں یہ احساس ہوا کہ وہ لوگ کس قدر یسوع سے نفرت کرتے تھے۔

نجات دہندہ کے بارے میں اُن کی نفرت اور زیادہ نمایاں ہوئی جب اُنہوں نے اُس گُستاخانہ فلم، ’’مسیح کی آخری آزمائش‘‘ کو رفتہ رفتہ عام کیا، جس میں نجات دہندہ کی جنس کے دیوانے ایک احمق کی حیثیت سے عکاسی کی گئی تھی۔ ہمارے پادری صاحب ڈاکٹر ہائیمرز اپنی بیٹھک میں اپنی کرسی پر بیٹھے تھے اور اُس فلم کے بارے میں سوچا جب اُنہوں نے پڑھا کہ وہ سینما گھروں میں چلنے والی تھی۔ اور خُداوند نے اُن سے کہا، ’’کیا تم اُنہیں ایسا کرنے پر بچ کے جانے دو گے؟‘‘ ڈاکٹر ہائیمرز نے کہا، ’’اے باپ، میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ اور خُداوند نے کہا، ’’اگر تم نہیں کرو گے تو کوئی بھی نہیں کرے گا۔‘‘ اور اِس طرح سے ہم گئے اور ہم نے یسوع کا دفاع کیا۔ اُنہوں نے شام کی خبروں کے ہر چینل پر ہمارے مظاہرے کو دکھایا۔ اُنہوں نے اِس کو نیو یارک ٹائمز اور وال سٹریٹ جریدے کے صفحۂ اوّل پر چھاپا۔ اُنہوں نے اُسے نائٹ لائن پر چھاپا، ٹونائٹ شو پر چلایا، کراس فائر پر چلایا، اور یہاں تک کہ ٹی۔ وی۔ گائیڈ میں ہمارے مظاہرے کے بارے میں کہانی اور ایک تصویر بھی چھاپی! اِس کی بین الاقوامی خبر انگلستان، فرانس، اٹلی، یونان، آسٹریلیا اور اسرائیل میں چھاپی گئی، جہاں سے ایک دوست نے کال کر کے ڈاکٹر ہائیمرز کو بتایا کہ یہ خبر یروشلم پوسٹ کے صفحہ اوّل پر چھپی تھی۔ ’’ہالی ووڈ محاصرے کے تحت Hollywood Under Siege‘‘ نامی ایک کتاب ہے جس کے مصنف تھامس آر۔ لِنڈلوف Thomas R. Lindlof (2008، کینٹکی کی یونیورسٹی پریس) ہیں۔ سرِ ورق پر میرے والد ڈاکٹر کیگن کی ہمارے گرجا گھر کے تقریبا 125 لوگوں کے ساتھ اُس غلیظ، گُستاخانہ فلم کے احتجاجی پوسٹر اُٹھائے ہوئے ایک رنگین تصویر چھپی ہے۔ سب سے اہم پوسٹر، تقریباً تیس فٹ لمبا تھا اُس پر لکھا تھا، ’’وازرمین – یسوع کا پیچھا چھوڑ دو!‘‘ لیو وازرمین وہ شخص تھا جس نے اُس فلم پر پیسہ لگایا تھا۔ اُس کتاب میں ڈاکٹر ہائیمرز کا حوالہ تیرہ مختلف مواقعوں پر کیا گیا۔ وہ ناصرف یسوع سے نفرت کرتے تھے، بلکہ وہ ڈاکٹر ہائیمرز اور میرے والد، اور ہمارے گرجا گھر سے بھی نفرت کرتے تھے صرف اِس لیے کیونکہ ہم نے نجات دہندہ کا دفاع کرنے کی جرأت کی تھی! وہ کتاب ’’ہالی ووڈ محاصرے کے تحت Hollywood Under Siege‘‘ کہلاتی ہے۔ اِس کے بارے میں سوچیں، 125 کمزور یا چھوٹے بپٹسٹ لوگوں نے تمام کے تمام ہالی ووڈ کو ’’محاصرے میں‘‘ کر دیا! وہ بہت بڑے بڑے اور قوی امیر تاجر ایک اندرون شہر کے گرجا گھر سے چند ایک درجن بھر کمزور یا چھوٹے بپٹسٹ لوگوں کے ’’محاصرے میں‘‘ آ گئے تھے! لیکن ڈاکٹر ہائیمرز جانتے ہیں کس قدر ہالی ووڈ والے، اور بیورلی ھلز کے اُمراء ، نیویارک اور واشنگٹن کے امیر تاجر خُداوند یسوع مسیح سے نفرت کرتے ہیں۔ بِل ماحر سے لیکر جارج کلونی تک، اینڈرسن کوپر سے لیکر وولف بِلٹزر تک – وہ خدا کے بیٹے کی تحقیر کرتے ہیں اور اُسے مسترد کرتے ہیں۔ اور میرا نہیں خیال کہ یہ ختم ہو جائے گا جب تک کہ گرجا گھروں کے خلاف کُھلم کُھلا ایذا رسانیاں نہیں ہو جاتیں، اور میں یقین کرتا ہوں کہ آپ یہ اپنی زندگی ہی میں دیکھیں گے۔

سب سے بدترین، آج ہمارے بے شمار گرجا گھروں میں یسوع کو پچھلے چُولہوں پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ اُس کو یہاں تک کہ اُس کے دوستوں کے گھر میں بھی خوش آمدید نہیں کہا جاتا! ڈاکٹر مائیکل ھارٹن Dr. Michael Horton اُس بارے میں اپنی قوت سے بھرپور اور چُبھ جانے والی کتاب مسیح کے بغیر مسیحیت Christless Christianity (بیکر کُتب، 2008) میں تحریر کر چکے ہیں۔ اُس کی جلد پر لکھا ہے، ’’ھارٹن بحث کرتے ہیں کہ جبکہ ہم ابھی تک مسیح کے بغیر مسیحیت تک نہیں پہنچے ہیں، ہم بخوبی اُسی راہ پر ہیں۔ بے شک ہم مسیح کے نام سے مدد مانگتے ہیں، اکثر اوقات مسیح اور مسیح کو مرکز ماننے والی خوشخبری کو ایک طرف دھکیل دیتے ہیں۔‘‘ لیکن ہمیں حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ آج یسوع کے ساتھ اِس قدر بُرا سلوک کیا جاتا ہے۔ بائبل کہتی ہے،

’’اُس میں نہ کوئی حُسن تھا نہ جلال کہ ہم اُس پر نظر ڈالتے، نہ اُس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی خوبی تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے۔ لوگوں نے اُسے حقیر جانا اور رد کر دیا؛ وہ ایک غمگین انسان تھا جو رنج سے آشنا تھا: اور اُس شخص کی مانند تھا جسے دیکھ کر لوگ مُنہ موڑ لیتے ہیں؛ وہ حقیر سمجھا گیا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی‘‘ (اشعیا53:2۔3)۔

اُس ہی طرح سے فطرتی انسان، ایک غیرنجات یافتہ حالت میں، یسوع کو دیکھتا ہے۔ ’’اُس کی شکل و صورت میں کوئی ایسی خوبی نہ تھی کہ ہم اُس کے مشتاق ہوتے‘‘ اور اِس لیے اُنہوں نے اُسے ’’حقیر جانا اور رد کر دیا‘‘۔ اِس ہی طرح سے ڈاکٹر ہائیمرز کے ساتھ تھا۔ جب وہ ایک چھوٹے سے لڑکے تھے تو وہ تقریباً ہر روز ایک کاتھولک گرجا گھر میں بھٹکا کرتے تھے۔ ماضی میں 1940 کی دہائی میں وہ گرجا گھر کے دروازوں کو تمام وقت کُھلا رکھا کرتے تھے۔ اور وہ اندر چلے جاتے تھے کیونکہ وہاں پر خاموشی ہوتی تھی اور امن ہوتا تھا۔ اُس گرجا گھر میں ایک مکمل سائز کا، جیتا جاگتا سا یسوع کو مجسمہ تھا، وہ اپنی صلیب اُٹھائے ہوئے تھے، اُن کے چہرے پر سے خون بہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر ہائیمرز نے یسوع کو ایک المیاتی ہستی کے طور پر دیکھا، ایک شہید، جو ماسوائے اُس کے دشمنوں کی نفرت کے بغیر کسی وجہ کے مارا گیا۔ یسوع کے بارے میں وہ نظریہ اُن کے ساتھ اُن کے یسوع میں ایمان لا کر تبدیل ہونے سے چند ایک دِن پہلے 28 ستمبر، 1961، بیس سال کی عمر تک چلتا رہا تھا۔ اُس وقت تک ڈاکٹر ہائیمرز نے یسوع کے بارے میں سمجھ میں نہ آنے والی ایک ہولناک، المیاتی ہستی کی حیثیت سے سوچا تھا جس کو کیلوں سے صلیب پر جڑا گیا تھا اور جو مر گیا تھا، بغیر کسی مخصوص وجہ کے۔ لیکن جس دِن ڈاکٹر ہائیمرز مسیح میں ایمان لا کر تبدیل ہوئے تھے اُنہوں نے اُس یسوع کو زندگی میں پہلی مرتبہ ایک جیتے جاگتے، جی اُٹھے نجات دہندہ کی حیثیت سے دیکھا تھا جس نے موت پر فتح پائی تھی، اور آسمان میں خُدا کے داہنے ہاتھ پر زندہ تھا، جو اُنہیں اُن کے گناہوں سےنجات دلائے گا اور اُن کی زندگی کو بدل ڈالے گا۔ جب اُنہوں نے اُس صبح یسوع کو دیکھا، مسیح پہلی مرتبہ سراپا عشق انگیز ہو گیا تھا!

II۔ دوسرا نظریہ، سچے مسیحی دیکھتے ہیں کہ وہ یسوع سراپا عشق انگیز ہے۔

یسوع میٹھا ترین نام ہے جو میں جانتی ہوں،
   اور وہ اپنے نام ہی کے جیسا پیارا ہے،
اور یہی وجہ ہےکہ وہ کیوں مجھے اِتنا پیارا ہے؛
   اوہ، یسوع میٹھا ترین نام ہے جو میں جانتی ہوں۔
(’’یسوع میٹھا ترین نام ہے جو میں جانتی ہوںJesus is the Sweetest Name I Know شاعرہ لیلا لانگ Lela Long، 1924).

آپ کو شاید یہ اچانک ایسا لگے، جیسا کہ یہ ہمارے پادری صاحب کو لگا تھا۔ یا آپ آہستہ آہستہ دیکھ پائیں گے کس قدر سراپا عشق انگیز وہ یسوع ہے، جب تک آپ اُس کے سامنے گر نہیں جاتے اور اُس پر اپنے نجات دہندہ اور اپنے خُداوند ہونے کی حیثیت سے بھروسہ نہیں کر لیتے۔ جس لمحے ڈاکٹر ہائیمرز نے یسوع پر بھروسہ کیا وہ چارلس ویزلی کےساتھ گا پائے،

میری زنجیریں کھل گئی تھیں، میرا دِل آزاد تھا؛
   میں اُٹھا، آگے بڑھا،اور اُس کی پیروی کی۔
حیرت انگیز پیار! یہ کیسے ہو سکتا ہے
   وہ تو تھا، میرے خُداوند، جو میرے لیے مرے تھا۔
(’’اور یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ And Can It Be? ‘‘ شاعر چارلس ویزلی Charles Wesley، 1707۔1788).

درحقیقت، اُنہوں نے حمدوثنا کا وہ گیت اُسی صبح گایا تھا جب یسوع نے ڈاکٹر ہائیمرز کو نجات دلائی تھی!

بہت عرصے تک میری روح پڑی رہی۔
   شبِ قدرت اور گناہ میں کڑی بندھی ہوئی؛
تیری آنکھوں نے جی اُٹھنے کی شعاع پھیلائی،
   میں جاگا، قیدخانہ نور سے بھر گیا تھا؛
میری زنجیریں کھل گئی تھیں، میرا دِل آزاد تھا؛
   میں اُٹھا، آگے بڑھا،اور اُس کی پیروی کی۔
حیرت انگیز پیار! یہ کیسے ہو سکتا ہے
   وہ تو تھا، میرے خُداوند، جو میرے لیے مرے تھا؟

اُس لمحے ہمارے پادری صاحب میخائین اور سپرجیئن کے ساتھ پکار اُٹھے ہوتے، ’’وہ سراپا عشق انگیز ہے!‘‘ اُںہوں نے وہ پرانے جرمنی کا حمدوثنا والا گیت اپنے پھیپھڑوں کی پوری قوت کے ساتھ گا لیا ہوتا،

خوبصورت خداوند یسوع، تمام قدرت کا حکمران،
   او تو خداوند کا ہے اور آدمی کا بیٹا!
تجھ میں مَیں پھلوں گا، تیری ہی میں تعظیم کروں گا،
   تو ہی میری روح کا جلال، خوشی اور تاج ہے!

خوبصورت منّجی! قوموں کے خُداوند!
   خُدا کے بیٹے اور انسان کے بیٹے!
جلال اور تعظیم، ستائش اور احترام،
   اب اور ہمیشہ تک تیرا ہی ہو!
(’’خوبصورت خُداوند یسوع Fairest Lord Jesus،‘‘ 17 ویں صدی کا جرمن حمدوثنا کا گیت، مترجم جوزف اے. سیعز Joseph A. Seiss، 1823۔1904).

’’وہ سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘

یہ یسوع ہے،

’’مسیح اندیکھے خدا کی صورت ہے اور تمام مخلوقات سے پہلے موجود ہے۔ اُس کے وسیلہ سے خدا نے سب کچھ خلق کیا ہے چاہے وہ چیزیں آسمان کی ہوں یا زمین کی، دیکھی ہوں یا اندیکھی، تخت ہوں یا ریاستیں، حکومتیں ہوں یا اختیارات۔ اِن سب کو خدا نے مسیح کے ذریعہ اور اُسی کی خاطر پیدا کیا۔ وہ سب چیزوں میں سب سے پہلے ہے اور اُسی میں سب چیزیں قائم رہتی ہیں۔ کلیسیا اُس کا بدن ہے اور وہ اِس بدن کا سر ہے۔ وہی مبداء ہے اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں میں پہلوٹھا تاکہ سب باتوں میں پہلا درجہ اُسی کا ہو۔ کیونکہ خدا کو یہ پسند آیا کہ ساری معموری اُسی میں سکونت کرے۔ خدا کی مرضی یہ بھی تھی کہ مسیح کے خُون کے سبب سے جو صلیب پر بہا، صلح کر کے سب چیزوں کا اپنے ساتھ میل کر لے، چاہے وہ چیزیں آسمان کی ہوں، چاہے زمین کی۔ کسی وقت تُم خدا سے بہت دُور تھے اور اپنے بُرے چال چلن کے سبب سے اُس کے سخت دشمن تھے۔ لیکن اب اُس نے مسیح کی جسمانی مَوت کے وسیلہ سے تمہیں اپنا دوست بنا لیا ہے تاکہ وہ تمہیں پاک، بے عیب اور بے اِلزام بنا کر اپنے حضور میں پیش کرے‘‘ (کلسیوں 1:15۔22).

ھیلیلویاہ! وہ یسوع ہے! ’’جی ہاں، وہ سراپا عشق انگیز ہے!‘‘ ہم حقیر جاننے اور اُس کو مسترد کرنے سے رُخ موڑ کر اُس کے قدموں میں شکر گزاری کے ستائش کے ساتھ گرتے ہیں – کیونکہ وہ صلیب پر ہمیں نجات دلانے کے لیے قربان ہو گیا تھا، اور ہمیں زندگی بخشنے کے لیے مُردوں میں سے جی اُٹھا تھا! ھیلیلویاہ! ’’وہ سراپا عشق انگیز ہے!‘‘ ’’جی ہاں، وہ سراپا عشق انگیز ہے!‘‘

یسوع میٹھا ترین نام ہے جو میں جانتی ہوں،
   اور وہ اپنے نام ہی کے جیسا پیارا ہے،
اور یہی وجہ ہےکہ وہ کیوں مجھے اِتنا پیارا ہے؛
   اوہ، یسوع میٹھا ترین نام ہے جو میں جانتی ہوں۔

اُس بدکار عورت کے مانند آئیں جس نے ’’اُس کے قدموں کو چوما‘‘ تھا (لوقا7:38)۔ اور یسوع نے اُس سے کہا، ’’تیرے گناہ معاف ہوئے‘‘ (لوقا7:48)۔ ’’بیٹے کو چومو۔‘‘ بائبل ایسا کرنے کے لیے کہتی ہے! ’’بیٹے کو چومو… مبارک ہیں وہ سب جو اُس میں پناہ لیتے ہیں‘‘ (زبور2:12)۔ کیا آپ آج کی صبح خُدا کے بیٹے کو چومیں گے اور اُسی میں اپنا بھروسہ رکھیں گے؟ ’’خُدا کے بیٹے کو چومیں؟‘‘ آپ کہتے ہیں۔ جی ہاں! جی ہاں! ایمان کے وسیلے سے اُس کو چومیں اور اُس پر بھروسہ کریں، کیونکہ وہ سراپا عشق انگیز ہے! سپرجیئن نے کہا،

     آپ کو یسوع کے پاس آنے کے لیے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ’’وہ سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘ یہ یہ نہیں کہتی کہ وہ سراسر ہولناک ہے – یہ اُس کے بارے میں آپ کی غلط فہمی ہے؛ یہ نہیں کہتی کہ وہ کسی حد تک سراپا عشق انگیز ہے، اور کبھی کبھار گنہگار کی ایک مخصوص قسم کو قبول کرنے کے لیے رضامند ہوتا ہے؛ بلکہ ’’وہ سراپا عشق انگیز ہے،‘‘ اور اِسی لیے وہ ہمیشہ ہی غلیظ ترین [گنہگار] کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اُس کے نام کے بارے میں سوچیں۔ یہ یسوع، نجات دہندہ ہے۔ کیا یہ ایک خوبصورت نام نہی ہے؟ اُس کے کام کے بارے میں سوچیں۔ وہ اُس کو تلاش کرنے اور بچانے کے لیے آیا ہے جو کھو چکا ہے۔ یہ اُس کا پیشہ ہے۔ کیا یہ سراپا عشق انگیز نہیں ہے؟ اُس بارے میں سوچیں جو وہ کر چکا ہے۔ وہ اپنے خون کے ساتھ ہماری جانوں کو آزاد کرا چکا ہے۔ کیا یہ سراپا عشق انگیز نہیں ہے؟ وہ جو کر رہا ہے اُس کے بارے میں سوچیں۔ وہ خُدا کے تخت کے سامنے گنہگاروں کے لیے [دعائیں] مانگ رہا ہے… کیا یہ سراپا عشق انگیز نہیں ہے؟ [کسی طرح سے بھی آپ اُس پر نظر ڈالیں] یسوع اُن گنہگاروں کے لیے پُرکشش ہے جنہیں اُس کی ضرورت ہے۔ آئیں، پھر، آئیں اور خوش آمدید کہیں، آپ کو دور رکھنے کے لیے ایسا کچھ بھی نہیں ہے، آپ کو ہر ایک چیز آنے کے لیے [بُلا رہی] ہے۔ کاش یہ انتہائی سبت کا دِن جس میں مَیں نے مسیح کی منادی کی، اور اُس کو سربُلند کیا، وہی دِن ہو جس میں آپ اُس کی جانب کھینچے چلے آئیں، اُس کو دوبارہ کبھی بھی نہ چھوڑنے کے لیے، بلکہ ہمیشہ اور ہمیشہ کے لیے اُسی کا ہونے کے لیے۔ آمین۔ (سی۔ ایچ۔ سپرجیئن، سراپا عشق انگیز،‘‘ دی میٹروپولیٹن عبادت گاہ کی واعظ گاہ The Metropolitan Tabernacle Pulpit، پِلگِرم اشاعت خانے Pilgrim Publications، دوبارہ اشاعت 1977، جلد 17، صفحات 407۔408)۔

’’جی ہاں، وہ سراپا عشق انگیز ہے۔‘‘ اور وہ آپ کو اپنے پاس آنے کے لیے اور اُسی پر بھروسہ کرنے کے لیے بُلاتا ہے، اور تمام زمانوں اور تمام ابدیت کے لیے گناہ سے بچا لیے جائیں – کیونکہ وہ آپ سے ایسی ہی محبت کرتا ہے! کیونکہ وہ آپ سے ایسی ہی محبت کرتا ہے! کیونکہ وہ آپ سے ایسی ہی محبت کرتا ہے! اُس کے پاس آئیں – کیونکہ وہ آپ سے ایسی ہی محبت کرتا ہے! وہ آپ کو خود سے جُدا نہیں کرے گا – کیونکہ وہ آپ سے ایسی ہی محبت کرتا ہے!

اپنی غلامی، دُکھوں اور اندھیروں سے باہر،
   یسوع، میں آتا ہوں، یسوع، میں آتا ہوں؛
تیرے نور، شادمانی اور آزادی میں داخلے کے لیے،
   یسوع، میں تیرے پاس آنے کے لیے آتا ہوں؛
میری بیماری سے نکل کر، تیری تندرستی میں،
   میری چاہت سے نکل کر اور تیرے خزانوں میں،
میرے گناہ سے باہر اور خود تیری ذات میں،
   یسوع، میں تیرے پاس آنے کے لیے آتا ہوں۔

اب حمدوثنا کے اُس گیت کے ایک اور بند کو سُنیں،

قبر کے ہولناکی اور خوف سے نکل کر،
   یسوع، میں آتا ہوں، یسوع، میں آتاہوں؛
تیرے گھر کے نور اور خوشی میں آنے کے لیے،
   یسوع، میں تیرے پاس آنے کے لیے آتا ہوں۔
انجانے کھنڈرات کی گہرائیوں سے نکل کر،
   تیری محفوظ پناہ گاہ کی چھت تلے آنے کے لیے،
ہمیشہ کے لیے تیرے پُر جلال چہرے کو دیکھنے کے لیے،
   یسوع، میں تیرے پاس آنے کے لیے آتا ہوں۔
(’’یسوع، میں آتا ہوں Jesus, I Come‘‘ شاعر ولیم ٹی. سلیپر William T. Sleeper، 1819۔1904).

یسوع آپ سے محبت کرتا ہے۔ اِس ہی صبح یسوع کے پاس آئیں۔ اُس پر بھروسہ کریں۔ اُس اُس کو ’’سراپا عشق انگیز‘‘ پائیں گے۔ اُس کا خون آپ کے تمام گناہ کو دھو ڈالے گا۔ اگر آپ یسوع پر بھروسہ کرنے کے بارے میں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو جب ہم سب باقی لوگ اوپر دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے جائیں، تو آپ آئیں اور پہلی دو قطاروں میں تشریف رکھیں۔ آمین۔


اگر اس واعظ نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز آپ سے سُننا پسند کریں گے۔ جب ڈاکٹر ہائیمرز کو لکھیں تو اُنہیں بتائیں جس ملک سے آپ لکھ رہے ہیں ورنہ وہ آپ کی ای۔میل کا جواب نہیں دیں گے۔ اگر اِن واعظوں نے آپ کو برکت دی ہے تو ڈاکٹر ہائیمرز کو ایک ای میل بھیجیں اور اُنہیں بتائیں، لیکن ہمیشہ اُس مُلک کا نام شامل کریں جہاں سے آپ لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہائیمرز کا ای میل ہے rlhymersjr@sbcglobal.net (‏click here) ۔ آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انگریزی میں لکھیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہائیمرز کو بذریعہ خط لکھنا چاہتے ہیں تو اُن کا ایڈرس ہے P.O. Box 15308, Los Angeles, CA 90015.۔ آپ اُنہیں اِس نمبر (818)352-0452 پر ٹیلی فون بھی کر سکتے ہیں۔

(واعظ کا اختتام)
آپ انٹر نیٹ پر ہر ہفتے ڈاکٹر ہائیمرز کے واعظ www.sermonsfortheworld.com
یا پر پڑھ سکتے ہیں ۔ "مسودہ واعظ Sermon Manuscripts " پر کلک کیجیے۔

یہ مسوّدۂ واعظ حق اشاعت نہیں رکھتے ہیں۔ آپ اُنہیں ڈاکٹر ہائیمرز کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کر سکتے
ہیں۔ تاہم، ڈاکٹر ہائیمرز کے ہمارے گرجہ گھر سے ویڈیو پر دوسرے تمام واعظ اور ویڈیو پیغامات حق
اشاعت رکھتے ہیں اور صرف اجازت لے کر ہی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

واعظ سے پہلے تنہا گیت مسٹر بیجیمن کینکیڈ گریفتھ نے گایا تھا:
     ’’خوبصورت خُداوند یسوع Fairest Lord Jesus،‘‘ (جرمن زبان سے ترجمہ کیا گیا، مترجم جوزف اے. سیعز Joseph A. Seiss، 1823۔1904).

لُبِ لُباب

حقیر جانا گیا لیکن سراپا عشق انگیز!

DESPISED BUT LOVELY!

ایک واعظ جسے ڈاکٹر آر۔ ایل۔ ہائیمرز، جونیئرنے تحریر کیا
اور محترم جانب جان سیموئیل کیگن نے منادی کی
A sermon written by Dr. R. L. Hymers, Jr.
and preached by Rev. John Samuel Cagan

’’وہ سراپا عشق انگیز ہے‘‘ (غزل الغزلات 5:16)۔

I.    پہلا نظریہ، گمراہ دُنیا بالکل بھی نہیں سوچتی کہ یسوع سراپا عشق انگیز ہے،
اشعیا53:2۔3 ۔

II.   دوسرا نظریہ، سچے مسیحی دیکھتے ہیں کہ وہ یسوع سراپا عشق انگیز ہے،
کُلسیوں1:15۔22؛ لوقا7:38، 48؛ زبور2:12 .